Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 17

سورة الزمر

وَ الَّذِیۡنَ اجۡتَنَبُوا الطَّاغُوۡتَ اَنۡ یَّعۡبُدُوۡہَا وَ اَنَابُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی ۚ فَبَشِّرۡ عِبَادِ ﴿ۙ۱۷﴾

But those who have avoided Taghut, lest they worship it, and turned back to Allah - for them are good tidings. So give good tidings to My servants

اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور ( ہمہ تن ) اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ رہے وہ خوشخبری کے مستحق ہیں ، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Good News for the Righteous Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, narrating from his father: وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا ... Those who avoid At-Taghut by not worshipping them, was revealed concerning Zayd bin `Amr bin Nufayl and Abu Dharr and Salman Al-Farisi, may Allah be pleased with them. The correct view is that it includes them and all others who avoided worshipping idols and turned to the worship of Ar-Rahman. These are the people for whom there is good news in this world and in the Hereafter. ... وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى ... and turn to Allah, for them are glad tidings; Then Allah says: ... فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ... so announce the good news to My servants -- those who listen to the Word and follow the best thereof, meaning, those who understand it and act in accordance with it. This is like the Words of Allah, may He be exalted, to Musa, peace be upon him, when He gave him the Tawrah: فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا Hold unto these with firmness, and enjoin your people to take the better therein, (7:145) ... أُوْلَيِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ...

مروی ہے کہ یہ آیت زید بن عمر بن نفیل ، ابو ذر اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ آیت جس طرح ان بزرگوں پر مشتمل ہے اسی طرح ہر اس شخص کو شامل کرتی ہے جس میں یہ پاک اوصاف ہوں یعنی بتوں سے بیزاری اور اللہ کی فرمانبرداری ۔ یہ ہیں جن کے لئے دونوں جہان میں خوشیاں ہیں ۔ بات سمجھ کر سن کر جب وہ اچھی ہو تو اس پر عمل کرنے والے مستحق مبارک باد ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تورات کے عطا فرمانے کے وقت فرمایا تھا اسے مضبوطی سے تھامو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ اس کی اچھائی کو مضبوط تھام لیں ۔ عقلمند اور نیک راہ لوگوں میں بھلی باتوں کے قبول کرنے کا صحیح مادہ ضرور ہوتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] طاغوت کا مفہوم :۔ طاغوت کا معنی عموماً بت یا شیطان کرلیا جاتا ہے۔ ان الفاظ سے اس لفظ کا پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ طاغوت سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے مقابلہ میں اطاعت یا عبادت کی جاتی ہو یا وہ خود اللہ کے مقابلہ میں اپنی اطاعت یا عبادت لوگوں سے کروانا پسند کرتا ہو، گویا طاغوت سے مراد دنیادار چودھری اور حکمران بھی ہوسکتے ہیں کوئی ادارہ یا پارلیمنٹ بھی ہوسکتی ہے۔ بت، شیطان اور جن بھی ہوسکتے ہیں اور ایسے پیر فقیر بھی ہوسکتے ہیں جو اللہ کے مقابلہ میں اپنی اطاعت کروانا پسند فرماتے ہیں اور شریعت پر طریقت کو ترجیح دیتے ہیں۔ [٢٧] یہ بشارت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو ہر قسم کے طاغوت کی اطاعت یا عبادت سے بچتے رہے اور تنگی ترشی میں بھی اللہ کی ہی اطاعت و عبادت کرتے رہے، اسی کی طرف رجوع کیا اور اسی پر توکل کیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ ۔ :” الطَّاغُوْتَ “ کی لغوی تشریح کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٢٥٦) ۔ استاذ محمد عبدہ لکھتے ہیں، اصل میں لفظ ” الطَّاغُوْتَ “ (بروزن فَعْلُوْتٌ لَا فَاعُوْلٌ أَصْلُہُ طَغْیُوْتٌ أَوْ طَغْوُوْتٌ) ” طُغْیَانٌ“ سے مشتق ہے، لہٰذا اس سے مراد شیطان بھی ہے اور بت بھی اور ہر وہ انسان بھی جو بندگی کی حد سے نکل کر اپنے آپ کو خدائی کے مقام پر رکھتا ہو۔ اس کی عبادت سے مراد محض اسے سجدہ کرنا نہیں بلکہ اسے مستقل بالذات آمر ومطاع سمجھتے ہوئے اس کے احکام کی بجاآوری بھی ہے۔ جوہری لکھتے ہیں : ” اَلطَّاغُوْتُ الْکَاھِنُ وَالشَّیْطَانُ وَ کُلُّ رَأْسٍ فِي الضَّلَالِ “ کہ اس سے مراد شیطان، کاہن اور ہر وہ چیز ہے جو گمراہی کا منبع بنے۔ امام راغب کہتے ہیں : ” ھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ کُلِّ مَعْبُوْدٍ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ “ کہ وہ ہر اس چیز سے عبارت ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے۔ (روح) (اشرف الحواشی) 3 معلوم ہوا توحید کے لیے صرف اللہ کی عبادت کافی نہیں، بلکہ طاغوت سے کنارا کشی بھی لازم ہے، اس لیے کلمہ توحید ” لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ “ میں پہلے تمام الٰہوں کی نفی ہے، پھر ایک اللہ کی عبادت کا اثبات ہے۔ لَهُمُ الْبُشْرٰى : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یونس کی آیت (٦٤) ۔ لَهُمُ الْبُشْرٰى: ” عباد “ اصل میں ” عِبَادِيْ “ ہے، آیات کے فواصل کی مناسبت کے لیے یاء کو حذف کر کے دال پر کسرہ باقی رکھا گیا ہے اور ترجمہ ” میرے بندوں کو “ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰى۝ ٠ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ۝ ١٧ۙ اجتناب ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه . الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔ طَّاغُوتُ والطَّاغُوتُ عبارةٌ عن کلِّ متعدٍّ ، وكلِّ معبود من دون الله، ويستعمل في الواحد والجمع . قال تعالی: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] ، وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] ، أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ، يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] ، فعبارة عن کلّ متعدّ ، ولما تقدّم سمّي السّاحر، والکاهن، والمارد من الجنّ ، والصارف عن طریق الخیر طاغوتا، ووزنه فيما قيل : فعلوت، نحو : جبروت وملکوت، وقیل : أصله : طَغَوُوتُ ، ولکن قلب لام الفعل نحو صاعقة وصاقعة، ثم قلب الواو ألفا لتحرّكه وانفتاح ما قبله . الطاغوت : سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہوا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے اسے طاغوت کہاجاتا ہے اور یہ واحد جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے ۔ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] اور جنہوں نے بتوں کی پوجا۔۔ اجتناب کیا ۔ أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ان کے دوست شیطان ہیں ۔ اور آیت کریمہ : يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں ۔ میں طاغوت سے حدود شکن مراد ہے اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کی بنا پر ساحر، کا ہن ، سرکش جن اور ہر وہ چیز طریق حق سے پھیرنے والی ہوا سے طاغوت کہاجاتا ہے بعض کے نزدیکی فعلوت کے وزن پر ہے جیسے جبروت ومنکوت اور بعض کے نزدیک اس کی اصل طاغوت ہے ۔ پھر صاعقۃ اور صاقعۃ کی طرح پہلے لام کلمہ میں قلب کیا گیا اور پھر واؤ کے متحرک اور ماقبل کے مفتوح ہونے کہ وجہ سے الف سے تبدیل کیا گیا ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو لوگ شیطان اور بتوں کی عبادت سے بچتے ہیں اور توبہ و ایمان اور تمام نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ مرنے کے وقت جنت کی خوشخبری یا جنت کے دروازہ پر اعزاز خداوندی کی خوشخبری سنائے جانے کے حق دار ہیں۔ لہٰذا آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ شان نزول : وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ (الخ) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان تین حضرات یعنی زید عمر بن نفیل، حضرت ابوذر غفاری اور حضرت سلمان فارسی کے بارے میں نازل ہوئی جو زمانہ جاہلیت میں اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ { وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْہَا } ” اور وہ لوگ جنہوں نے طاغوت سے کنارہ کشی کرلی (اس طرح) کہ اس کی بندگی نہ کی “ طاغوت کا لفظ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ سب سے پہلے ہم نے یہ لفظ سورة البقرۃ کی اس آیت میں پڑھا تھا : { فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق } (آیت ٢٥٧) ” تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ پر ایمان لائے تو اس نے بہت مضبوط حلقہ تھام لیا “۔ لفظ طاغوت کا مادہ ” طغی “ ہے اور اس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ اسی مادہ سے اردو لفظ ” طغیانی “ مشتق ہے۔ دریا اپنے کناروں کے اندر بہہ رہا ہو تو بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے لیکن جب وہ اپنی ” حدود “ سے باہر نکل آئے تو ہم کہتے ہیں کہ دریا میں طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح انسان اگر اللہ کی بندگی کی حد میں رہے تو وہ اللہ کا بندہ ہے ‘ اس کا خلیفہ ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن اگر بندگی کی حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ ” طاغوت “ ہے۔ پھر چاہے ان حدود کو پھلانگنے کے بعد وہ اپنے نفس کا بندہ بن جائے یا کسی اور کو اپنا مطاع بنا لے ‘ خود حاکم بن بیٹھے یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی حاکمیت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے ‘ اللہ کی نظر میں وہ طاغوت ہی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے کنارہ کشی کرلی اس سے کہ وہ طاغوت کی اطاعت یا بندگی کریں : { وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰیج فَبَشِّرْ عِبَادِ } ” اور انہوں نے رجوع کرلیا اللہ کی طرف ‘ ان کے لیے بشارت ہے ‘ تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجیے۔ “ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اب اگلی آیت بہت اہم ہے ‘ اس میں ان بندوں کی صفت بیان کی گئی ہے جنہیں بشارت دی جا رہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 Taghut is from tughyan and means rebellion. If someone is called taghut (rebellion) instead of taghi (rebel), it would mean that he is a rebel incarnate. For example, if a person is called husn (beauty) instead of hasin (beautiful), it would mean that he has reached perfection in beauty. The other deities than Allah have been called taghut because it is rebellion to worship others besides Allah, but the one who has others worship him, is a rebel of the worst kind. (For further explanation, see AI-Baqarah: 256, Al-Nisa: 60, 76, An-Naml: 36 and the E.N.'s thereof).

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :35 طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں ۔ کسی کو طاغی ( سرکش ) کہنے کے بجائے اگر طاغوت ( سرکشی ) کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے ۔ مثال کے طور پر کسی کو حسین کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خوبصورتی میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے ۔ معبودان غیر اللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے وہ کمال درجہ کا سرکش ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، صفحات 196 ۔ 197 ۔ 366 ۔ 367 ۔ 373 ۔ جلد دوم صفحہ 540 ) ۔ طاغوت کا لفظ یہاں طواغیت ، یعنی بہت سے طاغوتوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اسی لیے اَنْ یَّعْبُدُوْھَا فرمایا گیا ۔ اگر واحد مراد ہوتا تو یَعْبُدُوْہُ ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: ’’ طاغوت‘‘ شیطان کو بھی کہتے ہیں، اور ہر باطل چیز کو بھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ ١٨۔ اگرچہ تفسیر زید بن اسلم اور تفسیر ابن ١ ؎ ابی حاتم میں لکھا ہے کہ ابی ذر غفاری (١ ؎ بحوالہ تفسیر الدرالمنثورص ٣٢٤ ج ٥) اور سلیمان فارسی اور زید بن عمرو بن نفیل ان تین شخصوں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اس بات کو صحیح ٹھہرایا ہے ٢ ؎ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٨ ج ٤) زمانہ میں یا صحابہ کے یا حال کے زمانہ میں غرض کسی زمانہ میں جو کوئی بت پرستی سے بچا اور توحید اختیار کی اس طرح کے سب لوگوں کی شان میں یہ آیت صادق آتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خوشخبری کے قابل اور صاحب ہدایت اور صاحب عقل ان ہی لوگوں کو ٹھہرایا ہے جو دین کی بات کو سن کر اس کے موافق عمل بھی کرتے ہیں کیونکہ علم بغیر عمل کے آدمی کو کچھ مفید نہیں بلکہ اور وبال کا سبب ہے دارمی میں حضرت ابودرد ١ (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے کہ (٣ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف کتاب العلم الفصل الثالث ص ٣٧) اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت برا وہ شخص ہے جو دین کا کوئی مسئلہ جانے اور اس کے موافق عمل کرکے اپنے عمل سے کچھ نفع نہ اٹھاوے صحیح ٤ ؎ مسلم ترمذی اور نسائی میں زید بن (رض) ارقم (٤ ؎ صحیح مسلم باب فی الادیۃ ص ٣٥٠ ج ٢) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے جو عمل کا نفع نہ دیوے زید بن (رض) ارقم کی روایت سے ابو دردا (رض) کی اس روایت کو تقویت ہوجاتی ہے اچھے لوگوں کی خوشخبری کا ذکر جو اس آیت میں ہے حدیث شریف میں اس خوشخبری کے موقعہ بہت سے بیان فرمائے گئے مثلاً قبض روح کے وقت فرشتوں کا اچھے لوگوں کو جنت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خوشخبری کا دین جس کا ذکر ابن ماجہ ٥ ؎ اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ (رض) (٥ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب اثبات عذاب القبر) کی صحیح روایت سے آیا ہے یا منکر نکیر کے سوال و جواب اور قبروں سے اٹھنے کے وقت جس کا ذکر چند صحیح حدیثوں میں آیا ہے اور اس آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ وہ لوگ بات کو سن کر بہتر بات کی پیروی کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے مثلاً بدلہ لینا اور معاف کرنے کے دونوں حکموں میں سے معاف کرنے کے حکم کی پیروی کرنا کہ اس میں خدا کی خوشنودی زیادہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بڑی آروز تھی کہ قریش سب مسلمان ہوجاویں اس لئے قریش کی سرکشی کے سبب سے جب آپ کی اس آروز کے خلاف کوئی بات قریش کی جانب سے ظہور میں آتی تھی تو آپ کو اس کا بڑا رنج ہوتا تھا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر آپ کی یہ تسکین فرمائی کہ بعضے لوگ قریش میں ایسے ہیں کہ علم ازلی الٰہی میں وہ جہنمی قرار پا چکے ہیں ان لوگوں کے لئے یہ کوشش کہ وہ سب اسلام لاویں اور دوزخ کی آگ سے بچیں ‘ ایک بےفائدہ کوشش ہے وہاں جن لوگوں کی ہدایت علم ازلی میں ٹھہر چکی ہے وہ تمہاری تھوڑی سی کوشش میں خود راہ راست پر آ جاویں گے اور آخر کو اس کا ٹھکانا جھروکے والے باغوں میں ہوگا جن میں طرح طرح کی نہریں جاری ہوں گی یہ اللہ کا وعدہ ہے جو کبھی خلاف نہیں ہوسکتا ابوجہل اور اس طرح کے اور لوگ جو باوجود کوشش کے اسلام نہیں لاتے ان کے اسلام نہ لانے پر کچھ رنج نہیں کرنا چاہئے یہ لوگ علم الٰہی میں جہنمی قرار پا چکے ہیں صحیح ؎ ١(١ ؎ صحیح مسلم باب حجاج آدم و موسیٰ ص ٣٣٥ ج ٢) مسلم کی حضرت عبد اللہ (رض) بن عمرو بن العاص کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں نیک و بد ہونے والا تھا وہ سب اللہ تعالیٰ نے تو لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اس صورت میں ایک دفعہ تو حضرت آدم کے پیدا ہونے سے پہلے ہی دوزخی اور جہنمی لوگ الگ الگ ہوچکے ہیں پھر جب حضرت آدم پیدا ہوچکے تو اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو حضرت آدم کی پشت سے نکال کر یہ فرما دیا ہے کہ ان میں اس قدر لوگ جنتی ہیں اور اس قدر دوزخی جس کی تفصیل موطا ترمذی ٢ ؎ اور ابو دائود میں حضرت عمر کی صحیح روایت (٢ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ١١) سے آئی ہے اور حضرت ٣ ؎ علی (رض) کی صحیحین کی روایت میں ہے کہ ہر شخص کا ٹھکانا جنت ‘(٣ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٤) دوزخ جو کچھ ہے وہ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے صحابہ نے یہ حال سن کر کہا تھا کہ کیا حضرت ہم لوگ تقدیر پر بھروسہ کرکے عمل چھوڑ سکتے ہیں آپ نے فرمایا تم لوگ عمل کئے جائو جو شخص جس ٹھکانہ کے لئے پیدا ہوا ہے خودبخود وہ ویسا ہی عمل کرتا ہے۔ صحیح ٤ ؎ مسلم میں حضرت عائشہ (رض) (٤ ؎ صحیح مسلم باب معنی کل مولودیولد علی الفطرۃ الخ۔ ص ٣٣٧ ج ٢) کی حدیث ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اہل جنت اور اہل دوزخ الگ الگ کئے گئے ہیں اور ہر ایک مقام کے لئے ایک گروہ پیدا کیا گیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے پہل اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں وہ آرزو تھی جس کا ذکر اوپر گزرا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں اور اسی قسم کی بہت سی آیتوں سے اپنے علم غیب کا حال آپ کو سمجھا دیا۔ تو آپ نے بھی بہت سی حدیثوں کے ذریعہ سے وہ مطلب صحابہ کو سمجھا دیا تاکہ سلسلہ بسلسلہ یہ مطلب امت میں پھیل جاوے ان فی ذلک لذکرے لاولی الالباب اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں قدرت الٰہی کے منکر اور دوزخی قرار پا چکے ہیں۔ ان کا تو کچھ ذکر نہیں۔ مگر جو لوگ علم الٰہی میں اس قابل ٹھہرے ہیں کہ ان کو عقبیٰ کی بہبودی کی عقل ہے۔ وہ دین کی نصیحت کو سنتے اور سمجھتے ہیں اور ان کا اس بات پر یقین ہے کہ جو صاحب قدرت دنیا کی زمین میں طرح طرح کے چشمے جاری کردینے پر پورا قادر ہے۔ جنت کی زمین میں طرح طرح کی نہروں کا جاری کردینا بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ ان آیتوں میں جنت کی نہروں کے ذکر کے عبد مینہ کے برسانے اور اس سے چشموں کے جاری کردینے کا جو تذکرہ ہے اوپر کی تفسیر سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:17) اجتنبوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ اجتناب (افتعال) مصدر۔ انہوں نے پرہیز کیا۔ وہ بچے۔ الطاغوت : طغوت وطغیت و طغیان وطغوان کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں۔ طغیان کے معنی ہیں سرکشی میں حد سے تجاوز کرنا۔ مثلا اذ ھب الی فرعون انہ طغی (20:24) تو فرعون کے پاس جا وہ بیحد سرکش ہوچکا ہے۔ الطاغوت مصدر ہے (الملکوت کی طرح) اور شیطان یا شیاطین کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بعض نے اس کے معنی یہ لئے ہیں :۔ کاہن۔ ساحر۔ اصنام (بت) اور سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والا خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ ان یعبدوھا : ان مصدریہ ہے ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ علامہ بغوی (رح) نے طاغوت سے مراد بت لئے ہیں اور ان کے نزدیک ھا ضمیر کا مرجع طاغوت (بمعنی اصنام) ہے۔ اور جو لوگ طاغوت کی پرستش سے بچے رہتے ہیں۔ ھا ضمیر شیاطین کے لئے بھی ہوسکتی ہے۔ وانابوا الی اللّٰہ۔ واؤ عطف کیلئے ہے انابوا ماضی جمع مذکر غائب انابۃ (افعال) مصدر سے۔ وہ رجوع ہوئے۔ انبۃ الی اللّٰہ کے معنی اخلاص عمل اور دل سے اللہ کی طرف رجوع ہونے اور توبہ کرنے کے ہیں۔ منیب اللہ کی طرف رجوع ہونے والا۔ توبہ کرنے والا لہم البشری۔ ترکیب کلام سے حصر کے معنی پیدا ہوگئے ہیں ۔ یعنی بشارت ایسوں ہی کے حق میں ہے سب کے لئے نہیں ہے ای لہم ولا لغیرہم البشری میں ال حصر کی تاکید مزید کے لئے ہے۔ یہ بشارت دنیا میں پیغمبروں کی زبانی اور مرنے کے وقت ملائکہ کی زبانی ہے۔ فبشرعباد : ای فبشر عبادی۔ ف ترتیب کے لئے ہے بشارت کا حکم لہم البشری ہر مرتب ہوا ہے۔ بشر امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو خوشخبری سنا دے۔ عباد میرے بندے۔ یہاں فبشرھم بھی آسکتا تھا کیونکہ ضمیر کا مرجع پہلے ہی مذکور ہے لیکن صراحت کے ساتھ ان کی اضافت اپنی طرف ان کی عزت افزائی کے لئے ہے۔ بشارت کی تکرار بھی اسی پر دلالت کرتی ہے (اس صورت میں وقف فبشرعباد پر ہوگا)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اصل میں لفظ ” طاغوت “ ( بروزن فعلوت لا فاعول اصلہ طغیوت او طغو وت) طغیان سے مشتق ہے لہٰذا اس سے مراد شیطان بھی ہے اور بت بھی، کاہن اور پروہت بھی اور ہر وہ انسان بھی جو بندگی کی حد سے نکل کر اپنے آپ کو خدائی کے مقام پر رکھتا ہو۔ اس کی عبادت سے مراد محض اسے سجدہ کرنا نہیں بلکہ اسے مستقبل بالذات آمر ومطاع سمجھتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری بھی ہے۔ علامہ جوہری لکھتے ہیں۔ ( الطاغوت الکاھن والشیطان وکل راس فی الضلال) کہ اس سے مراد شیطان، کاہن اور ہر وہ چیز ہے جو گمراہی کا منبع بنے۔ امام راغب لکھتے ہیں ( ھو عبارۃ عن کل معبود من دون اللہ) کہ یہ ہر اس چیز سے عبارت ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے ساتھ طاغوت کا انکار کرنا بھی لازم ہے۔ قرآن مجید کا صرف اتنا حکم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ اس کا یہ بھی حکم ہے کہ طاغوت کی اطاعت کا قلباً قولاً اور عملاً انکار کیا جائے۔ اسی لیے کلمہ طیبہ میں پہلے معبودان باطل کی نفی ہے اور پھر اللہ کی ذات کا اثبات کیا گیا ہے۔ کیونکہ طاغوت انسان کو توحید کی روشنی سے نکال کر کفر و شرک کے اندھیروں میں لے جاتا ہے۔ جو چیز بھی انسان کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے دور کرے وہ طاغوت ہے۔ بیشک انسان کا اپنا نفس کیوں نہ ہو۔ جو لوگ طاغوت سے اجتناب کرتے ہیں اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف انابت رکھتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کا ارشاد ہے کہ یہ میرے بندے ہیں اس لیے انہیں خوشخبری کا پیغام دیا جائے ان کے رب کی رضا اور جنت ہے۔ طاغوت سے مراد سرکش، گمراہ کرنے والا، شیطان اور ہر باطل معبود ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کے بندے طاغوت سے کلیتاً اجتناب کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ کے بندے کا مل یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ ٣۔ طاغوت کا انکار کرنے اور اپنے رب کی یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے والوں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے۔ تفسیر بالقرآن طاغوت سے بچنے کا حکم : ١۔ طاغوت کے انکار کا حکم۔ (النساء : ٦٠) ٢۔ طاغوت کی عبادت سے بچنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ (الزمر : ١٧) ٣۔ کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (النساء : ٧٦) ٤۔ اہل کتاب میں سے بھی طاغوت کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ : ٦٠) ٥۔ طاغوت کا انکار کرنے والا مضبوط کڑے کو تھامتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٦) ٦۔ کفار طاغوت کے ساتھی ہیں۔ (البقرۃ : ٢٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 17 تا 18 طاغوت کا صیغہ طغیان سے ہے۔ جس طرح ملکوت عظموت اور رحموت کے صغے بنے ہیں اس کے مفہوم میں ضخامت اور مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس کا مروج مفہوم یہ ہے کہ جو سرکشی کرے اور حد سے تجاوز کرجائے وہ طاغوت ہے۔ اور جو لوگ طاغوت کی بندگی اور طاعت سے اجتناب کرتے ہیں وہ لوگ کون ہیں ؟ وہ کسی شکل میں بھی طاغوت کی بندگی نہ کریں۔ اور یہ وہی لوگ ہوں گے جو ہر چھوٹے بڑے کام میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہوں ، اس کی طرف لوٹنے والے ہوں اس کی طرف رجوع کرنے والے ہوں اور بندگی کے صحیح مقام پر کھڑے ہوں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے بشارت عالم بالا سے ہے اور رسول اللہ ؐ ان کو اس کی خوشخبری دے رہے ہیں۔ لھم البشرٰی فبشرعباد (39: 17) ” ان کے لیے خوشخبری ہے۔ (پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو “۔ ان کے لیے عالم بالا سے بشارت آئی اور رسول اللہ ؐ نے سنا دی تو اس سے بڑی تعمت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اللہ کے ایسے کی صفت یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ اللہ کی جو بات سنتے ہیں اسے غور سے سنتے ہیں۔ پھر اس بات کی وہ اطاعت کرتے ہیں کیونکہ وہ بہت ہی احسن ہوتی ہے اور دوسری باتوں کو وہ ترک کردیتے ہیں۔ لہٰذا وہ صرف اچھی بات ہی لیتے ہیں ۔ اس کے ذریعہ اپنے اذہان وقلوب کو صاف کرتے ہیں۔ اور ہمشہ یوں ہوتا ہے کہ پاک اور طب نفوس پاک اور احسن باتوں کے لیے ہمشہ کھلے ہوتے ہیں۔ وہ فوراً قبول کرتے ہیں اور ناپاک اور خبیث دل طیب چیزوں کے لیے بند ہوتے ہیں۔ اور گندی باتیں ہی قبول کرتے ہیں۔ اولٰئک الذین ھدٰھم اللہ (39: 18) ” یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے “۔ کیونکہ اللہ نے دیکھ لیا کہ ان کے دلوں میں خیر موجود ہے۔ لہٰذا اللہ نے ان کو خیر کی طرف ہدایت دی اور انہوں نے اچھی باتوں کو سنا اور قبول کرلیا۔ اور ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے۔ وأولٰئک ھم اولوا الباب (39: 18) ” اور یہی لوگ دانشمند ہیں “۔ عقل سلیم ہی انسانوں کو پاکیزگی کی طرف مائل کرتی ہے ۔ نجات کی طرف مائل کرتی ہے۔ لہٰذا جو شخص پاکیزگی اور نجات کی طرف میلان نہیں رکھتاوہ گویا مسلوب العقل ہے اور اس نے اللہ کی دی ہوئی نعمت سے انکار کردیا ہے۔ قبل اس کے پاکیزہ لوگوں کے انعام و انجام کو پیش کیا جائے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ طاغوت کے یہ بندے دراصل عملاً اگ تک پہنچ گئے ہیں اور ان میں سے ایک بھی اگ سے نجات نہیں پاسکتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ان حضرات کی تعریف فرمائی جو کفر و شرک سے بچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْا اِِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰی) (اور جن لوگوں نے اس بات سے پرہیز کیا کہ شیطان کی عبادت کریں اور اللہ کی طرف متوجہ ہوئے ان کے لیے خوشخبری ہے) لفظ (الطاغوت) فعلوت کے وزن پر ہے بقول صاحب روح المعانی اس کی اصل طغیوت یا طغورت ہے اور جمع طغاویت ہے بہت زیادہ شریر اور حد سے زیادہ نافرمان کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے اسی لیے اسی کا ترجمہ شیطان کیا گیا ہے شیطان لوگوں کو بہکاتا ہے اور توحید سے دور رکھتا ہے اپنی فرمانبرداری کراتا ہے اور ڈراؤنی صورتیں بنابنا کر مشرکین کے سامنے آتا ہے وہ ان صورتوں کے مطابق مورتیاں بناتے ہیں جن کی پوجا کرتے ہیں یہ سب باتیں شیطان کی عبادت میں شامل ہیں جو شیطان سے دور اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور دخول جنت کی خوشخبری ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” والذین الخ “ یہ ایمان والوں کے لیے بشارت اخروی ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ ” الطاغوت “ سے ہر معبود غیرا للہ مراد ہے۔ قال الرغب : ھو عبارۃ عن کل متعد وکل معبود من دون اللہ تعالیٰ (روح ج 23 ص 252) ۔ طاغوت کی مزید تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر حاشیہ (504) میں ص 126 پر گذر چکی ہے۔ فراجعہ، ان یعبدوھا، الطاغوت سے بدل الاشتمال ہے۔ ” وانابوا الی اللہ “ میں واؤ تفسریہ ہے یعنی جن لوگوں نے غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی خالص عبادت میں منہمک ہوگئے ان کے لیے آخرت میں جنت کی بشارت ہے۔ ” فبشر عباد الخ “ اس لیے آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیں جو بات کو بغور سنتے اور حق و باطل میں امتیاز کر کے حق بات کو مان لیتے اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ نے ہدایت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور حقیقت میں عقلمند لوگ یہی ہیں۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں۔ ” احسن القول “ سے مسئلہ توحید مراد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور جن لوگوں نے بتوں سے یا شیاطین کی عبادت سے اجتناب کیا اور وہ پوری طرح اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع اور متوجہ رہے ایسے لوگوں کے لئے بشارت اور خوشخبری ہے اور وہ خوشخبری سنانے کے مستحق ہیں اے پیغمبر میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔