Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 29

سورة الزمر

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ۚ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۹﴾

Allah presents an example: a slave owned by quarreling partners and another belonging exclusively to one man - are they equal in comparison? Praise be to Allah ! But most of them do not know.

اللہ تعالٰی مثال بیان فرما رہا ہے کہ ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں ، اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی کا ( غلام ) ہے ، کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں؟ اللہ تعالٰی ہی کے لئے سب تعریف ہے بات یہ ہے کہ ان میں سےاکثر لوگ سمجھتے نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلً رَّجُلً فِيهِ شُرَكَاء مُتَشَاكِسُونَ ... Allah puts forth a parable: a man belonging to many partners disputing with one another, meaning, they were disputing concerning that slave in whom they all had a share. ... وَرَجُلً سَلَمًا لِّرَجُلٍ ... and a (slave) man belonging entirely to one master. means, no one owned him except that one man. ... هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلً ... Are those two equal in comparison? meaning, they are not the same. By the same token, the idolator who worships other gods besides Allah and the sincere believer who worships none besides Allah, with no partner or associate, are not equal. What comparison can there be between them? Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Mujahid and others said, "This Ayah is the parable of the idolator and the sincere believer." Because this parable is so clear and obvious, Allah then says: ... الْحَمْدُ لِلَّهِ ... All the praises and thanks be to Allah! i.e., for establishing proof against them. ... بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ But most of them know not. means, and for this reason they associate others in worship with Allah. The fact that the Messenger of Allah and Quraysh will die, and how They will dispute before Allah Allah's saying; إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 اس میں مشرک (اللہ کا شریک ٹھہرانے والے) اور مخلص (صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کرنے والے) کی مثال بیان کی گئی ہے یعنی ایک غلام ہے جو کئی شخصوں کے درمیان مشترکہ ہے، چناچہ وہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور ایک غلام ہے جس کا مالک صرف ایک ہی شخص ہے، اس کی ملکیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں یقینا نہیں۔ اسی طرح وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے اور وہ مخلص مومن، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا برابر نہیں ہوسکتے۔ 29۔ 2 اس بات پر کہ اس نے حجت قائم کردی۔ 29۔ 3 اسی لئے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] ایک انسان کے مختلف اور متشاکس آ قا کون کون سے ہیں ؟ تشاکس کے معنی بخل، تند خوئی اور بدمزاجی کی وجہ سے ایک دوسرے سے اپنے اپنے حق کے لئے کھینچا تانی کرنا ہے۔ مثال یہ ہے کہ ایک غلام کے ایک نہیں بلکہ متعدد آقا ہیں۔ اور ہر ایک کا جی یہ چاہتا ہے کہ وہ غلام کو اپنے ہی کام میں لگائے رکھے اور جتنا اس کا حق بنتا ہے اس سے زیادہ اس سے محنت لے۔ دوسروں کی خدمت خواہ وہ کرسکے یا نہ کرے۔ پھر وہ تند خو اور بدسرشت بھی ہیں ان میں سے ہر شخص اس غلام سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہے اور بدسلوکی سے بھی پیش آتا ہے۔ تو بتاؤ اس غلام کا کیا حال ہوگا اور وہ کس مشکل اور مصیبت میں پڑا ہوگا اور دوسرے غلام کا مالک صرف ایک ہی ہے تو بتاؤ ان دونوں غلاموں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے ؟ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے بدسرشت لوگ جو اپنے مشترکہ غلام سے اپنا زیادہ سے زیادہ حق وصول کرنے کے لئے جھگڑتے ہیں۔ غلام کو اس کا حق دینے میں سخت بخیل ہوتے ہیں۔ ایسے غلام کو نہ کوئی صرف اپنا غلام سمجھتا ہے نہ اس کی خبر لیتا ہے نہ اس کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ اور دوسرا غلام جو صرف ایک شخص کا ہو وہ اسے اپنا ہی غلام سمجھتا ہے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی وہ غلام جس کا ایک ہی آقا ہو وہ بہتر ہوا۔ یہ مثال دراصل ایک مشرک اور ایک موحد کی مثال ہے۔ مشرک کئی معبودوں کا غلام ہوتا ہے۔ اسے یہ فکر بھی دامنگیر رہتی ہے کہ اگر ایک کی حاضری اور نذر و نیاز دے کر اس کو خوش کرنے کی کوشش کرے تو دوسرے کہیں بگڑ نہ بیٹھیں اور اسے کوئی گزند نہ پہنچا دیں۔ اسی کھینچا تانی میں وہ پریشان اور پراگندہ دل رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک موحد کو صرف ایک اکیلے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہوتی ہے پھر چونکہ موحد اللہ کا ہی بن کر رہتا ہے اللہ بھی ہر آڑے وقت میں اس کی دستگیری فرماتا، مصائب سے نجات دیتا اور انعامات سے نوازتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کی حالت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ اور اسے سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے غور و فکر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس مثال میں معبودوں سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کا بخیلی، تند خوئی اور بدمزاجی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی وہ اپنے حقوق کے لئے جھگڑا کرسکتے ہیں۔ لامحالہ ان سے مراد ایسے جیتے جاگتے آقا ہی ہوسکتے ہیں جو عملاً آدمی کو متضادا حکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا آقا تو انسان کا اپنا نفس ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے۔ دوسرے بیشمار آقا گھر میں، خاندان میں، برادری میں، قوم میں اور ملک کے معاشرے میں، مذہبی پیشواؤں میں، حکمرانوں اور قانون سازوں میں، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے، کوئی روٹھ جاتا ہے، کوئی مقاطعہ کرتا ہے، کوئی دیوالیہ نکالتا ہے، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس پریشانی اور تنگی سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ انسان صرف ایک اللہ کا بندہ بن جائے اور اللہ کے احکام میں کسی دوسرے کی قطعاً پروانہ کرے۔ یہی اس کے لئے سلامتی، اطمینان اور نجات کا راستہ ہے۔ [٤٥] الحمد للہ کے استعمال کا خاص موقع :۔ یہاں الحمدللہ کا استعمال ان معنوں میں ہوا ہے کہ بہت سے آقاؤں کے پرستار اس سوال کا جواب دیں تو بھی مرتے ہیں اور اگر نہ دیں تو بھی مرتے ہیں پھر اگر جواب نہ دیں تو گویا یہ ان کے خلاف مسکت دلیل ہوئی۔ اور اگر جواب دیں تو وہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ان دونوں غلاموں کی حالت برابر ہے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ آقا رکھنے والا غلام بہتر ہے۔ لہذا اللہ کا شکر ہے کہ اتنی بات تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک آقا رکھنے والا غلام ہی بہتر ہوسکتا ہے۔ پھر جب عملی زندگی کا وقت آتا ہے تو یہ سب باتیں بھول کر نادان بن جاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلً ۔ :” رَجُلٌ شَکِسٌ“ ضدی، بدخلق، جھگڑنے والا آدمی۔ ” مُتَشٰكِسُوْنَ “ باب تفاعل سے جمع مذکر اسم فاعل ہے، اس باب میں تشارک پایا جاتا ہے، ایک دوسرے سے ضد کرنے والے، جھگڑنے والے۔ یہ مشرک اور موحّد کی مثال ہے، مشرک جو کئی معبودوں کی عبادت کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو کئی آقاؤں کا غلام ہے، جو اس کے مالک ہونے میں شریک ہیں اور سب بدخو، ضدی اور ایک دوسرے سے جھگڑنے والے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ غلام اسی کے کام میں لگا رہے اور ہر ایک اسے اپنے مطلب کا حکم دیتا ہے، اسے دوسروں کے کام سے کوئی سروکار نہیں، وہ حیران ہے کہ کس کا حکم بجا لائے۔ پھر ان میں سے کوئی بھی اس غلام کی ضروریات کا ذمہ دار بننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ ہر ایک اسے دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نہ وہ ان میں سے کسی کو خوش کرسکتا ہے نہ اس کی کوئی حاجت یا ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اس کی زندگی جس قدر تنگ ہوگی، بخوبی ظاہر ہے۔ اس کے مقابلے میں موحّد کی مثال اس آدمی کی ہے جو صرف ایک آقا کا غلام ہے، اسی کی خدمت کرتا ہے اور اسی کے سامنے اپنی ہر حاجت اور ضرورت پیش کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ آدمی نہایت اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرے گا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” ایک غلام جو کئی کا ہو، کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے تو اس کی پوری خبر نہ لے اور ایک غلام جو سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا سمجھے اور پوری خبر لے، یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں اور جو کئی رب کے بندے ہیں۔ “ (موضح) اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ : یہاں ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں میں سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں، بلکہ یا تو وہ تسلیم کریں گے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے، یا پھر خاموشی اختیار کریں گے، دونوں صورتوں میں توحید کی خوبی اور شرک کی برائی ثابت ہوجائے گی۔ اس پر فرمایا، سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ایسی بہترین اور آسان مثال کے ساتھ توحید کا مسئلہ واضح فرمایا۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق ماننے کے باوجود اکثر لوگ ایک اللہ کی عبادت اور بہت سے معبودوں کی عبادت کا فرق نہیں جانتے، اس لیے شرک میں گرفتار رہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ نے (موحد اور مشرک کے بارے میں) ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک شخص ہے (غلام) جس میں کئی ساتھی ہیں جن میں باہم ضدا ضدی (بھی) ہے اور ایک اور شخص ہے کہ پورا ایک ہی شخص کا (غلام) ہے (تو) کیا ان دونوں کی حالت یکساں (ہو سکتی) ہے (اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں، پہلا شخص تکلیف میں ہے کہ ہمیشہ متحیر رہتا ہے کہ کس کا کہنا مانوں کس کا نہ مانوں۔ دوسرا آرام میں ہے کہ ایک ہی شخص سے تعلق ہے۔ پس پہلی مثال شرک کی ہے کہ ہمیشہ ڈانواں ڈول رہتا ہے۔ کبھی غیر اللہ کی طرف دوڑتا ہے، کبھی خدا کی طرف۔ پھر غیر اللہ میں بھی ایک پر اطمینان نہیں ہوتا۔ کبھی کسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ کبھی کسی کی طرف۔ اس سوال کا جواب کفار بھی اس کے سوا نہیں دے سکتے کہ غلام مشترک بڑی مصیبت میں رہتا ہے اس لئے ان پر حجت تمام ہوگئی۔ اس اتمام حجت پر فرمایا الحمد للہ حق ثابت ہوگیا۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ قبول نہیں کرتے۔ بلکہ (قبول تو کیا) ان میں اکثر لوگ سمجھتے بھی نہیں (کیونکہ سمجھنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے۔ آگے فیصلہ قیامت کا ذکر ہے جو آخری فیصلہ ہوگا۔ جس سے کوئی بھاگ نہیں سکے گا اور فیصلہ قیامت سے پہلے موت کی خبر دیتے ہیں۔ کیونکہ موت ہی مقدمہ اور طریقہ ہے آخرت تک پہنچنے کا اس لئے فرمایا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ اگر دنیا میں کسی عقلی اور نقلی فیصلہ کو نہیں مانتے تو آپ غم نہ کیجئے، کیونکہ دنیا سے) آپ کو بھی مر جانا ہے اور ان کو بھی مر جانا ہے، پھر قیامت کے روز تم (دونوں فریق اپنے اپنے) مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کرو گے۔ (اس وقت عملی فیصلہ ہوجاوے گا جس کے ظہور کا بیان آگے آتا ہے فمن اظلم) سو (اس مخاصمت اور عدالت میں مقدمات پیش ہونے کے وقت فیصلہ یہ ہوگا کہ باطل پرستوں کو عذاب جہنم ہوگا اور حق پرستوں کو اجر عظیم ملے گا اور ظاہر ہے کہ) اس شخص سے زیادہ بےانصاف (اور ناحق پرست) کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے (یعنی خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کہے کہ اس کے ساتھ دوسرے بھی شریک ہیں) اور سچی بات کو (یعنی قرآن) کو جبکہ وہ اس کے پاس (رسول کے ذریعہ) پہنچی جھٹلا دے (تو ایسے شخص کا بڑا ظالم ہونا بھی ظاہر ہے اور ظلم کا مستحق ہونا بڑے عذاب کا بھی ظاہر ہے اور بڑا عذاب جہنم کا ہے تو) کیا (قیامت کے دن) جہنم میں ایسے کافروں کا ٹھکانہ نہ ہوگا (یہ فیصلہ تو باطل پرستوں کا ہوا) اور (برخلاف ان کے) جو لوگ سچی بات لے کر خدا کی طرف سے یا رسول کی طرف سے لوگوں کے پاس) آئے اور (خود بھی) اس کو سچ جانا (یعنی یہ لوگ صادق بھی ہیں اور مصدق بھی جیسا کہ پہلے لوگ کاذب بھی تھے اور مکذب بھی) تو یہ لوگ پرہیزگار ہیں (ان کا فیصلہ یہ ہوگا کہ) وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لئے پروردگار کے پاس سب کچھ ہے یہ صلہ ہے نیکوکاروں کا (اور یہ صلہ ان کے لئے اس واسطے تجویز کیا) تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے برے عملوں کو دور کرے اور نیک کاموں کے عوض ان کو ان کا ثواب دے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْہِ شُرَكَاۗءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ۝ ٠ ۭ ہَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا۝ ٠ ۭ اَلْحَمْدُ لِلہِ۝ ٠ ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٢٩ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ شكس الشَّكْسُ : السّيّئ الخلق، وقوله تعالی: شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أي : متشاجرون لِشِكَاسَةِ خُلُقِهِمْ. ( ش ک س ) الشکس بد مزاج کو کہتے ہیں اور آیت کریمہ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج ) اور بد خو ۔ یعنی اپنی بد مزاجی کی وجہ سے باہم جھگڑا کرنے والے ہیں ۔ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو کیا ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے اسی طرح مومن و کافر ہرگز برابر نہیں ہوسکتے الحمدللہ کہ وحدانیت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے مگر مگر اکثر ان میں سے قرآنی مثالوں کو نہیں سمجھتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ { ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآئُ مُتَشَاکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ } ” اللہ نے مثال بیان فرمائی ہے ایک شخص کی جس میں بہت سے آپس میں ضد رکھنے والے آقا شریک ہیں اور ایک وہ شخص ہے جو پورے طور پر ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ “ یہ تمثیل ” توحید عملی “ کا مفہوم واضح کرنے کے لیے بیان فرمائی جا رہی ہے۔ یہ دو غلاموں کی حالت کا تقابل ہے۔ ایک غلام کے کئی آقا ہیں اور وہ بھی ضدی ‘ مختلف الاغراض اور مختلف مزاج رکھنے والے۔ اور دوسرا غلام وہ ہے جس کا ایک ہی آقا ہے۔ مقامِ غور ہے کہ اگر چار آپس میں ضد رکھنے والے اور تند خو آدمیوں نے مل کر ایک غلام خرید رکھا ہے تو اس غلام کی جان تو ہر وقت مصیبت میں پھنسی رہے گی۔ ایک آقا اسے بیٹھنے کا کہے گا تو دوسرا اٹھنے کا حکم دے گا۔ تیسرا کوئی اور فرمائش کرے گا اور چوتھا کچھ اور کہے گا۔ وہ بےچارا ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسرا ناراض ہوجائے گا۔ الغرض ایسے غلام کے لیے ایک وقت میں اپنے سب آقائوں کو خوش رکھنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی غلام کا ایک ہی آقا ہو تو اس کے لیے اپنے اس آقا کو خوش کرنا اور مطمئن رکھنا بہت آسان ہوگا۔ اس مثال کی اہمیت انتظامی امور کے حوالے سے بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ اگر کسی ملک یا ادارے کا ایک مقتدر سربراہ ہوگا تو اس کا نظام درست رہے گا ‘ لیکن جہاں متوازی حکم چلانے والے کئی سربراہ ہوں گے تو وہاں لازمی طور پر فساد مچ جائے گا۔ اب اس مثال کی روشنی میں شرک اور توحید کے معاملے کو دیکھیں تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اگر تم ایک اللہ کے بندے بن کر رہو گے تو سکون اور چین سے رہو گے۔ اگر مختلف شخصیات اور دیوی دیوتائوں کے پجاری بنو گے تو مصیبت میں پھنس جائو گے۔ ایک کو خوش کرو گے تو دوسرا ناراض ہوجائے گا۔ آخر کس کس معبود کی پوجا کرو گے ؟ کتنے آقائوں کے حضور نذرانے پیش کرو گے ؟ اور کہاں کہاں جا کر پیشانی رگڑو گے ؟ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ! { ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا } ” کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں مثال میں ؟ “ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” کل ُ تعریف اللہ کے لیے ہے ‘ لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ “ یعنی بات واضح ہوگئی کہ توحید ہی صحیح راستہ ہے ‘ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا جانتے بوجھتے ناسمجھ بنے بیٹھے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48 Allah in this parable has explained the difference between shirk and Tauhid and the impact each has on human life so clearly that it is not possible to put across such a vast theme so concisely and effectively in other words. Everyone will admit that the person who has many masters, each one pulling hire to himself, and the masters also so ill-tempered that no one spares him time in his service to obey the other, and no one rests content only with threatening and cursing him if he fails to carry out his command from among the contradictory commands of the other masters, but is bent upon punishing him, his life would certainly be in great anguish. On the contrary, the person who is the slave or servant of only one master, would be living a life of ease and comfort because he will not have to serve and seek the pleasure of another master. This is such a straightforward thing which dces not need deep consideration for its understanding. After this it remains no longer difficult for a person to understand that the peace of mind and satisfaction that accrue to him from the service of One God, can never accrue from the service of many gods. Here, it should be understood well that the parable of many ill-tempered and contesting masters cannot apply to the images of stone, but it only applies to living masters, who practically give contradictory commands to man and keep pulling him to themselves in actual reality. One such master sits in one's own self, which presents before him desires of every kind and compels him to fulfil them. Other countless masters are there in the house, in the family, in the brotherhood, in the society, among the religious guides and the rulers and legislators, in the business and economic circles and among the dominant powers of civilization whose contradictory demands and requirements keep on pulling man to themselves at All times; then any god whose demand he fails to fulfll in any way, dces not Iet him go unpunished in his own circle. However, each one's instrument of punishment is different. Someone causes a heart-break, another takes offence, another humiliates, another boycotts, another bankupts, another makes a religious or a legal attack. Man has no other way of being saved from this anguish and agony but to adopt the Way of Tauhid and become the slave of One God, and throw off the yoke of servitude of every other god. Adoption of the Way of Tauhid also has two forms, which lead to different results: First, that an individual should decide to become the servant of One God individually but his environment is hostile. In this case the external conflict and his anguish and agony might increase, but if he has adopted the Way sincerely, internal peace and satisfaction will necessarily accrue. He will turn down every such desire of the self as goes against the Divine Commands, or whose fulfillment may clash with the demands of God-worship. He will also reject every such demand of the family, society, nation, government, religious guides and economic powers that conflicts with the Divine Law. Consequently, he might have to face extreme hardships, rather he will surely face, but his heart will have full satisfaction that he is fulfilling the demand of the servitude of that God Whose servant he actually is, and that those whose servant he is not, have no right on him, because of which he may have to serve them against the Command of his God. No power of the world can deprive him of this satisfaction of the heart and peace of mind; so much so that even if he has to go to the gallows for its sake, he will go to it with a clear conscience, and he will have no compunction as to why he did not save his life by bowing before the false gods. The second form is that the whole society be established on the basis of the Tauhid imbibing the principles of morality, civilization, culture, education, religion, law, social custom, politics, economics in every sphere of life as a creed, which the Master of the Universe has given through His Book and His Messenger. The law should declare as a crime everything which God's religion has declared sinful and the government administration should try to eradicate the same; the system of education and training should prepare the minds and character to avoid the same; the same should be condemned from the religious pulpit, and regarded as vicious and forbidden in every economic enterprise. Likewise, everything that Allah's religion has declared as good and virtuous should be protected and defended by the law, developed by the administrative forces, impressed in the minds and instilled in character by the entire system of education and training, infused from the religious pulpit, admired by the society and followed by it practically and enforced in every economic enterprise. This is how man can attain to perfect internal and external peace and satisfaction, and all the doors to material and spiritual progress are thrown open, for the conflict in it between God-worship and the worship of others would be reduced to the minimum. Although Islam invites every single individual to adopt Tauhid as his creed and to worship Allah alone, braving every danger and hardship, even in the absence of the established order, it cannot be denied that Islam's ultimate aim and object is to establish this second order, and the same has been the objective of the endeavors of all the Prophets: to bring into existence a community of the Muslims, who should follow Allah's religion collectively, free from the domination and influence of unbelief and the unbelievers, No one. unless he is unaware of the Qur'an and the Sunnah and senseless, can say that the objective of the Prophets' struggle has been only the faith and obedience of the individual, and that it has never been their aim to enforce and establish Islam in the society and state. 49 Here, in order to understand the real significance of al-hamdu-lillah (praise be to Allah), one should visualise this scene: after presenting the above question before the people the speaker observed a pause so that the opponents of Tauhid could give an answer to it if they had any. Then, when they could not give any answer, and from nowhere it was said that both were equal, the speaker said: "AI-hamdu-lillah: Thank God that you too appreciate the difference between the two situations and none among you can dare say that slavery to many masters is better than slavery to one master, or that both are equal. " 50 That is, "You fully understand and appreciate the difference between to many masters, but when you arc made to God-worship and the worship of many gods, slavery to one master and slavery understand the difference between you show lack of understanding. "

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :48 اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے ۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں ، اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو ، اور وہ مالک بھی ایسے بد مزاج ہوں کہ ہر ایک اس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو ، اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تل جاتا ہو ، اس کی زندگی لامحالہ سخت ضیق میں ہو گی ۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو اور کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے ۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے غور و تامل کی حاجت نہیں ہے ۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خداؤں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آ سکتا ۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقاؤں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ ان جیتے جاگتے آقاؤں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں ۔ پتھر کے بت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بلاتے ہیں ۔ یہ کام تو زندہ آقاؤں ہی کے کرنے کے ہیں ۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے ۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں ، خاندان میں ، برادری میں ، قوم اور ملک کے معاشرے میں ، مذہبی پیشواؤں میں ، حکمرانوں اور قانون سازوں میں ، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں ، اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں ۔ کوئی دل مسوستا ہے ۔ کوئی روٹھ جاتا ہے ۔ کوئی نکو بناتا ہے ۔ کوئی مقاطعہ کرتا ہے ۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے ، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے ۔ اس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکے ۔ توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں ۔ ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خدائے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گرد و پیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو ۔ اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلے زیادہ بڑھ جائے ، لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آ جائے گا ۔ وہ نفس کی ہر اس خواہش کو رد کر دے گا جو احکام الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے پورے نہ کیے جا سکتے ہوں ۔ وہ خاندان ، برادری ، قوم ، حکومت ، مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو ۔ اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں ، بلکہ لازماً پہنچیں گی ۔ لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں ، اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجا لاؤں ۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی ۔ حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑ جائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوا نہ ہو گا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خداؤں کے آگے سر جھکا کر اپنی جان بچا لی ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اسی توحید کی بنیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق ، تمدن ، تہذیب ، تعلیم ، مذہب ، قانون ، رسم و رواج ، سیاست ، معیشت ، غرض شعبہ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خداوند عالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ سے دیے ہیں ۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے ، قانون اسی کو جرم قرار دے ، حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے ، تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے ، منبر و محراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو ، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھہرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے ۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے ، قانون اسکی حمایت کرے ، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں ، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اسکو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے ، منبر و محراب اسی کی تلقین کریں ، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اس پر قائم کر دے ، اور کاروبار معیشت بھی اسی کے مطابق چلے ۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آ جاتا ہے اور مادی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں ، کیونکہ اس میں بندگیٔ رب اور بندگیٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے ۔ اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو ، بہرحال وہ توحید ہی کو اپنا دین بنا لے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرنا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک امت مسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے ۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف ہو اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو ، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاء علیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے ، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ و قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :49 یہاں الحمد لِلہ کی معنویت سمجھنے کے لیے یہ نقشہ ذہن میں لایئے کہ اوپر کا سوال لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد مقرر نے سکوت کیا ، تاکہ اگر مخالفین توحید کے پاس اس کا کوئی جواب ہو تو دیں ۔ پھر جب ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور کسی طرف سے یہ آواز نہ آئی کہ دونوں برابر ہیں ، تو مقرر نے کہا الحمد لِلہ ۔ یعنی خدا کا شکر ہے کہ تم خود بھی اپنے دلوں میں ان دونوں حالتوں کا فرق محسوس کرتے ہو اور تم میں سے کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ ایک آقا کی بندگی سے بہت سے آقاؤں کی بندگی بہتر ہے یا دونوں یکساں ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :50 یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خداؤں کی بندگی کا فرق جب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: جو غلام کئی آدمیوں کی مشترک ملکیت میں ہو، اور وہ کئی آدمی بھی آپس میں جھگڑتے رہتے ہوں، وہ ہمیشہ پریشانی کا شکار رہتا ہے کہ کس کا کہنا مانوں، اور کس کا نہ مانوں، اس کے برخلاف جو غلام کسی ایک ہی آقا کی ملکیت میں ہو، اسے یہ پریشانی پیش نہیں آتی، وہ یکسو ہو کر اپنے آقا کی اطاعت کرسکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص توحید کا قائل ہے، وہ ہمیشہ یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتا ہے، اور اسی کی عبادت کرتا ہے، اس کے برخلاف جن لوگوں نے کئی کئی خدا گھڑ رکھے ہیں، وہ کبھی ایک جھوٹے دیوتا کا سہارا لیتے ہیں، کبھی دوسرے کا، اور انہیں یکسوئی میسر نہیں آتی۔ اس طرح یہ مثال توحید کی دلیل بھی ہے اور اس کی حکمت بھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٩۔ ٣١ شرک کی برائی اور توحید کی خوبی کی جس طرح ایک مثال اوپر گزری اس طرح کی یہ دوسری مثال ہے عرب میں غلاموں کا بہت دستور ہے۔ اس دستور کے موافق کسی غلام کا ایک آقا ہے اور کسی کے کئی آقا ہیں۔ پچھلی صورت میں آقا تو جدا جھگڑے رہتے ہیں مثلاً کوئی غلام کو بازار میں بھیج کر خریدو فروخت کی خدمت چاہتا ہے اور کوئی غلام سے گھر کا کام لینا چاہتا ہے غلام جدا کش مکش میں رہتا ہے کہ ایک آقا کی خدمت کرے تو دوسرا ناراض ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں ١ ؎ کہ یہ مثال مشرک اور صاحب توحید کے باب میں ہے کہ کیونکہ جو شخص ایک آقا کا غلام ہے اس کا آقا اس کی خبر گیری کرتا ہے اور وہ اپنے آقا کی دل سے خدمت بجا لاتا ہے یہی حال صاحب توحید ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی کا فرمانبرداری کرتا ہے اور وہ مالک حقیقی اس کو رزق دیتا ہے۔ اور جو شخص کئی آقاؤں کی غلامی کی کش مکش میں ہے اس کا حال مشرک کا ہے کہ جھوٹے مالکوں کی فرمانبرداری کے سبب سے مالک حقیقی اس سے ناخوش ہے اور ظاہر میں اگرچہ مشرک شیطان کے بہکانے سے اس مالک حقیقی کی فرمانبرداری میں غیروں کو شریک کرتے ہیں مگر ان کے دل جانتے ہیں کہ مصیبت کے وقت سوا اس مالک حقیقی کے اور کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اس واسطے مصیبت کے وقت یہ لوگ خالص اللہ ہی سے مصیبت ٹل جانے کی التجا کرتے ہیں چناچہ کشتی کی سواری اور ڈوبنے کی خوف کے وقت ان لوگوں کی جو حالت ہوتی ہے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ الحمد اللہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات پاک میں جو خوبی ہے اس کو نافرمانوں کے دل بھی جانتے ہیں بل اکثرھم لایعلمون اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اگرچہ اللہ تعالیٰ کی خوبی کو ان لوگوں کے دل جانتے ہیں مگر راحت کے وقت شیطان کے بہکانے سے ان میں سے اکثر لوگ اس حالت پر قائم نہیں رہتے عرب میں شاعر بہت ہوتے ہیں اور عرب لوگ جن شاعروں کو اپنا مخالف سمجھتے تھے ان شاعروں کی موت کی تمنا کیا کرتے تھے قریش بھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر خیال کر کے آپ کی وفات کی تمنا کیا کرتے تھے اسکا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ موت سے تو کوئی بچنے والا نہیں لیکن بہکانے والوں کے بہکانے سے اب یہ لوگ اللہ کے رسول کو شاعر بتلاتے رہے ہیں قیامت کے دن جب یہ بہکنے والے اور بہکانے والے اللہ تعالیٰ کے رو برو جھگڑیں گے اور ایک دوسرے کو لعن طعن کرے گا اس وقت اصل حال کھل جائے گا ان مشرکوں کا اپنے بہکانے والوں اور سب بہکانے والوں کے سرگروہ شیطان سے قیامت کے دن جو جھگڑا ہوگا کا ذکر سورة ابراہیم اور سورة سبا میں گزر چکا ہے وہی آیتیں ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصون کی تفسیر میں ہے صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے۔ کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے۔ اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل۔ اس حدیث کو پہلی آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت میں جو مثال بیان کی گئی وہ ہر وقت قریش کی آنکھوں کے سامنے تھی کیونکہ قوم کے لوگوں میں سینکڑوں غلام ان دونوں قسموں کے موجود تھے۔ جن کا ذکر آیت میں ہے اس واسطے جو حالت دونوں قسموں کے غلاموں کی آیت میں ہے۔ وہ قریش میں ہر شخص خوب جانتا تھا اور جس بات کے جتلانے کے لئے یہ مثال بیان کی گئی تھی مکہ کے قحط کے وقت وہ بات بھی ظہور میں آچکی تھی۔ کہ اس قحط میں ان بت پرستوں کے بت کچھ کام نہ آئے یہ سب کچھ تو تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ان میں سے جو لوگ دوزخ میں جھونکنے کے قابل قرار پا چکے تھے ان کو نہ آیت کی مثال نے کچھ ہوشیار کیا نہ مکہ کے قحط کے تجربہ نے۔ آخر انجام یہ ہوا کہ بدر کی لڑائی کے وقت وہ شرک کی حالت میں مارے گئے۔ اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے۔ جس عذاب کے جتانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پا لیا۔ چناچہ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی انس بن مالک کی روایت سے یہ قصہ اوپر گزر چکا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٢ ج ٤) (٢ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٤) (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:29) ضرب اللّٰہ مثلا رجلا فیہ شرکاء متشکسون۔ مثلا مفعول ضرب ، رجلا بدل ہے مثلا کا۔ شرکاء مبتداء فیہ خبر مقدم ۔ متشکسون مبتداء کی صفت اور پورا جملہ فیہ شرکاء متشکسون صفت ہے رجلا کی۔ فیہ میں ہ ضمیر کا مرجع رجلا ہے متشاکسون۔ اسم فاعل جمع مذکر تشاکس تفاعل مصدر سے باہم جھگڑنے والے۔ باہم مخالفت کرنے والے۔ شکس یشکس شکاسۃ (باب کرم) اور شکس یشکس لشکس (باب سمع) بدمزاج ہونا۔ لہٰذا متشاکسون بدمزاج۔ مختلف المزاج۔ باہم مخالفت کرنے والے۔ رجلا مابعد کی عبارت بتاتی ہے کہ یہ ایک غلام شخص کی مثال ہے جس کے کئی مالک ہیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ اللہ تعالیٰ ایک مثال دیتا ہے کہ ایک غلام ہے جس میں کئی ساجھی ہیں جو باہم ضد رکھنے والے یا جھگڑنے والے۔ بدخو ہیں۔ ورجلا سلما لرجل : ای وضرب اللّٰہ مثلا رجلا سلما لرجل (اور اللہ تعالیٰ مثال بیان فرماتا ہے) ایک غلام کی جو پورے کا پورا ایک مالک کا ہے۔ سلما پورا سالم۔ سلم یسلم (سمع) کا مصدر ہے۔ جس کے معنی خالص اور پورے طور پر کسی دوسرے کے لئے ہوجانے کے ہیں۔ ہل یستوین مثلا : ہل استفہام انکاری کے لئے ہے یستوین مضارع تثنیہ مذکر غائب استواء (افتعال) سے۔ کیا وہ دونوں برابر ہیں۔ مثلا بطور مثال کے کیا دونوں کی حالت یکساں ہے ؟ یعنی یکساں نہیں ہے۔ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں :۔ یہ استفہام تقریری بھی ہے۔ مخاطب کو آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ دونوں غلاموں کی ایک جیسی حالت نہ ہونے کا اقرار کرے۔ یہ حاصل مثل ہے۔ مثال بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے۔ الحمدللّٰہ۔ (مان تو لیا) جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اس مثال کا مقصد مخاطب کو آمادہ بہ اقرار کرنا ہے کہ ایک مشرک اور ایک موحد برابر نہیں ہوسکتے۔ جب مخاطب نے اقرار کرلیا تو کہا شکر ہے اتنا تو مان لیا۔ بل اکثرھم لا یعلمون ۔ بل کا لفظ ابتدائیہ ہے جو جاہلوں کی حالت بیان کر رہا ہے ۔ یعنی مگر بات یہ ہے کہ اکثر لوگ (اپنی جہالت کی وجہ سے) سمجھتے ہی نہیں (کہ خدا کا کوئی ساجھی ہی نہیں ہے اور یہ کہ وہی اصل منعم اور مالک کل ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی وہ بیک وقت کئی جھگڑالو آقائوں کا غلام ہے جن میں سے ہر آقا اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔11 اسے صرف اسی کو راضی رکھنا ہے اور اسی کے حکموں پر چلنا ہے۔ دوسروں سے کوئی غرض نہیں۔12 یعنی ایسی واضح مثال ان کی سمجھ میں نہیں آتی، اس سے بڑی نادانی اور کیا ہوگی ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ پہلی مثال مشترک کی ہے کہ ہمیشہ ڈانواڈول رہتا ہے کبھی غیر اللہ کی طرف دوڑتا ہے، کبھی خدا کی طرف، پھر کبھی غیر اللہ میں بھی ایک پر اطمینان نہیں ہوتا، کبھی کسی کی طرف رجوع کرتا ہے کبھی کسی کی طرف۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید میں بیان کی گئی امثال میں سے ایک مثال۔ قرآن مجید کی پہلی اور بنیادی دعوت ” اللہ “ کی ذات اور اس کی صفات کا شعور حاصل کرنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنا ہے اس لیے توحید کو مختلف انداز اور امثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ مشرک اور موحد کے درمیان فرق سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کی مثال دی ہے۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کئی آقاؤں کا زر خرید غلام ہے۔ جو مختلف مزاج رکھنے والے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر بد اخلاق ہیں۔ اس غلام کو ایک مالک اپنی طرف بلاتا ہے اور دوسرا اپنے پاس آنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک آقا اپنی مرضی کا کام دیتا ہے اور دوسرا اس کے الٹ ڈیوٹی لگاتا ہے۔ اس غلام کی بےبسی اور مظلومیت کا کون تصور کرسکتا ہے کہ جو ایک قدم آگے بڑھانے پر مجبور ہے اور دوسرا قدم پیچھے کی طرف اٹھانے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ جائے تو کہاں جائے حکم مانے تو کس کا مانے۔ گویا کہ وہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا صرف ایک ہی مالک ہے جو نہایت ہی خیر خواہ اور بہت مہربان ہے وہ اسے حکم دیتے ہوئے اس کی طبیعت اور استعداد کا خیال رکھتا ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ کوئی ادنیٰ عقل رکھنے والا شخص بھی انہیں ایک جیسا نہیں کہہ سکتا۔ اسی لیے موحد کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے جس نے اسے صرف اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا اور اس کو دردر کی ٹھوکروں سے بچا لیا۔ اور توحید کے ایسے دلائل دیئے کہ جو ہر دور کے مشرک کو لاجواب کردیتے ہیں لیکن مشرک اس قدر حقیقی علم سے بیخبر ہوتا ہے کہ وہ دو غلاموں کا فرق سمجھنے اور اس سچائی کو جاننے کے باوجود صرف اللہ کی بندگی اور بہت سے خداؤں کی بندگی میں فرق کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی مشرک اور موحد کا فرق ہے۔ موحد کا عقیدہ ہے کہ میرا رب میری طاقت سے زیادہ مجھ پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت اور خیر خواہی ہوتی ہے جس بنا پر موحّد عُسر اور یسر، خوشی اور غمی میں اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرک نہ اپنے رب کے حکم کی اتباع کرتا ہے اور نہ ہی اس کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے رب کا حکم ہے کہ میرے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے اور نہ میرے حکم کے خلاف کسی کا حکم تسلیم کیا جائے۔ مشرک نہ اپنے رب کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے اور نہ اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ ایک رب کی عبادت کرنے کی بجائے جگہ جگہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ ایک مالک کا حکم ماننے کی بجائے کبھی کسی ڈکیٹر کا حکم مانتا ہے اور کبھی جمہوریت کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرتا ہے۔ وہ ایک رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے جو حقیقتاً اللہ کی اطاعت ہے کئی اماموں اور بزرگوں کی اطاعت کا دم بھرتا ہے۔ کیا ” اللہ “ اور اس کے رسول کی تابعداری بہتر ہے یا کئی خداؤں اور بہت سے اماموں کی تابعداری بہتر ہے ؟ پھر سوچ لیجیے کہ دونوں میں کون بہتر ہے ؟ لیکن مشرک اس حقیقت کو پانے کے لیے تیار نہیں۔ مسائل ١۔ کیا ایک کی غلامی بہتر ہے یا کئی آقاؤں کی غلامی بہتر ہے ؟ ٢۔ کیا ایک الٰہ کا بندہ بننا اور اس کی عبادت کرنا بہتر ہے یا کئی خداؤں کا بندہ بننا اور ان کے سامنے جھکنا بہتر ہے ؟ ٣۔ کیا حاکم حقیقی کا حکم ماننا بہتر ہے یا کسی ڈکٹیٹر اور جمہوریت کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرنا بہتر ہے ؟ ٤۔ کیا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بہتر ہے یا درجنوں خداؤں، کئی اماموں اور پیروں کی تابعداری بہتر ہے ؟ ٥۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے انسان کو صرف اپنی بندگی کا حکم دیا ہے۔ ٦۔ لوگوں کی اکثریت حقائق جاننے اور انہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن قرآن کی امثال : ١۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو ؟۔ (الزمر : ٢٩) ٢۔ ناکارہ اور کار آمد غلام کی مثال۔ (النحل : ٧٦) ٣۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج : ٣١) ٤۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر : ٢١) ٦۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر : ٢٠) ٧۔ اندھے، دیدے، بہرے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود : ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(الْحَمْدُ لِلَّہِ ) سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہدایت نازل فرمائی اور توحید کی دعوت دی اور مشرکوں کی گمراہی اور حماقت سے آگاہ فرمایا۔ (بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) (بلکہ ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے) حق اور ناحق میں تمیز کرنا ہی نہیں چاہتے۔ (قولہ تعالیٰ ” متشاکسون “ قال الراغب فی مفرداتہ الشکس : السئ الخلق وقولہ شرکاء متشاکسون ای متشاجرون لشکاسۃ خلقھم۔۔ اھ قال صاحب الروح والمعنی ضرب اللّٰہ تعالیٰ مثلاً للمشرک حسبما یقود الیہ مذھبہ من ادعاء کل من معبودیہ عبودیتہ عبدا یتشارک فیہ جماعۃ متشاجرون لشکاسۃ اخلاقھم وسوء طبائعھم یتجاذبونہ ویتعاورونہ فی معماتھم المتباینۃ فی تحیرہ وتوزع قلبہ) ” اللہ تعالیٰ کا ارشاد (متشاکسون) اس کے بارے میں امام راغب اپنی کتاب مفردات القرآن میں لکھتے ہیں ” الشکس “ کا معنی ہے بدخلق اور اللہ تعالیٰ کے قول (شرکاء متشاکسون) یعنی ایسے شرکاء جو اپنی بدخلقی کی وجہ سے آپس میں لڑنے والے ہیں (الی الآخر) “ ” تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) فرماتے ہیں اس کا معنی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک کی مثال بیان فرمائی ہے کہ مشرک کو جب اس کا مذہب اپنے معبودوں میں سے ہر ایک کی عبادت کی دعوت دیتا ہے تو اس کی حیرانی اور بےیقینی کی حالت کی مثال اس غلام کی ہے جس کی ملکیت میں ایک گروہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنی بدخلقی کی وجہ سے لڑتا رہتا ہو ہر ایک غلام کو اپنی طرف کھینچتا ہو اور ہر کوئی دوسرے کے کام سے مختلف اپنے کام میں استعمال کرنا چاہتا ہو۔ “

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 31:۔ ” ضرب اللہ الخ “ یہ مومن اور مشرک کی تمثیل ہے ایک وہ غلام ہے جس میں بہت سے آدمی شریک ہیں۔ جو نہایت بد اخلاق، جھگڑا لو اور انصاف ناپسند ہیں۔ ان میں ہر ایک بوقت ضرورت اس کو اپنی خدمت کے لیے بلاتا ہے۔ اب وہ پریشان حیران ہے کہ کس کے حکم کی تعمیل کرے۔ ایک کو خوش رکھتا ہے تو دوسرا ناخوش ہے۔ دوسرے کو راضی کرتا ہے تو تیسرا ناراض ہے۔ اور ایک وہ غلام ہے جس کا صرف ایک آقا ہے اور وہ پورے اخلاص کے ساتھ اس کی خدمت کرتا اور اس کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ خود ہی فیصلہ کرو۔ یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا ان کا حال یکساں ہے ؟ اگر نہیں تو دونوں میں سے کس کا حال اچھا ہے ؟ مشرک کی مثال پہلے غلام کی سی ہے جو بیشمار خداؤں کی عبادت کرتا ہے اور مومن کی مثال دوسرے غلام کی سی ہے جو صرف خدائے واحد کی عبادت کرتا اور حاجات صرف اسی کو پکارتا اور صرف اسی کو رضا جوئی کے لیے اسی کے نام کی نذریں، منتیں دیتا ہے۔ ظاہر کے مومن کا حال مشرک سے بدرجہا بہتر ہے۔ وھذا مثل ضربہ اللہ تعالیٰ للکافر الذی یعبد الہۃ شتی والمومن الذی یعبد اللہ وحدہ فکان حال المؤمن الذی یعبد الھا واحدا احسن واصلح من حال الکافر الذی یعبد الہۃ شتی (خازن ج 6 ص 74) ۔ 32:۔ ” الحمد للہ “ یہ دلیل سابق کا ثمرہ ہے۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ آسمان سے بارش برسا کر لہلہاتے کھیت پیدا کرنا اور مخلوق کو روزی بہم پہنچانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ تمام صفات کا رسازی بھی اسی کے ساتھ مختص ہیں اور وہی ہر قسم کی عبادت کے لائق ہے۔ ” ابل اکثرہم لا یعلمون “ ایسے مدلل اور روشن بیانات کے بعد شبہ کی گنجائش تو نہ تھی لیکن پھر بھی اکثر لوگ نادان ہیں ان میں غور و فکر نہیں کرتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک شخص غلام ہے جس میں بہت سے مالک شریک ہیں یہ شر کا بھی آپس میں ایک دوسرے کے سخت مخالف اور بداخلاق ہیں اور ایک اور شخص غلام ہے جو سالم ایک ہی شخص کا مملوک ہے کیا ان دونوں غلاموں کی حالت یکساں ہوسکتی ہے سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہیں مگر ان کافروں کے اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ کیا عجب مثال ہے فرض کرو ایک غلام کے چند آقا ہیں وہ اپنی خدمت کے لئے طلب کرتا ہے یہ اپنی خدمت کے لئے طلب کرتا ہے نان نفقہ میں ایک دوسرے پر ٹالتا ہے آقائوں میں کھینچا تانی ہے اس کے کام میں دیر ہوجائے تو یہ ناراض اس کے حکم کی تعمیل میں تاخیر ہوجائے تو وہ ناراض غرض یہ غلام ہر وقت پریشان ہے اور ایک غلام صرف ایک ہی آقا کا غلام ہے آقا اس کی تمام ضروریات کا کفیل اور یہ ہمہ تن اس کی خدمت کے لئے وقف کہاں اس کا اطمینان اور کہاں اس کی پریشانی اور تحیر دونوں برابر نہیں یہی فرق ہے ایک مشرک اور مومن میں۔ الحمد اللہ ! یعنی حق ثابت ہوگیا لیکن ان مشرکوں میں سے اکثر سمجھ سے کام نہیں لیتے کیونکہ سمجھنے کا قصد ہی نہیں کرتے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک غلام جو کئی شخص کا ہو کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے تو اس کی پوری خبر نہ لے اور ایک غلام جو سارا ایک کا ہو وہ اس کو سمجھے اور پوری خبر لے یہ مثال ہے جو ایک رب کے بندے ہیں اور جو کوی رب کے بندے۔ خلاصہ : یہ کہ ایک چند جھگڑالو بداخلاق آقائوں کا غلام اور ایک صرف حضرت حق تعالیٰ کا غلام، اللہ تعالیٰ اس کا مربی اور پروردگار جو اطمینان اس کو میسر ہوسکتا ہے وہ اطمینان اس مشرک کو کہاں میسر ؟۔