Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 50

سورة الزمر

قَدۡ قَالَہَا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۵۰﴾

Those before them had already said it, but they were not availed by what they used to earn.

ان سے اگلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں پس ان کی کاروائی ان کے کچھ کام نہ آئی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... Verily, those before them said it, means, the previous nations who came before said the same things and made the same claims, ... فَمَا أَغْنَى عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ yet (all) that they had earned availed them not. means, what they said was not right and all that they had gathered did not save them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 جس طرح قارون نے بھی کہا تھا، لیکن بالاآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ فما اغنی میں ما استفہامیہ بھی ہوسکتا ہے اور نافیہ بھی دونوں طرح معنی صحیح ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] انہیں لوگوں میں سے ایک قارون تھا۔ جس نے یہی بات کہی تھی کہ مجھے جو مال و دولت ملا ہے تو اس کی وجہ میرا ذاتی علم، تجربہ اور قابلیت ہے۔ پھر جب اسے اسی کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو اس وقت نہ اس کا مال و دولت کسی کام آسکا اور نہ جاہ و حشم۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ قَالَهَا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یعنی ان کفار قریش اور ان کے زمانے اور بعد میں آنے والے کفار سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کا یہی عقیدہ اور یہی کہنا تھا، جیسا کہ قارون کو اس کی قوم نے نصیحت کی تو اس نے کہا : (اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ۭ ) [ القصص : ٧٨ ] ”(یہ سب کچھ) مجھے تو ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے۔ “ قارون کے واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧٦ تا ٨٢ ) ۔ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : یعنی یہ کہنے والوں پر کہ ” ہمیں سب کچھ ہمارے علم کی بنا پر دیا گیا ہے “ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، جیسا کہ قارون کو اس کے مال و محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا، تو انھوں نے جو مال، اولاد کمائے تھے اور جو دنیوی مہارت حاصل کی تھی وہ ان کے کسی کام نہ آئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ قَالَہَا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَمَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ٥٠ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠۔ ٥١) اے محمد یہ بات آپ کی قوم سے پہلے قارون نے بھی کہی تھی تو عذاب خداوندی کے سامنے ان کی باتیں اور کارروائیاں اور غیر اللہ کی پرستش اور اموال کا جمع کرنا کچھ کام نہ آیا۔ تو ان تمام برے اعمال کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہو اور ان کفار مکہ میں سے جو مشرک ہیں تو ان سے پہلے لوگوں کی طرح ان کو بھی ان کی بداعمالیوں کی سزائیں ابھی ملنے والی ہیں اور یہ عذاب خداوندی سے بچ نہیں سکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ { قَدْ قَالَہَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ” ان سے پہلوں نے بھی یہی بات کہی تھی “ مثلاً قارون بھی ایسے ہی دعوے کیا کرتا تھا۔ { فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ” تو جو کچھ بھی انہوں نے کمائی کی تھی وہ ان کے کسی کام نہ آسکی۔ “ جب اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا تو اپنی اس دولت کے بل پر وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہ پایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

68 That is, "When they were seized for evil-doing, the ability of which they were so proud, did not avail them anything, and this also became known that they were not Allah's favourites. Evidently, if their earning had been due to their capability and their being favourites with Allah, they would not have been seized for evil-doing at all."

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :68 مطلب یہ ہے کہ جب ان کی شامت آئی تو وہ قابلیت بھی دھری رہ گئی جس کا انہیں دعویٰ تھا ، اور یہ بات بھی کھل گئی کہ وہ اللہ کے مقبول بندے نہ تھے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کی یہ کمائی مقبولیت اور صلاحیت کی بنا پر ہوتے تو شامت کیسے آ جاتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: مثلاً قارون نے یہی بات کہی تھی کہ مجھے جو دولت ملی ہے، وہ میرے علم و ہنر کی وجہ سے ملی ہے۔ دیکھئے سورۃ قصص : 78

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:50) قالہا۔ اس میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع قول انما اوتیتہ علی علم ہے یعنی اس سے پہلے بھی لوگ ایسی بڑ مارتے رہے ہیں۔ ضمیر مؤنث بدیں وجہ سے ہے کہ یہ ایک جملہ یا کلمہ ہے۔ فما اغنی عنھم ما کانوا یکسبون : ما اغنی ماضی منفی واحد مذکر غائب۔ اغناء (افعال) مصدر غنی کرنا۔ غنی بنانا۔ دولت دینا۔ مالدار کرنا۔ اغنی عنہ کافی ہونا ھذا ما یغنی عنک شیئا۔ یہ تجھے کوئی فائدہ نہ دے گا۔ ما کانوا یکسبون ۔ ما موصولہ یا مصدریہ ہے۔ پہلی صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ جو (دولت) وہ کمایا کرتے تھے اس نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔ دوسری صورت میں : ان کی کمائی ان کے کسی کام نہ آئی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 جیسے سورة قصص ( آیت 78) میں انہی الفاظ کے ساتھ قارون کا قول گزر چکا ہے۔7 مثال کے طور پر قارون ہی کا انجام دیکھ لیا جائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 50 تا 51 یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے قبل کے بدفطرت لوگوں نے کہے تھے۔ نہ ان کا علم ان کے کام آیا ، نہ ان کا اقتدار انہیں بچا سکا ۔ اور نہ ان کی ٹیکنالوجی اور اللہ کے عذاب نے انہیں آلیا۔ یہ ان کی آزمائش تھی اس میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اور اللہ کو عاجز کرنے والا کوئی نہیں۔ انسان جیسی ضعیف مخلوق اللہ کو کیسے عاجز کرسکتی ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ نے ان کو مال واقتدار دیا تو یہ اللہ کی حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور یہ حکمت اللہ خود ہی جانتا ہے کہ وہ کسی کو مال واقتدار کی فراوانی کیوں دیتا ہے۔ اصل بات ہوتی ہے اس کی مشیت اور اس کی آزمائش۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ ” قد قالہا الخ “ یہ تخویف دنیوی ہے۔ یہی بات ان سے پہلے مشرکین نے بھی کہی تھی لیکن جب ہمارے عذاب نے دنیا ہی میں ان کو آلیا تو غیر اللہ کی پکار سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اور انہ ان کے خود ساختہ معبودوں نے ان ہیں اللہ کے عذاب سے بچایا۔ نہ کفر و شرک کام آیا۔ نہ مال و اولاد نے سہارا دیا۔ ای من اموال الدنیا او من اعمالہم وعقائدہم (جامع البیان ص 399) ۔ فما اغنی عنہم الکفر من العذاب شیئا (معالم و خازن ج 6 ص 79) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) یہ بات وہ لوگ بھی کہہ چکے ہیں جوان سے پہلے گزرے ہیں پھر جو کچھ وہ کرتے رہے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آیا۔ یعنی قارون اور فرعون وغیرہ دوسرے کافر بھی یہی کہا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت نہ کرتے تھے جب آفت آئی تو ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔