Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 28

سورة الزمر

قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا غَیۡرَ ذِیۡ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۲۸﴾

[It is] an Arabic Qur'an, without any deviance that they might become righteous.

قرآن ہے عربی میں جس میں کوئی کجی نہیں ، ہو سکتا ہے کہ پرہیزگاری اختیار کرلیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُرانًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ ... An Arabic Qur'an, without any crookedness (therein), means, it is in a plain Arabic tongue, with no crookedness, deviation or confusion. It is plain, clear proof. Allah has made it like this and has revealed it like this, ... لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ in order that they may have Taqwa of Him, means, in order that they may heed the warnings contained therein, and strive to attain the promises therein. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] قرآن ٹھیٹھ عربی زبان میں کیوں ہے :۔ قرآن اگر کسی دوسری زبان میں ہوتا تو اسے سمجھنے کے لئے ترجمانوں کے علاوہ اور بھی کئی قسم کی دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یہ ان کی اپنی مادری اور ٹھیٹھ زبان میں ہے جسے سب لوگ بآسانی سمجھ سکتے ہیں پھر اس میں جو باتیں مذکور ہیں وہ صاف اور سیدھی ہیں جنہیں ہر عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ اس کے انداز بیان اور دلائل میں کوئی الجھاؤ یا پیچیدگی نہیں۔ علاوہ ازیں جو احکام اس میں بیان کئے گئے ہیں ان پر عمل کرنا محال نہیں اور لوگ بسہولت ان پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور جو لوگ کسی بھی درجہ میں معذور ہیں ان کے لئے رخصتوں یا مراعات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِيْ ۔ : ’ۚقُرْاٰنًا عَرَبِيًّا “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یوسف (٢) ” 3“ میں تنوین کی وجہ سے نفی عام ہوگئی ہے، یعنی اس میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں۔ یہ مفہوم ” غَیْرَ مُعَوَّجٍ “ (جو کجی والا نہیں) سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ تفسیر کے لیے دیکھیے سورة کہف کی آیت (١) یہ دونوں آیات اگلی آیت میں آنے والی مثال کے لیے تمہید کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمْ يَتَّـقُوْنَ۝ ٢٨ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ عَرَبيُّ : الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، العربی واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور قرآن جس کی شان یہ ہے کہ وہ عربی زبان میں ہے اور توحید اور احکام اور بیان حدود میں توریت، انجیل، زبور اور تمام آسمانی کتب میں سے کسی کا مخالف نہیں اور سدی غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کلام خداوندی غیر مخلوق ہے تاکہ لوگ قرآن کریم کے ذریعے سے جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کیا ہے ان سے ڈریں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کی مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک شخص ہے جس کے کئی مالک ہیں کہ جن میں آپسی مخالفت بھی ہے کہ ایک مالک تو ایک کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور دوسرا مالک اس سے روکتا ہے یہی حالت کافر کی ہے کہ مختلف معبودوں کو پوجتا ہے اور ایک اور شخص کہ خالص ایک ہی شخص کا غلام ہے یہ شان مسلمان کی ہے کہ خالص اپنے پروردگار وحدہ لا شریک کی عبادت کرتا ہے اور اسی کے لیے اپنے اعمال کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ { قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ } ” (ہم نے اسے بنا دیا ہے) قرآن عربی ‘ اس میں کوئی کجی نہیں ہے ‘ شاید کہ وہ تقویٰ کی روش اختیار کریں۔ “ ہم نے اس قرآن کو فصیح وبلیغ عربی میں اتارا ہے۔ اس کی زبان بہت سادہ اور سلیس ہے۔ اس حوالے سے سورة القمر میں یہ آیت چار مرتبہ دہرائی گئی ہے : { وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ 4 } ” اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے ‘ تو ہے کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے والا ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46 That is, "It has not been sent down in a foreign language so that the people of Makkah and Arabia should stand in need of a translator or interpreter, but it is in their own language, which they can understand directly." 47 That is, "There is nothing of double-dealing in it so that a common man should find it difficult to understand, but everything has been presented in it in a straightforward manner, from which everyone can know what this Book states as wrong and why, what it states as right and on what ground, what it wants the people to accept and what it wants them to reject, and what it enjoins and what it forbids."

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :46 یعنی یہ کسی غیر زبان میں نہیں آیا ہے کہ مکے اور عرب کے لوگ اسے سمجھنے کے لیے کسی مترجم یا شارح کے محتاج ہوں ، بلکہ یہ ان کی اپنی زبان میں ہے جسے یہ براہ راست خود سمجھ سکتے ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :47 یعنی اس میں اینچ پینچ کی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ عام آدمی کے لیے اس کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے ۔ بلکہ صاف صاف سیدھی بات کہی گئی ہے جس سے ہر آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کتاب کس چیز کو غلط کہتی ہے اور کیوں ، کس چیز کو صحیح کہتی ہے اور کس بنا پر ، کیا منوانا چاہتی ہے اور کس چیز کا انکار کرانا چاہتی ہے ، کن کاموں کا حکم دیتی ہے اور کن کاموں سے روکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:28) قرانا عربیا : قرانا حال مؤکدہ ہے ھذا سے۔ اسے حال موطئہ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ فی الاصل حال عربیا ہے اور قرانا اس کا توطئہ ہے جیسے ہم کہتے ہیں جاءنی زید رجلا صالحا وانسانا عاقلا۔ کہ حال اصل صالحا وعاقلا ہے رجلا وانسانا تاکید کے لئے لائے گئے ہیں۔ غیر ذی عوج۔ جو کجی والا نہ ہو۔ جس میں کسی قسم کی کجی نہ ہو۔ یہاں مستقیم کا استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ مستقیم سے غیر ذی عوج زیادہ بلیغ ہے یہ ہر قسم کی کجی کی نفی کرتا ہے اور معانی میں اختلال نہ ہونے کے لئے یہ لفظ زیادہ مخصوص ہے۔ غیر حرف استثناء ذی عوج مضاف مضاف الیہ۔ (ٹیڑھا ۔ کجی والا) ۔ قاعدہ : لفظ غیر کے بعد مستثنیٰ اگر واقع ہو تو مجرور ہوتا ہے۔ لعلہم یتقون ۔ علت ثانی ہے ضربنا ۔۔ مثل کی۔ تاکہ وہ کفر و معاصی سے اجتناب کریں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 جو مکہ اور تمام جزیزہ عرب کی اپنی زبان ہے وہ لوگ ہیں جو قرآن کے اولین محاطب ہیں۔9 کہ عرب کا عامی بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس کتاب الہدایت ہونے کے لئے جن صفات کمال کی ضرورت تھی، قرآن ان پر حاوی ہے، لیکن اگر ان ہی کی استعداد فاسد ہو تو کیا کیا جاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) اس قرآن کریم کی کیفیت یہ ہے کہ یہ عربی زبان کا قرآن ہے اس میں کسی قسم کی پیچیدگی اور کجی نہیں تاکہ یہ لوگ اس کی تکذیب سے بچیں۔ یعنی عمدہ مضامین اور مثالیں تاکہ ان کو سوچنے اور سمجھنے کا موقعہ ملے اور یہ نصیحت پکڑیں پھر یہ قرآن کریم عربی زبان میں ہے چونکہ اہل عرب مخاطب اول ہیں اس لئے عربی میں نازل فرمایا تاکہ ان کو خود سمجھ کر دوسری کو سمجھانے میں آسانی ہو کتاب میں کوئی کجی اور ہیر پھیر نہیں بالکل سیدھی کتاب ہے جیسا کہ سورة کہف کی ابتدائی آیتوں میں بیان ہوچکا ہے۔ بہرحال ہدایت کے لئے جیسی کتاب کی ضرورت تھی وہ سب باتیں اس میں علی وجہ الکمال مذکور ہیں مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ کفر سے بچیں اور دوسروں کو بچائیں بعض حضرات نے غیر ذی عوج کی تفسیر مرفوع حدیث سے غیر مخلوق بھی کی ہے اس حدیت کے راوی حضرت انس ہیں آگے مشرک اور موحد کے مابین تو تفاوت ہے اس کی مثال بیان فرمائی۔