Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 59

سورة الزمر

بَلٰی قَدۡ جَآءَتۡکَ اٰیٰتِیۡ فَکَذَّبۡتَ بِہَا وَ اسۡتَکۡبَرۡتَ وَ کُنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۵۹﴾

But yes, there had come to you My verses, but you denied them and were arrogant, and you were among the disbelievers.

ہاں ( ہاں ) بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچ چکی تھیں جنہیں تو نے جھٹلایا اور غرورو تکبر کیا اور تو تھا ہی کافروں میں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yes! Verily, there came to you My Ayat and you denied them, and were proud and were among the disbelievers. meaning, `O you who regret what you did, My Ayat did come to you in the world, and My proof was established against you, but you rejected it and were too arrogant to follow it, and you were among those who disbelieved in it.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ ان کی خوا ہش کے جواب میں فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] یعنی تو جھوٹ بکتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے ایک بار پھر موقعہ دیا جائے تو میں نیکوکار بن جاؤں گا۔ جب تو دنیا میں تھا تو اس وقت تجھے میری آیات پہنچی تھیں۔ لیکن تیری فطرت ہی ایسی ہے جس میں اکڑ اور تکبر ہے جس کی وجہ سے تو میری آیات کو جھٹلاتا رہا۔ اور اب بھی تیری طبیعت ویسی کی ویسی ہے۔ وہ دوبارہ دنیا میں جاکر بدل نہیں جائے گی۔ آج جو کچھ تو کہہ رہا ہے وہ صرف عذاب کو دیکھ کر کہہ رہا ہے۔ جب تو نے اس سے نجات پالی تو تیری اصل فطرت پھر عود کر آئے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰيٰتِيْ ۔۔ : لفظ ” اٰيٰتِيْ “ (کیوں نہیں) اس شخص کی تردید کے لیے کہا جاتا ہے جو کسی ثابت شدہ چیز کی تردید کر رہا ہو۔ کفار کے قول ” لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ “ (اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں ضرور پرہیزگاروں میں سے ہوتا) کے ضمن میں یہ بات موجود ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت نہیں دی اور ” لَوْ اَنَّ لِيْ كَرَّةً “ کے ضمن میں یہ بات موجود ہے کہ اس نے انھیں وقت نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کیوں نہیں، میری آیات تیرے پاس آئیں (یعنی میں نے اپنی آیات کے ذریعے سے تجھے ہدایت دی اور وقت بھی دیا) مگر تو نے انھیں جھٹلا دیا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں شامل رہا، جیسا کہ قوم ثمود کے متعلق فرمایا : (وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى) [ حٰآ السجدۃ : ١٧ ] ” اور جو ثمود تھے ہم نے انھیں سیدھا راستہ دکھایا، مگر انھوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھا رہنے کو پسند کیا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 59, it was said: بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا (Why not? My verses had reached you, but you called them untrue, and waxed proud, and became of those who disbelieved...). In this verse, what the disbelievers said in: (If Allah were to show me the way, I would have surely been among those who fear Allah|",- 39:57) has been answered. The outcome of this verse is that Allah had already given the necessary guidance, fully and conclusively. He had sent His books, verses and signs. Therefore, their claim that Allah gave them no guidance was absurd. Of course, once He had given the guidance, Allah never forced anyone to be good and obedient. In fact, every servant of His was given the choice to take to either the way of the truth or the way of the false. This was a test for the maker of the choice. On this depended his or her success or failure. Whoever took to the way of error by one&s own free will, choice and volition, he or she is, himself or herself, responsible for it.

(آیت) بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِهَا۔ اس آیت میں کفار کی اس بات کا جواب ہے کہ اگر اللہ ہدایت کردیتا تو ہم متقی ہوجاتے۔ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں پوری ہدایت کردی تھی اپنی کتابیں اور آیتیں بھیجی تھیں۔ اس لئے ان کا یہ کہنا غلط اور لغو ہے کہ اللہ نے ہمیں ہدایت نہیں کی۔ ہاں ہدایت کرنے کے بعد نیکی اور اطاعت پر اللہ نے کسی کو مجبور نہیں کیا۔ بلکہ بندہ کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ جس راستے حق یا باطل کو اختیار کرنا چاہے کرے یہی بندہ کا امتحان تھا، اس پر اس کی کامیابی یا ناکامی موقوف تھی جس نے اپنے اختیار سے گمراہی کا راستہ اختیار کرلیا وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِہَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٥٩ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا ہاں بیشک تمہارے پاس میری کتاب اور رسول پہنچا تھا سو تم نے ان کو جھٹلایا اور ایمان لانے سے تکبر کیا اور کافروں کے ساتھ ان ہی کے طریقہ پر قائم رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ { بَلٰی قَدْ جَآئَ تْکَ اٰیٰتِیْ فَکَذَّبْتَ بِہَا وَاسْتَکْبَرْتَ وَکُنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ } ” کیوں نہیں ! تیرے پاس میری آیات آئی تھیں تو تو ُ نے ان کو جھٹلا دیا تھا اور تکبر کیا تھا اور تو کافروں میں سے تھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٩۔ ٦٢۔ مسند ٢ ؎ امام احمد اور نسائی میں مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ دوزخی لوگ دوزخ میں سے جنتیوں کو طرح طرح کے عیش میں جب دیکھیں گے اور جنت کی طرح طرح کی نعمتوں پر نظر ڈالیں گے اور فرشتوں سے سنیں گے کہ جنت میں ان دوزخیوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے مکان بنائے تھے اور ٹھکانہ مقرر کیا تھا لیکن دنیا میں ان لوگوں نے جنت میں جانے کے قابل کام نہیں کئے اس واسطے وہ ٹھکانے ان سے چھن کر دوسروں کو مل گئے اس وقت دوزخی لوگ طرح طرح کی حسرت کی باتیں کریں گے جن کا ذکر اوپر گزرا مثلاً کبھی کہیں گے کیا اچھا ہوتا کہ آج کو ہم لوگ بھی پرہیز گاروں میں ہوتے کبھی کہیں گے کہ کیا اچھا ہوتا جو ہم لوگوں کو پھر دیا میں جانے کی اجازت مل جاتی اور ہم اب کی دفعہ دنیا میں جا کر نیک کام کرتے اور پھر عقبے میں آن کر ان نیک کاموں کے اجر میں جنت پاتے ان دوزخیوں کی ان حسرت کی باتوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گا کہ اب حسرت کا کیا موقع ہے دنیا میں رہنے کا موقع بھی تم کو ملا اللہ کے رسول اور اللہ کے رسول کی معرفت اللہ کا کلام تمہاری ہدایت کے لئے سب کچھ دنیا میں آیا لیکن تم لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے اور دنیا کے عیش و آرام کے غرور میں کلام الٰہی کو جھٹلاتے رہے۔ اس واسطے آج اپنے کئے کو تمہیں بھگتنا پڑا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ ہر شخص کے لئے دوزخ اور جنت دونوں جگہ میں مکان بنائے گئے ہیں مرنے کے بعد جیسے جس کے عمل ہوں گے ویسا ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ میں حضرت انس بن مالک کی بہت بڑی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑا کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت مسلمان شخص منکر نکیر کے جواب میں پورا اترتا ہے تو اللہ کا فرشتہ دوزخ اور جنت دونوں جگہ کے ٹھکانے اس کو دکھا کر کہتا ہے کہ نیک عمل کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے تجھ کو دوزخ کے ٹھکانے سے محفوظ رکھا اور اس کی جگہ یہ جنت کا ٹھکانہ تجھ کو عنایت ہوا اور دوسری حدیث ابوہریرہ (رض) کی روایت سے صحیح بخاری ٣ ؎ میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ایک شخص کے جنت میں جانے سے پہلے اس شخص کا دوزخ کا ٹھکانہ اسے دکھلا دیا جائے گا تاکہ جنت کے ٹھکانے کی قدر اور شکر گزاری اس شخص کے دل میں زیادہ ہوجائے۔ ابو دائود و مسند ٤ ؎ امام احمد اور ابن ماجہ میں اور بھی اس قسم کی روایتیں ہیں جس طرح اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے یہ جان لیا تھا کہ دنیا میں پیدا ہو کر اتنے شخص اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام کریں گے اور جنت میں داخل ہوں گے اور اتنے شخص اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور دوزخ میں جائیں گے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگرچہ یہ دوزخی لوگ دوزخ کے عذاب سے اکتا کر یہ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ ان کو دنیا میں بھیجا جائے تو یہ لوگ نیک کام کریں گے لیکن اگر ان کو دوبارہ دنیا میں بھیجا بھی جائے تو وہی نافرمانی کریں گے جو انہوں نے پہلی دفعہ کی ہے یہاں مختصر طور پر اللہ تعالیٰ نے ان دوزخیوں کی بات کا جواب دیا ہے سورة الانعام میں یہ جواب تفصیل سے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ علم ازلی الٰہی کے موافق دوزخیوں کا یہ قول جھوٹا ہے بلکہ علم ازلی الٰہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ اگر دوبارہ دنیا پیدا ہو اور یہ لوگ دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں تو ان لوگوں سے وہی نافرمانی ظہور میں آئے گی جو پہلی دفعہ ظہور میں آئی اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا شر کی میں گرفتار جن لوگوں نے دنیا میں اللہ پر جھوٹ باندھا ہے کہ اپنی طرف سے اللہ کے جھوٹے شریک قرار دیئے ہیں۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کی وہ مذمت کی حالت دیکھنے کے قابل ہوگی کہ جب ان کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جا کر ان کو دوزخی ٹھہرایا جائے گا تو ان کے چہروں پر سیاہی چھا جائے گی اسی طرح ان لوگوں کی حالت بھی دیکھنے کے قابل ہے جنہوں نے خدا کا خوب دل میں رکھا اور نیک کاموں میں تا بمقدور لگے رہے کہ ان کے نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیئے جا کر ان کے سروں پر موتیوں کے تاج رکھے جائیں گے اور ان کو جنت میں داخل ہونے اور اس دن کی ہر طرح کی برائی سے امن میں رہنے کی خوشخبری دی جائے گی جس خوشی سے ان کے چہروں پر رونق آجائے گی۔ ترمذی ١ ؎ صحیح ابن حبان وغیرہابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں یہ نامہ اعمال کی تقسیم کا حال سے ہے۔ اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔ لیکن ابن حبان کی سند اچھی ہے اور مسند بزار میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی ایک روایت بھی اسی مضمون کی ہے جس کو بزار نے صحیح کہا ہے ان آیتوں میں نافرمان لوگوں کے چہروں پر سیاہی کے چھا جانے کا اور فرمانبرداروں کے ہر طرح کی برائی اور رنج اور غم سے امن میں رہنے کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جس حالت کا ذکر ہے وہ حالت نامہ اعمال کے تقسیم کے وقت کی ہے ابو دائود ٢ ؎ اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ کی روایت سے قیامت کے تین مشکل مقاموں کا جو ذکر آیا ہے۔ ان میں ایک تو یہی نامہ اعمال کی تقسیم کا مقام ہے دوسرا عملوں کے تولے جانے کا اور تیسرا پل صراط پر گزرنے کا۔ حضرت عائشہ کی یہ حدیث حسن (رض) بصری کی روایت سے ہے۔ اگرچہ بعضے علما کو یہ شبہ ہے کہ حسن بصری کی ملاقات حضرت عائشہ سے ہوتی ہے یا نہیں لیکن صاحب جامع الاصول نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ حسن بصری کی ملاقات حضرت عائشہ سے ہوئی ہے ہاں اس بات میں شبہ ہے کہ حسن بصری نے کوئی حدیث حضرت عائشہ سے سنی ہے یا نہیں۔ اس شبہ کی صورت میں امام مسلم کی شرط پر یہ حدیث صحیح ہے چناچہ اس کی تفصیل ایک جگہ اس تفسیر میں گزر چکی ہے کہ امام مسلم کے نزدیک تابعی اور صحابی کا ایک زمانہ میں موجود ہونا صحت روایت کے لئے کافی ہے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب مخلوقات کو پیدا کیا۔ اس لئے ہر طرح کا انتظام اسی کے اختیار میں ہے ان بت پرستوں کے بتوں کو نہ کسی چیز کے پیدا کرنے میں کچھ دخل ہے نہ کسی کے نفع میں ان کا کچھ اختیار چل سکتا ہے چناچہ مکہ کے قحط کے وقت ان مشرکوں کو اس کا حال اچھی طرح معلوم ہوچکا ہے۔ اس پر بھی یہ لوگ اللہ کی تعظیم اور عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں تو قیامت کے دن ان کو اپنی اس نادانی پر وہی حسرت اور افسوس کی باتیں کرنی پڑیں گی جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گزرا۔ صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث مکہ کے قحط کے باب میں اوپر گزر چکی ہے کہ قریش کی سرکشی جب بہت بڑھ گئی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بددعا کی جس کے اثر سے مکہ میں سخت قحط پڑا۔ اس قحط کے زمانہ میں مشرکین مکہ نے اپنے بتوں سے بہت کچھ التجا کی مگر کچھ نہ ہوا آخر کار رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے وہ قحط رفع ہوا۔ (٢ ؎ بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص ٦٠ ج ٤۔ ) (١ ؎ تفسیر ہذا ص ٤۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی عذاب القبر ص ١٨٣ ج ١۔ ) (٣ ؎ بخاری شریف باب صفۃ الجنۃ والنار ص ٩٧٢ ج ٢۔ ) (٤ ؎ مشکوٰۃ شریف باب القدر ملاحظہ فرمایئے ) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی العرض ص ٧٨ ج ٢۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف فی الحساب والقصاص والمیزان ص ٤٨٦) (٣ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٥٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:59) بلی۔ حرف اضراب ہے۔ یہاں شرک و معاصی کا ارتکاب کرنے والے کے اس قول کی تردید ہے جس کی طرف آیۃ مذکورہ لو ان اللّٰہ ھدنی لکنت من المتقین میں اشارہ ہے علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں :۔ یہ آیت گزشتہ آیت لو ان اللّٰہ ۔۔ کی مکمل تردید ہے کیونکہ سابق آیت میں اگر رہنمائی مراد ہے تو اس آیت کا مطلب ہوگا کہ پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے اللہ نے رہنمائی تو کردی تھی مگر تو نے سب کی تکذیب کی تو اس صورت میں آیت لو ان اللّٰہ ھدنی کا یہ مطلب یہ ہوگا کہ میرے پاس پیغمبر آیا ہی نہیں نہ کسی پیغمبر نے مجھے اللہ کا پیغام پہنچایا ۔۔ اور اگر ہدایت سے تخلیق ہدایت اور منزل مقصود تک پہنچانا مراد ہو تو اس صورت میں لو ان اللّٰۃ ھدنی کا یہ مطلب ہوگا کہ میں مجبور تھا اللہ ہی نے مجھے ہدایت نصیب نہیں کی۔ ایمان و اطاعت کو اختیار کرنے کی میرے اندر طاقت ہی نہ تھی کیونکہ اللہ نے مجھے اس کی قدرت دی ہی نہ تھی۔ بلی قد جاء تک ایتی ۔۔ الخ۔ میں اس قول کی تردید کردی اور فرمایا کیوں نہیں ہم نے تو تجھے قدرت دی تھی کہ جس راستہ کو اختیار کرنا چاہے کرلے۔ اسی پر عذاب و ثواب کی عمارت کی بناء ہے لیکن جب میری آیات تیرے پاس پہنچیں تو تو نے اپنے اختیار سے ان کی تکذیب کی اور غرور کیا اور تو کافروں میں شامل ہو رہا۔ استکبرت ماضی واحد مذکر حاضر۔ استکبار (استفعال) مصدر۔ تو نے غرور کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفر و شرک اور بڑے گناہوں سے توبہ نہ کرنے کا نقصان۔ ” اللہ “ کے نافرمان عذاب اور موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر زبان سے یا دل ہی دل میں ان حسرتوں کا اظہار کرتے ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی آیات میں ہوا ہے۔ اس وقت ملائکہ اپنے رب کی طرف سے جواب دیتے ہیں کہ تیرے پاس تیرے رب کے احکام اور ارشادات پہنچے لیکن تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں شامل رہا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔ ان کے چہرے کا لے ہوں گے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ کفر و شرک اور نافرمانیوں سے بچے رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ وہاں انہیں معمولی تکلیف بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ کچھ اہل علم نے ” بِمَفَازَتِہِمْ “ میں ” ب “ ظرفیہ اور ” مَفَاذَۃٌ“ کا معنٰی ” مَامَنْ “ کیا ہے۔ جس سے مراد جنت ہے۔ (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والوں کے منہ کالے ہوں گے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ٢۔ متقی جنت میں ہوں گے وہاں انہیں کوئی تکلیف اور غم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں اور جہنمیوں میں فرق : ١۔ ہم نے جنت میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٣۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٤۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٥۔ جنت میں انہیں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٦۔ جنت میں تمام پھل دو ، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) ٧۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٧٦) ٨۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٩۔ جنتیوں کے چہرے روشن ہوں گے۔ (عبس : ٣٨) ١٠۔ جہنمیوں کے چہرے کالے ہوں گے۔ (عبس : ٤١) ١١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ١٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مذید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ١٣۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٤) ١٤۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ١٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف : ٢٩) ١٦۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزامل سکے۔ (النساء : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 59 سیاق کلام اب قیامت میں متقین اور منکرین کا ایک منظر پیش کرتا ہے۔ عین اس وقت جب قارئین کو قیامت کے برپا ہونے کے آخری لمحات تک پہنچادیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ” بلی الخ “ قیامت کے دن جب نافرمان لوگ مذکورہ بالا حیلے بہانے بنائیں گے تو جواب دیا جائے گا دنیا میں اللہ کی روشن کتاب تمہارے پاس آئی جس نے تم پر ہدایت کی راہ واضح کردی لیکن تم نے اس کو جھٹلایا اور غرور وتکبر سے اس کا انکار کیا اور ضد وعناد میں آکر حق بات کا اقرار نہ کیا۔ الکافرین ای الساترین للحق عناداً ۔ قالہ الشیخ (رح)۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) ہاں یہ واقعہ ہے کہ میرے احکام تجھ تک پہنچے تھے پھر تونے ان کو جھٹلایا اور تونے میری آیتوں کے مقابلے میں تکبر کیا اور تو منکروں میں شامل رہا۔ یعنی تو غلط کہتا ہے کہ تو ہدایت نہیں کیا گیا بلکہ پیغمبروں کا بھیجنا اور آیات کا نزول یہ سب کچھ ہدایت کے اسباب تھے تو خود ہی تکذیب کرتا رہا اور خود ہی تونے تکبر کا اظہار کیا اور خود ہی کافروں میں شامل رہا پھر ہم پر کیوں الزام لگاتا ہے۔ جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ جبرفی الہدایت نہیں کیا جاتا یہی جواب پہلے اور تیسرے جملے کا ہوسکتا ہے مگر ذرا تفصیل کے ساتھ جس کی تیسیر گنجائش نہیں چونکہ لوان اللہ ھدئنی کا جواب ظاہر تھا اس لئے ہم نے اس پر کفایت کیا۔