Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 8

سورة ص

ءَ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ مِنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡ ذِکۡرِیۡ ۚ بَلۡ لَّمَّا یَذُوۡقُوۡا عَذَابِ ؕ﴿۸﴾

Has the message been revealed to him out of [all of] us?" Rather, they are in doubt about My message. Rather, they have not yet tasted My punishment.

کیا ہم سب میں سے اسی پر کلام الٰہی نازل کیا گیا ہے؟ دراصل یہ لوگ میری وحی کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ ( صحیح یہ ہے کہ ) انہوں نے اب تک میرا عذاب چکھا ہی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ... Has the Reminder been sent down to him (alone) from among us? They thought it unlikely that he would be singled out from among them to receive the Qur'an. This is like the Ayat: لَوْلاَ نُزِّلَ هَـذَا الْقُرْءَانُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ And they say: "Why is not this Qur'an sent down to some great man of the two towns." (43:31) Allah said: أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيشَتَهُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَـتٍ Is it they who would portion out the mercy of your Lord It is We Who portion out between them their livelihood in this world, and We raised some of them above others in ranks. (43:32) When they said this, it indicated their ignorance and lack of understanding since they thought it was unlikely that the Qur'an would be revealed to the Messenger and not to somebody else. ... بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي ... Nay, but they are in doubt about My Reminder! ... بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ Nay, but they have not tasted (My) torment! means, they say this because they have not yet tasted the punishment and vengeance of Allah. But they will come to know the consequences of what they say and what they rejected on the Day when they are herded into the fire of Hell. Then Allah points out that He is the One Who is in control of His Creation and Who does whatever He wills, Who gives whatever He wants to whomever He wants, and honors whomever He wants and humiliates whomever He wants, and guides whomever He wants and misguides whomever He wants, and sends the Ruh (Jibril) by His command upon whomsoever He wants among His servants, and seals the hearts of whomever He wants, so no one can guide him apart from Allah. His servants do not possess any power and have no control over His dominion, not even a speck of dust's weight; they do not possess even a thin membrane over a date stone. Allah says, denouncing them: أَمْ عِندَهُمْ خَزَايِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی مکہ میں بڑے بڑے چودھری اور رئیس ہیں، اگر اللہ کسی کو نبی بنانا ہی چاہتا تو ان میں سے کسی کو بناتا۔ ان سب کو چھوڑ کر وحی رسالت کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب بھی عجیب ہے ؟ یہ گویا انہوں نے اللہ کے انتخاب میں کیڑے نکالے۔ سچ ہے خوئے بد را بہانہ بسیار۔ دوسرے مقام پر بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مثلاً سورة زخرف۔ 31، 32۔ 8۔ 2 یعنی ان کا انکار اس لئے نہیں ہے کہ انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا علم نہیں ہے یا آپ کی سلامت عقل سے انہیں انکار ہے بلکہ یہ اس وحی کے بارے میں ہی شک میں مبتلا ہیں جو آپ پر نازل ہوئی، جس میں سب سے نمایا توحید کی دعوت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] قریش کا قول کہ کیا نبوت کے لئے یہی شخص رہ گیا تھا ؟: دنیا دار لوگوں کے نزدیک کسی شخص کی عظمت کو ماپنے کا پیمانہ مال و دولت ہوتا ہے یا جاہ منصب۔ اسی خیال سے کفار مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر اللہ نے ہم میں سے کسی بشر کو ہی رسول بنانا تھا تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہی شخص رسالت کے لئے ملا تھا کیا سرداران قریش مرگئے تھے ؟ اگر بنانا ہی تھا تو مکہ اور طائف کے لوگوں میں سے کسی رئیس کو اپنا رسول بناتا۔ بالفاظ دیگر ان کا اصل اعتراض یہ تھا کہ اللہ میاں نے رسالت کا منصب سونپتے وقت ہم سے مشورہ کیوں نہیں لیا ؟۔ [٩] بات یوں نہیں بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ سرے سے آپ کی رسالت ہی کے منکر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرا کلام بھی ان کے نزدیک مشکوک ہوگیا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسالت سے پیشتر کفار مکہ آپ کی را ستبازی کے قائل تھے۔ اب جو آپ کی رسالت کے دعویٰ میں ان کی جانب سے آپ کی راستبازی پر بھی شک کیا جانے لگا ہے اور اس ہستی کو کذاب کہنے لگے ہیں جسے وہ ہمیشہ سے را ستباز سمجھتے آئے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں میرے ذکر، میرے کلام اور میرے پیغام میں شک ہے۔ [١٠] ان کے ایسے بیہودہ اعتراض کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک انہوں نے میری مار کا مزا نہیں چکھا۔ ایک دفعہ انہیں میری مار پڑگئی تو ان کے سب کس بل نکل جائیں گے اور آئندہ ایسی باتیں بنانے کا انہیں ہوش ہی نہ رہے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ءَاُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَيْنِنَا : یہ ہے وہ اصل بات جس سے ان کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت تسلیم نہ کرنے کی وجہ ظاہر ہو رہی ہے اور وہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد اور حسد کی وجہ سے عداوت کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سرداروں اور چودھریوں کو چھوڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بلند منصب کے لیے کیوں چنا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس حسد اور عداوت کا کئی جگہ ذکر فرمایا اور اس کا رد فرمایا، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَا جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ ۂاَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) [ الأنعام : ١٢٤ ] ” اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا، اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ۔ اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ) [ الزخرف : ٣١، ٣٢ ] ” اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟ کیا وہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ “ اسی حسد کا اظہار قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) پر کیا تھا : (ءَاُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْۢ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ۔ سَيَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ ) [ القمر : ٢٥، ٢٦ ] ” کیا یہ نصیحت ہمارے درمیان میں سے اسی پر نازل کی گئی ہے ؟ بلکہ وہ بہت جھوٹا ہے، متکبر ہے۔ عنقریب وہ کل جان لیں گے کہ بہت جھوٹا، متکبّر کون ہے ؟ “ بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِيْ : ” شَكٍّ “ سے مراد ذہن کی وہ کیفیت ہے جس میں آدمی دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو ترجیح نہ دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جملے میں ان کے دل کی حالت بیان فرمائی ہے کہ ان کے پاس میرے ذکر کو جھٹلانے کی کوئی معقول وجہ نہیں مگر وہ حسد کی وجہ سے اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے وہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ اگر حسد چھوڑ کر تھوڑا سا غور کریں تو انھیں یقین کی نعمت حاصل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) کی قوم کا حال خود ان کی زبانی یہی بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة ہود (٦٢) ۔ بَلْ لَّمَّا يَذُوْقُوْا عَذَابِ : ” لَمْ یَذُوْقُوْا “ انھوں نے نہیں چکھا اور ” لَّمَّا يَذُوْقُوْا “ انھوں نے ابھی تک نہیں چکھا۔ ” عَذَابِ “ اصل میں ” عَذَابِيْ “ (میرا عذاب) ہے۔ آیات کے فواصل کی موافقت کے لیے یاء حذف کرکے کسرہ باقی رہنے دیا ہے۔ یعنی ان کے ایسی باتیں کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ ان میں کوئی حقیقت ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ابھی تک میری مار نہیں چکھی۔ جب میری مار پڑی تو ان کے سب کَس بَل نکل جائیں گے اور انھیں ایسی باتیں کرنے کا ہوش نہیں رہے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ءَ اُنْزِلَ عَلَيْہِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَيْنِنَا۝ ٠ ۭ بَلْ ہُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِيْ۝ ٠ ۚ بَلْ لَّمَّا يَذُوْقُوْا عَذَابِ۝ ٨ۭ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے شكك الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما، والشَّكُّ : ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] ( ش ک ک ) الشک کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔ الشک : شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ہم سب میں سے اسی میں کوئی خصوصیت تھی کہ اسی کو نبوت ملی اور اسی پر کتاب نازل ہوئی ؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کفار مکہ خود ہی میری کتاب اور میرے نبی کی نبوت کے بارے میں شک میں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا اسی بنا پر جھٹلاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { ئَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْم بَیْنِنَا } ” کیا اسی پر نازل ہوا ہے یہ ذکر ہمارے درمیان ؟ “ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہے تو کیا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہی نازل ہونا تھا ‘ کیا اس کے لیے اللہ کو ہمارے بڑے بڑے سرداروں اور سرمایہ داروں سے کوئی ” اعلیٰ شخصیت “ نظر نہیں آئی ؟ { بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ ذِکْرِیْ } ” بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ میرے ذکر کے معاملے میں شک میں پڑگئے ہیں ۔ “ { بَلْ لَّمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ } ” بلکہ ابھی تک انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔ “ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تک انہوں نے میرے کسی عذاب کی مار نہیں چکھی ‘ اس لیے انہیں میرے اس کلام کے بارے میں شک ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 In other words Allah says: " Muhammad, these people are not belying you but Me. As for your truthfulness, they had never doubted it before; now that they are doubting it, it is because of My Admonition; now that I have entrusted to you the Mission of admonishing them, they have started doubting the truthfulness of the very person whose righteousness and piety they used to swear by " The same theme has also been discussed above in Al-An'am: 33 and E.N. 21 thereof.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :10 با الفاظ دیگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ لوگ دراصل تمہیں نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ مجھے جھٹلا رہے ہیں ۔ تمہاری صداقت پر تو پہلے کبھی انہوں نے شک نہیں کیا تھا ۔ آج یہ شک جو کیا جا رہا ہے یہ دراصل میرے ذکر کی وجہ سے ہے ۔ میں نے ان کو نصیحت کرنے کی خدمت جب تمہارے سپرد کی تو یہ اسی شخص کی صداقت میں شک کرنے لگے جس کی راستبازی کی پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے ۔ یہی مضمون سورہ انعام آیت 33 میں بھی گزر چکا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، ص 534 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ ١٥۔ قرآن شریف کے جھٹلانے کی باتوں میں مشرکین مکہ ایک یہ بات بھی کہتے تھے کہ قرآن شریف اگر کسی انسان پر نازل ہوتا تو ولید بن مغیرہ یا عمرو بن مسعود ایسے مال دار شخص پر نازل ہوتا۔ ان مال دار شخصوں کو چھوڑ کر محمد (رض) جیسے تنگ دست پر کلام الٰہی کا اترنا کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ جب تک ان لوگوں کی ایسی باتوں کی سزا کے طور پر کوئی آفت ان پر نہیں آتی۔ اس وقت تک یہ لوگ قرآن شریف کے کلام الٰہی ہونے میں ایسی ہی شک و شبہ کی باتیں کرتے رہیں گے۔ ہاں جب کوئی آفت آسمانی ان پر آجاوے تو ان کا یہ سب شک و شبہ جاتا رہے گا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی روایت گزر چکی ہے کہ بدر کی لڑائی میں جب مشرکین مکہ کے بڑے بڑے منکر قرآن مارے گئے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا۔ کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پا لیا۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ کہ مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سرکشوں کا شک و شبہ ایسا بےوقت رفع ہوا کہ اس سے ان لوگوں نے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی رحمت کے خزانے کچھ ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں کہ آسمان پر چڑھ کر یہ لوگ جس کو چاہیں نبوت دے دیں۔ جس طرح ان سے پہلے لوگ قوم نوح سے لے کر فرعون تک ایسی سرکشی کی باتوں کے وبال میں پکڑے گئے۔ ایک دن یہی حال ان کا ہونے والا ہے۔ اور پھر دوسرے صور کی آواز سے ان کو دوبارہ زندہ کیا جا کر ان کی بداعمالی کی پوری سزا ان کو دی جاوے۔ ما لھا من فراق اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح نفیری بجانے والے بیچ میں دم لے کر نفیری بجاتے ہیں۔ صور کے پھونکنے میں اتنی مہلت بھی نہ ہوگی۔ بلکہ ایک دم میں صور پھونک دیا جاوے گا۔ اور فوراً یہ منکرین حشر دوبارہ زندہ کئے جا کر حساب و کتاب کے لئے حاضر کردیئے جائیں گے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) کی حدیث بدر کی لڑائی کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ اس لڑائی میں بڑے بڑے سردار مشرکین مکہ کے جو مارے گئے ان کے نام پہلے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اور اللہ کے رسول نے صحابہ کو بتلا دیئے تھے اس روایت میں انس ٣ ؎ بن مالک قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے جتنے لوگوں کے نام اور جس جس جگہ پر ان کی لاشوں کا پڑا رہنا ایک رات پہلے سے فرمایا تھا۔ صبح کو لڑائی کے ختم ہوجانے کے بعد وہی حال ہم لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ ان آیتوں میں جو ذکر ہے کہ قوم لوح سے لے کر فرعون تک جتھے جس طرح برباد اور تباہ ہوچکے ان مشرکین مکہ کا جتھا بھی ایک دن اسی طرح برباد اور تباہ ہوجاوے گا حضرت عمر (رض) اور انس بن مالک کی یہ روایتیں۔ گویا اس کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ ان آیتوں کے وعدہ کے ظہور کا وقت جب آگیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایک رات پہلے اسے اپنے رسول کو اور اللہ کے رسول نے معجزہ کے طور پر صحابہ کو جتلا دیا اور صبح کو وہی حال صحابہ نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ متعبر سند کی عقبہ (رض) بن عامر ٤ ؎ کی حدیث ایک جگہ سے گزر چکی ہے کہ پہلے صور کی آواز سے لوگ ایسے جلی ہلاک ہوجاویں گے۔ کہ جس شخص کے ہاتھ میں نوالہ ہوگا۔ وہ منہ تک نہ جاسکے گا کہ وہ شخص ہلاک ہوجائے گا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے۔ کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس سے سب جسم تیار ہوجا ویں گے اور پھر دوسرے صور کی آواز سے ان جسموں میں روحیں پھونک دی جاویں گی۔ ان آیتوں میں صور کا جو ذکر ہے ان حدیثوں سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ہذا ص ٢٢) (٣ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی باب غزوہ بدر ص ١٠٢ ج ٢) (٤ ؎ الترغیب والترھیب فصل فی النفخ فی الصور الخ۔ ص ٧٢٧ ج ٤ صحیح البخاری ج ٢ ص ٩٦٣ باب بعد باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعثت نا والساعۃ کھاتین۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی باب مابین النفختین ص ٤٠٧ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:8) علیہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے۔ الذکر : ای القران۔ پندنامہ۔ نصیحت نامہ۔ ذکری۔ میری وحی۔ لما بمعنی لم ہے ای لم یذوقوا۔ عذاب : ای عذابی۔ (انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزہ چکھا ہی نہیں) آیت ہذا میں بل دو دفعہ استعمال ہوا ہے اور دونوں صورتوں میں بطور اضراب آیا ہے۔ بل ھم فی شک من ذکری میں اس بات سے اعراض ہے جو جملہ ما قبلء انزل علیہم الذکر من بیننا میں پائی جاتی ہے یعنی حسد۔ سرداران قریش حسدا یہ کہتے تھے کہ خدا نے اگر کوئی کلام نازل کرنا ہی تھا۔ تو سارے عرب اور مکہ و طائف میں اس نے آپ جناب کو کوئی منتخب کرلیا۔ جن کے پاس نہ مال و زر ہے نہ کوئی یارومدد گار ۔ ان میں سے ہی کسی سردار کو کیوں نہ چن لیا۔ چناچہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ وقالوا لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم (43:31) اور کہتے ہیں کیوں نہ اترا یہ قرآن کسی بڑے مرد ان دو بستیوں میں سے۔ بل کے استعمال سے پہلے امر کو برقرار رکھتے ہوئے مابعد کو اس پر اور زیادہ کردیا گیا ہے یعنی نہ صرف یہ حسد کے شکار ہیں بلکہ مزید برآں اس کلام کو منزل من اللہ ہونے پر بھی شک کرتے ہیں۔ دوسرے بل کو بھی اسی طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ بل لما یذوقوا عذاب یعنی حسد اور شک کو بحال رکھتے ہی نہیں۔ (جب وہ اس عذاب کا مزہ چکھیں گے تو حسد اور کینہ کے جذبات اور تمام شکوک و شبہت دور ہوجائیں گے۔ مگر بےسود۔ بعض علماء کے نزدیک بل دونوں جملوں میں ابتدائیہ ہے۔ اضراب و اعراض کے لئے نہیں پہلا جملہ کافروں کے کلام کا جواب ہے اور دوسرا جمہ پہلے جملہ کی تاکید ہے۔ ام عندھم ۔۔ الوھاب : یہ جملہ سابقہء انزل علیہ الذکر من بیننا۔ کے مقابلہ میں ہے یعنی یہ جو کہتے ہیں کہ ہم سب میں سے اس پر قرآن کیوں اتارا گیا ہے (تو یہ بتائیں) کیا ان لوگوں کے قبضہ میں آپ کے فیاض غالب کل پروردگار کی رحمت کے خزانے ہیں (کہ جس کو یہ چاہیں دیں اور جس کو نہ دینا چاہیں نہ دیں) ۔ یہاں ام منقطعہ مقدرہ بہ بل والہمزۃ الاستفہام آیا ہے ای بل أیملکون خزائن۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی ہم میں بڑے بڑے رئیس اور شریف موجود ہیں، اگر خدا کو اپنا کلام اتارنا ہی تھا تو ان میں سے کسی پر اتررتا۔10 یعنی قطع نظر اس سے کہ کون پیغمبر ہوتا اور کون نہ ہوتایہ تو سرے سے نبوت و رسالت کے ہی قائم نہیں ہیں۔11 ” اس لئے اکڑنوں دکھا رہے ہیں، اگر عذاب کا مزہ چکھ لیتے تو دماغ درست ہوجاتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی نفسی مسئلہ نبوت ہی کے منکر ہیں، خصوص بشر کے لئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 8 (١) یہ کوئی قابل تعجب بات تو نہ تھی مگر اکابرین قریش حسد میں مبتلا تھے۔ اس حسد کی وجہ سے وہ غرور دشمنی اور کنیہ پر اتر آتے تھے۔ ابن اسحاق نے محمد ابن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ ایک بار ابوسفیان ابن حرب ، ابوجہل ابن ہشام اور اجس ابن شریق ابن عمرو ابن وہب ثقفی حلیف بنی زہرہ رات کے وقت نکلے کہ قرآن سنیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت نماز میں قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ ان تینوں میں سے ہر شخص دوسرے سے بیخبر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ رات دیر تک یہ سنتے رہے۔ جب سپیدہ صبح نمودار ہوئی تو یہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔ راستے میں وہ اتفاقاً مل گئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو خوب ملامت کی۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا آئندہ یہ حرکت مت کرو ، اگر بعض نادانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ان کے دلوں میں بات بیٹھ کا ئے گی۔ یہ لوگ چلے جب دوسری رات ہوئی تو دوبارہ ہر شخص پھر آکر اپنی مقرر جگہ پر بیٹھ گیا۔ رات گئے تک سنتے رہے۔ جب فجر نمودار ہوئی تو یہ لوگ نکلے اور راستے میں پھر اکٹھے ہوگئے انہوں نے گزشتہ رات ایک دوسرے کو ملامت کی۔ اور چلے گئے۔ تیسری رات کو پھر ہر شخص آکر بیٹھ گیا۔ رات کو سنتے رہے۔ جب فجر ہوئی تو جانے لگے اور راستے میں پھر ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ اب انہوں نے کہا کہ جب تک ہم کوئی معاہدہ نہ کرلیں ، نہ جائیں گے۔ چناچہ انہوں نے باقاعدہ معاہدہ کیا اور پھر چلے گئے۔ صبح ہوئی تو انس ابن شریق نے اپنی عصا لی۔ یہ پہلے ابوسفیان کے پاس گیا۔ اس نے کہا ابوحظلہ تم نے محمد سے جو کچھ سنا بتاؤ۔ اس کے بارے میں کیا رائے ہے ۔ اس نے کہا میں نے بعض باتیں سنی جو میرے علم میں ہیں اور میں ان کا مطلب بھی سمجھتا ہوں اور بعض باتیں میں نے نہیں سنی اور نہ میں ان کا مطلب سمجھتا ہوں۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم میرا بھی یہی حال ہے۔ اس کے بعد یہ شخص ابوجہل کے پاس آیا۔ اس کے گھر میں اس سے ملا۔ اس سے کہا ابوالحکم ، محمد سے تم نے جو کچھ سنا ، اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا میں نے کیا سنا ؟ ہمارا اور بنو عبدمناف کے درمیان ہمیشہ مقابلہ رہا۔ انہوں نے کھانا کھلایا ، ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں ، ہم نے بھی سواریاں دیں۔ انہوں نے عطے دیئے ہم نے بھی عطے دیئے۔ جنگ میں بھی ہم نے مقابلہ کیا یہاں تک کہ ہم مقابلے کے گھوڑوں کی طرح ساتھ ساتھ رہے۔ اب وہ کہتے ہیں ہم میں نبی پیدا ہوگیا ہے۔ اس پر آسمانوں سے وحی آتی ہے ہم ان کے مقابلے میں نبی کہاں سے لائیں ؟ کبھی بھی ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے ، خدا کی قسم اور کبھی بھی اس کی تصدیق نہ کریں گے۔ انس اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ دیکھئے یہ کھلا کینہ ہے جس کی وجہ سے ابوجہل حق کا اعتراف نہیں کررہا ہے۔ حالانکہ جب مسلسل تین راتوں کو وہ کلام الہٰی سب رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ یہ برحق ہے۔ یہ حسد اور کینہ تھا جو اس کے ایمان کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا یہی ہے راز اس بات میں ہے۔ ء انزل علیہ الذکر من بیننا (38: 8) ” کیا ہمارے درمیان میں اس شخص پر کلام الہٰی نازل ہوا ، اور کوئی نہ تھا “۔ یہی لوگ تھے جو یہ کہتے تھے۔ لولآ۔۔۔ عظیم (43: 31) ” وہ قرآن ان دو بستیوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ ہوا “۔ ان دو بستیوں سے ان کی مراد مکہ اور طائف تھی۔ جہاں قریش کے اکابر حکمران تھے۔ جہاں ان لوگوں کی مذہبی سیادت و قیادت قائم تھی۔ نیز انہوں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ ایک نیا نبی آنے ہی والا ہے اور جب اللہ نے یہ منصب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کردیا تو یہ لوگ جل بھن گئے۔ اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ اللہ کی اس عظیم رحمت اور اس اونچے منصب کے مستحق وہ نہیں ہیں۔ کیا سارے جہاں سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اس کے مستحق ٹھہرے ؟ اللہ تعالیٰ بھی ان کو اسی انداز میں جواب دیتا ہے حقارت کے ساتھ ، جس کے اندر تہدید اور ڈراوے کے اشارات موجود ہیں۔ آیت نمبر 8 (2) ان کا سوال یہ تھا کہ ” کیا ہمارے درمیان سے نزول قرآن کے لیے صرف اس شخص کا انتخاب کیا جانا تھا ؟ “ جبکہ وہ خود قرآن کی سچائی ہی کے بارے میں مشکوک ہیں۔ ان کے دلوں کے اندر یہ یقین ہی نہیں ہے کہ یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے۔ وہ تو حقیقت وحی کے بارے میں سخت خلجان میں تھے لیکن اس کے باوجود یہ بھی وہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ قرآن ایک عام کلام کے مقابلے میں ایک بلند پایہ کلام ہے۔ اب قرآن کریم کے بارے میں ان کی بات سے روئے سخن پھرجاتا ہے۔ اور ان کے خلجان کو بھی ایک طرف چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور ان کو سخت عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے۔ بل لما یذوقوا عذاب (38:8) ” یہ ساری باتین اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔ یعنی اللہ نے اپنی مہربانی سے نجات دی ہوئی ہے لیکن جب ان کو عذاب نے آلیا تو پھر وہ ایسی باتیں نہ کریں گے۔ اس وقت ان کو حقیقت حال کا اچھی طرح علم ہوجائے گا۔ اب آخری تبصرہ یہ آتا ہے کہ یہ لوگ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہونے والے فضل وکرم کو ان کے استحقاق سے زیادہ سمجھتے ہیں تو سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کیا رحمت ربی کی تقسیم کے انچارج یہ ہیں اور ان کا اختیار ہے کہ کسی پر رحمت کریں کس پر نہ کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ء انزل الخ : یہ بھی ان کے بض وحسد اور عناد پر مبنی ہے۔ کیا ہم سب میں سے یہی اس لائق تھا کہ اس کو نبوت دی جاتی اور اس پر قرآن نازل کیا جاتا۔ ہم ایسے اشراف اور عظماء میں سے کوئی بھی اس مرتبے کے لائق نہ تھا ؟ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا انکار محض حسد اور عناد کی وجہ سے تھا۔ وامثال ھذہ المقالات الباطلۃ دلیل علی ان مناط تکذیبہ لیس الا الھسد و قصر النظر علی حطام الدنیا (روح ج 23 ص 168) ۔ 11: بل ھم الخ : یہ ماقبل مذکورہ امور سے اضراب ہے یعنی ان کی تکذیب کے اصل وجوہ وہ نہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔ وہ تو محض تکذیب کے لیے جھوٹے بہانے ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ اس قرآن ہی کے بارے میں شک میں سرگرداں ہیں جو دلائل توحید سے لبریز ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی اسے جادو کہتے ہیں اور کبھی شعر سے تعبیر کرتے ہیں (روح) ۔ بل لما یذوقوا عذاب : یہ دونوں سے اضراب ہے یعنی ان کو نہ حسد مانع ہے نہ شک، بلکہ ابھی تک انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔ جب عذاب کا مزہ چکھ لیں گے تو نہ حسد رہے گا نہ شک بلکہ پورا پورا یقین آجائے گا لیکن بےسود ای لما یذوقوا عذابی بعد فاذا ذاقوہ زال عنہم ما بہم من الحسد والشک حینئذ (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) کیا ہم سب میں سے اس شخص پر یہ کلام اور قرآن کریم نازل کیا گیا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ منکر میرے قرآن کریم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ابھی میررے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔ یعنی ان کو ہم پر کیا فوقیت تھی کہ ہم سب میں سے اس کو نزول قرآن کا مستحق سمجھایا گیا رئوسائے قریش میں سے کسی رئیس پر یہ قرآن کیوں نازل نہیں کیا گیا اس پر کیوں نازل کیا گیا۔ یہ محض حسد کی وجہ سے کہتے ہیں ورنہ واقعہ یہ ہے کہ میرے کلام کے بارے میں یہ شک اور دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ ان کو ابھی عذاب کا مزہ چکھنے کا موقعہ نہیں ملا جس دن عذاب دیکھیں گے اس دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کریں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پچھلا دین کہتے تھے اپنے باپ دادوں کو یعنی آگے تو سنتے ہیں کہ اگلے لوگ ایسی باتیں کہتے تھے پر ہمارے بزرگ تو یوں نہیں کہہ گئے۔