Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 69

سورة الزمر

وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۶۹﴾

And the earth will shine with the light of its Lord, and the record [of deeds] will be placed, and the prophets and the witnesses will be brought, and it will be judged between them in truth, and they will not be wronged.

اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی نامہ اعمال حاضر کئے جائیں گے نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق حق فیصلے کر دیئے جائیں گے اور وہ ظلم نہ کیےجائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَشْرَقَتِ الاْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا ... And the earth will shine with the light of its Lord, means, it will shine brightly on the Day of Resurrection when the Truth (Allah), may He be glorified and exalted, manifests Himself to His creation, to pass judgement. ... وَوُضِعَ الْكِتَابُ ... and the Book will be presented. Qatadah said, "The Book of deeds." ... وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ ... and the Prophets will be brought forward, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "They will bear witness against the nations, testifying that they conveyed the Message of Allah to them." ... وَالشُّهَدَاء ... and the witnesses, means, witnesses from among the angels who record the deeds of all, good and evil alike. ... وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ ... and it will be judged between them with truth, means, with justice. ... وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ and they will not be wronged. Allah says: وَنَضَعُ الْمَوَزِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَـمَةِ فَلَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْياً وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَـسِبِينَ And We shall setup Balances of justice on the Day of Resurrection, then none will be dealt with unjustly in anything. And if there be the weight of a mustard seed, We will bring it. And Sufficient are We to take account. (21:47) إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـعِفْهَا وَيُوْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً Surely, Allah wrongs not even of the weight of a speck of dust, but if there is any good (done), He doubles it, and gives from Him a great reward. (4:40) Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 اس نور سے بعض نے عدل اور بعض نے حکم مراد لیا ہے لیکن اس حقیقیٰ معنوں پر اٹھانے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، کیونکہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ 6 9۔ 2۔ نبیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام اپنی اپنی قوم یا امت کو پہنچا دیا تھا ؟ یا یہ پوچھا جائے گا کہ تمہاری امتوں نے تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا اسے قبول کیا یا اس کا انکار کیا ؟ امت محمدیہ کو بطور گواہ لایا جائے گا جو اس بات کی گواہی ان امور پر مطلع فرمایا تھا۔ 19۔ 3 یعنی کسی کے اجر وثواب میں کمی نہیں ہوگی اور کسی کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] یعنی آج تو زمین سورج کی روشنی سے منور ہوتی ہے مگر میدان محشر کے لئے جو زمین تیار کی جائے گی۔ وہ براہ راست اپنے پروردگار کے نور سے جگ مگ جگمگ کر رہی ہوگی۔ [٨٨] قیامت کو گواہی کس کس کی ہوگی ؟:۔ شہداء سے مرادسرفہرست انبیاء ہیں اور ان کا ذکر اس آیت میں پہلے ہی الگ طور پر آگیا ہے پھر ان سے وہ لوگ مراد ہیں جن کے ذریعہ انہیں اللہ کا پیغام پہنچا تھا پھر وہ فرشتے بھی جو ان کے اعمال قلم بند کرتے رہے اور اگر وہ مجرم پھر بھی اپنے گناہوں کا اعتراف نہ کریں گے تو ان کے اپنے اعضاء اور اس ماحول کے درودیوار اور شجر و حجر سب مجرموں کے خلاف گواہی دیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ ۔۔ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اور فرشتے زمین پر تشریف لائیں گے (دیکھیے سورة فجر : ٢٢) اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی۔ بعض لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے زمین پر آنے کے منکر ہیں اور اس کے آسمان دنیا پر اترنے کا بھی صاف انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، نہ وہ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور نہ قیامت کے دن زمین پر آئے گا، بلکہ یہ سب مجاز ہیں، عرش سے مراد سلطنت ہے، آسمان دنیا پر اترنے کا مطلب اس کی رحمت کا نزول ہے اور قیامت کے دن آنے کا مطلب اس کا حکم آنا ہے وغیرہ۔ حالانکہ یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ مجازی معنی اس وقت مراد لیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد لینا محال ہو، جب کہ یہاں حقیقی معنی لینے میں کوئی مشکل نہیں۔ ان لوگوں نے یونان کے مشرک فلسفیوں کی یہ بات مان لی کہ ہر محل حوادث حادث ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ پر آنے والی ہر نئی حالت اور نئی شان کا انکار کردیا۔ چناچہ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ بات کرتا ہے، نہ عرش پر ہے، نہ اترتا ہے، نہ چڑھتا ہے، نہ ناراض ہوتا ہے اور نہ راضی ہوتا ہے، کیونکہ یہ سب حوادث (نئے احوال) ہیں جو ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ پر نہیں آسکتے۔ یہ لوگ قرآن و حدیث میں آنے والے ایسے تمام الفاظ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جو درحقیقت تحریف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب استعارے ہیں جو عرب کے بدوؤں کے ذہن کے مطابق اللہ تعالیٰ کو ایک بادشاہ کی صورت میں پیش کرتے ہوئے استعمال کیے گئے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کی ذات وصفات کو نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانا نہ صحابہ کرام (رض) نے۔ اصل حقیقت یونانی فلسفیوں پر منکشف ہوئی اور ان کی بدولت ان حضرات تک پہنچی۔ قرآن مجید جا بجا ان کے اس قاعدے کی نفی کرتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَسْـَٔـلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “ اور فرمایا : (قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا ) [ المجادلۃ : ١ ] ” یقیناً اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔ “ اور فرمایا : ( ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ) [ البقرۃ : ١٨٦ ] ” میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ “ اور فرمایا : ( وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ) [ النساء : ١٦٤ ] ” اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔ “ اور فرمایا : (وَمَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ ) [ الشعرآء : ٥ ] ” اور ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو، مگر وہ اس سے منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة فجر (٢٢) اور سورة حاقہ (١٧) کی تفسیر۔ وَوُضِعَ الْكِتٰبُ : یعنی تمام لوگوں کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٣) اور سورة کہف (٤٩) ۔ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ : شہداء (گواہوں) سے مراد نبیوں کے علاوہ ہماری امت اور پہلی تمام امتوں کے وہ نیک لوگ ہیں جنھوں نے اپنی اپنی امت کے لوگوں تک حق کا پیغام پہنچایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا) [ بني إسرائیل : ١٥ ] ” اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ “ ان شہداء میں امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ افراد بھی شامل ہیں جو نوح (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء کے حق میں شہادت دیں گے کہ انھوں نے اپنی اپنی امت کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) اور سورة نساء (٤١) کی تفسیر۔ ان گواہوں میں کراماً کاتبین بھی شامل ہیں اور انسان کے اعضا بھی جو اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اسی طرح زمین بھی، جس پر کسی شخص نے کوئی نیک یا برا عمل کیا ہوگا، فرمایا : (يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا ) [ الزلزال : ٤، ٥ ] ” اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔ اس لیے کہ تیرے رب نے اسے وحی کی ہوگی۔ “ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ ۔۔ : یعنی تمام نیکیاں اور بدیاں سامنے لا کر گواہوں کے ذریعے سے حجت پوری کرنے کے بعد سب لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور لوگوں پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا۔ دیکھیے سورة انبیاء (٤٧) اور سورة نساء (٤٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 69, it was said: وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ (and the prophets and the witnesses will be brought,) It means that, at the time of reckoning on the plains of Resurrection, present there will be all prophets as well as all other witnesses. The prophets themselves will also be among the witnesses as said in the Qur&an: جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ (We shall bring a witness from every community - An-Nisa&, 4:41). And angels too will be among the witnesses, as in the Qur&an: مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ (with each someone [ meaning an angel ] to drive and someone [ meaning an angel ] to bear witness - Qaf, 50:21) where the identity of the driver and the witness has been clearly established as being the angels (Tafsir Ad-Durr-ul-Manthur). And among the witnesses, there will be the followers of the prophet of Islam as in the Qur&an: لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (and [ so that ] you become witnesses to [ other ] people - Al-Hajj, 22:78). And, for that matter, even one&s own body limbs will appear as witnesses as said in the Qur&an تُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْ‌جُلُهُم (their hands will speak to Us and their feet will bear witness - Sin, 36:65).

(آیت) وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ ۔ مراد یہ ہے کہ میدان حشر میں حساب و کتاب کے وقت سب انبیاء بھی موجود ہوں گے اور دوسرے سب گواہ بھی حاضر ہوں گے۔ ان گواہوں میں خود انبیاء (علیہم السلام) بھی ہوں گے، جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے (آیت) جئنا من کل امة بشھید۔ اور فرشتے بھی گواہوں میں ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (آیت) معھا سائق و شھید۔ کہ اس میں سائق اور شہید سے مراد فرشتے ہونا (تفسیر در منثور) سورة ق میں مذکور ہے اور ان گواہوں میں امت محمدیہ بھی ہوگی جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (آیت) لتکونوا شھداء علیٰ الناس اور ان گواہوں میں خود انسان کے اعضاء وجوارح بھی ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے تکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَہُمْ بِالْحَــقِّ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝ ٦٩ شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ الکتب سے مراد جمہور نے اعمال نامے لیا ہے ال جنس کے لئے ہے ابن عباس (رض) نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے۔ کہ ہر ایک اپنے اعمال نامہ کا مقابلہ اس سے کرلے۔ اس میں الف لام عہد کا مراد لیا گیا ہے۔ ابو حیان نے اسے دورانہ حقیقت لیا ہے اور کہا ہے کہ شاید ابن عباس کی طرف اس قول کی نسبت صحیح نہی ہے۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے یا یہ کہ انصاف سے روشن ہوجائے گی اور سب کا نامہ اعمال جس میں ایمان و اخلاق کا تذکرہ ہوگا رکھ دیا جائے گا اور انبیاء کرام اور رسول حاضر کیے جائیں گے یا یہ کہ انبیاء کرام او گواہ حاضر کیے جائیں گے یعنی انبیاء کرام جو خود گواہ ہوں گے اور اپنی قوم کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور ان کے اور انبیاء کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جائے گا اور ان کی نیکیوں میں کسی قسم کی کمی اور برائیوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ { وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا } ” اور زمین جگمگا اٹھے گی اپنے رب کے نور سے “ اس وقت کی کیفیت کو سورة الفرقان میں یوں بیان فرمایا گیا ہے : { وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآئُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَنْزِیْلًا } ” اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا بادلوں کی مانند اور فرشتے نازل کیے جائیں گے لگاتار “۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین پر نزول فرمائیں گے اور فرشتے صفیں باندھے نیچے اتریں گے : { وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا } ( الفجر) ۔ { وَوُضِعَ الْکِتٰبُ } ” اور اعمال نامہ لا کر رکھ دیا جائے گا “ لوگوں کے اعمال نامے کا سر محشر لا کر رکھے جانے کی صورت حال کا نقشہ سورة الکہف کی آیت ٤٩ میں یوں کھینچا گیا ہے : { وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰٹہَا } ” اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ ‘ چناچہ تم دیکھو گے مجرموں کو کہ وہ لرزاں و ترساں ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں ہوگا اور کہیں گے : ہائے ہماری شامت ! یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے نہ تو کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو ‘ مگر اس کو محفوظ کر کے رکھا ہے “۔ اس کے بعد کی کیفیت کا نقشہ آگے دکھایا جا رہا ہے : { وَجِایْٓئَ بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّہَدَآئِ } ” اور لائے جائیں گے انبیاء اور شہید “ یہاں ” شہید “ سے مراد اوّلاً تو رسول ہیں کہ وہ اپنی اپنی امتوں پر سب سے پہلے گواہی دیں گے۔ سورة الحج کی آخری آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی امت پر گواہی کے بارے میں فرمایا گیا : { لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ } ” تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو “۔ لیکن یہاں انبیاء کے ذکر کے بعد شہید کا لفظ خصوصی طور پر اس لیے لایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں کو بھی گواہ کے طور پر بلایا جائے گا جو انبیاء و رسل (علیہ السلام) کی طرف سے تبلیغ کرتے رہے ہوں گے۔ جیسے عشرہ مبشرہ میں سے چھ چوٹی کے صحابہ وہ ہیں جو حضرت ابوبکرصدیق (رض) کی تبلیغ کے نتیجے میں ایمان لائے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے علاقوں اور قبیلوں کی خواہش پر اپنے بعض صحابہ (رض) کو قرآن اور دین کی تعلیم کے لیے بھیجا۔ ایسے مبلغ اور معلم ّصحابہ (رض) زیادہ تر اصحابِ ُ صفہّ (رض) میں سے تھے۔ ان صحابہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جن لوگوں کو دعوت دی تھی ‘ قیامت کے دن ان پر وہ گواہی دیں گے کہ اے اللہ ! تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرے دین کا جو پیغام ہم تک پہنچایا تھا ہم نے وہ ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد دین کی دعوت و تبلیغ کی یہ ذمہ داری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی طرف منتقل ہوگئی اور اس لحاظ سے آج ہم سب اس ذمہ داری کے مکلف ہیں۔ چناچہ ہمیں وہاں بطور گواہ بلایا جائے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اللہ کا جو دین تم تک وراثتاً پہنچا تھا کیا تم لوگوں نے اسے آگے نوع انسانی تک پہنچا دیا تھا ؟ اگر خدانخواستہ ہم یہ گواہی دینے میں ناکام رہے تو ان تمام لوگوں کی گمراہی اور ضلالت کا وبال بھی ہماری گردن پر آئے گا جو ہمارے حلقہ اثر اور دائرئہ اختیار میں تھے اور ہم انہیں دعوت نہیں دے سکے تھے۔ لیکن اگر ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق یہ حق ادا کردیا ہوگا تو ہم اس گواہی سے سرخرو ہوں گے اور وہ لوگ اپنے اعمال کے لیے اللہ کے ہاں خود جوابدہ ہوں گے۔ بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت کا منظر دکھایا گیا ہے جو سر محشر سجائی جائے گی۔ تمام بنی نوع انسان کا اعمال نامہ بھی لا کر اس عدالت کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ پھر انبیاء و رسل (علیہ السلام) اور دوسرے گواہوں کو بھی لا یا جائے گا۔ { وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ } ” اور ان کے مابین فیصلہ کردیا جائے گا حق کے ساتھ اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

80 "The witnesses" : those who will bear witness to the effect that the Message of Allah had been conveyed to the people as well as those who will bear witness to the acts and deeds of the people. It is not necessary that these witnesses will be only human beings. The angels, the jinns, the beasts, men's own limbs, their dwelling places and the trees and stones, will all be included among the witnesses.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :80 گواہوں سے مراد وہ گواہ بھی ہیں جو اس بات کی شہادت دیں گے کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا ، اور وہ گواہ بھی جو لوگوں کے اعمال کی شہادت پیش کریں گے ۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ گواہ صرف انسان ہی ہوں ۔ فرشتے اور جن اور حیوانات ، اور انسانوں کے اپنے اعضاء اور در و دیوار اور شجر و حجر ، سب ان گواہوں میں شامل ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:69) اشرقت : ماضی بمعنی مستقبل واحد مؤنث غائب وہ چمک اٹھے گی۔ اشراق مصدر (افعال) سے یعنی میدان قیامت کی زمین روشن ہوجائے گی۔ وضع الکتب : وضع ماضی مجہول واحد مذکر غائب وضع مصدر (باب فتح) ۔ الوضع نیچے رکھ دینا۔ اسی سے ہے موضع (جمع مواضع) بمعنی جگہیں یا موقعے۔ جیسے یحرفون الکلم عن مواضعہ۔ (5:13) یہ لوگ کلمات کتاب کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔ الکتب سے مراد جمہور نے اعمال نامے لیا ہے ال جنس کے لئے ہے ابن عباس (رض) نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے۔ کہ ہر ایک اپنے اعمال نامہ کا مقابلہ اس سے کرلے۔ اس میں الف لام عہد کا مراد لیا گیا ہے۔ ابو حیان نے اسے دورانہ حقیقت لیا ہے اور کہا ہے کہ شاید ابن عباس کی طرف اس قول کی نسبت صحیح نہی ہے۔ جائ۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ جاء یجی (باب ضرب) مصدر مجی آنا۔ ب تعدیہ کے لئے ہے جاء ب وہ لایا۔ ج ی ء مادہ۔ جاء بالنبیین والشھداء پیغمبر اور دوسرے گواہ لائے جائیں گے۔ حاضر کئے جائیں گے۔ الشھداء گواہ شھد کی جمع ہے بمعنی حق کی شہادت دینے والا۔ گواہ۔ شاہد۔ (شھید بروزن فعیل بمعنی فاعل مبالغہ کا صیغہ ہے) شہید اصلاح میں اس شحص کو کہتے ہیں جس نے راہ خدا میں کافروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دیدی ہو۔ عطاء نے کہا ہے کہ الشھداء سے مراد اعمال لکھنے والے فرشتے ہیں اور اسی پر دلالت کر رہی ہے یہ آیت وجاءت کل نفس معھا سائق وشھید (50:21) اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ ایک (فرشتہ) تو اس کے ساتھ ہمراہ لانے والا ہوگا۔ اور ایک (فرشتہ) گواہ ہوگا۔ (یہ دونوں فرشتے وہی کاتب اعمال ہوں گے۔ عرف عام میں انہی کو کراما کاتبین کہتے ہیں ۔ (الماجدی) قضی ماضی مجہول واحد مذکر غائب یہاں ماضی بمعنی مستقبل استعمال ہوا ہے۔ فیصلہ کردیا جائے گا۔ قضی ماضی معروف قضاء مصدر۔ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ پورا کرنا۔ عزم کرنا فیصلہ کرنا۔ حکم جاری کرنا۔ حکم دینا۔ قطعی وحی بھیج کر اطلاع دینا۔ مقرر کرنا۔ حاجت پوری کرکے قطع تعلق کرلینا۔ فارغ ہونا۔ مرجانا۔ مار ڈالنا وغیرہ۔ قضی بینھم بالحق اور ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 تاکہ وہ بتائیں کہ جب لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا تو انہوں نے اس کا کیا جواب دیا اور ان کے اعمال کیسے رہے ؟ گواہوں سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگ ہیں۔ ( دیکھئے بقرہ آیت 143) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ان سے مراد فرشتے ہیں جو لوگوں کے اعمال قلمبند کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کا اپنی اپنی جگہ سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہونا اور عدالت کبریٰ کا قیام۔ قرآن مجید نے یہ بھی بتلایا ہے کہ پہلے نفخہ کے بعد زمین و آسمانوں کو تبدیل کردیا جائے گا۔ ( ابراہیم : ٨ ٤) زمین اس قدر چٹیل میدان ہوگی کہ کوئی اس پر نشیب و فراز نہیں ہوگا۔ (طہٰ : ١٠٦، ١٠٧) اس کے بعد اسرا فیل کو دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا حکم صادر ہوگا جونہی وہ صور پھونکے گا لوگ اپنے اپنے مقام سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ قرآن مجید اور احادیث میں اس بات کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے کہ لوگوں کو کس طرح میدان محشر میں اکٹھا کیا جائے گا۔ لوگ محشر کے میدان میں اکٹھے ہوجائیں گے تو ملائکہ کو محشر کے میدان میں پہنچنے کا حکم جاری ہوگا۔ ملائکہ اور جبرائیل امین قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ (النبا : ٣٨) اسی اثناء میں رب ذوالجلال جلوہ افروز ہوں گے۔ پوری کی پوری زمین رب ذوالجلال کے جمال سے منور ہوجائے گی۔ لوگوں کے اعمال نامے ان تک پہنچ جائیں گے۔ جس سے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور گواہ حاضر کیے جائیں گے۔ لوگوں کے درمیان حق اور عدل کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی پر رائی کے دانے برابر بھی زیادتی نہیں ہوگی ہر کسی کے عمل کے مطابق اسے بدلہ دیا جائے گا۔ جو کچھ لوگ عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یعنی اعمال ناموں اور گواہوں پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کو بلاواسطہ بھی سب کچھ معلوم ہوگا۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال قیلَ لَہُ مَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ ؟ قَالَ ذَاکَ یَوْمٌ یَنْزِلُ اللَّہُ تَعَالَی عَلَی کُرْسِیِّہِ یَءِطُّ کَمَا یَءِطُّ الرَّحْلُ الْجَدِیدُ مِنْ تَضَایُقِہِ بِہِ وَہُوَ کَسَعَۃِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ) [ رواہ الدارمی : باب فِی شَأْنِ السَّاعَۃِ وَنُزُول الرَّبِّ تَعَالَی ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا مقام محمود کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوں گے، اللہ کے عرش سے اس طرح آواز آئے گی جس طرح کہ نئے پالان سے آواز آتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عرش کی وسعت آسمانوں اور زمینوں کی وسعت کے کے برابر ہوگی۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن پوری کی پوری زمین اپنے رب کے نور سے منور ہوجائے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر شخص کا اعمال نامہ اس تک پہنچ جائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن انبیائے کرام (علیہ السلام) اور گواہ اپنی اپنی شہادت پیش کریں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوپائے گی۔ ٥۔ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ ٦۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن عدالت کبریٰ کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پورا پورا اجر دے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٨١) ٤۔ ” اللہ “ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ : ٤٨) ٥۔ ” اللہ “ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٦۔ اس دن عدل و انصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٧۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٨۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ (الزخرف : ٦٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واشرقت الارض بنور ربھا (39: 69) ” “۔ یعنی وہ میدان جس میں قیامت برپا ہوگی۔ یہ میدان جہاں نور ربی ہوگا دوسرا کوئی نور نہ ہوگا۔ ووضع الکتٰب (39: 69) ” “۔ وہ کتاب جس میں لوگوں کا اعمال نامہ درج ہوگا۔ وجآیئ بالنبیین والسھدآء (39: 69) “۔ تاکہ وہ حق بات کہہ دیں جو وہ جانتے تھے اور ہر تنازعہ وہاں طے کردیا گیا۔ نہایت خاموشی کے ساتھ کیونکہ اس منظر میں تمام معاملات خشوع اور خضوع سے طے ہوتے ہیں۔ کوئی تنازعہ نہیں رہتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا) (اور زمین روشن ہوجائے گی اپنے رب کے نور سے) یعنی شمس و قمر کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین میں روشنی پھیل جائے گی۔ (وَوُضِعَ الْکِتٰبُ ) (اور کتاب رکھ دی جائے گی) یعنی اعمال نامے سامنے آجائیں گے اور عمل کرنے والوں کے ہاتھوں میں ان کے اعمالنامے رکھ دئیے جائیں گے (وَجِیء بالنَّبِیِّینَ ) (اور نبیوں کو لایا جائے گا) تاکہ وہ اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں اور خود ان سے تبلیغ کے بارے میں سوال کیا جائے جیسا کہ سورة الاعراف میں فرمایا (فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَ لَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ) (وَالشُّہَدَاءِ ) (اور شہداء کو لایا جائے گا) لفظ الشہداء کا عموم تمام گواہی دینے والوں کو شامل ہے جن میں تمام امتوں کے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور اعمالنامے لکھنے والے فرشتے اور انسانوں کے اپنے اعضاء ہاتھ پاؤں اور زبانیں سب داخل ہیں۔ (وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بالْحَقِّ ) (اور بندوں کے درمیان حق کے ساتھ یعنی انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا) (وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) (اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

67:۔ ” واشرقت الارض الخ “ جب اللہ تعالیٰ میدان حشر میں فصل قضاء کے لیے جلوہ افروز ہوں گے اس وقت میدان حشر ان کے انوار و تجلیات سے جگمگا اٹھے گا یا یہ عدل و انصاف سے کنایہ ہے یعنی میدان حشر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے نور سے منور ہوجائے گا۔ وذلک حین یجلی الرب تبارک و تعالیٰ لفصل القضاء بین خلقہ (خازن و معالم ج 6 ص 71) ۔ بما اقام فیہا من العدل استعیر لہ النور لانہ یزین البقاع ویظہر الھقوق (ابو السعود ج 7 ص 280) ۔ سب کے اعمالنامے عدالت میں پیش کیے جائیں گے اور وہاں عدالت میں انبیاء (علیہم السلام) کو بھی حاضر کیا جائے گا تاکہ وہ اپنی امتوں کے منکرین کے خلاف گواہی دیں۔ اور شہداء یعنی امت محمدیہ کو بھی حاضر کیا جائے گا تاکہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں گواہی دیں کہ بیشک انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی امتوں کو پہنچا دیا۔ وجیئ بالنبیین یشہہدوا علی اممہم والشہداء امۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یشہدون للرسل (بحر ج 7 ص 442) ۔ مخلوق میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کسی کی بھی حق تلفی نہ ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(69) اورزمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور اعمال کے حساب انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یعنی حضرت حق تعالیٰ کے نزول و جلال کے ساتھ ہی نامہ اعمال ہر شخص کا اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور پیغمبر اور گواہ جیسا کہ سورة نساء میں گزر چکا ہے سب موجود ہوجائیں گے اور سب بندوں کا بلکہ سب مکلفین کا فیصلہ کردیا جائے گا یہ فیصلہ حق اور انصاف کے ساتھ کیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔