Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 7

سورة الزمر

اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنۡکُمۡ ۟ وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ ۚ وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ مَّرۡجِعُکُمۡ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۷﴾

If you disbelieve - indeed, Allah is Free from need of you. And He does not approve for His servants disbelief. And if you are grateful, He approves it for you; and no bearer of burdens will bear the burden of another. Then to your Lord is your return, and He will inform you about what you used to do. Indeed, He is Knowing of that within the breasts.

اگر تم ناشکری کرو تو ( یاد رکھو کہ ) کہ اللہ تعالٰی تم ( سب سے ) بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا ۔ اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے ۔ تمہیں وہ بتلا دے گا جو تم کرتے تھے ۔ یقیناً وہ دلوں تک کی باتوں کا واقف ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah hates Disbelief and is pleased with Gratitude Allah warns, إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ... If you disbelieve, then verily, Allah is not in need of you; Allah tells us that He is Independent and has no need of anything in creation. This is like the Ayah in which Musa, peace be upon him, says: إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِى الاٌّرْضِ جَمِيعًا ... فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِىٌّ حَمِيدٌ "If you disbelieve, you and all on earth together, then verily, Allah is Rich, Owner of all praise." (14:8) In Sahih Muslim, it says: يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَاخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ مِنْكُمْ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْيًا "O My servants, if the first and the last of you, men and Jinn alike, were all to be as evil as the most evil man among you, that would not diminish from My sovereignty in the least." ... وَلاَ يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ... He likes not disbelief for His servants. means, He does not like it and He does not enjoin it. ... وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ... And if you are grateful, He is pleased therewith for you. means: He likes this for you and He will increase His favor upon you. ... وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ... No bearer of burdens shall bear the burden of another. means, no person can bear anything for another; each person will be asked about his own affairs. ... ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ Then to your Lord is your return, and He will inform you what you used to do. Verily, He is the All-Knower of that which is in breasts. means, nothing whatsoever is hidden from Him. It is an aspect of Man's Disbelief that He remembers Allah at times of difficulty then associates others with Him after He has been relieved of His Distress Allah says,   Show more

فرماتا ہے کہ ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے اور اللہ سب سے بےنیاز ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرمان قرآن میں منقول ہے کہ اگر تم اور روئے زمین کے سب جاندار اللہ سے کفر کرو تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں وہ ساری مخلوق سے بےپرواہ اور پوری تعریفوں والا ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اے میرے بندو تمہارے...  سب اول و آخر انسان و جن مل ملا کر بدترین شخص کا سا دل بنا لو تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ہاں اللہ تمہاری ناشکری سے خوش نہیں نہ وہ اس کا تمہیں حکم دیتا ہے اور اگر تم اس کی شکر گزاری کرو گے تو وہ اس پر تم سے رضامند ہو جائے گا اور تمہیں اپنی اور نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ ہر شخص وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو ایک کے بدلے دوسرا پکڑا نہ جائے گا اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67؀ ) 17- الإسراء:67 ) ، یعنی جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا ۔ پس فرماتا ہے کہ جہاں دکھ درد ٹل گیا پھر تو ایسا ہو جاتا ہے گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا اس دعا اور گریہ و زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيْبًا اِلَيْهِ Ď۝ ) 39- الزمر:8 ) ، یعنی تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتارہتا ہے لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔ بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے ۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے کفر سے گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں ۔ اس میں ڈانٹ ہے اور سخت دھمکی ہے جیسے فرمایا کہدیجیے کہ فائدہ حاصل کر لو آخری جگہ تو تمہاری جہنم ہی ہے اور فرمان ہے ہم انہیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 اس کی تشریح کے لئے دیکھئے (وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ) 14 ۔ ابراہیم :8) کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] شکر کے فائدے :۔ اللہ تعالیٰ کے تم پر بےبہا انعامات کے باوجود بھی اگر تم کفران نعمت کرو گے اور اس کا حق عبادت دوسروں کو دیتے رہو گے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ تمہارا اپنا ہی نقصان ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تمہارے کفران نعمت یا ایسی نمک حرامی کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے ہاں پسندیدہ...  بات یہی ہے کہ تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اسے بھی وہ تمہارے ہی فائدے کے لیے پسند کرتا ہے۔ شکر کا تمہیں فائدہ یہ پہنچے گا کہ ایک تو تمہارا پروردگار خوش ہوگا دوسرے تمہیں اور بھی زیادہ نعمتیں عطا فرمائے گا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٧ کا حاشیہ۔ [١٦] یعنی اگر آج تم کسی کو راضی رکھنے کے لئے یا اس کی ناراضگی سے بچنے کے لئے کفر یا گمراہی کی راہ اختیار کرو گے تو قیامت کے دن وہ تمہارا بوجھ اٹھا نہیں لے گا۔ اس کے تو اپنے گناہوں کا بوجھ اس کے لئے وبال جان بنا ہوگا وہ تمہارا بوجھ کیسے اٹھائے گا۔ ؟ لہذا اللہ سے شرک اور کفران نعمت کے بارے میں انتہائی محتاط روش اختیار کرو۔ دوسروں کے بہکاوے میں نہ آؤ۔ اور خود سیدھی سی بات اور سیدھی راہ کو پہچاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ جن لوگوں کو آج تم نے اپنا پیشوا سمجھ رکھا ہے وہ کل تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ : کفر کا معنی ناشکری بھی ہے اور انکار بھی، یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرو، جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، یا ایمان کے بجائے کفر اختیار کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بےپروا ہے، وہ تمہارا کسی طرح بھی محتاج نہیں، نہ اسے تمہارے شکر یا ایمان کا کوئی فائد... ہ ہے اور نہ تمہاری نا شکری یا کفر کا کوئی نقصان، تم ہی ہر طرح سے اس کے محتاج ہو۔ مزید دیکھیے سورة ابراہیم (٨) ۔ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۚ : ہاں، وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ ” وَلَا یَرْضٰی لَکُمُ الْکُفْرَ “ (وہ تمہارے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا) یہ فرمایا کہ وہ اپنے عباد (بندوں) کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مالک اپنے غلاموں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا، تم اپنے متعلق سوچ لو، کیا تم اپنے کسی غلام کی ناشکری اور بغاوت کو پسند کرو گے، حالانکہ غلام تمہارے جیسے انسان ہیں، تو اللہ اپنے غلاموں کی ناشکری اور کفر کو کیسے پسند فرمائے گا، جب کہ وہ اس کے پیدا کیے ہوئے اور ہر طرح سے اس کے محتاج ہیں ؟ 3 یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور ارادہ اور چیز ہے اور اس کی رضا اور پسند دوسری چیز ہے۔ دنیا میں کوئی بھی کام اس کی مشیّت اور ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا، مگر اس نے انسانوں کو اور جنوں کو ایک حد تک اختیار دیا ہے، وہ چاہیں تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر ایمان لائیں اور اس کے احکام پر عمل کریں، یا چاہیں تو ناشکری کرتے ہوئے اس کے ساتھ کفر کریں اور اس کے احکام کی نافرمانی کریں۔ یہ اختیار دینے میں اس کی بیشمار حکمتیں ہیں، جن میں سے ایک بندوں کی آزمائش ہے، مگر وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندے ہو کر وہ اس کی ناشکری اور نافرمانی کریں۔ مثلاً ابلیس اور تمام کفار کا کفر اس کی مشیّت اور ارادے کے ساتھ ہی ہے، وہ اللہ سے زبردست ہو کر نہیں بلکہ اس کے دیے ہوئے اختیار ہی کی وجہ سے کفر کر رہے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کو ان کا کفر کرنا پسند نہیں ہے۔ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ ۭ“ اصل میں ” یَرْضَاہُ “ ہے، ” ان تَشْكُرُوْ “ شرط کی جزا ہونے کی وجہ سے اس پر جزم آئی، جس سے ” الف “ گرگیا۔ ” ہٗ “ ضمیر ” تَشْكُرُوْ “ کے ضمن میں پائے جانے والے شکر کی طرف جا رہی ہے، یعنی اگر تم شکر کرو تو اللہ تعالیٰ اس شکر کو تمہارے لیے پسند فرمائے گا۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى : یعنی تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، کسی دوسرے شخص کے کہنے پر یا اسے راضی رکھنے کے لیے اگر کفر اختیار کرے گا تو کوئی اس کے کفر کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ” وَازِرَةٌ‘ کے مؤنث ہونے کی وجہ جاننے اور مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة فاطر کی آیت (١٨) کی تفسیر۔ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ ۔۔ : یعنی دنیا میں تمہیں شکر یا کفر کا اختیار ہے، مگر آخر کار تم سب کو واپس اللہ کے پاس جانا ہے، جس نے تمہیں شروع میں پیدا فرمایا۔ وہ تمہیں تمہارے انھی اعمال کی خبر اور جزا دے گا جو تم کرتے رہے، یہ نہیں ہوگا کہ کسی اور کے عمل تمہارے ذمے ڈال دیے جائیں، یا تمہارے نیک یا بد اعمال غائب کردیے جائیں۔ اِنَّهٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ : یہ اس سے پہلے جملے کی علت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو تم میں سے ہر شخص کے اعمال اس کے سامنے پیش کرنا کچھ مشکل نہیں، کیونکہ وہ تو سینوں کی باتوں تک کو پوری طرح جاننے والا ہے، پھر کوئی قول یا عمل اس سے کس طرح مخفی رہ سکتا ہے ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the opening verse (7), it was said: إِن تَكْفُرُ‌وا فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ (If you disbelieve, then, Allah does not need you at all,) that is, neither does your faith bring any benefit to Allah Ta’ ala, nor does your disbelief or ingratitude, any loss. According to a Hadith in Sahih of Muslim, Allah Ta’ ala said: |"0 My servants, even if the first and the last among you and...  the humans and the Jinns, all of them, were to fall in sin and disobedience, it does not affect My power and authority in the least.|" (Ibn Kathir) Next it was said: لَا يَرْ‌ضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ‌ (however He does not like for His servants to be disbelievers,) The word: رِضاء (rida) means love, liking, pleasure, or to intend to do something without objection. Its antonym: سَخَط (sakhat) means to detest something or take it to be objectionable - even if it is coupled with intention. Ruling Ahl-us-sunnah wa-l-Jama&ah believe that nothing good or bad, faith or disbelief can come into existence without the will and intention of Allah Ta’ ala. Therefore, for everything to come into existence, the intention of Allah Ta’ ala is a binding condition. However, the pleasure and favor of Allah Ta’ ala relates to &iman (faith) and good deeds only. Kufr (disbelief), Shirk (ascribing of partners to Allah) and acts of disobedience are things He does not like. Shaikh-ul-Islam Nawawi writes in his book, اَلاصُول وَ الضَوَابِط ، al-usul wa-d- dawabit: مذھب اھل الحق الایمان بالقدر و اثباتہ وان جمیع الکایٔنات خیرھا و شرھا بقضاء اللہ وقدرہ و ھو مرید لھا کلھا ویکرہ المعاصی مع اَنہ، تعالیٰ مرید لھا لحکمۃ یعلمھا جلّ وعلا۔ (روح المعانی) The creed (madhhab) of people who follow the truth (ahl-ul-haqq) is to believe in destiny (al-qadr) and that all existents, good or bad, come into existence under the decision (qada& ) and destination (qadar) of Allah Ta’ ala, and Allah Ta’ ala does make the intention to create these, but He dislikes acts of disobedience and sin - though, the intention of creating these materializes in view of some wise consideration which He alone knows in His most exalted majesty. (Ruh-ul-Ma` ani)   Show more

خلاصہ تفسیر (اے لوگو تم نے کفر و شرک کا بطلان سن لیا، اس کے بعد) اگر تم کفر کرو گے (جس میں شرک بھی داخل ہے) تو خدا تعالیٰ (کا کوئی ضرر نہیں کیونکہ وہ) تمہارا (اور تمہاری عبادت کا) حاجت مند نہیں (کہ تمہارے عبادت و توحید اختیار نہ کرنے سے کچھ اس کو ضرر پہنچے) اور (یہ بات ضرور ہے کہ) وہ اپنے بندوں کے...  لئے کفر کو پسند نہیں کرتا (کیونکہ کفر سے بندوں کو ضرر پہنچتا ہے) اور اگر تم شکر کرو گے (جس کی فرد اعظم ایمان ہے) تو (اس کو کوئی نفع نہیں مگر چونکہ تمہارا نفع ہے اس لئے وہ) اس کو تمہارے لئے پسند کرتا ہے اور (چونکہ ہمارے یہاں قاعدہ مقرر ہے کہ) کوئی کسی کا بوجھ (گناہ) کا نہیں اٹھاتا (اس لئے کفر کر کے یوں بھی نہ سمجھنا کہ ہمارا کفر دوسرے کے نامہ اعمال میں کسی وجہ سے درج ہوجاوے گا اور ہم بری ہوجاویں گے خواہ اس وجہ سے کہ ہم دوسروں کے متبع ہیں معاصرین کے یا آباء اقدمین کے خواہ اس وجہ سے کہ دوسرے وعدہ اس بوجھ کے اٹھا لینے کا کرتے ہیں۔ جیسا بعض کفار کہا کرتے تھے۔ (آیت) ولنحمل خطیکم۔ غرض یہ نہ ہوگا بلکہ تمہارا کفر تمہارے جرائم میں لکھا جاوے گا) پھر اپنے پروردگار کے پاس تم کو لوٹ کر جانا ہوگا۔ سو وہ تمہارے سب اعمال تم کو جتلا دے گا (اور سزادے گا پس یہ گمان بھی غلط ہے کہ ان کے اعمال کی پیشی کا وقت نہ آوے گا۔ اور) وہ دلوں تک کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ (پس یہ گمان بھی مت کرنا کہ ہمارے کفر کی شاید اس کو اطلاع نہ ہو جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ بعض لوگوں میں گفتگو ہوئی کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سنتا ہے یا نہیں، کسی نے کچھ جواب دیا کسی نے کچھ جواب دیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) وما کنتم تستترون ان یشھد الخ) اور (مشرک) آدمی (کی حالت یہ ہے کہ اس) کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب (حقیقی) کو اسی کی طرف رجوع ہو کر پکارنے لگتا ہے اور سب معبودوں کو بھول جاتا ہے) پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس سے نعمت (امن و آسائش کی) عطا فرما دیتا ہے تو جس (تکلیف کے دفع کرنے) کے لئے پہلے سے (خدا کو) پکار رہا تھا اس کو بھول جاتا ہے (اور غافل ہوجاتا ہے) اور خدا کے شریک بنانے لگتا ہے جس کا اثر (علاوہ اپنے گمراہ ہونے کے) یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے دوسروں کو (بھی) گمراہ کرتا ہے (اور اگر اس مصیبت کو پیش نظر رکھے تو توحید میں اخلاص کو قائم رکھتا۔ یہ مشرک کی مذمت ہوگئی، آگے عذاب سے ڈرانا ہے کہ) آپ (ایسے شخص سے) کہہ دیجئے کہ اپنے کفر کی بہار تھوڑے دنوں اور لوٹ لے (پھر آخر کار) تو دوزخیوں میں سے ہونے والا ہے۔ (آگے اہل توحید کی مدح و بشارت ہے یعنی) بھلا جو شخص (برعکس حال مشرک مذکور کے) اوقات شب میں (جو عموماً غفلت کا وقت ہوتا ہے) سجدہ و قیام (یعنی نماز) کی حالت میں عبادت کر رہا ہو (یہ تو اس کا ظاہر ہے اور باطن یہ کہ) آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید (بھی) کر رہا ہو۔ (کیا ایسا شخص اور مشرک مذکور برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ قانت جو عبادت پر مداومت کرنے والا اور اللہ سے ڈرنے والا بھی ہے اور اس سے امید عفو وکرم رکھنے والا بھی، یہ محمود ہے اور مشرک جو مطلب نکال لینے کے بعد اخلاص کو چھوڑ دیتا ہے مذموم ہے اور چونکہ ان عبادات کے ترک کو کفار مذموم نہ سمجھتے تھے، اس لئے اس تفاوت کی بناء پر محمودیت ومذمولیت کے حکم میں ان کو شبہ ہوسکتا تھا، اس لئے آگے اس سے زیادہ واضح اور مسلم عنوانوں سے اس حکم کا اثبات فرماتے ہیں یعنی اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان سے بایں عنوان) کہیئے کہ علم والے اور جہل والے (کہیں) برابر ہوتے ہیں (چونکہ جہل کو ہر شخص برا سمجھتا ہے اس کے جواب میں ان کی طرف سے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ اہل جہل مذموم ہیں آگے یہ ثابت کرنا رہ جاوے گا، کہ صاحب عمل صاحب علم ہے اور عمل سے اعراض کرنے والا صاحب جہل ہے۔ سو یہ امر ذرا تامل سے ثابت ہے اور ہرچند کہ اس بیان سے کفر واہل کفر کا مذموم اور ایمان واہل ایمان کا محمود ہونا ثابت ہوگیا لیکن پھر بھی) وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل (سلیم) ہیں اور (جب اہل اطاعت کا عند اللہ محمود ہونا معلوم ہوگیا تو اطاعت کی ترغیب دینے کے لئے) آپ (مومنین کو میری طرف سے) کہہ دیجئے کہ اے میرے ایمان والے بندو تم اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو (یعنی مداوم علی الطاعات ومحترز عن المعاصی رہو کہ یہ سب فرع ہیں تقویٰ کے آگے اس کا ثمرہ ہے کہ) جو لوگ اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک صلہ ہے (آخرت میں تو ضرور اور دنیا میں بھی باطنی راحت تو ضرور اور کبھی ظاہرا بھی) اور (اگر وطن میں کوئی نیکی کرنے سے مانع ہو تو ہجرت کر کے دوسری جگہ چلے جاؤ کیونکہ) اللہ کی زمین فراخ ہے (اور اگر ترک وطن میں کچھ تکلیف پہنچے تو استقلال رکھو کیونکہ دین میں) مستقل رہنے والوں کو ان کا صلہ بیشمار ہی ملے گا (پس اس سے ترغیب اطاعت کی ہوگئی) معارف ومسائل (آیت) اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۔ یعنی نہ تمہارے ایمان سے اللہ تعالیٰ کا اپنا کوئی فائدہ نہ تمہارے کفر سے کوئی نقصان۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ” اے میرے بندے اگر تمہارے اولین اور آخرین اور تمہارے انسان اور جن سب کے سبب انتہائی فسق و فجور میں مبتلا ہوجائیں تو میرے ملک و سلطنت میں ذرا بھی کمی نہیں آتی۔ (ابن کثیر) (آیت) وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کفر سے راضی نہیں۔ رضا سے مراد محبت ہے یا کسی کام کا ارادہ کرنا بغیر اعتراض کے۔ اس کا مقابل لفظ سحظ آتا ہے جس کے معنی کسی چیز کو مبغوض رکھنا یا کسی چیز کو قابل اعتراض قرار دینا اگرچہ اس کے ساتھ ارادہ بھی متعلق ہو۔ مسئلہ : اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی اچھا یا برا کام ایمان یا کفر اللہ تعالیٰ کی مشیت یا ارادہ کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ اس لئے ہر چیز کے وجود میں آنے کے لئے اللہ جل شانہ، کا ارادہ شرط ہے۔ البتہ رضا اور پسندیدگی حق تعالیٰ کی صرف ایمان اور اچھے کاموں سے متعلق ہوتی ہے۔ کفر و شرک اور معاصی اس کو پسند نہیں۔ شیخ الاسلام نووی نے اپنی کتاب الاصول و الضوابط میں لکھا ہے :۔ ” مذہب اہل حق کا تقدیر پر ایمان لانا ہے اور یہ کہ تمام کائنات اچھی ہوں یا بری سب اللہ تعالیٰ کے حکم و تقدیر سے وجود میں آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق کا ارادہ بھی کرتا ہے مگر وہ معاصی کو مکروہ و ناپسند سمجھتا ہے۔ اگرچہ ان کی تخلیق کا ارادہ کسی حکمت و مصلحت سے ہوتا ہے جس کو وہ خود ہی جانتا ہے “  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللہَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ۝ ٠ ۣ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْكُفْرَ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَہُ لَكُمْ۝ ٠ ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝ ٠ ۭ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْر... ِ۝ ٧ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ غنی وغَنَى في مکان کذا : إذا طال مقامه فيه مستغنیا به عن غيره بغنی، قال : كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف/ 92] ( غ ن ی ) الغنیٰ غنی فی مکان کذا ۔ کسی جگہ مدت دراز تک اقامت کرنا گویا وہ دوسری جگہوں سے بےنیاز ہے ۔ قرآن میں ہے : كَأ َ نْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف/ 92] گویا وہ ان میں کبھی آبادہی نہیں ہوئے تھے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔ وزر الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل . قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی: لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» «4» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . ( و ز ر ) الوزر ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مکہ والو اگر تم رسول اکرم اور قرآن حکیم کا انکار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کا محتاج نہیں کیونکہ وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ چیز اس کے شایان نہیں اور اگر تم اس پر ایمان لے آؤ گے تو وہ تمہارے ایمان کو قبول فرمائے گا کیونکہ وہ اس کا پسندیدہ طریقہ ہے اور کوئی کسی کے گنا... ہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ یعنی کسی شخص کی دوسرے کے گناہ میں پکڑ نہیں ہوتی ہر ایک اپنے گناہوں کا ذمہ دار ہے یا یہ کہ کسی کو بغیر گناہ کے عذاب نہیں دیا جاتا۔ اور پھر تمہیں اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے وہ تمہیں تمہارے افعال و اقوال قیامت کے دن جتائے گا اور وہ دلوں میں جو کچھ نیکیاں اور برائیاں ہیں سب کا جاننے والا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ قف } ” اگر تم کفر کرتے ہو تو یقینا اللہ تم سے بےنیاز ہے۔ “ وہ غنی ہے ‘ اسے تمہاری کوئی احتیاج نہیں ‘ تمہاری طرف سے انکار یا کفرانِ نعمت کی صورت میں اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ { وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ } ” لیکن وہ ... اپنے بندوں کے لیے کفر پر راضی نہیں ہے “ اگرچہ اس نے انسان کو اختیار دے رکھا ہے : { اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ ( الدھر) کہ تم چاہو تو شکرگزار بندے بنو اور چاہو تو کفرانِ نعمت کی روش اختیار کرو۔ یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے ‘ مگر یہ جان رکھو کہ اسے اپنے بندوں کی طرف سے کفر کا رویہ ہرگز پسند نہیں ہے۔ { وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ } ” اور اگر تم شکر کرو تو وہ تم سے راضی ہوگا۔ “ اگر تم اس کا شکر ادا کرتے رہو ‘ اس کی حمد و ثنا کے ترانے گاتے رہو اور اس کی بندگی کی روش اختیار کیے رکھو تو وہ تم سے خوش رہے گا۔ وہ اسی طرزعمل کو پسند کرتا ہے۔ { وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی } ” اور نہیں اٹھائے گی بوجھ اٹھانے والی کوئی جان کسی دوسرے کے بوجھ کو۔ “ { ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ } ” پھر تمہارا لوٹنا ہے تمہارے رب ہی کی طرف “ { فَیُـنَـبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ } ” پھر وہ تمہیں بتادے گا جو کچھ کہ تم کرتے رہے تھے۔ “ { اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ } ” یقینا وہ جاننے والا ہے سینوں کے اندر چھپی ہوئی باتوں کا۔ “ جو راز تمہارے سینوں کے اندر مخفی ہیں وہ ان سے بھی باخبر ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 That is, "Your disbelief cannot cause any decrease or deficiency in His Kingdom. He will be God if you believe in Him, and He will still be God if you deny Him. He is ruling over His Kingdom by His own power; your believing or denying Him dces not affect His Sovereignty in any way." According to a Hadith. Allah says: "O My servants, if all of you, the former and the latter, the men and the jinn... s, become like the heart of a most sinful person among you, it will cause no deficiency whatever in My Kingdom. " (Muslim). 20 That is, "He does not approve, not for any interest of His own but for the interest and benefit of the servants themselves, that they should disbelieve, for disbelief is harmful for them." Here, one should bear in mind the fact that AIlah's will is one thing and His approval and pleasure another. Nothing in the world can happen against Allah's will, but many things can happen against His approval, and arc happening day and night. For example, the dominance of the tyrants and the wicked in the world, the existence of thieves and robbers, the presence of murderers and adulterers, are possible only because Allah has made room for the occurrence of these evils and the existence of these criminals in the scheme of things ordained by Him. Then He provides opportunities also of committing evil just as He provides opportunities to the good of doing good. Had He made no room for these evils and had provided no opportunities of committing wrongs to the evildoers, no evil would have ever occurred in the world. All this is based on Allah's Will. But the occurrence of an act under Divine Will dces not mean that Allah's approval also goes with it. This may be explained by an example. If a person tries to obtain his living only by lawful means, Allah provides him his living through those means. This is His will. But providing for the thief or the robber or the corrupt person under the will dces not mean that Allah also likes stealing and robbery and taking of bribes. Allah says the same thing here, as if to say: "If you want to disbelieve, you may do so: We will not stop you from this nor make you believe forcibly. But We do not approve that you should deny your Creator and Providence, being His servants, for it is harmful for yourselves: Our Godhead is not harmed and affected by it in any way." 21 The word shukr (gratitude) has been used here as against kufr (disbelief) instead of Iman (belief). This by itself shows that kufr is, in fact, ingratitude and disloyalty, and faith is the necessary requirement of gratitude. The person who has any feeling of the favours of Allah Almighty, cannot adopt any other way than that of belief and faith. Therefore, gratitude and faith are correlatives: wherever there is gratitude there will be faith also. On the contrary, wherever there is disbelief, there will be no question of gratitude at all, for gratitude along with disbelief is meaningless. 22 It means this: "Each one of you is himself responsible for his deeds, If a person adopts disbelief in order to please others, or to avoid their displeasure, those others will never bear the burden of his disbelief, but will leave him to bear his own burden. Therefore, anyone who comes to know that disbelief is wrong and belief is right, should give up the wrong attitude. and adopt the right attitude, and avoid making himself liable for Allah's punishment by associating himself with his family or brotherhood or nation. "  Show more

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :19 یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی ذرا برابر بھی کمی نہیں آسکتی ۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ، اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا ۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے ، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ...  وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا عبادی لو ان اولکم و اٰخرکم و انسکم و جنکم کانوا علیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً ۔ اے میرے بندو ، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی ۔ ( مسلم ) سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :20 یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں ، کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے ۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز ۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا ، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں ۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا ، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا ، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے ۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے ۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی ۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے ۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے ۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے ۔ یہ ہے اس کی مشیت ۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری ، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو ، ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے ۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو ، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے ، ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :21 کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے ، اور ایمان فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے ۔ جس شخص میں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا ۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہو گا وہاں ایمان ضرور ہو گا ۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے معنی نہیں ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :22 مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفر اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے ۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہو جائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کر لے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ مشرکین مکہ کے بعضے لوگ اپنے جان پہچان والے مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم اپنے باپ داد کے دین کو چھوڑ کر اسلام پر قائم نہ رہو اپنے قدیمی دین پر آجاؤ اگر اسلام سچا ہوا اور ہمارا کہنا مان لینے کے سبب سے تم قیامت کے دن گناہ گار ٹھہرے تو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة العنکبوت میں بھی...  فرمایا کہ یہ مشرک جھوٹے ہیں۔ قیامت کے دن کوئی کسی کے گناہوں کا بوجھ نہ اٹھاوے گا۔ اور کئی جگہ قرآن شریف میں اسی مطلب کو مختصر طور پر ادا فرمایا۔ یہ آیت بھی ان ہی آیتوں میں سے ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے۔ کہ قیامت کے دن نہ تو کوئی گناہ اللہ تعالیٰ سے چھپ سکتا ہے۔ کیونکہ اس کو انسان کے دل تک کا حال معلوم ہے اور نہ ایک شخص کے گناہوں کی سزا دوسرے کو دی جاوے گی۔ بلکہ ہر شخص کو اس گناہوں کے موافق سزا ہوگی ‘ یہ ذکر تو بہکنے والوں کا ہوا بہکانے والوں کا ذکر سورة العنکبوت میں گزر چکا ہے کہ بہکانے کو دہری سزا دی جاوے گی ایک خود بہکنے کی اور دوسری اوروں کو بہکانے کی۔ بہکنا اور بہکانا دونوں کام ان لوگوں کے ذاتی گناہ ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کو کسی دوسرے کے گناہ کی سزا دی گئی۔ اس تفسیر کے بعد ان آیتوں میں اور سورة العنکبوت کی آیتوں میں کچھ اختلاف باقی نہیں رہتا۔ صحیح مسلم کے والہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ١ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو شخص دین میں کوئی نیک راستہ نکالے گا تو جتنے آدمی اس نیک راستہ کے سبب سے نیک راستہ پر لگیں گے۔ ان سب کے اجر کے برابر اس نیک راستہ نکالنے والے کو بھی اجر ملے گا۔ اور یہی حال برے رستہ کا ہے اس حدیث کو اور سورة العنکبوت کی آیتوں کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جس طرح مشرکین مکہ زبان سے بہکانے کی باتیں نکال کر مسلمانوں بہکاتے تھے۔ برا راستہ نکالنے والے کا بھی وہی حکم ہے۔ خواہ وہ برا راستہ نکالنے کے بعد زبان سے کسی کو بہکاوے یا نہ بہکاوے۔ اس حدیث کے موافق ایسے شخص کا برار استہ نکالنا ہی زبانی بہکانے کے برابر ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٤٨ باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ و من دعا الی ھدی ارضلاۃ من کتاب العلم۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:7) ان شرطیہ ہے۔ فان اللّٰہ میں الفاء لجواب الشرط۔ غنی۔ بےنیاز۔ غیر محتاج۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ یرضہ۔ مضارع مجزوم واحد مذکر غائب اصل میں یرضی تھا۔ رضی مصدر باب سمع سے جواب شرط کی وجہ سے مجزوم ہے۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب شکر کی طرف راجع ہے وہ اس کو پسند کرتا ہے (اگر تم شکر کرو گے تو وہ اسے تمہارے...  لئے پسند کرتا ہے) ۔ لاتزر۔ مضارع منفی واحد مؤنث غائب وہ بوجھ نہیں اٹھاتی۔ وہ بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ وزر مصدر باب ضرب سے وازرۃ اسم فاعل واحد مؤنث بوجھ اٹھانے والی ۔ مؤنث کا صیغہ نفس کے لئے ہے جو عربی میں مؤنث ہے وزر اخری۔ مضاف مضاف الیہ مل کر لاتزر کا مفعول ہے۔ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ مرجعکم مضاف مضاف الیہ۔ مرجع لوٹنا۔ رجوع کرنا۔ رجوع سے مصدر میمی ہے تمہارا لوٹنا۔ علیم۔ بڑا دانا۔ خوب جاننے والا۔ علم سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ذات الصدور : ذات ۔ ذوا سے مؤنث ہے والی۔ ذات الصدور مضاف مضاف الیہ ۔ سینوں کے بھید۔ علیم بذات الصدور۔ دلوں تک کی باتوں کو جاننے والا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی وہ تمہارا محتاج نہیں ہے کہ تم اس کی عبادت کرو تو اس کی خدائی قائم رہے اور اگر کفر کرو تو اس کی خدائی ختم ہوجائے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے بندو ! اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جن اپنے میں سے فاسق ترین آدمی کے دل کے مانند ہوجائو تو اس سے میری بادشاہی میں...  کوئی کمی نہ ہوجائے گی۔ ( ابن کثیر)13 یعنی وہ اپنے بندوں کی نا شکری کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس کا حکم دیتا ہے بلکہ اس کی پسند یہی ہے کہ وہ شکر گزار ہوں اور اسی کی بندگی کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کریں۔ اس نے اپنے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ کتابیں نازل فرما کر اپنی پسند و ناپسند کو بیان کردیا ہے۔ اس کے بعد جو شخص نا شکری کرے گا اسے اس کی نا شکری کی سزا ملے گی۔14 یعنی ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا۔15 یعنی وہ تو تمہارے دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے پھر تمہارے اعمال اس سے کیوں کر پوشیدہ رہ سکتے ہیں ؟  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 7 تا 10 :۔ غنی ( بےنیاز) وازرۃ ( بوجھ) ذات الصدور (سینوں والا ، دلوں کا حال ( جاننے والا) منیب ( لوٹنے والا ، رجوع کرنے والا) خول ( دیا) نسی ( وہ بھول گیا) قانت ( ادب سے کھڑے ہونے والا) انا (اوقات ، برتن) اولوالالباب (عقلوں والے) تشریح : آیت نمبر 7 تا 10 :۔ اللہ تعالیٰ نے انسان ... کو جو بیشمار نعمتیں عطاء فرمائیں ہیں ان کو شمار کرانے کے بعد زیر مطالعہ آیات میں آٹھ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ (1) فرمایا کہ ان تمام نعمتوں کے باوجود اگر کوئی شخص نا شکری کرتا ہے تو اللہ کی شان بےنیازی میں نہ تو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ اس کی شان میں کسی طرح کی کوئی کمی آتی ہے البتہ اگر کوئی اللہ کا احسان مان کر شکر کرتا ہے تو اس انسان کی شان تو بڑھ جاتی و ہے لیکن اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کا شکر ادا نہ کرے تو اللہ کی عظمت و شان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا فرمایا کہ اللہ کو اپنے ان بندوں میں سے وہ لوگ بہت پسند ہیں جو اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور کسی طرح کی نا شکری نہیں کرتے ۔ (2) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی خوشی کی خاطر گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اسے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں ایسے لوگ اس سے ناواقف ہیں کہ کل قیامت میں جب یہ گناہوں کے بوجھ لاد کر اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو کوئی کسی کا نہ تو بوجھ اٹھائے گا اور نہ ان میں سے کوئی ان کے کام آسکے گا ۔ (3) تیسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ ہر شخص کو آخر کار اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ اللہ جو دلوں کے چھپے ہوئے جذبوں سے بھی واقف ہے ان کے سامنے ان کی زندگی کے اعمال نامے رکھ کر ان سے ایک ایک لمحے کا حساب لے گا ۔ (4) چوتھی بات یہ فرمائی کہ جھوٹے معبودوں کو اپنا مشکل کشا ماننے والے اور زندگی بھر جھوٹے سہاروں کے ساتھ جینے والے جب کسی مصیبت یا مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو وہاں ان کو مٹی ، پتھر اور لکڑی سے بنائے گئے معبود یاد نہیں آتے بلکہ وہ دل کی گہرائیوں سے اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور جب وہ مشکلات کے بھنور سے نکل آتے ہیں تو پھر سے کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ فرمایا کہ ایسے نا شکرے لوگ کچھ دن دنیا کے مزے اڑا لیں پھر وہ وقت دور نہیں ہے جب ان کو جہنم کی ابدی آگ میں جھونک دیا جائے گا اور وہاں بھی ان کے جھوٹے معبود ان کو جہنم کی آگ سے نہ بچا سکیں گے۔ (5) پانچویں بات یہ ارشاد فرمائی کہ ایک طرف تو یہ نا شکرے لوگ ہیں جو کفر و شرک کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں دوسری طرف اللہ کے وہ نیک بندے ہیں جو دن رات اللہ کے سامنے سجدے کر رہے ہیں اور ادب سے کھڑے رہتے ہیں آخرت کے برے انجام سے ڈرتے اور اللہ کی رحمت سے امید رکھنے والے ہیں ۔ اللہ انہیں دنیا اور آخرت کی ہر کامیابی عطاء فرمائے گا ۔ (6) اللہ نے چھٹی بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اس بات پر ہر شخص غور کرسکتا ہے کہ اللہ کی نا شکری کرنے والے اور اس کا احسان مان کر دن رات اسی کی عبادت و بندگی کرنے والے یکساں اور برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ یقینا دونوں کا انجام ایک جیسا نہیں ہے ۔ اللہ ان لوگوں کو ہر طرح کی کامیابیاں عطاء فرمائے گا جو اس کے اطاعت گزار اور شکر گزار بندے ہیں لیکن ان کے لئے ابدی جہنم ہے جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور کفر و شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ (7) اللہ نے ساتویں بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اے ہمارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ میرے ان صاحبان ایمان بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ صرف مجھ سے ہی ڈریں کیونکہ اللہ ایسے نیکو کاروں کو ان کے حسن عمل پر بہترین صلہ اور بدلہ عطاء فرمائے گا ۔ (8) آٹھویں بات یہ ارشاد فرمائی کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لئے ہجرت کر جائیں گے تا کہ اپنا ایمان بچاسکیں تو ایسے لوگ اپنے لئے زمین کو تنگ نہیں بلکہ وسیع تر پائیں گے۔ ایسے لوگ عظیم اجر کے مستحق ہیں کیونکہ حق و صداقت پر جم جانے والے بےحساب اجر عظیم کے مستحق ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کیونکہ فکر سے بندوں ضرر پہنچتا ہے۔ 3۔ کیونکہ اس میں تمہارا نفع ہے۔ 4۔ اس لئے کفر کر کے یوں نہ سمجھنا کہ ہمارا کفر دوسرے کے نامہ اعمال میں کسی وجہ سے درج ہوجاوے گا، اور ہم بری ہوجاویں گے، غرض تمہارا کفر تمہارے جرائم میں لکھا جاوے گا۔ 5۔ پس یہ گمان بھی غلط ہے کہ ان اعمال کی پیشی کا وقت نہ آوے گا۔ 6... ۔ پس یہ گمان بھی مت کرنا کہ ہمارے کفر کی شاید اس کو اطلاع نہ ہو۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ کسی کی عبادت کرنا پرلے درجے کی گمراہی اور ناشکری ہے جسکی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر حوالے سے یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان ! میرے سوا نہ تجھے کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ میرے سوا کوئی تیری ضرورت... یں پوری کرنیوالا ہے۔ لہٰذا تجھے صرف میری ہی عبادت کرنا ہے اور مجھ سے اپنی حاجات مانگنا چاہیے۔ لیکن ہر دور میں بیشمار ایسے لوگ رہے ہیں اور ہوں گے جو اپنے خالق اور مالک کی اتنی بات بھی اس کے حکم کے مطابق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور اس کی بےانتہا درجے کی ناشکری ہے، جسے اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ وہ انسان کی ناشکری کی بجائے اس کی شکر گزاری اور تابعداری پر خوش ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انسان ناشکری پر تلا رہے اور غیروں کی تابعداری کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کو اس کی رائی کے دانے کے برابر بھی پرواہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی خدائی اور بادشاہی کو بال کے برابر فرق پڑتا ہے۔ سورۃ کی ابتداء میں اس شرک کی مذمت کی گئی کہ کسی فوت شدہ شخصیت یا بت وغیرہ کو اللہ کے قرب کا ذریعہ بنانا گمراہی ہے۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مشرک سمجھتا ہے کہ فلاں شخصیت قیامت کے دن میری نجات کی ذمہ داری اٹھالے گی کیونکہ قبروں کے مجاور، بتوں کے پجاری اور شرک کا پرچار کرنے والے علماء، پیر اور فقیر لوگوں کو یہی کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ بزرگ اور مرشد دنیا میں خدا کی خدائی میں اختیارات رکھتے ہیں اور قیامت کے دن بھی تمہاری نجات کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس بات کی یہاں نفی کی جارہی ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ جو لوگ سمجھانے کے باوجود اپنے باطل عقیدہ پر قائم رہتے اور اس کے لیے جھگڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے باطل عقیدہ اور عمل کے بارے میں بتلائے گا یعنی انہیں پوری پوری سزا دے گا۔ کیونکہ بالآخر سب نے اسی کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اور کوئی اس سے بات چھپا نہیں سکتا کیونکہ وہ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ مجرم کو جب یہ الفاظ کہے جائیں کہ وقت آنے پر تجھے سب کچھ بتلا دیا جائے تو یہ الفاظ ہر زبان میں زبردست مجرم کے لیے انتباہ کی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے کردار پر نظر ثانی کرے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِيْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِيْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِيْ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو ! اپنے لیے کچھ کرلو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ناشکری نہیں شکرگزاری پر خوش ہوتا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سب کچھ بتلائے گا اور نا شکروں کو سز ا دے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جاننے والا ہے کیونکہ سب نے اس کے حضور پیش ہونا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 7 تمہاری ماؤں کے پیٹ کا عرصہ تو تمہارے طویل سفر زندگی کا ایک مختصر حصہ ہے۔ ابتدائی مرحلہ ہے۔ پھر پیٹ سے باہر آکر تم قدرے طویل مرحلے میں داخل ہوگے۔ اس کے بعد تیسرا طویل اور ابدی مرحلہ ہوگا۔ حساب و کتاب ہوگا اور یہ مرحلہ اللہ علیم وخبیر کی تدبیر سے طے ہوگا۔ جہاں تک اللہ کی ذات کا تعلق ہے وہ...  انسان جیسی کمزور مخلوق کا محتاج نہیں ہے۔ انسان بہت ہی ضعیف مخلوق ہے۔ یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ وہ انسانوں کیطرف متوجہ ہے اور انکی نگرانی اور ان پر مہربانی کرتا ہے اور وہ کس قدر ضعیف اور کس قدر کمزور ہیں ان تکفروافان اللہ غنی عنکم (39: 7) ” اگر تم کفر کرو تو اللہ بےنیاز ہے “۔ کیونکہ تمہارا ایمان اللہ کی مملکت میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرسکتا ۔ اور تمہارا کفر اس میں کسی چیز کی کمی نہیں کرسکتا۔ لیکن اللہ اپنے بندوں کی جانب سے کفر کو پسند نہیں کرتا اور کفر کو محبوب نہیں رکھتا۔ ولایرضٰی لعبادہ الکفر (39: 7) ” لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا “۔ اور اگر تم شکر کرو۔ وان تشکرواترضه لکم (39: 7) ” اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے “۔ وہ شکر کو محبوب رکھتا ہے ، اور اس پر جزائے خیر دیتا ہے۔ ولا تزروازرۃ وزراخرٰی (39: 7) ” کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا “۔ آخر کار ہم نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ صرف اس کے آگے پیش ہونا ہے اور اس کے سوا کوئی پناہ نہیں ہے۔ ثم الیٰ ۔۔۔۔ تعملون (39: 7) ” آخر کار تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے۔ پھر تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو “۔ اس پر کوئی امر مخفی نہیں ہے۔ انه علیم بذات الصدور (39: 7) ” وہ دلوں کا حال جانتا ہے “۔ یہ ہے انجام حیات ۔ یہ ہیں دلائل ہدایت اور یہ ہے دو راہہ جس سے دونوں راستے الگ ہوتے ہیں۔ ایک ہدایت کا راستہ اور ایک ضلالت کا راستہ۔ اب ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے جو شخص جس راستے کا اختیار کرے خوب سمجھ کر اختیار کرے غور و تدبر کے بعد کرے۔ علم اور فکر کے ساتھ کرے  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے کفر سے راضی نہیں، شکر اسے محبوب ہے گذشتہ آیات میں توحید کی دعوت تھی اور شرک اور کفر اختیار کرنے والوں کی حماقت اور ضلالت بیان فرمائی تھی اگر کسی کو یہ وہم اور وسوسہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے موحد ہونے کی یا اس کی عبادت کرنے کی ضرورت ہے تو اس وہم اور وسوسہ کو دور فرما دیا کہ ا... گر تم کفر اختیار کرو اور اسی پر جمے رہو تو اللہ تعالیٰ کے کمالات میں کوئی کمی نہیں آئے گی وہ تم سے بےنیاز ہے تمہارا حاجت مند نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ اپنے بندوں کے کفر سے راضی ہے اگر کوئی شخص کافر ہوگا تو وہ اس کے کفر کی سزا دے گا اور اگر تم شکر کرو گے اس پر ایمان لاؤ گے اس کی توحید کے قائل ہوگے اور دل سے مانو گے تو وہ اس کی قدر دانی فرمائے گا جس پر انعامات دے گا کفر میں تمہارا ہی نقصان ہے اور ایمان لانے میں تمہارا ہی نفع ہے۔ اور یہ جو تم کفر اختیار کرتے ہوئے اپنے سرداروں کے بہکاوے میں آتے ہو اس بارے میں یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمارے کفر کا وبال ان ہی لوگوں پر پڑے گا اور ہمارا مواخذہ نہ ہوگا اس بات کو واضح کرنے کے لیے فرمایا (وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرَی) ہر شخص کو اپنے کفر کی سزا دائمی عذاب کی صورت میں بھگتنی ہوگی۔ اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے وہ تمہارے اعمال سے آگاہ فرما دے گا کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میرے اعمال کی پیشی نہ ہوگی یا یہ کہ میرے اعمال وجود میں آکر معدوم ہوجائیں گے تو کیونکر پیش ہوں گے بات یہ ہے کہ جس نے پیدا فرمایا ہے جان دی ہے اسے تمہارے سب کاموں کا علم ہے اور نہ صرف ظاہری اعمال کا علم ہے بلکہ دلوں کی باتوں تک کا اسے علم ہے وہ تمہیں بتادے گا اور جتا دے گا کہ تم نے یہ یہ اعمال کیے ہیں لہٰذا وہاں کی پیشی کے لیے تیار ہو ایمان لاؤ اور اعمال صالحہ اختیار کرو۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” ان تکفروا الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ایسے دلائل واضحہ کے باوجود بھی اگر تم کفر پر قائم رہو تو سن لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان وشکر سے بےنیاز ہے۔ تمہارے کفر سے اس کا کچھ بگڑتا نہیں اور تمہارے ایمان و تشکر سے اس کا کچھ سنورتا نہیں۔ ” ولا یرضی الخ “ البتہ محض بندوں کی خیر خواہی کے لیے وہ سامان ہ... دایت فراہم فرماتا ہے اور کفر و ناشکر گذاری کو اپنے بندوں کے لیے پسند نہیں کرتا۔ کیونکہ اس میں بندوں کا سراسر دنیوی اور اخروی نقصان ہے۔ ” وان تشکروا الخ “ اور اگر تم اس کا شکر کرو اس کی توحید پر ایمان لاؤ اور پیغمبر (علیہ السلام) کی ہدایت کے مطابق اعمال صالحہ بجا لاؤ تو اس کو تمہارے لیے پسند فرماتا ہے۔ کیونکہ اس میں تمہارا دنیا اور آخرت کا فائدہ ہے ( ولا یرضی لعبادہ الکفر) لما فیہ من الضرر علیہم (وان تشکروا یرضہ لکم) لما فیہ من نفعکم (روح ج 23 ص 241) ۔ 12:۔ ” ولا تزر الخ “ تمہارے کفر و انکار اور ناشکر گذاری کا نقصان صرف تمہیں ہی ہے اور قیامت کے دن اس کی سزا بھی تم ہی پاؤ گے دنیا میں تمہیں اپنی بد اعمالیوں کا انجام بد سمجھ میں نہیں آتا نہ نظر ہی آتا ہے۔ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے اس وقت وہ تمہیں تمہارے اعمال سے باخبر کرے گا۔ وہ چونکہ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اس لیے اس پر تمہارا کوئی ظاہر یا پوشیدہ عمل مخفی نہٰں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اگر تم کفر اختیار کرو گے اور کافرانہ روش پرچلو گے تو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ تم سے مستغنی ہے اور وہ تمہاری عبادت کا محتاج نہیں ہے اور وہ بندوں کے لئے کفر و ناسپاسی کو پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر بجا لائو گے یعنی اسلام قبول کرلوگے وہ تمہارے لئے اس شکر کو پسند کریگا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کس... ی دوسرے کے بوجھ کو نہیں اٹھائے گا۔ پھر تم سب کی بازگشت اپنے پروردگار کی طرف ہوگی اور تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہوگا پس جو اعمال تم دنیا میں کرتے رہے ہو وہ ان سب کی حقیقت سے تم کو آگاہ کردے گا اور تم کو بتلادے گا یقینا وہ لوگوں کے سینوں تک کی باتوں سے بخوبی واقف ہے اور ان کو جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کفر کرو گے تو اس کو کوئی پروا نہیں اور نہ اس کا کچھ ضرر ہے اور نہ وہ کسی کی عبادت کا محتاج ہے اس کو اپنے بندوں کا کفر کرنا جس میں شرک بھی آگیا پسند نہیں اور اگر تم شکربجالائو اور اسلام قبول کرلو اور اطاعت بجا لائو تو وہ شکر کو پسند کرتا ہے اور شکر سے راضی ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھائے گا بلکہ جو جیسا کریگاویسا بھریگا اور تم سب کو اسی کے حضور میں حاضر ہونا ہے پھر وہ تم کو تمہارے ان اعمال کی حقیقت بتادے گا جو تم دنیا میں کرتے رہے ہو کیونکہ وہ تو سینوں تک کی خفیہ اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ عبادہ میں مفسرین کے دو قول ہیں لیکن راجح یہی ہے کہ کفر کافر کا ناپسند ہے اللہ تعالیٰ کو اور اللہ تعالیٰ راضی نہیں اس کفر سے۔ قتادہ اور دوسرے سلف کا قول یہی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفر سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہے اور چونکہ تمہارے لئے ضرررساں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اس کو تمہارے لئے پسند نہیں کرتا اور شکر چونکہ بندوں کے لئے نافع ہے اس لئے وہ بھی تمہارے لئے شکر کو پسند کرتا ہے اور یہ خیال نہ کیا جائے کہ کفر اور نافرمانی کا بار کسی دوسرے پر پڑجائے گا بلکہ ہر شخص کو اپنے اپنے اعمال کا بار اور بوجھ اٹھانا ہوگا اور حدیث شریف میں جو آتا ہے من سن سنۃ سئیۃ فلہ وزرھا دوزرمن عمل بھا۔ اس کو ہم سورة عنکبوت میں عرض کرچکے ہیں وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔  Show more