Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 100

سورة النساء

وَ مَنۡ یُّہَاجِرۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یَجِدۡ فِی الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا وَّ سَعَۃً ؕ وَ مَنۡ یَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَیۡتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ یُدۡرِکۡہُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۰۰﴾٪  11

And whoever emigrates for the cause of Allah will find on the earth many [alternative] locations and abundance. And whoever leaves his home as an emigrant to Allah and His Messenger and then death overtakes him - his reward has already become incumbent upon Allah . And Allah is ever Forgiving and Merciful.

جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی ، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف نکل کھڑا ہوا پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالٰی کے ذِمّہ ثابت ہوگیا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللّهِ يَجِدْ فِي الاَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ... He who emigrates in the cause of Allah, will find on earth many dwelling places and plenty to live by. this encourages the believers to perform Hijrah and abandon the idolators, for wherever the believer emigrates, he will find a safe refuge to resort to. Mujahid said that, مُرَاغَمًا كَثِيرًا (many dwelling places) means, he will find a way out of what he dislikes. Allah's statement, وَسَعَةً (and plenty to live by). refers to provision. Qatadah also said that, يَجِدْ فِي الاَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً (...will find on earth many dwelling places and plenty to live by) means, Allah will take him from misguidance to guidance and from poverty to richness. Allah's statement, ... وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلى اللّهِ ... And whosoever leaves his home as an emigrant unto Allah and His Messenger, and death overtakes him, his reward is then surely, incumbent upon Allah. means, whoever starts emigrating and dies on the way, he will acquire the reward of those who emigrate for Allah. The Two Sahihs, along with the Musnad and Sunan compilers, recorded that Umar bin Al-Khattab said that the Messenger of Allah said, إِنَّمَا الاَْعْمَالُ بِالنِّــيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِىءٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلى مَا هَاجَرَ إِلَيْه The reward of deeds depends upon the intentions, and every person will be rewarded according to what he has intended. So, whoever emigrated to Allah and His Messenger, then his emigration is for Allah and His Messenger. And whoever emigrated for worldly benefits or for a woman to marry, his emigration is for what he emigrated for. This Hadith is general, it applies to Hijrah as well as every other deed. In the Two Sahihs, it is recorded that; a man killed ninety-nine people and completed the number one hundred when he killed a worshipper. He then asked a scholar if he has a chance to repent. The scholar said, "What prevents you from repentance!" The scholar told the killer to emigrate from his land to another land where Allah is worshipped. When he left his land and started on the migration to the other land, death overtook him on the way. The angels of mercy and the angels of torment disputed about the man, whereas the former said that he went out in repentance, while the latter said that he did not arrive at his destination. They were commanded to measure the distance between the two lands and to whichever land he is closer to, he will be considered part of that land. Allah commanded that the righteous land to move closer and the land of evil to move farther. The angels found that he died closer to the land that he intended to emigrate to by a hand-span, and thus the angels of mercy captured his soul. In another narration, when death came to that man, he moved his chest towards the righteous village that he emigrated to. ... وَكَانَ اللّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا And Allah is Ever Oft-Forgiving, Most Merciful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے دوری اختیار کرنے کی تلقین ہے مُرَاغَمَا کے معنی جگہ، جائے قیام یا جائے پناہ اور سَعَۃَ سے رزق یا جگہوں اور ملکوں کی کشادگی و فراخی ہے۔ 100۔ 2 اس میں نیت کے مطابق اجر وثواب ملنے کی یقین دہانی ہے چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ آیتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لئے نیکوں کی ایک بستی میں جا رہا تھا کہ راستے میں موت آگئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نیکوں کی بستی کو نسبت دوسری بستی کے قریب تر کردیا جس کی وجہ سے اسے ملائکہ رحمت اپنے ساتھ لے گئے، اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے لیکن راستے میں اسے موت آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ملے گا، گو ابھی وہ ہجرت کے عمل کو پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچ سکا ہو جیسے حدیث میں بھی آیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (انما الاعمال بالنیات) عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے " وانمالکل امریء مانویٰ ) آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی " جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہجرت کی پس، اس کی ہجرت ان ہی کے لئے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس نیت سے اس نے ہجرت کی " (صحیح بخاری، باب بدء الوحی ومسلم، کتاب الامارۃ) یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر کام کو شامل ہے۔ یعنی اس کو کرتے وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی تو وہ مقبول، ورنہ مردود ہوگا)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٦] ہجرت کے مقاصد اور ضرورت :۔ ہجرت اس لیے فرض کی گئی تھی کہ ایک تو مسلمان کفار کے تشدد سے آزاد ہو کر اپنے اسلامی شعائر آزادی کے ساتھ بجا لاسکیں۔ اور دوسرے اس لیے کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ پھر جب مکہ فتح ہوگیا اور پورے خطہ عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو پھر ہجرت کی ضرورت نہ رہی۔ جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب تاقیامت ہجرت فرض نہیں۔ بلکہ جب بھی دوبارہ ایسا موقع پیدا ہوجائے کہ کسی علاقہ میں مسلمانوں کو اپنے شعائر اسلام کو بجا لانا بھی مشکل ہو رہا ہو تو مسلمانوں کو کوئی ایسا خطہ تلاش کرنا چاہیے جہاں انہیں آزادی سے شعائر اسلام بجا لانے کی سہولت میسر ہو اور اپنے میں سے کوئی امیر منتخب کر کے اس طرف ہجرت کرنا اور اپنی اجتماعی قوت کو مرکوز کرنا اور پھر جہاد کرنا سب کچھ فرض ہوجائے گا۔ بلکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہجرت بھی جہاد کا ہی ایک حصہ ہوتی ہے۔ پھر جب اس علاقہ میں اسلام کا غلبہ ہوجائے تو وہاں بھی ہجرت کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ دارالکفر میں رہنے کی رخصت کی شرائط :۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کا دارالکفر میں رہنے کا جواز صرف دو صورتوں میں ہے ایک یہ کہ کوئی شخص اس خطہ میں اسلام کو غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد میں لگا رہے۔ جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ فی الواقع وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو۔ اور بیزاری اور نفرت سے مجبوراً وہاں رہ رہا ہو۔ ان صورتوں کے علاوہ دارالکفر میں رہنا مستقل معصیت ہے۔ [١٣٧] اللہ کا غفور الرحیم ہونا :۔ اس آیت میں صرف ہجرت کے سفر کا ذکر ہے۔ جبکہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ کی راہ میں کوئی سفر کیا جائے خواہ یہ ہجرت کا سفر ہو یا جہاد کا سفر ہو یا حج وعمرہ کا سفر ہو یا دینی علوم کے حصول کے لیے سفر ہو، اور دوران سفر حصول مقصد سے بعد یا پہلے موت واقع ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کا پورا پورا اجر عطا کردیتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا && بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے لگا۔ وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور اسے پوچھا : کیا میرے لیے (توبہ کی) گنجائش ہے ؟ && اس نے کہا && نہیں && تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا (اور سو پورے کردیے) پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی آدمی نے اسے کہا کہ فلاں فلاں بستی میں (توبہ کے لیے) چلے جاؤ۔ راستہ ہی میں اسے موت نے آلیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ ابرحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ جس بستی کی طرف وہ جا رہا تھا اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ نزدیک ہوجا اور جس بستی سے جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ دور ہوجا۔ اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ناپ لو۔ چناچہ جہاں اسے جانا تھا وہ بستی ایک بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ && (بخاری، کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مُرٰغَمًا : یہ ام ظرف ہے، یعنی مَوْضِعَ رَغْمِ الْاَعْدَاء دشمنوں کی ناک خاک آلود ہونے کی جگہ، جس سے دشمن ذلیل ہوں۔ ” مراغم “ کے معنی جگہ، جائے قیام اور جائے پناہ بھی آتے ہیں۔ ہجرت کر کے نکلنے کے بعد حاصل ہونے والی جائے قیام کو ” مراغمًا “ اس لیے فرمایا کہ وہ تمام دشمنوں کی ناک کو خاک آلود کردیتی ہے۔ (قرطبی) اس آیت میں اگرچہ ان لوگوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جو مکہ اور دوسرے مقامات پر دارالکفر میں زندگی بسر کر رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے، لیکن یہ آیت عام ہے اور متعدد احادیث میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے اور وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے گا اور اس کی طرف سے بڑی وسعت بھی ملے گی۔ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ ۔۔ : اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو خلوص نیت سے ہجرت کرتے ہیں مگر راستے میں ان کا وقت آخر آجاتا ہے تو ان کا اجر اللہ پر ثابت ہوجاتا ہے، کیونکہ اصل مدار نیت پر ہے، جیسا کہ مشہور حدیث ہے : ( اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ ) [ بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی ۔۔ : ١] ” تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ “ چناچہ خالد بن حزام (رض) حبشہ کی طرف ہجرت کر کے نکلے، انھیں ایک سانپ نے ڈس لیا تو ان کے بارے میں یہ آیت اتری : ( و من یخرج من بیتہ ) [ ابن أبی حاتم : ٣؍٣٢٨، ح : ٥٨٨٨، حسن ] سو آدمیوں کو قتل کر کے ہجرت کرنے والے شخص کا قصہ بھی اس کی دلیل ہے۔ 3 ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دار السلام کی طرف منتقل ہونا، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تا قیامت باقی ہے جس ہجرت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لاَ ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ “ (فتح کے بعد ہجرت نہیں) فرما کر منسوخ فرمایا ہے، وہ مکہ یا کسی بھی جگہ سے مدینہ کی طرف ہجرت تھی۔ اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنی چاہیے، امام مالک (رض) فرماتے ہیں : ” کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔ “ علی ہذا القیاس جس علاقے میں حلال روزی نہ ملتی ہو، یا دین میں فتنے کا خوف ہو وہاں سے بھی ہجرت کرنی چاہیے۔ (قرطبی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَنَا بَرِئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْھُرِ الْمُشْرِکِیْنَ ) ” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان مقیم ہو۔ “ [ أبو داوٗد، الجہاد، باب النھی عن قتل من اعتصم بالسجود : ٢٦٤٥ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Definition of Hijrah In the four verses cited above, the merits, blessings and injunctions of Hijrah have been described. Lexically, Hijrah, Hijran and Hajr mean &being displeased with something and leaving it&. In common parlance, the leaving of one&s home country is known as Hijrah. In the terminology of the Shari’ ah, leaving Dar al-Kufr (Homeland of disbe¬lievers) and going to Dar al-Islam (Abode of Islam) is called Hijrah (Ruh al-Ma&ani). In Sharh al-Mishkah, Mulla ` Ali al-Qari has said: Leaving a home country for religious reasons is also included under Hijrah (Mirqat, p. 39, v.l). From the verse الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِمْ وَأَمْوَالِهِمْ (59:8): &Those who have been driven away from their homes ...& revealed about emigrating Compan¬ions, we know if disbelievers of a country forcibly expel Muslims because they are Muslims, this too will be included under Hijrah. From this definition, we learn that Muslims migrating from India to Pakistan who came here out of disgust for Dar al-Kufr at their own choice or were driven away by non-Muslims simply because they were Muslims, are all &Muhajirs& in the Islamic legal sense. But, those who have moved to benefit from business or employment opportunities are not entitled to be called &Muhajir& in that Islamic legal sense. Then, there is the hadith from al-Bukhari and Muslim in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: اَلمُھَاجِرُ مَن ھَجَرَ مَا نَھَی اللہَ عَنہُ وَرَسُولُہ Muhajir is one who leaves everything Allah and His Messenger have prohibited. The full sense of the saying becomes clear from the first sentence of this very liadith which is as follows: اَلمُسلِم مَن سَلِمَ الممُسلِمُونَ مِن لِّسَانِہ وَیَدہہِ A Muslim is the one from whom all Muslims remain safe - (safe) from his tongue and (safe) from his hands. (Tirmidh, Kitab al-&Iman) As obvious, it means that a &true and staunch Muslim has to be the one who hurts none. Similarly, a true and successful Muhajir is the one who does not consider migration from his home country as the ultimate obligation. He should, rather, leave everything else the Shari’ ah has declared to be unlawful or impermissible. Said poetically, it would be saying something like: اپنے دل کو بھی بدل جامہ احرام کے ساتھ (When you change into the Ihiram garment, better change your heart too! )The Merits of Hijrah Just as the verses about Jihad are spread out all over in the Holy Qur&an, Hijrah too has been mentioned many times in most of the Surahs. A cumulative view of these verses shows that there are three kinds of themes in verses relating to Hijrah. Firstly, there are the merits of Hijrah; secondly, it’ s worldly and other-worldly blessings; and thirdly, warnings against not migrating from Dar al-Kufr despite having the ability to do so. As for the merits of Hijrah, there is a verse in Surah al-Baqarah: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ يَرْ‌جُونَ رَ‌حْمَتَ اللَّـهِ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٢١٨﴾ As for those who believed and those who migrated and carried out Jihad in the way of Allah, they do hope for Allah&s mercy and Allah is Forgiving, Very-Merciful - (2:218). The second verse appears in Surah al-Taubah: الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَ‌جَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٢٠﴾ And those who believed and emigrated and took up Jihad in the way of Allah with their wealth and lives are greater in rank in the sight of Allah - and they are the successful ones - (9:20). The third verse belongs to Surah al-Nis-a& and appears right here as part of the set of verses under study: وَمَن يَخْرُ‌جْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرً‌ا إِلَى اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ثُمَّ يُدْرِ‌كْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّـهِ And whoever migrates in the way of Allah shall find in the earth many a place to settle and a wide dimension (of resources). And whoever leaves his home migrating for the sake of Allah and His Messenger and death overtakes him, then, his reward is established with Allah. And Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful - (4:100). According to some narrations, this last verse was revealed about Sayyidna Khalid ibn Hizam at the time of the migration to Ethiopia. He had left Makkah on his way to Ethiopia with the intention of Hijrah. Enroute, a snake bit him which caused his death. In short, the three verses cited above have clearly emphasized Hijrah from Dar al-Kufr (migration from the Abode of Disbelief) and the many merits it has. In a hadith, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has said: اَلھِجرَۃُ تَھدِمُ مَا کَانَ قَبلَھَا ، meaning: Hijrah will undo all sins which may have been committed before it. The Blessings of Hijrah As for blessings, a verse from Surah al-Nahl says: وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا فِي اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ‌ الْآخِرَ‌ةِ أَكْبَرُ‌ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾ And those who migrated for the sake of Allah after they were subjected to injustice, to them We shall give a good place to be in the world while the reward of the Hereafter is certainly great - only if they had realized! (16:41) The fourth verse of the set of four verses (97-100) appearing at the head of this part of the Commentary deals with approximately the same subject. There it has been said: وَمَن يُهَاجِرْ‌ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يَجِدْ فِي الْأَرْ‌ضِ مُرَ‌اغَمًا كَثِيرً‌ا وَسَعَةً And whoever migrates in the way of Allah shall find in the earth many a place to settle and a wide dimension (of resources). The word &muragham& مُرَ‌اغَم in the verse is a verbal noun which means to move from one land to the other& and the place to which one moves and settles is also called &muragham&. Both these verses quoted above tell us about the open and the hidden blessings of Hijrah where Almighty Allah has promised to everyone who migrates for the sake of Allah and His Messenger that He shall open new opportunities in the world for them and give them a good home to settle. As for the rewards and ranks of the Hereafter, they are beyond any reach of expectation or imagination. The words لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً &which promise &a good place to be& in the world have been interpreted variously. Mujahid explains it as &lawful sustenance&, Hasan al-Basri (رح) as &good home& while some other commen¬tators have interpreted it as &superiority in excellence, honour and power over antagonists.& The truth of the matter is that all these elements are included within the sense of the verse. World history bears witness that whoever has left his homeland for the sake of Allah, to him Almighty Allah has given a home far better than what he had earlier, far more honour and far more comfort. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) migrated to Syria from his homeland in Iraq - Allah gave him all those things. Sayyidna Musa and the Bani Isra&il migrated from Egypt, their homeland for the sake of Allah, then He gave them the land of Syria, a better homeland. Then, they got Egypt too. When our master and the last of the prophets, Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Companions left Makkah for the sake of Allah and His Messenger, these blessed emigrants found the best of shelter in Madinah, far better than Makkah. There they had honour and power and peace and prosperity. Of course, this does not include the transitory hardship faced during the early period of Hijrah. But, soon after that, the bless¬ings, which were showered on these people and which continued through several generations, shall be the proper yardstick in this matter. Events related to the poverty and hunger of Noble Companions so well-known belong generally to the early period of Hijrah; or, go as what can be called volitional acceptance of poverty, a dignified attitude of readiness to live with less (Faqr). In other words, they just did not like worldly wealth and property as a result of which they lost no time in spending what they received, in the way of Allah. This was very much the state in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) lived. His lack of means and patience in hunger were simply voluntary. He just did not choose to be rich. Nonetheless, during the sixth year of Hijrah, after the conquest of Khyber, things had changed and sufficient means of sustenance were available for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his family. The same was the case with all righteous caliphs. When they reached Madinah, Allah had given them everything they needed. But, when Islam needed their support, Sayyidna Abu Bakr (رض) came forward and donated everything he had in his house. The Mother of the Faithful, Sayyidah Zaynab (رض) would give away all her stipend money to the poor and the needy and remain satisfied living indigently. For this reason, she was called &The Mother of the Needy&. On the other side, no less in number were the rich ones among the Companions (رض) who left wealth and property behind. There were many among the Companions who were poor in their home-city of Makkah but Allah Almighty made them rich and happy after Hijrah. Sayyidna Abu Hurairah (رض) can be cited as a good example. When he was appointed the governor of a province, he used to enjoy talking about his past with unusual relish. He would formally address himself and say: &0 Abu Hurairah, you are the same man, the servant of a tribe. Your salary was what you could eat. Your duty was to walk with those who rode on a journey and your duty was to collect firewood for them when they broke their journey at a certain stage. Today, because of Islam, you are here, so high from so low, and they call you the Commander of the Faithful! In summation, it can be said that the world has openly witnessed the fulfillment of the promise Allah has made in the Qur&an. However, the verse has put a condition that they must be &true emigrants for the sake of Allah&, a substantiation of Hajaru fi-llah. This kind of emigrant should have not migrated for the sake of wordly wealth, office, power, recognition, honour or influence. Otherwise, in a hadith of al-Bukhari, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has also been reported to have said: &Those who migrate for the sake of Allah and His Messenger, their migration is precisely for Allah and His Messenger.& It means that this is the correct mode of Hijrah the merits and blessings of which appear in the Qur&an. As for those who migrate to make money or marry a woman, their compensation against Hijrah is exactly what they migrated for. In our time, some groups of muhajirin (emigrants) who are living in distress are either in that transitory stage of the early period of Hijrah which is usually marked with hardships, or they are not Muhajirs in the real sense. They should correct their intention and take charge of the circumstances under which they live. After their intention and their corresponding deeds have been corrected, they shall witness the truth of Allah&s promise with their own eyes.

معارف ومسائل ہجرت کی تعریف :۔ ان چار آیتوں میں ہجرت کے فضائل، برکات اور احکام کا بیان ہے لغت میں ہجرت، ہجران اور ہجر کے معنی ہیں کسی چیز سے بیزار ہو کر اس کو چھوڑ دینا اور محاورات عامہ میں ہجرت کا لفظ ترک وطن کرنے کے لئے بولا جاتا ہے، اصطلاح شرع میں دارالکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام میں چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں (روح المعانی) اور ملا علی قاری نے شرح مشکوة میں فرمایا کہ کسی وطن کو دینی وجوہ کی بناء پر چھوڑ دینا بھی ہجرت میں داخل ہے (مرقاة صفحہ ٩٣ جلد ١) سور حشر کی آیت الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم جو مہاجرین صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک کے کافر مسلمانوں کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے زبردستی نکال دیں تو یہ بھی ہجرت میں داخل ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ ہندوستان سے پاکستان کی طرف منتقل ہونے والے مسلمان جو دارالکفر سے بیزاری کے سبب باختیار خود اس طرف آئے ہیں یا جن کو غیر مسلموں نے محض ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے زبردستی نکال دیا ہے، یہ سب لوگ شرعی معنی کے اعتبار سے مہاجر ہیں، البتہ جو تجارتی ترقی یا ملازمت کی سہولتوں کی نیت سے منتقل ہوئے وہ شرعاً مہاجر کہلانے کے مستحق نہیں۔ اور صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” یعنی مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔ “ سو اس کا مطلب اسی حدیث کے پہلے جملے سے ظاہر ہوجاتا ہے جس میں یہ ارشاد ہے : ” یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے سب مسلمان محفوظ اور سلامت رہتے ہوں “ مراد اس کی ظاہر ہے کہ سچا اور پکا مسلمان وہی ہے جو دوسروں کو ایذاء نہ پہونچائے، اسی طرح سچا اور کامیاب مہاجر وہی ہے جو صرف ترک وطن کر کے فارغ نہ ہوجائے، بلکہ جتنی چیزیں شریعت نے حرام و ناجائز قرار دی ہیں ان سب کو بھی چھوڑ دے۔ اپنے دل کو بھی بدل جامہ احرام کے ساتھ ہجرت کے فضائل :۔ قرآن کریم میں جس طرح جہاد کے متعلق آیات پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اسی طرح ہجرت کا ذکر بھی قرآن کریم کی اکثر سورتوں میں متعدد مرتبہ ہے، سب آیات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہا آیت ہجرت میں تین قسم کے مضامین ہیں، اول ہجرت کے فضائل، دوسرے اس کے دنیاوی اور اخروی برکات، تیسرے باوجود قدرت کے دارالکفر سے ہجرت نہ کرنے پر وعیدیں۔ پہلے مضمون یعنی ہجرت کے فضائل کی ایک آیت سورة بقرہ میں ہے : ” یعنی وہ جوا یمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے۔ “ ” یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑے درجہ میں ہیں اور یہی لوگ کامیاب بامراد ہیں۔ “ ” یعنی جو شخص اللہ اور رسول کے لئے اپنے گھر سے بہ نیت ہجرت نکل کھڑا ہوا پھر اس کو راستہ ہی میں موت آگئی تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہوگیا۔ “ یہ آیت بعض روایات کے مطابق حضرت خالد بن حزام کے بارے میں ہجرت حبشہ کے زمانہ میں نازل ہوئی، یہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت پر نکلے تھے، راستہ میں ان کو سانپ نے کاٹ لیا، جس سے ان کی موت واقع ہوگئی، بہرحال ان تینوں آیتوں میں دارالکفر سے ہجرت کی ترغیب اور اس کے بڑے فضائل کا بیان واضح طور پر آ گیا۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : الھجرة تھدم ماکان قبلھا ” یعنی ہجرت ان سب گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔ “ ہجرت کی برکات :۔ برکات کے متعلق سورة نحل کی ایک آیت میں ارشاد ہے : ” یعنی جن لوگوں نے اللہ کے لئے ہجرت کے بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا ثواب تو بہت بڑا ہے، کاش یہ لوگ سمجھ لیتے۔ “ سورة نساء کی چار آیتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں ان میں سے چوتھی آیت کا بھی تقریباً یہی مضمون ہے جس میں ارشاد ہے : ” یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ پائے گا زمین میں جگہ بہت اور کشائش “ آیت کا لفظ مراغم مصدر ہے جس کے معنی ہیں ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف منتقل ہونا اور منتقل ہونے کی جگہ کو بھی مراغم کہہ دیا جاتا ہے۔ ان دونوں آیتوں میں ہجرت کی برکات ظاہرہ وہ باطنہ کا بیان ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ جو شخص اللہ اور رسول کے لئے ہجرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا میں راہیں کھول دیتے ہیں اور اس کو دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا دیتے ہیں اور آخرت کے ثواب درجات تو وہم و گمان سے بالاتر ہیں۔ اچھے ٹھکانے کی تفسیر مجاہد نے رزق حلال سے اور حسن بصری نے عمدہ مکان سے اور بعض دوسرے مفسرین نے مخالفین پر غلبہ اور عزت و شرف سے کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آیت کے مفہوم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں، چناچہ تاریخ عالم شاہد ہے کہ جب کسی نے اللہ کے لئے وطن چھوڑا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو وطن کے مکان سے بہتر مکان وطن کی عزت و شرف سے زیادہ عزت، وطن کے آرام سے زیادہ آرام عطا کیا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے عراقی وطن کو چھڑ کر شام کی طرف ہجرت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے یہ سب چیزیں ان کو نصیب فرمائیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل نے اللہ کے لئے اپنے وطن مصر کو چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر وطن ملک شام کا عطا فرمایا اور پھر مصر بھی ان کو مل گا، ہمارے آقا حضرت خاتم النبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے اللہ و رسول کے لئے مکہ کو چھوڑا تو مہاجرین کو مکہ سے بہترین ٹھکانا مدینہ میں نصیب ہوا، ہر طرح کی عزت و غلبہ اور راحت و ثروت عطا ہوئی، ہجرت کے ابتدائی دور میں چند روزہ تکلیف و مشقت کا اعتبار نہیں، اس عبوری دور کے بعد جو نعمتیں حق تعالیٰ کی ان حضرات کو عطا ہوئیں اور ان کی کئی نسلوں میں جاری رہیں اسی کا اعتبار ہوگا۔ صحابہ کرام کے فقر و فاقہ کے جو واقعات تاریخ میں مشہور ہیں وہ عموماً ہجرت کے ابتدائی دور کے ہیں یا وہ فقہ اختیاری کے ہیں کہ انہوں نے دنیا و مال و دولت کو پسند ہی نہیں کیا اور جو حاصل ہوا اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا، جیسا کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا حال یہی تھا کہ آپ کا فقر و فاقہ محض اختیاری تھا، آپ نے غناء و مال داری کو اختیار نہیں فرمایا اور اس کے باوجود ہجرت کے چھٹے سال میں فتح خیبر کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب اہل و عیال کے گذارہ کافی انتظام ہوگیا تھا، اسی طرح خلفائے راشدین میں سب کا یہی حال تھا کہ مدینہ پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو سب کچھ دیا تھا لیکن اسلامی ضرورت پیش آنے پر حضرت صدیق اکبر نے اپنے گھر کا پورا مال لا کر پیش کردیا، ام المومنین حضرت زینب کو جو کچھ وظیفہ ملتا وہ سب فقراء و مساکین میں تقسیم کر کے خود فقیرانہ زندگی گذارتی تھیں اسی وجہ سے ان کا لقب ام المساکین ہوگیا تھا اور اس کے باوجود اغنیاء صحابہ جنہوں نے بڑی مقدار میں مال و جائیداد چھوڑی ان کی مقدار بھی صحابہ کرام میں کم نہیں، بہت سے حضرات صحابہ ایسے بھی تھے جو اپنے وطن مکہ مکرمہ میں مفلس و نادار تھے، ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو مال و دلت اور ہر طرح کی رفاہیت عطا فرمائی، حضرت ابوہریرہ (رض) جب ایک صوبہ کے والی بنا دیئے گئے تو بڑے لطف سے اپنی سابقہ زندگی کا نقشہ اتارا کرتے تھے اور اپنے نفس کو خطاب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ ابوہریرہ ! تو وہی ہے کہ فلاں قبیلہ کا نوکر تھا اور تیری تنخواہ صرف پیٹ بھرائی روٹی تھی اور تیری ڈیوٹی یہ تھی کہ جب وہ لوگ سفر میں جائیں تو پیدل ان کے ساتھ چلے اور جب وہ کسی منزل پر اتریں تو تو ان کے لئے جلانے کی لکڑیاں چن کر لائے، آج اسلام کی بدولت تو کہاں سے کہاں پہنچا، تجھ کو امام اور امیر المومنین کہا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ مہاجرین کے لئے قرآن میں فرمایا اس کو دنیا نے پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، البتہ اسی آیت میں شرط یہ ہے کہ ہاجروا لفی اللہ کے مصداق ہوں، دنیا کے مال و دولت یا حکومت و سلطنت یا عزت وجاہ کی طلب میں ہجرت نہ کی ہو ورنہ صحیح بخاری کی حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ بھی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نیت سے ہجرت کرتا ہے تو ان کی ہجرت اللہ اور رسول ہی کے لئے ہے یعنی یہ صحیح ہجرت ہے جس کے فضائل و برکات قرآن میں مذکور ہیں اور جس شخص نے کسی مال کی طلب یا کسی عورت کے نکاح کے خیال سے ہجرت کی ہو تو اس کی ہجرت کا معاوضہ وہی چیز ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔ آج جو بعض مہاجرین پریشان حال ہیں یا تو ابھی وہ اس عبوری دور میں ہیں جس میں ابتدائی ہجرت کے وقت پریشانی پیش آیا کرتی ہے، یا پھر وہ صحیح معنی میں مہاجر نہیں ان کو اپنی نیت اور حال کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے، نیت اور عمل کی اصلاح کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی سچائی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً۝ ٠ۭ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ يُدْرِكْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَي اللہِ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ١٠٠ۧ هجر والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . ( ھ ج ر ) الھجر المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ رغم ( مراغما) ، اسم مکان من راغم الرباعي فهو علی وزن اسم المفعول وزنه مفاعل بضم المیم وفتح العین . الرَّغَامُ : التّراب الدّقيق، ورَغِمَ أنفُ فلانٍ رَغْماً : وقع في الرّغام، وأَرْغَمَهُ غيره، ويعبّر بذلک عن السّخط، کقول الشاعر :إذا رَغِمَتْ تلک الأنوف لم أرضها ... ولم أطلب العتبی ولکن أزيده فمقابلته بالإرضاء ممّا ينبّه دلالته علی الإسخاط . وعلی هذا قيل : أَرْغَمَ اللہ أنفه، وأَرْغَمَهُ : أسخطه، ورَاغَمَهُ : ساخطه، وتجاهدا علی أن يُرْغِمَ أحدهما الآخر، ثمّ تستعار الْمُرَاغَمَةُ للمنازعة . قال اللہ تعالی: يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُراغَماً كَثِيراً [ النساء/ 100] ، أي : مذهبا يذهب إليه إذا رأى منکرا يلزمه أن يغضب منه، کقولک : غضبت إلى فلان من کذا، ورَغَمْتُ إليه . ( ر غ م ) الرغام اصل میں خاک کو کہتے ہیں اور رغم انف فلان کے معنی ہیں اس کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل ہو اور ارغمہ کسی کو ذلت کے ساتھ خاک میں ملا دینا ۔ مجازا رغمہ انف فلان کے معنی ناراض ہونا بھی آتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے إذا رَغِمَتْ تلک الأنوف لم أرضها ... ولم أطلب العتبی ولکن أزيدها اگر وہ ناراض ہوں گے تو میں ان کے راضی کرنے کی کوشش نہیں کرونگا بلکہ اس کی ناراضگی کو اور بڑھاونگا ۔ یہاں پر رغم کو ارضاء کے بالمقابل لانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے معنی سخط یعنی غصے اور ناراض ہونے کے ہیں ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے ۔ ارغم اللہ انف فلاں او ارغمہ یعنی اللہ اسے ذلیل کرے اور راغمہ ( باب مفاعلہ ) کے معنی باہم ناراض ہونے اور ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کی کوشش کے ہیں بعد ازاں مراغمہ کا لفظ منازعت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اور آیت :۔ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُراغَماً كَثِيراً [ النساء/ 100] تو روئے زمین میں اس کو رہنے سہنے کی وافر جگہ اور ہر طرح کی کشائش ملے گی ۔ میں مراغما سے مراد پناہ گاہ ہے یعنی برائی کو دیکھ کر اسے روکنے کی کوشش کرے اگر اس سلسلہ میں اسے وطن بھی ترک کرنا پڑے تو ہراساں نہ ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے کوئی اچھی پناہ گاہ دے گا ۔ جہاں اسے وسعت اور فراخی نصیب ہوگی اور یہ رغمت الیہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کے پاس چلا جانا ۔ جیسے غضبت الی فلان من کذا یعنی ناراض ہو کر فلاں کے پاس چلا گیا ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینک مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ہجرت کی فضیلت قول باری ہے (ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیرا واسعۃ، جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسراوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا۔ ایک قول ہے کہ مراغم سے اللہ نے ہجرت کے لیے کافی گنجائش اور بہت جگہ مراد لی ہے اس لیے کہ رغم کے اصل معنی ذلت اور عاجزی کے ہیں، آپ کہتے ہیں ، فعلت ذالک علی الرغم من فلاں، یعنی میں نے یہ کام فلاں شخس سے عاجز اور مجبور ہونے کی بنا پر کیا ہے دغام مٹی کو کہتے ہیں کیونکہ مٹی ہراس شخص کو میسر ہوتی ہے جوا سے حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو، محاورہ ہے ارغم اللہ انقہ، یعنی اللہ اسے ذلیل کرنے کے طور پر اس کی ناک خاک آلود کردے۔ ارشاد باری ہے (ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیر ا وسعۃ) یعنی وہ زمین میں بڑی کشادگی اور سہولت پائے گا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے (ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور۔ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے مسخر کردیاسوتم اس کے راستوں پرچلو پھرو اور اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے کھاؤ پیو اور اسی کے پاس زندہ ہوکرجانا ہے مراغم اور رذول دونوں الفاظ متقارب المعنی ہیں مراغم کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد وہ اقدام ہے جس کے ذریعے کوئی شخص ہجرت کے راستے میں رکاوٹ بننے والے شخص کو مغلوب کرلے۔ قول باری (سعۃ ) کے متعلق حضرت ابن عباس ، ربیع بن انس، اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے رزق میں کشائش مراد ہے قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد دین کے اظہار میں کشادگی اور گنجائش ہے اس لیے مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کے دین کے معاملے میں اس قدر تنگی پیدا کردی گئی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو کھلم کھلا اس کے اظہار سے بھی روک دیا تھا۔ قول باری ہے (ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکۃ الموت فقد واقع اجرہ علی اللہ ۔ اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے اور پھر راستے ہی میں اسے موت آجائے اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا، آیت میں اس شخص کے لیے اجر کے واجب ہوجانے کی خبر دی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے خواہ اس کی ہجرت مکمل نہ بھی ہوسکے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص کسی عبادت اور تقرب الٰہی کے کام کی نیت سے نکلے گا تو خواہ وہ یہ کام سرانجام دینے سے بچھڑ ہی کیوں نہ جائے اللہ تعالیٰ اسے اس کی نیت کوشش کے مطابق ضرور بدلہ دیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے ارادے سے نکلنے والے شخص کے لیے اجر واجب کردیاخواہ س کی ہجرت کی تکمیل نہ بھی ہوسکی ہو۔ اس میں امام ابویوسف اور امام محمد کے قول کی صحت پر دلالت موجود ہے کہ اگر ایک شخص حج کے ارادے سے گھر سے نکل پڑے اور راستے میں اس کی وفات ہوجائے اور اس نے مرنے سے پہلے کسی کو اس کی طرف سے حج کرنے کی وصیت کی ہو تو وہ شخص اس جگہ سے حج کا سفر شروع کرے گا جہاں اس وصیت کرنے والے کی موت واقع ہوئی تھی۔ اسی طرح میت کی طرف سے یا اس شخص کی طرف سے جس پر خود حج کرنا فرض نہ ہو حج کرنے والا اسی جگہ سے حج کا عمل شروع کرے گا جہاں حج کا ارادہ کرنے والے کی موت واقع ہوئی ہوگی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرنے والے کے لیے اس کے سفر اور اخراجات کی مقدار جو فرض کردیا۔ اب چونکہ اس اجر کا حساب مرنے والے کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا اس لیے صرف یہ بات ضروری ہوگی کہ اس کے حج کا باقی ماندہ حصہ اس کی طرف سے ادا کردیاجائے گا، اس میں یہ بھی دلالت موجود ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اگر نماز یا حج کے سوا کسی اور کام کے لیے گھر سے نکلوں تومیراغلام آزاد ہے۔ پھروہ نماز یا حج کے ارادے سے گھر سے نکلے لیکن نہ نماز پڑھے اور نہ ہی حج کرے بلکہ کسی اور کام کی طرف متوجہ ہوجائے تو اس صورت میں وہ اپنی قسم سے حانث نہیں ہوگا، یعنی اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی ، کیونکہ ابتداء میں اس کا گھر سے نکلنا نماز یا حج کے لیے تھا جو اس کی نیت کے ساتھ مقرون تھا۔ جس طرح وہ شخص جو رضائے الہی کی خاطر ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلا ہوا، اور پھر دارالحجرت تک پہنچنے سے پہلے موت اس کے آڑے آگئی ہو اس سے اس کے گھر سے نکلنے کا وہ حکم باطل نہیں ہوگاجوابتداء ہی میں اس کے اس خروج کو لاحق ہوگیا تھا، یعنی دارالہجرت تک پہنچ نہ پاسکنے کے باوجود بھی وہ مہاجر ہی شمار ہوگا۔ اسی بنا پر حضور نے فرمایا، (الاعمال بالنیات ولکل امری، فمن کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھرجتہ الی اللہ ورسولہ ، ومن کانت ھجرتہ الی دنیا یصیبھا وامرۃ یتزوجھا فھجرتہ الی ماھاجرالیہ۔ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی ، اس لیے جس شخص کی اللہ اورا سکے رسول کی طرف ہجرت کی نیت کی ہوگی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی، اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی اس کی ہجرت اس چیز کے لیے ہوگی، جس کی خاطر اس نے ہجرت کی ہوگی۔ حضور نے یہ واضح فرمادیا کہ احکام کے اعمال نیتوں سے متعلق ہوتے ہیں اس لیے ہجرت کی نیت سے جو شخص گھر سے نکلے گا وہ مہاجر شمار ہوگا اور اگر غزوہ یعنی جہاد کی نیت سے نکلے توغازی کہلائے گا۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ غازی کی اگر راستے میں وفات ہوجائے تو مال غنیمت میں اس کا حصہ واجب ہوگاجو اس کے ورثاء کو مل جائے گا، لیکن اس آیت کی اس قول پر دلالت نہیں ہورہی ہے اس لیے کہ کسی مال کا کسی کے لیے غنیمت بننے کے حکم کا تعلق اس بات پر موقوف ہے کہ وہ شخص دشمن کے اس مال کو اپنے قبضے میں کرلے، قبضے میں آنے سے وہ مال مال غنیمت نہیں ہوتا۔ ارشاد باری ہے (واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ۔ جان لو کہ جو چیز بھی تم غنیمہ کے طور پر حاصل کرو گے اس میں اللہ کے لیے پانچواں حصہ ہوگا۔ اس لیے جو شخص مال غنیمت حاصل کرنے سے پہلے وفات پاجائے گا اسے گویا کوئی مال غنیمت حاصل نہیں ہوگا، اس لیے مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اورقول باری (فقد وقع اجرہ علی اللہ) کہ اس کے حصے کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص جہاد کی نیت سے اپنے گھر سے نکلے اور دارالحرب تک پہنچے سے قبل ہی دارالاسلام میں اس کی وفات ہوجائے اسے مال غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، البتہ اللہ کے ذمے اس کا اجر واجب ہوجائے گا، جس طرح اس شخص کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوجاتا ہے جو ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلا ہو لیکن دارالہجرت پہنچے سے قبل اس کی وفات ہوگئی ہو۔ واللہ اعلم

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٠) اطاعت خداوندی میں ہجرت کرنے پر مدینہ منورہ کی زمین میں اظہار دین اور معیشت کے لیے بہت گنجائش ملے گی، یہ آیت کریمہ اکثم بن صیفی کے بارے میں نازل ہوئی، جندع بن ضمرہ (رض) بہت بوڑھے تھے، یہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں مقام تنعیم پر انتقال فرماگئے، ان کو ثواب مہاجرین کے برابر ملا اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ جو مکہ مکرمہ سے اطاعت خداوندی میں مدینہ منورہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرتا ہے اور راستے میں موت آجاتی ہے، انھیں ہجرت کا ثواب ہوگیا، ان سے زمانہ شرک میں جو گناہ سرزد ہوئے اور زمانہ اسلام میں جن امور کی تکمیل نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ شان نزول : (آیت) ” ومن یخرج من بیتہ “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) اور ابویعلی (رح) نے عمدہ سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سمرۃ بن جندب (رض) اپنے گھر سے ہجرت کے ارادہ سے روانہ ہوئے اور اپنے گھروالوں سے کہا کہ مجھے سوار کرا دو اور مشرکین کی زمین سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روانہ کردو مگر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچنے سے پیشتر ہی راستہ میں انتقال فرماگئے ان کی شان میں بذریعہ وحی آپ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ جو اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کروں گا۔ الخ۔ نیز ابن ابی حاتم (رح) نے بواسطہ سعید بن جبیر (رض) ابن ضمرۃ زرقی سے روایت کیا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں تھے جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی لیکن جو مرد اور عورتیں اور بچے قادر نہ ہوں کہ نہ کوئی تدبیر کرسکتے ہوں اور نہ راستہ سے واقف ہوں الخ تو ابن ضمرۃ فرماتے ہیں کہ مالدار بھی تھا اور صاحب تدبیر بھی، چناچہ ابن ضمرۃ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی تیاری کی مگر مقام تنعیم میں انتقال کرگیا ان کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اور ابن جریر (رح) نے یہ روایت اسی طرح سعید بن جبیر (رض) عکرمہ (رح) ، قتادہ (رض) اور سدی سے روایت کی ہے۔ بعض روایتوں میں ان کا نام ضمرۃ بن العیص یا عیص ابن ضمرہ اور بعض میں جندب بن ضمرہ الجدعی اور بعض میں ضمری اور بعض میں بنی ضمرہ کے ایک شخص اور بعض میں بنی خزاعہ کے ایک اور بعض میں بنی لیث کے ایک شخص اور بعض روایتوں میں بنی بکر کے ایک شخص نے بیان کیا ہے۔ اور ابن سعد نے طبقات میں یزید بن عبداللہ بن قسط (رض) سے روایت کیا ہے کہ جندع بن ضمرہ ضمری مکہ مکرمہ میں تھے، اچانک بیمار ہوئے تو اپنی سے فرمایا کہ مجھے مکہ مکرمہ سے نکال دو ، مجھے اس چیز کے غم نے ہلاک کردیا ہے، اولاد نے پوچھا کہ کس مقام پر جانا چاہتے ہیں، حضرت جندع بن ضمرہ نے اپنے ہاتھ سے ہجرت کے ارادہ سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کیا، چناچہ ان کی اولاد ان کو لے کر روانہ ہوئی، جب بنی غفار کے پڑاؤ کے پاس پہنچے تو انتقال فرماگئے، اللہ تعالیٰ نے ان کی فضیلت میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ نیز ابن ابی حاتم (رح) ، ابن مندہ (رح) اور دیگر نے صحابہ کرام (رض) کے بیان میں ہشام بن مروہ بواسطہ والد روایت نقل کی ہے۔ کہ زبیر بن عوام (رض) نے فرمایا کہ خالد بن حرام نے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی، ان کو راستے میں اچانک ایک سانپ نے ڈس لیا، جس کی وجہ سے وہ انتقال فرما گئے ان کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٠ (وَمَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً ط) جیسے سورة العنکبوت میں فرمایا : (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ ) اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ‘ میری زمین بہت کشادہ ہے ‘ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو ! “۔ اگر یہاں اپنے وطن میں اللہ کی بندگی نہیں کرسکتے ہو تو کہیں اور چلے جاؤ۔ (وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ ) (فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ط) یعنی جس کسی نے بھی ہجرت کی ‘ فی سبیل اللہ ‘ دولت کے لیے یا حصول دنیا کے لیے نہیں ‘ بلکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا جوئی کے لیے ‘ وہ اصل ہجرت ہے۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے : (اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئ مَا نَوٰی ‘ فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ‘ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ ) (١) اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہی ہے اور بلاشبہ ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس نے ہجرت کی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف تو واقعی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے ‘ اور جس نے ہجرت کی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کا اس نے قصد کیا۔ “ چنانچہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی ‘ خلوصِ نیّت کے ساتھ گھر سے نکل کھڑا ہوا اور راستے ہی میں فوت ہوگیا ‘ مدینہ منورہ نہیں پہنچ سکا ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں تک اس کی رسائی نہیں ہوسکی ‘ وہ اپنا مقصود حاصل نہیں کرسکا ‘ تو پھر بھی وہ کامیاب و کامران ہے۔ اللہ ‘ تعالیٰ اس کی نیت کے مطابق اسے ہجرت کا اجر ضرور عطا فرمائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

131. It should be understood clearly that it is only permissible for a person who believes in the true religion enjoined by God to live under the dominance of an un-Islamic system on one of the following conditions. First, that the believer struggles to put an end to the hegemony of the un-Islamic system and to have it replaced by the Islamic system of life, as the Prophets and their early followers had done. Second, that he lacks the means to get out of his homeland and thus stays there, but does so with utmost disinclination and unhappiness. If neither of these conditions exist, a believer who continues to live in a land where an un-Islamic order prevails, commits an act of continuous sin. To say that one has no Islamic state to go to does not hold water. For if no Islamic state exists, are there no mountains or forests from where one could eke out a living by eating leaves and drinking the milk of goats and sheep, and thus avoid living in a state of submission to unbelief. Some people have misunderstood the tradition which says: 'There is no hijrah after the conquest of Makka' (Bukhari, 'Sayd', 10; 'Jihad', 1, 27, 194; Tirmidhi, 'Siyar', 33; Nasa'i, 'Bay'ah', 15, etc. - Ed.) This tradition is specifically related to the people of Arabia of that time and does not embody a permanent injunction. At the time when the greater part of Arabia constituted the Domain of Unbelief (Dar al-Kufr) or the Domain of War (Dar al-Harb), and Islamic laws were being enforced only in Madina and its outskirts, the Muslims were emphatically directed to join and keep together. But when unbelief lost its strength and elan after the conquest of Makka, and almost the entire peninsula came under the dominance of Islam, the Prophet (peace be on him) declared that migration was no longer needed. This does not mean, however, that the duty to migrate was abolished for Muslims all over the world for all time to come regardless of the circumstances in which they lived.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :131 یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کے لیے نظام کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دو ہی صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے ۔ ایک یہ کہ وہ اسلام کو اس سرزمین میں غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت و بیزاری کے ساتھ وہاں مجبورانہ قیام رکھتا ہو ۔ اس دو صورتوں کے سوا ہر صورت میں دارالکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لیے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دارالاسلام پاتے ہی نہیں ہیں جہاں ہم ہجرت کر کے جا سکیں ۔ اگر کوئی دارالاسلام موجود نہیں ہے تو کیا خدا کی زمین میں کوئی پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گزر کر سکتا ہو اور احکام کفر کی اطاعت سے بچا رہے؟ بعض لوگوں کو ایک حدیث سے غلط فہمی ہوئی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ لا ھجرۃ بعد الفتح ، یعنی فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے ۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث کوئی دائمی حکم نہیں ہے بلکہ صرف اس وقت کے حالات میں اہل عرب سے ایسا فرمایا گیا تھا ۔ جب تک عرب کا بیشتر حصہ دارالکفر و دارالحرب تھا اور صرف مدینہ و اطراف مدینہ میں اسلامی احکام جاری ہو رہے تھے ، مسلمانوں کے لیے تاکیدی حکم تھا کہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں ۔ مگر جب فتح مکہ کے بعد عرب میں کفر کا زور ٹوٹ گیا اور قریب قریب پورا ملک اسلام کے زیر نگیں آگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ہجرت کی حاجت باقی نہیں رہی ہے ۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے تمام حالات میں قیامت تک کے لیے ہجرت کی فرضیت منسوخ ہو گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن سعد ابو یعلیٰ الموصلی، اور ابن مندہ نے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا کہ جو کوئی درپردہ مسلمان ہو کر بلا عذر فتح مکہ سے پہلے مدینہ کو ہجرت نہ کرے گا۔ اس کا اسلام قبول نہ ہوگا۔ تو بہت سے لوگوں نے ہجرت کی اور ان میں بعض لوگ مدینہ میں پہنچنے سے پہلے فوت ہوگئے ان کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٢۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کی درگاہ میں سب کاموں کا دارومدار نیت پر ہے۔ جو شخص ہجرت کی نیت کر کے گھر سے نکلا۔ وہ اسی وقت ہجرت کے ثواب کا مستحق ٹھہر چکا خواہ مدینہ میں پہنچے یا راستہ میں مرجائے اور جو شخص مدینہ میں بھی پہنچ جائے اور اس کی نیت خالص ہجرت کی نہ ہو بلکہ کسی دنیوی غرض سے اس نے ہجرت کی وہ شخص ہجرت کا ثواب نہ پائے گا۔ چناچہ صحاح ستہ کی چھیؤں کتابوں میں حدیث ١ انما الاعمال بالنیات میں اس کی صراحت موجود ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:100) سعۃ۔ کشائش ۔ وسعت۔ فراغی۔ طاقت۔ پہنچ۔ وسع یسع (سمع) کا مصدر ہے جس کے معنی فراخ ہونے کے ہیں۔ اول سے واؤ کو حذف کرکے آخر میں اس کے عوض تاء لائے ہیں۔ جیسے عدۃ (وعدہ) زنۃ (وزن) ۔ سعۃ کا استعمال مقامات کے لئے بھی ہوتا ہے اور حالت کے لئے بھی۔ اور فعل کے لئے بھی چناچہ مقام کے بارے میں ارشاد ہے الم تکن ارض اللہ واسعۃ (آیۃ ہذا) کیا اللہ کی زمین اتنی کشادہ نہ تھی۔ حالت کے بارے میں ہے لینفق ذوسعۃ من سعتہ (65:7) اور صاحب دولت اپنی دولت کے مطابق خرچ کرے۔ فعل کے بارے میں ہے وسع کرسیۃ السموت والارض (2:255) اور اس کی حکومت آسمانوں اور زمین کو اپنی وسعت میں لئے ہوئے ہے۔ (یہاں کشائش رزق مراد ہے) ۔ مراغما۔ صاحب کشاف نے مراغم کے یہ معنی بیان کئے ہیں ۔ مراغم کا معنی ہجرت گاہ یا ہجرت کا راستہ ہے۔ المنجد میں اس کے معنی بھاگنے کی جگہ۔ قلعہ۔ جائے پناہ۔ (یعنی اس کو بہت جگہیں ایسی مل جائیں گی جہاں وہ پناہ لے سکے) یدرکہ۔ مضارع مجزوم واحد مذکر غائب۔ ادراک سے (موت) اس کو آپکڑے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 مراغما یہ مرغم کی جمع ہے اور ہجرت کر کے نکلنے اور وار ہجرت پالینے کو مراغما اس لیے فرمایا ہے کہ جو شخص ہجرت کر کے نکلتا ہے گویا وہ تمام قریش کی ناک کو خاگ آلود کردیتا (قرطبی) اس آیت میں اگرچہ ان لوگوں کو مدینہ کی ہجرت کرن کی ترغیب دی گئی ہے جو مکہ اور دسرے مقامات پر دارالکفر میں پڑے زندگی بسر کر رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے لیکن یہ آیت عام ہے اور متعد احادیث میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے۔ّ (فتح القدیر) عکرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ہجرت نہ کرنے کے بارے میں وعید نازل ہوئی تو جندع (رض) بن صمرۃ لیثی جو مکہ میں مستضعفین میں سے تھے بیمار تھے۔ چناچہ انہوں نے حالت مرض میں سفر شروع کردیا حتی کہ تنعیم میں پہنچ کر انتقال کر گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ، اسی طرح خالد (رض) بن حزام کے متعلق بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اروراستہ میں سانپ کے ڈسنے سے وفات پاگئے (قرطبی) فائدہ ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف منتقل ہونا، یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تاقیامت باقی ہے جس ہجرت کو آنحضرت نے لا ھجرۃ بعد الفتح فرماکر منسوخ فرمایا ہے وہ خاص مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت تھی اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنا چاہیے امام مالک (رح) فرماتے ہیں کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں ہے جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔ علی ہذالقیاس جس علاقہ میں حلال روزی نہ ملتی ہو یا دین میں فتنہ کا خوف ہو وہاں سے ہجرت کی بھی ترغیب آئی ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ ہجرت ابتدائے اسلام میں فرض تھی اور فرضیت کے ساتھ وہ ظاہر شعار لازم و موقوف علیہ ثبوت اسلام کی بھی تھی لیکن حالت عذر میں اس کی فرضیت اور شعاریت ساقط ہوجاتی تھی اور اس شعار ہونے کی وجہ سے اس کو بلاعذر ترک کرنا علامت ارتداد کی تھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مہاجر کو تسلی دی گئی ہے کہ گھبرانے اور دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کو ایک جگہ مقید نہیں رکھا ہوارزق تو انسان کے ساتھ ‘ ساتھ رہتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے راستے میں بےدھڑک نکلو اللہ تمہارا رزق کشادہ کردے گا۔ ہجرت کا حکم دینے اور معذور لوگوں کو معاف کرنے کے اعلان کے بعد مہاجرین کو تسلی دی جارہی ہے۔ میرے نام اور کام پر بےخانماں ہونے اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے والو ! دل چھوٹا کرنا نہ حوصلہ ہارنا۔ تم ایسے خالق ومالک کے حکم سے وطن چھوڑ رہے ہو جو پتھر کے کیڑے کو چٹان میں ‘ گوشت خور درندوں کو جنگل میں ‘ پانی کے جانوروں کو سمندر کی لہروں اور تہوں میں ‘ پرندوں کو صحراؤں میں رزق پہنچاتا ہے۔ تم تو اشرف المخلوقات اور اس کے راستے کے راہی ہو۔ وہ تمہیں کس طرح کسمپرسی کی حالت میں رہنے دے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ‘ اپنے رب پر اعتماد کرو۔ ذرا یقین کی آنکھ سے تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق چھوڑا تو ملک شام اور سرزمین مقدس کے مالک بنے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کا خاندان اپنے وطن سے نکلا تو سینکڑوں سال مصر کا فرما نروا ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکلے تو ان کے پیرو کار بیت المقدس کے حکمران ہوئے۔ غرض یہ کہ ہر دور میں اور ہر قافلۂ مہاجرین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ انہیں دنیا میں بےپناہ وسعت اور لامحدود فضل سے نوازا۔ صحابہ کرام (رض) کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ جب مہاجرین مکہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو بےخانماں اور کنگال تھے لیکن ہجرت کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اپنی روئیداد بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اب یہ حال ہے کہ مٹی اٹھاتا ہوں تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ لاکھوں روپے صدقہ کیے۔ اس کے باوجود وفات کے وقت اڑھائی کروڑ کے مالک تھے۔ حضرت زبیر (رض) بےحساب صدقہ کرنے کے بعد بھی پانچ کروڑ کی جائیداد چھوڑ کر دنیا سے گئے۔ حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) پر ایک وقت وہ تھا جب مہمان کا کھانا کم ہونے کی وجہ سے بیوی کو حکم دیتے ہیں کہ جب ہم کھانا شروع کریں تو دیا بجھا دینا۔ میں یوں ہی منہ سے آواز نکالتا رہوں گا تاکہ مہمان سیر ہو کر کھالے۔ پھر ایسا دور آیا کہ لاکھوں درہم کا باغ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے ہیں۔ غرضیکہ جن صحابہ نے کاروبار کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں بےحساب نعمتوں سے نوازا۔ [ التجارات فی الاسلام ] دنیا کی نعمتوں اور وسعتوں کے ساتھ ان لوگوں کو آخرت کے اجر کی گارنٹی بھی دی گئی ہے۔ جو اپنے گھروں سے نکلے لیکن دارالہجرت نہ پہنچ پائے راستے ہی میں موت نے آلیا۔ ان میں حضرت خالد بن حزام (رض) بھی ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی دوران سفر سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے دنیا سے کوچ کر گئے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَال خَرَجَ ضَمْرَۃُ بن جُنْدُبٍ (رض) مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا فَقَالَ لأَہْلِہِ احْمِلُونی فَأَخْرِجُونی مِنْ أَرْضِ الْمُشْرِکِینَ إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فَمَاتَ فِی الطَّرِیقِ قَبْلَ أَنْ یَصِلْ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَنَزَلَ الْوَحْیُ وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ (النساء آیۃ ١٠٠) حَتَّی بَلَغَ وَکَان اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا [ مسند ابی یعلیٰ الموصلی : بابوَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا ] حضرت سمرہ بن جندب (رض) مدینہ کی طرف نکلے تو راستے میں وفات پا گئے جناب ابو حمزہ بن العیض زرقی نابینا تھے معذور ہونے کے باوجود مدینہ طیبہ کی طرف رواں دواں ہوئے۔ ابھی مکہ سے کچھ دور تنعیم کے مقام پر پہنچے تھے تو موت نے آلیا۔ [ ابن کثیر، ابن ابی حاتم ] کفار اور منافقین نے پروپیگنڈہ کیا کہ یہ لوگ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ اس پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور خوشخبری سنائی کہ ہجرت کے لیے اپنے گھروں سے نکلنے والے خوش نصیبوں کے اجر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیے ہیں جو ہرگز ضائع نہیں ہوں گے۔ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا وسعت اور کشادگی پائے گا۔ ٢۔ ہجرت کے دوران فوت ہونے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ تفسیر بالقرآن ہجرت کی اہمیت : ١۔ ہجرت کا اجر وثواب اور فضیلت۔ (آل عمران : ١٩٥) ٢۔ ہجرت کے دوران مرنے والے کو پورا ثواب ملے گا۔ (النساء : ١٠٠) ٣۔ ہجرت کا دنیا میں اجر۔ (النحل : ٤١، ٤٢) ٤۔ ہجرت نہ کرنے والوں کی سزا۔ (النساء : ٩٧، ٩٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠٠۔ اس آیت میں قرآن کریم حیات نفس انسانی کے اندر پیدا ہونے والے متنوع وسوسوں کا مداوا کرتا ہے ۔ اس وقت کے موجود حالات میں ہجرت کرنے میں مشکلات نظر آتی تھیں اور ایسے ہی وسوسے ہر وقت لوگوں کے سامنے آتے رہتے ہیں جب بھی کوئی شخص اللہ کی خاطر نکلتا مصائب کا شکار ہوجاتا ۔ قرآن کریم ایسے نفوس کی تربیت ہی واضح طور پر کرتا ہے ۔ ان کو صاف صاف بتایا جاتا ہے اور کوئی بات چھپائی نہیں جاتی ۔ یہ نہیں کیا جاتا کہ اگر کوئی اقدام کرے تو اس سے پیش آنے والے خطرات کو چھپایا جائے بلکہ سب کچھ بتا دیا جاتا ہے ‘ جن میں موت اور جان تک قربان کرنے کے خطرات شامل ہیں ‘ لیکن قرآن کریم بعض دوسرے حقائق کے ذریعے اہل ایمان کو مطمئن بھی کرتا ہے اور ان حقائق کی ضمانت اللہ تعالیٰ خود دیتے ہیں ۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ یہ ہجرت فی سبیل اللہ ہے اور اس کے علاوہ کسی اور غرض کے لئے نہیں ہے اور اسلام میں یہی ہجرت معتبر ہے ۔ یہ دولت کے لئے نہیں ہے ‘ یہ مشکلات سے بھاگنے کے لئے نہیں ہے یہ لذات وشہوات حاصل کرنے کے لئے بھی نہیں ہے ۔ غرض یہ دنیاوی مقاصد میں سے کسی مقصد کے لئے نہیں ہے اور جو شخص بھی اللہ کی راہ میں اور صرف اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا ‘ اسے دنیا میں بہت بڑی کشادگی ملے گی زمین اس پر تنگ نہ ہوگی ۔ رزق کی فراہمی کے معاملے میں بھی اس کے وسائل اور ذرائع محدود نہ ہوں گے اور ایمان اور اخروی نجات تو بہرحال حاصل ہوگی ۔ (آیت) ” ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیرا وسعۃ (٤ : ١٠٠) (جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لئے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لئے بڑی گنجائش پائے گا) یہ محض نفس انسانی کی کمزوری ‘ اس کا لالچ اور بخل ہے جو اس کے ذہن میں یہ وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ وسائل رزق دنیا کی کسی ایک جگہ کے اندر محدود ہیں اور بعض حالات تک محدود ہیں ۔ اگر ان حالات اور ظروف سے کوئی نکل گیا تو اس کا رزق بند ہوجائے گا ۔ یہ دراصل رزق اور وسائل حیات کے سلسلے میں ایک نہایت ہی جھوٹا تصور ہے ۔ یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے انسان ذلت ‘ زیردستی اور دین اور ایمان کے فتنے کو قبول کرتا ہے اور پھر اس کا وہ انجام ‘ وہ برا انجام ہوتا ہے جو ان آیات میں مذکور ہے کہ ملائکہ ایسے لوگوں کی جان لے لیتے ہیں اور وہ اس حال میں ہوتے ہیں کہ اپنے اوپر ظلم کر رہے ہوتے ہیں ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرتے ہیں اچھے انجام کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو آزادی ملے گی اور وہ اللہ کی اس دنیا میں بہت ہی وسعت پائیں گے ۔ وہ یقینا دیکھ لیں گے کہ وہ جہاں بھی جائیں گے اللہ انہیں زندہ رکھے گا ‘ رزق دے گا اور آخرت میں نجات دے گا ۔ لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ دوران ہجرت ہی داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ موت تو ایک برحق واقعہ ہے اور اس کا تعلق اسباب ظاہرہ سے نہیں ہے ۔ جب مقررہ وقت آتا ہے تو موت حتما آتی ہے چاہے کوئی قیام کرے یا ہجرت کرے ۔ وہ نہ مقدم ہوتی ہے اور مؤخر ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ انسانی سوچ ظاہری ظروف واحوال کے اندر ہی رہتی ہے ۔ اس کی نظر میں موت کے ظاہری اسباب ہوتے ہیں اسلامی نظام ان کو بھی سامنے رکھ کر بات کرتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے کہ راہ خدا میں گھر سے نکلتے ہی اللہ پر اجر لازم ہوجاتا ہے اور ایسے شخص کو مکمل ثواب ملے گا ۔ (آیت) ” ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ “۔ (٤ : ١٠٠) (اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لئے نکلے ‘ پھر راستہ ہی میں اسے موت آجائے اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا) ایسے شخص کو پوری تنخواہ ملے گی ‘ ہجرت کا اجر سفر کا اجر دارالاسلام میں پہنچنے اور تمام مشکلات جو وہاں تھیں ان سب کا اجر اسے ملے گا ۔ اس اجر اسے ملے گا ۔ اس کا ضامن اللہ ہے لیکن اس اجر کی ایسی ضمانت کے ساتھ یہ اشارہ بھی دیا جاتا ہے کہ اس کے گناہ بھی بطور پنشن اور الاؤنس معاف ہو سکتے ہیں اور مزید انعامات بھی مل سکتے ہیں ۔ یہ تمام مراعات اصل تنخواہ کے علاوہ ہیں ۔ (آیت) ” وکان اللہ غفورا رحیما “۔ (٤ : ١٠٠) (اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے) بیشک یہ نہایت ہی نفع بخش سودا ہے ۔ اس میں ایک مہاجر فی سبیل اللہ پوری قیمت وصول کرلیتا ہے ۔ جونہی وہ قدم رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں نکلتا ہے اسے اجر ملتا ہے ۔ موت تو موت ہے اس کا جب وقت آتا ہے تو اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی ۔ ہجرت کرنے اور کسی جگہ جمے رہنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص ایک ہی جگہ جم جائے تو بھی موت آئے گی اور سودے میں اسے نقصان ہوگا ۔ اسے کوئی اجر اور بخشش نہ ملے گی ‘ بلکہ ملائکہ اسے ظالم سمجھتے ہوئے اس کی روح قبض کرلیں گے ۔۔۔۔۔۔ دونوں حالتوں اور دونوں سودوں کے درمیان کس قدر فرق ہے ؟ـاور دونوں کا انجام کس قدر مختلف ہے ۔ اس پورے سبق سے نتائج کیا نکلتے ہیں ؟ اس سے ہمیں مختلف نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ اس سبق کے دوسرے موضوعات پہ کلام ہو ذرا ان نتائج پر غور وفکرمکمل کرلیا جائے تو اچھا ہے ۔ (١) اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت نہ کرنے کو بہت ہی برا سمجھتا ہے ۔ نیز اسلام اسلامی جماعت سے علیحدہ اور دور رہنے کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ‘ الا یہ کہ کوئی عذر ہو اور عذر یہ ہو کہ کوئی ہجرت کے سفر پر قادر نہ ہو یا اس کے لئے کوئی راستہ نہ ہو ۔ (٢) اس سبق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کے اندر جہاد فی سبیل اللہ کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اور اسلامی نظام کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ عمل جہاد کو جاری رکھے ۔ شیعہ مکتب فکر تو جہاد کو ارکان اسلام میں سے ایک رکن شمار کرتا ہے کیونکہ اس کے حق میں بڑے قومی قرآنی دلائل ہیں ‘ جس سے ان کے مسلک کی توضیح اور تفسیر ہوتی ہے ۔ اگر یہ حدیث نہ ہوتی جس کا مضمون ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے تو ان کا مسلک درست ہوتا ۔ اس کے خلاف کوئی دلیل نہ ہوتی لیکن اسلام میں جہاد پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ اسلامی زندگی کے خطرات کے وقت اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ ہر دور اور ہر جگہ اس کی ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کی ضرورت اسلام کا نہایت ہی فطری تقاضا ہے ۔ محض وقتی حالات کی وجہ سے نہیں ہے اس لئے کہ تمام دلائل و شواہد یہ بتاتے ہیں کہ اسلام میں جہاد ایک اساسی اور بنیادی فریضہ ہے ۔ (٣) اس سبق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان بہرحال انسان ہی ہوتا ہے ۔ نفس انسانی کے سامنے بعض اوقات مشکلات کا ہجوم ہوجاتا ہے ۔ کبھی انسان خطرات سے ڈر جاتا ہے ‘ کبھی وہ مشکلات کو دیکھ کر سست ہوجاتا ہے اور یہ کمزوریاں انسان سے نہایت ہی صالح ترین سوسائٹیوں اور خیر الاقروں میں بھی صادر ہوتی رہی ہیں ۔ لہذا کمزوریوں کا مداوا کرنے کے معاملے میں کبھی بھی ہمیں مایوسی کا شکار نہی ہونا چاہئے بلکہ اس معاملے میں جہد مسلسل جاری رہنی چاہئے ۔ لوگوں کو آمادہ کرنا چاہئے ۔ ان کو انجام کار کامیابی کے امکاناب بھی دکھانے چاہئیں ۔ وعظ و ارشاد ہر وقت جاری رہنا چاہئے اور یہ کام قرآن کے حکیمانہ اسلوب کے مطابق ہونا چاہئے ۔ (٤) سب سے آخر میں اس سبق سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم اس زندگی کی اصلاح کے لئے کس طرح جدوجہد کر رہا تھا ۔ اور اس کے سامنے کس قدر واقعی مشکلات تھیں اور ان مشکلات میں قرآن نے اسلامی معاشرے کی قیادت کس طرح کی ۔ قرآن کو جس معرکے کا سامنا تھا وہ ہر میدان میں جاری تھا ۔ پہلا میدان نفس انسانی تھا ۔ اس کی فطرت اس کا مزاج اور اس کے اندر موجود جاہلی دور کی کمزوریاں وغیرہ تو ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ ہم قرآن کا مطالعہ کس اسلوب کے ساتھ کریں اور جب ہم انسانی نفس اور زندگی کے واقعی حالات ومشکلات کے اندر دعوت الی اللہ دیں تو کس طرح دیں ۔ اس کے بعد مہاجرین اور دوسرے مسافروں کے لئے نماز کے اندر قصر کرنے کی اجازت کا بیان آتا ہے ۔ سفر چاہے جہاد کے لئے ہوں یا تجارتی سرگرمیوں کے لئے ہوں ‘ نیز حالت خوف میں بھی قصر کی اجازت ہے ‘ یعنی ایسے حالات میں دشمن حملہ کر کے انہیں قید نہ کرلے اور اس طرح وہ فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔ یہ قصر اس قصر سے علیحدہ ہے جو محض سفر کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ یہ خاص قصر ہے اور حالت خوف سے متعلق ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں کے لیے وعدے لباب النقول صفحہ ٧٩ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت سمرہ بن جندب نے ہجرت کی نیت سے نکلنے کا ارادہ کیا اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھے سواری پر سوار کر دو اور مشرکین کی سر زمین کے سے نکال دو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ جاؤں جب وہ روانہ ہوگئے تو راستے میں موت آگئی آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہیں پہنچ سکے آپ پر وحی کا نزول ہوا اور آیت بالا نازل ہوئی۔ دوسرا واقعہ ابو ضمرہ زرقی کا نقل کیا ہے وہ مکہ معظمہ میں مشرکین میں پھنسے ہوئے تھے جب آیت کریمہ (اِلاَّالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً ) نازل ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں مالدار ہوں میں نکلنے کی تدبیر کرسکتا ہوں لہٰذا انہوں نے ہجرت کا سامان تیار کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے ان کو مقام تنعیم میں موت آگئی (جو حرم سے قریب ترجگہ ہے) اس پر آیت بالا (وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَا جِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ) نازل ہوئی اور ایک واقعہ خالد بن حرام (رض) کا لکھا ہے، وہ حبشہ سے (مدینہ منورہ آنے کے لیے) روانہ ہوئے راستے میں ان کو سانپ نے کاٹ لیا جس کی وجہ سے موت ہوگئی اس پر آیت بالانازل ہوئی، صاحب لباب النقول نے اسی طرح کا ایک واقعہ اکثم بن صیفی کا بھی نقل کیا ہے کسی آیت کے اسباب نزول متعدد بھی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں۔ پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ سبب نزول اگرچہ وہ واقعات ہیں جو اوپر مذکور ہوئے لیکن آیت کا مفہوم عام ہے۔ اس میں واضح طور پر اعلان فرما دیا کہ جو کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکل کھڑا ہو اور اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہو دین ایمان کو بچانا چاہتا ہو تو اس کا یہ سچی نیت سے نکل کھڑا ہونا ہی باعث اجر وثواب بن گیا اگرچہ وہاں تک نہ پہنچ سکا جہاں تک اس کو پہنچنا تھا۔ راستے میں موت ہوجانے کی وجہ سے مقصد ظاہری تک تو نہ پہنچ پایا لیکن حقیقی مقصد حاصل ہوگیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب لکھ دیا گیا اور اس کی ہجرت منظور ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے مغفرت والے اور بہت بڑے رحیم ہیں اچھی نیت پر بھی ثواب عطا فرما دیتے ہیں اگرچہ عمل ابھی پورا نہ بھی ہوا ہو۔ لفظ ہجرت عربی زبان میں چھوڑ دینے کو کہتے ہیں اور شرعی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کرنے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر کوئی دوسرا وطن اختیار کرنے کو ہجرت کہا جاتا ہے بعض مرتبہ مومن بندے کفر کے ماحول سے جان چھڑانے کے لیے خود سے وطن چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور بعض مرتبہ اہل کفران کو وطن سے نکال دیتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں پر ہجرت صادق آتی ہے۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی اور بھی مختلف علاقوں سے صحابہ کرام ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے اس کے بعد بھی مختلف ادوار اور مختلف ازمان میں ہجرت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، چونکہ ہجرت میں بہت سخت تکلیف ہوتی ہے آبائی وطن چھوڑنا پڑتا ہے۔ جائیدادوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اعزہ و اقرباء جدا ہوجاتے ہیں۔ ہجرت کا ثواب : اس لیے اس بڑے عمل کا ثواب بھی بہت بڑا ہے۔ سورة آل عمران کے آخری رکوع میں فرمایا : (فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ ) (سو جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور انہیں میری راہ میں تکلیفیں دی گئیں اور انہوں نے قتال کیا اور مقتول ہوئے میں ضرور ان کی خطاؤں کا کفارہ کر دوں گا اور ضرور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ انہیں بدلہ ملے گا اللہ کے پاس سے اور اللہ ہی کے پاس اچھا بدلہ ہے) اور سورة بقرہ میں فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَۃَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امید وار ہیں اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے) ۔ سورة توبہ میں فرمایا (اَنَّ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفَآءِزُوْنَ ) (جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ نے راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا وہ اللہ تعالیٰ نے نزدیک بڑے درجہ والے ہیں اور یہی لوگ کامیاب و با مراد ہیں) ۔ اور سورة نحل میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) (جن لوگوں نے اللہ کے لیے ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے۔ اور آخرت کا ثواب بڑا ہے کاش یہ لوگ سمجھ لیتے) ۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہجرت اور جہاد دونوں کی شریعت اسلامیہ میں بڑی اہمیت ہے ان دونوں کی برکات بھی بہت ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کے لیے ہجرت کرے گا اس کو ضرور ہی کسی نہ کسی جگہ ٹھکانہ مل جائے گا اور اس کو مالی کشائش بھی نصیب ہوگی۔ پر دیس میں نیانیا پہنچنے کی وجہ سے ابتداء کوئی تکلیف پہنچ جائے تو یہ اور بات ہے لیکن جلد ہی رحمت اور برکت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ظاہری و باطنی منافع ملنے لگتے ہیں اور معاش میں بھی فرماوانی ہوجاتی ہے۔ حضرات صحابہ (رض) نے مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ کو ہجرت کی تھی چند سال بعد مکہ معظمہ بھی فتح ہوگیا، خیبر فتح ہوا بہت سے علاقے قبضے میں آئے بڑی بڑی جائیدادیں ملیں، اموال غنیمت ہاتھ آئے۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مصر شام، عراق فتح ہوئے جو حضرات مکہ میں مجبور اور بےبس تھے ان کو بڑے بڑے اموال ملے۔ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ ہجرت اور جہاد سے کایا پلٹ جاتی ہے اور مسلمان نہ صرف یہ کہ ثواب آخرت کے اعتبار سے (جس کے برابر کوئی چیز نہیں ہوسکتی) بلکہ دنیاوی اعتبار سے بھی ہجرت اور جہاد کی وجہ سے عزت اور شرف اور کافروں پر غلبہ اور مالداری اور غلام اور باندیوں کی ملکیت کے اعتبار سے کامیاب اور فائز المرام ہوجاتے ہیں۔ اصل ہجرت یہ ہے کہ گناہ چھوڑ دئیے جائیں : ہجرت کس لیے کی جائے، اس لیے کہ اللہ کے دین پر چل سکیں احکام اسلام بجا لانے میں جو دشمن رکاوٹ ڈالتے ہیں وہ رکاوٹ دور ہوجائے اور ہل ایمان میں پہنچ کر سکون و اطمینان کے ساتھ دینی کاموں میں لگ سکیں صرف وطن چھوڑ دینا ہی ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت کے لوازم میں سے یہ بھی ہے کہ گناہوں کو چھوڑ دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبر داری اور اطاعت کو شعار بنایا جائے۔ صحیح بخاری صفحہ ٦: ج ١ میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المھاجر من ھجر مانھی اللّٰہ عنہ (حقیقی مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے) ایک اور حدیث میں ہے المھاجر من ھجر الخطایا والذنوب (واقعی مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور گناہوں کو چھوڑ دے) مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٥ ہے، حضرت عمر و بن عبسہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ای الھجرۃ افضل (کون سی ہجرت افضل ہے) آپ نے فرمایا اَنْ تَھْجُرَمَا کَرِہَ رَبُّکَ کہ تو ان کاموں کو چھوڑ دے جو تیرے رب کو نا گوار ہوں (رواہ الترمذی و ابن ماجہ) ۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ صرف وطن چھوڑ دینے ہی کا نام ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت کے لوازم کو بھی اختیار کرنا لازم ہے۔ آج کل لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وطن تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن جہاں آکر آباد ہوتے ہیں وہاں نہ صرف یہ کہ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ سابق وطن میں جو دینی زندگی تھی اس کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ گناہوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ نمازیں بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ شرعی پردہ بھی انہیں نا گوار ہونے لگتا ہے اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے اس کے حقوق ادا نہیں کرتے زکوٰتیں حساب سے نہیں دیتے۔ بائن یا مغلظہ طلاق دے کر بھی جاہلی قانون کا سہارا لے کر عورت کو گھر میں رکھے رہتے ہیں اور عناد و فساد اور جنگ وجدال کو اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں۔ کوئی دین کی طرف متوجہ کرے تو اس کے گلے پڑتے ہیں۔ کفریہ کلمات تک بک جاتے ہیں ان سب باتوں کے باوجود اپنے کو مہاجر ہی کہتے ہیں۔ جو شخص ہجرت کر کے آئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس مہاجر کی مدد کریں۔ انصار مدینہ کا بےمثال عمل : حضرات صحابہ کرام (رض) جب مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچنے تو مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہر طرح سے ان کی مدد کی۔ اسی لیے ان کو انصار (مدد کرنے والے) کا لقب دیا گیا۔ سورة حشر میں فرمایا : (وَالَّذِیْنَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ اِِلَیْہِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ” اور وہ لوگ جنہوں نے دار الاسلام کو پہلے سے اپنا ٹھکانا بنایا اور ایمان کو مضبوطی سے پکڑا ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی اور جو کچھ ان کو دیا گیا اس سے اپنے سینوں میں کوئی شک محسوس نہیں کرتے اور اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ان کو حاجت ہو اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچا دیا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں “ انصار مدنیہ نے مہاجرین کے ساتھ جو کچھ لینے دینے کا اور نصرت و خدمت کا برتاؤ کیا اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آج کل تو مہاجرین ہیں انصار کا وجود نہیں ہے اس کی ایک وجہ تو وہی ہے کہ دینی تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کا مزاج نہیں رہا مہاجرین کی خدمت کو اپنا کام سمجھنے کی بجائے دار الہجرت کے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ یہ قوم ہمارے لیے بوجھ بن گئی اور ہمارے علاقے میں آکر ہمارے حقوق چھیننے لگی حضرات انصار کو یہ بھی گوارا نہیں کہ مہاجرین اپنے دست وبازو سے اور تجارت و زراعت سے مال حاصل کرکے کمائیں، دونوں فریق کو عصبیت کھائے جاتی ہے، ہر شخص اپنی نیت کا جائزہ لے کہ اس نے کیوں ہجرت کی۔ ہجرت اللہ کے لیے ہوتی ہے تو اس کے برکات ہی اور ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مہاجرین صاحبان دین پر قائم نہیں رہے اعمال صالحہ سے بچتے ہیں بڑھ چڑھ کر گناہوں میں حصہ لیتے ہیں اور دشمنان دین کی شہ پر مقامی لوگوں کو دشمن بنا لیتے ہیں اور قتل و قتال میں حصہ لیتے ہیں، دینی تقاضے تو چھوڑ دئیے۔ خالص دنیا داری اور گنہگاری میں لگ گئے اس کے باوجود یہ امید کرتے ہیں کہ انصار ہماری مدد کریں مدد تو دین داری کی وجہ سے ہوتی ہے دین داری کو پس پشت ڈال دیا، دنیا ہی دنیا رہ گئی اس کے لیے مرتے ہیں اس کے لیے جیتے ہیں، اہل دنیا سے تو اسی طرح صلح ہوسکتی ہے کہ ان کی ذاتی اشیاء سے گریز کیا جائے۔ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازھد فی الدنیا یحبک اللہ وازھد فیما عندالناس یحبک الناس (رواہ الترمذی و ابن ماجہ) (کہ تو دنیا سے بےرغبت ہوجا اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بےرغبت ہوجا لوگ تجھ سے محبت کریں گے) اگر اس پر عمل نہ کیا تو وہی ہوگا جو ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا : فان تجتنبھا کنت سلٰمًا لا ھلھا و ان تجتذبھا نازعتک کلابھا ترجمہ : ” سو اگر تو دنیا سے پرہیز کرے گا تو دنیا والوں سے تیری صلح رہے گی اور اگر تو اس کو اپنی طرف کھینچے گا تو دنیا کے کتے تجھ سے جھگڑا کریں گے۔ “ بہت سے ملکوں سے مسلمان نکالے گئے جن کو نکالا گیا ہے یہ خود دینی زندگی پر نہیں آتے۔ لامحالہ مقامی لوگ بھی ان سے محبت نہیں کرتے۔ جیسے ہر عمل میں اخلاص یعنی اللہ کی رضا کی نیت شرط ہے اسی طرح ہجرت میں بھی اخلاص ضروری ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ سو جس شخص کی ہجرت اس کی نیت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی تو ثواب کے اعتبار سے بھی اس کی نیت اللہ اور اس کے رسول کی طرف مانی جائے گی اور جس کی ہجرت کسی دنیا کے حاصل ہونے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے کی ہو تو جزا کے اعتبار سے بھی اس کی نیت اسی کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ یہ حدیث بہت مشہور ہے اور حدیث کی تقریباً سبھی کتابوں میں ہے۔ ایک آدمی نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا تھا اس عورت کو ام قیس کہتے تھے جب نکاح کا پیغام آیا تو اس نے اس مرد سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کرنے کی شرط لگائی، وہ ہجرت کر کے آگیا، حضرات صحابہ اسے مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ (کماذ کرہ محشی البخاری ص ٢: ج ١ عن الطبرانی فی الکبیر باسناد ورجالہ ثقات)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرے گا اور ترک وطن اختیار کرے گا تو وہ زمین میں بسنے کے لئے بہت جگہ اور بسر اوقات اور دین کی حفاظت کے لئے بہت فراخی اور گنجائش پائے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے لئے اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ پھر مقصد تک پہنچنے سے پہلے اتفاقاً اس کو موت نے آلیا تو ایسے شخص کا اجر وثواب وعدہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوچکا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ہجرت کا مقصد صحیح ہو کسی دنیوی غرض کے لئے یا عورت وغیرہ کے لئے ہجرت نہ ہو بلکہ اپنے دین کی حفاظت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خوشنودی مقصود ہو۔ مراغماً کے لوگوں نے بہت سے معنی کئے ہیں پھرجانے کی جگہ ایک زمین سے دوسری زمین تک کا راستہ ناپسند چیز سے بعد بھاگنے کی جگہ، قلعہ، مہاجر، بعض لوگوں نے کہا عرب کا ایک محاورہ ہے۔ رغم انفہ یعنی اس کی ناک خاک آلود ہو۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ذلیل و رسوا ہو مہاجر کو مراغم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کی ذلت و رسوائی کا موجب ہوتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اس کو خدا کی زمین میں جانے کو اور رہنے کو بہت جگہ ملے گی۔ بیحتہ کے معنی گنجائش اور کشادگی کے ہیں۔ یہاں مراد رزق کی فراخی ہے یا دین کی آزادی اور آزادی کے ساتھ دین کے کاموں پر عمل کرنا مراد ہے۔ ہم نے تیسیر میں دونوں کی رعایت رکھی ہے۔ الی اللہ و رسولہ کا یہ مطلب ہے کہ ایسی جگہ کے لئے ہجرت کی نیت سے نکل کھڑا ہوا جہاں اللہ اور رسول کے حکم کی پوری پوری تعمیل کا موقعہ میسر آسکے بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صحیح مقصد سے ترک وطن کرے گا تو اس کو علی رغم اعدا جانے کے لئے اور رہنے کے لئے بہت جگہ ملے گی اور وہ بہت جگہ پائے گا اسی طرح اس کے رزق میں بھی وسعت ہوگی اور دین پر آزادی سے عمل پیرا ہونے کی گنجائش حاصل ہوگی اور جو شخص اللہ و رسول کی خوشنودی و رضا مندی کی نیت سے اپنے گھر سے ہجرت کے لئے نکل کھڑا ہوگا تو اگرچہ وہ منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے اور راستے ہی میں اس کو موت آپکڑے ۔ تب بھی اللہ تعالیٰ کے ذمہ اس کا اجر ثابت ہوگیا گو ابھی ہجرت کی تکمیل نہیں ہوئی لیکن اس کی نیت ہونے کی وجہ سے اس سے یہ وعدہ ہے کہ اس کو پورا صلہ عطا ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی روزی کا ڈر نہ چاہئے کہ بہت جگہ روزی مل رہتی ہے کشائش سے اور یہ خطرہ نہ ہونا چاہئے کہ شاید راہ ہی میں مارے جاویں کہ اس میں ثواب پورا ہے اور موت اپنے وقت سے پہلے نہیں۔ (موضح القرآن) اس آیت میں بڑی بشارت ہے ان لوگوں کے لئے جو سکی کام کو نیک نیت کے ساتھ شروع کردیں اور اس کے کام کے پورا ہونے سے قبل موت آجائے یا اچانک موت پیش آجائے اور موت واقع ہوجائے مثلاً سانپ کاٹ لے یا کوئی دشمن قتل کر دے یا سواری پر سے گرپڑے تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا ثواب عطا فرمائے گا۔ اگرچہ یہاں دارالحرب سے اپنے دین کی حفاظت کے لئے دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنے کا ذکر ہے لیکن بعض اہل علم نے ہر وہ ہجرت جو طلب علم کے لئے ہو یا حج کے لئے ہو یا جہاد کے لئے ہو یا ایک ایسے شہر کی طرف ہو جس میں زہد وتقویٰ کے حصول کی امید ہو یا پاکیزہ اور حلال روزی تلاش کرنے کی غرض سے وہاں جائے تو یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کے حکم میں ہوگا اور اگر راستے میں موت آجائے گی تو اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ واللہ اعلم یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سب سے بڑی اور بہتر ہجرت اس شخص کی ہے جو گناہوں کو چھوڑ کر نیکیوں کی طرف ہجرت کرتا ہے یعنی نواہی کو ترک کر کے اوامر کو اختیار کرتا ہے۔ حضرات سالکین کا قول ہے کہ اصل ہجرت اس شخص کی ہے جو بلد لشریت کو چھوڑ کر ربویت کی حضوری کو طلب کرتا ہے۔ صوفیائے کرام نے اس پر بحث کی ہے لیکن وہ تمام امور تصحیح نسبت پر موقوف ہیں جو آج کل طلب کرتا ہے ، صوفیائے کرام نے اس پر بحث کی ہے لیکن وہ تمام امور صحیح نسبت پر موقوف ہیں جو آج کل مفقود ہے ہرچند کہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کرنا فرض نہیں رہا لیکن کسی دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم اب بھی موجود ہے جہاں ایک مسلمان اپنے دین کی حفاظت کرسکے۔ البتہ یہ دوسری بات ہے کہ کہیں دارالاسلام ہی باقی نہ رہا ہو۔ اوپر سے جہاد اور ہجرت کا بیان ہو رہا تھا اب اسی سلسلے میں جو سفر ہوتا ہے اس کے بعض احکام بیان کئے جاتے ہیں کیونکہ بسا اوقات اس قسم کے سفر میں خطرات بھی پیش آتے ہیں اور باوجود خطرات کے سفر خود بھی ایک مستقل صعوبت اور تکلیف کی چیز ہے پھر ایسی حالت میں نماز جو اوقات مقررہ کے ساتھ محدود ہے اس کی ادائیگی کی صورت کا بیان ہے تاکہ فریضہ نماز بھی اپنے وقت میں ادا ہوجائے اور فریضہ جہاد بھی پورا ہوجائے یا مسافر کا سفر بھی جاری رہے ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)