Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 30

سورة الزمر

اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾

Indeed, you are to die, and indeed, they are to die.

یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, you will die, and verily, they (too) will die. This is one of the Ayat which Abu Bakr As-Siddiq, may Allah be pleased with him, quoted when the Messenger of Allah died, so that the people would realize that he had really died. Another Ayah which he quoted was: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَـبِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْياً وَسَيَجْزِى اللَّهُ الشَّـكِرِينَ Muhammad is no more than a Messenger, and indeed (many) Messengers have passed away before him. If he dies or is killed, will you then turn back on your heels? And he who turns back on his heels, not the least harm will do to Allah; and Allah will give reward to those who are grateful. (3:144) The meaning of this Ayah is that you will certainly depart this world and be gathered before Allah in the Hereafter. You will dispute the issues of Tawhid and Shirk before Allah, things over which you disputed in this world, and He will judge between you with truth, and He is the Judge, the All-Knowing. So, He will save the sincere believers who worship Him alone, and He will punish the disbelievers who deny His Oneness and associate others in worship with Him. Although this Ayah speaks about the believers and disbelievers, and how they will dispute in the Hereafter, it also includes all disputants in this world, for their disputes will come back to them in the Hereafter. Ibn Abi Hatim, may Allah have mercy on him, recorded that Ibn Az-Zubayr, may Allah be pleased with him, said, "When the Ayah ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِندَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] کفار مکہ بسا اوقات یہ آرزو کرتے تھے کہ اگر یہ نبی مرجائے تو سارے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ اس آیت میں ان کی اسی بری آرزو کا نہایت سنجیدہ انداز میں جواب دیا گیا ہے اور اس نبی کو ہی مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ اگر آپ کو موت آتی ہے تو یہ کیا موت سے بچ سکتے ہیں ؟ پھر یہ کیا معلوم پہلے موت کس کو آئے گی ؟ موت آنے کی حد تک تو سب یکساں ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ موت کے بعد کس کا انجام بخیر ہوگا۔ اور کون اپنی سرکشی کی پاداش میں ماخوذ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْن : یعنی اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں، ہمیشہ نہ تجھے رہنا ہے نہ ان کو، یقیناً تو مرنے والا ہے اور یقیناً وہ بھی مرنے والے ہیں۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وعدہ اور بشارت ہے کہ آپ کی دنیا کی محنت و مشقت اور تمام رنج ختم ہونے والے ہیں اور آپ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور ہمیشہ کی راحت و آرام والی جنت میں جانے والے ہیں، اور کافروں کے لیے وعید ہے کہ ان کی مہلت ختم ہونے والی ہے اور وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہو کر اپنے کفر و شرک کا حساب دینے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں کو ان کی موت یاد دلا کر اس کی تیاری کی یاد دہانی بھی ہے۔ 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوجائیں گے، تاکہ آپ کی موت کے متعلق لوگوں میں اختلاف واقع نہ ہو اور وہ آپ کی پرستش نہ کرنے لگیں، جیسا کہ پہلی امتوں میں اپنے انبیاء کی وفات کے متعلق اختلاف واقع ہوا۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر اکثر لوگوں نے تسلیم نہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوچکے ہیں، جن میں عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ابوبکر (رض) نے یہ آیت اور سورة آل عمران کی آیت (١٤٤) : ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ) پڑھ کر اعلان کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے۔ [ دیکھیے بخاري، فضائل أصحاب النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب : ٣٦٦٧، ٣٦٦٨] سورة آل عمران کی آیت (١٤٤) کی تفسیر بھی دیکھ لیں۔ اس پر عمر (رض) اور دوسرے صحابہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور تمام صحابہ کا اتفاق ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل اور کفن دے کر دفن کردیا، ورنہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندہ کبھی دفن نہ کرتے۔ افسوس ! قرآن کی واضح آیات اور صحابہ کرام (رض) کے اجماع کے باوجود کچھ لوگوں کو اصرار ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی دنیوی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں۔ چناچہ ایک صاحب لکھتے ہیں : ” انبیاء کی موت ایک آن کے لیے ہوتی ہے، پھر انھیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔ “ سوال یہ ہے کہ اگر اس حیات سے مراد برزخ کی زندگی ہے تو وہ تو نیک و بد سب کو عطا ہوتی ہے اور برزخ میں جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے انبیاء کی شان سب سے اونچی ہے اور ان کو عطا ہونے والے انعامات بھی بےحساب ہیں، اس زندگی سے کسی کو بھی انکار نہیں، مگر اس کے لیے موت ضروری ہے، کیونکہ یہ موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک آن کے بعد انھیں دنیوی زندگی عطا کردی جاتی ہے، تو پھر انبیاء کے جاں نثار صحابہ انھیں دفن کیوں کردیتے ہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوموار کے دن فوت ہوئے اور بدھ کے دن آپ کو دفن کیا گیا، تو کیا اس وقت تک وہ آن پوری نہ ہوئی تھی اور صحابہ کو معلوم نہ ہوا تھا کہ آپ کو پھر حیات عطا ہوچکی ہے۔ کیا انھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفن کرنے پر اتفاق کرلیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندہ دفن کردیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی زندہ ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ دفن ہوگئے ؟ (فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا ) [ النساء : ٧٨ ] ” تو ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verse 30, it was said: إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ (Verily, you are to die and they are to die). The word: مَيِّتٌ (mayyit) with a doubling sound on the letter: اَلیاء (al-ya) denotes someone who will die in the future and مَیت (mait) with the letter al-ya& remaining quiescent, someone who has died. In this verse, the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and it is being said to him that he too is to die and so are his friends and foes, who will also die. The objective behind the statement is to alert and persuade everyone to be concerned about the Hereafter and be ready to do everything necessary to achieve this goal. Then, as an inter-related side of the subject, the purpose is also to make it very clear that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) too, despite being the most sublime among the creation and the foremost among prophets, is not exempted from death, so that people would not differ about this matter after his passing away from this mortal world (from al-Qurtubi).

معارف ومسائل (آیت) اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ ۔ لفظ میت بتشدید الیاء اس کو کہتے ہیں جو زمانہ مستقبل میں مرنے والا ہو اور میت بسکون الیاء اس کو کہتے ہیں جو مر چکا ہو۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ بھی مرنے والے ہیں اور آپ کے دشمن اور احباب بھی سب مرنے والے ہیں۔ مقصد اس کے بیان کرنے سے سب کو فکر آخرت کی طرف متوجہ کرنا اور عمل آخرت میں لگنے کی ترغیب دینا ہے۔ اور ضمناً یہ بھی بتلا دینا ہے کہ افضل الخلائق اور سید الرسل ہونے کے باوجود موت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مستثنیٰ نہیں۔ تاکہ آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں میں اس پر اختلاف پیدا نہ ہو۔ (از قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّيِّتُوْنَ۝ ٣٠ۡ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠۔ ٣١) اور آپ ان کی باتوں پر غم نہ کریں عنقریب آپ کو بھی لوٹ کر جانا ہے اور ان کفار مکہ کو بھی، پھر قیامت کے دن تم حجت و دلیل کے ساتھ اپنے اپنے مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کرو گے یعنی حضرت نبی اکرم اور کفار مکہ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّـیِّتُوْنَ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یقینا موت آپ پر بھی وارد ہوگی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 There is a subtle gap between the preceding sentence and this, which can be filled by every intelligent person himself by a little consideration of the context. It contains this theme: "You are making every effort to make the people understand a simple thing in a simple way, but they are not only showing stubbornness with regard to what you say and rejecting it but are also bent upon harming you in order to suppress the manifest truth. Well, neither you are immortal nor they : both you and they have to die one day: then, each of you will experience his own end."

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :51 پچھلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے موقع و محل اور سیاق و سباق پر غور کر کے ہر صاحب فہم آدمی خود بھر سکتا ہے ۔ اس میں یہ مضمون پوشیدہ ہے کہ اس اس طرح تم ایک صاف سیدھی بات سیدھے طریقے سے ان لوگوں کو سمجھا رہے ہو اور یہ لوگ نہ صرف یہ کہ ہٹ دھرمی سے تمہاری بات رد کر رہے ہیں ، بلکہ اس کھلی صداقت کو دبانے کے لیے تمہارے درپے آزار ہیں ۔ اچھا ، ہمیشہ نہ تمہیں رہنا ہے نہ انہیں ۔ دونوں کو ایک دن مرنا ہے ۔ انجام سب کے سامنے آ جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:30) انک میت۔ بیشک آپ کو بھی مرنا ہے۔ میت صفت مشبہ کا صیغہ ہے جو دوام و ثبوت پر دلالت کرتا ہے۔ ہر شخص کی موت یقینی ہے۔ اسی لئے یہاں بجائے فعل مضارع کے (تموت وتموتون کے) میت ومیتون استعمال کیا گیا ہے۔ فرا اور کسائی کی تحقیق ہے کہ میت اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو آئندہ مرنے وال ہو ابھی مرا نہ ہو۔ اور میت اس کا بھی کہتے ہیں کہ جس کی جان نکل چکی ہو اس لئے میت اور میتون بہ تشدید ی فرمایا ۔ محلی نے لکھا ہے کہ کفار مکہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد وفات پاجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ بھی یقینا مریں گے اور وہ یعنی کفار مکہ یا سب لوگو بھی مریں گے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے ان کو خوشی نہ ہونی چاہیے۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ ہمیشہ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رہنا ہے اور نہ ان کو، دونوں کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ یہ آیت منجملہ ان آیات کے جن سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رحلت فرما ہوجانے پر استدلال کیا جبکہ بہت سے صحابہ (رض) جن میں سر فہرست حضرت عمر (رض) تھے۔ اسے تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بےعلمی کی انتہا اور اس کے برے نتائج۔ مکہ کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کے دلائل اور اس میں دی جانے والی امثال کے ذریعے توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ بیان فرماتے تو مکہ کے بڑے بڑے لوگ لاجواب ہوجاتے لیکن عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خود ساختہ دعوت از خود ختم ہوجائے گی تھوڑے سے انتظار کی ضرورت ہے اس کے مرنے کے بعد اس کا قصہ بالکل پاک ہوجائے گا۔ نہ اس کا بیٹا ہے جو اس کے مشن کو جاری رکھ سکے اور نہ اس کے ساتھی اتنے زیادہ ہیں جو ہمارا مقابلہ کرسکیں۔ اس موقعہ پر انہیں یہ جواب دیا گیا کہ ان کا کہنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت آجائے گی۔ کیا آپ کو موت آئے گی تو انہوں نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ انہوں نے بھی مرنا ہے اور آپ کو بھی موت آئے گی کیونکہ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ہمیشہ سے ہے اور اس نے ہمیشہ رہنا ہے۔ اسی کے سامنے قیامت کے دن تنا زعات پیش ہوں گے اور وہی تمہارے تنازعات کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ تنازعات انفرادی ہوں یا اجتماعی، مذہبی ہوں یا سیاسی، مالیاتی ہوں یا فوج داری غرض کے جس قسم کے بھی چھوٹے بڑے تنازعات ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلے صادر فرمائے گا۔ یہاں تک کہ جانوروں کے درمیان بھی عدل کے ساتھ فیصلے کیے جائیں گے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ “ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے کسی نے عرض کیا ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام واکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (مومن موت سے پہلے گھبراتا ہے جب آجاتی ہے تو اپنے مالک کی ملاقات کے لیے خوش ہوجاتا ہے۔ ) مسائل ١۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو بھی موت آئے گی اور آپ کے مخالفوں نے بھی مرنا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن موت سب کو آنی ہے : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ صرف رب رحمن باقی رہے گا۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت تمہیں نہیں چھوڑے گی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے۔ (الزمر : ٣٠) ٦۔ ہر نفس کو موت آئے گی جو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ ( آل عمران : ١٨٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 219 ایک نظر میں یہ سبق اس سے ماقبل کے تمام اسباق پر ایک تبصرہ ہے۔ آسمانوں سے پانی کے نزول کی نشانی بیان کرنے کے بعد مردہ زمین پر روئیدگی پیدا ہوکر فصل کاٹنے تک کی نشانی کے بعد ، اور اللہ کی جانب سے نازل ہونے والی اس کتاب کی نشانیوں کے بعد اور قرآنی امثال کے بیان کے بعد اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ یقین دہانی کرانے کے بعد کہ اکثر لوگ نہیں جانتے ، یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اب بعث بعد الموت کے بعد ہی اللہ تمام حقائق کا فیصلہ کر دے گا۔ لہٰذا تکذیب کرنے والوں کو انکی تکذیب کا بدلہ مل جائے گا اور وہ اس کے مستحق ہوں گے۔ اور بچوں کو سچائی کا وہ صلہ مل جائے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔ درس نمبر 219 تشریح آیات آیت نمبر 30 تا 31 ہر زندہ مخلوق نے اس جام کو ہونٹوں سے لگانا ہے ، باقی رہے گا صرف نام اللہ کا۔ اور موت کے معاملے میں تمام انسان برابر ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جان دیتی ہے اور یہاں اس کا ذکر بھی توحید کے ثبوت کے لیے ہے۔ اور توحید اس سورت کا بڑا موضوع ہے۔ اس کے بعث بعد الموت کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ موت ہی پر معاملہ ختم نہیں ہوجاتا۔ یہ تو ایک مرحلہ ہے۔ اس کے بعد کے مراحل آنے والے ہیں۔ اس لیے کہ مخلوقات میں سے کوئی چیز عبث نہیں ہے کہ ہونہی چلی جائے کہ بس پیدا ہوئے اور مرگئے۔ آج دنیا میں جن موضوعات پر لوگ باہم دست وگریباں ہیں ان پر رب کے ہاں بھی جھگڑے ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے ہاں کھڑے ہوں گے اور وہاں پھر پوچھا جائے گا کہ اب بتاؤ تم رسول اللہ کے مقابلے میں کیا کیا کرتے رہے ہو۔ اور اللہ کی ہدایت اور قرآن کا کیا کیا مقابلہ کرتے رہے ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ ) (بلاشبہ آپ مرنے والے ہیں اور بلاشبہ یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔ ) مطلب یہ کہ آپ منکرین کے بارے میں غمگین نہ ہوں یہ لوگ دنیا میں آپ کی بات نہیں مانتے قیامت کے دن فیصلہ ہوجائے گا اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر دوزخ میں ہوں گے جیسا کہ آئندہ آیات میں بیان فرمایا۔ تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ اہل مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا انتظار کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ اس شخص کو موت آجائے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ بھی وفات پانے والے ہیں اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے۔ دنیا سے تو سب کو ہی جانا ہے اگر یہ لوگ نہ مرتے تو آپ کی وفات ہوجانے سے ان کی جان چھوٹ جاتی۔ سورۃ الانبیاء میں فرمایا (اَفَاْءِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ ) (اگر آپ کی وفات ہوجائے گی تو کیا یہ ہمیشہ رہیں گے) ان کو بھی مرنا ہے اور پیشی بھی ہونی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ ” انک میت الخ “ یہ شبہ مقدرہ کا جواب ہے۔ شبہ یہ تھا مشرکین کہتے تھے جب تک یہ زندہ ہیں اس وقت تک تو یہ ہمارا اور ہمارے معبودوں کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ ہاں البتہ موت ہی اس سے ہمیں خلاصی دلا سکتی ہے۔ جب یہ مرجائے گا تو قصہ پاک ہوجائے گا۔ جیسا کہ دوسری ان کا قول اس طرح نقل کیا گیا ہے ” ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون “ (طور رکوع 2) ۔ جواب میں ارشاد فرمایا موت سے سے کسی مفر نہیں۔ اگر وہ آپ کیلئے موت کے منتظر ہیں تو وہ خود کب تک زندہ رہیں گے۔ جس طرح آپ موت سے دو چار ہونے والے ہیں اسی طرح وہ بھی لقمہ اجل بننے والے ہیں۔ پھر قیامت کے دن تم خدا کے سامنے جھگڑا کرو گے۔ مشرکین کہیں گے۔ ” ماجاءنا من نذیر “ ہمارے پاس تو کوئی پیغمبر آیا ہی نہیں۔ آپ فرمائیں گے میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا مگر تم نے نہ مانا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ محق و مبطل کے درمیان آخری فیصلہ فرمائے گا۔ کانوا یتربصون برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موتہ فاخبر ان الموت یعمہم فلا معنی للتربص و شماتۃ الفانی بالفانی (مدارک ج 4 ص 44) ۔ ” انک میت و انہم میتون “۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفر پر موت کے ورود کو دو مستقل اور مؤکد جملوں میں اس لیے ذکر فرمایا تاکہ مشرکین جو موت سے غافل ہوچکے ہیں خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں۔ نیز آنحضرت پر موت کے درود کو کوئی مستبعد نہ سمجھے۔ وتاکید الجملۃ فی (انہم میتون) للاشعار بانہم فی غفلتۃ عظیمۃ کانہم ینکرون الموت وتاکیدا لاولی دفعا للاستبعاد موتہ (علیہ الصلوۃ والسلام) (روح ج 23 ص 263) ۔ چناچہ جب حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا سانحہ فاجعہ پیش آیا، حضرت عمر (رض) نے شدت حزن و غم سے بےاختیار ہو کر آپ کی موت کا انکار کردیا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جن آیتوں سے استدلال کر کے حضرت عمر (رض) کو آپ کی موت کا یقین دلایا ان میں یہ آیت بھی تھی۔ ھذہ الایۃ من الایات استشہد بھا الصدیق (رض) عند موت الرسول صلی اللہ علیہ حتی تحقق الناس موتہ (ابن کثیر ج 4 ص 52) ۔ اخبرہ بموتہ و موتھم لئلا یختلفوا فی موتہ کما اختلفت الامم فی غیرہ حتی ان عمر ررضی اللہ عنہ لما ان کر موتہ احتج ابوبکر (رض) بہذہ الایۃ فامسک قرطبی ج 15 ص 254) ۔ دو مستقل جملے استعمال کرنے سے دونوں موتوں کی نوعیت یا کیفیت کے اختلاف کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں، جیسا کہ بعض کا خیال ہے بلکہ مستقل اور مؤکد جملوں سے درجات میں تفاوت کے باوجود دونوں کا موت میں متساوی ہونا علی وجہ التاکیدبیان کرنا مقصود ہے۔ الخامس لیعلمہ ان اللہ تعالیٰ قد سوی فیہ بین خلقہ مع تفاضلہم فی غیرہ لتکثر فیہ السلوۃ وتقل فیہ الحسرۃ (ایجا) ۔ باقی رہی انبیاء (علیہم السلام) کی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد عالم برزخ میں زندگی، تو اس پر تمام اہلسنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو عالم برزخ میں نہایت اعلی وا رفع برزخی ھیات حاصل ہے جو بعض اعتبارات سے دنیوی حیات سے بھی اقوی ہے۔ حیات انبیاء (علیہم السلام) کی تحقیق سورة آل عمران کی تفسیر میں حاشیہ 260 ص 193 پر گذر چکی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اے پیغمبر کچھ شک نہیں کہ آپ کو بھی مرنا ہے اور یقینا ان منکروں کو بھی مرنا ہے… یعنی اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو آپ غم نہ کیجئے یہاں سے آپ کو بھی جانا ہے اور ان کو بھی جانا ہے یعنی ہمیشہ یہاں کوئی بھی رہنے والا نہیں بلکہ قیامت میں سب کو ایک جگہ ہونا ہے۔