Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 132

سورة النساء

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿۱۳۲﴾

And to Allah belongs whatever is in the heavens and whatever is on the earth. And sufficient is Allah as Disposer of affairs.

اللہ کے اختیار میں ہیں آسمانوں کی سب چیزیں اور زمین کی بھی اور اللہ کارساز کافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And to Allah belongs all that is in the heavens and all that is in the earth. And Allah is Ever All-Sufficient as a Disposer of affairs. He has perfect watch over every soul, knowing what it deserves, He is the Watcher, and Witness of all things.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٥] شرعی احکام انسانوں کی مصالح پر مبنی ہیں :۔ ان آیات ١٣٠ تا ١٣٢ میں تین بار یہ جملہ دہرایا گیا ہے ( وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَكَفٰى باللّٰهِ وَكِيْلًا ١٣٢۔ ) 4 ۔ النسآء :132) اور تینوں دفعہ اس کا استعمال الگ الگ مقصد کے لیے ہوا ہے۔ پہلی بار سے کشائش اور وسعت مقصود ہے یعنی اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ کیونکہ آسمانوں اور زمین کی ایک ایک چیز اسی کی ملکیت ہے، اگر کسی جوڑے میں حالات کی ناسازگاری کی بنا پر جدائی ہوگئی ہے تو اللہ ان دونوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرسکتا ہے کیونکہ ہر طرح کے اسباب و وسائل پر اس کا پورا پورا کنٹرول ہے۔ دوسری بار یہ جملہ ایک دوسرے مدلول کی دلیل کے طور پر آیا ہے جو یہ ہے کہ یہ اللہ کی خاص مہربانی اور فضل ہے کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی اور خاص تمہیں بھی شریعت نازل فرما کر ان احکام پر عمل کرنے اور اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا اور شریعت کے یہ تمام احکام تمہارے ہی دینی اور دنیوی مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں تمہارا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ واجب کردیئے جاتے ہیں اور جن کاموں میں تمہارا نقصان ہوتا ہے وہ حرام کردیئے جاتے ہیں اب اگر تم ان احکام پر عمل کرو گے تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے اور اگر نہ کرو گے تو اس میں تمہیں ہی نقصان پہنچے گا۔ اللہ کا نہ تمہاری اطاعت سے کچھ سنورتا ہے اور نہ تمہاری نافرمانی سے کچھ بگڑ سکتا ہے اس لیے کہ پوری کائنات کا مالک تو وہ پہلے ہی ہے۔ لہذا وہ تمہاری فرمانبرداری یا نافرمانی سے بےنیاز ہے اور اس کے کارنامے ایسے ہیں جو خود اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا خالق مالک اور منتظم فی الواقع مستحق حمد ہے، تمہارے اس کی حمد کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا۝ ١٣٢ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٢ (وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَکَفٰی باللّٰہِ وَکِیْلاً ) ۔ اگر میاں بیوی میں واقعی نباہ نہیں ہورہا تو بیشک وہ علیحدگی اختیارکر لیں ‘ دونوں کا کارساز اللہ ہے۔ عورت بھی یہ سمجھے کہ میرا شوہر مجھ پر جو ظلم کر رہا ہے اور میرے ساتھ انصاف نہیں کر رہا ہے ‘ اس صورت میں اگر میں اس سے تعلق منقطع کرلوں گی تو اللہ کار ساز ہے ‘ وہ میرے لیے کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔ اور اسی طرح کی سوچ مرد کی بھی ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس یہ سوچ انتہائی احمقانہ اور خلاف شریعت ہے کہ ہر صورت میں عورت سے نباہ کرنا ہے ‘ چاہے اللہ سے بغاوت ہی کیوں نہ ہوجائے۔ لہٰذا ہرچیز کو اس کے مقام پر رکھنا چاہیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

80: یہ جملہ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے، ان آیتوں میں تین بار دہرایا گیا ہے، پہلی مرتبہ اس کا مقصد میاں بیوی کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ اللہ کی رحمت کے خزانے بڑے وسیع ہیں وہ دونوں کے لئے کوئی مناسب ذریعہ پیدا کرسکتا ہے، دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی بیان کرنا مقصود ہے کہ کسی کے کفر سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہے ؛ کیونکہ ساری کائنات اس کے تابع فرمان ہے، اسے کسی کی حاجت نہیں ہے، اور تیسری جگہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کارسازی کا بیان ہے کہ اگر تم تقوی اور اطاعت کا راستہ اختیار کرو تو وہ تمہارے سارے کام بنادے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:132) وکیلا۔ صفت مشبہ۔ کار ساز۔ مددگار۔ نگہبان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 شاہ صاحب لکھتے ہیں : تین بار فرمایا کہ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے پہلی بار کشانش کا بیان ہے دوسری بار بےپروائی کا اگر تم منکر ہو اور تیسری بار کارسازی کا اگر تم تقوی ٰ پکڑو۔ (موضح) جب یہ آّیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ھم فوم ھذ کہ یہاں آخرین سے مراد یہ لوگ ہیں (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور اگر دونوں میاں بیوی میں اتفاق اور صلح کی کوئی شکل نہ نکلے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہی ہوجائیں یعنی چھوٹ چھٹائو ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنی کشائش اور وسعت قدرت کی برکت سے ہر ایک کو دوسرے سے بےنیاز اور مستغنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا صاحب وسعت اور بڑی حکمت والا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو چیزیں زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور اسی کی مملوک ہیں اور یقینا جن لوگوں کو ہم نے تم سے پہلے کتاب دی تھی ان کو بھی یہ حکم دیا تھا اور تم کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور نیز یہ کہ اگر تم کفر کی روش اختیار کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور ناسپاسی کرو گے … تو یقین جانو کہ جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی ملک اور اسی کی مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور کسی کی اطاعت و عبادت کا محتاج نہیں ہے اور تمام صفات محمودہ سے متصف ہے اور جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور اسی کی مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ با عتبار کار ساز ہونے کے کافی ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی اگر باہم صلح نہ کرسکیں اور تفریق کی نوبت آجائے اور خلع و طلاق ہوجائے تو دونوں میاں بیوی میں سے کسی کو یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ میرے بغیر دوسرے کا کام نہیں چل سکے گا یعنی بیوی یہ نہ سمجھے کہ میرے بغیر مرد کا کام نہیں چلے گا۔ اور خاوند یہ نہ سمجھے کہ میرے بغیر بیوی کا کام نہیں چلے گا اس خیال سے بچنے کی غرض سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک میاں بیوی کو اپنی وسعت قدرت کی برکت سے مستغنی فرما دے گا اور ایک کو دوسرے کی احتیاج نہ ہوگی اور ایک دوسرے کا محتاج نہ رہے گا اور ایک کا کام دوسرے پر موقوف نہ رہے گا۔ پھر بطور استدلال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بڑا صاحب وسعت ہے اور اپنی قدرت کاملہ سے ہر ایک کام چلاتا ہے اور وہ بڑی حکمت والا ہے اپنی حکمت بالغہ سے اگر کسی پر ایک دروازہ بند کرتا ہے تو دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ پھر اپنی وسعت قدرت کو ان الفاظ میں ظاہر کیا کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات پر اس کی فرماں روائی ہے وہ سب کا مالک ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں بعض باتوں کا حکم دیا تھا اور بعض باتوں سے منع فرمایا تھا اس لئے اپنی مالکیت کا اعلان فرمایا کہ جب تمام مخلوق ہماری مملوک ہے تو جو حکم ہم دیں اس کی تعمیل کرو اور جس بات سے روک دیں اس سے باز رہو۔ اس لئے فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ اہل کتاب تھے ہم نے ا ن کو بھی یہی حکم دیا تھا اور تم کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکام کی بجا آوری اور اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اگر تم ایسا نہ کرو گے اور احکام کی مخالفت پر آمادہ ہو گے تو آسمان و زمین کی تمام چیزوں پر اس کی حکومت ہے اس کا کیا نقصان ہوسکتا ہے وہ کسی کی اطاعت کا محتاج اور کسی کی عبادت کا ضرورت مند نہیں ہے وہ تمام صفات کمالیہ اور صفات محمودہ سے متصف ہے بلکہ جو شخص نا سپاسی اور نافرمانی کرے گا اسی کو نقصان اور ضرر پہنچے گا کیونکہ آسمان اور زمین کی تمام اشیاء کا وہی مالک ہے اور سب چیزیں اسی کی مملوک ہیں اور وہی اپنی مخلوق کا کار ساز ہے تو ایسے مالک اور کار ساز کی اطاعت کرنے سے مملوک کا فائدہ اور مالک کی مخالفت کرنے سے مملوک ہی کا نقصان ہے، لہٰذا اس کی مخالفت سے ڈرنا چاہئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کرنے چاہئے۔ بعض لوگوں نے وکفی بربک وکیلا کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ میاں بیوی میں مفارقت ہوجائے تو گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کا کار ساز ہے۔ بعض حضرات نے اور بھی کئی طرح مطلب بیان کیا ہے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں تین بار فرمایا کہ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے پہلی بار کشائش کا بیان ہے دوسری بار بےپروائی کا اگر تم منکر ہو ۔ تیسری بار کا سازی کا اگر تم تقویٰ پکڑو۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب کی مراد یہ ہے کہ اوپر تین باتوں کا ذکر ہے ایک بیان میاں بیوی کی تفریق کا دوسرے تقویٰ کا تیسرے کفر کی برائی کا اور تینوں باتوں پر اللہ تعالیٰ نے علیحدہ علیحدہ اپنی مالکیت اور اپنی حکومت کا اظہار کیا ہے۔ آگے اسی حکومت اور قدرت کا دور سے عنوان سے اظہار فرماتا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)