Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 75

سورة ص

قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسۡتَکۡبَرۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ ﴿۷۵﴾

[ Allah ] said, "O Iblees, what prevented you from prostrating to that which I created with My hands? Were you arrogant [then], or were you [already] among the haughty?"

۔ ( اللہ تعالٰی نے ) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Allah) said: "O Iblis! What prevents you from prostrating yourself to one whom I have created with Both My Hands. Are you too proud or are you one of the high exalted!" قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 یہ بھی انسان کے شرف و عظمت کے اظہار کے لئے فرمایا، ورنہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤ : اللہ تعالیٰٰ نے بڑی صراحت سے فرمایا کہ آدم کے پتلے کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ اس سے کائنات کی تمام اشیاء پر آدم اور بنی آدم کا شرف اور فضیلت ثابت ہوئی۔ دوسرے اس سے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا رد ہوا۔ تیسرے ان لوگوں کا جو اللہ کے ہاتھ، آنکھیں اور پاؤں وغیرہ ہونے کے یکسر منکر ہیں۔ ان کی بنائے استدلال یہ ہے کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں کیسے ہوسکتے ہیں لامحالہ ایسی آیات اور ایسے الفاظ کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ جس کا جواب یہ ہے کہ اللہ اپنی صفات علم اور قدرت وغیرہ کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کی ذات عرش پر ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ خود اپنے ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں کا صراحت سے ذکر کرتا ہے تو دوسرا کون اس سے بڑھ کر اس کی تنزیہہ کرسکتا ہے۔ خواہ اس نے اپنے ہاتھ، پاؤں وغیرہ کا ذکر ہمارے سمجھانے کے لئے کیا ہو تاہم کیا تو ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کے ہاتھ، آنکھیں اور پاؤں کیسے ہیں۔ تو یہ بات ہم سمجھنے کے نہ مکلف ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں ہماری عافیت بس اس میں ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ فرمائے اسے جوں کا توں تسلیم کرلیں۔ [٧١] کیا تو اب بڑا بننا چاہتا ہے یا پہلے سے ہی یہ سمجھتا ہے کہ میں دوسروں سے کوئی برتر مخلوق ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ : اس آیت سے آدم (علیہ السلام) کا شرف اور ان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ میں نے اسے اپنے دو ہاتھوں سے بنایا۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کی تاویل کرتے ہیں، مگر جب خود اس نے اپنے ہاتھوں کا ذکر فرمایا ہے تو اس کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ تفصیل سورة مائدہ کی آیت (٦٤) میں اللہ تعالیٰ کے فرمان : (بل یدہ مبسوطتن) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ : ” اَسْتَكْبَرْتَ “ اصل میں ” أَ اِسْتَکْبَرْتَ “ تھا، ہمزہ استفہام آنے کے بعد ہمزہ وصلی کی ضرورت نہ رہی، اس لیے اسے حذف کردیا۔ تفصیل سورة حجر (٣٢ تا ٤٠) میں دیکھیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 75, it was said: لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ (what I created with My hands...): Here, it is about Sayyidna &Adam (علیہ السلام) that Allah Ta’ ala has said that it is He who had created him with His hands. There is a consensus among the majority of the Muslim Ummah that |"hands|" do not mean that Allah Ta’ ala has hands as human being do. The reason is that Allah Ta’ ala is absolutely pure and free from the need of body or its active limbs. Therefore, it means the power and control of Allah Ta’ ala and that the word: یَد (yad: hand) is commonly used in the Arabic language in the sense of power - for example, it was said: بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ (in whose hand lies the marriage tie - 2:237). Therefore, the verse means: &I created &Adam with My power.& For that matter, everything in this universe owes its creation to nothing but Divine power. But, when Allah Ta’ ala intends to manifest the particular sublimity of something, He would specially attribute it to Himself, for instance, by such attribution the Ka&bah becomes Baytullah, the House of Allah; the she-camel of Sayyidna Salih نَاقۃُ اللہ &nagatullah&, the She-Camel of Allah; and Sayyidna ` Isa & (علیہ السلام) - &kalimatullah,& &the Word of Allah& or &ruhullah,& &the Spirit of Allah.& Here too, this attribution has been introduced there to enhance the grace of Sayyidna &Adam (Qurtubi)l 1. This interpretation is based on the line adopted by some theologians. The others are of the view that the word &yad& (hand) used for Allah does not refer to a limb like the hand of human beings. It is rather an attribute of Allah Ta ala, the exact nature of which is unknown. The third view is of some other elders who abstain from indulging in the interpretation of such expressions and prefer to keep silent about them, and leave their exact meaning to Allah Ta ala. Muhammad Taqi Usmani.

(آیت) لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۔ یہاں حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے انہیں پیدا کیا۔ جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ” ہاتھوں “ سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی ہاتھ ہیں جیسے انسانوں کے ہوتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اعضاء وجوارح کی احتیاج سے منزہ ہے۔ لہٰذا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے، اور عربی زبان میں لفظ ” ید “ بکثرت قدرت کے معنی میں مستعمل ہے، مثلاً ارشاد ہے : (آیت) بیدہ عقدة النکاح۔ لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آدم کو اپنی قدرت سے پیدا کیا۔ اور یوں تو کائنات کی ساری چیزیں قدرت خداوندی ہی سے پیدا ہوئی ہیں، لیکن جب باری تعالیٰ کسی چیز کا خصوصی شرف ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اسے خاص طور سے اپنی طرف منسوب فرما دیتے ہیں۔ جیسے کعبہ کو بیت اللہ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ناقة اللہ، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمة اللہ یا روح اللہ کہا گیا ہے۔ یہاں بھی یہ نسبت حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے کی گئی ہے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ۝ ٠ۭ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ۝ ٧٥ بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ اے خبیث جس چیز کو میں نے اپنے (قدرت کے) ہاتھوں سے بنایا اس کو سجدہ کرنے سے تو غرور میں آگیا یا یہ کہ تو میرے حکم کی مخالفت کرنے والوں میں سے ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ { قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ } ” اللہ نے فرمایا : اے ابلیس ! تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کو سجدہ کرتا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے ؟ “ یہاں پر آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ کا اپنے دونوں ہاتھوں سے نسبت دینا بہت اہم اور قابل غور ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی قدرت کے استعارے کے طور پر اللہ کے ہاتھوں کا ذکر متعدد بار آیا ہے۔ جیسے سورة یٰـسٓ کی آیت ٧١ میں فرمایا گیا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں (اَیدِینَا) سے ان کے لیے چوپائے بنائے ہیں ‘ لیکن آیت زیر مطالعہ میں ” دونوں ہاتھوں “ کا ذکر خصوصی اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔ میرے نزدیک اس سے دو عالم یعنی عالم ِ خلق اور عالم امر مراد ہیں ‘ جنہیں اللہ تعالیٰ نے آدم یعنی انسان میں جمع کردیا ہے۔ سورة الاعراف کی آیت ٥٤ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : { اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط } یعنی خلق اور امر کے دونوں عالم اسی کے ہیں ‘ ان دونوں پر اسی کا تسلط اور اسی کی حکومت ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کی کچھ مخلوق تو ایسی ہے جس کا تعلق صرف عالم امر سے ہے۔ مثلاً فرشتے جو حیوانی جسم یا حیوانی خواہشات نہیں رکھتے اور نر یا مادہ کی تفریق سے بھی منزہ و مبرا ّہیں۔ دوسری طرف جنات اور تمام ارضی حیوانات ہیں جو عالم خلق کی مخلوق ہیں۔ ان میں ” روح “ نہیں پائی جاتی۔ اس لحاظ سے انسان گویا اللہ تعالیٰ کی واحد مخلوق ہے جس کا تعلق ان دونوں عالم سے ہے۔ اس کا حیوانی جسم مٹی سے بنا ہے ‘ اس لحاظ سے یہ ” عالم خلق “ کی چیز ہے ‘ جبکہ اس کے جسم میں پھونکی گئی روح ” عالم امر “ کی امانت ہے۔ جیسا کہ سورة الاحزاب کی اس آیت میں فرمایا گیا : { اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۔ ” یقینا ہم نے امانت کو پیش کیا آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر تو انہوں نے انکار کردیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے ‘ اور انسان نے اسے اٹھالیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا جاہل ہے “۔ (امانت کے اس تصور کی وضاحت اس آیت کے مطالعے کے دوران کی جا چکی ہے۔ ) چناچہ تخلیق ِآدم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کا ذکر گویا استعارہ ہے اس کی تخلیق میں عالم ِ خلق اور عالم امر کو جمع کرنے کا۔ انسان کو دونوں ہاتھوں سے بنانے کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو خصوصی اہتمام سے بنایا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس لحاظ سے یہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا نقطہ عروج (climax) ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔ { اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ } ” کیا تو نے تکبر کیا یا تو عالی مرتبہ لوگوں میں سے ہے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64 These words have been used to point out the honour, rank and glory bestowed on man by his Creator. In other words, Allah did not get man created through his angels but created him Himself because his creation was a highly noble task. Therefore, what is meant to be said is: "What has prevented you from prostrating yourself before him whom I have made directly Myself?" The words "both hands" probably are meant to refer to the fact that this new creation combines in itself two important aspects of Allah's power of creation: (1) That man has been given an animal body on account of which he belongs to the animal kingdom; and (2) that on account of the Spirit breathed into him, he has been characterised with qualities which place him in honour and merit above all earthly creations and creatures.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :64 یہ الفاظ تخلیق انسانی کے شرف پر دلالت کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں ۔ بادشاہ کا اپنے خدام سے کوئی کام کرانا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک معمولی کام تھا جو خدام سے کرا لیا گیا ۔ بخلاف اس کے بادشاہ کا کسی کام کو بنفس نفیس انجام دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایک افضل و اشرف کام تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جسے میں نے خود بلا واسطہ بنایا ہے اس کے آگے جھکنے سے تجھے کس چیز نے روکا ؟ دونوں ہاتھوں کے لفظ سے غالباً اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی شان تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف و افضل ہو گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:75) قال ای قال اللّٰہ تعالیٰ ۔ ما منعک ان تسجد : ما موصولہ ہے اور ان مصدریہ ای من السجود۔ لما خلقت بیدی۔ میں ما موصولہ ہے ای للذی خلقتہ۔ جسے میں نے پیدا کیا۔ بیدی (میرے دونوں ہاتھوں سے) میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے یعنی اپنی قدرت کاملہ سے بلا توسط ماں باپ کے۔ تثنیہ کا استعمال تاکید کے لئے۔ استکبرت۔ اصل میںء استکبرت تھا۔ ہمزہ استفہام انکاری کے آنے سے ہمزہ وصل ساقط ہوگیا۔ ای أتکبرت میں غیر استحقاق کیا بغیر استحقاق کے تو تکبر میں آگیا یعنی فی الواقع تو بڑا نہیں تھا لیکن اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا۔ اپنے آپ ہی بڑا بن رہا ہے۔ ام کنت من العالین : ام بمعنی۔ یا۔ عالین اسم فاعل جمع مذکر عالی واحد علو سے ۔ بلندمرتبے والے۔ یا واقعی تو اونچے درجے کا استحقاق رکھنے والوں میں سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تو جان بوجھ کر یہ جانتے ہوئے کہ تو ایسا نہیں ہے بڑا بن رہا ہے۔ یا فی الواقع تو سمجھ رہا ہے کہ تو اونچے درجے والوں میں سے ہے۔ دونوں صورتوں میں استفہام توبیخی و انکاری ہے یعنی سچ یہ ہے کہ تو کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی تو بڑا بننے کا استحقاق رکھتا ہے اور نہ ہی فی الواقع تو بڑا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی بلا واسطہ خود بنایا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے ” دونوں ہاتھوں “ کی تاویل بعض لوگوں نے قدرت سے کی ہے مگر صفات الٰہی میں تاویل جائز نہیں اور سلف (رح) کے مسلک کے خلاف ہے۔13 یعنی کیا اس مرتبہ کو پہنچ گیا ہے کہ میرا حکم نہ مانے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جس کے ایجاد کی طرف خاص عنایت ربانیہ متوجہ ہوئی، یہ تو اس کا شرف فی نفسہ ہے اور پھر اس کے سامنے سجہد کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی کا کام لوگوں کو برے انجام سے ڈرانا ہے جو لوگ برے انجام سے بےخوف ہوں گے ان کا انجام ابلیس جیسا ہوگا۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار اور مشرکین کو بار بار برے انجام سے متنبہ فرمایا مگر وہ لوگ دعوت قبول کرنے کی بجائے مخالفت میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے اس پر آدم (علیہ السلام) کے واقعہ کا وہ حصہ انہیں سنایا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں ملائکہ اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوئے اور شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل ٹھہرا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے لیکن ہر موقعہ پر جدا گانہ الفاظ اور استدلال پیش کیا گیا ہے۔ تخلیق آدم (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب اسے بنا کر میں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب نے اس کے سامنے سجدہ کرنا ہے۔ ابلیس کے سوا تمام ملائکہ نے سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے استفسار فرمایا کہ اے ابلیس ! جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس بات نے روکا ہے۔ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے ؟ ابلیس نے جواب دیا کہ میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ حکم ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندہ اور دھتکارہ ہوا ہے۔ تجھ پر قیامت تک میری لعنت برستی رہے گی۔ ابلیس نے عرض کی۔ اے میرے رب ! مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن لوگوں کو اٹھا یا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ تجھے قیامت تک مہلت دی جاتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ابلیس حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا ( علیہ السلام) کی طرح اپنے رب سے معافی کی درخواست کرتا لیکن اس نے معافی مانگنے کی بجائے اپنی غلطی پر اصرار کیا اور دلیل دی کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ کیوں کہ مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس پر بس نہیں کی بلکہ کہنے لگا کہ اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! میری کوشش ہوگی کہ تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر اور بھی ارشادات فرمائے جن میں ایک ارشاد یہ تھا کہ میرا فرمان سچ اور اٹل ہے جو ہمیشہ سچ ہوا کرتا ہے کہ میں تجھ سے اور تیرے ماننے والوں سے جہنم کو بھردوں گا۔ جہاں تک ابلیس کا یہ کہنا کہ آگ مٹی سے بہتر ہے۔ یہ اس کی غلط بیانی تھی۔ 1 آگ ہر چیز کو بھسم کردینے کے بعد خود بھی ختم ہوجاتی ہے۔ 2 مٹی صدیوں تک چیز کو محفوظ رکھتی ہے اور خود ختم نہیں ہوتی۔ 3 آگ کی تپش کی وجہ سے ہر جاندار اس سے دور بھاگتا ہے۔ 4 زمین میں اپنانیت ہے اور ہر جاندار اس پر قیام کرتا ہے اور اس کی ان گنت ضروریات زمین سے وابستہ ہیں۔ 5 آگ کی خاصیت تیزی اور تلخی ہے۔ 6 زمین میں ٹھہراؤ اور برداشت ہے۔ 7 آگ سے تپش کے سوا کوئی چیز نہیں نکلتی 8 زمین میں پانی ہے اور ہر چیز اس سے پیدا ہوتی ہے۔ علیٰ ھٰذا القیاس مٹی ہر اعتبار سے آگ سے بہتر ہے کیونکہ شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار اور تکبر کیا۔ تکبر اور غرور میں خیر کی بجائے شر ہوتا ہے۔ جس وجہ سے ابلیس ذات کبریا سے معافی مانگنے کی بجائے گستاخی پر گستاخی کرتے ہوئے آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی میں آگے ہی بڑھتا گیا جس وجہ سے قیامت اور قیامت کے بعد تک اس پر لعنتیں برستی رہیں گی۔ لعنت کا معنٰی اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ ) [ مشکوٰۃ : باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے تب تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔ “ مسائل ١۔ ابلیس نے تکبر کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٢۔ ابلیس نے ذات کبریا سے معافی مانگنے کی بجائے گستاخی پر گستاخی کی۔ ٣۔ ابلیس نے اپنے رب سے مہلت مانگی تو اسے قیامت تک مہلت دے دی گئی۔ ٤۔ ابلیس نے اقرار کیا کہ میں اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کرسکوں گا۔ ٥۔ قیامت کے دن ابلیس اور اس کے پیچھے چلنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن ابلیس کی آدم (علیہ السلام) سے دشمنی اور اس کی گستاخیاں : ١۔ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس اس سے انکاری ہوا۔ (بنی اسرائیل : ٦١) ٢۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا۔ (الحجر : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ ابلیس کہنے لگا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦١) ٤۔ ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٢) ٥۔ اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے علاوہ اس کی اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔ (بنی اسرائیل : ٦٢) ٦۔ شیطان نے کہا تو نے مجھے اس کی وجہ سے گمراہ کیا ہے میں بھی ان کے راستے میں بیٹھوں گا۔ (الاعراف : ١٦) ٧۔ میں اسے آگے پیچھے، دائیں بائیں سے گمراہ کروں گا۔ (الاعراف : ١٧) ٨۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن ہی سمجھو شیطان اور اس کا گروہ چاہتا ہے کہ تم جہنمی بن جاؤ۔ ( فاطر : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 75 میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ؟ اللہ تو سب مخلوقات کا خالق ہے۔ لہٰذا انسان کی تخلیق میں کوئی امتیازی بات ہے اس لیے یہاں اللہ نے اپنے دست قدرت کا ذکر کیا ۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے اس مخلوق پر مخصوص عنایات کی ہیں ، اس میں اپنی مخصوص روح پھونکی ہے اور اس پر بہت کچھ عنایات کی ہیں۔ تو نے میرے حکم کے مقابلے میں سرکشی کی ہے یا تو کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے ہے۔ (ام کنت من العالین (38: 75) یعنی ان لوگوں میں سے ہے جو میری بغاوت پر تلے ہوئے ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ابلیس سے فرمایا (اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ ) (کیا تو نے تکبر کیا یا یہ کہ تو بڑے درجے والوں میں سے ہے) یعنی کیا تو غرور میں آگیا اور واقع میں بڑا نہیں ہے یا کہ تو واقع میں ایسے بڑے درجہ والوں میں سے ہے جس کو سجدہ کا حکم کرنا زیبا نہیں۔ ابلیس نے کہا یہ شق ثانی ہی واقع ہے یعنی اس کو سجدہ کرنا میری شان کے لائق نہیں ہے (جس کی وجہ یہ ہے کہ) مجھے آپ نے آگ سے پیدا فرمایا ہے اور اسے کیچڑ سے پیدا فرمایا ہے۔ (لہٰذا میں اس سے بہتر ہوا اور مجھے یہ حکم دینا کہ اسے سجدہ کروں میری شان کے خلاف ہے) اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ تو یہاں سے نکل جا کیونکہ بلا شک تو مردود ہوگیا اور قیامت کے دن تک تجھ پر میری لعنت ہے اور جس پر قیامت کے دن تک لعنت رہے گی وہ اس کے بعد بھی ملعون ہی رہے گا کما قال اللّٰہ تعالیٰ شانہٗ (فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَھُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ) ابلیس کو تکبر کھا گیا۔ ملعون ہونا منظور کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے اور معافی مانگنے کے لیے نہ ہوا بلکہ اس نے لمبی عمر ہونے کی درخواست کردی اور یوں کہا کہ اے رب مجھے اس دن تک مہلت دیجیے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے (یعنی قبروں سے نکلیں گے) روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس سے نفخہ ثانیہ کا وقت مراد ہے مطلب ابلیس ملعون کا یہ تھا کہ مجھے لمبی زندگی دے دی جائے اور اتنی لمبی ہو کہ قیامت پر ہی ختم ہو۔ ١ ؂ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جا تجھے ایک وقت تک مہلت دی گئی اب تو اس نے اپنے نفس میں جو بات چھپا رکھی تھی وہ ظاہر کردی اور کہنے لگا کہ ١ ؂ وفی تفسیر القرطبی اراد الملعون ان لا یموت فلم یجب الی ذلک واخر الی الوقت المعلوم وھو یوم یموت الخلق فیہ فاخر الیہ تھاوناً بہ (ص ٢٢٩: ج ١٥) (تفسیر قرطبی میں ہے کہ شیطان کی خواہش تو یہ تھی کہ اسے موت ہی نہ آئے لیکن اس کی یہ خواہش قبول نہیں ہوئی اور اسے وقت معلوم یعنی تمام مخلوق کی موت کے دن (نفخہ ثانیہ) تک اسے مہلت دینے کے لیے اس کی موت مؤخر کی گئی۔ ) اے رب آپ کی عزت کی قسم میں ان لوگوں کو (جو اس نئی مخلوق کی نسل میں ہوں گے) سب کو بہکاؤں گا کفر پر اور آپ کی نافرمانیوں پر ڈالوں گا اور برے کاموں کو اچھا بتاؤں گا مگر جن لوگوں کو آپ نے اپنی اطاعت کے لیے چن لیا اور میرے بہکانے سے بچا دیا ان پر میرا بس نہ چلے گا۔ ابلیس چونکہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ملعون و مردود ہوا تھا اس لیے اس نے ان سے اور ان کی اولاد سے انتقام اور بدلہ لینے کا فیصلہ کیا حالانکہ حماقت اس کی تھی رب العلمین جل مجدہٗ کے حکم سے سرتابی کی ملعون ہونے کا کام خود کیا اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کیا اس کے حکم کو غلط بتایا اور ٹھان لی آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد سے بدلہ لینے کی چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ابتلاء اور امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے اس لیے ابلیس کو لمبی زندگی بھی دیدی اور بہکانے اور ورغلانے کی کوشش کرنے کا موقع بھی دے دیا اور انسانوں کو بتادیا کہ یہ اور اس کی ذریت تمہارے دشمن ہیں تم ان سے چوکنے رہنا، ان کے بہکاوے میں نہ آنا اور خیر اور شر کے دونوں راستے بتا دیے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے پھر ان کے خلفاء کے ذریعے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا جو شخص شیاطین کی باتوں میں آئے گا راہ حق چھوڑے گا وہ اپنی بربادی کا خود ذمہ دار بنے گا۔ ابلیس اور اس کے متبعین سے دوزخ کو بھر دیا جائے گا جب ابلیس نے کہا میں بنی آدم کو ورغلاؤں گا اور بہکاؤں گا اور راہ حق سے ہٹاؤں گا تو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ میں سچ ہی کہتا ہوں اور سچ ہی کہا کرتا ہوں (تو اپنی اور اپنے پیچھے چلنے والوں کی سزا ابھی سے سن لے) میں تجھ سے اور جو لوگ ان میں تیرا اتباع کریں گے ان سب سے دوزخ کو بھر دوں گا، یہ بات اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے بھی فرما دی اور جب آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو زمین پر بھیجا جانے لگا اس وقت ان کو خطاب کرکے صاف صاف بتادیا (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْن وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) (سو اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے سو جو شخص میری ہدایت کا اتباع کرے گا ان لوگوں کو کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ کفر اختیار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ فائدہ : ابلیس نے جو مہلت مانگی تھی اس میں یوں کہا تھا کہ مجھے اس دن تک مہلت دی جائے جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ تجھے وقت معلوم تک مہلت ہے، یہ وقت معلوم اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے جب تک ابلیس کی موت کا وقت مقرر نہ آجائے وہ زندہ رہے گا اور کفر پر مرے گا اور دوزخ میں جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ ” قَا یَا اِبْلِیْسُ الخ “ فرمایا۔ اے ابلیس ! جس آدم کو میں نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے تو نے اس کو سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ کیا تو نے اس سے بڑا بننے کی کوشش کی ہے یا تو واقعی اس سے فائق ہے اس لیے اس کو سجدہ نہیں کیا ؟ تکبرت من غیر استحقاق او کنت ممن علا واستحق التفوق (بیضاوی) ۔ ” قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ الخ “۔ ابلیس نے جواب دیا کہ میں واقعی آدم سے افضل ہوں کیونکہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے۔ اور ظاہر ہے کہ آگ مٹی سے افضل ہے۔ ” قَالَ فَاخْرُجْ الخ “ فرمایا۔ یہاں (جنت یا آسمان) نکل جا۔ تو رحمت و کرامت سے محروم کردیا گیا ہے۔ اور قیامت تک کیلئے لعنت و ملامت کا مورد قرار دے دیا گیا ہے۔ ” قَالَ رَبِّ الخ “ ابلیس نے عرض کی۔ بارے الٰہا ! قیامت تک مجھے مہلت دیدے اور مجھے طویل زندگی عطا فرما دے۔ فرمایا، قیامت تک نہیں بلکہ فنائے عالم یعنی نفخہ اولی تک تجھے مہلت ہے۔ کہنے لگا مجھے تیرے غلبہ و سلطان کی قسم میں بھی اس آدم کی اولاد کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا، البتہ تیرے مخلص بندے میری دسترس سے باہر ہوں گے۔ ” قَالَ فَالْحَقُّ الخ “ فالحق مبتدا ہے اور ” یَمِیْنِی “ اس کی خبر مقدر ہے۔ فرمایا میری قسم بھی سراپا حق ہے۔ اور میں حق ہی کہتا ہوں۔ ” لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ الخ “ یہ قسم مقدر کا جواب ہے۔ ای واللہ لاملئن۔ فالحق قسمی قسم ہے اور لَاَمْلَئَنَّ اس کا جواب ہے۔ اور ” وَالْحَقَّ اَقُوْلُ “ جملہ معترضہ ہے (روح، بیضاوی، قرطبی، جلالین) ۔ منک، من جنسک وھم الشیاطین ( وَ مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ ) من ذریۃ ادم (مدارک ج 4 ص 38) ۔ مجھے اپنی ذات کی قسم میں بھی جہنمی تیری ذریت اور اولادِ آدم میں سے تیری پیروی کرنے والوں ہی سے بھروں گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(75) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے ابلیس جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا اس کو سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا اور باز رکھا تو نے اپنے کو بڑا سمجھا اور غرور کیا یا تو واقعی بلند مرتبہ والوں میں سے ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں دو ہاتھوں سے یعنی بدن کو ظاہر کے ہاتھ سے اور روح کو غیب کے ہاتھ سے غیب کی چیزیں بناتا ہے ایک طرح کی قدرت سے اور ظاہر کی چیزیں ایک طرح کی قدرت سے اس انسان میں دونوں طرح قدرت خرچ کی۔ مطلب تو ہم سورة بقر میں عرض کرچکے ہیں یہاں اتنا سمجھ لیجئے کہ جس مخلوق کو ہم نے صفت جلال اور صفت جمال سے آراستہ کیا اور جس کو متضاد قوتیں عطا کیں تو اس کے سامنے سجدہ کرنے سے کھینچا آخر اس کی وجہ کیا ہے تو نے تکبر کیا اور اپنے کو بڑا سمجھایا واقعی تو بلند قدروں میں سے ہے۔