Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 109

سورة النساء

ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ جٰدَلۡتُمۡ عَنۡہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۟ فَمَنۡ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنۡہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَمۡ مَّنۡ یَّکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ وَکِیۡلًا ﴿۱۰۹﴾

Here you are - those who argue on their behalf in [this] worldly life - but who will argue with Allah for them on the Day of Resurrection, or who will [then] be their representative?

ہاں تو یہ ہو تم لوگ کہ دنیا میں تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ تعالٰی کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا؟ اور وہ کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَاأَنتُمْ هَـوُلاء جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... Lo! You are those who have argued for them in the life of this world, meaning, suppose these people gain the verdict from the rulers in their favor in this life, since the rulers judge according to what is apparent to them. ... فَمَن يُجَادِلُ اللّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ... but who will argue for them on the Day of Resurrection against Allah, However, what will their condition be on the Day of Resurrection before Allah, Who knows the secret and what is even more hidden Who will be his advocate on that Day Verily, none will support them that Day. Hence, Allah's statement, ... أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلً or who will then be their defender!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 یعنی جب اس گناہ کی وجہ سے اس کا مواخذہ ہوگا تو اللہ کی گرفت سے اسے بچا سکے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٨] یہ خطاب اس منافق چور کے حمائیتوں سے ہے کہ اگر آج تم چور کے حمایتی بن بھی گئے تو کل قیامت کے دن اللہ کے روبرو تم میں سے کون اس کی وکالت کرے گا جبکہ تمہارے لیے تمہارا اپنا ہی یہ گناہ کافی ہوگا۔ ضمناً اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص کے پاس سے چوری کا مال برآمد ہوجانا اس بات کا یقینی ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ فی الواقع چور ہے لہذا ایسے معاملات میں انتہائی تحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے آپ نے حدود قائم کرنے کے سلسلہ میں بہت سی ہدایات فرمائی ہیں جن کا ذکر کسی دوسرے مناسب مقام پر کردیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھٰٓاَنْتُمْ هٰٓؤُلَاۗءِ جٰدَلْتُمْ ۔۔ : یہ ان لوگوں سے کہا جا رہا ہے جو ابیرق کے بیٹوں کی طرف سے وکالت اور بحث کرتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Banu Ubayriq telling them that their support given to betrayers of trust in the mortal world does not end at that. There will be the Day of Doom when their case will come before Almighty Allah. Who will lend support to them at that time? The verse serves two purposes. It admonishes them, and then reminds them of the hazards of the Hereafter persuading them thereby to repent and turn to Allah.

پانچویں آیت (یعنی آیت نمبر ٩٠١) میں بنو ابیرق کی مدد کرنے والے حمایتیوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ دنیا میں تو تم نے ان کی حمایت کرلی، مگر معاملہ یہیں تو ختم نہیں ہوجاتا، قیامت میں جب حق سبحانہ، و تعالیٰ کی عدالت میں معاملہ پیش ہوگا وہاں کون حمایت کریگا، اس آیت میں ان کو ملامت بھی ہے اور آخرت کا خوف دلا کر اپنے فعل سے توبہ اور رجوع کی ترغیب بھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَاۗءِ جٰدَلْتُمْ عَنْھُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ۣ فَمَنْ يُّجَادِلُ اللہَ عَنْھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَمْ مَّنْ يَّكُوْنُ عَلَيْہِمْ وَكِيْلًا۝ ١٠٩ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاقف) (فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) (اَمْ مَّنْ یَّکُوْنُ عَلَیْہِمْ وَکِیْلاً ) یہ خطاب ہے اس منافق چور کے قبیلے کے لوگوں سے کہ اے لوگو ! تم نے دنیا کی زندگی میں تو مجرموں کی طرف سے خوب وکالت کرلی ‘ یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قائل کرنے کی حد تک تم پہنچ گئے۔ مگر یہاں تم انہیں چھڑا بھی لیتے اور بالفرض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قائل کرلیتے تو قیامت کے دن انہیں اللہ کی پکڑ سے کون چھڑاتا ؟ اس ضمن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث کا مفہوم اس طرح ہے کہ میرے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوتا ہے ‘ اس میں ایک فریق زیادہ چرب زبان ہوتا ہے ‘ وہ اپنی بات بہتر طور پر پیش کرتا ہے اور میرے ہاں سے اپنے حق میں غلط طور پر فیصلہ لے جاتا ہے۔ (فرض کیجئے کسی زمین کے ٹکڑے کے بارے میں کوئی تنازعہ تھا اور ایک شخص غلط طور پر بات ثابت کر کے اپنے حق میں فیصلہ لے گیا ۔ ) لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح وہ زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ جہنم کا ٹکڑا لے کر گیا ہے۔ یعنی خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بھی فیصلے کرتے تھے شہادتوں کے اعتبار سے کرتے تھے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ کی طرف سے ہر وقت اور ہر مرحلے پر تو وحی نازل نہیں ہوتی تھی ‘ جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ فرما دیتا تھا۔ اس لیے آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرما دی کہ اگر کچھ لوگ اس دنیا میں جھوٹ ‘ فریب اور غلط فیصلے کے ذریعے کوئی مفاد حاصل کر بھی لیتے ہیں تو انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک دن اس کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے جہاں جھوٹ اور غلط بیانی سے کام نہیں چلے گا ‘ وہاں ان کے حق میں اللہ سے کون جھگڑے گا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلا سکے، اس کے مخاطب بنی ظفر اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو طعمہ اور اس کے بھائیوں کی طرف سے جھگڑ رہے تھے، (قرطبی، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جن لوگوں نے عزیز داری کی بنیاد پر چور کی حمایت اور تعصب کی بنا پر یہودی پر الزام لگایا تھا۔ اب انہیں مخاطب کیا جارہا ہے کہ تم ایسے لوگ ہو جو طرف داری اور تعصب کی بنیاد پر اس دنیا میں مجرم کے حق میں جھگڑتے ہو۔ بتاؤ قیامت کے دن رب ذوالجلال کے سامنے مجرموں کی طرف سے کون جھگڑا اور ان کی وکالت کرسکے گا ؟ اس فرمان کا صاف مطلب ہے کہ کسی شخص کو مجرم کی پاسداری اور اس کے جرم کی وکالت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ فرمان ہر وکیل کے لیے تازیانۂ عبرت رکھتا ہے۔ اس کے بعد چار مرتبہ لفظ ” مَنْ “ استعمال کیا کہ دنیا میں کوئی بھی جان بوجھ کر گناہ کرے یا بھول کر خطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہو تو اللہ تعالیٰ یقیناً اسے معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور بڑی شفقت فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد پھر فرمایا کہ جو بھی گناہ کرے گا اس کا بوجھ دنیا اور آخرت میں اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم فلاں کے واسطے اور وسیلے سے نجات حاصل کرلیں گے اور بزرگوں کے طفیل ضرور جنت میں داخل ہوں گے۔ قرآن مجید مختلف پیرائے میں یہ بات سمجھاتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا لہٰذا پیر ہو یا مرید ‘ نبی ہو یا امتی ہر کسی کو اپنے اپنے اعمال کی جزا یا سزا پانا ہوگی۔ ہر شخص کو خوب جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیت و عمل کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اور جس شخص نے کوئی غلطی یا گناہ کیا اور پھر اس کا الزام ایسے آدمی پر لگایا جو اس سے بری الذمہ ہے۔ ایسے شخص نے بیک وقت تہمت لگانے اور گناہ میں ملوث ہونے کا ارتکاب کیا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھلا گناہ ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں جب یہ آیت (اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ ) ” اپنی جانیں خرید لو یعنی نیک کاموں کے بدلے بچا لو “ نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو ! اپنے لیے کچھ خرید لو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہیں سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ پہنچا نہیں سکوں گا، اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ کفایت نہیں کرسکوں گا، اور اے صفیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ کفایت نہیں کرسکوں گا، اور اے فاطمہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی) ! مجھ سے میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب ] مسائل ١۔ قیامت کے دن کوئی کسی کی غلط حمایت نہیں کرسکے گا۔ ٢۔ گناہ سر زدہو نے کے بعد انسان کو فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر کسی کو معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ ٤۔ توبہ نہ کرنے کی صورت میں ہر کسی کو اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ ٦۔ اپنے گناہ کو دوسرے کے ذمہ لگانے والا بہتان اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن گناہوں کا بوجھ خود اٹھانا ہوگا : ١۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٢۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١) ٣۔ عزیز و اقارب اور ہر کوئی ایک دوسرے سے بھاگ جائے گا۔ (عبس : ٣٤، ٣٦) ٤۔ روز محشر دوست کام نہ آئیں گے۔ (البقرہ : ٢٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 ہاں تم وہ لوگ ہو جو دنیوی زندگی میں تو ان کی طرف سے جھگڑ رہے ہو اور ان کی طرف سے تم نے جواب دہی کرلی مگر یہ تو بتائو کہ قیامت کے دن ان کا طرف دار بن کر اللہ تعالیٰ سے کون جواب دہی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے روبرو ان کی جانب سے کون جھگڑنے کی ہمت کرے گا یا وہ کون شخص ہوگا جو ان کا وکیل ہو سکے اور ان کا کام بنانیوالا ہو۔ (تیسیر) اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہہ ہے جو بشیر یا طعمہ کی طرف سے صفائی دے رہے تھے اور مجرم کے طرف داروں کی حمایت کر رہے تھے کہ اچھا یہاں تو تم بہت بڑھ بڑھ کر بول رہے ہو لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو ان منافقوں کی طرف سے کون بولنے والا ہوگا جو زبانی جواب دہی کرے یا ان کا کون وکیل ہوگا جو زبانی جواب دہی نہ کرے تو ان کا مقدمہ تب کرے اور مسل بنا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرے اور اس طرح ان کا کام بنا دے اور قیامت کے عذاب سے چھڑا دے۔ تو بتائو وہ وکیل کون ہوگا ؟ اور چونکہ اس دن کوئی بھی ایسا نہیں جو زبانی جواب دہی سے یا مقدمہ کی ترتیب سے ملزموں کو بچا سکے بلکہ اس دن تو وہی خدا کی گرفت سے محفوظ رہ سکتا ہے جو یہاں اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور گناہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس سے توبہ کرے تب ہی بخشش کی امید ہوسکتی ہے اس لئے آگے گناہوں سے توبہ کرنے کی جانب توجہ دلاتے ہیں چناچہ ارشد ہوتا ہے۔ (تسہیل)