Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 44

سورة الزمر

قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ؕ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۴۴﴾

Say, "To Allah belongs [the right to allow] intercession entirely. To Him belongs the dominion of the heavens and the earth. Then to Him you will be returned."

کہہ دیجئے! کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے ۔ تمام آسمانوں اور زمین کا راج اسی کے لئے ہے تم سب اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ... Have they taken as intercessors besides Allah? Say: "Even if they have power over nothing whatever and have no intelligence!" Say: "To Allah belongs all intercession. Allah condemns the idolators for taking intercessors besides Allah, namely the idols and false gods whom they have taken on the basis of their own whims, with no evidence or proof. These idols are not able to do anything; they have no minds with which to think, and they cannot hear or see. They are inanimate and are much worse off than animals. Then Allah says: `Say -- O Muhammad -- to these people who claim that those whom they have taken as intercessors with Allah, that intercession is of no avail except for the one with whom Allah is pleased and to whom He has granted permission to intercede. The whole matter rests with Him.' مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ Who is he that can intercede with Him except with His permission! (2:255) ... لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... His is the sovereignty of the heavens and the earth. means, He is the One Who is in control of all that. ... ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ Then to Him you shall be brought back. means, `on the Day of Resurrection, then He will judge between you with His justice, and He will reward or punish each person according to his deeds.' Then Allah condemns the idolators further:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی شفاعت کی تمام اقسام کا مالک صرف اللہ ہی ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش ہی نہیں کرسکے گا، پھر صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کیوں نہ کی جائے تاکہ وہ راضی ہوجائے اور شفاعت کے لئے کوئی سہارا ڈھونڈھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] سفارش سے متعلق جملہ اختیارات اللہ کو ہیں :۔ اس آیت میں سفارش کا ضابطہ واضح فرما دیا کہ سفارش کے جملہ اختیارات تو اللہ کو ہیں اور سفارش تو وہ کرسکے گا جسے اللہ اجازت دے گا۔ اب کیا تمہیں معلوم ہے کہ جن بتوں کو یا ان کی روحوں کو یا بزرگوں کو تم نے شفیع بنا رکھا ہے یا سمجھ رکھا ہے انہیں سفارش کی اجازت بھی دے گا یا نہیں ؟ سفارش کے لئے دوسری شرط یہ ہے کہ سفارش اسی کے حق میں قبول ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو۔ کیا تم بتاسکتے ہو کہ اللہ تمہارے حق میں سفارش کی کسی کو اجازت دے دے گا ؟ گویا جس سفارش پر تم بھروسہ کئے بیٹھے ہو اس کا خیال دل سے نکال دو ۔ یعنی اگر سفارش کرنے والا اپنی مرضی سے سفارش کر ہی نہ سکے جب تک اللہ کی طرف سے اجازت نہ ہو تو پھر یہ اللہ کے حکم کی تعمیل ہوئی اس کا اختیار کہاں سے آگیا ؟ قیامت کے دن کچھ لوگ دوسروں کی سفارش کریں گے ضرور۔ لیکن اس پر پابندیاں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی کے تحت ہوگا۔ اس میں سفارش کرنے والے بھی اللہ کے حکم کے پابند اور جن کے حق میں سفارش ہوگی وہ بھی اللہ کی رضا کے تحت۔ تو جملہ اختیارات تو اللہ کے ہوئے اور کسی دوسرے کے اختیار یا پسند کو اس میں کچھ دخل نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا ۭ۔۔ : لفظ ” للہ “ پہلے آنے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا۔ یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ سفارش کی تمام صورتوں کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کر ہی نہیں سکتا، اس لیے اسی کو پکارنا چاہیے، کیونکہ وہ اجازت دے گا تو کوئی سفارش کرے گا۔ سفارش ہی نہیں آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، کسی اور کا دخل نہ سفارش میں ہے نہ بادشاہی میں، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی اللہ کے روبرو سفارش ہے، پر اللہ کے حکم سے، نہ کہ تمہارے کہے سے، جب موت آئے کسی کے کہے سے عزرائیل نہیں چھوڑتا۔ “ (موضح) (یاد رہے ! ملک الموت کا نام عزرائیل کتاب و سنت سے ثابت نہیں) شفاعت کے متعلق دیکھیے آیت الکرسی (بقرہ : ٢٥٥) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِيْعًا۝ ٠ ۭ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٤٤ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ فرما دیجیے کہ آخرت میں تمام تر سفارش اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور بارش اور نباتات سب کے خزانوں پر اسی کی حکمرانی ہے اور آخرت میں تم سب اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ { قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ شفاعت ُ کل کی کل اللہ کے اختیار میں ہے۔ “ قیامت کے دن جو کوئی بھی کسی کی شفاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اجازت سے ہی کرے گا ‘ اور پھر کسی شفاعت کا قبول کرنا یا نہ کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی بات اللہ سے منوا لے۔ { لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ” آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 That is, "Not to speak of getting his intercession granted, no one has the power to stand before Allah as an intercessor. The right to grant or not to grant anyone the permission to intercede with Him exclusively rests with Allah. Then He may allow intercession for whomever He may please and forbid for whomever He may please. " (For understanding the difference between the Islamic concept of intercession and the polytheistic concept, see Al-Baqarah: 255, Al-An`am: 51, Yunus: 3, 18, Hud: 105, Ar-Ra`d 11, An-Naml: 73, 84, Ta Ha: 109-110, Al-Anbiya': 23, Al-Hijr: 76, and the E.N.'s thereof and E.N. 40 of Saba.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :63 یعنی کسی کا یہ زور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں خود سفارشی بن کر اٹھ ہی سکے ، کجا کہ اپنی سفارش منوا لینے کی طاقت بھی اس میں ہو ۔ یہ بات تو بالکل اللہ کے اختیار میں ہے کہ جسے چاہے سفارش کی اجازت دے اور جسے چاہے نہ دے ۔ اور جس کے حق میں چاہے کسی کو سفارش کرنے دے اور جس کے حق میں چاہے نہ کرنے دے ۔ ( شفاعت کے اسلامی عقیدے اور مشرکانہ عقیدے کا فرق سمجھنے کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن جلد اوّل ، ص 194 ۔ 543 ۔ جلد دوم ۔ صفحات 262 ۔ 275 ۔ 276 ۔ 356 ۔ 368 ۔ 449 ۔ 556 ۔ 557 ۔ 562 ۔ جلد سوم ، صفحات 126 ۔ 127 ۔ 155 ۔ 156 ۔ 252 ۔ جلد چہارم ، السّبا ، حاشیہ 40 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:44) قل للّٰہ الشفاعۃ جمیعا۔ فرما دیجئے ان کو کہ سفارش تمام تر تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے یہ علت ہے لا یملکون کی۔ یعنی جب تمام تر سفارش اللہ ہی کے اختیار میں ہے تو ان کو اس بابت اختیار کہاں سے آیا۔ لہ ملک السموت والارض۔ یہ استیناف تعلیلی ہے ایک دوسری علت یا وجہ کہ کیوں سب سفارش صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے یہ اس لئے کہ ارض و سماوات کا کلی مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر کسی دوسرے کے اختیار میں کیا رہا ؟

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی کسی کو کسی کے لئے اس کے اذن کے بغیر سفارش کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ( دیکھئے بقرہ : 255، انبیاء : 28)10 نہ کہ کسی اور کی طرف۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر توحید کے ضمن میں مشرکین کے مکابرہ وعناد کا بیان ہے چونکہ مکابرہ وعناد موجب حزن مبلغ ہوتا ہے، اس لئے آگے آپ کے تسلیہ کے لئے ایک دعا کی تعلیم اور بیان جزا سے تسلیہ اور مضمون دعا کی تتمیم فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ سفارش کے بارے میں ہر طرح کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے وہ جسے چاہے گا اور جس کے لیے چاہے گا سفارش کرنے کی اجازت دے گا، اس کے یہاں مشرک اور کافر کی بخشش نہیں۔ اس لیے جو بندے اس کے نزدیک شفاعت کرنے کے اہل ہیں انبیاء کرام اور ملائکہ عظام انہیں کافروں اور مشرکوں کی سفارش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی لہٰذا شرک و کفر میں مبتلا رہنا اور اپنے معبودوں کی سفارش کا بخشش کے لیے سہارا لینا یہ سراپا جہالت اور حماقت اور گمراہی ہے، اس بیان سے مشرکین کے اس سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا ہے کہ ہم نے تو فرشتوں کو اور بعض پیغمبروں کو بھی الوہیت میں شریک کر رکھا ہے وہ تو شفاعت کے اہل ہیں اوپر کے بیان میں واضح ہوگیا کہ جس کی بخشش نہیں اس کے لیے نہ کوئی سفارش کرے گا نہ اس کے لیے سفارش کی اجازت دی جائے گی اور بلا اجازت کسی کو سفارش کا اختیار نہیں سورة بقرہ میں فرمایا (مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) (کون ہے جو اس کی بارگاہ میں سفارش کرے مگر اس کی اجازت سے) اور سورة طٰہٰ میں فرمایا (یَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا) (اس روز سفارش نفع نہ دے گی مگر ایسے شخص کو جس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی ہو اور اس شخص کے واسطے بولنا پسند کرلیا ہو) اور سورة الانبیاء میں فرشتوں کے بارے میں فرمایا (وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی) (اور وہ بجز اس کے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو اور کسی کی سفارش نہیں کرسکتے) مزید فرمایا (لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (اسی کے لیے ملک ہے آسمانوں کا اور زمین کا) (ثُمَّ اِِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) (پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) اس میں یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک ہے دنیا و آخرت سب اسی کی مملوک ہیں اور ہر طرح کا پورا اختیار اور اقتدار اسی کا ہے۔ تیسری آیت میں مشرکین کا مزاج بتایا اور وہ یہ کہ شرک ان کے دلوں میں اس درجہ گھر کرگیا ہے اور انہیں توحید اس قدر ناگوار ہے کہ جب ان کے سامنے صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں لا الہ الا اللّٰہ کی دعوت بھی ہے تو ان لوگوں کے دل منقبض ہوتے ہیں جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے انہیں یہ بات ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے تجویز کردہ شرکاء کے بغیر اللہ کا نام کیوں لیا گیا، اور ان لوگوں نے اللہ کے سواء جو دوسرے معبود تجویز کر رکھے ہیں جب ان کا تنہا ذکر ہوتا ہے تو اس سے خوش ہوتے ہیں اللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں یوں نہیں کہتے کہ اللہ کا ذکر کیے بغیر ان کو کیوں یاد کیا گیا ان کے دلوں میں اس درجہ شرک رچ بس گیا ہے کہ تنہا اللہ کا ذکر ہو تو انہیں بہت ناگواری ہوتی ہے اور جو باطل معبود انہوں نے تجویز کر رکھے ہیں ان کا ذکر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ ہو تو اس وقت ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی (قال صاحب الروح فان الا ستبشار أن یمتلی القلب سرورا حتی ینبسط لہ بشرۃ الوجہ، والا شمئزاز أن یمتلی غیظا وغما ینقبض عنہ ادیم الوجہ کما یشاھد فی وجہ العابس المحزون) ” تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) فرماتے ہیں استبشار یہ ہے کہ دل خوشی سے بھر جائے یہاں تک کہ دل کی اس خوشی سے چہرہ پر خوشگوار اثرات ظاہر ہوجائیں اور اشمئزاز یہ ہے کہ دل غصہ اور غم سے بھر جائے جس سے چہرہ منقبض ہوجائے جیسا کہ غمگین غصہ کرنے والے کے چہرے پر دیکھا جاتا ہے۔ “ یہی حال ان مبتدعین و مشرکین کا ہے جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ذکر کی اور اتباع سنت کی تلقین کی جاتی ہے تو انہیں اچھی نہیں لگتی بدعتوں کا بیان کیا جائے اور پیروں فقیروں کی جھوٹی کرامات اور خود تراشیدہ قصے بیان کیے جائیں تو اس سے خوش ہوتے ہیں راتوں رات قوالی سنتے ہیں، ہارمونیم اور طبلہ کی آواز پر انہیں وجد آتا ہے اور اسی رات کے اختتام پر جب فجر کی اذان ہوتی ہے تو مسجد کا رخ کرنے کی بجائے بستروں کی طرف رخ کرتے ہیں اور گھروں میں جا کر سو جاتے ہیں۔ قال صاحب الروح وقد رأینا کثیراً من الناس علی نحو ھذہ الصفۃ التی وصف اللّٰہ تعالیٰ بھا المشرکین یھشون لذکر اموات یستغیثون بھم ویطلبون منھم ویطربون من سماع حکایات کاذبۃ عنھم توافق ھوا ھم واعتقادھم فیھم ویعظمون من یحکی لھم ذلک وینقبضون من ذکر اللّٰہ تعالیٰ وحدہ، (الی أن قال) وقد قلت یوما لرجال یستغیث فی شدۃ ببعض الاموات وینادی یا فلان اغثنی فقلت لہ قل باللّٰہ فقد قال سبحانہ ” واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان “ فغضب وبلغنی انہ قال فلان منکر علی الاولیاء وسعمت عن بعضھم انہ قال الولی اسرع اجابۃ من اللّٰہ عزوجل وھذا من الکفر بمکان نسأل اللّٰہ تعالیٰ أن یعصمنا من الزیغ والطغیان (ص ١١: ج ٢٤) ” تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) فرماتے ہیں کہ ہم نے بہت سارے لوگوں کو ایسی ہی حالت پر دیکھا جو حالت اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بیان فرمائی ہے کہ وہ فوت شدہ لوگوں کے ذکر پر خوش ہوتے ہیں ان سے مدد مانگتے ہیں ان سے سوال کرتے ہیں اور ان کے بارے میں اپنی خواہشات نفس اور اپنے اعتقاد کے موافق جھوٹے قصے سن کر خوش ہوتے ہیں جو لوگ اسی طرح کی قصہ خوانی کرتے ہیں یہ ان کو عزت و احترام دیتے ہیں اور اکیلے اللہ کے ذکر سے منہ بناتے ہیں مصنف (رح) نے یہ بھی فرمایا کہ ایک آدمی جو مصیبت میں بعض مردوں سے مدد مانگتا تھا اور ” اغثنی یا فلان “ کہہ کر پکارتا تھا ایک دن میں نے اس سے کہا یا اللہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” جب میرا کوئی بندہ مجھ سے سوال کرے تو میں قریب ہوں جب مجھے کوئی پکارے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں “ تو وہ آدمی غضبناک ہوگیا اور مجھے یہ بات پہنچی کہ اس نے کہا فلاں آدمی اولیاء پر نکیر کرتا ہے بعض لوگوں سے میں نے سنا کہ وہ کہتے ہیں اللہ کی نسبت ولی جلدی دعاء قبول کرتا ہے یہ کفر ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں گمراہی و سرکشی سے محفوظ رکھے۔ “

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ ” قل للہ الخ “ یہ مشرکین کے زعم باطل کا جواب ہے کہ مشرکین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے مزعومہ معبودوں کو عند اللہ شفیع غالب مانیں۔ شفاعت تو اللہ کے ساتھ مختص ہے وہ جسے چاہے اور جس کے حق میں چاہے سفارش کرنے کی اجازت دے۔ شفاعت کی اجازت صرف انبیاء (علیہم السلام) اور صلحائے امت کو ملے گی۔ اور وہ بھی صرف ان لوگوں کے حق میں جنہوں نے اپنی زندگی میں شرک نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو مرنے سے پہلے توبہ کرلی ہے۔ ” لہ ملک السموات الخ “ ساری کائنات کی حکومت و سلطنت اللہ کے لیے ہے اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے اس میں تصرف کرتا ہے اس لیے اس کی بارگاہ میں کوئی شفیع قاہر نہیں۔ آخرت میں بھی سب اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ وہاں بھی بلا شرکت غیرے وہی متصرف و مختار ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ شفاعت اور سفارش تو تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے تمام آسمانوں اور زمین کی حکومت کا وہی مالک و متصرف ہے پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے ؟ مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی شفاعت کا وہی مالک ہے صاحب کشاف نے کہا ہے کہ شفاعت وہ باتوں پر موقوف ہے اول شفیع کو اجازت ہو دوسرے یہ کہ مشفوع لہ سے اللہ تعالیٰ راضی ہو اور وہ قابل مغفرت ہو یہاں دونوں باتیں مفقود ہیں شفیع اگر شیاطین اور ارواح خبیثہ ہوں تو اجازت مفقود اور اگر ملائکہ اور ارواح طیبہ ہوں تو مشفوع لہ کا قابل مغفرت ہونا مفقود اور چونکہ شفاعت ہی کی توقع پر ان کو معبود بنایا تھا اور ان کی عبادت اسی بنیاد پر کرتے تھے جب شفاعت مفقود تو ان کا معبود ہونا بھی باطل اور اللہ تعالیٰ کا وحدہ لا شریک ہونا ثابت اور سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے باوجود ان دلائل قطعیہ کے ان مشرکین کا یہ حال ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ کے روبرو سفارش ہے پر اللہ کے حکم سے نہ تمہارے کہے سے۔