Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 15

سورة الزمر

فَاعۡبُدُوۡا مَا شِئۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡخٰسِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَہۡلِیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اَلَا ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۵﴾

So worship what you will besides Him." Say, "Indeed, the losers are the ones who will lose themselves and their families on the Day of Resurrection. Unquestionably, that is the manifest loss."

تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرتے رہو کہہ دیجئے! کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے ، یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاعْبُدُوا مَا شِيْتُم مِّن دُونِهِ ... Say: "Allah Alone I worship by doing religious deeds sincerely for His sake only. So, worship what you like besides Him." This is also a threat, and a disowning of them. ... قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ ... Say: "The losers..." means, the greatest losers of all, ... الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ......  are those who will lose themselves and their families on the Day of Resurrection. means, they will be separated and will never meet again, whether their families have gone to Paradise and they have gone to Hell, or all of them have gone to Hell, they will never meet or feel happiness again. ... أَلاَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ Verily, that will be a manifest loss! means, this is the clearest and most obvious loss. Then He describes their state in the Fire:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] شرک سے خسارہ کے مختلف پہلو :۔ یہ صریح خسارہ اس لحاظ سے ہے کہ مشرکوں کے اگر کچھ نیک اعمال ہوئے بھی تو وہ شرک کی وجہ سے برباد ہوجائیں گے۔ اب ان کے صرف گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے۔ دوسرے ان کے بال بچوں کے گناہوں سے حصہ رسدی کے طور پر انہیں بھی گناہ ہوگا۔ تیسرے یہ کہ دنیا میں تو خسارہ کی اس طرح ... تلافی ہوسکتی ہے کہ بعد میں کسی وقت نفع ہوجائے۔ قیامت میں یہ صورت بھی ممکن نہ ہوگی گویا ہر طرف سے خسارہ ہی خسارہ انہیں گھیرے ہوئے ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس میں ایک تو شرک اور مشرکین سے علیحدگی اور براءت کا اعلان ہے کہ تم اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو، مجھ سے یہ توقع ہرگز نہ رکھو۔ سورة کافرون میں یہی مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ دوسرے اس میں مشرکین کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر میرے سمجھانے کے باوجود تم ان ج... ھوٹے معبودوں کی بندگی پر ڈٹے ہوئے ہو تو ڈٹے رہو، مگر سزا بھگتنے پر بھی تیار رہو۔ تمہارے انجام کی ذمہ داری مجھ پر نہیں۔ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْخٰسِرِيْنَ ۔۔ : میں الف لام کمال کے معنی کے لیے ہے، یعنی کامل اور اصل خسارے والے وہ ہیں۔ آدمی کو اپنی جان اور گھر والے سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ فرمایا، کہہ دے اصل خسارے والے لوگ وہ ہیں جنھوں نے شرک کرکے اور شرک کی تعلیم دے کر قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کا ایندھن بنایا، کیونکہ دنیا کے خسارے کا تو مداوا ہوسکتا ہے مگر قیامت کے دن کے خسارے کا کوئی مداوا نہیں۔ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ : مشرکین کی غباوت اور کند ذہنی کو مد نظر رکھ کر ایک دفعہ پھر صاف لفظوں میں ان کے واضح خسارے کا اظہار فرمایا، تاکہ کسی جملے ہی سے وہ توحید کی طرف پلٹ آئیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ۝ ٠ ۭ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝ ١٥ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإ... ن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو اللہ کو چھوڑ کر جس کو چاہو تم پوجو یہ کفار کے لیے اللہ کی جانب سے وعید ہے اس سے پہلے کہ رسول اکرم کو جہاد کا حکم دیا گیا تھا آپ ان سے یہ بھی فرما دیجیے کہ پورے خسارے میں وہ ہی لوگ ہیں جو دنیا کی بربادی کے ساتھ اپنی جانوں اور اپنے خدم و چشم اور منازل سے جنت میں نقصان میں رہے یاد رکھو سب سے بڑا واض... ح نقصان یہی ہے کہ دنیا و آخرت ہاتھوں سے جاتی رہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ } ” تو تم جس کو چاہو پوجو اس کے سوا ! “ { قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اصل میں خسارے میں رہنے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو اور...  اپنے اہل و عیال کو خسارے میں ڈالا قیامت کے دن۔ “ یہاں پر تو وہ حرام خوری کے ذریعے خود بھی مزے میں ہیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی عیش و عشرت کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن اس روش کو اپنا کر وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوئی بھلائی یا خیر خواہی نہیں کر رہے بلکہ حقیقت میں وہ خود کو اور ان کو جہنم کا ایندھن بنانے کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔ سورة التحریم ‘ آیت ٦ میں اہل ایمان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر حکم دیا گیا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا…} ” اے اہل ایمان ! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے…“ لیکن اس کے برعکس جو شخص خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ کا مستحق بنا لے اس سے بڑھ کر اور کون گھاٹے میں ہوگا ! { اَلَا ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ } ” آگاہ ہو جائو یہی تو کھلا خسارا ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 Bankruptcy is loss of a person's capital and failure of his business so that he is unable to pay his debts in full. This same metaphor Allah has used here for the disbelievers and polytheists, The sum total of whatever man has got in this world-his life, his intellect, body, powers, capabilities, means and opportunities-is in fact, the capital, which he invests in the business of the worldly li... fe. If a person invested this whole capital on the hypothesis that there is no God, or that there are many gods, whose servant he is, and that he is not accountable to anyone, or that someone else will rescue him on Judgment Day, it would mean that he made a losing bargain and lost all his capital. This is his first loss. His second loss is that in everything that he did, on the basis of the wrong hypothesis, he went on wronging himself and many other men, and the coming generations and many other creatures of Allah, throughout his life. Thus, he got into countless debts, but has no money with which he may fully pay his debts. Over and above this, he has not only himself incurred this loss, but has caused the same loss to his children and near and dear once and friends and fellow countrymen by his wrong education and training and wrong example. It is these three losses together which Allah has called khusran-i-mubin (utter bankruptcy) in this verse.  Show more

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :34 دیوالہ عُرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ ا پنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآ نہ ہو سکے ۔ یہی استعارہ کفار و مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے...  ۔ انسان کو زندگی ، عمر ، عقل ، جسم ، قوتیں اور قابلیتیں ، ذرائع اور مواقع ، جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں ، ان سب کا مجموعہ دراصل وہ سرمایہ ہے جسے وہ حیات دنیا کے کاروبار میں لگاتا ہے ۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے ۔ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں ، اور کسی کو مجھے حساب نہیں دینا ہے ، یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا مجھے آ کر بچالے گا ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبو دیا ۔ یہ ہے پہلا خسران ۔ دوسرا خسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آئندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سی مخلوق پر عمر بھر ظلم کرتا رہا ۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے ، مگر اس کے پلے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے ۔ اس پر مزید خسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز و اقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا ۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خسران مبین قرار دے رہا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کافروں کو کفر کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، کیونکہ اگلے ہی جملے میں صاف فرما دیا گیا ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے، اور پیچھے آیت نمبر 7 میں فرما دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر کو پسند نہیں فرماتا۔ لہذا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اس بات کی طاقت ضرور دی گئی ہے کہ تم اگر کفر اختیار کرنا چ... اہو تو کرسکو، تمہیں ایمان لانے پر زبردستی مجبور نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن اپنا سب کچھ ہار بیٹھو گے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:15) فاعبدوا ما شئتم من دونہ۔ بطور تہدید و قطع تعلقی آیا ہے۔ خسروا۔ ماضی جمع مذکر غائب خسر و خسار و خسران مصدر (باب سمع) بمعنی زیابن۔ نقصان ، ٹوٹا۔ سرمایہ میں گھاٹا۔ خسر فعل مقدم ہے لیکن آیت ہذا میں بطور فعل متعدی استعمال کیا گیا ہے کیونکہ انفسکم اور اہلیہم مفعول مذکور ہے۔ خسروا جنہوں نے اپنی...  جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو گھاٹے میں ڈالا۔ اپنے اہل کو گھاٹے میں ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے اس نے اپنے عزیز و اقارب دوستوں۔ ہم قوموں کو توحید سے دور رکھا۔ یوم القیامۃ۔ مضاف مضاف الیہ خسروا کا مفعول فیہ۔ قیامت کے روز۔ الا۔ حرف تنبیہ۔ یادرکھو۔ الخسران المبین۔ موصوف و صفت۔ صریح خسارہ۔ یہاں خسران کی شدت کو بیان کرنے کے لئے اول تو فقرہ کی ابتداء الا کلمہ تنبیہ سے کی گئی ہے پھر خسران کو معرفہ استعمال کرکے اس کی شدت کی مزید تاکید کی گئی ہے اور پھر اس پر مبین لا کر اس کے ہمہ جہت خسارہ ہونے کا اظہار کیا۔ پھر قیامت کے روز یہ گھاٹا اور بھی مہیب شکل اختیار کرے گا۔ کیونکہ یہ مستقل اور دوامی صورت میں ہوگا۔ دنیا کے گھاٹے کی طرح نہیں کہ جس کے تبدیل ہونے کا اور ختم ہونے کا امکان ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی اگر میرے سمجھانے کے باوجود تم ان جھوٹے معبودوں کی بندگی کرتے رہنے پر مصرہوتو کرتے رہو لیکن بھگتنے کے لئے بھی تیار رہو۔ تمہارے انجام کی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔13 یعنی دوزخ میں گریں گے۔14 جس سے بڑھ کر کوئی خسارہ نہیں اس لئے کہ وہ ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہ ہوگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 15 اور دوبارہ اعلان کیا جاتا ہے کہ دیکھو میں تو اپنی راہ پر چل رہا ہوں ، میں بندگی صرف اللہ کی کرتا ہوں ، نظام زندگی صرف اللہ کا اپناتا ہوں ، تم بھی جس راہ کو پسند کرو اور جس کی بندگی چاہو ، اختیار کرو لیکن لیکن تم اس عظیم دیوالیہ پن سے دوچار ہوگے۔ اتنا بڑا خسارہ ہوگا تمہیں جس سے بڑا اور ک... وئی خسارہ نہ ہوگا۔ تم اپنی جان کو جہنم تک پہنچادوگے۔ تمہیں اہل و عیال کا خسران ہوگا چاہے مومن ہو یا کافر۔ اگر اہل مومن ہوں تو وہ جنتوں کو چلے جائیں گے اور یہ جہنم میں ان سے بہرحال کم ہوں گے۔ اگر کافر ہوں تو جس طرح خود کو گنوایا اسی طرح ان کو بھی گنوایا۔ دونوں جہنم میں ہوں گے۔ ذٰلک ھو الخسران المبین (39: 15) ” یہی کھلا دیوالیہ ہے “۔ اور اس خسارے کا ایک منظر یہ ہے :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) پس اب تم اللہ تعالیٰ کی سوا جس کی چاہو پوجا کرتے پھرو آپ ان سے فرما دیجئے حقیقی نقصان، ٹوٹے اور ہار میں وہی رہے جو قیامت کے دن اپنی جانوں کو اور اپنے متعلقین کو نقصان میں گنوا بیٹھے آگاہ ہو یہ قیامت کے دن کا گھاٹا ہی تو صریح گھاٹا ہے۔ اپنی عبادت کے خالص ہونے کا اعلان کرنے کے بعد بطور تو بیخ اور...  تہدید کے فرمایا میں نے تو اپنا عقیدہ ظاہر کردیا اب تمہارا جو جی چاہے کرتے پھرو۔ البتہ یہ یاد رکھو کہ اصلی نقصان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو قیامت کے دن سب کچھ ہار بیٹھے اور اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں دے بیٹھے اور گنوا بیٹھے یہی نقصان تو صریح نقصان اور گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔  Show more