Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 49

سورة الزمر

فَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ۫ ثُمَّ اِذَا خَوَّلۡنٰہُ نِعۡمَۃً مِّنَّا ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِیۡتُہٗ عَلٰی عِلۡمٍ ؕ بَلۡ ہِیَ فِتۡنَۃٌ وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۹﴾

And when adversity touches man, he calls upon Us; then when We bestow on him a favor from Us, he says, "I have only been given it because of [my] knowledge." Rather, it is a trial, but most of them do not know.

انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے ، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیں تو کہنے لگتا ہے کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Man changes when He is blessed after suffering Harm Allah tells, فَإِذَا مَسَّ الاْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ ... When harm touches man, he calls to Us (for help); then when We have changed it into a favor from Us, he says: Allah tells us how man, when he is suffering from harm, prays to Allah, turning to Him in repentance and calling upon Him, but when He makes things easy for him, he transgresses and commits sins. ... إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ ... Only because of knowledge I obtained it. means, `because Allah knows that I deserve it; if it were not for the fact that Allah regards me as special, He would not have given me this.' Qatadah said, "Because I know that I deserve it." Allah says: ... بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ ... Nay, it is only a trial, meaning, `the matter is not as he claims; on the contrary, We have blessed him with this as a test to see whether he will be obedient or disobedient -- although We have prior knowledge of that.' In fact, it is a trial. ... وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ but most of them know not! So they say what they say and claim what they claim.

انسان کا ناشکرا پن ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی حالت کو بیان فرماتا ہے کہ مشکل کے وقت تو وہ آہ و زاری شروع کردیتا ہے ، اللہ کی طرف پوری طرح راجع اور راغب ہو جاتا ہے ، لیکن جہاں مشکل ہوگئی جہاں راحت و نعمت حاصل ہوئی یہ سرکش و متکبر بنا ۔ اور اکڑتا ہوا کہنے لگا کہ یہ تو اللہ کے ذمے میرا حق تھا ۔ میں اللہ کے نزدیک اس کا مستحق تھا ہی ۔ میری اپنی عقل مندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل عقل مندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف کی آزمائش ہے گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے لیکن تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری؟ لیکن یہ لوگ بےعلم ہیں ۔ دعوے کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بےخبر ہیں ، یہی دعویٰ اور یہی قول ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کیا اور کہا ، لیکن ان کا قول صحیح ثابت نہ ہوا اور ان نعمتوں نے ، کسی اور چیز نے اور ان کے اعمال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا ، جس طرح ان پر وبال ٹوٹ پڑا اسی طرح ان پر بھی ایک دن ان کی بداعمالیوں کا وبال آپڑے گا اور یہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ نہ تھکا اور ہرا سکتے ہیں ۔ جیسے کہ قارون سے اس کی قوم نے کہا تھا کہ اس قدر اکڑ نہیں اللہ تعالیٰ خود پسندوں کو محبوب نہیں رکھتا ۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کرکے آخرت کی تیاری کر اور وہاں کا سامان مہیا کر ۔ اس دنیا میں بھی فائدہ اٹھاتا رہ اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا ہے ، تو بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرتا رہ ۔ زمین میں فساد کرنے والا مت بن اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا ۔ اس پر قارون نے جواب دیا کہ ان تمام نعمتوں اور جاہ و دولت کو میں نے اپنی دانائی اور علم و ہنر سے حاصل کیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس سے پہلے اس سے زیادہ قوت اور اس سے زیادہ جمع جتھا والوں کو میں نے ہلاک و برباد کردیا ہے ، مجرم اپنے گناہوں کے بارے میں پوچھے نہ جائیں گے ۔ الغرض مال و اولاد پر پھول کر اللہ کو بھول جانا یہ شیوہ کفر ہے ۔ کفار کا قول تھا کہ ہم مال و اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا ، کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کیلئے چاہے کشادگی کرے اور جس پر چاہے تنگی کرے ۔ اس میں ایمان والوں کیلئے طرح طرح کی عبرتیں اور دلیلیں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہ انسان کا بہ اعتبار جنس ذکر ہے یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری فقر و فاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔ 49۔ 2 یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان ؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم و ہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔ 49۔ 3 یعنی بات وہ نہیں ہے جو تو سمجھ رہا یا بیان کر رہا ہے بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یا کفر ؟ 49۔ 4 اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] یعنی خوشحالی کے دور میں اپنے معبودوں کی شان بڑھاتے اور اللہ کی گھٹاتے ہیں۔ لیکن مصیبت پڑنے پر پھر اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور جن معبودوں کی شان بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے، مصیبت کے وقت وہ کام نہیں آتے۔ [٦٦] اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ جو مال و دولت کی فراوانی مجھے نصیب ہوئی ہے۔ پہلے ہی اللہ کے علم میں تھی اور میرے مقدر میں لکھی ہوئی تھی۔ دوسرا یہ کہ اللہ کو میری استعداد معلوم تھی اور قیاس چاہتا تھا کہ مجھے یہ مال و دولت ملنی چاہئے۔ تیسرا یہ کہ جو کہ مجھے ملا ہے۔ میرے علم، میرے تجربہ اور میری استعداد کے مطابق ہی مجھے ملا ہے۔ [٦٧] مال کی آزمائش بڑی سخت ہے۔ بحرین کے جزیہ کی رقم کی تقسیم :۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور اس دنیا میں ہر انسان کی ہر حال میں آزمائش ہو رہی ہے اور ہر وقت ہو رہی ہے۔ اور جن چیزوں سے انسان کا امتحان ہو رہا ہے ان میں سے ایک نہایت اہم چیز مال و دولت کی فراوانی ہے۔ یہ انسان کے لئے کتنی بڑی آزمائش ہے ؟ درج ذیل احادیث سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے : ١۔ رسول اللہ نے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحص کو بحرین سے جزیہ لانے کے لئے بھیجا۔ جب ابو عبیدہ جزیہ کا مال لے کر واپس آئے تو اگلے دن صبح کی نماز میں معمول سے زیادہ لوگ شریک ہوئے اور سلام پھیرتے ہی (حسن طلب کے طور پر) آپ کے سامنے آئے۔ آپ بات سمجھ کر مسکرا دیئے اور فرمایا : تم خوش ہوجاؤ اور خوشی کی امید رکھو۔ (یعنی تم کو روپیہ ضرور ملے گا) پھر فرمایا :&& اللہ کی قسم ! مجھ کو تمہاری محتاجی کا ڈر نہیں ہے بلکہ مجھ کو تو یہ ڈر ہے کہ تم پر سامان زیست کی یوں فراوانی ہوجائے جیسے اگلے لوگوں پر ہوئی اور تم بھی اسی طرح دنیا کے پیچھے پڑجاؤ جس طرح وہ پڑگئے اور یہ مال کی کشادگی تمہیں آخرت سے اسی طرح غافل نہ کردے جس طرح ان لوگوں کو کیا تھا && (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب مایحذر من زھرۃ الدنیا والتنافس فیھا) ٢۔ آپ نے فرمایا : && اللہ کی قسم ! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگ جاؤ گے بلکہ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا پر ریجھ نہ جاؤ && ٣۔ نیز آپ نے فرمایا : && ہر امت کی ایک آزمائش ہے اور میری امت کی آزمائش مال ہے && (ترمذی۔ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الرقاق۔ دوسری فصل)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ ۔۔ : ” خَوَّلَ یُخَوِّلُ “ کسی معاوضے کے بغیر کوئی عطیہ دینا۔ اس آیت میں مشرک انسان کی ایک اور قبیح صفت بیان کی گئی ہے کہ جب اسے کوئی بڑی تکلیف پہنچتی ہے، مثلاً فقر یا بیماری یا سیلاب یا طوفان وغیرہ، تو اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کو پکارتا ہے، (” ثُمَّ “ تراخی کے لیے ہے، جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ نعمت کچھ مدت کے بعد ملتی ہے) پھر ایک مدت تک اس تکلیف میں رہنے اور بار بار لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہر حال میں اس سے فریاد کرنے اور اسے پکارنے کے بعد جب وہ اسے اس تکلیف سے نجات کی نعمت، یا کوئی بھی نعمت محض اپنے خاص فضل سے عطا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو سرے سے بھول جاتا ہے اور کہتا ہے، یہ تو مجھے صرف ایک علم کی بنا پر دی گئی ہے، مثلاً فقر کے بعد مال ملتا ہے تو کہتا ہے، یہ میرے دولت کمانے کے ہنر کی وجہ سے ملا ہے، اگر بیماری کے بعد شفا مل جائے تو کہتا ہے، یہ میری یا فلاں صاحب کی طب میں مہارت کی وجہ سے ملی ہے۔ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ :” مجھے یہ (نعمت) ایک علم کی بنیاد پر دی گئی ہے “ یعنی اپنے رب کے سارے احسان بھلا کر اس قدر بیگانہ ہوجاتا ہے کہ نعمت دینے والے کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتا، بلکہ کہتا ہے ” مجھے یہ نعمت دی گئی ہے “ یہ احسان فراموشی اور نمک حرامی کی انتہا ہے، کوئی اس سے پوچھے، کیا تیرے باپ نے تجھے یہ نعمت دی ہے ؟ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے اسی سورت کی آیت (٨) میں یہی الفاظ ” واؤ “ کے ساتھ آئے ہیں : (فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ) یہاں ” فاء “ کے ساتھ ” فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ“ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے (واللہ اعلم) کہ ” فاء “ کے ذریعے سے اس جملے کا تعلق ’ وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ “ کے ساتھ ہے، درمیان کے جملے معترضہ ہیں، یعنی ان جاہلوں کا تضاد دیکھو کہ کبھی ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ اللہ اکیلے کے ذکر پر ان کے دل نفرت سے بھر جاتے اور سخت تنگ پڑجاتے ہیں اور اس کے غیر کے ذکر پر ان کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے اور وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں (اور دوسرے وقت ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ) پھر جب انھیں کوئی بڑی تکلیف پہنچتی ہے ” فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ۡ“ تو اسی اللہ کو پکارتے ہیں جس کے ذکر پر ان کے دل تنگ پڑجاتے تھے اور ان غیروں کا نام بھی نہیں لیتے جن کے ذکر پر وہ بہت خوش ہوجاتے تھے۔ بَلْ هِىَ فِتْنَةٌ: یعنی وہ نعمت اسے اس کے علم کی بنا پر نہیں بلکہ آزمائش کے لیے دی گئی ہے کہ وہ عطا کرنے والے کا شکر ادا کرتا ہے یا اس کی نعمت کی ناشکری اور کفر و شرک پر اصرار کرتا ہے۔ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی اکثر لوگ نہیں جانتے کہ مال و جاہ، صحت و قوت بلکہ ہر ایک نعمت محض اللہ کے فضل سے عطا ہوتی ہے، اس میں کسی کی عقل یا علم کا کوئی دخل نہیں، کیونکہ بہت سے علم و عقل والے کنگال، بیمار اور کمزور ہوتے ہیں، انھیں کہیں پناہ نہیں ملتی اور بہت سے علم و عقل سے عاری مال و دولت، صحت و قوت اور بیشمار نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ” اکثر لوگ “ اس لیے فرمایا کہ تھوڑے لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں، پھر ان میں سے بعض تو ایمان لے آتے ہیں اور ہر حال میں اپنے رب پر صابر و شاکر رہتے ہیں اور بعض جاننے کے باوجود ضد اور عناد سے ناشکری اور کفر اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی ” لَا يَعْلَمُوْنَ “ ہی میں داخل ہیں، کیونکہ جو علم عمل سے آراستہ نہ ہو وہ لاعلمی ہی ہے۔ ” لَا يَعْلَمُوْنَ “ میں یہ بھی داخل ہے کہ اکثر لوگ نہیں جانتے کہ نعمتوں کی یہ فراوانی اگر شکر اور ایمان کا باعث نہ بنے تو اللہ کے راضی ہونے یا ان کے نعمتوں کے حق دار ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ استدراج ہے اور ان کے ذریعے سے ان پر حجت تمام ہو رہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا۝ ٠ ۡثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰہُ نِعْمَۃً مِّنَّا۝ ٠ ۙ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُہٗ عَلٰي عِلْمٍ۝ ٠ ۭ بَلْ ہِىَ فِتْنَۃٌ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٤٩ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ خول قوله تعالی: وَتَرَكْتُمْ ما خَوَّلْناكُمْ وَراءَ ظُهُورِكُمْ [ الأنعام/ 94] ، أي : ما أعطیناکم، والتّخویل في الأصل : إعطاء الخَوَل، وقیل :إعطاء ما يصير له خولا، وقیل : إعطاء ما يحتاج أن يتعهّده، من قولهم : فلان خَالُ مَالٍ ، وخَايِلُ مالٍ ، أي : حسن القیام به . والخَال : ثوب يعلّق فيخيّل للوحوش، والخَال في الجسد : شامة فيه . ( خ و ل ) التخویل ( تفعیل ) کے اصل معنی خول یعنی ایسی چیزیں عطا کرنے کے ہیں جو انسان کو خول کا کام دے اور بقول بعض ایسی چیزیں عطا کرنا جن کی نگہداشت کی ضرورت پڑے ۔ مال کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی فلاں مال کی خوب نگہداشت کرنے والا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَتَرَكْتُمْ ما خَوَّلْناكُمْ وَراءَ ظُهُورِكُمْ [ الأنعام/ 94] اور جو امال ومتاع ) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ چھوڑ آئے ۔ اور الخال اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو وحسنی جانوروں کو ڈرانے کے لئے کھیت میں لٹکا دیا جاتا ہے ۔ نیز خال کے معنی تل یعنی بدن پر سیاہ نشان کے بھی آتے ہیں ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جس وقت کافر کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف کے ختم ہونے کے لیے پکارتا ہے پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کردیتے ہیں تو کہتا ہے کہ مجھے جو کچھ مال ملا ہے وہ میری عقلمندی اور ہنر مندی سے ملا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی میری ہنر مندی دیکھ کردیا ہے بلکہ وہ نعمت تو ہماری طرف سے ایک آزمائش ہے مگر سب اس کو سمجھتے ہی نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ { فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَاز } ” تو جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے “ { ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰـہُ نِعْمَۃً مِّنَّا } ” پھر جب ہم اسے لپیٹ دیتے ہیں اپنی نعمت میں “ { قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ } ” تو وہ کہتا ہے مجھے تو یہ ملا ہے اپنے علم کی بنیاد پر۔ “ وہ کہتا ہے کہ یہ تو میری سمجھ ‘ ذہانت و فطانت اور منصوبہ بندی کا کمال ہے۔ میں نے بہت پہلے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ عنقریب اس چیز کی ڈیمانڈ آنے والی ہے ‘ چناچہ میں نے بر وقت فیکٹری لگا لی اور یوں میرے وارے نیارے ہوگئے۔ یہ مضمون سورة القصص کے آٹھویں رکوع میں قارون کے حوالے سے بڑی وضاحت کے ساتھ آچکا ہے۔ اس نے بھی اپنی دولت کے بارے میں کہا تھا : { اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ } (آیت ٧٨) کہ یہ سب کچھ تو مجھے میری ذہانت و فطانت کی وجہ سے ملا ہے۔ { بَلْ ہِیَ فِتْنَۃٌ وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے ‘ لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65 "The man" : the one who has aversion to Allah and whose face is distorted on hearing Allah alone being mentioned. 66 This sentence can have two meanings: (1) "That Allah knows that I stn worthy of this blessing; that is why He has given me All this, otherwise He would not have blessed me if I had been an evil and wicked person in His sight;" and (2) `that I have attained to this by virtue of my ability." 67 People ignorantly think that whoever is being blessed by Allah in some way is being so blessed necessarily on account of his worth and ability and that the same is a sign or proof of his being a favourite in His sight; whereas the fact is that whoever is being given something here, is being given it for the sake of a trial by Allah. This is a means of the test, and not any reward for ability, otherwise many able and worthy people would not be living in poverty and many unworthy people would not be rolling in prosperity. Likewise, these worldly blessings arc not a sign of one's being a favourite with AIlah either. Everyone can see that many good people whose goodness is unquestionable arc living in hardships in the world, and many wicked people whose evil-doing is well known arc enjoying the pleasures of life, Now, can a sensible man take the affliction of the one and the life of ease and comfort of the other as an argument to say that Allah hates the good matt and prefers the bad man?

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :65 یعنی جسے اللہ کے نام سے چڑ ہے اور اکیلے اللہ کا ذکر سن کر جس کا چہرہ بگڑنے لگتا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :66 اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ جانتا ہے کہ میں اس نعمت کا اہل ہوں ، اسی لیے اس نے مجھے یہ کچھ دیا ہے ، ورنہ اگر اس کے نزدیک میں ایک برا عقیدہ اور غلط کار آدمی ہوتا تو مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو مجھے میری قابلیت کی بنا پر ملا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :67 لوگ اپنی جہالت و نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت مل رہی ہے وہ لازماً اس کی اہلیت و قابلیت کی بنا پر مل رہی ہے ، اور اس نعمت کا ملنا اس کے مقبول بارگاہ الہٰی ہونے کی علامت یا دلیل ہے ۔ حالانکہ یہاں جسکو جو کچھ بھی دیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دیا جا رہا ہے ۔ یہ امتحان کا سامان ہے نہ کہ قابلیت کا انعام ، ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں ۔ اسی طرح یہ دنیوی نعمتیں مقبول بارگاہ ہونے کی علامت بھی نہیں ہیں ۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور بہت سے برے آدمی ، جن کی قبیح حرکات سے ایک دنیا واقف ہے ، عیش کر رہے ہیں ۔ اب کیا کوئی صاحب عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بنا سکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور بد انسان کو وہ پسند کرتا ہے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یعنی ایک طرف تو کافر لوگ توحید کا انکار کرتے ہیں، اور دوسری طرف جب کوئی تکلیف آتی ہے تو بتوں کو نہیں، ہمیں پکارتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٩۔ ٥٢۔ اوپر ذکر تھا کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان مشرکوں کے دل میں ایک نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور جب ان کے بتوں کا اچھا ذکر ان کے کانوں تک پہنچ جاتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں ان آیتوں میں فرمایا کہ ان لوگوں کی یہ عادت شیطان کے بہکانے سے ہے کیونکہ ان کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح سے بسی ہوئی ہے کہ تکلیف کے وقت سوا اللہ کے ان کے بت کچھ کام نہیں آتے اس واسطے تکلیف کے وقت خالص اللہ ہی سے یہ لوگ رفع تکلیف کی التجا کرتے ہیں لیکن یہ ان لوگوں کی ناشکری ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ان کی وہ تکلیف رفع کردیتا ہے تو کبھی اس رفع تکلیف کو اپنی تدبیروں کے اثر سے اور کبھی اپنی عزت اور شرافت سے سمجھنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو بالکل بھول جاتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احسانات اس آزمائش کے لئے ہیں کہ کون شخص اس کے احسانات کا شکر ادا کرتا ہے اور کون شخص ناشکری میں پکڑا جاتا ہے اور یہ خوب یاد رہے کہ ان سے پہلے بھی ایسے ناشکرے لوگ گزر چکے ہیں جنہوں نے اپنی ناشکری کی سزا بھگت لی اور اب بھی وہی عادت الٰہی جاری ہے اس عادت الٰہی کے موافق جب ان لوگوں کی سزا کا وقت آجائے گا تو یہ لوگ کہیں بھاگ کر اللہ کو تھکا نہیں سکتے یہ تو ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کی بات ہے کہ دنیا میں بہت سے نافرمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خوشحالی دے رکھی ہے اور بہت سے فرماں بردار لوگوں کو تنگ دستی اس لئے یہ خیال بھی ان لوگوں کا غلط ہے کہ ان کی عزت اور شرافت کے سبب سے اللہ تعالیٰ ان کی ہر ایک تکلیف کو راحت سے بدل دیتا ہے پھر آخر کو فرمایا ایسی باتوں کو وہی سمجھتے ہیں جو اللہ کی قدرت کے قائل ہیں یہ قدرت الٰہی کے منکر لوگ ایسی باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہیں صحیح بخاری ١ ؎ ومسلم کے حوالہ سے عمر (رض) بن عوف انصاری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کے لوگوں کی تنگ دستی کا کچھ اندیشہ نہیں ہے اندیشہ تو یہ ہے کہ خوشحالی کی ناشکری میں پہلی امتوں کی طرح کہیں یہ لوگ بھی ہلاک نہ ہوجائیں اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احسانات اس آزمائش کے لئے ہیں کہ کتنے آدمی اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کتنے آدمی ناشکری کے وبال میں پکڑے جاتے ہیں۔ (١ ؎ صحیح مسلم کتاب الزھد ص ٤٠٧ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:49) مس۔ ماضی واحد مذکر غائب مس (باب نصر) مصدر۔ جس کے معنی چھونا۔ دکھ پہنچانا۔ اسی باب سے قربت صنفی یعنی جماع کے معنی میں آتا ہے مثلا وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن (2:237) اور اگر تم عورتوں کو انکے پاس جانے سے پہلے طلاق دیدو۔ الانسان۔ اس میں لاف لام عہد کا ہے اس سے مراد کافر انسان ہیں۔ اور بعض کے نزدیک ال جنسی ہے اور اس سے جنس انسان مراد ہے لیکن چونکہ کافروں کی کثرت کی وجہ سے جنس انسان سے کافر انسان مراد ہیں۔ ضر۔ تکلیف، ضرر، ایذائ۔ دعانا : دعا ماضی واحد مذکر غائب ضمیر فاعل الانسان کی طرف راجع ہے۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم ۔ اس نے ہمیں پکارا۔ بمعنی حال۔ وہ ہمیں پکارتا ہے۔ خولنہ : خولنا ماضی جمع متکلم۔ تخویل (تفعیل) مصدر بمعنی عطا کرنا۔ دینا ۔ بخشنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع الانسان ہے۔ جب ہم اس کو عطا کردیتے ہیں (بمعنی حال) (جب) ہم نے اس کو عطا کردی (بمعنی ماضی) ۔ تخویل کا لفظ ازراہ مہربانی عطا کردینے کے لئے مخصوص ہے۔ اوتیتہ : اوتیت ماضی مجہول واحد متکلم ایتاء (افعال) مصدر بمعنی دینا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع نعمۃ ہے میں دیا گیا ہوں یہ نعمت۔ مجھے یہ نعمت دی گئی ہے۔ نعمۃ بمعنی شی من النعم ہے یعنی نعمتوں میں سے کوئی شے۔ اسی بنا پر ہ بصیغہ واحد مذکر استعمال ہوا ہے۔ علی علم۔ میرے علم نے باعث۔ میری تدبیر و حکمت کی وجہ سے ۔ لاجل علم علم کی وجہ سے۔ بل ہی فتنۃ : بل حرف اضراب ہے۔ بلکہ۔ یعنی حقیقت یہ نہیں ہے کیہ یہ نعمت اسے اس کے علم کے باعث یا استحقاق پر دی گئی ہے بلکہ اس کے امتحان کے لئے ہے کہ شکر بجا لاتا ہے یا ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے۔ ہی ضمیر واحد مؤنث غائب نعمۃ کے لئے ہے باعتبار لفظ پہلے ہ ضمیر مذکر باعتبار معنی لائی گئی تھی۔ فتنۃ آزمائش اس کے علاوہ کئی دیگر معانی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ اکثرھم ان میں سے اکثر۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ :۔ ذلک وھو دلیل علی ان الانسان للجنس۔ یہ جملہ دلالت کر رہا ہے کہ الانسان سے مراد جنس انسان ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یا ” اس نعمت کے ملنے کا مجھے پہلے سے علم تھا “۔ یا ” اللہ کا علم تھا کہ میں اس نعمت کا مستحق ہوں “۔4 کہ آیا وہ اسے پا کر شکر بجا لاتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے۔5” کہ انہیں جو دولت اور نعمت ملی ہے اس سے اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لینا چاہتا ہے “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ آزمائش اس لئے کہ دیکھیں اس کے ملنے پر ہم کو بھول جاتا ہے اور کفر کرتا ہے یا یاد رکھتا ہے اور شکر کرتا ہے۔ اور اسی آزمائش کے لئے بعض نعمتوں میں اسباب وکسب کا واسطہ بھی رکھ دیا ہے۔ اس سے اور زیادہ آزمائش ہوگئی کہ دیکھیں اس علت صوریہ پر نظر کرتا ہے یا علت حقیقیہ پر۔ 5۔ اس لئے اس کو اپنی تدبیر کا نتیجہ بتلاتے ہیں اور مبتلائے شرک رہتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ جب انہیں دنیا میں تکلیف پہنچتی تھی تو صرف ایک رب کو پکارتے تھے اور جب انہیں کوئی نعمت دی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ یہ ہماری فہم و فراست کا نتیجہ ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ” اللہ “ کو یاد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب اس کی تکلیف رفع کردیتا ہے اور اسے اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر وہ سمجھتا اور بعض مرتبہ زبان سے بھی کہتا ہے کہ یہ تو میری قابلیت کا نتیجہ ہے۔ بیماری کے بعد صحت کے بارے میں کہتا ہے کہ بروقت اور مناسب علاج کی وجہ سے صحت یاب ہوا ہوں۔ تونگری کے بارے میں برملا اظہار کرتا ہے کہ یہ میری منصوبہ بندی اور محنت کا صلہ ہے۔ منصب اور اقتدار حاصل ہو تو اپنی ذہانت اور سیاست کی بات کرتا ہے۔ اگر کہیں اللہ کا ذکر کرتا ہے تو بڑی بےتوجہگی کے ساتھ اور رواجی طور پر کرتا ہے۔ اس میں شکر کا فقدان ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین بروقت علاج اور ہر کام میں توجہ اور محنت کا حکم دیتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر نظر رکھتا ہے اور پورے خلوص کے ساتھ ذکر اور اس کا شکر کرتا ہے۔ مومن کے مقابلے میں دنیا پرست اپنی لیاقت اور اسباب پر بھروسہ کرتا ہے۔ کلمہ پڑھنے والا مشرک درباروں اور کافربتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے طفیل ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی آزمائش کی جاتی ہے۔ لیکن ان کی توجہ اس کی طرف مبذول نہیں ہوتی۔ اس جہالت اور سوچ کا پہلے لوگ بھی اظہار کرتے تھے جس کا اظہار مکہ والے کررہے ہیں۔ ان سے پہلے ظالموں نے جو کچھ کمایا اس کا انہیں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ان لوگوں کو بھی اپنے کیے کا وبال بھگتنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کو کسی معاملہ میں کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ انسان تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور خوشی کے وقت اسے بھول جاتا ہے۔ ٢۔ اکثر مال دار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی محنت اور لیاقت کی وجہ سے ان کو مال دیا گیا ہے۔ ٣۔ مال آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ اس آزمائش کو نہیں جانتے۔ ٤۔ پہلے لوگ بھی اپنے مال پر اتراتے تھے جب ان پر عذاب نازل ہوا تو ان کا مال کسی کام نہ آیا۔ ٥۔ مکہ والے بھی مال و اسباب پر اتراتے ہیں۔ عنقریب یہ اپنے کیے پر پکڑے جائیں گے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی کسی طرح بھی مجبور نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن دولت کے منفی اثرات : ١۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٢۔ مال و دولت اور دنیا کی زندگی انسان کے لیے آزمائش ہے۔ (طٰہ : ١٣١) ٣۔ لوگوں کو مال اور اولاد کی کثرت نے ہلاک کردیا۔ (التکاثر : ١) ٤۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہے۔ (حٰم السجدۃ : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 49 یہ آیت انسانوں کے ایک ایسے نمونے کا ذکر کرتی ہے جو ہر جگہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایسا نمونہ ہے جس کی فطرت نے سچائی تک رسائی حاصل نہیں کی۔ رب واحد کے عقیدے تک نہیں پہنچ سکی کہ اسے صحیح رویہ معلوم ہو اور خوشی اور غم کی حالت میں بھی وہ اپنا صحیح راستہ نہ بھولے۔ مصیبت ، انسانی فطرت کے اوپر سے خواہشات نفسانیہ کی جمی ہوئی دبیز تہوں کو دور کردیتی ہے اور مصنوعی عوامل کو ہٹا کر انسانی ضمیر کے اندر موجود سچائی نکھارتی ہے۔ جب انسان مشکلات سے دوچار ہوتا ہے تو اسے اللہ نظر آتا ہے ” جب کیا تنگ بتوں نے تو خدایاد آیا “ اب خدا کی تعریف ہونے لگتی ہے اور لوگ صرف اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور جب یہ شدت اور مصیبت ختم ہوجاتی ہے اور خوش حالی اور امن لوٹ آتا ہے تو انسان ان باتوں کو بھول جاتا ہے جو اس نے شدت و مصیبت کے وقت میں کی تھیں اور اس کی فطرت پھر خواہشات نفسانیہ اور وقتی عوامل کے دباؤ میں آجاتی ہے اور اللہ کی نعمتوں اور فضل وکرم کے بارے میں وہ کہتا ہے۔ انمآ اوتیته علی علم (39: 49) ” یہ تو مجھے علم کی بناء پر دیا گیا ہے “۔ یہ بات قارون نے بھی کہی تھی۔ ہر وہ شخص اور قوم جسے یہ دھوکہ ہوجائے کہ اسکے اچھے دن علم و حکمت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہیں۔ یہ اسکی مہارت ہے کہ اسکو مال اور اقتدار ملا ہے۔ ایسے لوگ فضل وکرم کے اصل مصدر سے غافل ہوتے ہیں اور علم دینے والے کو نہیں پہچانتے جو مبب الاسباب ہے اور جو رزق مقرر کرتا ہے۔ یہ ہے امتحان اور آزمائش۔ اسکے ذریعے اللہ معلوم کرتا ہے کہ جس پر فضل وکرم ہورہا ہے ، وہ شکر کریگا یا کفر کرے گا۔ آیا اس فضل وکرم کی وجہ سے اسکی اصلاح ہوتی ہے یا وہ مزید بگڑتا ہے۔ وہ راہ راست لیتا ہے یا گمراہی کی راہ آگے بڑھتا ہے۔ قرآن کریم نے بندوں پر مہربانی کرتے ہوئے یہ راز ان پر کھول دیا ہے اور اس خطرے سے انہیں پیشگی آگاہ کردیا ہے کہ یہ مال اور دولت اور اقتدار وجاہ بھی تمہارے لیے آزمائش ہے۔ قرآن کریم اقوام گزشتہ کے حالات ان پر پیش کر کے ان کو متنبہ کرتا ہے کہ پہلے بھی اس قسم کے لوگوں نے کہا تھا کہ۔ اوتیته علیٰ علم (39: 49) ” یہ تو مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قولہ تعالیٰ (اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلیٰ عِلٰمٍ بَلْ ھِیَ فِتْنَۃٌ) ذکرا لضمیر الاول لان النعمۃ بمعنی الانعام۔۔ المراد بھا المال وأنت الضمیر الثانی لرجوعھا الی النعمۃ واختیر لفظھا کما ختیر فی الال المعنی۔۔ ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد (اِنَّمَآ اُوتِیْتُہٗ عَلیٰ عِلٰمٍ بَلْ ھِیَ فِتْنَۃٌ) اس میں پہلی ضمیر کو مذکر اس لیے لایا گیا ہے انعام کے معنی میں ہے اور بعض نے کہا اس لیے کہ یہاں نعمۃ سے مراد مال ہے اور دوسری ضمیر کو اس لیے مونث لایا نعمۃ کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہاں نعمۃ کا لفظ مراد ہے جیسا کہ پہلی ضمیر لوٹانے کے وقت نعمۃ کا معنی مراد لیا گیا ہے۔ پانچویں آیت میں یہ بیان فرمایا کہ یہ جملہ ایسے شخص نے کہا ہے جسے مال دے کر نوازا گیا اس سے پہلے بھی لوگ اس طرح کہتے رہے ہیں اور اسے زبان پر لاتے رہے ہیں وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا یہ مال ہمیں فائدہ پہنچا دے گا لیکن یہ مال نہ دنیا کے عذاب سے بچا سکا اور نہ انہیں آخرت کے عذاب میں اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا۔ چھٹی آیت میں فرمایا ان لوگوں نے جو برے اعمال کیے انہیں کا بدلہ مل گیا اور جو موجودہ لوگ ہیں ان میں جو ظالم ہیں وہ بھی عنقریب اپنے اعمال کا بدلہ پالیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی چناچہ بدر میں سرداران قریش میں سے ستر آدمی مقتول ہوئے اور ستر قیدی ہوئے اور جو زندہ بچ گئے تھے بڑی ذلت اور رسوائی کے ساتھ واپس ہوئے، ساتھ ہی (وَمَا ھُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ) بھی فرمایا یعنی ہم جن لوگوں کو عذاب دینا چاہیں عذاب دے دیں گے ایسا نہیں ہے کہ مشرکین کافرین میں سے کوئی شخص کہیں بھاگ کر چلا جائے اور ہمارے قبضہ قدرت سے نکل جائے۔ ساتویں آیت میں فرمایا کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو فراخ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے یہ سب اس کی مشیت اور حکمت پر مبنی ہے ہنر مند کو بھی دیتا ہے اور بےہنر کو بھی، علم والے تنگی اٹھاتے ہیں اور جاہل جٹ سیٹھ جی بنے رہتے ہیں جس کے پاس جو کچھ ہے اللہ کے فضل سے ہے اس میں اپنے کسب اور ہنر کا دخل نہ جانیں۔ بناداناں چناں روزی رساند کہ دانا اندراں حیراں بماند

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ ” فاذا مس الخ “ یہ زجر چہارم ہے بطور شکوی الانسان سے یا تو جنس انسان کی طرف اشارہ ہے اور جنس بشر کی صفت غالبہ کا بیان مقصود ہے اور یہ صفت مشرکین ہی میں اکثر پائی جاتی ہے یا لام عہدیہ اور اس سے مراد کفار ہیں۔ اخبار عن الجنس بما یغلب فیہ (بیضاوی) وقیل المراد بالانسان الکفرۃ (روح) ۔ مشرک انسان چونکہ کو پکارتا ہے جس کی وحدانیت کے ذکر سے ناک بھوں چڑھاتا تھا۔ ” فاذا رکبوا فی الفلک دعو وا اللہ مخلصین لہ الدین “ (عنکبوت رکوع 7) ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ محض اپنی مہربانی سے اس پر انعام واکرام کی بارش فرما کر اس کی تمام تکلیفیں دور کردیتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اللہ کے احسانات کو اپنے حسن تدبر اور لطف حیل کا مرہون منت قرار دیتا ہے مثلا کہتا ہے میں نے فلاں حیلہ کیا، فلاں بزرگ کو پکارا۔ فلاں پیر صاحب کی نذر مانی وغیرہ وغیرہ جیسا کہ ہمارے آباء و اجداد کیا کرتے تھے۔ تائید ” فرحوا بما عندھم من العلم “ (حم السجدہ رکوع 9) ۔ نیز ” قالوا انا وجدنا اباءنا علی امۃ وانا علی اثارھم مقتدون “ (زخرف رکوع 2) ۔ پہلے زجر بطور شکوی میں مذکور تھا کہ جب ہم ان پر انعام کرتے ہیں تو وہ مصیبت کو بھول جاتے ہیں گویا ان پر کبھی مصیبت آئی ہی نہ تھی اب بطور ترقی کہا گیا۔ بلکہ الٹا کہتے ہیں ہم نے فلاں تدبیر اور حیلہ سے کام لیا تھا اس لیے مصیبت دور ہوئی۔ ہذا ما افادہ الشیخ قدس سرہ۔ 50:۔ ” بلھی الخ “ یہ ان کے خیال باطل کا رد ہے۔ یہ نعمت تمہاری تدبیر سے تمہیں نہیں ملی بلکہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ اور مصیبت سے بھی تمہیں تمہارے حیلے نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خلاصی دی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور استدراج کے طور پر ہے اس پر تمہیں اس قدر اترانا اور خوش نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) جس وقت انسان کو کوئی تکلیف اور سختی پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا فرماتے ہیں تو کہنے لگتا ہے سوائے اس کے نہیں کہ یہ تو مجھ کو میرے علم کی بنا پر ملی ہے یہ بات نہیں بلکہ وہ ایک آزمائش ہے مگر ان کے اکثر لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں۔ یعنی ایک طرف تو یہ حالت کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے نفرت کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے جب کسی کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو اس وقت ہم کو پکارتا ہے اور ہم جب کوئی احسان کردیتے ہیں تو کہتا ہے مجھے اس کا پہلے ہی سے علم تھا کہ مجھ کو یہ نعمت ملنے والی ہے یا یہ کہ اللہ مجھ کو اور میرے استحقاق کو جانتا تھا اسی کی بنا پر یہ نعمت مجھ کو دی گئی ہے یا یہ کہ مجھ میں جو مختلف ہنر اور کسب ہیں یہ اس کی بنا پر دی گئی ہے اور جو کچھ مجھ کو ملا وہ میری تدبیر اور میرے ہنر اور میرے کسب سے ملا ہے یعنی اپنے ہی کمال کو ذریعہ سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں مانتا۔ حضرت حق تعالیٰ فرماتے ہیں یہ ایک امتحان ہے جس کو ان کے اکثر لوگ نہیں سمجھتے یعنی جس طرح مصیبت اس کا ایک امتحان ہے کہ صبر کرتا ہے یا نہیں اس طرح نعمت بھی اس کی ایک آزمائش ہے کہ دیکھیں شکر بجا لاتا ہے یا نہیں سورة انبیاء میں گزرچکا ہے ونبلو کم بالشر والخیر فتنۃ اسی قسم کا یہ مضمون ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں آگے سے معلوم تھی یعنی قیاس بھی چاہتا تھا کہ یوں ہو۔ اللہ کی قدرت کا قائل نہ ہو یہ جانچ ہے کہ عقل اس کی دوڑنے لگی ہے وہ اپنی عقل پر بہکے وہی عقل رہتی ہے اور آفت آپہنچتی ہے۔