Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 52

سورة الزمر

اَوَ لَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۵۲﴾٪  2

Do they not know that Allah extends provision for whom He wills and restricts [it]? Indeed in that are signs for a people who believe.

کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ ( بھی ) ایمان لانے والوں کے لیئے اس میں ( بڑی بڑی ) نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ ... Do they not know that Allah expands the provision for whom He wills, and straitens it. means, He gives plenty to some and restricts the provision for others. ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ Verily, in this are signs for the folk who believe! means, there is a lesson and proof.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں بھی اللہ کی توحید کے دلائل ہیں یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں صرف اسی کا حکم و تصرف چلتا ہے اسی کی تدبیر موثر اور کارگر ہے اسی لیے وہ جس کو چاہتا ہے رزق فراواں سے نواز دیتا ہے اور جس کو حاہتا ہے فقر وتنگ دستی میں مبتلا کردیتا ہے اس کے ان فیصلوں میں جو اس کی حکمت ومشیت پر مبنی ہوتے ہیں کوئی دخل انداز ہوسکتا ہے نہ ان میں رد وبدل کرسکتا ہے تاہم یہ نشانیاں صرف اہل ایمان ہی کے لیے ہیں کیونکہ وہی ان پر غور وفکر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] رزق کا انحصار مشیئت الٰہی پر ہے :۔ نشانیوں سے مرادیہ ہے کہ رزق کی اس کمی بیشی کی حکمتوں پر غور صرف اہل ایمان ہی کرتے ہیں۔ کیونکہ رزق کے حصول کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس کا انحصار محض اللہ کی مرضی اور حکمت پر ہے۔ رزق کا انحصار نہ عقل پر ہے نہ علم پر، نہ قابلیت اور تجربہ پر، نہ جسمانی قوت اور استعداد پر۔ سب انسان ہی یہ چاہتے ہیں اور اس کام کے لئے بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ مال و دولت حاصل ہو۔ الا ماشاء اللہ مگر تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو آسودہ حال ہوتے ہیں زیادہ ایسے ہی ہوتے ہیں جو رزق کی تنگی کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ اگر رزق کا انحصار عقل پر ہوتا تو بیوقوف بھوکے مرجاتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر عقلمند تو پریشان حال ہوتے ہیں جبکہ عقل سے کورے لوگ مال و دولت میں کھیلتے ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات راست باز اور نیک لوگ پریشان حال ہوتے ہیں۔ جبکہ ظالم اور اللہ کے نافرمانوں کو وافر مقدار میں رزق دیا جاتا ہے۔ تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جس کو مال ودولت ملا ہے اللہ اس سے خوش ہے۔ قطعاً غلط ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رزق کی تقسیم کے لئے ضابطہ الٰہی دوسرا ہے اور اس کی حکمتیں قرآن کریم میں جا بجا مذکور ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ ۔۔ : پچھلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ موجودہ اور پہلے کفار کا دھوکے میں مبتلا ہونے کا باعث انھیں عطا ہونے والا مال اور دوسری نعمتیں ہیں۔ انھوں نے اپنی جہالت سے یہ سمجھا کہ مال و دولت کی کثرت ان کی اپنی مہارت و قابلیت اور علم و عقل کا نتیجہ ہے اور یہ ان کے حق پر ہونے کی اور اللہ تعالیٰ کے ان پر خوش ہونے کی دلیل ہے۔ فرمایا، نہ رزق کی کشادگی کسی شخص کے علم و عقل یا مہارت پر موقوف ہے نہ اس کا تنگ ہونا کسی کے علم و عقل یا مہارت کی کمی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی زیادتی یا کمی اللہ تعالیٰ کے خوش یا ناخوش ہونے کی دلیل ہے، بلکہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر موقوف ہے، وہ جس کا رزق جب چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے، خواہ وہ نیک ہو یا بد اور جب چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، نیک ہو یا بد اور اس کی حکمت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اگر رزق علم و عقل اور مہارت و قابلیت پر موقوف ہوتا تو کوئی عالم و عاقل رزق کی تنگی میں مبتلا نہ ہوتا اور نہ ہی کسی جاہل یا کم عقل کو رزق یا دوسری نعمتوں کی فراوانی حاصل ہوتی۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : یعنی رزق کی فراخی اور تنگی میں ایمان والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ اس سے وہی فائدہ اٹھاتے اور عبرت حاصل کرتے ہیں، کیونکہ وہی ایمان رکھتے ہیں کہ رزق فراخ کرنے والا اور اسے تنگ کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہ یہ فیصلہ کسی کے نیک یا بد ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی حکمت و رحمت کے تحت کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے بندوں کا حال بہتر جانتا ہے۔ کبھی وہ اپنے بندے کا رزق تنگ کردیتا ہے کہ اگر اس کا رزق فراخ کردیا تو یہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے گا، کبھی اس کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ آیا وہ اس فقر و فاقہ میں صبر کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرتا اور اسے کوسنا شروع کردیتا ہے۔ کبھی وہ دل جوئی اور انعام کے طور پر یا حجت تمام کرنے کے لیے رزق فراخ کردیتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٥ ٢ۧ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ قدر ( تنگي) وقَدَرْتُ عليه الشیء : ضيّقته، كأنما جعلته بقدر بخلاف ما وصف بغیر حساب . قال تعالی: وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] ، أي : ضيّق عليه، وقال : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] ، وقال : فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] ، أي : لن نضيّق عليه، وقرئ : ( لن نُقَدِّرَ عليه) «3» ، ومن هذا المعنی اشتقّ الْأَقْدَرُ ، أي : القصیرُ العنق . وفرس أَقْدَرُ : يضع حافر رجله موضع حافر يده، وقوله : وَما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ، أي : ما عرفوا کنهه تنبيها أنه كيف يمكنهم أن يدرکوا کنهه، وهذا وصفه اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ان کفار مکہ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے مال وافر دیتا ہے اور ڈھیل کے طور پر جس پر چاہتا ہے تنگی کردیتا ہے اس آزمائش اور تنگی میں اہل ایمان کے لیے نشانیاں اور دلائل ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ { اَوَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ } ” کیا یہ جانتے نہیں کہ اللہ ہی ہے جو کشادہ کردیتا ہے رزق کو جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے (جس کے لیے چاہتا ہے) ۔ “ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ } ” یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ماننے والے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69 That is, "The Abundance or restriction of the provisions is based on another law of Allah, which has some other wisdom. The distribution of the provisions dces not at all depend on man's worthiness and ability, or on his being a favourite of Allah, or for being under His wrath. " (For details, see At-Taubah: 55, 69, 85; Yunus: 17; Hud: 3, 27; Ar-Ra`d: 26; Al-Kahf: 34-36; Ta Ha: 131-132; AI-Anbiya': 105; Al-Mu`min: Introductian and vv. 55-56; Ash-Shu'ara`: 111; AI-Qasas: 78, 89 and the E N. thereof. and E.N.'s 54 to 60 of Saba).

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :69 یعنی رزق کی تنگی و کشادگی اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون پر مبنی ہے جس کے مصالح کچھ اور ہیں ۔ اس تقسیم رزق کا مدار آدمی کی اہلیت و قابلیت ، یا اس کے محبوب و مغضوب ہونے پر ہرگز نہیں ہے ۔ ( اس مضمون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، صفحات 202 ۔ 212 ۔ 221 ۔ 274 ۔ 275 ۔ 322 ۔ 334 ۔ 457 ۔ جلد سوم ، صفحات 26 ۔ 77 ۔ 78 ۔ 139 ۔ 189 ۔ 191 ۔ 192 ۔ 259 ۔ 260 ۔ 283 ۔ 284 ۔ 513 ۔ 516 ۔ 662 ۔ 664 ۔ جلد چہارم ، حواشی سورہ سبا 54 تا 60 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:52) اولم یعلموا۔ ہمزہ استفہام انکای ہے واؤ کا عطف فعل محذوف پر ہے لم یعلموا مضارع مجزوم نفی جحد بلم۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔ کیا وہ نہیں جانتے۔ یبسط مضارع واحد مذکر غائب بسط (باب نصر) مصدر، وہ کشادہ کرتا ہے۔ وہ مراخ کرتا ہے۔ وہ وسیع کرتا ہے۔ بسطۃ وبسطۃ فضیلت، قدرت، جسم کی بڑائی۔ علم کی وسعت۔ کمال کی افزونی، بسط کبھی بمقابلہ قدر آتا ہے (تنگ کردینا) جیسا کہ آیت ہذا میں اور کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے (تنگ کردینا) جیسے واللّٰہ یقبض ویبسط (2:245) اللہ ہی روزی کو تنگ کرتا اور (وہی اسے) کشادہ کرتا ہے۔ یقدر۔ مضارع واحد مذکر غائب قدر (باب ضرب) مصدر سے وہ تنگ کرتا ہے۔ قدر وقدرۃ بمعنی طاقت رکھنا اور قادر ہونا بھی ہے۔ باب نصر سے بھی انہی معنوں میں مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی روزی کی تنگی اور کشائش اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے جس کی حکمت ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کی کمی بیشی کا مدار ہرگز آدمی کے علم و عقل اور ہنر مندی پر نہیں ہے۔ کتنے عقل مند لوگ رات دن فکر معاش میں سر گردان رہتے ہیں مگر اتنا بھی نہیں پاتے جس سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں اور کتنے جاہل نادان ہیں جو بےفکر وسعی لاکھوں روپے کے مالک ہیں اور نہ اسکی کمی بیشی کا مطلب ہے کہ جس کو زیادہ روزی دی جا رہی ہے وہ حق تعالیٰ کا پسندیدہ اور جسے کم روزی دی جا رہی ہے وہ اس کی غیر پسندیدہ بندہ ہے۔ بعض اوقات کسی آدمی کو زیادہ روزی اس لئے دی جاتی ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے اور کسی کو فقرہ فاقہ میں اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ صبر کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو کو سنے پر اتر آتا ہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی دلائل قائم ہیں کہ باسط و قابض وہی ہے، تدبیر و سوء تدبیر اس میں علت حقیقیہ نہیں پس ان دلائل کو جو شخص سمجھ لے گا وہ اپنی تدبیر کی طرف نسبت نہ کرے گا، بلکہ خدا کے منعم ہونے سے ذہول نہ کرے گا جو سبب ہوگیا تھا ابتلاء بالشرک کا بلکہ وہ موحد رہے گا اور ضراء وسراء میں اس کا حال و قال متناقض و متعارض نہ ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس مال پر مال دار اتراتے ہیں اس کی حقیقت۔ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ ” اللہ “ ہی رزق بڑھانے اور تنگ کرنے والا ہے۔ بلا شبہ اس میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس فرمان میں پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی داتا نہیں۔ وہی ہر چیز کا مالک ہے اور وہ اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو رزق عطا کرتا ہے۔ دوسرا سبق اس میں یہ پایا جاتا ہے کہ کسی مالدار کو اپنے مال پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ رزق کی کشادگی اور تنگی کسی کی لیاقت اور محنت پر منحصر نہیں۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو شب و روز محنت کرتے ہیں مگر رزق کی کشادگی دیکھنا ان کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے ہیں۔ جو اپنی محنت سے کہیں گنا زیادہ پاتے ہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے زمیندار کی مثال سامنے رکھیں۔ زمین ایک ہی ہے جس کا پانی، موسم اور بیج یکساں ہوتا ہے اور دیگر ذرائع بھی برابر استعمال کیے جاتے ہیں مگر فی ایکڑ کے حساب سے ایک قطعہ کی فصل بہت اچھی ہوتی ہے اور دوسرے کی بہت کم یہی صورت حال منڈی اور بازار میں دیکھی جاتی ہے۔ ایک ساتھ دکانیں اور ایک جیسا مال ہونے کے باوجود ایک کو سر کھجانے کی فرصت نہیں اور دوسرا خالی ہاتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لیے کہ رزق بڑھانا اور کم کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لیے مالدار کو اپنے مال پر اترانے کی بجائے اپنے رب کا شکر گزارہونا چاہیے اور تنگ دست کو اپنی حالت پر صبر کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور دعا کرنی چاہیے۔ (اَللّٰہُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ ) [ رواہ الترمذی : باب اللھم اکفنی حلالک عن حرامک ] ” اے اللہ ! مجھے حرام سے بچا اور اپنے حلال کے ساتھ میری کفالت فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے بےنیاز کردے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 52 یہ تو اللہ کی نشانیاں ہیں کہ وہ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے ، اور ان نشانات سے راہ ہدایت لینا چاہے ، نہ یہ کہ ان نشانات الہیہ کو کفر وضلالت کا ذریعہ بنایا جائے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ ” اولم یعلموا الخ “ یہ چھٹی عقلی دلیل ہے گذشتہ دلائل سے علی سبیل الترقی۔ اس سے قبل انسان کے اتبدائی اور انتہائی احوال کا ذکر تھا۔ یہاں درمیانی حال مذکور ہے۔ یعنی روزی کی تنگی اور فراخی اللہ کی قدرت کاملہ کے واضح نشانات ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے اور وہی فاعل حقیقی ہے۔ لایات دالۃ علی ان الھوادث کافۃ من اللہ تعالیی شانہ والاسباب فی التحقیقۃ ملغاۃ (روح ج 24 ص 13) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے روزی کو فراغ کردیتا ہے اور تنگ کردیتا ہے بلا شبہ اس بسط وقدر میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو اہل ایمان ہیں اور مانتے ہیں۔ یعنی یہ باتیں روز مرہ دیکھنے میں آتی ہیں کہ دو آدمیوں کے پاس ایک سا سرمایہ یہ ہے دونوں ایک ہی کام کرتے ہیں ایک بڑھتا چلا جاتا ہے اور ایک کمی میں چلا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ تھوڑے سرمائے والا آگے نکل جاتا ہے اور بڑے سرمائے والا رہ جاتا ہے روزی کا معاملہ ایسا ہے کہ کسی کو کنٹرول اور قابو میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت جس کو چاہتی ہے اس کی روزی فراخ کردیتی ہے اور جس کو چاہتی ہے اس کی روزی تنگ اور بقدر ضرورت ماپ کردیتی ہے اس طریقہ کار میں ان لوگوں کے لئے قدرت خداوندی کے بڑے دلائل ہیں جو اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے نہ کوئی روزی کا فراخ کرنے والا ہے اور نہ کوئی گھٹانے اور تنگ کرنے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عقل دوڑاتے ہیں تدبیر کرنے میں کوئی تنگی نہیں کرتا پھر ایک کو روزی کشادہ ہے ایک کو تنگ جان لو کہ یہ عقل کا کام نہیں۔