Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 62

سورة الزمر

اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۶۲﴾

Allah is the Creator of all things, and He is, over all things, Disposer of affairs.

اللہ ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہرچیز پر نگہبان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is the Creator and Controller, and associating others in worship with Him cancels out Good Deeds Allah tells, اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ Allah is the Creator of all things, and He is the Trustee over all things. Allah tells us that He is the Creator, Lord, Sovereign and Controller of all things; everything is subject to Hi... s dominion, power and guardianship.   Show more

تمام جاندار اور بےجان چیزوں کا خالق مالک رب اور متصرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ۔ ہر چیز اس کی ماتحتی میں اس کے قبضے اور اس کی تدبیر میں ہے ۔ سب کا کارساز اور وکیل وہی ہے ۔ تمام کاموں کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے زمین و آسمان کی کنجیوں اور ان کے خزانوں کا وہی تنہا مالک ہے حمد و ستائش کے قابل اور ... ہر چیز پر قادر وہی ہے ۔ کفر و انکار کرنے والے بڑے ہی گھاٹے اور نقصان میں ہیں ۔ امام ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث وارد کی ہے گو سند کے لحاظ سے وہ بہت ہی غریب ہے بلکہ صحت میں بھی کلام ہے لیکن تاہم ہم بھی اسے یہاں ذکر کردیتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا اے عثمان تم سے پہلے کسی نے مجھ سے اس آیت کا مطلب دریافت نہیں کیا ۔ اس کی تفسیر یہ کلمات ہیں ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ ولا قوۃ الا باللہ الاول والاخر والظاہر والباطن بیدہ الخیر یحیی و یمیت وھو علی کل شئی قدیر ۔ ) اے عثمان جو شخص اسے صبح کو دس بار پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چھ فضائل عطا فرماتا ہے اول تو وہ شیطان اور اس کے لشکر سے بچ جاتا ہے ، دوم اسے ایک قنطار اجر ملتا ہے ، تیسرے اس کا ایک درجہ جنت میں بلند ہوتا ہے ، چوتھی اسکا حورعین سے نکاح کرا دیا جاتا ہے ، پانچویں اس کے پاس بارہ فرشتے آتے ہیں ، چھٹے اسے اتنا ثواب دیا جاتا ہے جیسے کسی نے قرآن اور توراۃ اور انجیل و زبور پڑھی ۔ پھر اس ساتھ ہی اسے ایک قبول شدہ حج اور ایک مقبول عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا درجہ ملتا ہے ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں بڑی نکارت ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مشرکین نے آپ سے کہا کہ آؤ تم ہمارے معبودوں کی پوجا کرو اور ہم تمہارے رب کی پرستش کریں گے اس پر آیت ( قل افغیر اللہ سے من الخاسرین ) تک نازل ہوئی ۔ یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے ۔ ( وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 88؀ ) 6- الانعام:88 ) اوپر انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے اگر بالفرض یہ انبیاء بھی شرک کریں تو ان کے تمام اعمال اکارت اور ضائع ہو جائیں یہاں بھی فرمایا کہ تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی طرف ہم نے یہ وحی بھیج دی ہے کہ جو بھی شرک کرے اس کا عمل غارت ۔ اور وہ نقصان یافتہ اور زیاں کار ، پس تجھے چاہیے کہ تو خلوص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں لگا رہ اور اس کا شکر گزار رہ ۔ تو بھی اور تیرے ماننے والے مسلمان بھی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یعنی ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اور مالک بھی وہی وہ جس طرح چاہے تصرف اور تدبیر کرے ہر چیز اس کے ماتحت اور زیر تصرف ہے کسی کو سرتابی یا انکار کی مجال نہیں وکیل بمعنی محافظ اور مدبر ہر چیز اس کے سپرد ہے اور وہ بغیر کسی کی مشارکت کے ان کی حفاظت اور تدبیر کر رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں بلکہ ہر آن ہر چیز کی نگرانی بھی کررہا ہے۔ جس سے یہ نظام کائنات باقاعدگی سے چل رہا ہے۔ اس نظام کائنات کی باقاعدگی سے تمام جانداروں کا رزق وابستہ ہے۔ بارش سے زمین نباتات اگاتی ہے۔ نیز ہر طرح کی معدنیات اور دوسرے خزانے جو زمین میں مدفون ہیں سب اللہ ہی ک... ے علم اور تصرف میں ہیں۔ آج بھی اس کے تصرف میں ہیں اور کل بھی اسی کے تصرف میں ہوں گے۔ نیز جنت اور دوزخ بھی اسی کے تصرف میں ہے۔ لہذا جو شخص اللہ کی آیات کا منکر اور اس کا باغی ہے وہ کیسے فلاح کی امید رکھ سکتا ہے ایسے لوگ یقیناً خسارہ میں ہی رہیں گے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۔۔ : اہل توحید کے لیے وعدے اور مشرکین کے لیے وعید کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور رد شرک کے دلائل کا ذکر شروع فرمایا۔ ابن عاشور نے فرمایا : ” وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ“ اور اس کے بعد والے دو جملے ” قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ اَي... ُّهَا الْجٰهِلُوْنَ “ کی تمہید ہیں اور اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دلیل ہیں۔ پہلا جملہ ” اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۡ“ ہے، ظاہر ہے کہ جب ہر چیز پیدا اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود برحق ہونے کی دلیل کے طور پر اپنے ہر چیز کے خالق ہونے کو جا بجا بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٠٢) ، رعد (١٦) ، فاطر (٣) ، مومن (٦٢) اور سورة حج (٧٣) ۔ وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ : ” وَکَلَ یَکِلُ “ (ض) سپرد کرنا۔ ” وکیل “ جس کے سپرد کوئی چیز کی جائے کہ وہ اس کی حفاظت اور نگرانی کرے اور اس میں جو چاہے کرے۔ یہ اکیلے اللہ کی عبادت کی دوسری دلیل ہے، یعنی جس طرح ہر چیز کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح ہر چیز کی تدبیر و حفاظت کرنے والا بھی صرف اللہ تعالیٰ ہے، نہ کسی چیز کے پیدا کرنے میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی حفاظت و تدبیر میں۔ اس لیے اپنی ہر چیز اور ہر کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کا حکم قرآن میں بار بار آیا ہے، فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) [ آل عمران : ١٢٢ ] ” اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔ “ اور فرمایا : ( وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ ) [ إبراہیم : ١٢ ] ” اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے، اسی کے اختیار میں کنجیاں ہیں آسمان و زمین کی۔ یعنی ان سب چیزوں کا موجد و خالق بھی وہی ہے اور ان کو باقی رکھنے والا، حفاظت کرنے والا بھی وہی ہے۔ جو مفہوم ہے لفظ وکیل کا۔ اور ان سب مخلوقات میں تصرفات و انقلابات بھی اسی کا ک... ام ہے۔ یہ مفہوم ہے (آیت) لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا۔ کیونکہ جس کے ہاتھ میں خزانوں کی کنجیاں ہوتی ہیں، وہ ہی عادتاً ان میں تصرفات کا مالک ہوتا ہے۔ اور جب ساری کائنات کا خالق بھی بلاشرکت غیرے وہی ہے، محافظ بھی وہی ہے، مالک تصرفات کا بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہئے اور سزا وجزا کا مالک بھی وہی ہونا چاہئے جو خلاصہ ہے توحید کا۔ اور چونکہ ان سب مقدمات کو یہ مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے تو ان پر لازم تھا کہ عقیدہ توحید کو بھی تسلیم کریں، اس لئے فرمایا) جو لوگ (اس پر بھی) اللہ کی آیتوں کو (جو توحید اور جزا و سزاء کے مضمون پر مشتمل ہیں) نہیں مانتے وہ بڑے خسارے میں رہیں گے (اور یہ لوگ خود تو کفر و شرک میں ملوث تھے ہی اب ان کا حوصلہ یہاں تک بڑھا کہ آپ کو بھی اپنے طریقہ پر لانے کے لئے فرمائش کرتے ہیں سو) آپ کہہ دیجئے کہ اے جاہلو (مذکورہ دلائل سے توحید کا مکمل ثبوت اور کفر و شرک کا ابطال ہوجانے کے بعد) پھر بھی تم مجھ کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کے لئے کہتے ہو (اور آپ سے کفر و شرک کا صادر ہونا کیسے ممکن ہے جبکہ) آپ کی طرف بھی اور جو پیغمبر آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ (ہر امتی کو پہنچا دیں) اگر تو شرک کرے گا تو تیرا کیا کرایا کام سب غارت ہوجاوے گا اور تو خسارہ میں پڑے گا۔ (اس لئے تو کبھی شرک کے پاس نہ جانا) بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرنا اور (اسی کا) شکر گزار رہنا (اور جب انبیاء (علیہم السلام) کو جن میں آپ بھی داخل ہیں توحید کا حق ہونا اور کفر و شرک کا باطل ہونا بذریعہ وحی ثابت ہوچکا اور وہ اس پر مامور کئے گئے کہ دوسرے کو بھی اس عقیدے کی ہدایت کریں تو ان مشرکین کا آپ سے کفر و شرک کی توقع رکھنا بجز حماقت کے اور کیا ہوسکتا ہے) اور (افسوس ہے کہ) ان لوگوں نے خدائے تعالیٰ کی عظمت وقدر نہ پہچانی جیسا کہ پہچاننا چاہئے تھا، حالانکہ ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوئے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں، وہ پاک اور برتر ہے ان کے شرک سے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۝ ٠ۡوَّہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۝ ٦٢ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح ا... ندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ ہی ہر ایک کو روزی پہنچانے کا ذمہ دار ہے یا یہ کہ وہ ہر ایک کے اعمال کا نگہبان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ { اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍز وَّہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ } ” اللہ ہی ہر شے کا خالق ہے ‘ اور وہی ہرچیز پر نگہبان ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 That is, "He did not just create the world and then left it alone, but He is constantly guarding and watching over everything. Just as everything in the world came into being by His act of creation so everything is living and surviving by His leave, and flourishing and functioning only under His protection and care."

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :73 یعنی اس نے دنیا کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا ہے ، بلکہ وہی ہر چیز کی خبر گیری اور نگہبانی کر رہا ہے ۔ دنیا کی تمام چیزیں جس طرح اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح وہ اس کے باقی رکھنے سے باقی ہیں ، اس کے پرورش کرنے سے پھل پھول رہی ہیں ، اور اس کی حفاظت و ن... گرانی میں کام کر رہی ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:62) وکیل۔ صفت مشبہ، وکل مصدر سے۔ نگہبان ، نگران ، کارساز۔ التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کرکے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں۔ اور وکیل بروزن فعیل بمعنی مفعول ہے جس پر اعتماد کرکے اپنا کام اس کے سپرد کردیا جائے اور جگہ قرآن مجید میں ہے وکفی باللّٰۃ وکیلا (4:81) اور خدا ہی کافی کارساز ہے یعنی اپنے ... تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے اور کارسازی کے لئے اسی کو کافی سمجھئے  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی جس طرح ہر چیز کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے اسی طرح ہر چیز کی تدیبر و حفاظت کرنے والا بھی صرف اللہ ہی ہے نہ اس کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ اس کی حفاظت و تدبیر کرنے میں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ “ نے ظالموں کو سزا دینا اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جزا اور انہیں جنت میں داخل کرنا ہے وہی ” اللہ “ ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور اس پر نگران ہے۔ زمین و آسمان کے اختیارات اسی کے پاس ہیں۔ جاندار ہو یا غیر جاندار، چھوٹی ہو یا بڑی غرض کہ زمین و آسمانوں، ہواؤں اور فضاؤ... ں میں ہو یا کوئی چیز تحت الثّریٰ میں ہو یا عرش معلی پر ہو۔ ہر چیز کو پیدا کرنے والا صرف اور صرف ایک ” اللہ “ ہے۔ اس کے سوا نہ کسی نے کوئی چیز پیدا کی ہے اور نہ کوئی پیدا کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ پیدا کرنے اور کسی چیز کے بنانے میں بہت فرق ہے۔ پیدا کرنے کا معنٰی ہے کہ وہ چیز، اس کا نمو نہ اور اس کا مٹیریل سرے سے ہی موجود ہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزوں کے لیے ” جَعَلَ “ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ جس کا معنٰی بنانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس چیز کا مٹیریل پیدا کیا اور پھر اسی نے ہی اسے اس طرح بن جانے کا حکم دیا جس طرح اس کی منشا تھی۔ بنانے کا لفظ آدمی کے لیے بھی بولا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں چیز بنائی ہے۔ لیکن خالق کا لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نہیں بولا جاسکتا۔ جس طرح ہمارے ملک میں کچھ سیاستدان بانئ پاکستان کو خالق پاکستان کہتے ہیں۔ ایسا کہنا غلط ہے کیونکہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا صرف ” اللہ “ ہے۔ لہٰذا خالق کا لفظ اس کے سوا کسی کے لیے بولنا جائز نہیں وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ ہر چیز کا وکیل بھی ہے۔ وکیل کا لفظ جزوی معنوں میں کسی انسان کے لیے بولا جاسکتا ہے۔ لیکن کلی مفہوم کے لحاظ سے صرف اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا وکیل ہے۔ جو تخلیق سے لے کر موت تک ہر جاندار کی تمام ضرورتیں پوری کرنے والا ہے یعنی وہ ہر اعتبار سے اس کا ذمہ دار ہے۔ اسی کے پاس زمین و آسمانوں کی چابیاں ہیں۔ ہر زبان میں عام طور پر چابی کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ١۔ تالا یا کسی بند چیز کو کھولنے والی چیز۔ ٢۔ کسی چیز کا قبضہ اور اختیار رکھنا۔ ٣۔ خزانے کا مالک ہونا۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر اعتبار سے زمین و آسمانوں کی چابیاں ہیں۔ اس نے کسی زندہ یا مردہ کو اپنی خدائی میں کوئی اختیار نہیں دیا۔ جو لوگ اس کے ارشادات اور احکام کا جزوی یا کلی طور پر انکار کرتے ہیں وہ ناقابل تلافی اور دائمی نقصان پائیں گے۔ (عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ إِنَّ اللَّہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ ، وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ، وَیَعْلَمُ مَا فِی الأَرْحَامِ ، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ، إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ) [ رواہ البخاری : باب (وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوْ )] ” حضرت عبداللہ بن سالم (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غیب کی پانچ چابیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو قیامت کا علم ہے۔ وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کل کیا کرنا ہے ؟ اور کسی کو علم نہیں کہ اسے کس سرزمین پر موت آئے گی۔ یقیناً اللہ جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ “ تفسیر بالقرآن اللہ ہی خالق اور ہر چیز کا وکیل ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٢۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٥۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٦۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو ! اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٨۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٩۔ بیشک آپ ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ١١۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : ١٣٢) ١٢۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا اللہ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 222 ایک نظر میں یہ اس سورت کا آخری سبق ہے ، اس میں تخلیق کائنات کے حوالے سے حقیقت توحید کے مضمون کو لیا گیا ہے۔ یہ کہ اللہ نے تمام چیزوں کی تخلیق کی ہے۔ وہ تمام چیزوں میں مالکانہ تصرف رکھتا ہے۔ لہٰذا مشرکین کی یہ تجویز کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے الہوں کی بندگی کریں اور ہ... م اس کے مقابلے میں اللہ رب العالمین کی بندگی کریں۔ یوں ایک مشترکہ دین وجود میں آجائے یہ تجویز اور مطالبہ نہایت احمقانہ ہے اور عجیب و غریب ہے۔ اللہ تو خالق کائنات ہے۔ آسمانوں اور زمین کے تمام اختیارات اور بادشاہت اسی کی ہے۔ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کے ساتھ کسی اور چیز کی بندگی بھی کی جائے۔ جبکہ زمین و آسمان کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے۔ وماقدرواللہ حق قدرہ ” اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے “۔ یہ لوگ اللہ کے ساتھ اور وں کو شریک کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ وحدہ معبود ، قدرت والا اور تمام کائنات کا کنڑول کرنے والا ہے۔ والارض ۔۔۔۔ بیمنهٖ (39: 67) ” قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوں گے “۔ اور اس حقیقت کو اس انداز میں ریکارڈ کرنے کے لیے قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کیا جاتا ہے اور یہ منظر اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ فرشتے عرش الہٰی کے اردگرد ننگے پاؤں پھر رہے ہوں گے۔ یہ اللہ کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد بیان کررہے ہوں گے۔ پوری کائنات حمدوثنا میں رطب اللسان ہوگی۔ اور کہا جائے گا ہر طرف اور ہر جہت سے الحمدللہ رب العالمین ” سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں “۔ اور اس کائنات کی حقیقت میں یہ ایک فیصلہ کس بات ہوگی۔ درس نمبر 222 تشریح آیات آیت نمبر 62 تا 63 یہ وہ حقیقت ہے جس پر ہر چیز گواہ ہے۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے کوئی چیز بنائی ہے اور کوئی معقول انسان یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کہ یہ کائنات بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود وجود میں آگئی ۔ حالانکہ اس کائنات کے اندر جو موجودات بھی ہیں ، ان کی ذات اور ان کی اسکیم بتاتی ہے کہ اس کو بالاراہ بنایا گیا ہے۔ کوئی چیز اتفاقی نظر نہیں آتی ، چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔ وھو علی کل شئ وکیل (39: 62) ” اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے “۔ زمین و آسمان کو وہی چلانے والا ہے اور اپنے ارادے اور منشا کے مطابق اللہ زمین و آسمان کو چلاتا ہے۔ یہ پوری کائنات اللہ کے نظام قضاوقدر کے مطابق چلتی ہے۔ اللہ کے ارادے کے سوا کسی اور کا ارادہ ان تصرفات میں دخیل نہیں ہے۔ اس بات کی شہادت فطرت دیتی ہے۔ حقیقت واقعہ بھی اسی کی تائید کرتی ہے اور انسانی عقل وضمیر بھی اس کی تائید میں ہے۔ والذین کفرواباٰیٰت اللہ اولئک ھم الخٰسرون (39: 63) ” اور جو لوگ اللہ کی آیات سے کفر کرتے ہیں وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں “۔ ان کو اس علم اور آگاہی سے محرومی ہے جس کے ذریعے ان کی زندگی اس پوری کائنات کی حرکت سے ہم آہنگ رہتی ہے۔ یہ ان کے لیے بڑا خسارہ ہے۔ وہ ہدایت کی راحت اور ایمان کے حسن سے محروم رہے اور اعتقاد اور نظریہ کے اطمینان اور یقین کی مٹھاس سے بھی محروم رہے اور آخرت میں وہ خود بھی گھاٹے میں رہے اور ان کی وجہ سے ان کے خاندان بھی گھاٹے میں رہے ۔ وہ تو اس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں کہ ان پر آقاسرون کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں جس پر آسمان اور زمین گواہ ہیں اور جس پر اس کائنات کی ہر چیز گواہ ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ ان سے کہو : کیا تجویز کرتے ہو کہ میں تمہارے الہوں کی بندگی کروں اور اس بدلے میں تم الٰہ العالمین کی بندگی کرو۔ کس قدر جاہلانہ تجویز ہے یہ ؟ کیا سچائی کوئی بکنے والی جنس ہے جس کا بازاروں میں سودا ہوتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ ) (اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے) چونکہ ہر چیز کو اس نے پیدا فرمایا ہے ہر چیز میں اس کا تصرف بھی پورا پورا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ ” اللہ خالق الخ “ یہ ساتویں عقلی دلیل اور دلائل سابقہ کے لیے بمنزلہ ثمرہ ہے۔ پہلی چار دلیلوں کا حاصل یہ تھا کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ پانچویں دلیل کا حاصل یہ تھا کہ بندوں کی ارواح اللہ کے قبضے میں ہیں اور وہی سب کا محافظ ہے۔ چھٹی دلیل کا خالصہ یہ تھا کہ روزی رساں بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ... روزی کی فراخی اور تنگی اسی کے اختیار میں ہے۔ ساتویں دلیل میں فرمایا کہ ہر چیز کا کالق بھی وہی ہے۔ اور ہر چیز کا محافظ اور نگہبان بھی وہی ہے۔ اور زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں بھی اسی کے قبضے میں ہیں۔ اس کائنات میں وہی متصرف و مختار اور قادر علی الاطلاق ہے۔ لا یملک امرھا ولا یتمکن من التصرف فیہا غیرہ (بیضاوی) مقالید السموات خزائن الرحمۃ والرزق والمطر ومقالید الارض النبات (خازن ج 6 ص 83) ۔ یعنی لہ مفاتیح خزائن السموات والارض، بیدہ ملکوتہا لایتمکن من التصرف فیہا غیرہ (مظہری ج 8 ص 20) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کانگہبان ہے۔ یعنی ہر چیز کا موجد اور باقی رکھنے والا حفاظت کرنے والا وہی ہے۔