69 "With you" is not only addressed to Iblis but to the whole species of satans; that is, Iblis and his whole army of the satans who will be joining him in misleading mankind till Resurrection.
70 This whole story has been related in answer to this saying of the chiefs of the Quraish: "Was he the only (fit) person among us to whom Allah's Admonition should have been sent down?" Its first answer was the one given in vv. 9-10, saying: "Are you the owners of the treasures of the mercy of your Mighty and Bounteous Lord? And dces the kingdom of the heavens and the earth belongs to you, and is it for you to decide as to who should be appointed God's Prophet and who should not be appointed?" The second answer is: In this the chiefs of the Quraish have been told: °Your jealousy, your pride and arrogance against Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) arc similar to the jealousy and arrogance of Iblis against Adam (peace be upon him). Iblis also had refused to acknowledge the right of Allah to appoint anyone He pleased His vicegerent, and you also are refusing to acknowledge His right to appoint anyone He pleases as His Messenger: he disobeyed the Command to bow down before Adam, and you are disobeying the Command to follow Muhammad (upon whom be Allah's peace). Your resemblance with him does not end here, but your fate also will be the same as has been pre-ordained for him, i.e.. the curse of God in the world and the fire of Hell in the Hereafter. "
Besides, in connection with this story, two other things also have been stressed: (1) Whoever is disobeying Allah in this world, is in fact, falling a prey to Iblis, his eternal enemy, who has resolved to mislead and misguide mankind since the beginning of creation; and (2) the one who disobeys Allah on account of arrogance and persists in His disobedience is under His wrath: such a one has no forgiveness from Him.
سورة صٓ حاشیہ نمبر :69
تجھ سے کا خطاب صرف شخص ابلیس ہی کی طرف نہیں ہے بلکہ پوری جنس شیاطین کی طرف ہے ، یعنی ابلیس اور اس کا وہ پورا گروہ شیاطین جو اس کے ساتھ مل کر نوع انسانی کو گمراہ کرنے میں لگا رہے گا ۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :70
یہ پورا قصہ سرداران قریش کے اس قول کے جواب میں سنایا گیا ہے کہ أَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا ، کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر ذکر نازل کیا گیا ؟ اس کا ایک جواب تو وہ تھا جو آیات نمبر 9 اور 10 میں دیا گیا تھا کہ کیا خدا کی رحمت کے خزانوں کے تم مالک ہو ، اور کیا آسمان و زمین کی بادشاہی تمہاری ہے اور یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ خدا کا نبی کسے بنایا جائے اور کسے نہ بنایا جائے؟ دوسرا جواب یہ ہے ، اور اس میں سرداران قریش کو بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تمہارا حسد اور اپنی بڑائی کا گھمنڈ ، آدم علیہ السلام کے مقابلے میں ابلیس کے حسد اور گھمنڈ سے ملتا جلتا ہے ۔ ابلیس نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس حق کو ماننے سے انکار کیا تھا کہ جسے وہ چاہے اپنا خلیفہ بنائے ، اور تم بھی اس کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ جسے وہ چاہے اپنا رسول بنائے ۔ اس نے آدم کے آگے جھکنے کا حکم نہ مانا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا حکم نہیں مان رہے ہو ۔ اس کے ساتھ تمہاری یہ مشابہت بس اس حد پر ختم نہ ہو جائے گی ، بلکہ تمہارا انجام بھی پھر وہی ہو گا جو اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے ، یعنی دنیا میں خدا کی لعنت ، اور آخرت میں جہنم کی آگ ۔
اس کے ساتھ اس قصے کے ضمن میں دو باتیں اور بھی سمجھائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو انسان بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے وہ دراصل اپنے اس ازلی دشمن ، ابلیس کے پھندے میں پھنس رہا ہے جس نے آغاز آفرینش سے نوع انسانی کو اغوا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انتہائی مبغوض ہے جو تکبر کی بنا پر اس کی نافرمانی کرے اور پھر اپنی اس نافرمانی کی روش پر اصرار کیے چلا جائے ۔ ایسے بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے ۔