Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 104

سورة النساء

وَ لَا تَہِنُوۡا فِی ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ یَاۡلَمُوۡنَ کَمَا تَاۡلَمُوۡنَ ۚ وَ تَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرۡجُوۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۰۴﴾٪  12

And do not weaken in pursuit of the enemy. If you should be suffering - so are they suffering as you are suffering, but you expect from Allah that which they expect not. And Allah is ever Knowing and Wise.

ان لوگوں کا پیچھا کرنے سے ہارے دل ہو کر بیٹھ نہ رہو !اگر تمہیں بے آرامی ہوتی ہے تو انہیں بھی تمہاری طرح بے آرامی ہوتی ہے اور تم اللہ تعالٰی سے وہ امید یں رکھتے ہو ، جو امید انہیں نہیں ، اور اللہ تعالٰی دانا اور حکیم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَهِنُواْ فِي ابْتِغَاء الْقَوْمِ ... And don't be weak in the pursuit of the enemy; means, do not weaken your resolve in pursuit of your enemy. Rather, pursue them vigorously, fight them and be wary of them. ... إِن تَكُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمونَ ... if you are suffering then surely they are suffering as you are suffering, meaning, just as you suffer from injuries and death, the same happens to the enemy. In another Ayah, Allah said, إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ If you suffer a harm, be sure a similar harm has struck the others. (3:140) Allah then said, ... وَتَرْجُونَ مِنَ اللّهِ مَا لاَ يَرْجُونَ ... but you have a hope from Allah that for which they hope not; meaning, you and they are equal regarding the injuries and pain that you suffer from. However, you hope for Allah's reward, victory and aid, just as He has promised you in His Book and by the words of his Messenger. Surely, Allah's promise is true. On the other hand, your enemies do not have hope for any of this. So, it is you, not they, who should be eager to fight so that you establish the Word of Allah and raise it high. ... وَكَانَ اللّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا And Allah is Ever All-Knowing, All-Wise. means, He is most knowledgeable and wise in all what He decides, decrees, wills and acts on concerning various worldly and religious ordainments, and He is worthy of praise in all conditions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 یعنی اپنے دشمن کے تعاقب کرنے میں کمزوری مت دکھاؤ بلکہ ان کے خلاف بھرپور جہدوجہد کرو اور گھات لگا کر بیٹھو۔ 104۔ 2 یعنی زخم تو تمہیں بھی اور انہیں بھی دونوں کو پہنچے ہیں لیکن ان زخموں پر تمہیں تو اللہ سے اجر کی امید ہے۔ لیکن وہ اس کی امید نہیں رکھتے۔ اس لئے اجر آخرت کے حصول کے لئے جو محنت و کاوش تم کرسکتے ہو وہ کافر نہیں کرسکتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٢] یعنی جنگ میں جیسے تمہیں جانی نقصان یا دکھ پہنچتا ہے ویسے ہی دشمن قوم کو بھی پہنچتا ہے۔ پھر جب وہ باطل پر ہو کر یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں تو پھر تم حق پر ہو کر کیوں برداشت نہ کرو ؟ علاوہ ازیں تم میں سے کوئی شہید ہوجائے یا زندہ سلامت گھر آجائے دونوں صورتوں میں تم اللہ سے اجر وثواب کی توقع رکھتے ہو جو ان کو مطلق نہیں ہوتی۔ پھر تم آخر ان کا پیچھا کر کے ان کا قلع قمع کیوں نہ کرو۔ اس معاملہ میں ہرگز کمزوری یا سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَهِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ ۭ : یہ آیت اس آیت سے ملتی جلتی ہے : ( اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ ) [ آل عمران : ١٤٠ ] ” اگر تمہیں کوئی زخم پہنچے تو یقیناً ان لوگوں کو بھی اس جیسا زخم پہنچا ہے۔ “ قرطبی نے جنگ احد میں زخم کھانے کے باوجود کفار کا پیچھا کرنے کو اس آیت کی شان نزول بتایا ہے، مگر الفاظ عام ہیں، اس لیے اس واقعے کے علاوہ ہر ایسے موقع پر یہی حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمت افزائی ہے کہ درد و الم میں تو تم یکساں ہو مگر اللہ سے اجر کی امید میں تو تمہارا اور ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، تو پھر ان کا پیچھا کرنے میں کیوں ہمت ہارتے ہو ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَہِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ۝ ٠ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ يَاْلَمُوْنَ كَـمَا تَاْلَمُوْنَ۝ ٠ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا يَرْجُوْنَ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا۝ ١٠٤ۧ وهن الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي [ مریم/ 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] ، ( و ھ ن ) الوھن کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم/ 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں / فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے ) رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ( ولا تھنوا فی اتبغاء القوم ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون۔ اس گروہ کے تعاقت میں کمزوری نہ دکھائو اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں ( تا آخری آیت۔ اس قول باری میں جہاد پر ابھارا گی ہے۔ اس میں جہاد کرنے کا حکم ہے اور مشرکین کا تعاقب کرنے اور ان کے ساتھ پنجہ آزمائی میں کمزوری اور سستی دکھانے سے منع کیا گیا ہے اس لیے کہ ابتغاء کے معنی طلب اور تعاقب کے ہیں۔ جب آپ کسی چیز کی طلب میں اس کا پیچھا کریں تو اس وقت آپ ” بغیت و ابتغیت کا فقرہ استعمال کریں گے۔ وہن دل کی اس کمزوری اور بزدلی کو کہتے ہیں جو انسان دشمن کا مقابلہ کرتے وقت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ( ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون) کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے دلوں سے کمزوری اور بزدلی دور کرنے ، جرأت پیدا کرنے اور دشمن کے خلاف پیش قدمی کرنے کی دعوت و ترغیب دی۔ اور انہیں یہ بتایا کہ جہاں تک قتال کے سلسلے میں تکلیفین برداشت کرنے کا تعلق ہے اس میں تم اکیلے نہیں ہو بلکہ انہیں بھی یہی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں لیکن تمہیں ان پر اییک بات میں فضیلت حاصل ہے وہ یہ کہ تمہیں اللہ کی ذات سے جس ثواب و اجر کی امید ہے مشرکین اس کی امید نہیں کرسکتے۔ اس لیے تمہیں ان کی بہ نسبت زخموں کی تکلیفوں پر زیادہ صبر کرنا چاہیے اور زیادہ جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ انہیں یہ فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی انہیں کسی اجرو ثواب کی توقع ہے۔ قول باری ہے ( وترجون من اللہ مالا یرجون اور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں) اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ جب تم اللہ کے دین کی نصرت کرو گے اور اللہ کی طرف سے بھی تمہاری مدد اور نصرت کا وعدہ ہے۔ اور دوسری یہ کہ تمہیں آخرت کے ثواب اور جنت کی نعمتوں کے حصول کی امید ہے۔ اس لیے قتال کی تکالیف پر صبر کرنے اور زخموں کی اذیتیں برداشت کرنے کے لیے مسلمانوں کے اسباب و دواعی کافروں کے اسباب و دواعی سے بڑھ کر ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کے جس ثواب کی تمہیں آرزو اور تمنا ہے اس کی انہیں آرزو اور تمنا نہیں ہے۔ حسن، قتادہ اور ابن جریج سے یہ تفسیر منقول ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ تمہیں اللہ کا جو خوف ہے وہ انہیں نہیں ہے۔ جس طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے ( مالکم لا ترجون للہ وقارا ۔ تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی عظمت کے قائل نہیں ہو) یعنی تمہیں اللہ کی عظمت کا خوف نہیں ہے۔ بعض اہل لغت کا قول ہے کہ رجاء کا لفظ خوف کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ البتہ نفی کے ساتھ اس کا یہ استعمال درست ہے۔ لیکن یہ ایسی بات ہے جو کسی دلالت کے بغیر قابل قبول نہیں ہوسکتی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٤) غزوہ احد کے بعد ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حکم دیا تھا اللہ تعالیٰ اس کی ترغیب فرمارہا ہے، کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب میں ہمت مت ہارو اگر تم الم رسیدہ اور غمگین ہو تو وہ بھی الم رسیدہ ہیں اور تمہیں اللہ کی طرف سے ثواب کی امید ہے اور ان کو تو عذاب الہی کا ڈر ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے زخموں سے واقف ہے اس نے تمہیں حکمت کے تحت دشمنوں کے تعاقب کا حکم دیا ہے، یہاں سے اللہ تعالیٰ طعمہ بن ابیرق زرہ کے چرانے والے اور زید بن سمین یہودی کا جس نے اس چیز کو شہرت دی کا تذکرہ فرماتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (وَلاَ تَہِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ ط) ۔ حق و باطل کی جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس آخری مرحلے میں آکر تھک نہ جانا اور دشمن کا پیچھا کرنے میں سست مت پڑجانا ‘ ہمت نہ ہار دینا۔ (اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ ج) ۔ یہ بڑا پیارا انداز ہے کہ اس کشمکش میں اگر تم لوگ نقصان اٹھا رہے ہو تو کیا ہوا ؟ تمہارے دشمن بھی تو ویسے ہی نقصان سے دو چار ہو رہے ہیں ‘ انہیں بھی تو تکالیف پہنچ رہی ہیں ‘ وہ بھی تو زخم پر زخم کھا رہے ہیں ‘ ان کے لوگ بھی تو مر رہے ہیں۔ (وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ یَرْجُوْنَ ط) تمہیں تو جنت کی امید ہے ‘ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید ہے ‘ جبکہ انہیں ایسی کوئی امید نہیں ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے تمہیں تو ان سے کہیں بڑھ کرُ پر جوش ہونا چاہیے۔ سورة آل عمران کی آخری آیت میں بھی اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْاقف) اے ایمان والو ‘ صبر سے کام لو اور صبر میں اپنے دشمنوں سے بڑھ جاؤ اور مربوط رہو۔ تو آپ لوگوں کو تو صبرو استقامت میں ان سے بہت آگے ہونا چاہیے ‘ کیونکہ تمہارا سہارا تو اللہ ہے : ( وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا باللّٰہِ ) (النحل : ١٢٧) آپ صبر کیجیے ‘ اور آپ کا صبر تو بس اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ تمہارے دشمنوں کے تو من گھڑت قسم کے خدا ہیں۔ ان کے دیوتاؤں اور دیویوں کی خود ان کے دلوں میں کوئی حقیقی قدرو قیمت نہیں ہے ‘ پھر بھی وہ اپنے باطل معبودوں کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں تو اے مسلمانو ! تمہیں تو ان سے کئی گنا زیادہ قربانیوں کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ (وَکَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ) یہ چند آیتیں تو تھیں اہل ایمان سے خطاب میں۔ اس کے بعد اگلے رکوع میں پھر منافقین کا ذکر آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

138. This refers to those unbelievers who adamantly opposed the cause of Islam and the establishment of the Islamic order. 139. It is astonishing that men of faith should not be prepared to endure the same degree of hardship for the sake of the Truth as unbelievers do for the sake of falsehood. This is strange insofar as the latter merely seek the transient benefits of worldly life whereas the faithful seek to please, and secure the proximity of the Lord of the Universe and look forward to everlasting rewards.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :138 یعنی گروہ کفار جو اس وقت اسلام کی دعوت اور نظام اسلامی کے قیام کی راہ میں مانع و مزاحم بن کر کھڑا ہوا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :139 یعنی تعجب کا مقام ہے کہ اگر اہل ایمان حق کی خاطر اتنی تکلیفیں بھی برداشت نہ کریں جتنی کفار باطل کی خاطر برداشت کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے سامنے صرف دنیا اور اس کے ناپائیدار فائدے ہیں اور اس کے برعکس اہل ایمان رب السمٰوات والارض کی خوشنودی و تقرب اور اس کے ابدی انعامات کے امیدوار ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

65: جنگ کے اختتام پر لوگ تھکے ہوئے ہوتے ہیں، اور اس وقت دشمن کا تعاقب بھاری معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر جنگی مصلحت ہو اور امیر حکم دے تو تعاقب واجب ہے۔ ایسے میں یہ سوچنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ جس طرح ہم تھکے ہوئے ہیں، دشمن بھی تو تھکا ہوا ہے، اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور ثواب کی جو امید ہے وہ دشمن کو حاصل نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:104) لاتھنوا۔ تم سست مت ہوجاؤ۔ تم کمزور دل نہ ہوجاؤ۔ وھن۔ سے فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ ولا تھنوا ۔۔ القوم۔ دشمن قوم کو ڈھونڈھ نکالنے اور اس کا مقابلہ کرنے میں بزدلی نہ دکھاؤ۔ تکونوا تالمون۔ تم درد مند ہوتے ہو۔ تم تکلیف پاتے ہو۔ الم سے، درد۔ تکلیف۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ (یعنی اگر تم کو دشمن کا مقابلہ کرنے اور اس کا تعاقب کرنے میں دکھ یا تکلیف پہنچتی ہے تو ان کو بھی تمہاری طرح تم سے مقابلہ کرنے سے ویسی ہی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے) ۔ اراک اللہ۔ جو اللہ نے تمہیں دکھایا ہے۔ یعنی جو حقیقت حال کا علم خدا نے تمہیں عطا کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ جہاد کے مضمون سے پیوستہ۔ جہاد کے مسائل اور احکامات کا اس موقعہ پر اختتام کرنے سے پہلے حسب معمول تربیت اور نصیحت کے پہلو کو نمایاں فرمایا۔ کیونکہ سفر میں نماز پڑھنا خاص کر اوّل وقت پر ادا کرنا عام حالات کی نسبت مشکل ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا نماز کی ادائیگی اور اس کے اوقات کی پابندی کا ذکر فرمانے کے بعد جہادی خطاب کے آخر میں مجاہدین کو تسلی اور امید دلائی گئی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہیں جہاد کے راستے میں مشکلات پہنچیں۔ تم زخمی ہوئے ہو تو وہ بھی زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن یاد رکھو تمہارے دشمن اس سے دگنی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ اگر بدر و احد کو ملا کر دیکھا جائے تو وہ تم سے زیادہ قتل اور زخمی ہوئے ہیں۔ اگر وہ تمہارا تعاقب کرنے میں سست اور بزدل نہیں ہوئے تو تمہیں بھی سستی اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا وعدہ کیا ہے لہٰذا جس رحمت کی تم امید رکھتے ہو وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو مجاہد کو کثرت و قلت اور بےسرو سامانی کی پرواہ کیے بغیر کفار کے مقابلہ میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اسی کی بدولت مسلمان کفار پر غالب آتے رہے ہیں۔ جس کی تاریخ میں سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں۔ آج بھی مسلمان اسی جذبہ کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا قَالَ فِي الْجَنَّۃِ فَأَلقٰی تَمَرَاتٍ فِيْ یَدِہٖ ثُمَّ قَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے غزوۂ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اگر میں شہید ہوجاؤں تو میں کہاں ہوں گا ؟ آپ نے فرمایا : جنت میں۔ اس کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں اس نے وہ پھینک دیں پھر لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ “ مسائل ١۔ زخمی ہونے کے باوجود مجاہدین کو حالت جنگ میں ہمّت نہیں ہارنا چاہیے۔ ٢۔ مجاہد اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار ہے جبکہ کافر کو کوئی امید نہیں ہوتی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠٤۔ یہ معدودے چند الفاظ ہیں ‘ جن میں دو ٹوک اور واضح خطوط کھینچ دیے گئے ہیں ‘ یہ بتاتے ہیں کہ ایک مومن کی راہ کس قدر طویل اور پر مشقت ہے ۔ مومنین ہمیشہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان ہوتے ہیں ۔ بیشک اس دائمی معرکے میں وہ رنج والم اور گہرے زخم پاتے ہیں لیکن وہ یہ سوچیں کہ کیا یہ تکالیف صرف ان پر ہی آئی ہیں یا دشمنوں کو بھی انہیں جیس تکالیف سے سابقہ درپیش ہے ۔ دشمن بھی تو رنج والم سے دوچار ہوتے ہیں ۔ انہیں بھی تو زخم آتے ہیں۔ لیکن تم دونوں میں فرق یہ ہے کہ اہل ایمان تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور اللہ سے شاندار جزا کے امیدوار ہیں اور ان کے دشمنوں کی حالت یہ ہے کہ وہ بےمقصد اور بےفائدہ جنگ لڑ رہے ہیں ‘ وہ اللہ کے سامنے تو کچھ لے کر جانے والے نہیں ‘ نہ انہیں اس دنیا میں اللہ کی جانب سے کوئی امید ہے اور نہ آخرت میں کوئی توقع ہے ۔۔۔۔۔۔ پس اگر کفار اس معرکے پر مصر ہیں تو مسلمانوں کے لئے تو مناسب ہے کہ وہ اس سے زیادہ اصرار کریں ۔ اگر کفار اس معرکے میں گہرے زخم برداشت کرتے ہیں تو اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ ان سے زیادہ زخم کھاتے جائیں اور صبر کریں ۔ اور ان کو چاہئے کہ وہ ان اہل کفار کا پیچھا کریں ‘ جہاد و قتال جاری رکھیں اور انہیں اس حالت تک پہنچا دیں کہ ان کی قوت ٹوٹ جائے اور وہ کسی مسلمان کے دین اور جان ومال کے لئے فتنہ نہ رہیں ۔ ہر جدوجہد میں نظریہ حیات برتر رہتا ہے بعض ایسے لمحات بھی آتے ہیں کہ مصائب انسان کی قوت برداشت سے بڑھ جاتے ہیں ۔ درد ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔ ایسے حالات میں مومن کو خاص زاد وعتاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس کا فیضان سرچشمہ ایمان اور نظریہ سے ہوتا ہے اور یہ اللہ کی یاد ہوتی ہے جو ہر زخم کے لئے بہتر مرہم ہوتی ہے ۔ یہ ہدایات ‘ اس وقت ایک متوازن اور برابری کی جنگ کے اندر دی جارہی تھیں ۔ اس میں فریقین برسرپیکار تھے دونوں کا رنج والم سے سابقہ تھا اور دونوں اسلحہ بند تھے ۔۔۔۔۔ لیکن اہل ایمان پر ایسا وقت بھی آسکتا ہے جس میں معرکہ متوازن نہ ہو ‘ کھلی جنگ نہ ہو رہی ہو ‘ ایسے حالات میں بھی یہی اصول ہے ۔ باطل اہل اسلام کو کبھی بھی برداشت نہیں کرتا اگرچہ باطل غالب ہو اور اسلامی عقیدہ مغلوب ہو اس لئے کہ باطل کے اندر ایک تضاد پایا جاتا ہے ۔ اس داخلی تضاد کی وجہ سے وہ بےچین ہوتا ہے ۔ وہ خود اپنے اندرون کی کشمکش سے دو چار ہوتا ہے پھر وہ فطرت انسانی اور فطرت اشیاء کے ساتھ بھی برسرپیکار ہوتا ہے ۔ گروہ مومن کی راہ ایسے حالات میں بھی یہی ہے کہ وہ برداشت کرے اور ہمت نہ ہارے ۔ اسے یہ حقیقت پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اگرچہ وہ مصائب کا شکار ہے لیکن اس کا دشمن اندرونی تضاد کے روگ کا بیمار ہے ۔ روگ کی بھی تو قسمیں ہیں دلی چرکے بدن کے زخموں سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں اور دشمن کو ایسے زخم آتے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے ۔ (آیت) ” وترجون من اللہ مالا یرجون ‘ (٤ : ١٠٤) (اور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں) اور یہ وہ مرہم ہے جو دشمن کو میسر نہیں ہے یہی وہ مقام ہے جہاں سے دونوں فریقوں کی راہیں جدا ہوتی ہیں اور اس بات کو اچھی طرح اللہ جانتا ہے ۔ (آیت) ” وکان اللہ علیما حکیما “۔ (٤ : ١٠٤) اللہ کو معلوم ہے کہ دلوں اور جذبوں کا مداوا کیا ہے اور ان کے ساتھ ڈیلنگ کس طرح ہوتی ہے اور دلوں کے زخموں کا علاج کیا ہے ‘ روح کی مرہم کیا ہے ؟ جس سے اہل کفر بیخبر اور محروم ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی نہ دکھاؤ جب دشمنوں کا پیچھا نہ کیا جائے تو وہ شیر ہوجاتے ہیں اور اہل ایمان کو ضعیف اور کمزور سمجھنے لگتے ہیں اور حملے کرنے کے ارادے کرتے رہتے ہیں اس آیت میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ دشمنوں کا پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو کمزور نہ ہوجاؤ۔ سستی کا مظاہرہ نہ کرو۔ پھر چونکہ دشمنوں کا پیچھا کرنے سے قتال کے مواقع بھی آجاتے ہیں اور اس میں قتل بھی ہوتے ہیں زخم بھی آتے ہیں اور بھی تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں اس لیے ان تکلیفوں کا احساس کم کرنے کے اور طبعی طور پر جو دکھ ہو اس کا ازالہ کرنے کے لیے۔ اگر تم دکھ پاتے ہو تو دشمن بھی تو تکلیف اٹھاتے ہیں : ارشاد فرمایا کہ اگر تم دکھ پاتے ہو اور بےآرام ہوتے ہو تو یہ بات کوئی تمہارے ہی ساتھ خاص نہیں تمہارے دشمن بھی تو دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں تکلیفیں سہتے ہیں مقتول اور مجروح ہوتے ہیں، تم دیکھ لو انہیں کیا ملتا ہے اور تمہیں کیا ملتا ہے ؟ تم تو اللہ سے آخرت کے ثواب کی امید رکھتے ہو بڑے بڑے درجات کی امید میں تکلیف اٹھاتے ہو جنت کے آرزو مند ہو اتنی بڑی نعمتوں کے سامنے یہ ذرا سی تکلیف کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی اور کافر جو دکھ اٹھاتے ہیں اور تکلیف سہتے ہیں ان بہت سے تو موت کے بعد جزا سزا کے قائل ہی نہیں اور جو لوگ موت کے بعد حشر و نشر کے قائل ہیں وہ بھی قتل و قتال کی تکلیفوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے موت کے بعد کسی خیر کے آرزو مند نہیں ہیں وہ تو باطل دینوں کے لیے لڑتے ہیں اور آخرت میں ثواب لینے کا کہیں سے کہیں تک بھی انہیں تصور نہیں۔ جب وہ جنگ کرتے ہیں اور جان و مال خرچ کرتے ہیں (حالانکہ وہ باطل پر ہیں اور موت کے بعد انہیں امید بھی خیر کی نہیں) تو تمہیں تو ان سے زیادہ بڑھ چڑھ کر خوب جم کر قتل و قتال کرنا چاہیے۔ جنگ میں تو تکلیف ہی ہے لیکن تم جنگ کی آرزو لیے ہوئے ہو اور کافر کے سامنے اس کے دین باطل کے سوا کچھ بھی نہیں لہٰذا تمہارے لیے کمزوری کا کوئی پہلو نہیں ہمیشہ ہمت سے رہو اور شجاعت دلیری اور بہادری سے کام لو۔ جئے تو غازی مرے تو شہید تمہیں تو کوئی نقصان ہی نہیں۔ پھر فرمایا (وَکَان اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً ) کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کو سب کچھ علم ہے تمہاری سبھی مصلحتوں کو جانتا ہے تمہارے اعمال سے بھی باخبر ہے۔ حکمت والا بھی ہے اس کے اوامر اور نواہی حکمت کے مطابق ہیں۔ ان کے مطابق عمل کرو گے تو کامیابی ہی کامیابی ہے۔ قال صاحب الروح صفحہ ١٣٨: ج ٥ فجدو افی الامتثال فان فیہ عواقب حمیدۃ و فوزاً بالمطلوب

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

77 یہ ترغیب الی القتال ہے۔ القوم سے مراد مشرکین ہیں یعنی اگر کسی وقت مشرکین کا تعاقب کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس میں سستی اور کمزوری نہ دکھاؤ بیشک اس میں تمہیں تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن ساتھ ہی مشرکین کو بھی تکلیف ہوگی۔ تکلیف اٹھانے میں تو تم دونوں فریق برابر ہو مگر ان تکلیفوں کے بدلے اللہ کی رحمت و بخشش اور اخروی انعامات جن کے تم امید وار ہو مشرکین کا ان میں کوئی حصہ نہیں۔ اس لیے مشرکین کی تکلیف تو محض تکلیف ہی ہے لیکن تمہاری تکلیف پر اخروی اجر اور جاودانی نعمتیں مرتب ہوں گی۔ لہذا تمہیں اللہ کی راہ میں ہر تکلیف خوشی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنی چاہیے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور اے مسلمانو ! تم اپنی دشمن اور مخالف قوم کا تعاقب اور پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو اور بزدلی نہ دکھائو اگر جنگ کی وجہ سے اور زخم خوردہ ہونے کے باعث تم بےآرام اور دکھی ہوتے ہو تو وہ تمہارے دشمن بھی اسی طرح بےآرام اور دکھی ہوتے ہیں جس طرح تم بےآرام اور دکھی ہوتے ہو یعنی جہاں تک جنگ اور مجروح ہونے کی وجہ سے تم کو درد اور تکلیف ہوتی ہے اسی طرح انکو بھی ہوتی ہے تو گویا اس معاملہ میں تم اور وہ مشترک ہو مگر تم اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو امیدیں ان کو ہیں اور وہ اجر وثواب کی توقع سے محروم ہیں اور اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہ وہ تمہارے حال سے خوب واقف ہے اور جو حکم تم کو دیتا ہے وہ کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس آیت کا تعلق یا تو بدر صغریٰ سے ہے جیسا کہ اکثر مفسرین نے کہا ہے ۔ یا غزوئہ حمر الاسد سے ہے۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے۔ بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی دشمن کے تعاقب کا حکم ہو تو تم اس میں کاہلی اور پس و پیش نہ کیا کرو اور اپنے زخموں وغیرہ کا عذر نہ کیا کرو کیونکہ اس قسم کی جسمانی تکالیف میں تم اور وہ برابر ہو۔ جنگ میں اس قسم کا دکھ لڑنے والے کو پہنچتا ہی ہے۔ خواہ تم ہو یا تمہارے مخالف ہوں لیکن اجر وثواب کے اعتبار سے تمہارے اور ان کے اعتقاد میں بڑا فرق ہے اور تم کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی جو جو امیدیں وابستہ ہیں وہ امیدیں ا ن کو نہیں ہیں کیونکہ نہ ان کو آخرت پر ایمان ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب پر اعتقاد رکھتے ہیں اور چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید نہیں اس لئے ان میں کمزوری اور بزدلی ہونی چاہئے نہ کہ تم میں کیونکہ تم کو ثواب اخروی کی امیدیں ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے سامنے صرف دنیوی زندگی ہے اور تمہارے سامنے دین و دنیا دونوں کی کامیابی کا سوال ہے لہٰذا دکھ درد کے موقعہ پر تم میں ہمت اور جرأت زیادہ ہونی چاہئے۔ دھن کے معنی ضعف، سستی، کاہلی، بعض احادیث میں دھن کے معنی حب الدنیا و کر ابیت الموت کے ساتھ کئے گئے ہیں۔ بعض علماء نے تھنوا کو اہانت سے مشتق کیا ہے اور ترجمہ جبن اور بزدلی سے کیا ہے۔ ہم نے تیسیر میں دونوں لفظ رکھے ہیں جیسا کہ ہمارا قاعدہ ہے کہ ہم ترجمہ اور تیسیر میں اس امر کا لحاظ رکھتے ہیں کہ خواہ عبارت بڑھ جائے لیکن جہاں تک ممکن ہو مختلف اقوال کو جمع کردیں۔ اب آگے بعض منافقین کا ایک واقعہ مذکور ہے چونکہ اوپر کفار کا ذکر تھا اس لئے ان کی مناسبت سے بعض منافقوں کا ذکر فرماتے ہیں۔ آگے کی آیتیں ایک خاص واقعہ کی تفصیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ واقعہ مختصراً اس طرح ہے کہ ایک انصاری نے اپنی زرہ آٹے میں رکھ چھوڑی تھی۔ وہ کسی نے نقب لگا کر نکال لی صبح کو اس کی تلاش ہوئی اور آٹے کا نشان دیکھتے ہوئے لوگ چلے تو اس نشان سے معلوم ہوا کہ زرہ طعمہ بن ابیرق کے گھر میں ہے گھر کی تلاشی لی تو زرہ برآمد نہیں ہوئی پھر لوگوں نے آٹے کے نشان کی کھوج لگائی تو ایک یہودی کے گھر تک پہنچے اس کے ہاں وہ زرہ نکل آئی۔ اس یہودی نے کہا مجھ کو تہ یہ زرہ طعمہ بن ابیرق نے دی ہے۔ میں چوری سے بری ہوں، چور وہی ہے۔ اس پر طعمہ کے خاندان والوں نے رات کو مشورہ کیا کہ ہم سب مل کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہیں کہ جامعہ طعمہ بری ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف داری کریں گے اور یہودی جس کا نام زید ہے وہی چوری کا ملزم قرار پائے گا۔ بعض حضرات نے واقعہ کی تفصیل اور طرح بیان کی ہے اگرچہ واقعہ یہی ہے۔ حضرت قتاد کہتے ہیں بنو بریق والوں کا ایک گھر تھا جس میں بشیر اور شبیر اور مبشر تھے ۔ بشیر منافق تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں اور صحابہ کرام کی شان میں ہجو کہا کرتا تھا اور دوسرے لوگوں کے نام سے مزے مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا مگر صحابہ جانتے تھے کہ یہ اشعار اسی کے کہے ہوئے ہوتے ہیں مگر یہ خبیث دوسروں کے نام سے سناتا تھا یہ لوگ جاہلیت کے زمانے سے غربت میں مبتلا اور فاقہ مست تھے اور آج کل بھی تنگدستی میں رہتے تھے۔ یوں تو عام طور پر مدینے کے لوگ جو اور کھجوریں کھا کر پیٹ بھرتے تھے لیکن بعض اہل ثروت شامی قافلوں سے میدہ خرید لیا کرتے تھے جسے وہ خود استعمال کیا کرتے تھے۔ باقی گھر والے موٹا اناج کھالیا کرتے تھے ایک دفعہ میرے چچا رفاعہ بن زید نے بھی شامی قافلے سے کچھ مید ا خرید لیا اور اس میدے کو مکان کی دو چھتی میں رکھ دیا ۔ جہاں ان کے ہتھیار وغیرہ بھی رکھے رہتے تھے رات کو چوروں نے نقب لگا کر ہتھیار بھی چرا لئے اور میدہ وغیرہ بھی لے گئے۔ صبح کو میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے انہوں نے چوری کا قصہ مجھے سنایا۔ اب ہم لوگ پتہ لگانے نکلے تو ہم کو معلوم ہوا کہ رات بنو ابیرق والوں کے گھر میں آگ روشن ہو رہی تھی اور کھانا پکانا ہو رہا تھا ۔ غالباً انہوں نے تمہارے ہاں چوری کی ہوگی۔ تمہارے آنے سے پہلے ہم نے ان لوگوں سے تمہارے ہاں کی چوری کا حال دریافت کیا تھا تو وہ لبید کا نام لیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ رفاعہ کے ہاں لبید نے چوری کی ہے مگر ہم کو یقین نہیں آیا کیونکہ لبید بہت نیک آدمی ہے۔ چنانچہ جب لبید کو معلوم ہوا کہ بنو ابیرق میرا نام لے رہے ہیں تو وہ تلوار لے کر آئے اور انہوں نے بنو ابیرق کو ڈانٹ کر کہا یا تو مجھے چور ثابت کرو ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اس پر ان لوگوں نے لبید سے معذرت کی اور معافی چاہی قتادہ کہتے ہیں اس واقعہ کو سن کر مجھ کو اور میرے چچا کو یقین ہوگیا کہ بنو ابیرق ہی چور ہیں مگر پھر بھی میرے چچا نے احتیاطاً مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا کہ قتادہ تم جا کر یہ تمام رپورٹ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہو کہ جناب ان چوروں سے صرف ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجیے کھانے پینے کے سامان کو جانے دیجیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام واقعہ قتادہ سے سن کر تحقیق کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ جب بنو ابیرق کو یہ پتہ لگا تو انہوں نے اپنی طرف سے ایک آدمی کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا جس کا نام اسید بن عروہ تھا اس نے آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تو بڑا ظلم ہو رہا ہے ۔ بنو ابیرق کے لوگ تو مخلص مسلمان ہیں ان پر چوری کا الزام لگایا جا رہا ہے ان کو قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا رفاعہ بن زید چور بتاتے ہیں اور بلا ثبوت کے ان کو چور بتاتے ہیں قتادہ کہتے ہیں کہ جب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ قتادہ یہ تم بہت برا کرتے ہو کہ دیندا اور بھلے لوگوں کے ذمہ چوری لگاتے ہو اور تمہارے پاس کوئی ثبوت ان کے چور ہونے کا نہیں قتادہ کہتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد سن کر چپ چاپ واپس چلا آیا اور میں نے اپنے چچا کو یہ بات سنائی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فرمایا ہے۔ ان کے چچا نے یہ قصہ سن کر کہا اللہ المستعان یعنی اللہ تعالیٰ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں اس کے تھوڑی ہی دیر بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آئی اور یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بعض لوگوں نے ایک چادر کی چوری کے واقعہ میں ان آیتوں کا نزول بتایا ہے بہرحال شان نزول کی وجوہ اگر متعدد ہوں تو بھی مضائقہ نہیں۔ بہرحال واقعہ چوری کا ہے اور اس کی تحقیق میں چور کے حمایتی غلط فہمی پیدا کرنی کی جو کوشش کر رہے تھے اس سے پیغمبر کو باخبر کرنے کا ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی غلط نتیجے پر پہنچنے سے بچا لینے کا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)