Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 9

سورة ص

اَمۡ عِنۡدَہُمۡ خَزَآئِنُ رَحۡمَۃِ رَبِّکَ الۡعَزِیۡزِ الۡوَہَّابِ ۚ﴿۹﴾

Or do they have the depositories of the mercy of your Lord, the Exalted in Might, the Bestower?

یا کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or have they the treasures of the mercy of your Lord, the Almighty, the Real Bestower? meaning, the Almighty Whose might cannot be overcome, the Bestower Who gives whatever He wills to whomsoever He wills. This Ayah is like the Ayah: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذاً لاَّ يُوْتُونَ النَّاسَ نَقِيراً أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَأ ءَاتَـهُمُ ال... لَّهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ ءَاتَيْنَأ ءَالَ إِبْرَهِيمَ الْكِتَـبَ وَالْحِكْمَةَ وَءَاتَيْنَـهُمْ مُّلْكاً عَظِيماً فَمِنْهُمْ مَّنْ ءَامَنَ بِهِ وَمِنْهُمْ مَّن صَدَّ عَنْهُ وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيراً Or have they a share in the dominion? Then in that case they would not give mankind even a speck on the back of a date stone. Or do they envy men for what Allah has given them of His bounty? Then, We had already given the family of Ibrahim the Book and Al-Hikmah, and conferred upon them a great kingdom. Of them were (some) who believed in him, and of them were (some) who averted their faces from him; and enough is Hell for burning (them). (4:53-55) قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَايِنَ رَحْمَةِ رَبِّى إِذًا لامْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الاِنفَاقِ وَكَانَ الانْسَـنُ قَتُورًا Say: "If you possessed the treasure of the mercy of my Lord (wealth), then you would surely hold back for fear of (being exhausted), and man is ever miserly!" (17:100) This is after Allah tells us the story of how the disbeliever denied the sending of a human Messenger, as He tells us that the people of Salih, peace be upon him, said: أَءُلْقِىَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِن بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ سَيَعْلَمُونَ غَداً مَّنِ الْكَذَّابُ الاٌّشِرُ "Is it that the Reminder is sent to him alone from among us? Nay, he is an insolent liar!" Tomorrow they will come to know who is the liar, the insolent one! (54:25-26) أَمْ لَهُم مُّلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَلْيَرْتَقُوا فِي الاَْسْبَابِ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 کہ جس کو چاہیں دیں اور جس چاہیں نہ دیں، انہی خزانوں میں نبوت بھی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رب کے خزانوں کا مالک وہی وہاب ہے جو بہت دینے والا ہے، تو پھر انہیں نبوت محمدی سے انکار کیوں ہے ؟ جسے اس نوازنے والے رب نے اپنی رحمت خاص سے نوازا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] جواب : کیا یہ اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں : اللہ کی رحمت کے خزانوں کے یہ تو مالک نہیں کہ جس کو چاہیں اسے رسالت کے منصب پر فائز کردیں۔ اور جس سے چاہیں چھین لیں۔ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جو ہر ایک کو دے رہا ہے اور جونسی نعمت جسے چاہتا ہے اسے ہی دیتا ہے۔ اس کے کاموں میں کسی...  کو مداخلت کی ہمت نہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ : یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ ہم میں سے اسی پر یہ ذکر کیوں نازل کیا گیا۔ فرمایا، کیا تیرے عزیز و وّہاب رب کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں کہ جس کو جو نعمت چاہیں دیں، جسے چاہیں نہ دیں اور جسے یہ چاہیں اسے نبوت کا بلند منصب عطا کریں ؟ نہیں، ہرگز نہیں ! بلک... ہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے خزانوں کا اکیلا خود مالک ہے، اپنی رسالت کے لیے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے۔ اب اگر اس نے اپنی نعمت رسالت کے لیے آپ کو چنا ہے تو یہ حسد کیوں کرتے ہیں ؟ اس اعتراض کا یہی جواب سورة انعام (١٢٤) اور زخرف (٣١، ٣٢) میں دیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے پہلی آیت کے پہلے فائدے میں گزر چکا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَحْمَۃِ رَبِّكَ الْعَزِيْزِ الْوَہَّابِ۝ ٩ۚ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ... ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) وَهَّابِ بمعنی: أنه يعطي كلًّا علی استحقاقه،  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ان کفار کے قبضہ میں نبوت و کتابیں ہیں کہ جس کو یہ چاہیں سو دیں۔ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جو ایمان نہ لائے اس کو پکڑنے میں غالب ہے اور زبردست فیاض ہے کہ محمد کو کتاب و نبوت عطا کی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَہَّابِ } ” کیا ان کے اختیار میں ہیں آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ؟ جو بہت زبردست ‘ بہت عطا کرنے والا ہے۔ “ کیا اللہ کی رحمت کے خزانوں کا اختیار ان لوگوں کے پاس ہے ؟ کیا اللہ ان لوگوں سے پوچھنے کا مکلف تھا کہ میں نبوت اور رسالت کے منص... ب پر کسے فائز کروں ؟   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:9) خزائن رحمۃ ربک ترکیب اضافی ہے۔ تیرے رب کی رحمت کے خزانے۔ رب کی اضافت واحد مذکر حاضر۔ (حضرت رسول کریم کی طرف) شرف و لطف الٰہی کی مظہر ہے۔ العزیز۔ زبردست ، غالب، قوی۔ عزۃ سے فعیل کے وزن پر بمعنی فاعل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الوھاب ۔ وھب وھبۃ مصدر۔ باب فتح سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بہت عطا کرنے والا۔ د... ونوں ربک کی صفت ہیں۔ رحمۃ ربک تعالیٰ ویتصرفون فیہا حسبما یشاء ون۔ (بلکہ کیا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے ان کی ملکیت ہیں کہ جیسے چاہیں تصرف میں لاویں) ۔ یہاں اضراب کے ساتھ استفہام انکاری بھی شامل ہے۔ اس کی مثال قرآن مجید میں اور جگہ ہے :۔ ام لہ البنات ولکم النبون ۔ (52:39) ای بل الہ البنات ولکم البنون۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 کہ جس کو جو نعمت چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کے خزانوں کا خود مالک ہے تو وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے۔ اب اگر اس نے اپنی نعمت و رسالت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرفراز فرمایا ہے تو یہ کیوں حسد کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی نبوت ایک امر عظیم ہے، اس کے عطا کے لئے معطی کا مالک الخزائن اور شدید الغلبہ اور کثیر المواہب ہونا لازم ہے۔ سو اس طرح اگر یہ ان کے اختیار میں ہوتا تو ان کو اس کہنے کی گنجائش تھی کہ ہم نے بشر کو نبوت نہیں دی، پھر وہ نبی کیسے ہوگیا، یا ہم نے فلان بشر کو دی اور فلان کو نہیں دی، اس صورت میں یہ کہ... نا ان کا زیبا تھا۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 9 یہ ان کو سخت تنبیہہ ہے کہ ان کی یہ باتیں بارگاہ عزت میں صریح گستاخی ہیں ۔ یہ ان معاملات میں ٹانگ اڑا رہے ہیں جن میں مداخلت کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ کسی پر فضل کرتا ہے یا کسی سے اپنے فضل کو روکتا ہے۔ وہ غالب ہے ، قدرتوں والا ہے کوئی شخص اس کے ارادے کے سامنے ... بطور رکاوٹ کھڑا نہیں رہ سکتا ۔ وہ داتا ہے ، سخی ہے اور اس کی راد وہش کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ لوگ اس بات پر چیں بجبیں ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول بنادیئے گئے ہیں۔ کیا اللہ کی کرم نوازیوں کی تقسیم ان کے ہاتھ میں ہے ؟ کیا اللہ کے خزانے ان کے چارج میں ہیں ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَمْ عِنْدَھُمْ خَزَآءِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَھَّابِ ) (کیا ان کے پاس آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ہیں جو بہت عزت والا ہے بہت عطا فرمانے والا ہے) یعنی یہ لوگ جو یوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں چھوڑ کر اس شخص کو کیوں پیغمبری ملی اور اس پر قرآن کیوں نازل ہوا انہیں یہ بات کہنے اور اعتراض کرنے کا کو... ئی حق نہیں اللہ تعالیٰ شانہٗ عزیز ہے وہاب ہے وہ اپنی رحمت سے جس کسی کو جو چاہے عطا فرما دے نبوت اور رسالت بھی اس کا ایک عطیہ ہے اس نے اپنی حکمت کے مطابق جیسے چاہا نبوت اور رسالت سے سرفراز فرمایا، ان لوگوں کو نہ کوئی اختیار ہے نہ پروردگار عالم جل مجدہٗ کے خزانوں کے مالک ہیں انہیں یہ بات کہنے کا کیا اختیار ہے کہ آپ کو نبوت کیوں نہ ملی ؟  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12: ام عندھم الخ : یہ مشرکین کے قولء انزل علیہ الذکر الخ کا جواب ہے یہ لوگ ایسے بلند بانگ دعوے کرتے اور اپنے سے بڑا کسی کو نہیں سمجھتے کیا اللہ کی رحمت کے خزانے ان کے قبضہ میں ہیں اور کیا اللہ کی رحمت کی تقسیم ان کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے مستحق سمجھیں اسے نبوت عطا کریں۔ استفہام انکاری ہے یعنی ایسا ... نہیں ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) کیا اے پیغمبر آپ کا پروردگا جو کمال قوت اور کمال عطا کا مالک ہے اس کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہ جو کہتے تھے کہ ہم پر کیوں نے اترا۔ خلاصہ : یہ ہے کہ اس وہاب اور عزیز کی رحمت کے خزانے کیا ان کے پاس ہیں کہ یہ جس چاہیں نبوت دیں رحمت جس میں نبوت داخل ہے اس کے خزان... ے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ جس کو چاہے عطا کرے وہ خزانے ان کے اختیار میں ہوتے تو ان سے پوچھ کر تقسیم کئے جاتے۔ رحمت کا لفظ قرآن میں عام طور سے روحانی ترقی اور برتری کے لئے استعمال ہوتا ہے جس طرح فضل کا لفظ دنیاوی ترقی اور مال کے اضافہ کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی لئے ہم نے عرض کیا کہ رحمت میں نبوت داخل ہے جو روحانی ترقی کی انتہائی چیز ہے اگرچہ کہیں کہیں اس کا عکس بھی ہوتا ہے لیکن عام طور سے رحمت کا استعمال روحانیات میں اور فضل کا استعمال بہتایت مال میں ہوتا ہے (کما قال انشاہ ولی اللہ الدہلوی) ۔  Show more