Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 70

سورة الزمر

وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿٪۷۰﴾  4

And every soul will be fully compensated [for] what it did; and He is most knowing of what they do.

اور جس شخص نے جو کچھ کیا ہے بھرپور دے دیا جائے گا جو کچھ لوگ کر رہے ہیں وہ بخوبی جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ ... And each person will be paid in full of what he did; meaning, of good and evil. ... وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ and He is Best Aware of what they do.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 یعنی اس کو کسی کاتب، حاسب اور گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اعمال نامے اور گواہ صرف بطور حجت اور قطع معذورت کے ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] کیا قاضی اپنے ذاتی علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے ؟:۔ اگرچہ اللہ ان کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ پھر بھی ان پر گواہیاں قائم کی جائیں گی۔ حتیٰ کہ یا تو مجرم خود اپنے گناہ کا اقرار کرلے یا پھر اس کے خلاف گواہیوں کی بنا پر الزام پوری طرح ثابت ہوجائے اور ان کی سزا کے لئے اتمام حجت ہوجائے۔ اس آیت سے نیز اسی آیت کی تائید میں بعض احادیث سے شریعت کا ایک نہایت اہم مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ قاضی محض اپنے علم کی بنا پر کسی مقدمہ کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ کا انحصار گواہیوں پر ہونا ضروری ہے۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اور اسی عدل و انصاف کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ گواہیاں قائم کریں گے۔ بعض علماء نے اس مسئلہ میں اتنی لچک ضرور رکھی ہے کہ اس اصول کا اطلاق حدود و تعزیرات یعنی فوجداری مقدمات پر ہوتا ہے لین دین کے معاملات یا دیوانی مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے لیکن بعض آثار سے اس گنجائش کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ مالی مقدمات میں بھی قاضی اپنے علم کو فیصلہ تو دور کی بات ہے، ایک شہادت کے طور پر بھی استعمال میں نہ لائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ : ہر جان کو اس کے نیک یا بد عمل کا پورا بدلا دیا جائے گا، ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب عز و جل سے جو کچھ روایت کیا اس میں یہ بھی فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَ السَّیِّءَاتِ ، ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ فَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ، فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلٰی سَبْعِمِاءَۃِ ضِعْفٍ إِلٰی أَضْعَافٍ کَثِیْرَۃٍ ، وَ مَنْ ہَمَّ بِسَیِّءَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ، فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ سَیِّءَۃً وَاحِدَۃً ) [ بخاري، الرقاق، باب من ھم بحسنۃ أو بسیءۃ : ٦٤٩١ ] ” اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دیں، پھر ان کی وضاحت فرما دی، تو جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور عمل نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر وہ اس کا ارادہ کرے اور اسے کر بھی لے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس دس سے سات سو گنا بلکہ بہت گنا تک نیکیاں لکھ لیتا ہے اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا، پھر (اللہ کے خوف سے) اس پر عمل نہ کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اپنے پاس ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر اس نے اس کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کرلیا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے ایک برائی لکھ لیتا ہے۔ “ وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ : یعنی دنیا میں لوگ جو عمل کر رہے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، اسے کسی لکھنے والے یا حساب رکھنے والے یا گواہی پیش کرنے والے کی ضرورت نہیں، لیکن اعمال نامہ اس لیے رکھا جائے گا اور پیغمبروں اور گواہوں کو اس لیے لایا جائے گا کہ لوگوں پر حجت تمام ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَاَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ۝ ٧٠ۧ وُفِّيَتْ وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ اسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة/ 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] اور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ایک شخص کو خواہ نیک ہو یا بد اس کے اعمال کا خواہ نیکیاں ہوں یا برائیاں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ سب کاموں کو خوب جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ { وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ } ” اور پورا پورا دے دیا جائے گا ہر جان کو جو کچھ کہ اس نے عمل کیا ہوگا ‘ اور اللہ خوب جانتا ہے جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں۔ “ اس موضوع سے متعلق قرآن کے مختلف مقامات پر جو اشارے ملتے ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میدانِ حشر اسی زمین پر ہوگا۔ اس کے لیے زمین کو کھینچ کر پھیلا دیا جائے گا ‘ جیسا کہ سورة الانشقاق کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے : { وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ }۔ پھر اسے بالکل ہموار اور چٹیل میدان کی شکل دے دی جائے گی ‘ اس طرح کہ : { لَا تَرٰی فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا } (طٰہٰ ) ” تم نہیں دیکھو گے اس میں کوئی ٹیڑھ اور نہ کوئی ٹیلا “۔ پھر یہیں پر اللہ تعالیٰ کا نزول ہوگا اور یہیں پر فرشتے اتریں گے : { وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا } (الفجر) اور یہیں پر حساب کتاب ہوگا۔ گویا قصہ زمین برسرزمین چکایا جائے گا۔ فیصلوں کے بعد اہل جنت کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور اہل ِجہنم کو جہنم کی طرف۔ یہ میدانِ حشر کا آخری منظر ہوگا جس کا نقشہ اگلے رکوع میں بڑے ُ پر جلال انداز میں کھینچا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن کا خاص مقام ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:70) وقیت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب توفیۃ (تفعیل) مصدر۔ پورا پورا دیا جائے گا۔ (ماضی بمعنی مستقبل) الوافی مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے اوفیت الکیل والوزن۔ میں نے باپ یا تولکو پورا پورا دیا۔ یا جیسے قرآن مجید میں ہے واوفوا الکیل اذا کلتم (17:35) اور جب (کوئی چیز) ماپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھر کر دو ۔ وھو اعلم : میں ھو ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی دنیا میں لوگ جو عمل کر رہے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ اسے کسی لکھنے والے یا حساب رکھنے والے یا گواہی پیش کرنے والے کی ضرورت نہیں لیکن اعمال نامہ اس لئے رکھا جائے گا اور پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گواہوں کو اس لئے لایا جائے گا کہ لوگوں پر حجت تمام ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اعمال نیک میں بدلہ کے پورا ہونے سے مقصود نفی کمی کی ہے، اور اعمال بد میں بدلہ کے پورا ہونے سے مقصود زیادتی کی نفی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں کسی کو کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، نہ کوئی آواز اٹھانے کی یہاں کوئی ضرورت ہے۔ چناچہ پوری انسانیت کا حساب و کتاب بڑی خاموشی کے ساتھ لپیٹ لیا جاتا ہے اور اجمال کے ساتھ جبکہ دوسرے مناظر میں تفصیلات دی گئی ہیں ، کیونکہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس دن اللہ کا رعب اور خوف چھایا ہوا ہوگا۔ اور اللہ کے جلال کے سامنے کسی کو دم مارنے کی سکت نہ ہوگی

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ ) (اور ہر جان کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا) (وَھُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ) (اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں) یعنی اسے سب کے اعمال معلوم ہیں وہ اپنی حکمت کے مطابق جزا و سزا دے گا، یہ جو فرمایا کہ ہر شخص کو پورا بدلہ دیا جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے بدلے میں کمی نہ ہوگی البتہ نیکیوں میں اضافہ کرکے ثواب میں اضافہ کردیا جائے گا جیسا کہ (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا) میں بیان فرمایا ہے اور برے اعمال کا پورا بدلہ دینے کا یہ مطلب ہے کہ جس قدر برے عمل ہوں گے ان کے بقدر عذاب دیا جائے گا اور ان کی جزائے موعود میں اضافہ نہ کیا جائے گا جس کو (وَمَنْ جَآء بالسَّیِّءَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا) اور (وَجَزٰٓؤُا سَیِّءَۃٍ سَیِّءَۃٌ مِّثْلُھَا) میں بیان فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ ” ووفیت الخ “ ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری پوری جزاء و سزا دی جائے گی۔ اور کسی شخص کا کوئی عمل نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے تمام اعمال کا پورا پورا علم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(70) اور ہر شخص کو جو کچھ اس نے کیا ہے اس کے کئے ہوئے کاموں کا پورا پورا بدلے ملے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے ان کاموں کو خوب جانتا ہے جو وہ کرتے رہتے ہیں۔ یعنی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی آگے فیصلے کے بعد نتائج مذکور ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی گواہ آتے ہیں ان کے الزام کو نہیں تو اللہ پر کیا چھپا ہے۔