Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 43

سورة الزمر

اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلۡ اَوَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یَمۡلِکُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾

Or have they taken other than Allah as intercessors? Say, "Even though they do not possess [power over] anything, nor do they reason?"

کیا ان لوگوں نے اللہ تعالٰی کے سوا ( اوروں کو ) سفارشی مقرر کر رکھا ہے؟ آپ کہہ دیجئے! کہ گو وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There is no Intercession except with Allah, and how the Idolators are filled with Disgust when Allah is mentioned alone Allah says, أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لاَ يَمْلِكُونَ شَيْيًا وَلاَ يَعْقِلُونَ

مشرکین کی مذمت ۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کی مذمت بیان فرماتا ہے کہ وہ بتوں اور معبودان باطلہ کو اپنا سفارشی اور شفیع سمجھتے ہیں ، اس کی نہ کوئی دلیل ہے نہ حجت اور دراصل انہیں نہ کچھ اختیار ہے نہ عقل و شعور ۔ نہ ان کی آنکھیں نہ ان کے کان ، وہ تو پتھر اور جمادات ہیں جو حیوانوں میں درجہا بدتر ہیں ۔ اس لئے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان سے کہہ دو ، کوئی نہیں جو اللہ کے سامنے لب ہلا سکے آواز اٹھا سکے جب تک کہ اس کی مرضی نہ پالے اور اجازت حاصل نہ کر لے ، ساری شفاعتوں کا مالک وہی ہے ۔ زمین و آسمان کا بادشاہ تنہا وہی ہے ۔ قیامت کے دن تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، اس شفاعتوں کا مالک وہی ہے ۔ زمین و آسمان کا بادشاہ تنہا وہی ہے ، قیامت کے دن تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، اس وقت وہ عدل کے ساتھ تم سب میں سچے فیصلے کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ ان کافروں کی یہ حالت ہے کہ توحید کا کلمہ سننا انہیں ناپسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر سن کر ان کے دل تنگ ہو جاتے ہیں ۔ اس کا سننا بھی انہیں پسند نہیں ۔ ان کا جی اس میں نہیں لگتا ۔ کفر و تکبر انہیں روک دیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے یعنی ان سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ ایک کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور ماننے سے جی چراتے تھے ۔ چونکہ ان کے دل حق کے منکر ہیں اس لئے باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں ۔ جہاں بتوں کا اور دوسرے اللہ کا ذکر آیا ، ان کی باچھیں کھل گئیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 یعنی شفاعت کا اختیار تو کجا، انہیں تو شفاعت کے معنی و مفہوم کا بھی پتہ نہیں، کیونکہ وہ پتھر ہیں۔ یا بیخبر ہیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] مشرکین مکہ اپنے بتوں کی پرستش کے لئے یہ دلیل دیتے تھے کہ یہ اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ سو پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کے شفیع ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اسے معبود بنا لیا جائے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ان بتوں کو نہ عقل ہے، نہ سمجھ ہے، نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں۔ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے کسی بھی بات کا یہ اختیار نہیں رکھتے تو پھر تمہاری سفارش کیسے کریں گے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَاۗءَ ۭ : یعنی بجائے اس کے کہ یہ لوگ موت اور نیند کی کیفیت سے کوئی سبق حاصل کریں اور ہر معاملے کا مختار صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھیں، انھوں نے کچھ دوسرے معبود بنا لیے ہیں، جنھیں وہ اللہ کے حضور سفارشی سمجھتے ہیں۔ ۭ قُلْ اَوَلَوْ كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ شَـيْـــــًٔا وَّلَا يَعْقِلُوْنَ : ” كَانُوْا “ کی وجہ سے ” لَا يَمْلِكُوْنَ شَـيْـــــًٔا “ کی نفی میں استمرار پیدا ہوگیا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” کیا اگرچہ وہ کبھی نہ کسی چیز کے مالک ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں۔ “ یعنی کیا پھر بھی یہ لوگ انھیں اپنا سفارشی سمجھ کر ان کی پوجا کرتے رہیں گے، ان کے نام کی نذر و نیاز مانتے رہیں گے اور اپنی دعاؤں میں ان کا وسیلہ ڈالتے رہیں گے ؟ ظاہر ہے جن ہستیوں کو بھی یہ پکارتے ہیں وہ نہ ان کی بات سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں، کیونکہ سمجھی تو وہی بات جاتی ہے جو سننے میں آئے، بلکہ وہ فوت شدہ ہیں زندہ نہیں ہیں، خود انھیں اپنے متعلق علم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ دیکھیے سورة نحل (٢٠، ٢١) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٥، ٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ شُفَعَاۗءَ۝ ٠ ۭ قُلْ اَوَلَوْ كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ شَـيْـــــًٔا وَّلَا يَعْقِلُوْنَ۝ ٤٣ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ان کفار مکہ نے اللہ کے علاوہ دوسروں کو معبود قرار دے رکھا ہے جو ان کی سفارش کریں گے۔ آپ فرما دیجیے کہ اگرچہ یہ سفارش میں سے کسی چیز پر بھی قدرت نہ رکھتے ہوں اور کچھ بھی علم نہ رکھتے ہوں کہ سفارش کس طرح کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ { اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَآئَ } ” کیا انہوں نے اللہ کے سوا کوئی سفارشی بنا رکھے ہیں ؟ “ { قُلْ اَوَلَوْ کَانُوْا لَا یَمْلِکُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَعْقِلُوْنَ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان سے کہیے اگرچہ انہیں سرے سے کوئی اختیار ہی نہ ہو اور نہ ہی انہیں کچھ سمجھ ہو (پھر بھی وہ تمہاری شفاعت کریں گے) ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61 By this Allah wants every man to realize how life and death are entirely in His own hand. No one has the guarantee that he will certainly get up alive in the morning when he goes to sleep at night. No one knows what disaster could befall him within a moment, and whether the next moment would be a moment of life for him or of death. At any time, while asleep or awake, in the house or outside it, some unforeseen calamity, from inside his body or from outside, can, suddenly cause his death: Thus, man who is so helpless in the hand of God, .would be foolish if he turned away from the same God or became heedless of Him. 62 That is, "In the first place, these people have foolishly presumed that there are some beings who wield great influence with Allah, and whose intercession is never turned down, whereas there is no proof of their being intercessors at all, nor has Allah ever said that they hold such a position with Him, nor did these beings themselves ever claim that they would use their influence with Allah and help them out in every case. Another folly of these people is that they have ignored the real Master and have believed the imaginary beings to be allpowerful, who deserve to receive all their devotion and dedication. "

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :62 یعنی ایک تو ان لوگوں نے اپنے طور پر خود ہی یہ فرض کریا کہ کچھ ہستیاں اللہ کے ہاں بڑی زور آور ہیں جن کی سفارش کسی طرح ٹل نہیں سکتی ، حالانکہ ان کے سفارشی ہونے پر نہ کوئی دلیل ، نہ اللہ تعالیٰ نے کبھی یہ فرمایا کہ ان کو میرے ہاں یہ مرتبہ حاصل ہے ، اور نہ ان ہستیوں نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم اپنے زور سے تمہارے سارے کام بنوا دیا کریں گے ۔ اس پر مزید حماقت ان لوگوں کی یہ ہے کہ اصل مالک کو چھوڑ کر ان فرضی سفارشوں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی ساری نیاز مندیاں انہی کے لیے وقف ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: اس سے مراد وہ من گھڑت دیوتا ہیں جن کو مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سفارشی سمجھ رکھا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٣۔ ٤٤۔ صحیح بخاری ١ ؎ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ قوم نوح میں بعضے نیک لوگ جب مرگئے اور ان کے مرجانے کا قوم کے لوگوں کو رنج ہوا تو پہلے پہل شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی صورتوں کے بت بنا کر آنکھوں کے سامنے رکھ لئے جائیں تو ان نیک لوگوں کے آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا رنج کچھ کم ہوجائے گا پھر ان لوگوں کی نسل میں رفتہ رفتہ اس وسوسہ شیطانی نے ان بتوں کی پوجا اس وسوسہ سے پھیلا دی کہ جو کوئی نیک لوگوں کی مورتوں کو پوجے گا تو یہ نیک لوگ بارگاہ الٰہی میں اس کی شفاعت کریں گے غرض اس وسوسہ شیطانی کا جو اثر قدیم سے بت پرستوں میں چلا آتا تھا اسی کے موافق قریش بھی یہ کہتے تھے کہ جن بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں یہ نیک لوگوں کی مورتیں ہیں اور ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو کوئی ان نیک لوگوں کی مورتوں کو پوجے گا تو یہ نیک لوگ بار گاہ الٰہی میں اس کی شفاعت کریں گے۔ ان مشرکوں کی اس بات کا ایک جواب تو اللہ تعالیٰ نے سورة یونس میں دیا تھا کہ نیک لوگوں کی شفاعت تو درکنار قیامت کے دن وہ نیک لوگ اللہ کو گواہ قرار دے کر اس پوجا سے اپنی بیزاری اور برأت ظاہر کریں گے یہاں جو مشرکوں کی اس بات کا جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مورتوں کی اصل صورتوں والے تو اس شفاعت سے بیزار اور یہ پتھر کی مورتیں بےجان ناسمجھ بالکل بےبس ہیں اس لئے یہ فقط ایک شیطانی وسوسہ ہے جس نے ان لوگوں کو اس بےٹھکانے شفاعت کے دھوکے میں ڈال رکھا ہے صحیح بخاری ٢ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آزر کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کی جناب میں سفارش کریں گے مگر بارگاہ الٰہی میں ان کی سفارش منظور نہ ہوگی۔ اس حدیث کو آخر کی آیۃ کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن جب سب مخلوقات اللہ تعالیٰ کے رو برو حاضر ہوگی تو شفاعت کا منظور کرنا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہوگا یہاں تک کہ برخلاف مرضی الٰہی کے ابراہیم (علیہ السلام) آزر کی نجات کی شفاعت کریں گے جو منظور نہ ہوگی۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة نوح ص ٧٣٢ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا ص ٤٧٣ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:43) (1) ہمزہ انکار کے معنی میں ہے اور ابتدائیہ ہے۔ کیا انہوں نے اللہ کے اذن کے بغیر شفیع بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی مجال نہیں۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ (2:255) کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے۔ من دون اللّٰہ : ای من دون اذنہ (اس کے اذن کے بغیر اس کی اجازت کے بغیر) ۔ (روح المعانی۔ کشاف) دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور سفارشی بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ سب سفارش اللہ کے اختیار میں ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت میں اشارہ ہے۔ قل للّٰہ الشفاعۃ جمیعا۔ (39:44) مطلب یہ ہے کہ ان کے مزعومہ سفارشی بےبس و بےاختیار ہیں سفارش تمام تر اللہ ہء کے اختیار میں ہے۔ (2) ام منقطعہ ہے اور بمعنی بل (حرف اضراب) آیا ہے اور مقصود اس سے ماقبل کی تصحیح اور مابعد کا ابطال ہے۔ یعنی سکھ دینے اور دکھ کو کرنے کیلئے اللہ ہی کافی ہے اور متوکلین اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اس کے سوا کسی کی امداد یا کسی کی سفارش پر بھروسہ رکھنا قطعا لا حاصل ہے۔ اولو کانوا میں ہمزہ استفہام انکاری کا ہے۔ اس کا ادخال فعل محذوف پر ہے۔ ای ایشفعون واؤ حالیہ ہے۔ اس سے اگلا جملہ حالیہ ہے ای ایشفعون ولو کانوا ۔۔ الخ کیا وہ تمہاری شفاعت کریں گے اگرچہ ان کی یہ حالت ہے کہ یہ نہ کوئی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ان کو کچھ علم ہے (یعنی ان کو نہ کوئی عقل و شعور ہے یا سوجھ بوجھ ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی بجائے اس کے کہ یہ لوگ موت اور نیند کی کیفیت سے کوئی سبق حاصل کریں اور ہر معاملہ کا مختار صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھیں، انہوں نے کچھ دوسرے معبود بنا لئے ہیں جنہیں یہ اللہ کے حضور اپنا سفارشی سمجھتے ہیں۔8 یعنی کیا پھر بھی تم انہیں اپنا سفارشی سمجھ کر ان کو پوجا کرتے رہو گے ؟ ان کے نام کی نذر نیاز مانتے رہو گے اور اپنی دعائوں میں بطور وسیلہ ان کا ذکر کرتے رہو گے۔ ظاہر ہے کہ تمہارے یہ بت بےجان چیزیں ہیں ان کا نہ کوئی اختیار ہے اور نہ ان میں عقل ہے، پھر کیوں انہیں اپنا سفارشی سمجھتے ہو ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 43 تا 46 : شفعائ ( شفیع) (سفارش کرنے والے ، شفاعت کرنے والے) اشمازت (وہ کڑھنے اور جلنے لگے) فاطر ( پیدا کرنے والا) تحکم (تو فیصلہ کرے گا) تحکم ( تو فیصلہ کرے گا) عباد (بندے) تشریح : آیت نمبر 43 تا 46 :۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرما دیا ہے کہ زندگی اور موت یہ سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی زندگی دیتا ہے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو موت آتی ہے۔ کفار و مشرکین بھی اس بات کو سمجھتے تھے مگر زبان سے نہیں کہتے تھے بلکہ اپنے بےحقیقت بتوں کے متعلق ان کا گمان یہ تھا کہ وہ کل قیامت کے دن ان کی سفارش کر کے اللہ کے عذاب سے انہیں بچا لیں گے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ اس کی بارگاہ میں اس وقت تک کسی کو سفارش کرنے یا لب ہلانے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک اجازت نہ دے دی جائے۔ پتھر، لکڑی اور مٹی سے بنائے گئے ان بتوں کی کیا مجال ہے کہ یہ اللہ کی بارگاہ میں کسی کی سفارش بھی کرسکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو تو پہلے ہی جہنم کا ایندھن بنا دیں گے لیکن ان بد عقیدہ لوگوں کے نزدیک سب کچھ یہی بت ہیں حالانکہ اس کائنات میں ساری کی ساری سلطنت صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہر جگہ اللہ کا حکم چلتا ہے، تمام انسانوں کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جہاں وہ عدل و انصاف کے ساتھ ہر ایک کے درمیان سارے فیصلے فرما دے گا ۔ فرمایا کہ وہ زبان سے تو اللہ کا نام لیتے ہیں مگر انہوں نے بتوں کو اس طرح سب کچھ سمجھ رکھا ہے کہ اگر ان کے سامنے ایک اللہ کا ذکر کیا جائے جو سب کا معبود ، خالق اور مالک ہے تو غم و غصے سے ان کے چہرے سکڑ جاتے ہیں اور پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں اور جب ان کے جھوٹے معبودوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب یہ کفار و مشرکین اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور غیر اللہ کی بندگی میں لگے رہتے ہیں اور اسی میں مگن ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں بلکہ اپنے رب سے یہ دعا کیجئے کہ اے آسمان و زمین کے رب اور کھلے چھپے کے جاننے والے پروردگار آپ ہی قیامت کے دن اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں میں فیصلے فرمائیں گے جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی شفاعت کے لئے کم از کم علم وقدرت تو درکار ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو سونے کے بعد اٹھنے پر اختیار نہیں رکھتے وہ رب ذوالجلال کے سامنے اپنی مرضی سے سفارش کس طرح کرسکتے ہیں ؟ اس آیۃ مبارکہ سے چار آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ کفار اور مشر کین سے پوچھو کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ جب زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اللہ کے سوا کسی نے پیدا نہیں کی تو پھر تم کس بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں کو اپنی خدائی میں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ جس بنیاد پر بزرگ سفارش کریں گے اور وہ مسترد نہ ہو سکے گی۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے استفسار فرمائیں کہ بیشک انہیں سفارش کا اختیار نہ ہو اور جس کے بارے میں سفارش کرنی ہے اس کے بارے میں کچھ علم نہ ہو تو پھر بھی وہ سفارش کریں گے ؟ انہیں سمجھائیں کہ سفارش کی اجازت دینے اور اسے قبول کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کیونکہ وہی زمین و آسمانوں کا مالک ہے۔ تم اس کے مملوک ہو اور اسی کے ہاں تم نے پلٹ کر جانا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا کر کے آئے ہو۔ سفارش کے بارے میں قرآن مجید اور حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ سفارش کرنے کی کن حضرات کو اجازت ہوگی اور وہ کن اصولوں کے تحت کس کس کی اور کس دائرہ کار کے اندر رہ کر سفارش کرسکیں گے۔ قرآن و حدیث میں یہ بات کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ کافر، مشرک اور ظلم کرنے والوں کی سفارش کوئی بھی نہیں کرسکے گا۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی اور پھوپھی کو فرمایا اور اپنے جدِانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا تاکہ کسی کو غلط سفارش کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا ؟ کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ وہ کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ اے میرے رب آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرونگا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو بن چکا ہوگا۔ جسے اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ “ [ رواہ البخاری : باب قول اللّٰہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو ! اپنے لیے کچھ کرلو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا ‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور رسول کی پھوپھی صفیہ ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا ] تفسیر بالقرآن قیامت کے دن سفارش کے اصول : ١۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ : ٢٥٥) ٢۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٣۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء : ٢٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسند کی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ : ١٠٩) ٥۔ قیا مت کے دن کسی سفارشی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٦۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم : ٨٧) ٧۔ اگر رحمننقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس : ٢٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں مشرکین کی اس بےوقوفی کو بیان فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود تجویز کر رکھے ہیں ان شرکاء کو شُفَعَاءَ سے تعبیر فرمایا کیونکہ مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ جن کو ہم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں شفاعت کرکے ہماری بخشش کرا دیں گے پہلے تو غیر اللہ کو معبود بنانے کی نکیر فرمائی پھر فرمایا کہ جن کو تم نے سفارشی سمجھا ہے انہیں تو کچھ بھی قدرت نہیں اور کچھ بھی سمجھ نہیں یہ تو پتھر کی مورتیاں ہیں نہ انہیں کچھ قدرت ہے، نہ کسی بات کا علم ہے یہ کیا جانیں کہ سفارش کیا ہوتی ہے اور یہ کہ سفارش کس کی کی جائے اور کس سے سفارش کی جائے جب ان کی عجز اور جہل کا یہ حال ہے تو کیا سفارش کرسکتے ہیں ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ ” ام اتخذوا الخ “ یہ زجر سوم ہے اور زجر اول کی تشریح و تفصیل ہے۔ ایسے واضح دلائل اور روشن بیانات کے باوجود پھر بھی مشرکین غیر اللہ کو معبود سمجھ کر خدا کی بارگاہ میں شفیع قاہر مانتے ہیں۔ حالانکہ وہ کسی چیز کا بھی اختیار نہیں رکھتے ان میں نہ قدرت ہے نہ علم و فہم کی صلاحیت ہے۔ پھر معبود اور شفیع غالب کس طرح بن گئے۔ یہ شاید فوت شدہ بزرگوں کے بارے میں ہے یا اس سے وہ اوثان و اصنام مراد ہیں۔ جو اللہ کے نیک بندوں کی شکلوں اور ان کے ناموں پر بنائے گئے۔ اور ان کے ساتھ معبود کا سا معاملہ کیا گیا۔ اس آیت میں شفاعت قہری کی نفی ہے۔ یہاں اور ابتدائے سورت میں، سورة سبا کا مضمون ذکر کیا گیا ہے اور باقی سورت میں، سورة فاطر کا مضمون ذکر کیا گیا ہے یعنی حاجات میں غائبانہ صرف اللہ ہی کو پکارو۔ اس طرح اس سورت میں دونوں مضمون جمع کردئیے گئے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) تو کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ سفارش کرنے والے جو تجویز کر رکھے ہیں آپ فرمادیجئے اگرچہ یہ مفروضہ سفارشی نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہہوں اور نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں تب بھی یہ سفارش کریں گے اور سفارش کے اہل ہوں گے۔ یعنی ان مشرکوں نے کچھ چیزوں کو اللہ کے علاوہ یہ سمجھ کر معبود بنارکھا ہے کہ وہ ان کی اللہ تعالیٰ کے روبروسفارش کریں گے اور ان کو عذاب سے بچالیں گے جیسا کہ سورة یونس میں گزر چکا ہے۔ ھولآء شفعآ ئونا عنداللہ۔ اس نے فرمایا کہ شفاعت کے لئے قدرت و طاقت کی تو کم از کم ضرورت ہے یہ تمہارے خود خود ساختہ معبود اور مفروضہ سفارشی نہ کسی قسم کا علم رکھتے ہوں نہ ان کو کسی قسم کا اختیار حاصل ہو تو کیا ایسی حالت میں بھی یہ سفارشی قرار پائیں گے اور اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ یہ تماثیل اور اصنام بےاختیار اور بےعقل ہوں لیکن جو بزرگ اور بڑوں کی یہ تماثیل ہیں وہ تو بااختیار اور اہل علم ہوں گے اس کا جواب آگے فرمایا۔