Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 19

سورة الزمر

اَفَمَنۡ حَقَّ عَلَیۡہِ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ ؕ اَفَاَنۡتَ تُنۡقِذُ مَنۡ فِی النَّارِ ﴿ۚ۱۹﴾

Then, is one who has deserved the decree of punishment [to be guided]? Then, can you save one who is in the Fire?

بھلا جس شخص پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی ہے تو کیا آپ اسے جو دوزخ میں ہے چھڑا سکتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَن فِي النَّارِ Is, then one against whom the Word of punishment is justified (equal to the one who avoids evil)? Will you rescue him who is in the Fire? Allah says, `if He has decreed that someone is to be doomed, can you save him from his misguidance and doom?' Which means, no one can guide him apart from Allah, because whomever Allah leaves astray cannot be guided, and whomever He guides cannot be led astray.

نیک اعمال کے حامل لوگوں کے لئے محلات ۔ فرماتا ہے کہ جس کی بدبختی لکھی جا چکی ہے تو اسے کوئی بھی راہ راست نہیں دکھا سکتا کون ہے جو اللہ کے گمراہ کئے ہوئے کو راہ راست دکھا سکے؟ تجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ان کی رہبری کر کے انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے ۔ ہاں نیک بخت نیک اعمال نیک عقدہ لوگ قیامت کے دن جنت کے محلات میں مزے کریں گے ، ان بالا خانوں میں جو کئی کئی منزلوں کے ہیں ، تمام سامان آرائش سے آراستہ ہیں وسیع اور بلند خوبصورت اور جگمگ کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایسے محل ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے صاف دکھائی دیتا ہے ۔ ایک اعرابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لئے ہیں؟ فرمایا ان کے لئے جو نرم کلامی کریں کھانا کھلائیں اور راتوں کو جب لوگ میٹھی نیند میں ہوں یہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر گڑ گڑائیں ۔ نمازیں پڑھیں ( ترمذی وغیرہ ) مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بنایا ہے جو کھانا کھلائیں کلام کو نرم رکھیں پے درپے نفل روزے بکثرت رکھیں اور پچھلی راتوں کو تہد پڑھیں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے جنتی جنت کے بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو اور روایت میں ہے مشرقی مغربی کناروں کے ستارے جس طرح تمہیں دکھائی دیتے ہیں اسی طرح جنت کے وہ محلات تمہیں نظر آئیں گے اور حدیث میں ہے کہ ان محلات کی یہ تعریفیں سن کر لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نبیوں کے لئے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک ہم آپ کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے چہرے کو دیکھتے رہتے ہیں اس وقت تک تو ہمارے دل نرم رہتے ہیں اور ہم آخرت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر دنیوی کاروبار میں پھنس جاتے ہیں بال بچوں میں مشغول ہو جاتے ہیں تو اس وقت ہماری وہ حالت نہیں رہتی ۔ تو آپ نے فرمایا اگر تم ہر وقت اسی حالت پر رہتے جو حالت تمہاری میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے ہاتھوں سے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہارے گھروں میں آ کر تم سے ملاقاتیں کرتے ۔ سنو اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں بخشے ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بنا کس چیز کی ہے؟ فرمایا ایک اینٹ سونے کی ایک چاندی کی ۔ اس کا چونا خالص مشک ہے اس کی کنکریاں لولو اور یاقوت ہیں ۔ اس کی مٹی زعفران ہے ۔ اس میں جو داخل ہو گیا وہ مالا مال ہو گیا ۔ جس کے بعد بےمال ہونے کا خطرہ ہی نہیں ۔ وہ ہمیشہ اس میں ہی رہے گا وہاں سے نکالے جانے کا امکان ہی نہیں ۔ نہ موت کا کھٹکا ہے ، ان کے کپڑے گلتے سڑتے نہیں ، ان کی جوانی دوامی ہے ۔ سنو تین شخصوں کی دعا مردود نہیں ہوتی عادل بادشاہ ، روزے دار اور مظلوم ۔ ان کی دعا ابر پر اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ رب العزت فرماتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ مدت کے بعد ہو ۔ ( ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ) ان محلات کے درمیان چشمے بہ رہے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جہاں چاہیں پانی پہنچائیں جب اور جتنا چاہیں بہاؤ رہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ اپنے مومن بندوں سے یقینا اللہ تعالیٰ کی ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ آپ کی قوم کے سب لوگ ایمان لے آئیں اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی اور آپ کو بتلایا کہ آپ کی اپنی جگہ بالکل صحیح اور بجا ہے لیکن جس پر اس کی تقدیر غالب آگئی اور اللہ کا کلمہ اس کے حق میں ثابت ہوگیا، اسے آپ جہنم کی آگ سے بچانے پر قادر نہیں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] یعنی جن لوگوں پر ان کے عناد، ضد اور ہٹ دھرمی اور ان کی بداعمالیوں کے سبب سے عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہو کیا وہ ہدایت کی راہ اختیار کرسکتے ہیں۔ بھلا ایسے بدبختوں کو جو انہی بدعنوانیوں کے باعث آگ میں پڑچکے ہیں۔ انہیں آپ یا کوئی دوسرا راہ راست پر لاسکتا ہے اور انہیں آگ سے نکال سکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ ۭ۔۔ : تو کیا وہ شخص جس (کے شیطان کی پیروی اور کفر پر اصرار اور ضد اور عناد کی وجہ سے اس) پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی اور جسے اللہ تعالیٰ آگ میں ڈالنے کا فیصلہ فرما چکا (دیکھیے سورة ص : ٨٥) تو اے نبی ! کیا تو اسے بچالے گا جو آگ میں ہے ؟ نہیں ! تو ہرگز نہیں بچا سکے گا۔ پھر جسے تو نہ بچا سکا تو اور کون ہے جو اسے آگ سے بچا سکے گا ؟ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ بیشک آپ کی شدید خواہش ہے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں مگر ایمان لانے کی توفیق دینا یا نہ دینا آپ کے اختیار میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ ) [ القصص : ٥٦ ] ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْہِ كَلِمَۃُ الْعَذَابِ۝ ٠ ۭ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ۝ ١٩ۚ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نقذ الإِنْقَاذُ : التَّخْلِيصُ من وَرْطَةٍ. قال تعالی: وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها [ آل عمران/ 103] والنَّقْذُ : ما أَنْقَذْتَهُ ، وفَرَسٌ نَقِيذٌ: مأخوذٌ من قومٍ آخرین كأنه أُنْقِذَ منهم، وجمْعُه نَقَائِذُ. ( ن ق ذ) الانقاذ کسی خطرہ یا ہلاکت سے خلاصی دینا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها[ آل عمران/ 103] اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا ۔ النقذ بمعنی چھڑا یا ہوا فر س نقیذ دشمن کے ہاتھ سے چھینا ہوا گھوڑا گویا وہ ان سے بچایا گیا ہے نقا ئذ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بھلا جس پر عذاب لازم ہوچکا یعنی ابو جہل اور اس کے ساتھی تو کیا آپ ایسے دوزخی کو چھڑا سکتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ } ” تو کیا وہ شخص جس پر ثابت ہوچکا ہے عذاب کا فیصلہ ! “ اس کے بعد یہ جملہ گویا محذوف ہے : کَمَنْ ھُوَ فِی الْجَنَّۃِ ؟ یعنی جو شخص عذاب کا مستحق ہوچکا ہے کیا وہ اس شخص کے برابر ہوجائے گا جو کہ جنت میں جانے والا ہے ؟ { اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کیا آپ اس کو بچا سکیں گے جو آگ میں ہے ؟ “ یہ وہ لوگ ہیں جو عذاب سے متعلق اللہ کے قانون کی زد میں آ چکے ہیں۔ اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد ان کے دلوں پر مہریں لگا دی گئی ہیں۔ وہ گمراہی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ اب ایمان کی طرف ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ چناچہ اب وہ آگ کا ایندھن بننے والے ہیں اور اس مرحلے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اس بھیانک انجام سے نہیں بچا سکتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 That is, the person who has made himself worthy of Allah's punishment and about whom Allah has already decided that he will be punished.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :37 یعنی جس نے اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا لیا ہو اور اللہ نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اسے اب سزا دینی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:19) افمن حق علیہ کلمۃ العذاب : افانت تنقذ من فی النار افمن میں ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے الفاء للعطف (علی الکلام المقدرۃ) من شرطیہ ہے حق علیہ ، من کی صفت ہے۔ افانت میں ہمزہ استطالت کلام کے لئے ہے اور جملہ انت تنقذ من فی النار جواب شرط ہے۔ من حق علیہ کلمۃ العذاب اور من فی النار کی تکرار تاکید کے لئے ہے۔ حق علیہ یعنی اللہ کے علم قدیم میں عذاب اس کے لئے مقرر ہوچکا۔ ترجمہ :۔ کیا جس شخص پر عذاب کی بات متحقق ہوچکی ہو ۔ آپ اس دوزخی کو چھڑا سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جس کے لئے (اس کے اعمال کی بناء پر ) دوزخ کا عذاب متحقق ہوچکا ہو آپ اس کو دوزخ سے بچا سکتے ہیں ؟ یعنی ہرگز نہیں بچا سکتے۔ تنقذ۔ مضارع واحد مذکر حاضر انقاذ (افعال) مصدر۔ تو چھڑاتا ہے یا چھڑائے گا۔ تو نجات دلاتا ہے یا دلائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی جس نے مسلسل ہٹ دھرمی اور بد عملی سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیا ہو۔ عذاب کے کلمہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ قول ہے جو اس نے تخلیق آدم ( علیہ السلام) کے وقت شیطان سے خطاب کر کے فرمایا تھا۔ یعنی (لا ملان جھنم منک وممن تبعک منھم اجمعین) دیکھئے سورة ص آیت 856” یعنی کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ایمان کی راہ پر لاسکتے ہیں ؟ “ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے اور اس سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے جو اپنی قوم قریش کے ایمان لانے کے سخت خواہش مند رہتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جود وزخ میں جانے والے ہیں وہ کوشش سے بھی ضلالت سے نہ نکلیں گے، تو تاسف و غم بےسود ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 19 خطاب رسول خدا سے ہے۔ اور اگر رسول اللہ ؐ ان کو آگ سے نہیں بچا سکتے تو آپ کے سوا اور پھر کون ہے جو ان لوگوں کو آگ سے بچاسکے۔ ان جہنمیوں کے منظر کے بالمقابل ان لوگوں کا منظر ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور ان باتوں سے ڈرتے ہیں جن سے اللہ نے ان کو ڈرایا ہے۔ گویا یہ جہنمی عملاً جہنم میں ہیں اور جنتی عملاً جنت میں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ اَفَاَنْتَ تُنقِذُ مَنْ فِی النَّارِ ) (سو کیا جس شخص کے بارے میں عذاب کی بات طے ہوچکی ہے کیا آپ اسے چھڑالیں گے جو دوزخ میں ہو) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گمراہی پر جمنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ طے ہے کہ انہیں دوزخ میں جانا ہے اور وہ بھی اپنے بارے میں یہ طے کرچکے ہیں کہ ہمیں ایمان قبول کرنا نہیں وہ دوزخ کی وعیدیں سنتے ہیں لیکن پھر بھی کفر پر جمے ہوئے ہیں کیا آپ انہیں دوزخ سے بچا دیں گے یعنی یہ آپ کا کام نہیں ہے لہٰذا جو شخص ہدایت قبول نہ کرے اس کی وجہ سے آپ غمگین نہ ہوں، اس کے بعد اس بشارت کا تذکرہ فرمایا جس کا (لَھُمُ الْبُشْرٰی) میں وعدہ فرمایا ہے ارشاد ہے (لَکِنْ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ ) لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنائے ہوئے ہیں ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (وَعْدَ اللّٰہِ ) (یہ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے) (لاَ یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ ) (اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا) پس متقی بندے یقین کریں کہ انہیں جو بشارت دی گئی ہے وہ حق ہے صحیح ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے گا جو لوگ حق واضح ہونے کے بعد بھی ایمان قبول نہیں کرتے ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی دنیا اور دنیاوی منافع سے محبت کرنے کی وجہ سے ایمان سے محروم رہتے ہیں اور جانتے ہوئے کہ ایمان سے محروم رہنے کے باعث جنت سے محروم ہوں گے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے حق کو قبول نہیں کرتے عارضی دنیا کی چہل پہل ہی کو سامنے رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنْ السَّمَآءِ مَآءً ) اے مخاطب کیا تو نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا پھر اس پانی کو زمین کے سوتوں میں داخل فرما دیا یہ پانی زمین میں جاری رہتا ہے پھر ایک جگہ جمع ہوجاتا ہے پھر چشموں کنوؤں سے نکالا جاتا ہے جس سے کھیتوں کی آبپاشی ہوتی ہے اس کے ذریعہ اللہ زمین سے کھیتیوں کو اگا دیتا ہے ان کھیتیوں کی مختلف قسمیں ہیں، کھیتی بڑھ جاتی ہے، سرسبز ہوتی ہے پکتی ہے پھر خشک ہوجاتی ہے رنگ زرد ہوجاتا ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے کھیتی کا جو حال ہے دنیا کا اٹھان اور فنا اسی طرح سے ہے، ساری دنیا ہی فنا ہوگی قیامت کا صور پھونکا جائے گا تو جو کچھ اس میں ہے تہس نہس ہوجائے گا۔ لوگ بڑے محلات بناتے ہیں قلعے تعمیر کرتے ہیں بڑی آرائش و زیبائش اختیار کرتے ہیں کھیتیاں بوتے ہیں باغ بھی لگاتے ہیں تجارتیں بھی کرتے ہیں نوٹوں کی گڈیوں سے تجوریاں بھرتے ہیں صدارتوں کے امیدوار رہتے ہیں وزیر بن جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت زیادہ کامیاب ہیں لیکن ایک دن موت آہی جاتی ہے سب کچھ دھرا رہ جاتا ہے اور جو کچھ حاصل کیا تھا سب دھوکا کا سامان ہوتا ہے جس کے بارے میں سورة آل عمران میں فرمایا (وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) (یعنی دنیا والی زندگی دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں) یہ سب کچھ دیکھتے ہیں پھر بھی اس کے پیچھے پڑے ہیں اور حبّ دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں یہ بیع قابل تعجب ہے اس سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے اسی میں دل دئیے پڑے ہیں حالانکہ دنیا کے حالات میں سب کے لیے بہت بڑی عبرت اور نصیحت ہے اسی کو فرمایا (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ ) (بلاشبہ اس میں عقل والوں کے لیے ضرور نصیحت ہے) لوگ اپنی عقلوں کو دنیا کی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اپنی آخرت کو قصداً و ارادۃً خراب کرتے ہیں، یہ بےعقلی نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ سورة الکہف میں فرمایا (وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذَرُوْہُ الرِّیٰحُ وَکَان اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا) اور آپ ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی حالت بیان فرمائیے کہ وہ ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے زمین کی نباتات خوب گنجان ہوگئیں، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے جس کو ہوا اڑائے لیے پھرتی ہو اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” افمن حق الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ جس شخص کے بارے میں اس کے مسلسل انکار و جحود اور تعنت وعناد کی وجہ سے عذاب جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہو کیا تو اسے عذاب سے چھڑا سکتا ہے ؟ اتفہام انکاری ہے یعنی تو اس کو عذاب سے نہیں چھڑا سکتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہے تو کیا آپ ایسے شخص کو چھڑا سکتے ہیں جو آگ میں پڑا ہوا ہو۔ یعنی جس شخص کے لئے کلمہ عذاب سبقت کرچکا ہو اور علم ازلی میں یہ بات مستحقق ہوچکی ہے کہ وہ جہنم میں جانے والا ہے تو بھلا آپ ایسے شخص کو جہنم کی آگ سے کس طرح بچاسکتے ہیں اور نجات دلا سکتے ہیں یعنی جو شخص اپنی سوائے استعداد کے باعث جہنمی ٹھہر چکا اس کو بچانا کس کے بس کی بات ہے۔