Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 60

سورة الزمر

وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیۡنَ کَذَبُوۡا عَلَی اللّٰہِ وُجُوۡہُہُمۡ مُّسۡوَدَّۃٌ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡمُتَکَبِّرِیۡنَ ﴿۶۰﴾

And on the Day of Resurrection you will see those who lied about Allah [with] their faces blackened. Is there not in Hell a residence for the arrogant?

اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوگئے ہوں گے کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Consequences for Those Who tell Lies against Allah and for Those Who have Taqwa Allah tells us that on the Day of Resurrection, some faces will be blackened and some will be whitened. The faces of those who followed splits and divisions will be blackened, and the faces of Ahlus-Sunnah wal-Jama`ah will be whitened. Allah says here: وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُواْ عَلَى اللَّهِ ... And on the Day of Resurrection you will see those who lied against Allah, meaning, by their claims that He had partners or offspring. ... وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ... their faces will be black. means, because of their lies and fabrications. ... أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ Is there not in Hell an abode for the arrogant! means, is not Hell sufficient for them as a prison and humiliating final destination, because of their stubborn pride, arrogance and refusal to follow the truth

مشرکین کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے ۔ قیامت کے دن دو طرح کے لوگ ہوں گے ۔ کالے منہ والے اور نورانی چہرے والے ۔ تفرقہ اور اختلاف والوں کے چہرے تو سیاہ پڑ جائیں گے اور اہل سنت والجماعت کی خوبصورت شکلیں نورانی ہو جائیں گی ۔ اللہ کے شریک ٹھہرانے والوں اس کی اولاد مقرر کرنے والوں کو دیکھے گا کہ ان کے جھوٹ اور بہتان کی وجہ سے منہ کالے ہوں گے ۔ اور حق کو قبول نہ کرنے اور تکبر و خودنمائی کرنے کے وبال میں یہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔ جہاں بڑی ذلت کے ساتھ سخت تر اور بدترین سزائیں بھگتیں گے ۔ ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ تکبر کرنے والوں کا حشر قیامت کے دن چیونٹیوں کی صورت میں ہوگا ہر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی انہیں روندتی جائے گی یہاں تک کہ جہنم کے جیل خانے میں بند کردیئے جائیں گے جس کا نام بولس ہے ۔ جس کی آگ بہت تیز اور نہایت ہی مصیبت والی ہے ۔ دوزخیوں کو لہو اور پیپ اور گندگی پلائی جائے گی ، ہاں اللہ کا ڈر رکھنے والے اپنی کامیابی اور سعادت مندی کی وجہ سے اس عذاب سے اور اس ذلت اور مار پیٹ سے بالکل بچے ہوئے ہوں گے اور کوئی برائی ان کے پاس بھی نہ پھٹکے گی ۔ گھبراہٹ اور غم جو قیامت کے دن عام ہوگا وہ ان سے الگ ہوگا ۔ ہر غم سے بےغم اور ہر ڈر سے بےڈر اور ہر سزا اور ہر دکھ سے بےپروا ہوں گے ۔ کسی قسم کی ڈانٹ جھڑکی انہیں نہ دی جائے گی امن و امان کے ساتھ راحت و چین کے ساتھ اللہ کی تمام نعمتیں حاصل کئے ہوئے ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 جس کی وجہ عذاب کی ہولناکیاں اور اللہ کے غضب کا مشاہدہ ہوگا۔ 60۔ 1 حدیث میں ہے الکبر بطر الحق وغمط الناس حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا کبر ہے یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ کی اطاعت سے تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] اللہ پر افترا کی صورتیں :۔ اللہ پر جھوٹ بولنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فلاں فلاں معبودوں یا بتوں یا پیاروں کو فلاں فلاں اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ لہذا رزق کے لئے فلاں کے پاس اور اولاد کے لئے فلاں درگاہ پر اور شفا کے لئے فلاں آستانے پر حاضری دینے سے مراد حاصل ہوجاتی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے اور کہا جائے کہ اللہ نے تو کوئی چیز نازل نہیں کی۔ حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ تھی۔ [٧٨] ان کے جھٹلانے کی سزا یہ ہے کہ ان کے منہ کالے کردیئے جائیں گے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ && جھوٹے کا منہ کالا && اور تکبر کی سزا جہنم کے سوا اور کوئی ہو نہیں سکتی تاکہ اس کے سب کس بل نکل جائیں اور دماغ ٹھکانے پر آجائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا ۔۔ : اللہ پر جھوٹ باندھنے میں اگرچہ اس کے ساتھ شرک کرنا، اس کے لیے بیوی یا اولاد قرار دینا، اپنے آپ کو اس کا محبوب قرار دینا اور ان کے علاوہ دوسرے سب جھوٹ شامل ہیں، مگر آیات کے سیاق کے لحاظ سے اس کے اولین مصداق وہ دو جھوٹ ہیں جو اس سے پہلی آیات کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں، یعنی ایک ان کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت نہیں دی اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت نہیں دی۔ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ: قیامت کے دن کفار کے چہروں کے سیاہ ہونے کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٠٦، ١٠٧) ، یونس (٢٧) اور عبس (٤٠ تا ٤٢) ۔ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ : ” مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ “ ثَوٰی یَثْوِيْ بالْمَکَانِ وَ أَثْوٰی فِیْہِ “ کسی جگہ میں رہنا، جیسا کہ سورة قصص میں ہے : (وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ ) [ القصص : ٤٥ ] ” اور تو اہل مدین میں رہنے والا نہیں تھا۔ “ اس سے معلوم ہوا جہنم میں جانے کا باعث ان کا تکبر ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں تھے اور حق معلوم ہونے کے باوجود انھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا اور ان کے چہرے سیاہ ہونے کا باعث بھی یہی تکبر ہوگا، کیونکہ متکبر کا چہرہ بگاڑنے ہی سے اس کا تکبر ٹوٹتا ہے۔ (ابن عاشور) عبد اللہ بن مسعود (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا وَ نَعْلُہُ حَسَنَۃً ، قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١ ] ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر تکبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا اچھا ہو (کیا یہ بھی تکبر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ بہت جمال والا ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاہُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَہَنَّمَ یُسَمَّی بُوْلَسَ تَعْلُوْہُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَہْلِ النَّارِ طِیْنَۃِ الْخَبَالِ ) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب ما جاء في شدۃ الوعید المتکبرین : ٢٤٩٢، قال الترمذي حسن صحیح وقال الألباني حسن ]” متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکلوں میں اٹھائے جائیں گے، ہر جگہ سے ذلت انھیں ڈھانک رہی ہوگی، پھر وہ جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کرلے جائے جائیں گے، جس کا نام ” بولس “ ہے۔ آگوں کی آگ (سب سے بڑی آگ) ان پر چڑھی ہوگی، انھیں آگ والوں کا نچوڑ ” طینۃ الخبال “ پلایا جائے گا۔ “ [ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَي اللہِ وُجُوْہُہُمْ مُّسْوَدَّۃٌ۝ ٠ ۭ اَلَيْسَ فِيْ جَہَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ۝ ٦٠ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ سود السَّوَادُ : اللّون المضادّ للبیاض، يقال : اسْوَدَّ واسْوَادَّ ، قال : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ [ آل عمران/ 106] فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسْوِدَادُهَا عبارة عن المساءة، ونحوه : وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [ النحل/ 58] ، وحمل بعضهم الابیضاض والاسوداد علی المحسوس، والأوّل أولی، لأنّ ذلک حاصل لهم سُوداً کانوا في الدّنيا أو بيضا، وعلی ذلک دلّ قوله في البیاض : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] ، وقوله : وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة/ 24] ، وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْها غَبَرَةٌ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 40- 41] ، وقال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عاصِمٍ كَأَنَّما أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً [يونس/ 27] ، وعلی هذا النحو ما روي «أنّ المؤمنین يحشرون غرّا محجّلين من آثار الوضوء» «1» ، ويعبّر بِالسَّوَادِ عن الشّخص المرئيّ من بعید، وعن سواد العین، قال بعضهم : لا يفارق سوادي سواده، أي : عيني شخصه، ويعبّر به عن الجماعة الكثيرة، نحو قولهم : ( عليكم بالسّواد الأعظم) «2» ، ( س و د ) السواد ( ضد بیاض ) سیاہ رنگ کو کہتے ہیں اور اسود ( افعلال ) واسواد ( افعیلال ) کے معنی کسی چیز کے سیاہ ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ [ آل عمران/ 106] جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے سیاہ ۔ تو چہروں کے سفید ہونے سے اظہار مسرت اور سیاہ ہونے سے اظہار غم مراد ہے ایطرح آیت : وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [ النحل/ 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خوشخبری ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے اور ( اس کے دل کو دیکھو تو ) وہ اندرہی خاک ہوجاتا ہے ۔ وہ بھی مسودا سے بھی مغموم ہونا ہی مراد ہے ۔ بعض نے آیت ۔ تبیض الخ میں حسی سفیدی اور سیاہی کے معنی مراد لئے ہیں ۔ لکین پہلا معنی زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ چیز تو قیامت کے دن اعمال کے اعتبار سے حاصل ہوگی عام اس سے کہ وہ دینا میں سیاہ فام ہوں یا سفید فام اور اسی سفیدی اور سیاہی کو دوسری آیات میں یوں فرمایا ہے : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] اس دن بہت سے منہ رونق دارہوں گے وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة/ 24] اور بہت سے منہ اس روز اداس ہوں گے ۔ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْها غَبَرَةٌ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 40- 41] اور کتنے منہ ہوں گے جن پر گرد پڑرہی ہوگی ( اور ) سیاہی چڑھ رہی ہوگی ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عاصِمٍ كَأَنَّما أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً [يونس/ 27] اور ان کے منہ پر ذلت چھائے گی اور کوئی ان کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا ان کے مونہوں ( سیاہی ) کا یہ عالم ہوگا کہ ان ہر گویا اندھیری رات کے ٹکڑے اوڑھا دئیے گئے ہیں ۔ اسی طرح مومنین کے متعلق حدیث میں آیا ہے یحشرون غرا محجلین من آثار الوضوء کہ قیامت کے دن آثار وضو سے ان کے پاتھ پاؤں اور چہرے چمک رہے ہوں گے ۔ اور دور سے جو چیز نظر پڑے اسے بھی سواد کہا جاتا ہے اسی طرح آنکھ کی سیاہی کو بھی سوادلعین سے تعبیر کرلیتے ہیں جیسا کہ کسی نے کہا ہے لایفارق سوادی سوادہ میری آنکھ اس کے شخص سے جدا نہیں ہوتی اور بڑی جماعت کو بھی سواد کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ مروی ہے : مسلمانوں کی بڑی جماعت کا ساتھ نہ چھوڑو ( نہ اس سے علیدگی اختیار کرو ) جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم، ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ كبر الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ بمعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور آپ قیامت کے دن ان لوگوں کے چہرے سیاہ دیکھیں گے جنہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور حضرت عزیر اور عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا تھا کیا ان کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ { وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وُجُوْہُہُمْ مُّسْوَدَّۃٌ} ” اور قیامت کے دن تم دیکھو گے ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا کہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ “ { اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَکَبِّرِیْنَ } ” تو کیا جہنم ہی میں ٹھکانہ نہیں ہے ایسے متکبرین کا ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:60) یوم القیمۃ مسودۃ : یوم بوجہ ظرفیت منصوب ہے۔ الذین اسم موصول جمع مذکر کذبوا علی اللّٰہ بدل ہے الذین سے وجوہہم مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدا ۔ مسودۃ اسم فاعل واحد مؤنث اسوداد افعلال مصدر سے ۔ سیاہ ۔ خبر۔ مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ ہوا۔ یہ جملہ موضع حال میں ہے لہٰذا محل نصب میں ہے۔ یعنی قیامت کے دن تو دیکھے گا۔ ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ پر دروغ گوئی کی درآں حالیکہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ اللہ پر دروغ گوئی سے مراد اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اسے صاحب اولاد ماننا۔ یا ان صفات کی اس کی طرف نسبت کرنا جو اس کی شان کے شایان نہیں ہیں۔ الیس۔ الف استفہام انکاری کے لئے ہے لیس فعل ناقص ماضی واحد مذکر غائب نہیں ہے۔ نفی کا انکار۔ مثبت کا اقرار ہے۔ یعنی ضرور ہے۔ مثوی۔ ظرف مکان مفرد مثاوی جمع ٹھکانہ۔ فرودگاہ ۔ اترنے کا مقام۔ دراز مدت تک ٹھہرنے کی جگہ۔ مطلب : متکبرین کا ٹھکانا ضرور بالضرور جہنم میں ہوگا۔ متکبرین۔ اسم فاعل جمع مذکر تکبر کرنے والے۔ اللہ کو ماننے اور اس کی اطاعت کرنے سے سرتابی کرنیوالے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

۔2 یقینا ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس میں دو امر آگئے۔ جو بات خدا نے نہیں کہی مثل شرک وغیرہ اس کو کہنا کہ خدا نے کہی ہے۔ اور جو بات خدا نے کہی جیسے قرآن، اس کو کہنا کہ خدا نے نہیں کہی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 60 تا 61 یہ ہے آخری انجام ، ایک گروہ ہے کہ شرمندگی کی وجہ سے اس کا چہرہ سیاہ ہے۔ نیز غم کی وجہ سے اور جہنم کی شعلوں کی وجہ سے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زمین میں اپنے آپ کو بہت ہی بڑا سمجھتے تھے۔ ان کو رات اور دن اللہ کی دعوت دی جاتی تھی۔ یہ دعوت اس وقت بھی برقرار تھی جب یہ گناہوں میں گردن تک ڈوبے ہوئے تھے لیکن انہوں نے داعی کی پکار پر کان نہ دھرا۔ آج یہ گروہ بہت ہی شرمندہ ہے۔ شرمندگی اور کبیدگی کی وجہ سے اس کا چہرہ سیاہ ہے اور دوسرا فریق نجات پاچکا ہے ، کامیاب ہوگیا ہے۔ اب اسی کوئی گزند پہنچنے کا امکان ہی باقی نہیں رہا ۔ نہ اسے کوئی پریشانی لاحق ہوگی۔ یہ میقین کا فریق ہے جو دنیا میں اس طرح زندہ رہے کہ آخرت سے ڈرتے رہے اور اللہ کی رحمت کے امیدوار رہے۔ آج وہ نجات کامیابی امن اور سلامتی میں ہیں۔ لایمسھم۔۔۔ یحزنون (39: 61) ” ان کو اب کوئی گزند نہ پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے “۔ اس صورت حال کے بعد اب جو چاہے داعی حق کی پکار پر لبیک کہے اور اللہ کی تروتازہ رحمت اور جنت میں داخل ہوجائے ۔ یہ رحمتیں اور یہ توبہ کے دروازے کے ساتھ موجود ہیں۔ دروازہ کھلا ہے۔ چھوڑ دو اپنا اسراف ، چھوڑو بےراہ روی اور ترک کرو فسق وفجور ، قبل اس کے کہ تمہیں عذاب الہٰی آلے اور تمہیں اس کا شعور ہی نہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57:۔ ” ویوم القیمۃ الخ “ یہ تخویف اخروی ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ مثلاً اس کے لیے شریک اور نائب متصرف ثابت کرتے ہیں، قیامت کے دن تم دیکھو گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہیں اور جہنم میں ان کا ٹھکانا ہے کیا ایسے متکبر لوگوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہوگا۔ جو غرور و نخوت کے نشے میں حق کا انکار کرتے ہیں۔ کذبہم علی اللہ تعالیٰ لوصفہم لہ سبحانہ بان لہ شریکا و نحو ذلک تعالیٰ عما یصفون علوا کبیرا (روح ج 4 24 ص 19) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) اے مخاطب تو قیامت کے دن لوگوں کے چہرے کالے اور سیاہ دیکھے گا جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا تھا کیا ان تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی باتوں کا اثبات کیا جس کا اس نے انکار کیا اور ان باتوں کا انکار کیا جس کا اس نے حکم دیا تو ایسے لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ان متکبروں کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا۔ وتریٰ میں مفسروں کے دو قول ہیں اس لئے ترجمے اور تیسیر میں دونوں کی رعایت کی گئی۔