Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 122

سورة النساء

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیۡلًا ﴿۱۲۲﴾

But the ones who believe and do righteous deeds - We will admit them to gardens beneath which rivers flow, wherein they will abide forever. [It is] the promise of Allah , [which is] truth, and who is more truthful than Allah in statement.

اور جو ایمان لائیں اور بھلے کام کریں ہم انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں یہ ابدالاباد رہیں گے یہ ہے اللہ کا وعدہ جو سراسر سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ امَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ... And those who believe and do righteous good deeds, meaning, their hearts were truthful and their limbs obedient with the righteous acts they were commanded, all the while abandoning the evil they were prohibited from doing. ... سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ ... We shall admit them to Gardens under which rivers flow (Paradise). meaning, they will think of where they want these rivers to flow and they will flow there, ... خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ... to dwell therein forever, without end or being removed from it. ... وَعْدَ اللّهِ حَقًّا ... Allah's promise is the truth, meaning, this is a true promise from Allah, and verily, Allah's promise shall come to pass. Allah then said, ... وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّهِ قِيلً and whose words can be truer than those of Allah! meaning, none is more truthful in statement and narration than Allah. There is no deity worthy of worship, or Lord except Him. The Messenger of Allah used to proclaim in his speech, إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كَلَمُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍصلى الله عليه وسلّم وَشَرَّ الاُْمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَلَةٌ وَكُلَّ ضَلَلَةٍ فِي النَّار The most truthful speech is Allah's Speech, and the best guidance is the guidance of Muhammad. The worst matters are the newly invented (in religion), every newly invented matter is an innovation, and every innovation is a heresy, and every heresy is in the Fire.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

122۔ 1 شیطانی وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اللہ کے وعدے جو اس نے اہل ایمان سے کئے ہیں سچے اور برحق ہیں اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ سچوں کی بات کو کم مانتا ہے اور جھوٹوں کے پیچھے زیادہ چلتا ہے۔ چناچہ دیکھ لیجئے کہ شیطانی چیزوں کا چلن عام ہے اور ربانی کاموں کو اختیار کرنے والے ہر دور میں اور ہر جگہ کم ہی رہے ہیں اور کم ہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٢] یہاں اہل ایمان اور جنت کا ذکر اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے مطابق لایا گیا ہے کہ جہاں ترہیب کا ذکر ہو رہا ہو تو ساتھ ہی ترغیب کا اور جہاں ترغیب کا ذکر ہو رہا ہو تو ساتھ ہی ترہیب کا ذکر عموماً قرآن کریم میں آیا کرتا ہے۔ پچھلی آیات میں شیطان کے پیروکاروں کا ذکر تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ شیطان کے وعدے اور امیدیں دلانا سب کچھ مکروفریب ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان والوں سے اللہ نے جس جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ وہ بالکل سچا ہے اور اللہ سے بڑھ کر سچا ہو بھی کون سکتا ہے ؟ لوگوں کے اعمال کے اچھے اور برے نتائج اس نے جو اطلاع دی ہے اور جنت اور دوزخ کے جو حالات بتائے ہیں وہ سب اس کی نظروں کے سامنے ہیں۔ زمان و مکان کی رکاوٹیں تو ہمارے لئے ہیں اور جنت اور دوزخ ہمارے لئے تو غیب ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے سب باتیں شہود ہی شہود ہی ہیں۔ اس کے لئے زمان و مکان بھی کوئی چیز نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

جس طرح شیطان اپنی پیروی کرنے والوں سے وعدے کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے نیک بندوں سے جنت اور بلند درجات کے وعدے فرماتا ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے اور بات میں کون سچا ہوسکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا ) [ النساء : ٨٧ ] ” اور اللہ سے زیادہ بات میں کون سچا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور جو لوگ ایمان لائے اور (انہوں نے) اچھے کام کئے ہم ان کو عنقریب ایسے باغوں میں داخل کرلیں گے کہ ان کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا ہے اور سچا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کس کا کہنا صحیح ہوگا نہ تمہاری تمناؤں سے کام چلتا ہے اور نہ اہل کتاب کی تمناؤں سے (کہ خالی خولی زبان سے اپنے فضائل بیان کیا کریں بلکہ مدارکار اطاعت پر ہے، پس) جو شخص (اطاعت میں کمی کرے گا اور) کوئی بڑا کام کرے گا (خواہ عقائد سے ہو یا اعمال سے) وہ اس کے عوض میں سزا دیا جاوے گا (اگر وہ برائی عقیدہ کفریہ تک ہے تو سزا دائمی اور یقینی اور اگر اس سے کم ہے تو سزا ہمیشہ کی نہیں) اور اس شخص کو خدا کے سوا نہ کوئی یار ملے گا اور نہ مددگار ملے گا (کہ خدا کے عذاب سے اسے چھڑا لے) اور جو شخص کوئی نیک کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو سو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا (کہ ان کی کوئی نیکی ضائع کردی جائے) اور (اوپر جو مومن کی قید لگائی گئی ہے اس کا مصداق ہر فرقہ نہیں بلکہ صرف وہ فرقہ جس کا دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہونے میں سب سے اچھا ہو، اور ایسا فرقہ صرف اہل اسلام ہی ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ ان میں یہ صفات ہیں : مکمل اطاعت اخلاص، ملت ابراہیم کی پیروی اور) ایسے شخص (کے دین) سے زیادہ بہتر کس کا دین ہوگا جو کہ اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا دے (یعنی فرمانبرداری اختیار کرے عقائد میں بھی اعمال میں بھی) اور (اس کے ساتھ) وہ مخل بھی ہو (کہ دل سے فرمانبرداری اختیار کی ہو خالی مصلحت سے ظاہر داری نہ ہو) اور وہ ملت ابراہیم (یعنی اسلام) کا اتباع کرے جس میں کچی کا نام نہیں اور (ملت ابراہیمی ضرور قابل اتباع ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خالص دوست بنایا تھا (تو ظاہر ہے کہ دوست کے طریقہ پر چلنے والا بھی محبوب و مقبول ہوگا، پس طریقہ اسلام مقبول ہوا، پس اہل اسلام ہی مومن کے لقب کے مصداق ٹھہرے اور دوسرے فرقوں نے ابراہیم کی پیروی کو چھوڑ دیا کہ اسلام نہ لائے، اس لئے صرف مسلمان ہی ایسے ثابت ہوئے کہ محض امانی یعنی تمناؤں پر ان کا سہارا نہیں، بلکہ اطاعت گذار ہیں، پس کام انہی کا چلے گا) اور (اللہ تعالیٰ کی مکمل فرمانبرداری کرنا تو ضروری ہے، کیونکہ ان کی سلطنت وقدرت اور ان کا علم محیط دونوں تام اور مکمل ہیں اور یہی امور مدار ہیں وجوب اطاعت کے چنانچہ) انہی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (یہ تو کمال سلطنت ہوا) اور اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کو (اپنی علم میں) احاطہ فرمائے ہوئے ہیں (یہ کمال علمی ہوا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَآ اَبَدًا۝ ٠ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۝ ٠ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِيْلًا۝ ١٢٢ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ الجَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٢) جو حضرات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے اور حقوق اللہ کی بجا آوری کرتے ہیں ہم ان کو ایسے باغات میں داخل کریں گے جہاں محلات کے نیچے سے دودھ، شہد، پاکیزہ شراب اور پانی کی نہریں جاری ہوں گی، یہ حضرات ہمیشہ جنت میں رہیں گے، نہ وہاں ان کو موت آئے گی اور نہ یہ ہو ان سے نکالے جائیں گے، جنت اور دوزخ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ یقیناً ہو کر رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٢ (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ) (خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ط) ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:122) جنت ای فی جنت۔ قیلا (اپنی) بات میں کلام میں ۔ قول میں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 جس طرح شیطان اپنی پیروی کرنے والوں سے وعدہ کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے نیک بندوں سے جنت اور بلند درجات کے وعدے سراسر یقینی اور قطعی ہیں درآنحالیکہ شیطان کے وعدے سراسر دھوکا اور فریب ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرک جہنم میں جائیں گے شرک سے پاک ایمان اور نیک عمل کے حاملین جنت میں داخل ہوں گے۔ جو لوگ ایمان لائے اور شریعت کے مطابق نیک عمل کرتے رہے ان کے بارے میں رب کریم فرماتے ہیں کہ ہم انہیں ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری وساری ہوں گی۔ اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق اور سچا ہے کہ مشرک جہنم میں اور مومن جنت میں جائیں گے۔ مومنوں کو انتہا درجے کی تسلی دینے کے لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے بڑھ کر کسی اور کا وعدہ اور فرمان سچا نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا صاحب ایمان لوگوں کو جنت کے حصول کے لیے پوری کوشش کرنی اور اس کے حصول کے لیے دن رات ایک کردینا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا میرے بندوں نے جنت دیکھی ہے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر وہ جنت دیکھ لیں ؟ تو فرشتے جواباً کہتے ہیں پھر تو وہ مزید اس کی جستجو کریں گے۔ [ روہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکراللّٰہ عزوجل ] مسائل ١۔ ایمان دار ‘ صاحب کردار لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے ‘ اس کے وعدے اور بات سے سچی بات کسی کی نہیں ہوسکتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا ارشاد سچا اور اس کا وعدہ پکا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کی بات سے کسی کی بات سچی نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کے لیے بشارت اور آرزوؤں پر بھروسہ کرنے کی ممانعت ان آیات میں اول تو ان حضرات کے لیے جو اہل ایمان ہوں اور اعمال صالحہ میں مشغول رہتے ہوں ایسے باغوں میں داخلے کی خوشخبری دی جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور فرمایا کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو بالکل سچا پکا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ سے بڑھ کر اپنی بات میں سچا کون ہوسکتا ہے۔ جب اللہ نے وعدہ فرما لیا تو اب ایمان اور اعمال صالحہ کو اپنانا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا بندوں کا سب سے بڑا اہم فریضہ ہوا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 یہ لوگ جو شیطان کے فرمانبردار ہیں یہی وہ ہیں جن کا آخری ٹھکانا جہنم ہے اور یہ لوگ اس دوزخ سے کہیں بھاگنے کو جگہ نہ پائیں گے اور رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے اور اچھے کام کرتے رہے ہم ان کو عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کی سیر گاہوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالیٰ نے اس حسن سلوک کا وعدہ فرمایا ہے اور سچا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون بات کا سچا ہوسکتا ہے۔ (تیسیر) محیص جائے فرار وعد اللہ حقاً کی لوگوں نے مختلف ترکیبیں کی ہیں ہم نے مشہور ترکیب اختیار کی ہے یعنی وھدھم وعداوا حقہ حقا اور یہ اہل زبان کا ایک مشہور طریقہ ہے کہ ایک جملہ کو دوسرے جملے سے موکد کرتے ہیں جیسے زید قائم حقاء باغ کے نیچے نہریں بہنے کا مطلب ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ باغ نہر کے کنارے آباد ہوں گے یا باغوں کے اندر نہریں بہتی ہوں گی یا اہل جنت کے بالا خانوں اور شہ نشینوں اور سیر گاہوں کے پائیں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ومن اصدق من اللہ قیلا بھی مضمون سابق کی تاکید ہے اور ہم اوپر ومن اصدق من اللہ حدیثاً کے تحت بیان کرچکے ہیں کہ سچی بات وہی ہے جو واقع کے مطابق ہو اور یہ وہی کرسکتا ہے کہ جس کا علم کامل ہو اور جو غیب کی خبر رکھت ہو نیز وہ کوئی وعدہ کرے تو اس کے پورا کرنے پر قادر ہو۔ بہرحال ! جس کا علم کامل ہو اور قدرت کامل ہو اسی کی بات پوری اور سچی ہوسکتی ہے اوپر کی آیت میں شیطانی امیدوں کی لغویت اور اس کی فریب دہی کا ذکر تھا۔ اب ان امیدوں کو صراحتہ ذکر فرماتے ہیں اور ان فرقوں کا رد فرماتے ہیں جو باوجود اپنی غلط کاریوں اور کفر و فسق کے یہ امیدیں قائم کئے بیٹھے ہیں کہ ہم جنتی ہیں اور ہم خدا کے محبوب اور پیارے ہیں اعمال صالحہ اور صحیح عقائد کے بغیر ایسی امیدیں قائم کرنا یہی وہ شیطانی امیدیں ہیں جن میں وہ عوام کو مبتلا رکھتا ہے اور بعض موقعہ پر باہم اس قسم کی رقیبانہ گفتگو میں ہوا بھی کرتی تھیں ایک طرف مسلمان دوسری طرف کفار اہل کتاب آپس میں اپنی اپنی کی رقیبانہ گفتگو میں ہوا بھی کرتی تھیں۔ ایک طرف مسلمان دوسری طرف کفار اہل کتاب آپس میں اپنی اپنی امیدوں کا اظہار کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں فخر کیا کرتے تھے اس کے متعلق ایک ضابطہ بیان فرماتے ہیں جس میں اول اس قسم کی بےعمل امیدوں کا رد ہے۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہے جو واقعی نجات اور مغفرت کے اہل ہیں اور آخر میں سیدنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت سے استدلال ہے جو متفقہ طور پر سب کے نزدیک صحیح اور قابل اتباع ہے ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)