Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 70

سورة ص

اِنۡ یُّوۡحٰۤی اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۰﴾

It has not been revealed to me except that I am a clear warner."

میری طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں تو صاف صاف آگاہ کر دینے والا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"Only this has been revealed to me, that I am a plain warner."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 یعنی میری ذمہ داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض و پیغام تمہیں بتادوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ يُّوْحٰٓى اِلَيَّ اِلَّآ اَنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٧٠ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠۔ ٧١) میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ اس وجہ سے آتی ہے کہ میں صاف عربی زبان میں ڈرانے والا پیغمبر ہوں اب اللہ تعالیٰ فرشتوں کی اس گفتگو کا ذکر کرتے ہیں اور آپ کو حکم دیتے ہیں کہ اسے آپ ان لوگوں کے سامنے بیان کریں جبکہ آپ کے پروردگار نے فرمایا کہ میں آدم کو پیدا کرنے والا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ { اِنْ یُّوْحٰٓی اِلَیَّ اِلَّآ اَنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ} ” میری طرف تو بس یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں صرف واضح طور پر خبردار کردینے والا ہوں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:70) ان یوحی الی الا انما انا نذیر مبین : ان نافیہ ہے۔ یوحی مضارع مجہول واحد مذکر غائب ایحاء افعال مصدر سے۔ وحی مادہ۔ وحی کی جاتی ہے۔ الا حرف استثناء انما میں ان حرف مشبہ بالفعل ہے ما کافہ ہے حصر کے معنی دیتا ہے اور ان کو عمل سے روکتا ہے۔ بیشک ، تحقیق بجز اس کے نہیں۔ انا میں ضمیر واحد متکلم نذیر مبین موصوف و صفت۔ کھلا ڈرانے والا۔ انما انا نذیر مبین۔ یا تو یوحی کا نائب فاعل ہے یعنی نہیں آتی میرے پاس وحی مگر یہ کہ میں (تم کو اللہ کے عذاب سے کھلا ڈرانے والا ہوں۔ یا یہ فقرہ مفعول لہ ہے اور علت ہے وحی کے آنے کی۔ یعنی نہیں آتی میرے پاس وحیہ مگر اس سبب (یا وجہ) سے کہ میں (تم کو اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والا ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” مجھے تو محض اس لئے وحی کی جاتی ہے کہ میں کھلا ڈرانے والا پیغمبر ہوں اس کے سوا کچھ نہیں۔ آگے فرشتوں کا اختصام بیان فرمایا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ایک یہ بھی فرشتوں کے تکرار تھے جو بیان فرمایا۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(70) میری جانب جو وحی کی جاتی ہے وہ محض اس سبب سے کی جاتی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ یعنی میں اگر پیغمبر نہ ہوتا تو مجھے کیا خبر ہوتی کہ ملا اعلیٰ کے فرشتوں نے تخلیق آدم کے وقت کیا کہا اور اللہ تعالیٰ نے کیا جواب دیا اور وہ آپس میں کیا بحث و تکرار کررہے تھے یا بعض دوسرے مسائل ہیں ان میں کیا بحث ہوتی ہے اور کیا تکرار ہوتی ہے مجھے ان معاملات کی کیا خبر ہوتی لیکن وحی کے ذریعہ سے وہ باتیں مجھے معلوم ہوتی ہیں اور مجھ پر جو وحی آتی ہے وہ محض اس سبب سے آتی ہے کہ میں کھلا اور آشکارا ڈرانے والا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اعلیٰ فرشتے جوت دبیریں کرتے ہیں مجھ کو کیا خبر تھی کہ تم پاس بیان کرتا اللہ کی وحی سے کہتا ہوں اس مجلس میں جھگڑا نہیں مگر ہر کوئی اپنے کام کا تکرار کرتا ہے۔ خلاصہ : یہ کہ عالم بالا کے رہنے والے فرشتے امر کو نیہ کے متعلق جو تدبیریں کرتے ہیں وہ احکام تکونیہ کی تعمیل میں جو باہمی مذاکرات اور بحث و تکرار کیا کرتے ہیں اور میں تم کو وقتاً فوقتاً ان کی خبر بھی دیتا رہتا ہوں یہ سوائے وحی الٰہی کے کس طرح خبر دے سکتا ہوں۔ یہ آپس کی بحث اور گفتگو کو ۔ مختصمون فرمایا ورنہ کوئی جھگڑا جیسا کہ اہل نار میں ہوگا وہ جھگڑامراد نہیں۔ شاید اسی بنا پر آگے تخلیق آدم کا ذکر فرمایا کیونکہ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور ملائکہ کا جواب منقول ہے ترمذی شریف کی ایک طویل حدیث میں بھی فبم یختصم الملاء الاعلیٰ مذکور ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کن بیان دینا بھی مذکور ہے۔