Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 108

سورة النساء

یَّسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ وَ ہُوَ مَعَہُمۡ اِذۡ یُبَیِّتُوۡنَ مَا لَا یَرۡضٰی مِنَ الۡقَوۡلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطًا ﴿۱۰۸﴾

They conceal [their evil intentions and deeds] from the people, but they cannot conceal [them] from Allah , and He is with them [in His knowledge] when they spend the night in such as He does not accept of speech. And ever is Allah , of what they do, encompassing.

وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں ( لیکن ) اللہ تعالٰی سے نہیں چھپ سکتے وہ راتوں کے وقت جب کہ اللہ کی ناپسندیدہ باتوں کے خفیہ مشورے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے ، ان کے تمام اعمال کو وہ گھیرے ہوئے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللّهِ ... They may hide (their crimes) from men, but they cannot hide (them) from Allah; chastises the hypocrites because they hide their evil works from the people so that they will not criticize them. Yet, the hypocrites disclose this evil with Allah, Who has perfect watch over their secrets and knows what is in their hearts. This is why Allah said, ... وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لاَ يَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا for He is with them (by His knowledge), when they plot by night in words that He does not approve. And Allah ever encompasses what they do. threatening and warning them. Allah then said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٧] زرہ کا چور دراصل سچا مسلمان نہیں بلکہ منافق آدمی تھا اور اس کے خاندان والے بھی کچھ پختہ ایمان والے نہ تھے۔ جب یہ مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں چلا گیا تو ان لوگوں کے مشورے کا موضوع یہ ہوتا تھا کہ چور کس طرح چوری کے اس جرم سے بچ سکتا ہے اور یہ جرم اس یہودی کے سر کیسے تھوپا جائے۔ دراصل اس طرح راتوں کو مشورے کرنا اور یہ سمجھنا کہ اس طرح ان کے جرم پر پردہ پڑا رہے گا، یہی ان لوگوں کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے اور اللہ سے کوئی معاملہ بھلا کیسے چھپا رہ سکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ : یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ گناہوں کا ارتکاب کرنے میں لوگوں سے چھپاؤ تو کرتے، ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے چھپاؤ نہیں کرتے جو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کی گھڑیوں میں نا مناسب کاموں کے مشورے کر رہے ہوتے ہیں، وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، اس سے بچ کر کہاں جائیں گے ؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کے مطلب کے لیے دیکھیے سورة حدید (٤) اور سورة مجادلہ (٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse (108) describes the condition of people who betray trust and act treacherously. It is strange that these people feel shy before other people like them and conceal their theft from them while they do not feel shy before Allah who is with them all the time and watches over everything they do, specially the occasion when they mutually conspired to put the blame on the Jew, went to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) complained against Rifa` ah and Qatadah (رض) ، charged them of false accusation and appealed to the Holy Prophet for support against the Jew.

چوتھی آیت (یعنی آیت نمبر ٨٠١) میں ان خیانت کرنے والوں کے برے حال اور بیوقوفی کا بیان ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی جیسے آدمیوں سے تو شرماتے اور چوری کو چھپاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے جو ہر وقت ان کے ساتھ ہے اور ان کے ہر کام کو دیکھ رہا ہے، خصوصاً اس واقعہ کو جب انہوں نے باہم مشورہ کر کے یہ رائے قائم کی کہ الزام یہودی پر لگاؤ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رفاعہ اور قتادہ کی شکایت کرو کہ بلاوجہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں اور آپ سے اس کی درخواست کرو کہ آپ یہودی کے مقابلہ میں ہماری حمایت فرمائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللہِ وَھُوَمَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطًا۝ ١٠٨ اسْتِخْفَاءُ والاسْتِخْفَاءُ : طلب الإخفاء، ومنه قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ [هود/ 5] والخَوَافي : جمع خافية، وهي : ما دون القوادم من الرّيش . ۔ الا ستخفاء ۔ چھپنا ۔ قرآن میں ہے : أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ [هود/ 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ خدا سے پردہ کریں ۔ الخوافی ۔ پرند کے بازوں کے نیچے چھپے ہوئے پر اس کا مفرد خفیتہ ہے اور القوادم کی ضدہی بَيَّتَ ( رات گزارنا) : ما يفعل باللیل، قال تعالی: بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء/ 81] . يقال لكلّ فعل دبّر فيه باللیل : بُيِّتَ ، قال تعالی: إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء/ 108] ، وعلی ذلک قوله عليه السلام : «لا صيام لمن لم يبيّت الصیام من اللیل» وبَاتَ فلان يفعل کذا عبارة موضوعة لما يفعل باللیل، كظلّ لما يفعل بالنهار، وهما من باب العبارات . البیوت وہ معاملہ جس پر رات بھر غور و خوض کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے ؛۔ بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء/ 81] ان میں بعض لوگ رات کو مشورے کرتے ہیں ۔ اور بیت الامر کے معنی ہیں رات کے وقت کسی کام کی تدبیر کرنا ۔ چناچہ فرمایا ؛۔ إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء/ 108] حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا اسی طرح ایک روایت ہے (48) لاصیام لمن لم یبیت الصیام من الیل کہ جو شخص رات سے روزہ کی پختہ نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اور بات فلان یفعل کذا کے معنی رات بھر کوئی کام کرنا کے ہیں جیسا کہ ظل کے معنی دن بھر کام کرنا آتے ہیں اور یہ دونوں افعال عادات سے ہیں ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ ) یہ لوگ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے۔ (وَہُوَ مَعَہُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لاَ یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ ط) یہ منافقین کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب وہ مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف چوری چھپے سازشیں کر رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اگر اللہ پر ان کا ایمان ہو تو انہیں معلوم ہو کہ اللہ ہماری باتیں سن رہا ہے۔ یہ مسلمانوں سے ڈرتے ہیں ‘ ان سے اپنی باتوں کو خفیہ رکھتے ہیں ‘ مگر ان بد بختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت ہمارے پاس موجود ہے ‘ اس سے تو کچھ نہیں چھپ سکتا۔ (وَکَان اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا ) یعنی اس کی پکڑ سے یہ کہیں باہر نہیں نکل سکتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

یستخفون۔ وہ چھپتے ہیں۔ وہ چھپے رہ سکتے ہیں۔ استخفاء (استفعال) مصدر خفی مادہ ۔ یبیتون۔ بتییت مصدر باب تفعیل۔ رات کو سوچتے ہیں۔ رات کو سوچتے اور تدبیریں کرتے ہیں۔ مالا یرضی من القول۔ ایسی باتیں سوچتے اور کہتے ہیں جن پر خدا راضی نہیں ہے۔ محیطا۔ اسم فاعل۔ مفرد احاطۃ مصدر۔ ہر طرف سے گھیرے ہوئے۔ پورا پورا قابو رکھنے والا۔ ہر طرح سے جاننے والا۔ یہاں احاطہ علمی مراد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ گنا ہوں کا ارتکاب کرنے میں لوگوں سے تو شرم کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے جو ان کے ظاہر و باطن کو جنتا ہے شرم نہیں کرتے۔3 یعنی جاننے، دیکھنے اور سننے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ورنہ بذاتہ تو اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہے ، ( قرطبی، ابن کثیر)4 جیسے جھوٹی شہادت پر ایکا کرنا ارنے قصو پر چوری کا الزام لگانا۔5 تو اس سے بچ کر کہاں جائے گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کی جانب ایک سچی کتاب نازل کی ہے یعنی کتاب حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے اور اس کے تمام امور حق اور سچے ہیں تاکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو بتادیا ہے آپ اس کے مطابق اس واقع خاص میں لوگوں کے مابین فیصلہ کریں اور جب آپ کو چور کا اصل حال معلوم ہوگیا تو آپ خیانت کرنے والوں کے طرف دار نہ بنیں اور خائنوں کی طرف داری نہ کریں اور اسید بن عروہ کے کہنے سے جو طبعاً چور کی بےگناہی کی طرف آپ کو میلان ہوگیا تھا وہ آپ کی شان کے مناسب نہ تھا اس لئے آپ سے اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں استغفار کیجیے بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور نہایت مہربانی کرنے والا ہے اور آپ ان لوگوں کی طرف سے جو اپنے حق میں خو د خیانت کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو نقصان پہونچا رہے ہیں بحیثیت ایک فریق کے کوئی جواب دہی نہ کیجیے یعنی چور کی حمایتیوں کی جانب سے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا اور پسند نہیں فرماتا جو خیانت کرنے والا اور جرائم پیشہ اور گناہگار ہو۔ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ لوگوں سے تو پردہ کرتے ہیں اور اپنی خیانت کو عام لوگوں سے چھپاتے پھرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے اور اس سے حیا نہیں کرتے حالانکہ اللہ تعالیٰ جس طرح ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کی کارروائیوں کو دیکھتا ہے جبکہ یہ لوگ رات کو ایسی باتوں کا مشورہ کرتے ہیں جو باتیں اللہ تعالیٰکی مرضی کے خلاف اور اس کو ناپسند ہوتی ہیں اور یقین جانو ! کہ ان کی تمام کارروائیاں اور ان کے تمام اععمال اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ اول و آخر کئی آیت میں ذکر ہے ایک قصہ کا حضرت کے وقت ایک انصاری کی زرہ آٹے میں دھری گم ہوگئی صبح کو تلاش کی تو آٹے کا خط دیکھا ایک شخص کے گھر تک اس کا نام طعمہ بن ابیرق تھا وہاں جھاڑ ا لیا تو نہ پائی وہ خط آگے دیکھا ایک یہودی کے گھر تک زید نام وہاں پائی اس یہودی نے کہا کہ مجھ کو طعمہ نے سپرد کی طمعہ نے کہا میں بری ہوں چور وہی ہے طعمہ کی قوم نے رات کو مشورت کی ہم حضرت کے پاس سب مل کر گواہی دیں گے کہ طعمہ بری ہے تو حضرت ہماری حمایت کریں گے اور یہودی چور ٹھہرے گا صبح کو یہی کیا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں حضرت کو خبردار کردیا کہ فی الحقیقت چور یہی تھا طعمہ (موضح القرآن) خصیم جھگڑنے والا خوان بہت خیانت کرنے والااثیم گناہگار یہاں بشیر یا طعمہ مراد ہے یستخفون پردہ کرنا، چھانا، شرمانا، محیط گھیرنے والا احاطہ کرنے والا یہاں احاطہ علمی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب جو آپ پر نازل کی ہے یہ مشتمل برحق ہے اس سے آپ کو واقعہ زیر بحث معلوم ہوجائے گا۔ نزول کتاب کا مقصد اور اس موقع پر یہ خاص وحی بھیجنے کا سبب یہ ہے کہ جو بات آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتادی ہے آپ اس کے موافق فیصلہ کریں اور وہ یہ ہے کہ بشیر یا طعمہچور ہے اور جو لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ خائن ہیں اور جب آپ کو معلوم ہوگیا تو آپ خائنوں کی طرف داری نہ کریں اور اسید کے یا لوگوں کے کہنے سننے سے جو آپ کی طبیعت کا میلان ہوگیا تھا وہ آپ کی شان کے مناسب نہ تھا اس لئے اس سے استغفار کیجیے اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں بخشش طلب کیجیے اور جو لوگ جان بوجھ کر چور کی حمایت کر رہے ہیں وہ اپنے نفس کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو نقصان پہونچا رہے ہیں تو آپ ایسے خائنوں کی طرف سے ایک فریق بن کر کوئی جواب دہی نہ کیجیے اور کوئی جھگڑا نہ کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی خیانت کرنے والے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا تو ایسے ناپسندیدہ اشخاص کی جانب سے آپ کو جواب دہی کرنا اور ان کی حمایت کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے جن بےحیائوں کی حاحلت یہ ہے کہ لوگوں سے تو چوری کے معاملے کو چھپاتے ہیں اور چور کو بےگناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے پھرت یہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے جو ہر وقت ان کے ساتھ ہے اور اپنے علم کے اعتبار سے ان کی ہر حرکت و سکون سے باخبر ہے ۔ یہاں تک کہ شب کو جو پنچایت کرتے ہیں اور آپس میں جو مشورہ کرتے ہیں کہ کسی طرح طعمہ یا بشر پر چور ی کا الزام نہ لگنے دو اور پنچایت میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی با اعتبار علم کے ان کے پاس ہوتا ہے یہ بنو ابیرق کے ان مشوروں کی طرف اشارہ ہے جو اہل محلہ نے جمع ہو کر پنچایت میں طے کی تھیں آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احاطہ علمی کا اعلان فرمایا کہ ایک اس پنچایت پر کیا موقوف ہے اللہ تعالیٰ کا علم تو ان کے تمام کاموں کا احاطہ کئے ہوئے ہے آگے ان لوگوں کو خطاب ہے جو چور کی حمایت کرنے والے تھے چناچہ ارشاد ہے۔ (تسہیل)