Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 27

سورة الزمر

وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿ۚ۲۷﴾

And We have certainly presented for the people in this Qur'an from every [kind of] example - that they might remember.

اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہیں کیا عجب کہ وہ نصیحت حاصل کرلیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Parable of Shirk Allah says, وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْانِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ... And indeed We have put forth for men, in this Qur'an every kind of parable, means, `We have explained things to mankind in it (the Qur'an) by setting forth examples and parables.' ... لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ in order that they may remember. Because parables bring the meaning closer to people's minds. As Allah says: ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلً مِّنْ أَنفُسِكُمْ He sets forth for you a parable from yourselves. (30:28) meaning, `so that you may learn it from yourselves.' in Order that they may have Taqwa of Him. And Allah says: وَتِلْكَ الاٌّمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَأ إِلاَّ الْعَـلِمُونَ And these are the examples We give for mankind; but none will understand them except those who have knowledge (of Allah). (29:43)

فیصلے روز قیامت کو ہوں گے ۔ چونکہ مثالوں سے باتیں ٹھیک طور پر سمجھ میں آ جاتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں بھی بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ سوچ سمجھ لیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے ( ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ 28؀ ) 30- الروم:28 ) اللہ نے تمہارے لئے وہ مثالیں بیان فرمائی ہیں جنہیں تم خود اپنے آپ میں بہت اچھی طرح جانتے بوجھتے ہو ۔ ایک اور آیت میں ہے ان مثالوں کو ہم لوگوں کے سامنے بیان کر رہے ہیں علماء ہی انہیں بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے جس میں کوئی کجی اور کوئی کمی نہیں واضح دلیلیں اور روشن حجتیں ہیں ۔ یہ اس لئے کہ اسے پڑھ کر سن کر لوگ اپنا بچاؤ کرلیں ۔ اس کے عذاب کی آیتوں کو سامنے رکھ کر برائیاں چھوڑیں اور اس کے ثواب کی آیتوں کی طرف نظریں رکھ کر نیک اعمال میں محنت کریں ۔ اس کے بعد جناب باری عزاسمہ موحد اور مشرک کی مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک تو وہ غلام جس کے مالک بہت سارے ہوں اور وہ بھی آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں اور دوسرا وہ غلام جو خالص صرف ایک ہی شخص کی ملکیت کا ہو اس کے سوا اس پر دوسرے کسی کا کوئی اختیار نہ ہو ۔ کیا یہ دونوں تمہرے نزدیک یکساں ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ اسی طرح موحد جو صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہی عبادت کرتا ہے ۔ اور مشرک جس نے اپنے معبود بہت سے بنا رکھے ہیں ۔ ان دونوں میں بھی کوئی نسبت نہیں ۔ کہاں یہ مخلص موحد؟ کہاں یہ در بہ در بھٹکنے والا مشرک؟ اس ظاہر باہر روشن اور صاف مثال کے بیان پر بھی رب العالمین کی حمد و ثنا کرنی چاہئے کہ اس نے اپنے بندوں کو اس طرح سمجھا دیا کہ معاملہ بالکل صاف ہو جائے ۔ شرک کی بدی اور توحید کی خوبی ہر ایک کے ذہن میں آ جائے ۔ اب رب کے ساتھ وہی شرک کریں گے جو محض بےعلم ہوں جن میں سمجھ بوجھ بالکل ہی نہ ہو ۔ اس کے بعد کی آیت کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد پڑھ کر پھر دوسری آیت ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ١٤٤؁ ) 3-آل عمران:144 ) کی آخر آیت تک تلاوت کر کے لوگوں کو بتایا تھا ۔ مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ سب اس دنیا سے جانے والے ہیں اور آخرت میں اپنے رب کے پاس جمع ہونے والے ہیں ۔ وہاں اللہ تعالیٰ مشرکوں اور موحدوں میں صاف فیصلہ کر دے گا اور حق ظاہر ہو جائے گا ۔ اس سے اچھے فیصلے والا اور اس سے زیادہ علم والا کون ہے؟ ایمان اخلاص اور توحید و سنت والے نجات پائیں گے ۔ شرک و کفر انکار و تکذیب والے سخت سزائیں اٹھائیں گے ۔ اسی طرح جن دو شخصوں میں جو جھگڑا اور اختلاف دنیا میں تھا روز قیامت وہ اللہ عادل کے سامنے پیش ہو کر فیصل ہو گا اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کے دن پھر سے جھگڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں یقینا تو حضرت عبداللہ نے کہا پھر تو سخت مشکل ہے ( ابن ابی حاتم ) مسند احمد کی اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آیت ( ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ Ď۝ۧ ) 102- التکاثر:8 ) ۔ یعنی پھر اس دن تم سے اللہ کی نعمتوں کا سوال کیا جائے گا ، کے نازل ہونے پر آپ ہی نے سوال کیا کہ وہ کون سی نعمتیں ہیں جن کی بابت ہم سے حساب لیا جائے گا ؟ ہم تو کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر گذارہ کر رہے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب نہیں ہیں تو عنقریب بہت سی نعمتیں ہو جائیں گی ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن بتاتے ہیں ۔ مسند کی اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت ( اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ 30؀ۡ ) 39- الزمر:30 ) ، کے نازل ہونے پر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جو جھگڑے ہمارے دنیا میں تھے وہ دوبارہ وہاں قیامت میں دوہرائے جائیں گے؟ ساتھ ہی گناہوں کی بھی پرستش ہو گی ۔ آپ نے فرمایا ہاں وہ ضرور دوہرائے جائیں گے ۔ اور ہر شخص کو اس کا حق پورا پورا دلوایا جائے گا تو آپ نے کہا پھر تو سخت مشکل کام ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے پڑوسیوں کے آپس میں جھگڑے پیش ہوں گے اور حدیث میں ہے اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سب جھگڑوں کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا ۔ یہاں تک کہ دوبکریاں جو لڑی ہوں گی اور ایک نے دوسری کو سینگ مارے ہوں گے ان کا بدلہ بھی دلوایا جائے گا ( مسند احمد ) مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے کہ دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا خبر؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے اور وہ قیامت کے دن ان میں بھی انصاف کرے گا ۔ بزار میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ظالم اور خائن بادشاہ سے اس کی رعیت قیامت کے دن جھگڑا کرے گا ۔ بزار میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ظالم اور خائن بادشاہ سے اس کی رعایت قیامت کے دن جھگڑا کرے گی اور اس پر وہ غالب آ جائے گی اور اللہ کا فرمان ضرور ہو گا کہ جاؤ اسے جہنم کا ایک رکن بنا دو ۔ اس حدیث کے ایک راوی اغلب بن تمیم کا حافظہ جیسا چاہئے ایسا نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ہر سچا جھوٹے سے ، ہر مظلوم ظالم سے ، ہر ہدایت والا گمراہی والے سے ، ہر کمزور زورآور سے اس روز جھگڑے گا ۔ ابن مندہ رحمتہ اللہ اپنی کتاب مظلوم ظالم سے ، ہر ہدایت والا گمراہی والے سے ، ہر کمزور زورآور سے اس روز جھگڑے گا ۔ ابن مندہ رحمتہ اللہ اپنی کتاب الروح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت لاتے ہیں کہ لوگ قیامت کے دن جھگڑیں گے یہاں تک کہ روح اور جسم کے درمیان بھی جھگڑا ہو گا ۔ روح تو جسم کو الزام دے گی کہ تو نے یہ سب برائیاں کیں اور جسم روح سے کہے گا ساری چاہت اور شرارت تیری ہی تھی ۔ ایک فرشتہ ان میں فیصلہ کرے گا کہے گا سنو ایک آنکھوں والا انسان ہے لیکن اپاہج بالکل لولا لنگڑا چلنے پھرنے سے معذور ہے ۔ دوسرا آدمی اندھا ہے لیکن اس کے پیر سلامت ہیں چلتا پھرتا ہے دونوں ایک باغ میں ہیں ۔ لنگڑا اندھے سے کہتا ہے بھائی یہ باغ تو میوؤں اور پھلوں سے لدا ہوا ہے لیکن میرے تو پاؤں نہیں جو میں جا کر یہ پھل توڑ لوں ۔ اندھا کہتا ہے آؤ میرے پاؤں ہیں تجھے اپنی پیٹھ پر چڑھا لیتا ہوں اور لے چلتا ہوں ۔ چنانچہ یہ دونوں اس طرح پہنچے اور جی کھول کر پھل توڑے بتاؤ ان دونوں میں مجرم کون ہے؟ جسم و روح دونوں جواب دیتے ہیں کہ جرم دونوں کا ہے ۔ فرشتہ کہتا ہے بس اب تو تم نے اپنا فیصلہ آپ کر دیا ۔ یعنی جسم گویا سواری ہے اور روح اس پر سوار ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے پر ہم تعجب میں تھے کہ ہم میں اور اہل کتاب میں تو جھگڑا ہے ہی نہیں پھر آخر روز قیامت میں کس سے جھگڑے ہوں گے؟ اس کے بعد جب آپس کے فتنے شروع ہوگئے تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہی آپس کے جھگڑے ہیں جو اللہ کے ہاں پیش ہوں گے ۔ ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل قبلہ غیر اہل قبلہ سے جھگڑیں گے اور ابن زید رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد اہل اسلام اور اہل کفر کا جھگڑا ہے ۔ لیکن ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ فی الواقع یہ آیت عام ہے ۔ الحمد للہ! اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور فضل و رحم سے تفسیر محمدی کا تیسواں پارہ ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور ہماری تقصیر کی معافی کا سبب اس تفسیر کو بنا دے ۔ ہمیں اپنے پاک کلام کی تلاوت کا ذوق ، اس کے معنی کے سمجھنے کا شوق عطا فرمائے ، علم و عمل کی توفیق دے ، عذاب سے نجات دے ، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یعنی لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں باتیں بیٹھ جائیں اور وہ نصیحت حاصل کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] اس سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم نے شرک کی تردید میں ہر طرح کی مثالیں دلائل کے ساتھ پیش کردی ہیں تاکہ لوگوں کو اصل حقیقت سمجھنے میں کوئی دشواری نہ رہے اور اس سے مراد دین کی سب ضروری باتیں بھی ہوسکتی ہیں جن میں اوامرو نواہی بھی شامل ہیں۔ ایسی بنیادی باتیں سب قرآن میں موجود ہیں اور سنت رسول اللہ سے ان کا مطلب اور مفہوم پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی ہر شخص کو دین سے متعلق جملہ ہدایات کتاب و سنت سے مل سکتی ہیں۔ اور اسے اپنے دین کی حفاظت کے لئے قرآن کریم اور حدیث کافی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَــقَدْ ضَرَبْنَا للنَّاسِ فِيْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ ۔۔ : مثال کے ساتھ بات کرنے سے وہ بات جلد سمجھ میں آجاتی ہے اور خوب ذہن نشین ہوجاتی ہے، خصوصاً ایسی مثالیں جن کا آدمی کی اپنی زندگی اور گردوپیش کی اشیاء سے تعلق ہو اور اسے روز مرہ ان سے واسطہ پڑتا ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر قسم کی مثالیں بیان فرمائی ہیں، جیسا کہ اپنی توحید سمجھانے کے لیے آدمیوں کو خود ان کی مثالیں دے کر سمجھایا۔ دیکھیے سورة روم (٢٨) اور نحل (٧٥، ٧٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَــقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِيْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٢٧ۚ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے لوگوں کی ہدایت کے لیے اس قرآن حکیم میں ہر قسم کے عمدہ مضامین بیان کیے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ { وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ } ” اور ہم نے انسانوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کردی ہیں “ مختلف احکام و مسائل کو قرآن میں کھول کھول کر اور اسلوب بدل بدل کر بیان کردیا گیا ہے۔ { لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ } ” شاید کہ وہ سبق حاصل کریں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧۔ ٢٨۔ مطلب یہ ہے کہ شرک کی برائیوں اور توحید کی خوبیوں کی مثالیں قرآن شریف میں لوگوں کے سمجھنے کے لئے بیان کردی گئی ہیں مثلاً سورة الرعد میں جو مثال اسی باب میں بیان فرمائی اس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں یا کسی اور سے مدد چاہتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جس طرح کوئی پیاسا آدمی پانی سے دور کھڑا ہو کر اس امید میں رہے کہ پانی خود بخود اس کے منہ میں آجائے گا انجام اس بجا امید کا یہی ہوگا کہ پانی خود بخود کسی کے منہ تک آنے کی قدرت نہیں رکھتا اس لئے وہ شخص پیاسا ہی رہے گا اب جس طرح پانی میں کسی کے منہ تک آنے کی قدرت نہیں یہی حال مشرکوں کی پوجا کی مورتوں اور مورتوں کی اصل صورتوں کا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے کسی کارخانہ میں کچھ دخل نہیں۔ اس لئے بغیر مرضی الٰہی کے وہ کسی کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے۔ اسی مثال میں فرمایا لا دعوۃ الحق جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی سبب سے وہ انسان کی ہر ایک ضرورت سے واقف اور کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اسی واسطے ہر شخص کو چاہئے کہ خالص دل سے اس کو اپنا معبود جانے اور اس سے اپنی ہر ایک ضرورت کے رفع ہونے کی التجا کرے۔ اس طرح کی مثالیں قرآن شریف میں اور بھی بہت ہیں۔ جو جگہ جگہ گزر چکی ہیں قریش کو مکہ کے قحط کے وقت اس طرح کی مثالوں کا تجربہ ہوچکا ہے کہ ان کے بتوں سے دفع قحط میں کچھ مدد نہ ملی آخر اللہ کے رسول کی دعا سے مینہ برسا۔ صحیح بخاری ١ ؎ وغیرہ کے حوالہ سے عبد اللہ (رض) بن مسعود کی حدیث مکہ کے قحط کے باب میں ایک جگہ گزر چکی ہے۔ آگے فرمایا کہ یہ لوگ عرب ہیں اس لئے جس قرآن میں یہ مثالیں ہیں وہ ان کی زبان کے صاف صاف لفظوں تارا گیا ہے تاکہ یہ لوگ ان مثالوں کو سمجھ کر اللہ سے ڈریں اور شرک سے باز آئیں۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ صحیح بخاری ٣ ؎ ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن میں سمجھ دار کے لئے مثالیں تھیں۔ زبان بھی خاص قریش کی تھی لیکن میں کے جو لوگ علم الٰہی میں دوزخی قرار پا چکے تھے ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٥٢) (٢ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٦٣) (٣ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٤)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:27) لعلہم یتذکرون ۔ (تاکہ وہ نصیحت پکڑیں) ضربنا للناس فی ھذا القران من کل مثل کی علت ہے۔ یعنی یہ مثالیں اس لئے بیان کی ہیں تاکہ یہ نصیحت پکڑیں۔ یتذکرون۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ تذکر (تفعل) مصدر سے۔ بمعنی نصیحت پکڑنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ہر قسم کے اولہ و امثلہ سے سمجھایا گیا ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں جو مثال بیان ہو رہی ہے یہ اس کے لئے تمہید ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کو عذاب میں مبتلا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انہیں بارہا دفعہ سمجھایا تاکہ یہ عذاب سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ ہے کہ اس وقت تک کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا جب تک ان کے پاس حق کا پیغام نہ پہنچ جائے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے پہلی اقوام کے پاس انبیائے کرام (علیہ السلام) بھیجے جو انہیں ٹھوس دلائل اور مؤثر انداز میں سمجھاتے رہے۔ اسی اصول کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور قرآن مجید میں مختلف امثال کے ذریعے لوگوں کو نصیحتیں فرمائیں تاکہ لوگ کفر و شرک اور ہر قسم کی نافرمانیوں سے بچ کر قرآن کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاریں۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور ابہام نہیں پایا جاتا۔ قرآن مجید یکبار نہیں بلکہ تئیس (٢٣) سال میں وقفہ وقفہ سے نازل ہوا۔ اس کے باوجود اس میں کسی قسم کا تعارض نہیں پایا جاتا۔ قرآن مجید اپنا پیغام اس قدر پُر حکمت اور شفاف انداز میں پیش کرتا ہے کہ معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی اس سے کامل راہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ پھر لوگوں کی فہم کی آسانی کے لیے توحید و رسالت اور موت کے بعد جی اٹھنے کے عقیدہ کو کئی مثالوں کے ذریعے بیان اور ثابت کیا گیا ہے تاکہ لوگ اس پر ایمان لائیں، اس کے تقاضے پورے کریں اور اپنے رب کی نافرمانی سے بچیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں کوئی ابہام اور اختلاف نہیں پایا جاتا : ١۔ یہ کتاب مبین ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٢۔ قرآن مجید میں کوئی کجی نہیں ہے۔ (الکہف : ١) ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 27 تا 29 اللہ تعالیٰ کسی ایسے بندے کی جو موحد ہے اور کسی ایسے بندے کی جو مشرک ہے ، یہ مثال دیتا ہے کہ ان کی مثال ہے جیسے ایک غلام ایک شخص کی خالص ملکیت ہو اور دوسرا کئی مختلف الحیال مالکان کے درمیان مشترکہ ہو۔ اس مشترکہ غلام میں مختلف مالکان کے علیحدہ علیحدہ مطالبے ہیں۔ اور یہ بیچارہ انکے درمیان حیران وپریشان ہے۔ کوئی ادھر کھینچتا ہے ، کوئی ادھر۔ وہ اسے کوئی ایک پروگرام نہیں دیتے اور اس بیچارے کی یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ انکی متضاد فرمائشیں شروع کرسکے کیونکہ وہ اسکے رخ کو بھی تبدیل کررہی ہیں۔ اور اسکی خواہشات کو بھی تبدیل کررہی ہیں۔ اور ایک ایک کا غلام یکسو ہے۔ اس کو مالک نے ایک پروگرام دیا ہوا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اسنے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک آقا کا غلام مطمئن ، خوش اور یکسو ہوگا۔ ھل یستویٰن مثلا (39: 29) ” کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے “۔ یقیناً دونوں برابر نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس کا ایک آقا ہے وہ آدم ، استراحت ، استقامت اور یقینی پروگرام رکھتا ہے۔ اس کی قوتیں مجتمع ہیں۔ اس کا رخ متعین ہے ۔ اس کی راہ متعین ہے اور جس غلام کے مختلف الحیال آقا ہیں۔ وہ ایک دائمی عذاب میں ہے۔ ایک دائمی کشاکش میں ہے۔ اور ہر وقت قلق وبے چینی میں مبتلا ہے۔ کسی ایک حال پر برقرار نہیں ہے۔ اور اس سے ایک مالک بھی راضی نہ ہوگا ، سب کا راضی ہونا تو محال ہے۔ یہ مثال حقیقت توحید اور حقیقت شرک پر تمام حالات میں منطبق ہے۔ ایک موحدو مومن اس زمین پر اپنا سفر نہایت ہی سیدھے راہ پر علی وجہ البصیرت طے کرتا ہے۔ کیونکہ ان کی نظریں ہمشہ ایک نصب العین پر مرکوز ہیں۔ پوری زندگی ، پوری قوت اور تمام ضروریات اور تمام نفع ونقصان وہ ایک جہت سے طلب کرتا ہے۔ ایک ذات ہے جو اسے روکتی ہے اور ایک ہی ذات ہے جو اسے اجازت دیتی ہے۔ لہٰذا اس کے قدم سیدھے اس ایک سرچشمے کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہ اسی سرچشمے سے اخذ کرتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں ایک ہی مضبوط رسی ہے جسے اس کے مضبوطی سے پکڑا رکھا ہے ، ایک ہی ہدف ہے جس پر وہ نظریں جمائے ہوئے ہے۔ ایک ہی آقا کی وہ خدمت کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ میرا آقا کس بات پر راضی ہوتا ہے اور کس پر نازاض ہوتا ہے۔ یوں اس کی قوتیں مجتمع ہوتی ہیں اور یوں وہ پوری قوت کے ساتھ زمین پر کام کرتا ہے۔ اور آسمان پر نظریں جمائے ہوتا ہے۔ اور اس مثال پر تبصرہ الحمدللہ سے کیا جاتا ہے کہ اس نے عقیدۂ توحید کے ذریعے اپنے بندوں کو آرام و اطمینان اور راحت بخشی ہے۔ اور ان کی زندگی کو اثبات وقرار عطا کیا۔ اب اگر وہ اس سے انحراف کرتے ہیں تو وہ لاعلم ہیں۔ یہ ان مثالوں میں ایک ہے جو قرآن نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے دی ہیں تاکہ لوگ حقیقت کو جان سکیں۔ یہ قرآن عربی ہے ، سیدھا ، واضح اور بین ہے۔ اس کے معانی میں کوئی التباس نہیں۔ نہ پیچیدگی اور انحراف ہے اور یہ عوام الناس کو ایک فطری استدلال سے خطاب کرتا ہے ، جو ان کی سمجھ میں آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَلَقَدْ ضَرَبْنَا للنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ ) (الآیتین) ان دو آیتوں میں قرآن مجید کی صفات بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کے عمدہ مضامین بیان کردئیے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور یہ بھی فرمایا کہ قرآن عربی میں ہے (جسے اولین مخاطبین اہل عرب سمجھتے اور جانتے ہیں اور اس کی فصاحت اور بلاغت سے بھی واقف ہیں) تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن میں ذرا بھی کجی نہیں ہے نہ اس میں لفظی رکاکت ہے نہ فصاحت میں اختلال ہے نہ معنوی طور پر اس میں کوئی تناقض ہے آخر میں فرمایا (لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ ) تاکہ یہ لوگ قرآن کی تکذیب سے باز آئیں اور اللہ جل شانہٗ کے عذاب اور پکڑ سے ڈریں اور اپنی جانوں کو اس سے بچائیں۔ مشرک و موحد کی مثال اس کے بعد مشرک اور موحد کی ایک مثال بیان فرمائی اور وہ یہ ہے کہ ایک غلام ہے اس میں کئی افراد شریک ہیں اور وہ بدخلق بھی ہیں کھینچا تانی میں ان کی بدخلقی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے ایک اس غلام کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کہتا یہ میرے ماتحت رہے اور میرا ہی کام کرے اور دوسرا اور تیسرا اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس سلسلہ میں ہر ایک بدخلقی کو اختیار کرتا ہے ساجھیوں کی بدخلقی کی لپیٹ میں یہ غلام حیران رہتا ہے اور ساجھیوں کے ساجھے کی سزا بھگتتا رہتا ہے اور ایک غلام وہ ہے جو ایک ہی شخص کا غلام ہے اسے صرف ایک ہی شخص کی خدمت کرنی ہے ان دونوں غلاموں کی زندگی پر نظر ڈالو ایک کی حیرانی اور پریشانی کو دیکھو اور دوسرے کی سلامتی کو دیکھو اور بتاؤ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ اسی سے سمجھ لو کہ جس طرح یہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح سے موحد اور مشرک بھی برابر نہیں ہوسکتے موحد پورا پورا معبود واحد اور معبود حقیقی کا بندہ بنا رہتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اسی کی یاد میں مگن رہتا ہے ہر حاجت اسی سے طلب کرتا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے بہت سے معبود بنا رکھے ہیں اس کی بھی عبادت کرتا ہے اور اس کی بھی عبادت کرتا ہے اس کے سامنے بھی سر جھکاتا ہے اور اس کے سامنے بھی جبین نیاز رگڑتا ہے۔ موحد و مشرک میں اتنا عظیم فرق ہے، شرک اختیار کرنے والے سراپا گمراہ ہیں اور سراپا بیوقوف بھی ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ ” ولقد ضربنا الخ “ یہ آئندہ تمثیل کے لیے تمہید ہے۔ ہم نے قرآن میں ہر نوع کی مثالیں بیان کی ہیں جن کی موقع و محل کے مطابق ضرورت تھی تاکہ لوگ خوب سمجھ لیں اور نصیحت حاصل کریں۔ جیسا کہ مومن اور مشرک کی ایک مثال آگے آرہی ہے۔ ” قرانا عرب یا الخ “ یہ ھذا سے حال واقع ہے (روح) ، یہ قرآن خالص عربی میں ہے فصاحت و بلاغت، مضامین کی سنجیدگی، دلائل کی پختگی، واقعات کی صحت اور دیگر ہر پہلو سے وہ کامل و مکمل ہے اس میں کسی قسم کی کمی، کجی اور کوتاہی نہیں، یہ بلند پایہ کتاب اس لیے نازل کی گئی تاکہ لوگ اس کی تعلیمات کو مانیں اور ان پر عمل کریں اور اللہ کی نافرمانی اور معصیت سے بچیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اور بلا شبہ ہم نے اس قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں اور عمدہ مضامین بیان کئے ہیں تاکہ یہ لوگ سوچیں اور نصیحت قبول کریں۔