Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 1

سورة النساء

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾

O mankind, fear your Lord, who created you from one soul and created from it its mate and dispersed from both of them many men and women. And fear Allah , through whom you ask one another, and the wombs. Indeed Allah is ever, over you, an Observer.

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالٰی تم پر نگہبان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to have Taqwa, a Reminder about Creation, and Being Kind to Relatives Allah says; يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ... O mankind! Have Taqwa of your Lord, Who created you from a single person, Allah commands His creatures to have Taqwa of Him by worshipping Him Alone without partners. He also reminds to them of His ability, in that He created them all from a single person, Adam, peace be unto him. ... وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ... And from him He created his wife, Hawwa' (Eve), who was created from Adam's left rib, from his back while he was sleeping. When Adam woke up and saw Hawwa', he liked her and had affection for her, and she felt the same toward him. An authentic Hadith states, إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْنِضلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَهُ فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ وَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَج Woman was created from a rib. Verily, the most curved portion of the rib is its upper part, so, if you should try to straighten it, you will break it, but if you leave it as it is, it will remain crooked. Allah's statement, ... وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء ... And from them both He created many men and women; means, Allah created from Adam and Hawwa' many men and women and distributed them throughout the world in various shapes, characteristics, colors and languages. In the end, their gathering and return will be to Allah. Allah then said, ... وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالاَرْحَامَ ... And have Taqwa of Allah through Whom you demand your mutual (rights) and revere the wombs, protect yourself from Allah by your acts of obedience to Him. Allah's statement, الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ (through Whom you demand your mutual (rights)), According to Ibrahim, Mujahid and Al-Hasan, is in reference to when some people say, "I ask you by Allah, and then by the relation of the Rahim (the womb, i.e. my relationship to you)." Ad-Dahhak said; "Fear Allah Whom you invoke when you conduct transactions and contracts." Ibn Abbas, Ikrimah, Mujahid, Al-Hasan, Ad-Dahhak, Ar-Rabi, and others have stated, "And revere the womb by not cutting the relations of the womb, but keep and honor them. Allah's statement, ... إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا Surely, Allah is always watching over you. means, He watches all your deeds and sees your every circumstance. In another Ayah, Allah said; وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ And Allah is Witness over all things. (58:6) An authentic Hadith states, اعْبُدِاللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاك Worship Allah as if you see Him, for even though you cannot see Him, He sees you. This part of the Ayah encourages having a sense of certainty that Allah is always watching, in a complete and perfect manner. Allah mentioned that He has created mankind from a single father and a single mother, so that they feel compassion for each other and are kind to the weaker among them. In his Sahih, Muslim recorded that Jarir bin Abdullah Al-Bajali said that; a delegation from Mudar came to the Messenger of Allah, and he saw their state, wearing striped woolen clothes due to poverty. After the Zuhr prayer, the Messenger of Allah stood up and gave a speech in which he recited, يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (O mankind! Have Taqwa of your Lord, Who created you from a single person), until the end of the Ayah. He also recited, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (O you who believe! Have Taqwa of Allah. And let every person look to what he has sent forth for the tomorrow). (59:18) He also encouraged them to give charity, saying, تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِه A man gave Sadaqah from his Dinar, from his Dirham, from his Sa` of wheat, from his Sa` of dates... until the end of the Hadith. This narration was also collected by Ahmad and the Sunan compilers from Ibn Mas`ud.

محبت و مودت کا آفاقی اصول اللہ تعالیٰ اپنے تقوے کا حکم دیتا ہے کہ جسم سے اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے ، پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے ، ان کی بیوی یعنی حضرت حوا علیہما السلام کو بھی انہی سے پیدا کیا ، آپ سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حضرت حوا کو پیدا کیا ، آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے انس پیدا ہوا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لئے اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لئے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے ۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے رکھو ، صحیح حدیث میں ہے عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ پھر فرمایا ان دونوں سے یعنی آدم اور حوا سے بہت سے انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیلا دیئے جن کی قسمیں صفتیں رنگ روپ بول چال میں بہت کچھ اختلاف ہے ، جس طرح یہ سب پہلے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں تھے اور پھر انہیں اس نے ادھر ادھر پھیلا دیا ، ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے قبضے میں کر کے ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت عبادت بجا لاتے رہو ، اسی اللہ کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو ، مثلاً یہ کہ ان میں تجھے اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو ، اللہ جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ رحمی نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو ارحام بھی ایک قرأت میں ہے یعنی اللہ کے نام پر اور رشتے کے واسطے سے ، اللہ تمہارے تمام احوال اور اعمال سے واقف ہے خوب دیکھ بھال رہا ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( واللہ علی کلی شئی شہید ) اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے ، صحیح حدیث میں ہے اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے ہر اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر نگراں ہے ، یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے پر شفقت کیا کرو ، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، صحیح مسلم شریف کی ہو حدیث میں ہے کہ جب قبیلہ مضر کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ظہر کے بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) 59 ۔ الحشر:18 ) کی تلاوت کی پھر لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی چنانچہ جس سے جو ہو سکا ان لوگوں کے لئے دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی یہ حدیث ، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے بیان میں ہے پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے ایک آیت یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 ' ایک جان ' سے مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور خَلَقَ مِنْہَا وَ زَوْجَھَا میں مِنْھَا سے وہی ' جان ' یعنی آدم (علیہ السلام) مراد ہیں اور آدم (علیہ السلام) سے ان کی زوجہ (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (علیہ السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں ؟ اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رض) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد ( یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو توڑ بیٹھے گا اگر تو اس سے فائدہ آٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) سے منقول رائے کی تائید کی۔ قرآن کے الفاظ خلق منھا سے اسی مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی ہے جسے آدم کہا جاتا ہے۔ 1۔ 2 والارحام کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ مراد رشتہ داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناتوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] ایک جان سے مراد ابو البشر آدم ہیں۔ انہی سے آپ کی بیوی سیدہ حوا کو پیدا کیا گیا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :& میری وصیت مانو اور عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔ کیونکہ عورت کی خلقت پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی کے اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دو ۔ تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہذا میری وصیت مانو اور ان سے اچھا سلوک کرو & (بخاری : کتاب بدء الخلق، باب وإذ قال ربک للملائکۃ) [٢] اس سورة کا آغاز اس آیت سے غالباً اس لئے کیا جارہا ہے کہ اس سورة کا بیشتر حصہ عائلی اور معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سطح پر سب انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ لہذا ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے۔ [٣] صلہ رحمی کی تاکید اور فضیلت :۔ قریبی رشتہ داروں سے بہترین سلوک کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے اور ان تعلقات کو بگاڑنا، خراب کرنا یا توڑنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رحم، رحمن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے کہا & جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔ & (بخاری، کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ ) ٢۔ فراخی رزق کا نسخہ :۔ نیز آپ نے فرمایا :& جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے & (بخاری، کتاب الادب۔ باب من بسط لہ فی الرزق/مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب صلۃ الرحم) ٣۔ نیز آپ نے فرمایا & قطعی رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ & (بخاری، کتاب الادب۔ باب إثم القاطع مسلم کتاب البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا) ٤۔ نیز آپ نے فرمایا & جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا (اے اللہ) قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنے کا یہی موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں ! کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے ہی ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے توڑوں جو تجھے توڑے ؟ رحم نے کہا & ہاں اے میرے رب !& اللہ تعالیٰ نے فرمایا & تیری یہ بات منظور ہے۔ & آپ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو ( فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ 22؀) 47 ۔ محمد :22) ( سورة محمد، آیت : ٢٢) (بخاری و مسلم۔ حوالہ ایضاً ) ٥۔ آپ نے فرمایا & بدلہ کے طور پر رشتہ ملانے والا، رشتہ ملانے والا نہیں بلکہ رشتہ ملانے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے ملائے۔ & (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لیس الواصل بالمکافیئ) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا & میرے کچھ قریبی ہیں۔ میں ان سے رشتہ ملاتا ہوں اور وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں۔ میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔ & آپ نے فرمایا & اگر ایسی بات ہی ہے جو تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور جب تک تم اس حال پر قائم رہو گے ان کے مقابلہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مددگار رہے گا۔ & (مسلم، کتاب البرو الصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ٧۔ سیدہ اسماء کہتی ہیں کہ جس زمانہ میں آپ کی (قریش سے) صلح تھی۔ اس دوران میری ماں (میرے پاس) آئی اور وہ اسلام سے بےرغبت تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا کیا میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا & ہاں &! (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب صلۃ المراۃ أمھا ولھا زوج) ٨۔ سیدنا ابو ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا۔ & یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے ایسا عمل بتلائیے۔ جو مجھے جنت میں لے جائے۔ & آپ نے فرمایا & اللہ کی عبادت کرو اور اس میں ذرا بھی شرک نہ کرنا، نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔ & (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل صلۃ الرحم) ٩۔ آپ نے فرمایا : کوئی گناہ بغاوت اور قطع رحمی سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں کہ اللہ اسے دنیا میں بھی فوراً سزا دے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب بطور ذخیرہ رکھے۔ & (ترمذی۔ ابو اب صفۃ القیامۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ : یعنی پوری نوع انسانی آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ”(قیامت کے دن) لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے، اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( لقد أرسلنا ۔۔ ) : ٣٣٤٠، عن أبی ہریرہ (رض) ] ایک جان سے پیدا کرنے سے یہ توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ تم تمام انسان ایک شخص کی اولاد ہو، کوئی اور رشتہ داری نہ ہو تو یہ رشتہ داری کیا کم ہے، اس کا خیال ہی رکھو اور اپنے کمزوروں کی مدد کرتے رہو۔ 2 وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے، سو اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اس طرح فائدہ اٹھاؤ گے کہ اس میں برابر ٹیڑھا پن ہوگا۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ٣٣٣١، ٥١٨٤، عن أبی ہریرہ (رض) ] بعض روایات میں ہے : ( وَ کَسْرُہَا طَلاَقُہَا ) ” اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔ “ [ مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء : ٥٩؍٧١٥۔ بخاری : ٥١٨٤ ] قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ حواء[ آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ پسلی سے پیدا ہوئیں، اس کی کیفیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان نہیں کی۔ بعض لوگ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ عورت میں کچھ ٹیڑھا پن رہتا ہی ہے، اس لیے اسے پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے، مگر قرآن کے صریح الفاظ کہ آدم سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، ان کے ساتھ حدیث ملائیں تو اس کا پسلی سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہاں، اس کی کجی بھی اپنی جگہ درست ہے۔ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ : یعنی جس اللہ کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اس اللہ سے ڈرو۔ ” وَالْاَرْحَامَ “ اس کا عطف لفظ ” اللہ “ پر ہے، یعنی ” وَاتَّقُوا الْأَرْحَامَ “ کہ قطع رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی سے بچو۔ ” الْاَرْحَامَ ‘ کو میم کے کسرہ سے پڑھنا غلط ہے اور قواعد نحویہ کی رو سے بھی ٹھیک نہیں، ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے، یعنی جس رشتہ داری کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ (قرطبی) شوکانی (رض) فرماتے ہیں کہ تمام علمائے شریعت و لغت کا اتفاق ہے کہ ” الارحام “ سے محرم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے۔ دیکھیے سورة محمد (٢٢، ٢٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” رشتے داری کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ “ [ بخاری، الأدب، باب إثم القاطع : ٥٩٨٤، عن جبیر بن مطعم (رض) ] اور فرمایا : ” جو شخص چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کے نشان ( قدم) دیر تک رکھے جائیں وہ اپنی رشتے داری کو ملائے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب من بسط لہ فی الرزق۔۔ : ٥٩٨٣، عن أبی أیوب الأنصاری (رض) ] رَقِيْبًا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی عبادت کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ سو اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٥٠۔ مسلم : ٨، عن أبی ہریرۃ و عمر ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence _ _ The last verse of Surah &Al-` Imran was concluded with an exhorta¬tion to Taqwa, the fear of Allah. The present Surah begins with Taqwa in the mode of command. The previous Surah mentioned some battles, described the manner of treating antagonists, condemned misappro¬priation in battle spoils and took up several other matters. In the earlier part of the present Surah, there are injunctions about rights related to one&s own people which must be fulfilled while living and inter-acting with them, such as, the rights of orphans, relatives and wives (known as حقُوقُ العباد Huququl-` Ibad: the rights of the servants of Allah). But, there are some rights which are justiciable, that is, their fulfill¬ment can be enforced through law, like common transactions of buying and selling. The rights involved in lease, tenancy and wages can be settled through mutual agreements and arbitration; should a party fall short in fulfilling settled rights, these can be legally retrieved and enforced. But, the fulfillment of the rights of those in one&s own charge - children, parents, husband and wife, and orphans - and the rights of other relatives which fall on each other - all depend upon civilized behaviour, respect, loving and caring, and above all on that genuinely heartfelt desire to do what is good for them. These are behaviour patterns which cannot be weighed on a scale of things. That they be determined fully and perfectly through mutual agreements is also much too difficult. Therefore, there is just no other method of their fulfillment except having the fear of Allah and the fear of what would happen in the life to come. This is known as Taqwa and the truth of the matter is that this power of Taqwa is more effective than the combined powers of government and law. Hence, the Surah opens with the command of Taqwa when it says: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَ‌بَّكُمُ ( O men, fear your Lord). The word, اتَّقُوا &ittaqu& translated here as &fear& means &fear acting against your Lord& which perhaps is the reason why the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to recite this verse as part of his address while solemnizing a marriage. Therefore, reciting it in the Khutbah of Nikah is a perennial revival of the Sunnah. Here, the form of address in the verse is worth attention. It says: يَا أَيُّهَا النَّاسُ ( O men) which includes all human beings, men or women, and whether they are present at the time of the revelation of the Qur&an or shall continue to be born right through to the Day of Doom. Then, alongwith the command of &ittaqu& (fear) the word used is &Rabb& (Lord) which has been selected out of the most fair names of Allah. This is to point out that the fear of Allah so enjoined has a justification and wisdom of its own. The Being totally responsible for man&s nurture the manifestations of Whose Lord-worthiness he witnesses every moment of his life, certainly deserves all the awe one is capable of. The very thought that anyone could rise in antagonism and defiance against Allah is terribly dangerous. Immediately after the text brings into focus the most exalted majesty of the Lord by saying that He created human beings, all of them, in His wisdom and mercy. Here it was quite possible to create and cause to be present, whatever it was to be, in more than one way. But, He chose to have one way and one form, a very particular one, when he created all human beings from the one and only human being, that is, Sayyidna Adam (علیہ السلام) ، and thus it was that He tied all of them in a strong bond of brotherhood. So, it is not only the fear of Allah and the fear of Akhirah (Hereafter) which demand man&s alle-giance to the Lord of all creation, but this bond of brotherhood between human beings also requires that rights of humanity - of mutual sympathy, wellbeing and collective good - be fully discharged. And between man and man, let there be no one high or low in race or caste, in colour or language, and that all such distinctions be never made the criterion of good or bad, nobility or meanness. Therefore, it was said: الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِ‌جَالًا كَثِيرً‌ا وَنِسَاءً meaning &who has created you from a single soul (that is, Sayyidna Adam (علیہ السلام) who is the father of all human beings), and from it created its match (that is, his wife, Hawwa& (Eve), and spread from the two, many men and women (in the world) &. In short, this verse serves as an introduction to injunctions which are going to appear in this Surah. The purpose here is to dissuade human beings from becoming the usurpers of Divine rights, while at the same time, by telling them that they all are the children of the same father, the wonderful humane dimension of love, mutual sympathy and concern was given as the working hypothesis of common living, so that the mutual rights of relatives, orphans and married couples could be fulfilled right from the heart at the very grass-root level. Towards the end of verse 1, the exhortation to fear Allah has been beamed at man from yet another angle. Isn’ t it that man demands his rights from others in the name of Allah and exacts what he wants from them? It means that one who expects others to fear Allah should do that himself as well. The last word, وَالْأَرْ‌حَامَ wal-arham, is there to warn that any shortcoming in taking good care of near relations, whether from the side of one&s father or mother, should be avoided. The second verse emphasizes the rights of orphaned children and establishes rules to protect their property. The commentary which follows takes up the last two aspects of near relations and orphans in some detail. Commentary Treating Near Relations Well: The word, الْأَرْ‌حَامَ &al-arham& in verse 1 is the plural of رحم rahm. Rahm رحم is womb. The womb of the mother is the home of the child until born. Since this womb is the source of blood relationship, the act of main¬taining relations in that line is called ilatur-rahm in Arabic (literally, umbilical link or bond or relationship). The converse of it, that is, showing carelessness and indifference towards natural linkage based on blood relationship is identified as قتل الرحم qat`-al-rahm (literally, umbilical delinkage, meaning cutting off relationship with one&s kin). The noble ahadith have laid great emphasis on bonds of kinship. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: من احَبَّ ان یبسط لہ فی رزقہ و ینسا لہ فی اثرہ فلیصل رحمۃ Whoever likes to have his livelihood made plentiful and his age extended for him should maintain good relations with his near of kin. (Mishkat, p. 419) This hadith tells us about two benefits that issue forth from treating near relations well. The merit of the Hereafter vouchsafed, this fair treatment of one&s kin has its benefits in this life as well, that is, it removes straightening from his livelihood and blesses his age with more good years. Sayyidna ` Abdullah ibn Salam (رض) says: When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came to Madinah al-Tayyibah and I presented myself before him, the very first words from him which fell into my ears were: یا ایھا الناس افشوا السلام ط واطعموا الطعام و صلوا الارحام، وصلوا باللیل والناس ینام ، تدخلوا الجنۃ بالسلام O men, make a practice of greeting each other with salam, and feed people (for the pleasure of Allah), and treat near rela¬tions well, and pray by night while people sleep - you will enter Paradise in peace. (Mishkat, p. 108) In another hadith, it has been reported that اَمُّ المؤمنین Ummul-Mu&minin (the Mother of the Faithful) Sayyidah Maymuna (رض) had freed her bond woman. When she told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about it, he said: لو اعطیتھا اخوالک کان اعظم لاجرک Had you given her to your maternal uncle, your reward would have been greater. (Mishkat, p. 171) Although, Islam motivates people to free slaves and rates it as one of the finest acts of merit, yet the status of treating relatives fairly has been given more importance. There is another narration on the same subject in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: الصدقۃ علی المسکین صدقۃ وھی علی ذی الرحم ثنتان ط صدقۃ وصلۃ Charity to the needy is just charity, while to a near relative it becomes twofold: charity and kinship. (Mishkat, p. 171) Hence, a simple change in the end-use of charity yields two types of merits. As opposed to this there is the attitude of cold-shouldering or severing of blood relationships. How stern are the warnings given in hadith reports against this can be imagined from the following two ahadith: The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: 1۔ لا یدخل الجنۃ قاطع 1. A breaker of (blood) relationships shall not enter Paradise. (Mishkat, p 419) 2- لا تنزل الرحمۃ علی قوم فیہ قاطع رحم 2. Mercy shall not descend upon a people among whom there is a breaker of (blood) relationships. (Mishkat, p. 420) The statement in the last sentence of this verse: إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَ‌قِيبًا (and surely, Allah is watchful over you) motivates human hearts to fulfill rights as and when they are due because Divine watchfulness implies awareness of whatever there is in human hearts - intentions, scruples, motives - everything. Doing things halfheartedly, formally, or for fear of possible embarrassment, without any genuine desire to serve, shall remain acts unacceptable to Allah. Incidentally, from here we find out why Allah should be feared - because He is watchful over everyone, always. As pointed out elsewhere too, this is typical of the usual style of the Holy Qura&n when it does not introduce laws in sheer cold print like the laws of the governments of this world, but puts them forth in the manner of education, training and affection by not restricting itself to the word of law alone, but by combining it with the grooming of minds and hearts as well.

ربط آیات و سورت سورة آل عمران کی آخری آیت تقوی پر ختم ہوئی ہے اور یہ سورت بھی حکم تقوی سے شروع ہو رہی ہے، پہلی سورت میں بعض غزوات اور مخالفین کے ساتھ برتاؤ کرنے اور غزوات کے سلسلہ میں مال غنیمت حاصل ہونے پر خیانت کی مذمت اور بعض دیگر امور کا ذکر تھا، اس سورت کے شروع میں اپنوں سے میل جول یعنی حقوق العباد سے متعلق احکام ہیں، مثلاً یتیموں کے حقوق، رشتہ داروں اور بیویوں کے حقوق وغیرہ، لیکن حقوق کچھ تو ایسے ہیں جو قانون انضباط میں آسکتے ہیں اور ان کی ادائیگی بزور قانون کرائی جاسکتی ہے، جیسے عام معاملات بیع و شراء اجارہ و مزدوری کے ذریعہ پیدا ہونے والے حقوق، جو باہمی معاہدات اور صلح کے ذریعہ طے ہو سکتے ہیں، اگر کوئی فریق مقررہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو بزور حکومت بھی دلوائے جاسکتے ہیں، لیکن اولاد، والدین، شوہر اور بیویو یتیم بچے جو اپنی تحویل میں ہوں اور دوسرے رشتہ داران کے باہمی حقوق جو ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں، ان کی ادائیگی کا مدار، ادب، احترام، دلداری، ہمدردی اور قلبی خیر خواہی پر ہے، اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی کانٹے میں تولی نہیں جا سکتیں، اور معاہدات کے ذریعہ بھی ان کی پوری تعیین مشکل ہے، لہٰذا ان کی ادائیگی کے لئے بجز خوف خدا اور خوف آخرت کے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں، جس کو تقوی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حقیقت میں یہ تقوی کی طاقت حکومت اور قانون کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے، اس لئے اس سورت کو امر بالتقوی سے شروع فرمایا اور ارشاد ہوا : یایھا الناس القواربکم، یعنی ” اے لوگو ! اپنے رب کی مخالفت سے ڈرو “ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کو خطبہ نکاح میں پڑھا کرتے تھے اور خطبہ نکاح میں اس کا پڑھنا مسنون ہے، اس میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ خطاب یایھا الناس کے ذریعہ فرمایا گیا ہے جس میں تمام انسان شامل ہیں، مرد ہوں یا عورتیں اور نزول قرآن کے وقت موجود ہوں یا آئندہ قیامت تک پیدا ہوں، پھر حکم اتقوا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے لفظ رب کو اختیار کیا گیا جس میں امر تقوی کی علت اور حکمت کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جو ذات تمہاری پرورش کی کفیل ہے اور جس کی شان ربوبیت کے مظاہر انسان اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں مشاہدہ کرتا رہتا ہے، اس کی مخالفت اور سرکشی کس قدر خطرناک ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی رب تعالیٰ کی ایک خاص شان کا ذکر فرمایا کہ اس نے اپنی حکمت و رحمت سے تم سب کو پیدا کیا، پھر پیدا کرنے اور موجود کرنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی تھیں، ان میں سے ایک خاص صورت کو اختیار فرمایا کہ سب انسانوں کو ایک ہی انسان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا کر کے سب کو اخوة و برادری کے ایک مضبوط رشتہ میں باندھ دیا، علاوہ خوف خدا و آخرت کے اس رشتہ اخوة کا بھی یہی تقاضیٰ ہے کہ باہمی ہمدردی و خیر خواہی کے حقوق پورے ادا کئے جائیں اور انسان انسان میں ذات پات کی اونچ نیچ، نسلی اور لونی یا لسانی امتیازات کو شرافت و رذالت کا معیار نہ بنایا جائے، اس لئے فرمایا : الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھاز وجھاوبت منھما رجالا کثیراً ونسآء یعنی ” اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے، آدم سے اس طرح پیدا فرمایا کہ پہلے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا، پھر اس جوڑے کے ذریعہ بہت سے مرد اور عورتیں پیدا فرمائیں۔ “ غرض یہ پوری آیت ان احکام کی تمہید ہے جو آگے اس سورت میں آنے والے ہیں اس تمہید میں ایک طرف تو پروردگار عالم کے حقوق سامنے رکھ کر اس کی مخالفت سے روکا گیا، دوسری طرف تمام افراد انسانی کو ایک باپ کی اولاد بتلا کر ان میں محبت اور باہمی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات کو بیدار کیا گیا، تاکہ اہل قرابت و یتیموں اور زوجین کے درمیان باہمی حقوق کی ادائیگی دل سے ہو سکے۔ اس کے بعد پھر اتقوا اللہ کا دوبارہ اعلان کیا ایک خاص عنوان سے فرمایا : واتقوا اللہ الذین تسآءلون بہ والارحام، یعنی ” اللہ تعالیٰ سے ڈر، جس کے نام پر تم دسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور جس کی قسمیں دے کر دوسروں سے اپنا مطلب نکالتے ہو۔ “ آخر میں فرمایا : والارحام، یعنی قرابت کے تعلقات خواہ باپ کی طرف سے ہوں خواہ ماں کی طرف سے، ان کی نگہداشت اور ادائیگی میں کوتاہی کرنے سے بچو۔ دوسری آیت میں یتیم بچوں کے حقوق کی تاکید اور ان کے اموال کی حفاظت کے احکام ہیں، مختصر تفسیر ان دونوں آیتوں کی یہ ہے : خلاصہ تفسیر اے لوگو ! اپنے پروردگار (کی مخالفت سے) ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار (یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا، (کیونکہ سب آدمیوں کی اصل وہی ہیں) اور اس (ہی) جاندار سے اس کا جوڑا (یعنی ان کی زوجہ حواء کو) پیدا کیا اور (پھر) ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلائیں اور (تم سے مکرر تاکید کے لئے کہا جاتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے (اپنے حقوق کا) مطالبہ کیا کرتے ہو (جس مطالبہ کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ خدا سے ڈر کر میرا حق دیدے، سو جب دوسروں کو خدا کی مخالفت سے ڈرنے کو کہتے ہو، تو معلوم ہوا کہ تم اس ڈرنے کو ضروری سمجھتے ہو تو تم بھی ڈرو) اور (اول تو تمام احکام الہیہ میں مخالفت سے بچنا اور ڈرنا ضرور ہے، لیکن اس مقام پر ایک حکم خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے) کہ قرابت (کے حقوق ضائع کرنے) سے بھی ڈرو، بالیقین اللہ تعالیٰ تم سب (کے حالات کی اطلاع رکھتے ہیں (اگر مخالفت کرو گے مستحق سزا ہو گے) اور جن بچوں کا باپ مر جائے ان کے (مملوک) مال انہی کو پہنچاتے رہو (یعنی انہی کے خرچ میں لگاتے رہو) اور (جب تک تمہارے قبضہ میں ہو) تم (ان کے مال میں شامل کرنے کے لئے ان کی) اچھی چیز سے بری چیز کو مت بدلو (یعنی ایسا مت کرو کہ ان کی اچھی چیز تو نکال لی جاوے اور بری چیز ان کے مال میں ملا دی جاوے) اور ان کے مال مت کھاؤ اپنے مالوں ( کے رہنے) تک (البتہ جب تمہارے پاس کچھ نہ رہے تو بقدر حق الخدمت اپنے گذارہ کے لئے ان کے مال سے لینا درست ہے جیس آآگے آوے گا، ومن کان فقراً ) ایسی کارروائی کرنا (کہ بری چیز ان کے مال میں شامل کردی یا بلا ضرورت انکے مال سے منقطع ہوا) بڑا گناہ ہے (جس کی وعید آگے آئیگی ان الذین یا کلون اموال الیتامی الخ) معارف و مسائل یہ پہلا حکم ہے جو تمہید کے بعد ارشاد فرمایا گیا اور تمام تعلقات قرابت کی نگہداشت پر حاوی اور شامل ہے۔ صلہ رحمی کے معنی اور اس کے فضائل :۔ لفظ ارحام، رحم کی جمع ہے، رحم بچہ دانی کو کہتے ہیں، جس میں ولادت سے پہلے ماں کے پیٹ میں بچہ رہتا ہے، چونکہ ذریعہ قرابت یہ رحم ہی ہے، اس لئے اس سلسلے کے تعقلات وابستہ رکھنے کو صلہ رحمی اور رشتہ داری کی بنیاد پر جو فطری طور پر تعلقات پید ہوگئے، ان کی طرف سے بےتوجہی و بےالتفاتی برتنے کو قطع رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ احادیث شریفہ میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے، چناچہ ارشاد نبوی ہے۔ ” یعنی جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی پیدا ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ “ اس حدیث سے صلحہ رحمی کے دو بڑے اہم فائدے معلوم ہوگئے کہ آخرت کا ثواب تو ہے ہی، دنیا میں بھی صلہ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ رزق کی تنگی دور ہوتی ہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔ عبداللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں میں پڑے یہ تھے آپ نے فرمایا : ” لوگو : ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو، اللہ کی رضا جوئی کے لئے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور ایسے وقت میں نماز کی طرف سبقت کیا کرو۔ جبکہ عام لوگ نیند کے مزے میں ہوں، یاد رکھو ! ان امور پر عمل کر کے تم حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاؤ گے۔ “ ایک اور حدیث میں ذکر ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ (رض) نے اپنی ایک باندی کو آزاد کردیا تھا، جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : ” اگر تم اپنے ماموں کو دیدیتیں تو زیادہ ثواب ہوتا۔ “ اسلام میں غلام باندی کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب ہے اور اسے بہترین کار ثواب قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود صلہ رحمی کا مرتبہ اس سے بہرحال اعلی ہے۔ اسی مضمون کی ایک اور روایت ہے، آپ نے فرمایا : ” یعنی کسی محتاج کی مدد کرنا صرف صدقہ ہی ہے اور اپنے کسی عزیز قریب کی مدد کرنا دو امروں پر مشتمل ہے، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔ “ صرف مصرف کے تبدیل کرنے سے دو طرح کا ثواب مل جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں قطع رحمی کے حق میں جو شدید ترین وعیدیں روایات حدیث میں مذکور ہیں اس کا اندازہ دو حدیثوں سے بخوبی ہوسکتا ہے، آپ کا ارشاد ہے : ” جو آدمی حقوق قرابت کی رعایت نہیں کرتا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ “ ” اس قوم پر اللہ کی رحمت نہیں اترے گی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا موجود ہو۔ “ اخیر میں پھر دلوں میں ادا حقوق کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے فرمایا : ان اللہ کان علیکم رقیباً یعنی ” اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے جو تمہارے دلوں اور ارادوں سے باخبر ہے۔ “ اگر رسمی طور پر شرما شرمی، بےدلی سے کوئی کام بھی کردیا مگر دل میں جذبہ ایثار و خدمت نہ ہوا تو قابل قبول نہیں ہے، اس سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ وہ سب پر ہمیشہ نگران ہے، قرآن کریم کا یہ عام اسلوب ہے کہ قانون کو محض دنیا کی حکومتوں کے قانون کی طرح بیان نہیں کرتا، بلکہ تربیت و شفقت کے انداز میں بیان کرتا ہے، قانون کے بیان کے ساتھ ساتھ ذہنوں اور دلوں کی تربیت بھی کرتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝ ٠ ۚ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۝ ١ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ بث أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ، وقوله عزّ وجل : وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة/ 164] إشارة إلى إيجاده تعالیٰ ما لم يكن موجودا وإظهاره إياه . وقوله عزّ وجلّ : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة/ 4] أي : المهيّج بعد رکونه وخفائه . وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل . ( ب ث ث) البث البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة/ 164] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانوروں کو پیدا کیا اور ان کو ظہور بخشا اور آیت : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة/ 4] میں المبثوث سے مراد وہ پر وانے ہیں جو مخفی اور پر سکون جگہوں میں بیٹھے ہوں اور ان کو پریشان کردیا گیا ہو ۔ اور آیت نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدر بمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے جیسا کہ توذعنی الفکر کا محاورہ ہے یعنی مجھے فکر نے پریشان کردیا ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ رحم ( المراۃ) الرَّحِمُ : رَحِمُ المرأة، وامرأة رَحُومٌ تشتکي رحمها . ومنه استعیر الرَّحِمُ للقرابة، لکونهم خارجین من رحم واحدة ( ر ح م ) الرحم ۔ عورت کا رحم ۔ اور رحوم اس عورت کو کہتے ہیں جسے خرابی رحم کی بیماری ہو اور استعارہ کے طور پر رحم کا لفظ قرابت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ تمام اقرباء ایک ہی رحم سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اس میں رحم و رحم دولغت ہیں رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) رقب الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ : أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . ( ر ق ب ) الرقبۃ اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة/ 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سورة النساء رشتوں کا احترام ضروری ہے قول باری ہے (واتقواللہ الذی تساء لون بہ والارحام۔ اس خدا سے ڈروجس واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور راستہ و قرابت کے تعلقات ہورکاڑنے سے پرہیزکرو) حسن، عابد اورابراہیم کا قول ہے کہ آیت کا وہی مفہوم ہے جو اس قول کا ہے، اسالک باللہ وبالرحیم (میں تجھ سے اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں) ابن عباس (رض) ۔ قتادہ، سدی اور ضحاک کا قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے ، رشتہ و قرابت کے تعلقات کو ٹوڑنے اور بگاڑنے سے پرہیزکرو آیت میں اللہ کے نام پر اور اس کا واسطہ دے کر سوال کرنے کے جواز پر دلالت موجود ہے۔ لبیث نے مجاہد سے انھوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من سال باللہ فاعصوہ، جو شخص اللہ کا واسطہ دے کر اور اس کا نام لے کر سوال کرے اس کا سوال پوراکردیاکرو) معاویہ بن سوید روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا، ان میں سے ایک بات قسم کا پوراکرنا بھی تھی۔ اس روایت کی بھی اسی مفہوم پر دلالت ہورہی ہے جس پر سابقہ روایت دلالت کرتی ہے۔ قول باری (والارحام) میں رشتہ داری کی عظمت اور اہمیت بیان کی گئی ہے نیز اسے بگاڑنے یاتوڑنے کی مانعت کی تاکید بھی ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا (فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوافی الارض وتقطعوا ارحامکم، اگر تم وگردانی کروگے تو اس کے بعد عین ممکن ہے کہ زمین میں فساد برپا کرتے پھرو اور رشتہ دری کے تعلقات کو بگاڑ تے چلے جاؤ) اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض کے ساتھ قطع رحمی کو مقرون کرکے اس جرم کی سنگینی کو واضح کردیا ہے۔ قول باری ہے (لایرقبون فی مومن الاؤالاذمۃ کسی مومن کے بارے میں نہ یہ لوگ کسی قرابت داری کا پ اس کرتے ہیں اور نہ قول وقرارکا) لفظ، الا کے متعلق قول ہے کہ اس سے مراد قرابت داری ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (وبالوالدین احسانا وبذی القربی والیتاما والمساکین والجارذی القربی۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاذکرو، قرابت داروں اور یتیمیوں اور مسکینوں اور پڑوسی رشتہ دار سے حسن سلوک کرو) رشتہ داری کی حرمت کی عظمت کے بیان میں قرآن مجید کی تائید میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی روایات منقول ہیں۔ سفیان بن عینیہ نے زہری سے۔ انھوں نے ابومسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (یقول اللہ اناالرحمن وھی الرحم شققت لھا من اسمی فمن وصھا وصلتہ من قطعھا بتتہ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ہیہ انام رحمن ہے اور رشتہ داری کا نام رحم ہے، میں نے اپنے نام سے اس کا نام نکالا ہے اس لیے جو شخص رشتہ داری کا پ اس کرے گا، میں بھی اس کا پ اس کروں گا اور جو شخص رحمی کرے گا میں کلبی اس سے قطع تعلق کروں گا) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انھیں بشربن موسیٰ نے، انھیں ان کے ماموں حیان بن بشرنے، انھیں محمد بن الحسن نے امام ابوحنفیہ سے، انھیں ناصح نے یحییٰ بن کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریر (رض) ہ سے، انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے ذمایا مامن شئی اطیع اللہ فیہ اعجل ثوابا من صلۃ الرحم ومامن عمل عصی اللہ بہ اعجل عقیبۃ من البغی والیمین الضاجرۃ۔ اللہ کی اطاعت میں کوئی عمل صلہ رحمی سے بڑھ کر نہیں ہے جس کی جزاجلداز جلدمل جاتی ہو اور اللہ کی نافرمانی میں بغاوت اور جھوٹی قسم سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں جس کی سزاکم سے کم وقت میں مل جاتی ہو) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انھیں بشربن موسیٰ نے، انھیں خالدبن خداش نے، انھیں صالح المری نے، انھیں یزید رقاشی نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان الصلہ قدوصلۃ الرحم یزید اللہ بھما فی العمرویدفع بھما میتۃ السوء ویدفع اللہ بھما المحذوروالمکروہ، عذفہ خیرات اور صلہ رحمی کے ذریعے اللہ تعالیٰ عمہ میں برکت دیتا ہے اور بری موت کا خطرہ رورکردیتا ہے۔ نیزڈروالی بات اور تکلیف میں مبتلا کرنے والی ناپسندیدہ چیزکو بھی ہٹادیتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی سے روایت بیان کی انھیں بشربن موسیٰ انھیں حمیدی نے انھیں سفیان نے زہری سے انھوں نے حمیدبن عبدالرحمن بن عوف سے انھوں نے اپنی ماں ام کلثوم نبت عقبہ سے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا (افصل الصدقۃ علی ذی الرحم الکاشح، بہترین صدقہ وہ ہے جو دشمنی رکھنے والے رشتردارپرکیاجائے) حمیدی نے الکاشخ کے معنی دشمن کے بیان کیے۔ اسی روایت کو سفیان نے زبہ ی سے، انھوں نے ایوب بن بشیہ سے، انھوں نے حکیم بن حزام سے اور انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا (افصل الصدقۃ علی ذی الرحم الکاشح حفصہ نبت سیرین نے رباب سے، انھوں نے سلمیان بن عامر سے ، انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رہ ایت کی ہے آپ نے فرمایا (الصدقۃ علی المسلمین صدقۃ وعلی دی الرحم اثنتان لانھا صدقہ وصلۃ مسلمانوں پر صدقہ کرنا صرف ایک صدقے کے ثواب کا ھامل ہوتا ہے اور رشتہ دارپرصدقہ کرنا دوصدقوں کے ثواب کا سمامل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دوسری صورت صدقہ اور صلہ رحمی کی دونیکیوں پر مشتمل ہوتی ہے) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ کتاب وسنت کی دلالت کی روشنی میں صلہ رحمی کا وجوب اور اس پر ثواب کا استحقاق ثابت ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشتہ دارپرصدقے کو صدقہ اور صلہ رحمی کی دونیکیاں قراردیں اور یہ تباز یا کہ صدقہ کے ثواب کے استحقاق کے ساتھ ساتھ ایسا شخص صلہ رحمی کی بناپر بھی ثواب کا مستحق ہوگا۔ اس سے ایک اور مسئلے پر دلالت ہوگئی کہ محرم رشتہ دارکو کوئی چیزہبہ کرنے کے بعد نہ اس میں رجوع درست ہوتا ہے اور نہ فسخ ہی خواہ ہبہ کرنے والا باپ ہویا کوئی اور۔ کیونکہ ایساہبہ اس حیثیت سے صدقہ کی طرح ہوگیا کہ اس میں اللہ کی خوشنودی اور ثواب کا استحقاق مطلوب ہوتا ہے جس طرح کہ صدقے کا مقصد بھی قرب الٰہی اور ثوا ب کا استحقاق ہوتا ہے جس کی بناپر اس میں رجوع کرلینا درت نہیں ہوتا۔ یہی حیثیت محرم رشتہ دارکوصدقہ کرنے کی ہوئی ہے۔ اس دلالت کی بناپرباپ کے لیے اپنے بیٹے کو کیے ہوٹے ہبہ میں رجوع کرنا درست ہے جس طرح کہ بیٹے کے علاوہ کسی اور محرم رشتہ دارکوکیے ہوئے ہبہ میں رجوع کرنا درست نہیں کیونکہ اس کی حیثیت صدقہ صبیسی ہوتی ہے۔ البتہ اگر باپ ضرورتمند ہو تو ایسی صورت میں ہبہ کی ہوئی چیز بیٹے سے واپس لے لینا اسی طرح درست ہے جس طرح بیٹے کی اور دوسری چیزیں لے لینا درست ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ کتاب وسنت میں صلہ رحمی کے وجوب کے سلسلے میں محرم رشتہ دار اور غیرمحرم رشتہ دار کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اس بناپریہ واجب ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو خواہ وہ محرم نہ ہوں مثلا چچازادبھائی یا دور کے رشتہ دار وغیرہ کو ہبہ کی ہوئی چیز میں رجوع کرنے کی حمانعت ہو۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس معاملے میں اکرہم دو شخصوں کے درمیان صرف نسبی تعلق کا اعتبار کریں تو پھر کل نبی آدم کا اس میں اشتراک واجب ہوجائے گا، اس لیے کہ تمام انسان ہبہ کرنے والے سے نسبی تعلق رکھتے ہیں، ان سب کا سلسلہ نسبت حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان سے قبل حضرت آدم (علیہ السلام) پر اختتام پذیرہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بات سرے سے غلط ہے۔ اس بناپریہ ضروری ہے کہ جس رشتہ داری کے ساتھ اس حکم کا تعلق ہو وہ ایسی ہو کہ طرفین میں ایک کو مرد اور دوسرے کو عورت فرض کرلیں تو ان دونوں کے ، بین نکاح درست نہ ہو۔ اس لیے کہ ایسے رشتہ داروں کے علاوہ باقی ماندہ رشتہ داروں میں یہ بات نہیں پائی جاتی جس کے کی بناپر ان کی حیثیت اجنبیوں کی سی ہوتی ہے۔ زیدبن علاقہ نے اسامہ بن شریک سے روایت کی ہے وہ ذماتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ اس وقت منی میں خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ آپ نے فرمایا ٠ امک وایاک وختک واخاک ثم ادناک فادناک۔ پہلے اپنی ماں، اپنے باپ اور اپنے بھائی بہنوں نے ساتھ صلہ رحمی کرو، اس کے بعد ان رشتہ داروں کے ساتھ جو درجہ بدرجہ تم سے قریب ہوں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہمارے بیان کردوبات کی صحت پر دلالت کررہا ہے۔ تاہم اس کے باوجودا سے اپنے دور کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا بھی حکم دیاگیا ہے جن کے ساتھ قرب نہ ہونے کی بناپرمضبوط رشتہ داری نہ ہو جس طرح کہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاگیا ہے لیکن اس حکم کی وجہ سے تحریم نکاح یارجوع فی الہیہ کا کوئی حکن متعلق نہیں ہوتابعینہ یہی صورت غیر محرم رشتہ داروں کی بھی ہے، ان کے ساتوحسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن چونکہ اس کی وجہ سے تحریم نکاح کا کوئی حکم لاحق نہیں ہوتا اس لیے ان کی حیثیت اجنبیوں جیسی ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالعسواب۔ یتیموں کو ان کا اصلی مال واپس کردینا اور وصی کو اس مال کے صرف کردینے کی ممانعت

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) اس مقام پر حکم عام ہے اور کبھی خاص بھی ہوتا ہے، اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں صرف نفس آدم (علیہ السلام) سے توالد وتناسل کے ذریعہ پیدا کیا اور حضرت حوا کو بھی ان سے پیدا کیا پھر ان دونوں سے بذریعہ توالد بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا کیں۔ اسی کی اطاعت کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا کرتے ہو، اور حقوق قرابت کے ضائع کرنے سے بھی ڈرو، اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت وفرمانبرداری کرو اور جن باتوں کا تمہیں کو حکم دیا گیا جیسا کہ اطاعت خداوندی اور صلہ رحمی وغیرہ ان سب کے متعلق تم سے پوچھ گچھ ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) دیکھئے معاشرتی مسائل کے ضمن میں گفتگو اس بنیادی بات سے شروع کی گئی ہے کہ اپنے خالق ومالک کا تقویٰ اختیار کرو۔ (وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) نوٹ کیجیے کہ یہاں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اس نے تمہیں ایک آدم سے پیدا کیا اور اسی (آدم) سے اس کا جوڑا بنایا ‘ بلکہ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (ایک جان) کا لفظ ہے۔ گویا اس سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ عین آدم ( علیہ السلام) ہی سے ان کا جوڑا بنایا گیا ہو ‘ جیسا کہ بعض روایات سے بھی اشارہ ملتا ہے ‘ اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آدم کی نوع سے ان کا جوڑا بنایا گیا ‘ جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے۔ اس لیے کہ نوع ایک ہے ‘ جنسیں دو ہیں۔ انسان (Human beings) نوع (species) ایک ہے ‘ لیکن اس کے اندر ہی سے جو جنسی تفریق (sexual differentiation) ہوئی ہے ‘ اس کے حوالے سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔ (وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج) ۔ مِنْہُمَاسے مراد یقیناً آدم و حوا ہیں۔ یعنی اگر آپ اس تمدن انسانی کا سراغ لگانے کے لیے پیچھے سے پیچھے جائیں گے تو آغاز میں ایک انسانی جوڑا (آدم و حوا) پائیں گے۔ اس رشتہ سے پوری نوع انسانی اس سطح پر جا کر رشتۂ اخوت میں منسلک ہوجاتی ہے۔ ایک تو سگے بہن بھائی ہیں۔ دادا دادی پر جا کر cousins کا حلقہ بن جاتا ہے۔ اس سے اوپر پڑدادا پڑدادی پر جا کر ایک اور وسیع حلقہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح چلتے جایئے تو معلوم ہوگا کہ پوری نوع انسانی بالآخر ایک جوڑے (آدم و حوا) کی اولاد ہے۔ (وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط) ۔ تقویٰ کی تاکید ملاحظہ کیجیے کہ ایک ہی آیت میں دوسری مرتبہ پھر تقویٰ کا حکم ہے۔ فرمایا کہ اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ فقیر بھی مانگتا ہے تو اللہ کے نام پر مانگتا ہے ‘ اللہ کے واسطے مانگتا ہے ‘ اور اکثر و بیشتر جو تمدنی معاملات ہوتے ہیں ان میں بھی اللہ کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں کو جب نمٹایا جاتا ہے تو آخر کار کہنا پڑتا ہے کہ اللہ کا نام مانو اور اپنی اس ضد سے باز آجاؤ ! تو جہاں آخری اپیل اللہ ہی کے حوالے سے کرنی ہے تو اگر اس کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ جھگڑے ہوں گے ہی نہیں۔ اس نے اس معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق معین کردیے ہیں ‘ مثلاً مرد اور عورت کے حقوق ‘ رب المال اور عامل کے حقوق ‘ فرد اور اجتماعیت کے حقوق وغیرہ۔ اگر اللہ کے احکام کی پیروی کی جائے اور اس کے عائد کردہ حقوق و فرائض کی پابندی کی جائے تو جھگڑا نہیں ہوگا۔ ّ مزید فرمایا کہ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھو ! جیسا کہ ابھی بتایا گیا کہ رحمی رشتوں کا اوّلین دائرہ بہن بھائی ہیں ‘ جو اپنے والدین کی اولاد ہیں۔ پھر دادا دادی پر جا کر ایک بڑی تعداد پر مشتمل دوسرا دائرہ وجود میں آتا ہے۔ یہ رحمی رشتے ہیں۔ انہی رحمی رشتوں کو پھیلاتے جایئے تو کل بنی آدم اور کل بنات حوا سب ایک ہی نسل سے ہیں ‘ ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ ( اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ) ۔ یہ تقویٰ کی روح ہے۔ اگر ہر وقت یہ خیال رہے کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے ‘ میرا ہر عمل اس کی نگاہ میں ہے ‘ کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں ہے تو انسان کا دل اللہ کے تقویٰ سے معمور ہوجائے گا۔ اگر یہ استحضار رہے کہ چاہے میں نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کردیں اور پردے گرا دیے ہیں لیکن ایک آنکھ سے میں نہیں چھپ سکتا تو یہی تقویٰ ہے۔ اور اگر تقویٰ ہوگا تو پھر اللہ کے ہر حکم کی پابندی کی جائے گی۔ یہ حکمت نبوت ہے کہ اس آیت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبۂ فکاح میں شامل فرمایا۔ نکاح کا موقع وہ ہوتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان رشتۂ ازدواج قائم ہو رہا ہے۔ یعنی آدم کا ایک بیٹا اور حوا کی ایک بیٹی پھر اسی رشتے میں منسلک ہو رہے ہیں جس میں آدم اور حوا تھے۔ جس طرح ان دونوں سے نسل پھیلی ہے اسی طرح اب ان دونوں سے نسل آگے بڑھے گی۔ لیکن اس پورے معاشرتی معاملے میں ‘ خاندانی معاملات میں ‘ عائلی معاملات میں اللہ کا تقویٰ انتہائی اہم ہے۔ جیسے ہم نے سورة البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار (وَاتَّقُوا اللّٰہَ ) کی تاکید فرمائی گئی۔ اس لیے کہ اگر تقویٰ نہیں ہوگا تو پھر خالی قانون مؤثر نہیں ہوگا۔ قانون کو تو تختہ مشق بھی بنایا جاسکتا ہے کہ بظاہر قانون کا تقاضا پورا ہو رہا ہو لیکن اس کی روح بالکل ختم ہو کر رہ جائے۔ سورة البقرۃ میں اسی طرزعمل کے بارے میں فرمایا گیا کہ : (وَلَا تَتَّخِذُوْا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًاز) (آیت ٢٣١) اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنالو “۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. What are the mutual rights of human beings, what are the principles on which a sound and stable family life can be established, are questions that are discussed a little further on in this surah. As an appropriate introduction to the subject, the surah opens by exhorting the believers to fear God and to avoid courting His displeasure, and by urging them to recognize that all human beings have sprung from the same root and that all of them are, therefore, of one another's flesh and blood. The expression 'Who created you from a single being (nafs)' indicates that the creation of the human species began with the creation of one individual. At another place, the Qur'an specifies that the one person from whom the human race spread in the world was Adam. (For Adam being the progenitor of mankind see Towards Understanding the Qur'an, Surah 2, verses 31 f. and Surah al-A'raf: 11, etc. - Ed.) The details how out of that 'being' its mate was created are not known to us. The explanation which is generally given by the commentators of the Qur'an and which is also found in the Bible is that Eve was, created out of a rib of Adam. (The Talmud is even more detailed in that it states that Eve was created out of Adam's thirteenth rib on the left side.) The Qur'an, however, is silent on the matter and the tradition which is adduced in support of this statement does not mean what it is often thought to be. It is thus better that we leave the matter in the same state of ambiguity in which it was left by God, rather than waste our time trying to determine, in detail, the actual process of the creation of man's mate. 'The author alludes to, but does not quote, the text of the following tradition: Muslim, 'Rida'ah', 61 and 62; Tirmidhi, 'Talaq'' 12; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, pp. 428, 449, 497, 530 and vol. 6, p. 279 - Ed.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :1 چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں ، اس لیے تمہید اس طرح اٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں ۔ ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی ۔ دوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسل انسانی پھیلی ۔ ”اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“ ، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے ۔ عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا ( تلمود میں اور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا ) ۔ لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے ۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعین کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جب دنیا میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو بکثرت یہ کہتے ہیں کہ خدا کے واسطے مجھے میرا حق دے دو، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے حقوق کے لئے اللہ کا واسطہ دیتے ہو تو دوسروں کا حق ادا کرنے میں بھی اللہ سے ڈرو اور لوگوں کے حقوق پورے پورے ادا کرو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں جو متعدد روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آگے جو اس سورت کی آیتیں آتی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے احکام کے ذکر فرمائے ہیں مثلاً قرابت دار ولی جن کی پرورش میں یتیم بچے ہوں۔ یتیموں کے مال کی بابت ان کو حکم فرمایا ہے یا کوئی شخص اگر مرجائے تو اس کا مال قرابت دار وارثوں میں کیونکر تقسیم ہونا چاہیے اس کا حکم فرمایا ہے پھر جب تک آدمی قرابت داروں کا پاس اور لحاظ پورا پورا نہ رکھے گا تو ان حکموں کی پابندی پوری پوری آدمی سے نہیں ہوسکتی۔ اس واسطے ان حکموں کے ذکر فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قرابت دار کو اپنے نام پاک کے ساتھ اس آیت میں ذکر فرما کر قرابت داری کی پاس داری کا دھیان لوگوں کو دلادیا ہے اور فرمایا کہ جس طرح لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اسی طرح قرابت داری کی فروگذاشت سے ڈرنا چاہیے۔ کس لئے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے آدمی دوزخی ہوجاتا ہے۔ صحیحین میں جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص قرابت کے حق کو ادا نہ کرے گا وہ ہرگز جنت میں نہیں جائے گا ١۔ اسی طرح صحیح بخاری ٢ اور صحیح مسلم ٣ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رحم عرش معلّٰی میں لٹکا ہوا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ یا اللہ جو شخص صلہ رحمی کرے اس پر رحم فرما اور جو قطع رحمی کرے اس کو کاٹ ڈال۔ اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں غرض آگے جو احکام آئے ہیں ان کی تعمیل کی تاکید میں یہ آیت اللہ تعالیٰ نے بطور پیش بندی کے نازل فرمائی اور فرمایا ہے کہ اصلی پیدائش انسان کی ایک ماں باپ سے ہے اس سے یہ مطلب ہے کہ آپس کے سلوک میں اول تو اصل پیدائش کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے یہ خیال کرنا چاہیے کہ جب اس اصل پیدائش کے ساتھ اور قرابت قریبہ مل جائے۔ تو ْآپس کے سلوک کی تاکید اور بڑھ جاتی ہے۔ رقیب کہتے ہیں اس کو جو ہر طرح کی خبر رکھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:1) بث۔ اس نے بکھیرا۔ اس نے پھیلایا۔ بث سے ماضی واحد مذکر غائب باب ضرب۔ نصر۔ نفس واحدۃ۔ ایک جان ۔ من اصل واحد وھوادم ابو البشر (علیہ السلام) یعنی ایک اصل سے جس سے مراد ذات آدم (علیہ السلام) ہے۔ صیغہ واحد مؤنث نفس کے لئے آیا ہے ۔ جو مؤنث سماعی ہے۔ زوجھا۔ جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں سے جفت (جوڑا) کو زوج کہا جاتا ہے۔ جیسے موزے اور جوتے وغیرہ۔ پھر ہر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حیثیت سے اس سے مقترن ہو اہ اس کا زوج کہلاتی ہے۔ زوجھا میں ھا ضمیر مؤنث واحد نفس کی رعائیت سے اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ زوج سے مراد حضرت آدم کی زوجہ حضرت حوا مراد ہیں۔ منھا۔ ھما ضمیر تثنیہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کی طرف راجع ہے یعنی حضرت آدم اور حضرت حوا (علیہما السلام) سے کچیر تعداد میں مرد اور عورتیں پیدا کیں۔ تساء لون بہ۔ تم باہم سوال کرتے ہو اس کے نام سے ۔ تم آپس میں مانگتے ہو اس کے واسطہ سے۔ تسائل (تفاعل) سے مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تتساء لون تھا تاء تثنیہ کو حذف کردیا گیا۔ بہ میں ضمیر واحد مذکر غائب۔ اللہ کی طرف راجع ہے والارحام۔ منصوب ہے اس کا عطف لفظ اللہ پر ہے ارحام رحم کی جمع ہے ۔ رحم عورت کے پیٹ کا وہ حصہ ہے جس میں بچہ پیدا ہونے سے پیشتر شکم مادہ میں پلتا ہے۔ استعارہ کے طور پر رحم کا لفظ قرابت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے واتقوا الارحام۔ اور ڈرو قطع رحمی سے۔ رقیبا۔ نگہبان ۔ خبر رکھنے والا۔ محافظ۔ مطلع۔ منتظر۔ راہ دیکھنے والا۔ فعیل کے وزن پر اسم صفت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

)5 یعنی پوری نوع انسانی ابو ال لبشر آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اسی ایک نفس سے اللہ تعالیٰ نے اس کا جوڑا (حوا) پیدا کیا۔ بعض نے منھا کر ترجمہ ای من جنسھتا کیا ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس سے لازم آّتا ہے کہ نفس واحدۃ نہیں بلکہ دونفسوں انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوئی اور ظاہر ہے کہ نص قرآن کے خلاف ہے۔ روح لمعامی) اب یہ سوال کہ آدم ( علیہ السلام) سے ان کی زوج کی تخلیق کیسے ہوئی قرآن نے اسے بیان نہیں نہیں کیا اور احادیث صحین سے یہ تو ثابت ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور بعض روایات میں فالھر خلقن من ضلع بھی بھی آیا ہے کہ سب عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی مگر کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت حوا ( علیہ السلام) (زوج آدم) آدم ( علیہ السلام) کی پسی سے پیدا کی گئی ہیں۔ بلکہ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف ہے اور یہی تصریح چونکہ توراۃ میں بھی وارد ہے اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ روایت اہل کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پر پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کی علما نے تاویل کی ہے کہ اس سے عورت کی فطرت اور طبعیت کی طرف اشارہ ہے اور بعد میں حدیث کا تتمہ فان ذھبت تقنھا کسر تھا اوکما قال سے مزید اس تاویل کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم)6 اس کا عطف اللہ پر ہے ای وتقوا الارحام یعنی قطع رحمی اور رشتے داروں کے ساتھ بد سلو کی سے بچو۔ اس کو الا رحام کسریوم کے ساتھ بڑھنا لحن ہے اور قواعد نحو یہ کی رو سے بھی ضعیف ہے ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے یعنی قطع رحمی سے ڈرو جس کے واسطے تم ایک دوسرے سے سوا کرتے ہو۔ (کذافی القرطبی) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تمام عمائے شریعت ولغت کا اتفاق ہے کہ ارحام سے محروم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ (فتح القدیر) قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ رحم کا عرش معلمہ کے ساتھ معلق ہے اور کہہ رہا ہے جو شخص مجھے توڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے توڑے گا اور جو مجھے جوڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے جو ڑے گا۔ ( بخاری مسلم)7 یعنی تمہارے تمام احوال و اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ (ابن جریر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اسرار و معارف رکوع نمبر 1 ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔ یا الناس اتقوا ربکم۔۔۔۔ انہ کان حوبا کبیرا۔ آیات نمبر 1 تا 2 ۔ اے لوگو اس سے نہ بگاڑو جو تمہارا رب ہے یعنی تمہاری تمام ضروریات کا پورا کرنے والا ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے۔ اخوت کا یہ حال ہے کہ جملہ انسانیت کی اصل ایک فرد ہے حضرت آدم علی نبینا و (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اسی ایک فرد سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا وہ قادر مطلق حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرح ان کی زوجہ محترمہ حضرت حوا کو بھی تو مٹی سے پیدا کرسکتا تھا اور پھر ہمیشہ ساری انسانیت کو بھی اسی طرح پیدا کرنے پہ قادر تھا مگر اس نے کوئی علیحدہ وجود پیدا کرنا پسند نہیں فرمایا بلکہ اسی ایک وجود سے دوسرے کو تخلیق اور پھر ان دونوں کو مزید افرادِ انسانیت کے پیدا کرنے کا سبب بنا دیا اور اس سے طرح سے مرد و عورت کو جہاں میں پھیلا دیا۔ رنگ مختلف ہوسکتے ہیں زبان کا فرق ہوسکتا ہے قد و قامت جدا جدا ممکن ہے مگر اصل سب کی ایک ہے اور تمام افرادِ انسانیت ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ ایک بدن کے اجزا ہیں اس لیے انہیں محبت ہی زیب دیتی ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کی نگہداشت کی امید کی جاسکتی ہے۔ کہ ایک درخت کی شاخیں اور پتے آپس میں دشمن نہیں ہوتے بلکہ اگر شاخیں الجھ جائیں تو چھاؤں اور گھنی ہوجاتی ہے ایسے ہی افراد انسانیت میں اگر اختلاف یا الجھاؤ پیدا ہو تو انسانیت کی بہتر کے لیے سایہ مزید گھنا کرنے کے لیے تو ہوسکتا ہے تباہی کا تصور انسانیت کے منافی ہے جب ہی تو اسلام نے کافر تک کے حقوق مقرر فرما دئیے ہیں اور اس پر بھی ظلم و زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دی چہ جائیکہ مومن ایک دوسرے پر یا مرد اپنی بیویوں پر ورثاء اپنے یتیم عزیزوں پر زیادتی کریں تو یہ بات ہرگز ہرگز اللہ کریم کو پسند نہیں۔ یاد دلایا کہ جب تمہیں اپنا حق طلب کرنا ہو تو کیا نہیں کہتے ہو کہ اللہ سے ڈرو اور میرا حق ادا کردو یا قریبی رشتے کا واسطہ دیتے ہو کہ دیکھو آپس میں تو یہ بات زیب نہیں دیتی ، فرمایا یہ درست ہے مگر جب تمہاری اپنی باری آئے تب بھی تو خیال رکھو کہ اللہ کریم سب کا رب ہے اور رشتہ داری میں سب کی اصل ایک فرد ہے پھر رب جلیل ہمارے ہر حال کو دیکھ رہا ہے کیفیات باطنی تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سو نہ صرف طلب حقوق میں بلکہ ادائے فرائض میں بھی اس کا خیال رکھو۔ یتیموں سے برتاؤ : اور یتیم بچوں کو تو تمہاری ذاتی توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ان کی طرف سے تو کوئی مطالبہ کرنے والا بھی نہیں۔ انہیں ان کے اموال سے ہرگز محروم نہ کرو اور حرام کو حلال سے نہ بدبو یا برے کو اچھے مال سے تبدیل نہ کرو۔ دونوں صورتیں مفسرین نے تحریر فرمائی ہیں کہ تمہارے پاس جو مال ہے حلال اور جائز اس میں مال یتیم ناجائز طور پر شامل کرکے اسے خراب نہ کردیا کرو ان کے مال میں کوئی اچھی چیز لباس برتن جانور وغیرہ ہو تو اس کی جگہ کمتر شامل کردیا جائے اور وہ لے لیا جائے جیسا کہ عموماً قبل اسلام لوگوں کا وطیرہ تھا تو ایسا ہرگز نہ کرو کہ یہ بہت بڑا وبال ہے اور بہت سخت گناہ ہے کہ جرم تو ہے ہی مگر اس پر جو غضب مرتب ہوتا ہے اور جس قدر رحمت باری سے محرومی ہوتی ہے وہ دوسرے جرائم کی نسبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے اگرچہ مال بلوغت پہ لوٹایا جاتا ہے اور بعد بلوغت تو کوئی بھی یتیم نہیں رہتا۔ مگر یہاں چونکہ یتیم ہی کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ فرمایا کہ یتیموں کو ان کا مال لوٹا دو ۔ احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی یعنی رشتہ داری کے حقوق کا خیال رکھنے کی فضیلت اور آپس میں محبت سے رہنا پھر اس بھائی چارے کو وسعت دے کر پوری انسانیت کی بہتری اور بھلائی کے لیے سرگرم عمل ہونا ہی کمال انسانیت ہے ایسے لوگ ہی اللہ کریم کے پسندیدہ لوگ ہیں جن کی محبت سے دوسروں کو آرام پہنچے اور جو خود انسانیت پر بوجھ ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہرگز نہیں ہوسکتے خصوصاً دوسروں کے مال پر نگاہ رکھنے والے لوگ تو کسی تعریف کے ہرگز مستحق نہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 1 لغات القرآن : یایھا الناس۔ اے لوگو ! ۔ نفس واحدۃ، ایک جان۔ زوج، بیوی۔ بث، اس نے پھیلایا۔ رجال، مرد (رجل کی جمع ہے) ۔ کثیر، بہت سے۔ نساء، عورتیں۔ تسآءلون، تم آپس میں سوال کرتے ہو۔ الارحام، رشتہ داریاں رقیب، نگہبان، نگراں۔ تشریح : سورة نساء کی پہلی آیت ان تمام مسائل اور مضامین کی تمہید ہے جو آنے والی آیات میں بیان کئے گئے ہیں تمام انسانی حقوق کی بنیاد تقویٰ یعنی اللہ کے خوف پر رکھی گئی ہے کیونکہ اللہ کا خوف ہی ایک انسانی معاشرہ کو صحیح خطوط پر چلا سکتا ہے۔ مثلاً بہت سے وہ حقوق ہیں جو حکومت اور قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ اجر و مزدور، معاہدات اور لین دین کے بہت سے معاملات اگر ان میں کوئی گڑبڑ کرتا ہے تو قانون کی طاقت سے اس کے حقوق دلوائے جاسکتے ہیں۔ لیکن ، والدین ، اولاد، رشتہ دار، یتیم بچے اور بچیاں ضرورت مند اور دوسرے رشتے داروں کے درمیان الفت و محبت۔ دنیا کی کوئی حکومت یا قانون قوت کے زور سے ایک کے حقوق دوسرے سے دلوا نہیں سکتے۔ یہ الفت و محبت تو صرف اللہ کے خوف، باہمی محبت، ہمدردی اور رواداری اور خیر خواہی کے جذبے ہی سے پروان چڑھ سکتی ہے۔ چونکہ سورة نساء میں حقوق انسانی کی بنیادی اصول بتائے گئے ہیں اس لئے تمہیدی طور پر یہ بتا یا گیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے کیونکہ تمام انسانوں کو ایک ہی اصل سے پیدا کیا گیا ہے۔ بنیادی طور سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے کوئی امتیاز نہیں ہے۔ فرمایا گیا کہ تم دن رات جس اللہ کا واسطہ دے کر اپنے ہزاروں کام نکالتے ہو اور وہ رشتے دار جن سے تم آڑے وقت میں بہتر سلوک کی توقع رکھتے ہو ان کے ساتھ بہترین سلوک کرو۔ صلہ رحمی کرو کیونکہ اگر تم صلہ رحمی نہیں کرو گے اور رشتوں کی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھو گے تو اللہ تمہارے ایک ایک عمل کا نگراں اور نگہبان ہے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتے ان پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس آیت میں پیدائش کی تین صورتوں کا بیان ہے ایک تو جاندار کا بےجان سے پیدا کرنا جیسے آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے دوسرے جاندار سے بلاطریقہ توالد متعارف پیدا ہونا جس طرح حضرت حوا حضرت آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور تیسرے جاندار کا جاندار سے بطریق توالد متعارف پیدا ہونا جیسا اور آدمی آدم وحوا سے اس وقت تک پیدا ہوتے آرہے ہیں اور فی نفسہ عجیب نہ ہونے میں اور قدرت کے سامنے عجیب نہ ہونے میں تینوں صورتیں برابر ہیں۔ 2۔ اوپر تقوی کا حکم تھا اور اس کے ضمن میں مراعات حقوق انسانیہ ورحمیہ کا ارشاد تھا آگے اس تقوی کے مواقع کا حقوق مذکورہ میں ہیں مفصلا ذکر فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورة : سورة آل عمران کے اختتام میں ” اِتَّقُوْا اللّٰہَ “ فرما کر تقو ٰی کو مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔ اِتَّقُوْااللّٰہَ میں جلالت اور تمکنت پائی جاتی ہے۔ سورۃ النساء کا آغاز ” اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ “ سے ہوتا ہے۔ اسمِ رب میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہوتا ہے جس میں شفقت ‘ الفت اور قربت کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس سورة میں انسانی معاشرے کے ابتدائی یونٹ کو مضبوط بنانے کے لیے اس کے بنیادی حقوق و فرائض کا بیان ہوا ہے۔ سورة النساء کے ابتدائی الفاظ اور کلمات میں توحید اور وحدت انسانی کا سبق دیا گیا ہے کہ جس طرح تم سب ایک ہی خالق کی مخلوق اور اسی کی ربوبیت کے مرہون منت ہو۔ اسی طرح تم ایک ہی خاندان کے افراد اور ارکان ہو جس کی ابتدا دو کی بجائے ایک سے ہوئی۔ پھر اس ایک سے دوسرے کو یعنی آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی حواکو پیدا کیا گیا پھر بیشمار مرد اور عورتیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ اس رب سے ڈرو جو تمہارا اللہ ہے جس کی عظمت و تقدیس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال اور ہمدردی کے طلبگار ہوتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے ساتھ رشتے داریوں کو توڑنے سے بھی ڈرو اور اجتناب کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر نگران کی حیثیت سے قائم دائم ہے۔ لفظ ارحام کا واحد رحم ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رحم کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا۔ (إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَۃٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَقَال اللّٰہُ مَنْ وَصَلَکَ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکَ قَطَعْتُہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب من وصل وصلہ اللّٰہ ] ” رحم رحمٰن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے فرمایا جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا۔ جس نے تجھے کاٹ دیا میں اسے کاٹ دوں گا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی فرمان ہے : (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب إثم القاطع ] ” رشتے داریوں کو توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ صلہ رحمی کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرمایا کرتے تھے۔ (لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَا فِیئ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِيْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب لیس الواصل بالمکافي ] ” ادلے کا بدلہ صلہ رحمی نہیں بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ دوسرا آدمی صلہ رحمی نہ بھی کرے تجھے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ “ مسائل ١۔ لوگوں کو اپنے رب سے ڈر کر رشتے داریوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی نگرانی فرما رہا ہے۔ تفسیر بالقرآن نسل انسانی کی افزائش کے مراحل : ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حضرت حوا [ نے آدم (علیہ السلام) سے تخلیق پائی۔ (الروم : ٢١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حوا [ سے بیشمار مردوزن پید افرمائے۔ (النساء : ١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قبائل میں تقسیم فرمایا۔ (الحجرات : ١٣) تخلیق انسان کے مختلف مراحل پارہ 14: رکوع :8 اور پارہ 18 رکوع 1 کی تفسیر میں دیکھیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس ٠٣ ایک نظر میں : سورت کا یہ پہلا پیراگراف اپنی افتتاحی آیت کے ساتھ ‘ لوگوں کو صرف رب واحد اور خالق واحد کی طرف رجوع کرنے کی دعوت سے شروع ہوتا ہے ۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ تمام لوگوں کو ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ ایک ہی خاندان سے بکھرے ہیں ‘ انسانی نفس ہی دراصل اصل انسانیت ہے ۔ اور انسانی خاندان ہی دراصل انسانی معاشرے کی اکائی ہے ۔ اس لئے نفس انسانی کے اندر خدا خوفی کے جذبات کو جوش میں لایا جاتا ہے اور خاندانی نظام کو جذبہ صلہ رحمی سے مستحکم کیا جاتا ہے تاکہ اس مستحکم اساس پر ایک خاندان کے اندر باہم تکافل (Social Security) اور باہم محبت کے فرائض پر وان چڑھیں ۔ اس کے بعد پوری انسانیت کے اندر باہم محبت اور باہم پشتیبانی کے اصول رائج کئے جاسکیں ۔ غرض اس سورت کے اندر کی جانے والی تمام قانون سازی اور انسانیت کی تمام شیرازہ بندی اسی اصول پر کی گئی ہے ۔ آیات کا یہ حصہ درج بالا اصول وقوانین کے ساتھ ساتھ کسی معاشرے یا کسی خاندان کے اندر پائے جانے والے یتیموں کے بارے میں معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی ہدایات دیتا ہے ۔ یتیموں کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں کہ ان کی نگرانی کس طرح کی جائے ، ان کے مال کی نگہداشت کس طرح ہو ‘ نیز افراد خاندان کے درمیان میراث کی تقسیم کے اصول بھی وضع کئے گئے ہیں ، جن میں مختلف اطراف کے رشتہ داروں کے حصص کا تعین بھی کیا گیا ہے ۔ مختلف حالات میں حصص کا فرق بھی بتایا گیا ہے ۔ اور یہ سب کچھ اس ہمی گیر انسانی اصول کی روشنی میں کیا گیا ہے جس کا ذکر آیت افتتاحیہ میں بیان ہوا ہے ۔ یہ ہمی گیر انسانی اصول بعض آیات کی ابتدا میں بعض کے در میان میں اور بعض آیات کے خامتہ پر اس سبق میں بار بار دہرایا گیا ہے ۔ اور اس حقیقت کی توثیق کی گئی ہے کہ ان تمام ہدایت اور قانون سازی اس کا خصوصی حق ربوبیت ہے ۔ اسلامی نظام میں ہر قسم کی قانون سازی اللہ جل شانہ کی اس شان ربوبیت کا اظہار ہے ۔ موجودہ آیت کی تفسیر۔ ترجمہ : ” لوگو ! اپنے سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ، اسی خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے ۔ “ یہ خطاب تماما نسانیت سے ہے ۔ بحیثیت انسان ان سے خطاب ہے تاکہ وہ سب کے سب رب واحد کی طرف لوٹ آئیں ۔ وہی تو ہے جس نے ان کی تخلیق کی ہے اور پھر اس نے ان سب انسانوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے ۔ پھر اس جان سے اس کیلئے جوڑا تخلیق کیا اور پھر ان دونوں سلسلہ نسب چلا کر بہت سے مرد اور عورتوں کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ۔ بظاہر تو یہ باتیں بہت سادہ اور ابتدائی معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت یہ عظیم حقائق ہیں ۔ یہ بہت ہی بھاری باتیں ہیں اور انسانی زندگی پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر یہ ” لوگ “ ان باتوں پر کان دھریں ‘ اور انہیں سمجھنے کی کوشش کریں تو ان باتوں سے اس کرہ ارض پر حیات انسانی کے اندر عظیم تغیر واقعہ ہوجائے اور لوگ جاہلیت یا مختلف جاہلیتوں سے نکل کر ایمانی زندگی ‘ ہدایت یافتہ زندگی اور انسانیت کے لائق مہذب زندگی کی جانب بسہولت منتقل ہوجائیں ‘ یہ مہذب زندگی نفس انسانی کے حسب حال ہوگی اور اس کے خالق اور رب کی مرضی کے مطابق بھی ہوگی ۔ اس آیت میں وہ ابتدائی حقائق بیان ہوئے ہیں ‘ وہ قلب ونظر کیلئے درج ذیل میدان فراہم کرتے ہیں : (١): ۔ اس میں پوری انسانیت کو یہ بتایا ہے کہ اس کی اصل کیا ہے ؟ اور اسے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اس خالق کی طرف رجوع کرے جس نے اسے پیدا کرکے اس زمین پر بسایا ہے ۔ یہ آیات بتاتی ہے کہ ” انسانیت “ نے چونکہ اپنی اس اصلیت کو فراموش کردیا ہے ۔ اس لئے وہ سب کچھ بھول گئی ہے اور اس کا کوئی کام درست نہیں رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس کرہ ارض پر تشریف لائے ‘ جبکہ پہلے وہ اس پر نہ تھے ۔ سوال یہ ہے کہ اس جہاں میں انہیں کون لایا ہے ؟ یہاں وارد ہونے میں ان کے اپنے ارادے کا دخل نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہاں آنے سے قبل وہ معدوم تھے اور کسی معدوم کیلئے ارادے کا تصور ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ معدوم تو اس جہاں میں آنے اور نہ آنے کا کوئی فیصلہ کر ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے لازما انسان کے علاوہ کسی اور ذات نے انسانوں کو یہاں لا کر بسایا ۔ یہ ارادہ ذات انسان سے علیحدہ ارادہ تھا ۔ ایک بالا ارادہ تھا جس نے تخلیق انسانیت کا فیصلہ کیا ۔ اور یہ ” خالق ارادہ “ انسانی ارادہ نہ تھا ۔ اس بالائی ارادہ نے انسانیت کیلئے یہاں جینے اور زندگی بسر کرنے کے خطوط وضع کئے اسی دوسرے ارادہ نے انسان کو وجود بخشا ‘ انسان کو انسانی خواص عطا کئے ، انسان کو اس کے خواص اور صلاحیتیں دیں ۔ انسان کو وہ قوانین عطا کیے کہ وہ انہیں کام میں لا کر اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرے ۔ اس لئے کہ وہ اس کائنات میں نووارد تھا اور وہ جہاں سے آیا ‘ اس کے بارے میں بھی انسان کو کچھ علم نہ تھا ۔ نہ انسان کے اندر ان کے علاوہ صلاحیتیں تھیں جو اس ارادہ بالا نے انسان کو عطا کیں۔ یہ ہے وہ حقیقت کہ اگر موجودہ انسان اسے ذہن نشین کرلے تو وہ پہلے دن سے راہ راست پالے ۔ جبکہ یہ حقیقت ہے بھی بالکل واضح لیکن افسوس یہ ہے کہ انسان اس بدیہی حقیقت کبری سے مکمل طور پر غافل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ برتر اور عظیم ارادہ الہیہ جو انسان کو یہاں لایا ‘ یہاں اس نے انسان کو زندگی گزارنے کے خطوط دیئے اور اس کائنات میں زندگی بسر کرنے کی قدرت اور صلاحیت اسے عطا کی ۔ یہی عظیم ارادہ انسان کی پوری کائنات کا مالک ہے ۔ یہی ہے جو انسانی امور میں ہر قسم کا تصرف کر رہا ہے ۔ اور یہی وہ ارادہ ہے جو انسانیت کیلئے ہر قسم کی تدبیر یہاں کرتا ہے ۔ اس لئے یہی ارادہ الہیہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ انسان کیلئے نظام زندگی کے خطوط متعین کرے ۔ انسان کیلئے ضابطے اور قوانین وضع کرے ۔ اس کیلئے اقدار حیات اور حسن وقبح کے اصوال وضع کرے ۔ یہی ارادہ ہے جس کی طرف انسان کو رجوع کرنا چاہئے یہی وہ ارادہ ہے کہ جس کے حسن وقبح کے پیمانوں اور جس کے قوانین کی طرف رجوع کرنا فرض ہے ۔ اس وقت جب کہ اس امر کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف واقعہ ہوجائے ۔ اس لئے کہ وہ ارادہ رب العالمین ہے جو وحدہ لا شریک ہے ۔ (٢) :۔ یہ حائق جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں اس بات کا مظہر ہیں کہ یہ بشریت ایک ہی ارادے کے نتیجے میں عالم وجود میں آئی ہے ۔ تمام انسان ایک ہی رحم مادر سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کے درمیان ایک ہی رشتہ ہے ۔ وہ ایک ہی جڑ سے پھیلے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کا نسب نامہ بھی ایک ہے ۔ (آیت) ” یایھا الناس اتقوا ترجمہ : ” لوگو ! اپنے سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ۔ “ اگر لوگ اس ایک حقیقت کو ہی اچھی طرح ذہن نشین کرلیں تو بیشتر فرقہ بندیاں جو ان کے افکار پر چھائی ہوئی ہیں ختم ہو کر رہ جائیں ، جو ان بعد کے ادوار میں انسانوں کی عملی زندگی میں پیدا ہوگئی ہیں ‘ جنہوں نے ایک ہی جان سے پیدا ہونے والے عوام الناس کے اندر فرقے فرقے پیدا کردیئے ہیں ۔ اور ایک ہی ماں سے پیدا ہونے والوں کو ٹکڑے ٹکرے کر کے رکھ دیا ہے ۔ جبکہ انسانوں کے اوپر یہ حالات بعد میں طاری ہوئے اور مناسب نہ تھا کہ یہ حالات انسانوں کے درمیان رحم و محبت کے حقیقی جذبات کو ختم کردیں ، حالانکہ اس رحم و محبت کا پاس ضروری تھا ، ایک جان کی اولاد ہونے کے ناطے باہم انسانی محبت ضروری تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے رب اور خالق کے ساتھ رابطہ اور اس کے حقوق کا لحاظ اور اس کا ڈر اور تقوی دل میں رکھنا ضروری تھا ۔ اگر صرف اسی حقیقت کو مستحکم کر دیاجائے تو تمام فرقہ وارانہ کشیدگیاں ختم ہوجائیں ۔ اس وقت پوری انسانیت فرقہ وارانہ کشیدگی کی تباہ کاریوں کا مزہ اچھی طرح چکھ چکی ہے ۔ اس کرہ ارض پر فرقہ وارانہ کشیدگیاں قائم ہیں اور رنگ ونسل کی اساس پر قومتیں قائم ہیں اور لوگوں کے اپنا انسانی شجرہ نسب پوری طرح بھلا دیا ہے ۔ اور پھر اپنے رب کے ساتھ تعلق ربوبیت کو بھی پس پست ڈال دیا ہے ۔ اگر اس حقیقت کو انسان قبول کرلیں اور اچھی طرح اپنے نظریات میں مستحکم کردیں تو ہندوستان میں جو طبقاتی غلامی کا نظام رائج ہے وہ اس دنیا سے فی الفور مٹ جائے ۔ اسی طرح مشرق کے سوشلسٹ ممالک کے اندر طبقاتی جنگوں میں جو خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے وہ ختم ہوجائے اور قومیت کا وہ فتنہ بھی ختم ہوجائے جو جاہلیت جدیدہ کے فکری تصورات اور فلسفوں کا فائدہ اساسی ہے ۔ اور یہ دنیا سے طبقاتی کشمکش کے خاتمے کا نقطہ آغاز بن جائے جن میں ہمیشہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی ایک طبقے کو دوسرے طبقات پر قیادت وسیادت کا مقام حاصل ہوجائے ۔ اور جس میں اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ انسان تو سب کے سب دراصل ایک ہی جان سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا رب ذوالجلال بھی ایک ہی ہے ۔ (٣):۔ تیسری حقیقت جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انسانیت نفس واحد سے تخلیق ہوئی ہے ۔ اور اس نفس سے پھر اس کیلئے جوڑا پیدا کیا گیا ‘ اگر انسانیت اس پر غور کرے اور اس کی حقیقت کو پالے تو وہ ہمت کر کے ان غلطیوں اور اذیت ناک تصورات کی تلافی کرلے گی جن میں وہ صنف نازک کے بارے میں مختلف اوقات میں مبتلا رہی ہے ۔ انسانیت نے عورت کے ساتھ عجیب و غریب تصورات وابستہ کئے ۔ اسے گندگی اور گناہ کا منبع سمجھا گیا ۔ اسے ہر مصیبت اور ہر شر کا سبب گردانا گیا ۔ حالانکہ وہ اپنی فطرت اور اپنے مزاج کے اعتبار سے نفس اول یعنی آدم کا جزء تھی ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ وہ اس کی ہم نشین وہمدم ہو اور اس کے ذریعہ سے انسان کی نسل کشی کی جائے ۔ اسی لئے مرد و عورت کی فطرت میں فرق نہیں ہے بلکہ ان کی استعداد اور ان کی صنفی فرائض میں فرق ہے ۔ اس معاملہ میں ‘ انسانیت ایک عرصہ تک بادیہ پیمائی کرتی رہی اور گمراہ ہوتی رہی ۔ اس نے عورت کو تمام انسانی حقوق سے محروم رکھا اور اس کی خاصیت انسانی سے بھی انکار کیا ۔ ایک عرصہ تک بچاری پر مظالم ہوتے رہے ۔ اور یہ محض ان غلط خیالات و تصورات کی وجہ سے جن کی کوئی حقیقت نہ تھی لیکن جب ان غلط خیالات کی تصحیح کی گئی تو ترازو کے دوسرے پلڑے کو بہت ہی بھاری کردیا گیا ۔ عورت کو شتر بےمہار بنا دیا گیا ۔ وہ اپنی اس حیثیت کو بھول گئی کہ بیشک وہ انسان ہے لیکن اسے دوسرے انسانوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ ایک جان ہے لیکن اسے دوسری جان کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ انسانیت کا ایک حصہ ہے لیکن وہ دوسرے حصے کیلئے تکمیلی ہے ۔ مرد اور عورت دونوں علیحدہ مکمل شخصیات نہیں ہیں بلکہ وہ جوڑا ہیں اور ایک دوسرے کیلئے تکمیلی حیثیت کے حامل ہیں ۔ اس عظیم اور طویل گمراہی کے بعد اسلامی نظام زندگی نے انسانیت کو واپس لا کر اصل شاہراہ پر ڈالا اور اسے صحیح تصورات دیئے ۔ (٤):۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ زندگی کا ابتدائی سیل (Cell) خاندان ہے ۔ دنیا میں منشائے الہی یہ ہے کہ یہ انسانی پودا ایک خاندان میں پھلے پھولے ‘ اس لئے ابتداء ایک جان پیدا کی گئی اس کے بعد اس جان ہی سے اس کیلئے جوڑا پیدا کیا گیا ۔ اس طرح یہ ابتدائی خاندان دو افراد پر مشتمل تھا ۔ اور اس کے بعد ” ان دو سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کی گئیں ۔ “ اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو وہ پہلے سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا فرما دیتا اور اس کے بعد انہیں بہت سے جوڑوں کی شکل دیدی جاتی ۔ اور ابتداء ہی میں بہت سے خاندان وجود میں آجاتے ۔ اور ابتداء ہی سے ان کے درمیان رحم مادر کا رشتہ نہ ہوتا اور ان کے درمیان صرف یہ رابطہ ہوتا کہ انہیں ایک ہی صانع کی مخلوق کی پہلی کھیپ ہونے کا مشترکہ تعلق حاصل ہے اور بس ۔ اور صرف یہی ان کے درمیان پہلا تعلق اور ربط ہوتا ، لیکن اللہ تعالیٰ علیم وخبیر تھا ‘ اس کے پیش نظر ایک حکمت تھی ‘ اللہ تعالیٰ انسانوں کے درمیان پختہ رابطے قائم کرنا چاہتے تھے ۔ پہلا رابطہ یہ تھا کہ ان کا رب ایک ہی تھا اور یہی تمام انسانی رابطوں کا سرچشمہ تھا اور ہے ۔ اس کے بعد باہم صلہ رحمی کا رشتہ آتا ہے ‘ جس کی وجہ سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے ۔ جو ایک مرد اور ایک عورت سے شروع ہوتا ہے ۔ یہ دونوں ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ‘ ان کی طبیعت بھی ایک ہے ۔ فطرت بھی ایک ہے ابتدائی خاندان بھی ایک جس سے پھر بہت سے مرد اور عورت پھیلے ۔ ان تمام افراد کے درمیان پہلا رابطہ وحدانیت ربوبیت ‘ اس کے بعد ان کے درمیان وحدت خاندان کا رابطہ ہے ۔ اور خاندان وہ ابتدائی سیل ہے ‘ جس کے اوپر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ لیکن عقیدہ اور نظریہ اس خاندانی رابطے سے بھی پہلے نمبر پر آتا ہے ۔ یہ حکمت ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں خاندانی نظام کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ اور خاندان کی شیرازہ بندی اور پختگی کیلئے تمام تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ۔ اس کی اساس کو مستحکم کیا جاتا ہے اور اسے ان تمام عوامل اور موثرات سے بچایا جاتا ہے ‘ جو کسی بھی طرح اس کی کمزوری کا باعث ہوں ، خاندانی نظام کی تباہی میں سب سے پہلا موثر عامل یہ ہوتا ہے کہ انسان فطری روش کے خلاف طریق کار اختیار کرے ۔ اور مرد کی صلاحیتوں اور عورت کی صلاحیتوں کا اچھی طرح ادراک نہ کرے نیز مرد اور عورت دونوں کی صلاحیتوں کے اندر توازن پیدا نہ کیا جائے اور ان قوتوں کو مرد اور عورت پر مشتمل ایک خاندان کی تشکیل اور تعمیر میں استعمال نہ کیا جائے ۔ اس سورت میں اور اس کے علاوہ دوسری سورتوں میں بھی اسلامی نظام میں خاندان کی تشکیل اور تقویت کے سلسلے میں بیشمار تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ لیکن خاندانی نظام کو اچھی طرح مضبوط بنیادوں پر اس وقت تک استوار نہ کیا جاسکتا تھا ‘ جب تک عورت ذات کے ساتھ دور جاہلیت کا ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا ۔ چاہے یہ جاہلیت قدیمہ ہو یا جدیدہ ہو ‘ اور جب تک عورت کے بارے میں ان توہین آمیز افکار وخیالات کا قلع قمع نہ کردیا جاتا جو دور جاہلیت میں اس سے وابستہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے عورت پر ہونے والے مظالم کو ختم کیا اور اس کے بعد قرآن نے اسے انسانی معاشرہ میں ایک معزز مقام دیکر اس کے بارے میں فرسودہ تصورات کو دفع کیا ۔ (١) (دیکھئے میری کتاب ” اسلام اور عالم امن “ کا باب ” گھر کی سلامتی “۔ (٥): ۔ سب سے آخر میں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ایک ہی جان اور ایک ہی خاندان میں پیدا کرنے کے بعد تمام افراد بنی نوع انسانی کے اندر اشکال اور صلاحیتوں کا یہ عظیم فرق ‘ جس میں کوئی دو فرد ‘ تاریخ انسانی کے پورے عرصے میں ‘ کبھی بھی باہم کلی طور پر مماثل نہیں ہوئے ‘ جبکہ گزشتہ تاریخی ادوار میں آنے اور جانے والے افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں ہے ‘ یہ شکلوں کا اختلاف ‘ خدوخال کا تباین ‘ طبیعت اور مزاج کا اختلاف شعور اور اخلاق کا اختلاف استعداد اور صلاحتیوں کا اختلاف ‘ رجحانات اور دلچسپیوں کا اختلاف غرج یہ ہمہ گیر اور ہمہ پہلو اختلاف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بےمثال خالق اور موجد ہے ۔ وہ حکیم وعلیم ہے اور اس کے اس پیدا کردہ انسانی باغ میں رنگا رنگ پھولوں میں قلب ونظر کا غیر مختتم سامان ہے ۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ ایک نئی شخصیت لئے ہوئے ہے ۔ اور اپنی مثال آپ ہے ‘ اور یہ کام صرف قادر مطلق ہی کا ہے ‘ اور یہ کاریگری ذات باری تعالیٰ کے سوا کسی اور کے حیطہ قدرت میں نہیں ہے ۔ وہ ذات ہے جس کا ارادہ بےقید ہے ۔ اور وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے ۔ وہ کن فیکون ہے اور عظیم ہے اور لاتعداد انسانی شخصیت کے اندر یہ کلی امتیاز وتباین صرف وہی قائم کرسکتا ہے ۔ جبکہ تمام انسان صرف ایک ہی باپ آدم سے پھیلے ہیں ۔ اس نہج پر انسانی شخصیات وافراد پر غور وفکر اس بات کیلئے ضامن ہے کہ تقوی اور ایمان کے اساسی توشہ پر قلب مومن کو انس و محبت کا مزید سامان عطا کرے ۔ یہ غور وفکر نفع کے اوپر مزید نفع ہے اور خیالات کی بلندی پر مزید سربلندی ہے ۔ خیالات و افکار کے اس جم غفیر کے بعد اس آیت افتتاح کے خاتمے پر لوگوں کو خدا خوفی کی دعوت دی جاتی ہے ۔ اس خدا کی خشیت کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے جس کے نام پر وہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں ۔ اور اس کے نام کا واسطہ دیتے ہیں ‘ نیز لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ باہم تعلقات میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں ‘ اس لئے کہ تم سب لوگوں کی اصل تو بہر حال ایک ہی ہے ۔ ” اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔ “ اس خدا سے ڈرو ‘ جس کے نام پر تم ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتے ہو ‘ ایک دوسرے کے ساتھ عقد کرتے ہو اور تم میں سے بعض لوگ بعض دوسروں سے اپنے حقوق اور وفاداری کا مطالبہ اس کے نام کے ساتھ کرتے ہیں ‘ تم اس کے نام کے ساتھ قسمیں کھاتے ہو ‘ غرض آپس کے روابط ‘ تعلقات ‘ رشتہ داریوں اور باہمی معاملات میں خدا خوفی کا طرز عمل اختیار کرو ۔ قرآن کریم میں تقوی اور خدا خوفی کا مفہوم واضح ہے ‘ اس لئے کہ قرآن کریم میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے رہی یہ بات کہ رشتہ و قرابت کے تعلقات سے ڈرو ‘ یہ ایک عجیب قسم کا انداز کلام ہے جس کا شعوری سایہ نفس پر سایہ فگن ہوتا ہے ۔ اور اس شعوری پر تو کا نفس انسانی خود بخود مفہوم نکال لیتا ہے یعنی رشتہ قرابت سے ڈرو ‘ ان تعلقات کے بارے میں اپنے احساس کو تیز کرو ‘ ان کے حقوق کا احساس کرو ‘ ان حقوق کی پامالی اور ان میں ظلم سے بچو ‘ ان کو چھونے اور خراش لگانے سے بچو ‘ رشتہ میں اذیت نہ دو ‘ رشتہ داروں کے جذبات مجروح نہ کرو اور ان کے حقوق تلف نہ کرو ‘ غرض رشتہ کے معاملے میں احساس کو تیز رکھو ‘ احترام کرو اور رشتہ کو محبت دو اور محبت کے سایہ میں رہو۔ اختتام اللہ کی نگرانی میں ہوتا ہے ۔ ” یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے “ اور اس کی نگرانی کس قدر ہولناک ہوتی ہے ‘ جب ذات باری خود نگران ہو ! وہ رب ہے ‘ خالق ہے اور اپنی تمام مخلوق کی بابت اچھی طرح باخبر ہے ‘ وہ ایسا علیم وخبیر ہے جس پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی ۔ نہ ظاہری افعال اس سے پوشیدہ ہیں اور نہ خفیہ افکار اس سے پوشیدہ ہیں۔ اس پر شوکت اور موثر افتتاحی اور اس کے اندر بیان ہونے والے سادہ فطری حقائق اور پوری انسانیت کیلئے عظیم اساسی اصول کے بیان کے بعد ایسی بنیادی باتوں کا تذکرہ شروع کیا جاتا ہے جن پر کسی معاشرے کا اجتماعی نظام اور اجتماعی زندگی استوار ہوتی ہے ۔ مثلا خاندان اور جماعت کا باہم معاشی تعاون وتکافل ‘ معاشرہ میں ضعیفوں کے حقوق کا تحفظ ‘ معاشرہ میں عورت کے حقوق کا تحفظ اور اس کیلئے مقام شرافت کا تعین ‘ معاشرہ کی عمومی دولت کا تحفظ ‘ میراث اور ترکہ کی ایسی تقسیم جو عدل و انصاف کی کفیل ہو اور جس میں تمام افراد معاشرے کی بھلائی ہو ۔ سب سے پہلے ان لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے جو یتیموں کے اموال کے نگران مقرر ہوئے ہیں کہ جب وہ یتیم سن رشد کو پہنچ جائیں تو ان کی پوری دولت انہیں لوٹا دی جائے اور یہ کہ یہ اولیاء ان یتیم لڑکیوں کے ساتھ محض اس لئے نکاح نہ کریں کہ ان کی دولت انکے قبضے میں آجائے ، ہاں یتیموں میں سے ایسے لوگ جن کے بارے میں یہ خوف ہو کہ اگر ان کی دولت ان کے حوالے کردی گئی تو وہ اسے تلف کردیں گے تو اس بات کی اجازت ہے کہ ان کی دولت انہیں نہ دی جائے اس لئے کہ ہر شخص کی دولت دراصل معاشرے کی اجتماعی دولت ہوتی ہے ۔ اس میں معاشرے کی اجتماعی مصلحت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ مال ایسے شخص کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جو اسے برباد کر دے ۔ اگرچہ وہ مالک ہو ‘ اور یہ کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق کی جائے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی آدم کی تخلیق کا تذکرہ اور یتیموں کے مال کھانے کی ممانعت ان آیات میں اول تو تمام انسانوں کو ان کے خالق ومالک اور پرورش کرنے والے سے ڈرنے کا حکم فرمایا اور یہ حکم جگہ جگہ قرآن حکیم میں موجود ہے اللہ تعالیٰ شانہ سے ڈرنا ہی سب کامیابیوں کی کنجی ہے کوئی شخص خلوت میں ہو یا جلوت میں اپنے رب تعالیٰ شانہ سے ڈرے گا اور خوف و خشیت کی صفت سے متصف ہوگا تو دنیا و آخرت میں اس کے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے۔ دنیا و آخرت کی بربادی گناہوں میں مبتلا ہونے سے ہوتی ہے اور خوف و خشیت دل میں جگہ پکڑ لے تو پھر گناہ چھوٹتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا عَلَیْکَ بتَقْوَی اللّٰہِ اَزْیَنُ لِاَمْرِکَ کُلِّہٖ (کہ تم اللہ سے ڈرنے کو لازم پکڑ لو کیونکہ اس سے تمہارے ہر کام میں زینت آجائے گی) (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤١٥) پھر رب جل شانہٗ کی صفت جلیلہ بیان فرمائی اور وہ یہ کہ اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس جان سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا پھر اس جوڑے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دنیا میں پھیلا دیا۔ ایک جان سے حضرت آدم ( علیہ السلام) مراد ہیں۔ حضرت حوا کی تخلیق : ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا [ کو ان ہی سے پیدا فرمایا صحیح مسلم صفحہ ٤٧٥: ج ١ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ کسی طریقہ پر تیرے لیے سیدھی نہیں ہوسکتی۔ سو اگر تو اس سے نفع حاصل کرنا چاہے تو اس کی کجی یعنی ٹیڑھے پن کے ہوتے ہوئے ہی نفع حاصل کرسکتا ہے اور اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے تو توڑ ڈالے گا اور اس کو توڑ دینا طلاق دینا ہے، صحیح بخاری صفحہ ٧٧٩: ج ٢ کی ایک روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے۔ قرآن مجید میں جو (وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا) فرمایا اس کی تفسیر حدیث شریف سے معلوم ہوگئی کہ حضرت حوا حضرت آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا کی گئیں۔ بہت سے لوگ جن کا مزاج معتزلہ والا ہے وہ چونکہ اپنی عقل کو پہلے دیکھتے ہیں بعد میں قرآن و حدیث پر نظر ڈالتے ہیں اور جو چیز ان کی عقل میں نہ آئے اس کے منکر ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں نے یہاں بھی ٹھوکر کھائی ہے انہوں نے حضرت حوا کا حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہونے کا انکار کیا ہے۔ آیت کو انہوں نے سمجھنا چاہا آیت کے مفہوم صریح تک ان کے ذہن کی رسائی نہیں ہوئی۔ رہی حدیث تو اس مزاج کے لوگ احادیث کو مانتے ہی نہیں۔ ھداھم اللّٰہ پھر فرمایا (وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآءً ) کہ ان دونوں (یعنی ایک مرد اور ایک عورت) سے بہت سارے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیئے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ سیدنا حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیس لڑکے اور بیس لڑکیاں پیدا ہوئیں ان ہی سے آگے نسل چلی جس سے کروڑوں انسان مرد اور عورتیں زمین پر پھیل گئے۔ (درمنثور صفحہ ١١٦: ج ٢) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا پھر ان کی بیوی پیدا فرمائی پھر ان دونوں سے خوب زیادہ نسل چلی اور پھلی پھولی اور پھیلی، موجودہ دور کے انسان اسی نسل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کو بھی سامنے رکھیں اور صفت ربوبیت کو بھی کہ اس نے پیدا فرمایا اور پرورش بھی فرمائی اور پرورش کے سامان پیدا فرمائے کئی طرح سے اس کا شکر واجب ہے اور شکر کا بہت بڑاجز و یہ ہے کہ اس کی نافرمانی نہ کی جائے۔ یعنی جو مال و اولاد اس نے عطا فرمایا ہے اس کو گناہوں سے محفوظ رکھاجائے اور انہیں اللہ کی نافرمانی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، یہ تقویٰ کی صفت ہے، شروع آیت میں تقویٰ کا حکم فرمایا اور یہ بھی بتادیا کہ تقویٰ کیوں اختیار کیا جائے ؟ جس نے اللہ تعالیٰ شانہ کی صفت خالقیت اور صفت ربوبیت کو جان لیا وہ ضرور متقی ہوگا اور خلوت و جلوت میں گناہوں سے بچے گا۔ اللہ سے ڈرنے کا حکم : پھر فرمایا (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ ) (کہ تم اللہ سے ڈرو جس کے نام کا واسطہ دے کر آپس میں ایک دوسرے سے حقوق کا مطالبہ کرتے ہو۔ ) جس نے حق مار لیا ہو یا حق دینے میں دیر لگا دی ہو اس سے کہتے ہو کہ تو خدا سے ڈرو اور میرا حق دے۔ حقوق مانگنے کے سوا دوسری ضروریات کے لیے بھی ایک دوسرے سے یوں کہتے ہو کہ اللہ کے لیے میرا یہ کام کر دو ، خدا کے لیے مجھے یہ دے دو جس خدا تعالیٰ کے نام سے اپنے کام چلاتے ہو اس سے ڈرو اور گناہوں سے بچو۔ صلہ رحمی کا حکم اور قطع رحمی کا و بال : پھر فرمایا وَ الْاَرْحَامَارحام رحم کی جمع ہے، عربی میں رحم بچہ دانی کو کہا جاتا ہے جس کے اند ماں کے پیٹ میں بچہ رہتا ہے پھر یہ کلمہ مطلقاً رشتہ داری کے تعلقات کے لیے استعمال ہونے لگا، زمانہ اسلام سے پہلے بھی اہل عرب کے نزدیک رشتہ داری کے تعلقات باقی رکھنا اور انہیں خوبی کے ساتھ نباہنا بہت اہم کام تھا۔ تعلقات باقی رکھنے کو صلہ رحمی اور تعلقات توڑ دینے کو قطع رحمی کہتے ہیں۔ اسلام نے بھی اس کی اہمیت کو باقی رکھا صلہ رحمی پر بڑے اجر وثواب کا وعدہ فرمایا اور قطع رحمی پر وعیدیں بیان فرمائیں۔ اہل عرب آپس میں صلہ رحمی کے تعلقات کو یاددلایا کرتے تھے اور قسم دلا کر کہتے کہ اے فلاں تجھے رحم کی قسم ہے تو ہماری رعایت کر اور قطع رحمی نہ کر۔ اس آیت شریفہ میں عرب کی اس عادت کو یاددلایا ہے۔ اور فرمایا کہ تم قرابت داری کے حقوق ضائع کرنے سے ڈرو۔ آپس میں ایک دوسرے کو رحم کا واسطہ دے کر جو سوال کرتے ہو اس واسطہ کی لاج رکھو اور آپس کے حقوق ضائع نہ کرو۔ صلہ رحمی کی شریعت اسلامیہ میں بھی بہت اہمیت ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جسے پسند ہو کہ اس کا رزق زیادہ کردیا جائے اور اس کی عمر بڑھا دی جائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٨٨٥: ج ١) اپنے قرابت داروں سے ملنا جلنا اور شریعت کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے آنا جانا، لینا دینا یہ سب صلہ رحمی میں شامل ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس قوم میں کوئی بھی شخص قطع رحمی کرنے والا ہو ان پر رحمت نازل نہیں ہوتی۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٢٠: ج ٢) ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا (ایضاء) سنن ابو داؤد میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے لفظ رحم کو اپنے نام سے نکالا ہے جو شخص صلہ رحمی کرے گا میں اسے اپنے سے ملا لوں گا۔ اور جو شخص قطع رحمی کرے گا میں اسے اپنے سے کاٹ دوں گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٢٠: ج ٢) آج کل قطع رحمی کا گناہ بہت عام ہے جو لوگ دینداری کے مدعی ہیں نمازوں کے پابند ہیں تہجد گزار ہیں وہ بھی اس گناہ میں مبتلا رہتے ہیں۔ کسی کا بہن کے گھر آنا جانا نہیں، کوئی بھائی سے روٹھا ہوا ہے۔ کوئی چچا سے ناراض ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے ماں باپ سے ہی تعلقات صحیح نہیں۔ لوگوں کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ غیروں کے ساتھ گزارہ کرسکتے ہیں اچھے تعلقات رکھ سکتے ہیں مگر اپنوں کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے معمولی سی باتوں کی وجہ سے قطع تعلق کر بیٹھتے ہیں۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ آپس کے تعلقات درست رکھے جائیں ایک دوسرے سے جو قصور اور کوتاہی ہوجائے اس سے درگزر کرتے رہیں اور صلہ رحمی کی فضیلت اور دنیاوی و آخروی منفعت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ حضرت عقبہ بن عامر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور آپ کا دست مبارک پکڑ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے فضیلت والے اعمال بتا دیجیے آپ نے فرمایا یَا عُقْبَۃُ صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاَعْطِ مَنْ حَرَمَکَ وَ اَعْرِضْ عَنْ مَّنْ ظَلَمَکَ (کہ اے عقبہ ! جو شخص تمہارے ساتھ قطعی رحمی کا معاملہ کرے اس سے تعلقات جوڑے رکھو اور جو تمہیں نہ دے اسے دیتے رہو اور جو شخص تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرتے رہو یعنی اس کے ظلم کی طرف دھیان نہ دو ) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یوں فرمایا : ” وَاعْفُ عَنْ مَّنْ ظَلَمَکَ “ (جو شخص تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو ) ۔ (الترغیب و الترہیب صفحہ ٣٤٢: ج ٣) جو شخص یوں کہتا ہے کہ رشتہ دار میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو میں بھی کروں گا ایسا شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں وہ تو بدلہ اتارنے والا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تعلق جوڑنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ اتار دے بلکہ تعلق جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ قطع رحمی کا برتاؤ کیا جائے تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔ (صحیح بخاری صفحہ ٨٨٦: ج ٢) حضرت ابو ہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔ (صحیح بخاری صفحہ ٨٨٩: ج ٢) اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے : پھر فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا) بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر نگران ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے۔ تمہارا کوئی عمل خیر یا شر اس کے علم سے باہر نہیں۔ وہ اعمال کے بدلے پورے پورے دیدے گا اس میں تقویٰ کے مضمون کو دوسرے الفاظ میں دہرا دیا ہے۔ جو ذات پاک خالق اور مالک ہے جسے ہر عمل کا علم ہے جو خلوتوں اور جلوتوں کے تمام اعمال کو جانتا ہے اس سے ڈرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2 یہ تخویف اخروی ہے اور اور کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا خالق اور محسن و مربی ہے اس سے ڈرو اور جو احکام آئندہ بیان ہو رہے ہیں ان کی تعمیل کرو۔ تمہاری ہر حرکت خدا کی نگاہ میں ہے وہ تمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہے اور جو اس کے احکام کی مخالفت کریگا اسے عذاب دے گا۔ تخویف اخروی کے بعد پوری سورت میں عذاب سے بچنے کے لیے تین امور بیان فرمائے۔ (1) ظلم نہ کرو۔ چناچہ احکام رعیت کا خلاصہ ہے ظلم نہ کرو۔ (2) شرک نہ کرو۔ (3) احسان کرو۔ احکام رعیت کے بعد یہ دونوں امور مذکور ہیں۔ نَفْسٍ وَّاحِدَۃً سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ جو تمام انسانوں کے باپ ہیں۔ فرعکم من اصل واحد و ھو نفس اٰدم ابیکم (مدارک ج 1 ص 185) تَسَاء لُوْنَ یہ اصل میں تَتَسَاءَلُوْنَ تھا۔ ایک تاء بطور تخفیف خذف کردی گئی ہے۔ باب تفاعل کا خاصہ اشتراک ہے۔ اس لیے تَسَاء لُوْنَ بِہٖ کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اللہ کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ ای یسال بعضکم بعضا باللہ (مدارک ج 1 ص 159) والتساء ل باللہ ھو کقولک اسالک باللہ و احلف علیک باللہ واستشفع الیک باللہ (خازن ج 1 ص 396) ۔ یا تَسَاءَلُوْنَ بمعنی تسالون مجرد ہے اور بہ میں باء زائدہ۔ اور مطلب یہ ہے کہ جس اللہ سے تم سوال کرتے اور مانگتے ہو اس سے ڈرو۔ وَالْاَرْحامَ یہ رحم کی جمع ہے اور لفظ اللہ پر معطوف ہے اور اس سے مراد قطع ارحام ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرو اور قطع رحمی سے بھی بچو۔ اتقوا الارحام ان تقطعوھا (مدارک، معالم، خازن) ۔ یہ حکم اول کی طرف اشارہ ہے۔ اصل میں یہ آیت پوری سورت کی تمہید ہے ابتداء میں تخویف اخروی کے ذریعے خبردار کیا گیا کہ آنیوالے احکام (احکام رعیت اور احکامِ سلطانیہ) کی پیروی کرو۔ ورنہ عذاب آخرت کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور آیت کے آخر میں احکام رعیت کی مناسبت سے قطع رحمی سے منع فرمایا۔ کیونکہ احکام رعیت کا تعلق تمام تر رشتہ داروں سے حسن سلوک اور حسن معاشرت سے ہے اور پھر اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْباً فرما کر اپنے بندوں کو خبردار کیا کہ اللہ کی کبھی نہ اونگھنے والی نگاہ تمہاری ہر حرکت کی نگرانی کر رہی ہے۔ تمہارے نیک و بد اعمال سب اس کے سامنے ہیں تمہاری اطاعت اور نافرمانی اس پر ظاہر و آشکارا ہے اس لیے تم سب اس کے احکام بجا لاؤ۔ اور مکافات عمل سے غافل مت ہوجاؤ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے بنی نوع انسان ! تم لوگ اپنے اس پروردگار کے احکام کی مخالفت سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا۔ اور اسی جاندار سے اس کا جوڑا یعنی حضرت حوا کو بنایا اور پھر ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت کو دنیا میں پھیلا دیا اور ہم تم کو پھر تاکیداً حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس کے نام کا واسطہ دیکر اور جس کے نام کی قسمیں دے دے کر تم اپنے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا کرتے ہو اور ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔ اور دیھکو۔ ارحام، یعنی قرابت داری اور رشتہ داری کے بارے میں احتیاط کرو اور گود پیٹ کے تعلقات منقطع کرنے سے پرہیز کرو اور رشتہ داری کے حقوق کو ضائع کرنے سے ڈرتے رہو۔ اور اس بات کا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم سب کے اعمال و احوال پر نگراں اور پوری طرح مطلع ہے (تیسیر) بث کے معنی ہیں کسی چیز کو بلا ترتیب پھیلا دینا۔ تسال کے معنی ہیں باہم ایک دوسرے سے سوال کرنا۔ پوچھ گچھ کرنا، مطالبہ کرنا اپنے اپنے حقوق طلب کرنا۔ ارحام رحم کی جمع ہے رحم عورت کی بچہ دانی کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد رشتہ داری اور قرابت کے تعقات ہیں جس کو ناتا اور گود پیٹ کے رشتے کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ احکام کے ذکر سے پہلے تقویٰ کا حکم آیا اور تقوے کے سلسلے میں اپنی ربوبیت اور خالقیت کا اظہار فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ بنی نوع انسان پر حضرت حق کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا اور پیدا کرنے کے بعد ہر اعتبار سے بتدریج اس کی ترتیب فرمائی۔ لہٰذا ایسے مربی اور ایسے خالق کے ہر حکم کی تعمیل کرنی چاہئے اور اس کے احکام کی مخالفت سے بچنا اور ڈرنا چاہئے، پھر پیدائش کے سلسلے میں تین طریقوں کا اظہار فرمایا کہ سب سے پہلے صرف مٹی سے ایک جاندار کو پیدا کیا پھر اس سے یعنی اس کی بائیں پسلی سے اس کی بیوی حوا کو پیدا کیا۔ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے اور تیسرا طریقہ وہ جو عام طور سے رائج ہے۔ اور جو اس وقت بھی دنیا میں بطور سنت اللہ کے جاری ہے۔ عقلی طریقہ سے چار صورتیں ہوسکتی تھیں ایک بن ماں باپ کے پیدا ہونا، ایک بن ماں کے پیدا ہونا، ایک بن باپ کے پیدا ہونا، ایک ماں باپ سے پیدا ہونا۔ ان چار میں سے تین کا بیان یہاں ہے اور ایک آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے ذکر میں گز چکا۔ چونکہ تمام اعمال کا مبنی تقویٰ او خشیت اللہ ہے اس لئے اپنی ذات سے ڈرنے کا پھر مکررذکر فرمایا۔ اور قرابت داری کے تعلقات سے بھی ڈرایا اور ان تعلقات میں حزم و احتیاط کی طرف اشارہ فرمایا۔ گویا اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور اس کی گرفت سے ڈرو اور رشتہ داروں کے حقوق سے ڈرتے رہو۔ چونکہ یہ دونوں چیزیں عوام میں متعارف ہیں اور اہل عرب بکثرت بولا کرتے تھے۔ اسالک باللہ اور باللہ و بالرحم اور انا شدک باللہ والرحم۔ یعنی میں تم سے خدا کا واسطہ دیکر اپنا حق مانگتا ہوں۔ یا تم کو رشتہ داری کا واسطہ دیتا ہوں کہ ایسا کرو تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں یا تم کو رشتہ داری کی قسم دیتا ہوں یا تم کو اللہ تعالیٰ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دیکر کہتاہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو تم اپنا حق مانگتے وقت استعمال کرتے ہو ان ہی چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ تم کو ڈراتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطل یہ ہے کہ اس کی قوت و طاقت اور اس کے بےپناہ عذاب سے ڈرو اور ارحام سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ رشتہ داروں اور قرابت داروں کے تعلقات کو بگاڑنے اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنے سے ڈرو۔ رقیب کے معنی دیکھ بھال کرنے والا، نگہبان ، اطلاع رکھنے والا، اردو اور فارسی کے شعراء اس لفظ کو بہت استعمال کرتے ہیں اور باوجود بکثرت مستعمل ہونے کے پھر بھی اس لفظ نے اپنے حقیقی معنی کو ترک نہیں کیا۔ بعض قراء نے ارحام کی سیم کو کسرہ پڑھا ہے۔ یعنی تساء لون باللہ وبالارحام۔ ہم نے تسہیل میں اس قرأت کا بھی خلاصہ کردیا ہے۔ حضرت عائشہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رحم عرش الٰہی کے نیچے لٹکا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے۔ سن لو ! جو مجھ کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اس کو ملائے گا۔ اور جو مجھ کو قطع کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قطع کردے گا۔ حضرت انس (رض) کی روایت میں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی خطائوں سے درگزر کیا جائے تو وہ رحم کو قطع نہ کرے۔ یعنی رشتہ داروں سے میل جول ترک نہ کرے۔ بہرحال رحم کی عظمت اور قرابت داری کی اہمیت اس سے ہی ظاہ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم کا ذکر اپنے نام کے ساتھ کیا ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اللہ ہوں میں رحمان ہوں میں نے رحم کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے جو اس کو ملائے گا میں اس کو ملائوں گا جو اس کو قطع کرے گا میں اس کو قطع کروں گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے آپس میں ہمدردی کرنی چاہئے۔ اور آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ انسانیت کا سلوک کرنا چاہئے اور جہاں اس اشتراک کے ساتھ دوسری خصوصیت بھی ہو۔ مثلاً قرابت کی تو وہاں اور زیادہ اس کا خیال رکھو۔ اور پوری احتیاط کرو اور ان کے حقوق کو مقدم رکھو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایک آدم سے جو ابنائی اور ان سے سارے لوگ اور خبردار رہونا توں سے یعنی بدسلوکی مت کرو آپس میں۔ (موضح القرآن) اس تمہید کے بعد احکام کا سلسلہ شروع فرماتے ہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو جنگ کے بعد پیش آیا کرتی ہیں۔ یعنی یتامیٰ اور مرنے والوں کی میراث، اور بیوہ عورتوں کا حکم۔ کیونکہ مردوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور عورتیں چونکہ معرکہ میں کم جاتی ہیں اس لئے ان کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے اس لئے یتامیٰ کا حکم بیان فرماتے ہیں (تسہیل)