Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 41

سورة الزمر

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالۡحَقِّ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿٪۴۱﴾  1

Indeed, We sent down to you the Book for the people in truth. So whoever is guided - it is for [the benefit of] his soul; and whoever goes astray only goes astray to its detriment. And you are not a manager over them.

آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لئے نازل فرمائی ہے پس جو شخص راہ راست پر آجائے اس کے اپنے لئے نفع ہے اور جو گمراہ ہو جائے اس کی گمراہی کا ( وبال ) اسی پر ہے آپ ان کے ذمہ دار نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, addressing His Messenger Muhammad: إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ ... Verily, We have sent down to you the Book, (meaning, the Qur'an). ... لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ... for mankind in truth. means, for all of creation, mankind and Jinn, so that he may warn them therewith. ... فَمَنِ اهْتَدَى فَلِنَفْسِهِ ... So, whosoever accepts the guidance, it is only for himself; means, the benefit of that will return to him. ... وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ... and whosoever goes astray, he goes astray only for his (own) loss. means, the consequences of that will return to him. ... وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ And you are not a trustee over them. means, `you are not responsible for guiding them.' إِنَّمَأ أَنتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ But you are only a warner. And Allah is a Trustee over all things. (11:12) فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ your duty is only to convey and on Us is the reckoning. (13:40) Allah is the One Who causes Death and gives Life Then Allah tells us that He is in control of all things and does as He wills. He causes men to die (the "greater death") when He sends the angels to take men's souls from their bodies, and He causes them to "die a lesser death" when they sleep. Allah says: وَهُوَ الَّذِى يَتَوَفَّـكُم بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُم حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَأءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَ It is He, Who takes your souls by night (when you are asleep), and has knowledge of all that you have done by day, then He raises (wakes) you up again that a term appointed be fulfilled, then (in the end) unto Him will be your return. Then He will inform you of that which you used to do. He is the Irresistible, over His servants, and He sends guardians (angels guarding and writing all of one's good and bad deeds) over you, until when death approaches one of you, Our messengers (angels) take his soul, and they never neglect their duty. (6:60-61) Here Allah mentions the two deaths, the lesser death then the greater death after it; in this Ayah He mentions the greater then the lesser. Allah says:

نیند اور موت کے وقت ارواح کا قبض کرنا ۔ اللہ تعالیٰ رب العزت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھ پر اس قرآن کو سچائی اور راستی کے ساتھ تمام جن و انس کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے ۔ اس کے فرمان کو مان کر راہ راست حاصل کرنے والے اپنا ہی نفع کریں گے اور اس کے ہوتے ہوئے بھی دوسری غلط راہوں پر چلنے والے اپنا ہی بگاڑیں گے تو اس امر کا ذمے دار نہیں کہ خواہ مخواہ ہر شخص اسے مان ہی لے ۔ تیرے ذمے صرف اس کا پہنچا دینا ہے ۔ حساب لینے والے ہم ہیں ، ہم ہر موجود میں جو چاہیں تصرف کرتے رہتے ہیں ، وفات کبریٰ جس میں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے انسان کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وفات صغریٰ جو نیند کے وقت ہوتی ہے ہمارے ہی قبضے میں ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے الخ ، یعنی وہ اللہ جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا بٹھاتا ہے تاکہ مقرر کیا ہوا وقت پورا کر دیا جائے پھر تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دے گا ۔ وہی اپنے سب بندوں پر غالب ہے وہی تم پر نگہبان فرشتے بھیجتا ہے ۔ تاوقتیکہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ تقصیر اور کمی نہیں کرتے ۔ پس ان دونوں آیتوں میں بھی یہی ذکر ہوا ہے پہلے چھوٹی موت کو پھر بڑی موت کو بیان فرمایا ۔ یہاں پہلے بڑی وفات کو پھر چھوٹی وفات کو ذکر کیا ۔ اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ملاء اعلیٰ میں یہ روحیں جمع ہوتی ہیں جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی بستر پر سونے کو جائے تو اپنے تہ بند کے اندرونی حصے سے اسے جھاڑ لے ، نہ جانے اس پر کیا کچھ ہو ۔ پھر یہ دعا پڑھے ۔ یعنی اے میرے پالنے والے رب تیرے ہی پاک نام کی برکت سے میں لیٹتا ہوں اور تیری ہی رحمت میں جاگوں گا ۔ اگر تو میری روح کو روک لے تو اس پر رحم فرما اور اگر تو اسے بھیج دے تو اس کی ایسی ہی حفاظت کرنا جیسی تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے ، بعض سلف کا قول ہے کہ مردوں کی روحیں جب وہ مریں اور زندوں کی روحیں جب وہ سوئیں قبض کرلی جاتی ہیں اور ان میں آپس میں تعارف ہوتا ہے ۔ جب تک اللہ چاہے پھر مردوں کی روحیں تو روک لی جاتی ہیں اور دوسری روحیں مقررہ وقت تک کے لئے چھوڑ دی جاتی ہیں ۔ یعنی مرنے کے وقت تک ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ۔ مردوں کی روحیں اللہ تعالیٰ روک لیتا ہے اور زندوں کی روحیں واپس بھیج دیتا ہے اور اس میں کبھی غلطی نہیں ہوتی غور و فکر کے جو عادی ہیں وہ اسی ایک بات میں قدرت الٰہی کے بہت سے دلائل پا لیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 نبی کو اہل مکہ کا کفر پر اصرار بڑا گراں گزرتا تھا، اس میں آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام صرف اس کتاب کو بیان کردینا ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، ان کی ہدایت کے آپ مکلف نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت کا راستہ اپنا لیں گے تو اس میں انہیں کا فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو خود ہی نقصان اٹھائیں گے۔ وکیل کے معنی مکلف اور ذمے دار کے ہیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ہدایت کے ذمے دار نہیں ہیں اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی ایک قدرت بالغہ اور صنعت عجیبہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جس کا مشاہدہ ہر روز انسان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ سو جاتا ہے تو اس کی روح اللہ کے حکم سے گویا نکل جاتی ہے کیونکہ اس کے احساس و ادراک کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو روح اس میں گویا دوبارہ بھیج دی جاتی ہے جس سے اس کے حواس بحال ہوجاتے ہیں البتہ جس کی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہوتے ہیں اس کی روح واپس نہیں آتی اور وہ موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے اس کو بعض مفسرین نے وفات کبری اور وفات صغری سے بھی تعبیر کیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] یعنی ہمارا کام یہ تھا کہ ہم لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک ایسی کتاب نازل کریں جو ٹھوس حقائق پر مبنی ہو تاکہ لوگوں پر اتمام حجت ہوجائے سو ایسی کتاب ہم نے آپ پر نازل کردی ہے اور آپ کا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں اور وہ پیغام آپ نے پہنچادیا۔ لوگوں کو زبردستی ان حقائق کا قائل بنانا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ آگے ہر شخص خود اپنا نفع سوچ لے۔ اگر نصیحت قبول کرے گا تو اس میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے اور اگر اکڑ جائے گا اور مخالفت پر اتر آئے گا تو اس کی سزا خود بھگتے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ ۔۔ : کفار کے کفر پر اصرار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت غم ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے۔ اب جو شخص صحیح راستے پر چلے گا اس کا فائدہ خود اسی کو ہے اور جو گمراہ ہوگا اس کا وبال اسی پر ہے، آپ پر اس کی ذمہ داری نہیں، آپ کا فرض صرف پیغام حق پہنچانا ہے، وہ آپ نے ادا کردیا، آگے معاملہ اللہ کے سپرد کریں، جس کے ہاتھ میں مارنا، زندہ کرنا، سلانا اور جگانا سب کچھ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَـقِّ۝ ٠ ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَلِنَفْسِہٖ۝ ٠ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۝ ٠ ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ۝ ٤١ۧ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہم نے آپ پر یہ قرآن حکیم بذریعہ جبریل نازل کیا ہے جو لوگوں کے سامنے حق و باطل کو واضح کرنے والا ہے سو جو شخص قرآن حکیم کے ذریعے سیدھے راستے پر آئے گا اور اس پر ایمان لائے گا تو اسی کو ثواب ملے گا۔ اور جو شخص قرآن حکیم کا انکار کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا اور آپ ان کفار پر مسلط نہیں کیے گئے کہ آپ سے ان کے بارے میں باز پرس ہونے لگے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ { اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کردی ہے لوگوں کے لیے حق کے ساتھ۔ “ { فَمَنِ اہْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ } ” تو جو کوئی ہدایت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی بھلے کے لیے کرتا ہے۔ “ { وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا } ” اور جو کوئی گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر آئے گا۔ “ { وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ } ” اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے انجام کے بارے میں جوابدہ نہیں ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی حد تک ہے اور قیامت کے دن اسی کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59 That is, °It is not for you to bring them to the Right Path. Your only duty is to present the Right Path before them. If they prefer to remain astray after that, you are not responsible for it."

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :59 یعنی تمہارے سپرد انہیں راہ راست پر لے آنا نہیں ہے ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ ان کے سامنے راہ راست پیش کر دو ۔ اس کے بعد اگر یہ گمراہ رہیں تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:41) بالحق۔ حق و حکمت کے ساتھ ۔ دلائل و شواہد اور مقصد صحیح کے ساتھ۔ فمن۔ موصولہ ہے یا استفہامیہ ۔ فانما یضل علیہا۔ ای وبال ضلالہ علیہا۔ تو اس کے بےراہ ہونے کا (اس کی ضلالت کا) وبال اسی کی جان پر ہوگا۔ ھا ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع نفس ہے۔ وکیل۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے وکل مصدر باب ضرب۔ ذمہ دار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” حقیقت میں ہم ہی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب اتاری ہے “4 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ان پر سیدھی راہ واضح کرنا ہے۔ اس کے بعد اگر یہ اسے اختیار نہ کریں اور گمراہی میں بھٹکتے پھریں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید کے مفہوم میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اپنے اور دوسرے کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں۔ اسی طرح کوئی اپنی اور کسی کی ہدایت اور گمراہی کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن کے وقت لوگوں کی ہدایت کے لیے محنت فرماتے اور رات کو تہجد کی نماز میں ان کے لیے رو رو کر دعائیں کرتے۔ اسکے باوجود لوگ آپ کی مخالفت میں آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ خاطر ہوجاتے۔ جس پر آپ کو تسلی دینے کے ساتھ یہ حقیقت بتلائی گئی ہے کہ ہم نے آپ کی طرف قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی فرمائیں۔ اگر لوگ قرآن مجید سے راہنمائی پانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ دو باتیں یاد رکھیں جن میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جو قرآن مجید سے راہنمائی پائے گا دنیا اور آخرت میں اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ جس نے رہنمائی پانے کی بجائے اپنے لیے گمراہی کو پسند کیا اس کا نقصان بھی اسے ہی اٹھاناپڑے گا کیونکہ ہم نے آپ کو ان کا وکیل نہیں بنایا۔ لہٰذا آپ کا کام لوگوں تک حق بات پہنچانا ہے سو آپ پہنچاتے جائیں۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ بھی ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کی گمراہی کا آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس بات کو یوں بھی بیان فرمایا ہے۔ (فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ) [ الغاشیہ : ٢١] ” آپ انہیں نصیحت کرتے رہیں آپ کا کام بس پہنچانا ہے “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 41 تا 44 انآ انزلنا علیک الکتٰب للناس بالحق (39: 41) ” ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کی ہے “۔ اس کتاب کی ماہیت سچائی ہے۔ یہ جو طرز زندگی اور منہاج حیات انسان کو عطا کرتی ہے ، وہ برحق ہے۔ اس کا قانون برحق ہے اور یہی وہ سچائی ہے جس سے زمین و آسمان قائم ہیں اور وہ نظام جو اس کتاب نے انسانوں کے لئے وضع کیا ہے اور وہ ضابطہ جو اللہ نے اس کائنات کے چلانے کے لیے وضع کیا ، دونوں حق ہیں اور باہم ہم آہنگ اور متوافق ہیں۔ یہ سچائی لوگوں کے لیے نازل کی ہے کہ لوگ اس سے ہدایات لے اس کے مطابق زندگی بسر کریں اور آپ اس حق کے مبلغ ہیں۔ اور یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ وہ اپنے لیے راہ ہدایت کا انتخاب کرتے ہیں یا راہ ضلالت کا۔ جنت کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں یا جہنم کی آگ اختیار کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے نفس کو جدھر چاہے لے جائے۔ نہ آپ ان کے ذمہ دار ہیں اور نہ حوالدار۔ فمن اھتدی۔۔۔ بوکیل (39: 41) ” اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا تو اپنے لیے کرے گا ، اور جو بھٹکے گا تو اس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہوگا۔ تم ان کے ذمہ راد نہیں ہو “۔ ان کا ذمہ دار اللہ ہے۔ وہ بیداری میں بھی اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور سوتے میں بھی اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اپنے تمام حالات میں وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے ، ان کے اندر تصرف فرماتا ہے۔ اللہ یتوفی۔۔۔ اجل مسمی (39: 43) ” وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے ، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے ، اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے “۔ اللہ تعالیٰ تمام مردوں کی روحیں ان کے وقت مقرر کے مطابق قبض کرتا ہے۔ اس سے قبل اللہ ہر شخص کی روح کو سونے کی حالت میں بھی قبض کرتا ہے۔ اگرچہ وہ شخص مردہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی روح اس وقت بھی قبض ہوتی ہے ، ایک وقت مقررہ تک کے لیے۔ اگر سوتے ہی میں اس کا وقت مقرر آجائے تو پھر وہ شخص جاگ نہیں اٹھتا۔ اگر وقت مقرر نہ آیا تو روح واپس بھیجی جاتی ہے۔ اور یہ شخص جاگ اٹھتا ہے۔ لہٰذا تمام نفوس اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ، سوتے میں بھی اور جاگتے میں بھی۔ ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یتفکرون (39: 42) اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو فکر کرتے ہیں “۔ غرض یہ لوگ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ ہی ان کا ذمہ دار ہے اور آپ ان کے انجام کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت پاتے ہیں تو اپنے لیے پاتے ہیں اور اگر وہ گمراہی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو اپنے لیے کرتے ہیں۔ محاسبہ سب کے لیے ہے۔ کوئی بھی مہمل چھوڑ دیا جانے والا نہیں ہے۔ لہذا ان کو اپنے آپ کو چھڑانے کی فکر کرنی چاہئے۔ ام اتخذوا۔۔۔۔۔۔ الیه ترجعون (39: 43 تا 44) ” کیا اس خدا کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفع بنارکھا ہے ؟ ان سے کہو ، کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ ان کے اختیار میں کچھ ہو نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی یہ ہوں ؟ کہو ، شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔ پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو “۔ یہ ان کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ وہ لوگ یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ ملائکہ کی بندگی اس لیے کرتے ہیں کہ ملائکہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں گے۔ اولو۔۔۔۔ یعقلون (39: 43) ” خواہ ان کے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی کچھ نہ ہوں “۔ اور اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ سفارش تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جس کو سفارش کی چاہے اجازت دے دے۔ لیکن اگر اللہ کسی کو سفارش کی اجازت دے تو ہمارے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ ہم اسے اللہ کا شریک بنالیں۔ له ملک السمٰوٰت والارض (39: 44) ” زمین و آسمان کی بادشاہی کا وہی مالک ہے “۔ اس بادشاہی میں کوئی اس کی ملکیت اور ارادہ کے دائرہ سے باہر نہیں ہے۔ سب نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ اور اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور سب نے آخر کار اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ نظریہ اور موقف کہ اللہ وحدہ بادشاہ ہے۔ وہ تمام اختیارات کا مالک ہے اور قہار ہے اور جس کا خلاصہ کلمہ توحید ہے ، اس سے وہ کس قدر بدکتے ہیں اور کلمہ شرک کے لیے یہ کس قدر خوش ہوتے ہیں ، حالانکہ کلمہ کا انکار ان کی فطرت بھی کرتی ہے۔ اور ان کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات بھی کرتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (اِِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ للنَّاس بالْحَقِّ ) (بےشک ہم نے آپ پر لوگوں کے لیے حق کے ساتھ کتاب نازل کی) (فَمَنْ اھْتَدَی فَلِنَفْسِہٖ ) (سو جو ہدایت پر آجائے یہ اس کی اپنی جان کے لیے ہے) (وَمَنْ ضَلَّ فَاِِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا) (اور جو شخص گمراہی اختیار کرے سو وہ اسے اپنی جان کو ضرر پہنچانے کے لیے اختیار کرتا ہے) (وَمَا اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیلٍ ) (اور آپ ان پر مسلط بنا کر نہیں بھیجے گئے) اس میں آپ کو تسلی دی ہے مطلب یہ ہے کہ آپ کے ذمہ یہ نہیں کیا گیا کہ لوگوں کو زبردستی دین پر لائیں اور اپنی بات منوائیں آپ کے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے۔ عمل کرنا نہ کرنا ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ آپ ان کی وجہ سے غمگین نہ ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ ” انا انزلناہ الخ “ یہ چوتھی دلیل وحی ہے۔ یہ کتاب جو پیغام حق یعنی ” فاعبد اللہ مخلصًا لہ الدین (صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کر) پر مشتمل ہے ہم ہی نے آپ پر نازل کی ہے۔ تاکہ آپ اسے لوگوں تک پہنچائیں۔ آپ اپنی طرف سے کوئی دعوی پیش نہیں کرتے۔ ” فمن اھتدی الخ “ جس نے اس کتاب کی ہدایت کو قبول کیا اس نے اپنی جان کو فائدہ پہنچایا اور جس نے گمراہی اختیار کی اس نے اپنا ہی نقصان کیا۔ فمن اختار الھدی فقد نفع نفسہ و من اختار الضلالۃ فقد ضرھا (مدارک ج 4 ص 46) ۔ آپ ان کو راہ راستہ پر لانے کے ذمہ دار نہیں ہیں آپ نے کما حقہ، اللہ کا پیغام ان تک پہنچا کر اپنا فرض ادا کردیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اے پیغمبر یہ کتاب لوگوں کے نفع اور فائدے کے لئے آپ پر ہم نے نازل فرمائی ہے جو دین حق کی تعلیم پر مشتمل ہے پس اب جو شخص راہ راست اختیار کرتا ہے اور صبح راہ پر چلتا ہے تو اپنے ہی بھلے کو چلتا اور اختیار کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو سوائے اس کے نہیں کہ وہ اپنے برے کو اختیا کرتا ہے اور اس گمراہی کا وبال اسی پر پڑنے والا ہے اور آپ ان پر مختار کار مقرر نہیں ہوئے ہیں۔ یعنی ان کی گمراہی کی آپ سے باز پرس نہیں کیونکہ آپ ان پر وکیل اور ان کے سردار نہیں ہیں۔