Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 61

سورة الزمر

وَ یُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا بِمَفَازَتِہِمۡ ۫ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوۡٓءُ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۶۱﴾

And Allah will save those who feared Him by their attainment; no evil will touch them, nor will they grieve.

اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالٰی ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا ، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وہ کسی طرح غمگین ہو نگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوا بِمَفَازَتِهِمْ ... And Allah will deliver those who are those who have Taqwa to their places of success. means, because of what Allah has decreed for them of happiness and victory. ... لاَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ ... Evil shall touch them not, means, on the Day of Resurrection. ... وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ nor shall they grieve. means, the greater terror (of that Day) will not cause them grief, for they will be safe from all grief and removed from all evil, and they will attain all that is good.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 مفازۃ مصدر میمی ہے یعنی فوز کامیابی شر سے بچ جانا اور خیر سے سعادت سے ہم کنار ہوجانا، مطلب ہے، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو اس فوز وسعادت کی وجہ سے نجات عطا فرما دے گا جو اللہ کے ہاں ان کے لئے پہلے سے ثبت ہے۔ 61۔ 2 وہ دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے ہیں، اس پر انہیں کوئی غم نہ ہوگا، وہ چونکہ قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہونگے، اس لئے انہیں کسی بات کا غم نہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] یعنی اللہ تعالیٰ نیکوکار لوگوں کو اتنے بلند مقام پر پہنچا دے گا۔ جہاں انہیں روز محشر کی لو اور تپش نہ پہنچ سکے گی۔ وہاں وہ ہر طرح کی تکلیف سے محفوظ ہوں گے۔ جو اعمال انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے ان پر وہ مطمئن ہوں گے اور انہیں کسی قسم کا غم لاحق نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّــقَوْا ۔۔ : متکبرین کا انجام بیان فرمانے کے بعد متقین کا انجام بیان فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ تکبر کے منافی ہے، کیونکہ تقویٰ اللہ کی نافرمانی سے بچنے اور اس کے سامنے عاجز ہوجانے کا نام ہے، جیسا کہ فرمایا : (تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ) [ القصص : ٨٣ ]” یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔ “ : ” بِمَفَازَتِهِمْ مَفَازَۃٌ“ ” فَازَ یَفُوْزُ فَوْزًا “ سے مصدر میمی ہے ” کامیابی “ یا ظرف مکان ہے ” کامیابی کی جگہ “ یعنی اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو (دنیا کی امتحان گاہ میں) کامیاب ہونے کی وجہ سے جہنم سے نجات عطا فرمائے گا، یا اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو ان کے کامیاب ہونے کی جگہ (جنت میں داخلے) کے ساتھ نجات عطا فرمائے گا، جیسا کہ فرمایا : (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔ “ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوْۗءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ : یعنی نہ آئندہ انھیں کوئی تکلیف یا برائی پہنچے گی۔ چناچہ نہ ان پر کوئی خوف آئے گا اور نہ ہی انھیں دنیا میں گزرے ہوئے صدموں یا پریشانیوں کا کوئی غم رہے گا، کیوں کہ جنت کا ایک ہی پھیرا انھیں دنیا کے تمام رنج و غم بھلا دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيُنَجِّي اللہُ الَّذِيْنَ اتَّــقَوْا بِمَفَازَتِہِمْ۝ ٠ ۡلَايَمَسُّہُمُ السُّوْۗءُ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٦١ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو لوگ اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ان کی اطاعت کی تھی اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور نیکیوں کی وجہ سے ان کو نجات دے گا اور ان کو سختی اور عذاب نہیں پہنچے گا اور جس وقت دوسرے غمگین و پریشان ہوں گے تو وہ لوگ غمگین نہ ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ { وَیُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِہِمْ } ” اور اللہ نجات دے گا ان لوگوں کو جنہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی تھی (اور انہیں پہنچا دے گا) ان کی کامیابی کی جگہوں پر۔ “ جنت میں ان کے درجات اور مراتب کے مطابق اللہ تعالیٰ انہیں ان کے مقامات تک پہنچا دے گا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنے مراتب پر پہنچیں گے اور اسی طرح صدیقین ‘ شہداء اور صالحین اپنے اپنے مقامات کو پالیں گے۔ { لَا یَمَسُّہُمُ السُّوْٓئُ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ } ” نہ ان کو کوئی تکلیف چھو سکے گی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:61) ینجی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ تنجیۃ (تفعیل) مصدر نجو مادہ وہ بچا لے گا۔ وہ نجات دیگا۔ اتقوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ وہ ڈرے۔ انہوں نے پرہیزگاری اختیار کی۔ اتقاء افتعال مصدر وقی مادہ۔ وقیت الشی (باب ضرب) وقایہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں۔ جیسے ووقہم عذاب الجحیم (44:56) اور (خدا) ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالیگا۔ اسی سے تقوی ہے نفس کو ہراس چیز سے بچانا جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ کبھی کبھی تقوی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا فمن اتقی واصلح فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون (7:35) جو شخص (ان پر ایمان لاکر) خدا سے ڈرتا رہیگا۔ اور اپنی حالت درست رکھیگا تو اسیے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔ پھر تقوی کے مختلف مدارج ہیں اس لئے ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے۔ بمفازتھم۔ ب سببیہ ہے مفازتھم مضاف مضاف الیہ ان کی کامیابی ان کی فلاح۔ جملہ کا مطلب یہ ہے اور جو پرہیزگار ہیں ان کی کامیابی کے سبب خدا ان کو نجات دیگا۔ مفازۃ : فازیفوز (باب نصر) سے مصدر ہے اور فوز ومفاز بھی مصدر ہے۔ لایمسھم۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب ۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ان کو نہیں چھوئے فا۔ ان کو نہیں پہنچے گا۔ مس یمس (باب سمع) ۔ السوئ۔ تکلیف ، دکھ۔ آفت۔ سوء سے اسم ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی دوزخ سے بچائے گا اور جنت دے کر کامیاب فرمائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اہل ایمان کا ثواب بیان فرمایا (وَیُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوا) (الآیۃ) ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا کفر اور شرک سے بھی بچے اور گناہوں سے بھی، اللہ تعالیٰ انہیں ان کی کامیابی کے ساتھ نجات دے گا اور اہل تکبر کے ٹھکانہ یعنی دوزخ سے بچالے گا انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58:۔ ” وینجی الخ “ یہ ایمان والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ جو لوگ کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانی سے اور تمام متکبرانہ اوصاف سے بچتے رہے ان کو اللہ تعالیٰ جہنم سے بچا کر فوز و فلاح سے ہمکنار فرمائے گا اور عذاب یا حزن و غم انہیں چھوئے گا بھی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(61) اور جو لوگ شرک وکفر سے بچتے تھے اللہ تعالیٰ ان متقیوں کو کامیابی کے ساتھ جہنم سے بچائیگا نہ ان کو کس طرح کی تکلیف چھوئے گی نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے۔ تقویٰ کے مختلف درجے ہیں کم از کم یہ کہ شرک سے بچتا رہے تو اس آیت میں عام مسلمانوں کو بڑی بشارت ہے اور جو تقویٰ کے اعلیٰ درجات کو طے کرچکے ہیں تو ان کی تو کامیابی کا اندازہ کیا ہوسکتا ہے۔ بہرحال اہل تقویٰ کو کامیابی کے ساتھ محفوظ رکھا جائے گا ان کو نہ برائی اور تکلیف اور عذاب مس کریں گی اور نہ وہ غم زدہ اور غمگین ہوں گے کیونکہ وہ جنت میں ہوں گے۔