Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 63

سورة الزمر

لَہٗ مَقَالِیۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۶۳﴾٪  3

To Him belong the keys of the heavens and the earth. And they who disbelieve in the verses of Allah - it is those who are the losers.

آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کا مالک وہی ہے جن جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی خسارہ پانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... To Him belong the Maqalid of the heavens and the earth. Mujahid said, "Maqalid means `keys' in Persian." This was also the view of Qatadah, Ibn Zayd and Sufyan bin `Uyaynah. As-Suddi said: لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ (To Him belong the Maqalid of the heavens and the earth), "The treasures of the heavens and the earth." Both opinions mean that the control of all things is in the Hand of Allah, may He be blessed and exalted, for His is the dominion and to Him is the praise, and He is able to do all things. He says: ... وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِأيَاتِ اللَّهِ ... And those who disbelieve in the Ayat of Allah, meaning, His proof and evidence, ... أُوْلَيِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ such are they who will be the losers. قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 مقالید، مقلید اور مقلاد کی جمع ہے فتح القدیر بعض نے اس کا ترجمہ چابیاں اور بعض نے خزانے کیا ہے مطلب دونوں میں ایک ہی ہے تمام معاملات کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ 63۔ 2 یعنی کامل خسارہ کیونکہ اس کفر کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلے گئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ:” مَقَالِيْدُ “ ” مِقْلَدٌ“ یا ” مِقْلَادٌ“ کی جمع ہے، جس طرح قلادہ (ہار یا پٹا) گردن کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح چابی تالے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ ”إِقْلِیْدٌ“ کی جمع ہے اور عام قاعدے کے خلاف ہے۔ ”إِقْلِیْدٌ“ دراصل فارسی لفظ ” کلید “ سے عربی بنایا گیا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں بھی اسی کے پاس ہیں، کسی اور کے پاس کچھ ہے ہی نہیں، تو اسے پکارنے اور اس سے فریاد کرنے کا کیا فائدہ ؟ یہ اکیلے اللہ کے مستحق عبادت ہونے کی تیسری دلیل ہے۔ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۔۔ : یہاں ایک سوال ہے کہ ” واؤ “ کے ساتھ عطف کس جملے پر ڈالا گیا ہے ؟ زمخشری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس کا عطف ” وَيُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّــقَوْا “ پر ہے اور درمیان کے جملے معترضہ ہیں۔ مگر اتنی دور عطف محل نظر ہے۔ بقاعی نے فرمایا، اس کا عطف ایک مقدر جملے پر ہے جو سیاق سے ظاہر ہو رہا ہے : ” أَيْ فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ تَقَبَّلُوْا آیَاتِہِ أُوْلٰءِکَ ھُمُ الْفَاءِزُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بآیَات اللّٰہِ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ “ ” تو جو لوگ ایمان لے آئے اور اس کی آیات کو قبول کرلیا یہی لوگ کامیاب ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ “ ” ھم “ ضمیر فصل کی وجہ سے اور ” الخاسرون “ خبر پر الف لام کی وجہ سے کلام میں تاکید اور حصر پیدا ہوگیا، یعنی خسارہ اٹھانے والے صرف وہ ہیں جنھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کردیا۔ گویا اس کے علاوہ اگر کوئی خسارہ ہے بھی تو فی الحقیقت خسارہ نہیں ہے، کیونکہ وہ عارضی خسارہ ہے۔ اسی طرح حقیقی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے، کیونکہ وہی دائمی اور پائیدار کامیابی ہے، فرمایا : (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔ “ ” اللہ کی آیات “ سے مراد اس کے وجود اور وحدانیت کے دلائل ہیں جو گزشتہ آیات، خصوصاً اس سے پہلے تین جملوں میں بیان ہوئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: مَقَالِيدُ (maqalid) in: لَّهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ (To Him belong the keys to the heavens and the earth.- 39:63) is the plural form of: مِقلاد (miqlad) or: مِقلِید (miqlid) meaning a key. It has been said that this word has really been Arabicized from the Persian language. In Persian, a key is called کَلِید (kalid). When Arabicized, it became: اِقلِید (iqlid) with its plural being: مَقَالِيدُ (maqalid) (Ruh-ul-Ma’ ani). Having keys in one&s hand denotes ownership, possession and the ability to dispense at will. Therefore, the sense of the verse is that the keys to whatever treasures lie hidden in the heavens and the earth are in the hands of Allah and He alone is the custodian and the dispenser in that it is He who gives whenever He wills to whomever He wills and as much as He wills - and would just not give to anyone He so wills. And in some narrations of Hadith, the third kalimah, that is: سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ للہِ وَ لا إلہ إلا اللہُ و اللہُ اَکبَر وَلَاحولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ اَلعَلِیِّ العَظِیم (Pure is Allah and Praised is Allah and there is no god worthy of worship but Allah and Allah is Great and there is no strength and there is no power except from Allah, the High, the Great) has been called: مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ (&the keys to the heavens and the earth& - 39:63). The outcome is: One who recites this kalimah, mornings and evenings, is blessed by Allah Ta’ ala from the treasures of the heavens and the earth. Ibn-ul-Jawzi has declared these narrations to be: موضوع (mawdu&: fabricated, forged). But, other Hadith experts have rated these as weak ضَعِیف (da` if) ahadith that can be relied upon in the matter of the merits of good deeds. (Ruh-ul-Ma’ ani)

معارف ومسائل (آیت) لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔ مقالید جمع مقلاد یا مقلید کی ہے جو قفل کی کنجی کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے کہا دراصل یہ لفظ فارسی زبان سے معرب کیا گیا ہے۔ فارسی میں کنجی کو کلید کتے ہیں۔ معرب کر کے اس کو اقلید بنایا گیا پھر اس کی جمع مقالید لائی گئی (روح) کنجیوں کا کسی کے ہاتھ ہونا اس کے مالک و متصرف ہونے کی علامت ہے، اس لئے مراد آیت کی یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو خزانے نعمتوں کے مستور ہیں، ان سب کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہی ان کا محافظ ہے اور وہی متصرف ہے۔ کہ جب چاہے جس کو چاہے جس قدر چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے۔ اور بعض روایات حدیث میں کلمہ سوم یعنی سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر لاحول ولا قوة الا باللہ العلیٰ العظیم کو مقالید السموٰت والارض فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص صبح و شام یہ کلمہ پڑھتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے خزانوں کی نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ ان روایات کو ابن جوزی نے موضوع کہہ دیا ہے، مگر دوسرے محدثین نے احادیث ضعیفہ قرار دیا ہے جن کا فضائل اعمال میں اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝ ٦٣ۧ قلد الْقَلْدُ : الفتل . يقال قَلَدْتُ الحبل فهو قَلِيدٌ ومَقْلُودٌ ، والْقِلَادَةُ : المفتولة التي تجعل في العنق من خيط وفضّة وغیرهما، وبها شبّه كلّ ما يتطوّق، وكلّ ما يحيط بشیء . يقال : تَقَلَّدَ سيفه تشبيها بالقِلادة، کقوله : توشّح به تشبيها بالوشاح، وقَلَّدْتُهُ سيفا يقال تارة إذا وشّحته به، وتارة إذا ضربت عنقه . وقَلَّدْتُهُ عملا : ألزمته . وقَلَّدْتُهُ هجاء : ألزمته، وقوله : لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر/ 63] أي : ما يحيط بها، وقیل : خزائنها، وقیل : مفاتحها والإشارة بكلّها إلى معنی واحد، وهو قدرته تعالیٰ عليها وحفظه لها . ( ق ل د ) القلد کے معنی رسی وغیرہ کو بل دینے کے ہیں ۔ جیسے قلدت الحبل ( میں نے رسی بٹی ) اور بٹی ہوئی رسی کو قلید یامقلود کہاجاتا ہے اور تلاوۃ اس بٹی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو گردن میں ڈالی جاتی ہے جیسے ڈور اور چاندی وغیرہ کی زنجیر اور مجازا تشبیہ کے طور پر ہر اس چیز کو جو گردن میں ڈال جائے یا کسی چیز کا احاطہ کرے قلاوۃ کہاجاتا ہے اور اسی تقلد سیفہ کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ وہ بھی قلاوۃ کی طرح گردن میں ڈال کر لٹکائی جاتی ہے ۔ جیسے وشاح ( ہار) سے توشح بہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور قلدتہ سیفا کے معنی کسی کی گردن میں تلوار یا باندھنے باتلوار سے اس کی گردن مارنے کے ہیں ۔ قلدتہ عملا کوئی کام کسی کے ذمہ لگا دینا ؛ قلدتہ ھجاء کسی پر ہجوم کو لازم کردینا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر/ 63] اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں ۔ میں مقالید سے مراد وہ چیز ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بعض نے اس سے خزانے اور بعض نے کنجیاں مراد لی ہیں لیکن ان سب سے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حفاظت کی طرف اشارہ ہے جو تمام کائنات پر محیط ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اسی کے اختیار میں آسمان و زمین کے خزانے یعنی بارش اور ہر قسم کی پیداوار ہے اور جو لوگ رسول اکرم اور قرآن کریم کو نہیں مانتے وہ آخرت میں سزا کی وجہ سے بڑے خسارے میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ { لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ” اسی کے لیے ہیں تمام کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی۔ “ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ } ” اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی ہیں گھاٹے میں رہنے والے۔ “ اب اس سورت کے آخری دو رکوع ہمارے زیر مطالعہ ہوں گے۔ یہ دونوں رکوع اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں توحید فی العبادت کا مضمون بہت ُ پر جلال انداز میں بیان ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٣۔ مجاہد و قتادہ کا قول ٤ ؎ ہے کہ مقالید زبان فارسی میں کنجیوں کو کہتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے بھی اس کی تفسیر مفاتیحھا فرمایا ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں آسمان و زمین کے خزانوں کی کنجیاں میں جو لوگ قرآن کی نصیحت کے منکر ہیں وہ بہت بڑا نقصان اٹھائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ان خزانوں کے بہت بڑے حصہ سے وہ محروم ہیں ابن ماجہ ؎ ١ ؎ کے حوالہ کی ابوہریرہ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے ایک ٹھکانہ جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا ہے جو شخص اپنے شرک کے سبب سے ہمیشہ کے لئے دوزخی قرار پائے گا اس کو سوا دوزخ کے عذاب کی تکلیف کے یہ بڑا نقصان پہنچے گا کہ اس کا جنت کا ٹھکانا کسی جنتی شخص کو مل جائے گا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں میں سے جو نعمتیں دنیا میں پیدا کی ہیں وہ تو ہمیشہ رہنے والی نہیں اور جو نعمتیں ان خزانوں میں کی ہمیشہ رہنے والی ہیں وہ قرآن کے منکر لوگوں سے چھینی جا کر دوسروں کو مل جائیں گی اس سبب سے یہ لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں۔ (٤ ؎ التفسیر الدر المنثور ج ٥ ص ٣٣٣۔ ) (١ ؎ روی ھذا المعنی فی ابن کثیر ج ٤ ص ٦٠ بسند احمد و النسائی۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:63) لہ میں لام ملک کے معنی میں آیا ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے وہی مالک ہے یعنی اللہ ہی مالک ہے۔ جیسے اور جگہ آیا ہے لہ ما فی السموت وما فی الارض (2:255) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا وہی مالک ہے۔ مقالید : مقلاد یا مقلید کی جمع ہے جیسے مفتاح کی جمع مفاتیح اور مندیل کی جمع منادیل ہے۔ کنجیاں۔ لہ مقالید السموت والارض یعنی آسمانوں کے اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ سارا جہاں اسی کی ملک ہے کوئی بھی اس کے سوا ان خزانوں میں تصرف نہیں کرسکتا۔ ایت اللّٰہ سے مراد کلمات تمجید، و توحید یا قرآن مجید یا اللہ کی قدرت مستقلہ کے نشانات و علامات۔ ہم الخسرون۔ اسم فاعل جمع مذکر خسرو خسران مصدر سے ۔ ٹوٹا پانے والے۔ نقصان اٹھانے والے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب حصر کے لئے ہے۔ یعنی وہی خسارہ پانے والے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی موجد بھی وہی اور حافظ بھی وہی، اور متصرف بھی وہی، پس ایسے اوصاف کمال رکھنے والا شریک سے بھی منزہ ہوگا، اور جزا و سزا کا بھی مالک ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لَہٗ مَقَالِید السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں) وہ تصرف کرنے والا بھی ہے اور محافظت فرمانے والا بھی ہے۔ (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ ) (اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا یہ لوگ تباہ ہونے والے ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ ” والذین کفروا الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ جو لوگ الللہ کی آیتوں اور اس کی وحدانیت اور بلا شرکت غیرے کائنات میں متصرف و مختار ہونے کے دلائل کا انکار کرتے ہیں۔ حقیقت میں خسارہ پانے والے یہی لوگ ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کی رحمت اور ثواب سے محروم ہو کر ابد الآباد جہنم میں رہیں گے۔ والمراد بایات اللہ دلائل قدرتہ واستبدادہ بامر السموات والارض او کلمات توحیدہ و تمجیدہ، و تخصیص الخسار بہم لان غیرہم ذو حظ من الرحمۃ والثواب (بیضاوی ج 2 ص 260) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(63) آسمانوں کی اور زمین کی کنجیاں اسی کے اختیار میں ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے منکر ہیں اور ان کو نہیں مانتے تو وہی وہ لوگ ہیں جو سخت نقصان اور گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ یعنی کنجیاں اس کے اختیار میں ہیں تو وہی متصرف ہے اور چونکہ حضرت حق تعالیٰ کے یہ اوصاف موجد ہونا حافظ و متصرف ہونا آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کا مختار ہونا مخالفین کو مسلم تھا۔ اس لئے ایسی ذات کو شرک سے بھی منزہ ہوناتسلیم کرنا چاہیے لیکن جو لوگ باوجود ان تمام صفات جمیلہ کے اس کو وحدہ لاشریک نہیں مانتے ان سے زیادہ خائب و خاسر کون ہوسکتا ہے۔