Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 66

سورة الزمر

بَلِ اللّٰہَ فَاعۡبُدۡ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۶۶﴾

Rather, worship [only] Allah and be among the grateful.

بلکہ اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay! But worship Allah, and be among the grateful. means, `you and those who follow you and believe in you should make your worship sincerely for Allah Alone, with no partner or associate.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 اِ یَّاکَ نَعْبُدُ کی طرح یہاں بھی مفعول (اللہ) کو مقدم کر کے حصر کا مفہوم پیدا کردیا گیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُد : لفظ ” اللہ “ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی (اللہ کے ساتھ شرک نہ کر) بلکہ (اگر تجھ میں عقل ہے، یا اگر تجھے عبادت کرنی ہے تو) صرف اللہ کی عبادت کر، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کر۔ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ : یعنی عقیدۂ توحید کی سمجھ عطا ہونے پر اور اکیلے اللہ کی عبادت کی توفیق ملنے پر اس کے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجا، کیونکہ اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلِ اللہَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ۝ ٦٦ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بلکہ ہمیشہ توحید خداوندی ہی کا اقرار کرنا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ پر انعامات کتاب و نبوت اور اسلام کی دولت عطا فرماتے ہیں ان پر شکر گزار رہیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ { بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ } ” بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اللہ ہی کی بندگی کیجیے اور بن جائیے شکر گزار بندوں میں سے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:66) بل اللّٰہ فاعبد : بل حرف اضراب ہے۔ جس کی عبادت (ماسوی اللہ) کافرین چاہتے تھے اس کی تردید میں ارشاد ہوتا ہے۔ بل اللّٰۃ فاعبد : کانہ قال لاتعبد ما امروک بعبادتہ بل ان عبدت فاعبد اللّٰہ۔ یعنی جو وہ چاہتے ہیں اس کی عبادت نہ کرو بلکہ اگر عبادت کرنا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ شرط کو حذف کرکے اس کے عوض مفعول کو لایا گیا ہے۔ شکرین۔ اسم فاعل جمع مذکر شکر مصدر سے ۔ شکر گزار۔ احسان ماننے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید کی توفیق دی اور شرک سے بچایا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ دلیل ہے قبح شرک کی کہ وہ اشد درجہ کی ناشکری ہے، پس جب انبیاء کو قبح شرک وحی سے معلوم ہے اور دوسروں تک اس کے پہنچانے کا حکم ہے تو ان سے کہ ان میں سے آپ بھی ہیں صدور شرک کب ممکن ہے تو ایسی ہوس رکھنا ان کا خلل دماغ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی بندگی اور شرک سے بچنا ہی نہیں بلکہ ایک رب کی عبادت بھی کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر قسم کے شرک سے منع کرنے کے ساتھ صرف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ عبادت کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ کیونکہ ” اللہ “ خالق بھی ہے اور انسان کی تمام ضرورتوں کا ذمہ دار بھی ہے۔ اس لیے اس کا شکر ادا کرنا انسان پر لازم ہے۔ اسے دوسری طرح یوں سمجھنا چاہیے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق اور الوکیل مانا۔ اس کے دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جس کے دل میں شکر کا جذبہ ضرور پیدا ہوا وہ اپنے رب کی ہر حال میں بندگی کرے گا۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے۔ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم گواہی دے رہا ہو کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجزو بےبس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ باالفاظ دیگر پری زندگی میں اپنے کا حکم ماننا اور اس رب کے تابع رہنے نام عبادت ہے۔ مسائل ١۔ صرف ایک ” اللہ “ ہی کی عبادت کرنا چاہیے۔ ٢۔ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا ہی حقیقت میں اس کا شکرگزار ہوتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 66 اب اللہ جل شانہ کی قدرت اور اللہ کے مقام کے بارے میں بتایا جاتا ہے جسکے ساتھ شریک کرنے کی تجاویز وہ دیتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(بَلْ اللّٰہَ فَاعْبُدْ ) (بلکہ آپ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں) (وَکُنْ مِنْ الشَّاکِرِیْنَ ) (اور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں) اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرک کے ماحول میں پیدا فرمایا لیکن شرک سے بچایا موحد بنایا توحید کی دعوت کا کام آپ کے سپرد کیا لہٰذا آپ پر شکر ادا کرنا فرض ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کیجیے اور اس کا شکر بھی ادا کرتے رہیے یہ لوگ جو آپ کو اپنے معبودوں کی عبادت کی دعوت دے رہے ہیں ان کی طرف متوجہ نہ ہوجائیے اور ان کی باتوں میں نہ آئیے اللہ کی عبادت کرانے کے لیے خود غیر اللہ کی عبادت کرنا جائز نہیں ہے جو لوگ حق قول نہیں کرتے ان کا وبال ان پر پڑے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63:۔ ” بل اللہ الخ “ یہ مشرکین کے مطالبے کا جواب ہے کہ تم کہتے ہو میں غیر اللہ کی عبادت میں تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان یہ ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کروں اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بناؤں اور اسی کا شکر گذار بندہ بنوں۔ کیونکہ منعم و محسن وہی ہے۔ یعنی لا تعبد ما امروک بلا عبدہ وحدہ، فھو رد لام امروہ بہ (جامع البیان ص 401) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(66) تم شرک نہ کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنا اور اسی کے شکر گزار رہنا۔ یعنی سڑک ایسی بری چیز ہے کہ ہم انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام جس میں آپ اور آپ سے پہلے انبیاء سب داخل ہیں ان سب کو یہ حکم دے چکے ہیں کہ اگر فرض کرو تم نے بھی یہ شرک کی برائی کی تو تمہارے تمام اعمال ضبط کر لئے جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والے میں سے ہوجائو گے تم کبھی شرک نہ کرنا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنا اور اسی کے شکرگزار رہنا۔ یہ تنبیہ تو اصل میں پیغمبروں کی امتوں کو ہے لیکن جیسا کہ شاہی قاعدہ ہوتا ہے کہ رعایا میں سب سے بڑے آدمی کو مخاطب بنا کر حکم سناتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ ڈر جائیں کہ جب اس معاملہ میں بڑوں کی یہ حالت ہے تو ہم کسی شمار میں ہیں ورنہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے شرک کے صدور کا احتمال ہی نہیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حکم بواسط انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ان کی امتوں کو دیا گیا اور یہ کہا گیا ہے کہ تم اپنی اپنی امتوں میں سے ہر ایک کو یہ قیام پہنچا دو کہ اگر تم میں سے کسی نے بھی شرک کیا تو اس کے اعمال نابود ہوجائیں گے اور ٹوٹا پانے والوں میں سے ہوجائے گا آگے پھر توحید اور قیامت کا ذکر فرمایا جو اسلام کے اہم مسائل ہیں۔