Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 141

سورة النساء

الَّذِیۡنَ یَتَرَبَّصُوۡنَ بِکُمۡ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ فَتۡحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ۫ ۖوَ اِنۡ کَانَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نَصِیۡبٌ ۙ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَسۡتَحۡوِذۡ عَلَیۡکُمۡ وَ نَمۡنَعۡکُمۡ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لَنۡ یَّجۡعَلَ اللّٰہُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سَبِیۡلًا ﴿۱۴۱﴾٪  17

Those who wait [and watch] you. Then if you gain a victory from Allah , they say, "Were we not with you?" But if the disbelievers have a success, they say [to them], "Did we not gain the advantage over you, but we protected you from the believers?" Allah will judge between [all of] you on the Day of Resurrection, and never will Allah give the disbelievers over the believers a way [to overcome them].

یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا غلبہ مل جائے تو ( ان سے ) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا ؟پس قیامت میں خود اللہ تعالٰی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تعالٰی کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites Wait and Watch what Happens to Muslims Allah says; الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ ... Those who wait and watch about you; Allah states that the hypocrites watch and await the harm that occurs to the believers, awaiting the time when the Muslim circumstances and religion are dissolved and the state of Kufr takes over. ... فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّهِ ... if you gain a victory from Allah, triumph, aid and booty, ... قَالُواْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ... they say, "Were we not with you'!' trying to come closer to the believers with this statement. However, ... وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ ... But if the disbelievers gain a success, by gaining victory over the believers sometimes, just as occurred during Uhud, for surely, the Messengers are tested, but the final victory is theirs. ... قَالُواْ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُوْمِنِينَ ... they say (to them), "Did we not gain mastery over you and did we not protect you from the believers!" meaning, did we not help you in secret and try our best to confuse the believers and weaken their resolve, until you gained victory over them! This statement of the hypocrites is an attempt to strengthen relations with the disbelievers, because they pretend to be friends with both parties so that they will be safe from their harm, due to their weak faith and lack of certainty. Allah said, ... فَاللّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ... Allah will judge between you (all) on the Day of Resurrection. meaning, by what He knows about you, O hypocrites. Therefore, do not be deceived by being shaded under the protection of Islamic Law in this life, which is such only out of Allah's wisdom. Surely, on the Day of Resurrection, your pretending shall not benefit you, because on that Day, the secrets of the souls will be disclosed and the contents of the hearts will be collected. Allah said, ... وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُوْمِنِينَ سَبِيلً And never will Allah grant to the disbelievers a way (to triumph) over the believers. Abdur-Razzaq recorded that Yasi Al-Kindi said, "A man came to Ali bin Abi Talib and said, `What about this Ayah, وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُوْمِنِينَ سَبِيلً (And never will Allah grant to the disbelievers a way (to triumph) over the believers), Ali said, `Come closer, come closer. Allah will judge between you on the Day of Resurrection, and He will not grant victory for the disbelievers over the believers."' Ibn Jurayj recorded that Ata' Al-Khurasani said that Ibn Abbas said that, وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُوْمِنِينَ سَبِيلً (And never will Allah grant to the disbelievers a way (to triumph) over the believers), "Will occur on the Day of Resurrection." As-Suddi recorded that Abu Malik Al-Ashjai said that; it occurs on the Day of Resurrection. As-Suddi said that; "way" means, proof. It is possible that; the meaning of, `and never will Allah grant to the disbelievers a way (to triumph) over the believers', is in this life by being unable to exterminate the believers completely, although they sometimes gain victory over some Muslims. However, the Final Triumph will be for the believers in this life and the Hereafter. Allah said, إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe in the worldly life. (40:51) This provides a rebuttal to the wishes of the hypocrites for the destruction of the believers, and their loyalty to the disbelievers, fearing for themselves if they are victorious. In another Ayah, Allah said, فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ And you see those in whose hearts there is a disease (of hypocrisy), they hurry to their friendship, until, نَادِمِينَ (Regretful). (6:52)

عمل میں صفر دعویٰ میں اصلی مسلمان منافقوں کی بد باطنی کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کی بربادی اس کی پستی کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ٹوہ لیتے رہتے ہیں ، اگر کسی جہاد میں مسلمان کامیاب و کامران ہوگئے اللہ کی مدد سے یہ غالب آ گئے تو ان کے پیٹ میں گھسنے کے لئے آ آ کر کہتے ہیں کیوں جی ہم بھی تو تمہارے ساتھی ہیں اور اگر کسی وقت مسلمانوں کی آزمائش کے لئے اللہ جل شانہ نے کافروں کو غلبہ دے دیا جیسے احد میں ہوا تھا گو انجام کار حق ہی غالب رہا تو یہ ان کی طرف لپکتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو پوشیدہ طور پر تو ہم تمہاری تائید ہی کرتے رہے اور انہیں نقصان پہنچاتے رہے یہ ہماری ہی چالاکی تھی جس کی بدولت آج تم نے ان پر فتح پا لی ۔ یہ ہیں ان کے کرتوت کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھ چھوڑتے ہیں دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا گو یہ اپنی اس مکاری کو اپنے لئے باعث فخر جانتے ہوں لیکن دراصل یہ سرا ان کی بے ایمانی اور کم یقینی کی دلیل ہے بھلا کچا رنگ کب تک رہتا ہے؟ گاجر کی پونگی کب تک بجے گی؟ کاغذ کی ناؤ کب تک چلے گی؟ وقت آ رہا ہے کہ اپنے کئے پر نادم ہوں گے اپنی بیوقوفی پر ہاتھ ملیں گے اپنے شرمناک کرتوت پر ٹسوے بہائیں گے اللہ کا سچا فیصلہ سن لیں گے اور تمام بھلائیوں سے ناامید ہو جائیں گے ۔ بھرم کھل جائے گا ہر راز فاش ہو جائے گا اندر کا باہر آ جائے گا یہ پالیسی اور حکمت عملی یہ مصلحت وقت اور مقتضائے موقعہ نہایت ڈراؤنی صورت سے سامنے آ جائے گا اور عالم الغیب کے بےپناہ عذابوں کا شکار بن جائیں گے ناممکن ہے کہ کافروں کو اللہ تعالیٰ مومنوں پر غالب کر دے ، حضرت علی سے ایک شخص نے اس کا مطلب پوچھا تو آپ نے اول جملے کے ساتھ ملا کر پڑھ دیا ۔ مطلب یہ تھا کہ قیامت کے دن ایسا نہ ہو گا ، یہ بھی مروی ہے کہ سبیل سے مراد حجت ہے ، لیکن تاہم اس کے ظاہری معنی مراد لینے میں بھی کوئی مانع نہیں یعنی یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اب سے لے کر قیامت تک کوئی ایسا وقت لائے کہ کافر اس قدر غلبہ حاصل کرلیں کہ مسلمانوں کا نام مٹا دیں یہ اور بات ہے کہ کسی جگہ کسی وقت دنیاوی طور پر انہیں غلبہ مل جائے لیکن انجام کار مسلمانوں کے حق میں ہی مفید ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فرمان الٰہی ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) 40 ۔ غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں اور ایماندار بندوں کو مدد دنیا میں بھی ضرور دیں گے اور یہ معنی لینے میں ایک لطافت یہ بھی ہے کہ منافقوں کے دلوں میں مسلمانوں کو ذلت اور بربادی کا شکار دیکھنے کا جو انتظار تھا مایوس کر دیا گیا کہ کفار کو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ اس طرح غالب نہیں کرے گا کہ تم پھولے نہ سماؤ اور کچھ لوگ جس ڈر سے مسلمانوں کا ساتھ کھلے طور پر نہ دیتے تھے ان کے ڈر کو بھی زائل کر دیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ کسی وقت بھی مسلمان مٹ جائیں گے اسی مطلب کی وضاحت ( فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ) 5 ۔ المائدہ:52 ) میں کر دی ہے ۔ اس آیت کریمہ سے حضرات علماء کرام نے اس امر پر بھی استدلال کیا ہے کہ مسلمان غلام کو کافر کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں ، کیونکہ اس صورت میں ایک کافر کو ایک مسلمان پر غالب کر دینا ہے اور اس میں مسلمان کی ذلت ہے جن بعض ذی علم حضرات نے اس سودے کو جائز رکھا ہے ان کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنی ملک سے اس کو اسی وقت آزاد کر دے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141۔ 1 یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پولیسی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ جو ہم نے مسلمانوں کو ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔ 141۔ 1 یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات و کیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کر کے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔ 141۔ 2 یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں (1) اہل اسلام کا غلبہ قیامت والے دن ہوگا (2) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے (3) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کی دولت و شوکت کا بالکل ہی خاتمہ ہوجائے گا اور حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہوجائیں گے۔ ایک حدیث صحیحہ سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے (4) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں ' یہ سب سے عمدہ معنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وَمَا اَصَابَکُمْ مُّصِیبَۃٍ فَبَمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ ) 042:030 جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٧] منافقوں کی مفاد پرستی :۔ منافقین کا طبقہ دور نبوی میں بھی موجود تھا اور ہر دور میں موجود رہتا ہے اور آج بھی موجود ہے۔ ان میں ایمان نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ان کا ایمان صرف مفاد کا حاصل کرنا ہوتا ہے اور اصول، جھوٹ اور مکر و فریب ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بس ہوا کا رخ دیکھتے رہتے ہیں۔ جدھر سے مفاد حاصل ہونے کی توقع ہو فوراً باتیں بنا کر ادھر لڑھک جاتے ہیں۔ اس آیت میں دور نبوی کے منافقوں کا حال بیان کیا گیا ہے اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہو تو مال غنیمت میں سے حصہ لینے کی غرض سے کہتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو مسلمان اور تمہارے ساتھی ہیں لہذا ہمیں بھی حصہ ملنا چاہیے۔ اور کافروں کو فتح ہو تو ان سے جا ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے ساتھ ہماری ہمدردیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ تمہیں فتح حاصل ہوگئی۔ ورنہ اگر ہم دل جمعی سے مسلمانوں کا ساتھ دیتے تو فتح پانا تو درکنار مسلمان تمہارا کچومر نکال دیتے لہذا ہمیں تم کیسے نظر انداز کرسکتے ہو۔ اس طرح وہ دونوں طرف سے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور آج کل ہمارے یہاں مفاد پرستوں کی ایک کثیر جماعت دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان پھرتی رہتی ہے۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہی فوراً اپنی پارٹی بدل کر ایسی پارٹی میں جا شامل ہوتے ہیں جو برسراقتدار ہو یا اس کے برسراقتدار آنے کی توقع ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے && لوٹا && کی سیاسی اصطلاح وضع کی گئی ہے جو && بےپیندا لوٹا && کے محاورہ کا اختصار ہے جو ہر طرف لڑھکتا رہتا ہے۔ ان لوگوں کا دین و ایمان صرف پیسہ اور دوسرے مفادات ہوتے ہیں، جدھر سے زیادہ مل جائیں ادھر چلے جاتے ہیں۔ [١٨٨] اسی مضمون کو متعدد آیات میں دوسرے الفاظ سے دہرایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کافر اور منافق اللہ کے نور کو بجھانے کی جتنی بھی سر توڑ کوششیں کرسکتے ہیں، کر کے دیکھ لیں، اللہ اپنے اس ہدایت کے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ بالآخر تمام ادیان پر اللہ کا دین ہی غالب ہو کر رہے گا۔ ایسی صورت ناممکن ہے کہ کافر مسلمانوں پر غالب آجائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ ۔۔ : یعنی یہ منافقین تمہارے بارے میں تاک اور انتظار میں رہتے ہیں، اگر اللہ کی طرف سے تمہیں فتح مل جائے تو کہتے ہیں، کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے، یعنی اس فتح میں ہمارا بھی حصہ ہے اور اگر کسی وقت کافروں کو کوئی حصہ مل جائے تو ان سے کہتے ہیں، کیا ہم تم پر غالب نہیں آگئے تھے، پھر یہ ہمارا ہی کام تھا کہ ہم نے ایسے وسائل اختیار کیے جن سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور ہم نے تمہیں مسلمانوں سے بچا لیا، یعنی منافقین دونوں طرف اپنا احسان چڑھاتے رہتے تھے۔ فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : یعنی دنیا میں تو ان منافقین نے بظاہر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو بچا لیا، لیکن آخرت میں ان کی حقیقت کھول دی جائے گی اور پتا چل جائے گا کہ کون مومن تھا اور کون منافق ؟ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ ۔۔ : اگر کوئی کہے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ کافروں کے لیے مومنوں پر ہرگز کوئی راستہ نہیں بنائے گا، مگر اس وقت معاملہ اس کے برعکس ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ ان مومنوں پر جن کا یہاں ذکر ہے، کفار کو کبھی غلبہ حاصل نہیں ہوا، اب اگر مومن ہی وہ مومن نہ رہیں اور جہاد چھوڑ بیٹھیں تو اس میں اللہ کے وعدے کا کیا قصور ہے ؟ دیکھیے سورة شوریٰ (٣٠) اور سورة آل عمران ( ١٣٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ۝ ٠ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللہِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ۝ ٠ۡۖ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ۝ ٠ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٠ۭ فَاللہُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ۭ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللہُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا۝ ١٤١ۧ ربص التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] ( ر ب ص ) التربص کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ نَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ( ن ص ب ) نصیب و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ حوذ الحَوْذُ : أن يتبع السّائق حاذيي البعیر، أي : أدبار فخذيه فيعنّف في سوقه، يقال : حَاذَ الإبلَ يَحُوذُهَا، أي : ساقها سوقا عنیفا، وقوله : اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ [ المجادلة/ 19] ، استاقهم مستولیا عليهم، أو من قولهم : استحوذ العیر علی الأتان، أي : استولی علی حَاذَيْهَا، أي : جانبي ظهرها، ويقال : استحاذ، وهو القیاس، واستعارة ذلک کقولهم : اقتعده الشیطان وارتکبه، والأَحْوَذِيّ : الخفیف الحاذق بالشیء، من الحوذ أي : السّوق . ( ح و ذ) الحوذن ( ن) کے معنی ہیں ہانکنے والا جو اونٹ کے پیچھے اس کے رانوں کے عین بیچ میں چل کر وہاں سے سختی کے ساتھ اسے ہانکے جائے ۔ حاذالا ۔ بل سختی کے ساتھ ہانکنا اور آیت :۔ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ [ المجادلة/ 19] شیطان نے ان کو قابو میں کرلیا ہے ۔ میں استحوذ کے معنی ان پر مسلط ہوکر ہانکنے کے ہیں ۔ یہ استحوذ العیر علی الاتان کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی گدھے کا مادہ خر کی پشت پر چڑھ کر دونوں جانب سے قابوپالینا ( جیسا ک جفتی کی صورت میں ہوتا ہے ) اس میں ایک قرآت استحاذ بھی ہے جو قیاس کے مطابق ہے آیت میں شیطان کے بنی آدم پر غلبہ پانے کے لئے استحوذ کا استعمال بطور استعارہ کے ہے جیسا کہ اقتعدہ الشیطان اور تکبہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی شیطان نے اسے اپنی ذسواری بنا لیا ۔ الاحوذی مرد سبک فہم و نیک کار گزار کسی چیز کا ماہر حوذ سوق ( چلانا ) سے مشتق ہے ۔ منع المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ الْماعُونَ [ الماعون/ 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق/ 25] ، ويقال في الحماية، ومنه : مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] أي : ما حملک ؟ وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟ يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل : مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ. ( م ن ع ) المنع ۔ یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون/ 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق / 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معیم محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤١) اور یہ منافق ایسے سازشی ومفاد پرست ہیں کہ تم پر پریشانیاں اور تکالیف پڑنے کے منتظر رہتے ہیں، پھر اگر اللہ کی طرف سے تمہیں فتح غنیمت حاصل ہوجاتی ہے تو یہ منافقین مسلمانوں سے باتیں کرتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے دین پر نہیں، ہمیں بھی مال غنیمت دو اور اگر اتفاق سے کفار کو دولت مل گئی تو یہ منافق ان سے جا کر باتیں ملاتے ہیں کہ کیا ہم نے تم سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز فاش نہیں کیا تھا اور تمہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادوں سے خبر دار نہیں کیا تھا اور کیا ہم نے مسلمانوں سے تمہاری حفاظت نہیں کرائی تھی ، اے گروہ منافقین اور یہود اللہ تعالیٰ تمہیں مسلمانوں پر دائمی غلبہ کبھی بھی نہیں دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤١ (الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بکُمْ ج) منافق تمہارے معاملہ میں گردش زمانہ کے منتظر ہیں۔ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ لوگ تیل دیکھو ‘ تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور نتیجے کے انتظار میں ہیں کہ آخری فتح کس کی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا طے شدہ منصوبہ ہے کہ دونوں طرف کچھ نہ کچھ تعلقات رکھو ‘ تاکہ وقت جیسا بھی آئے ‘ جو بھی صورت حال ہو ‘ ہم اس کے مطابق اپنے بچاؤ کی کچھ صورت بنا سکیں۔ (فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوْآ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ ز ) اگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے مسلمان فتح حاصل کرلیتے ہیں تو وہ آجائیں گے باتیں بناتے ہوئے کہ ہم بھی تو آپ کے ساتھ تھے ‘ مسلمان تھے ‘ مال غنیمت میں سے ہمارا بھی حصہ نکالیے ۔ (وَاِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیبٌلا) کبھی وقتی طور پر کفار کو فتح حاصل ہوجائے ‘ جنگ میں ان کا پلڑا بھاری ہوجائے۔ (قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ط) یعنی ہم نے تو آپ کو مسلمانوں سے بچانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا ‘ ہم تو آپ کے لیے آڑ بنے ہوئے تھے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ہو کر جنگ کرنے آئے تھے ؟ نہیں ‘ ہم تو اس لیے آئے تھے کہ وقت آنے پر مسلمانوں کے حملوں سے آپ کو بچا سکیں۔ (فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط) (وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً ) جیسا کہ اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سورة النساء کا بڑا حصہ منافقین سے خطاب پر مشتمل ہے ‘ اگرچہ ان سے براہ راست خطاب میں یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا کے الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے ‘ بلکہ انہیں یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ بھی ایمان کے دعوے دار تھے ‘ ایمان کے مدّعی تھے ‘ قانونی طور پر مسلمان تھے۔ یہ ایک طویل مضمون ہے جو آئندہ آیات مبارکہ میں انجام پذیر (conclude) ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

171. This is typical of the hypocrites of every age. Such people try to avail themselves of all the benefits which can accrue from a verbal profession of Islam and identification with the Islamic community. They also try to secure the advantages to be obtained by associating with the unbelievers, by assuring them in every possible way about themselves that they are not 'fanatic Muslims', that their association with the Muslims is only nominal. On the other hand, they never fail to assure the unbelievers that their loyalties and concerns are the same as theirs, that in mental outlook, cultural orientation and taste they are in harmony with them, and that if a decisive conflict between Islam and unbelief were to take place, their weight will certainly be on the side of the latter.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :171 ہر زمانہ کے منافقین کی یہی خصوصیت ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں ان کو یہ اپنے زبانی اقرار اور دائرہ اسلام میں برائے نام شمولیت کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں ۔ اور جو فائدے کافر ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونے ممکن ہیں ان کی خاطر یہ کفار سے جا کر ملتے ہیں اور ہر طریقہ سے ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کوئی”متعصب مسلمان“ نہیں ہیں ، نام کا تعلق مسلمانوں سے ضرور ہے مگر ہماری دلچسپیاں اور وفاداریاں تمہارے ساتھ ہیں ، فکر و تہذیب اور مذاق کے لحاظ سے ہر طرح کی موافقت تمہارے ساتھ ہے ، اور کفر و اسلام کی کشمکش میں ہمارا وزن جب پڑے گا تمہارے ہی پلڑے میں پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

83: یعنی ان لوگوں کو اصل غرض دنیوی مفادات سے ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہو اور مال غنیمت ہاتھ آئے تو یہ ان کے ساتھی ہونے کا دعویٰ کر کے ان سے مال بٹورنے کی فکر میں رہتے ہیں، اور اگر کبھی کافروں کا دؤ چل جائے تو ان پر یہ احسان جتلاتے ہیں کہ اگر ہماری مدد تمہارے ساتھ نہ ہوتی تو مسلمان تم پر غالب آجاتے۔ لہذا ہمیں ہماری ان خدمات کا مالی صلہ دو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر منافقوں کے یہود سے میل جول رکھنے کا ذکر تھا اس آیت میں اس سبب فرمایا کہ یہ لوگ اپنے ضعیف الایمان ہونے کے سب سے دور لے ہو رہے ہیں۔ مسلمان اور یہود دونوں فریق سے ظاہر دوستی اس لئے جتلاتے ہیں کہ جس فریق کا غلبہ ہو اس سے کہہ دیں کہ ہم تم تمہاری ہی خیر مناتے تھے۔ لیکن ان ظاہر باتوں سے دنیا میں ان کے جان و مال کی کچھ حفاظت ہوجائے گی عقبیٰ میں ان اوپری باتوں سے کام نہیں چلتا وہاں تو آدمی کے سب دل کے بھید اس کے آجائیں گے اور ان دل کے بھیدوں کے موافق قیامت کے دن مسلمان اور منافق دونوں فریق کا فیصلہ اللہ تعالیٰ غیب دان کے روبرو ہوگا اس وقت ان کو اس دھوکے بازی کی قدر کھل جائے گی۔ یہ بھی فرمایا کہ اے مسلمانوں یہ منافق لوگ اس دور لے اپنے میں بھی کچھ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ ان کے دل میں یہ بسی ہوئی کہ ذرا بھی تمہارا ہوا بگڑتی ہوئی دیکھیں تو تمہارے مخالفوں سے پورے طور پر جا ملیں مگر یہ خیال ان کا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا مددگار ہے کبھی آزمائش کی طرح احد کی لڑائی کی سی ہل چل لشکر اسلام میں آن پڑے تو وہ اور بات ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے آخر غلبہ لشکر اسلام کو ہی رہے گا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے آخر کو یہود منافق سب مغلوب اور ذلیل ہوئے۔ اور مسلمان جب تک احکام الٰہی کے پورے پابند رہے اس وقت تک لشکر اسلام کا غلبہ دن بدن بڑھتا گیا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد نسائی میں براء بن عازب کی اور دلائل النبوۃ بیہقی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں اور صحابہ کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ احزاب کی لڑائی کے وقت مدینہ کے گرد جب خندق کھودی جا رہی تھی اور اس میں ایک سخت پتھر نکلا تھا جس کو خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ پھاؤڑا مار کر توڑا اور پہلا پھاؤڑا مارنے کے وقت کسی قدر وہ پتھر ٹوٹا تو آپ نے ملک شام فتح ہونے کی اور پھر فارس اور یمن فتح ہونے کی خبر دی اور بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے مجھ کو خبر دی ہے کہ یہ ملک میری امت کے ہاتھ پر فتح ہوں گے ١۔ اور یہ بھی ہے کہ اس خبر کو سن کر پکے مسلمان بہت خوش ہوئے اور منافقوں نے یہ کہا کہ دشمنوں کے گھیرے کے سبب سے پیشاب پاخانہ جانے کو ٹھکانہ تو ہمیں نظر میں نہیں آتا۔ پھر ہمیں کیونکر یقین آوے کہ یہ ملک فتح ہوں گے ١ اس سے معلوم ہوا کہ آخر کو مسلمانوں کے غالب ہونے کی حدیثوں سے منافق لوگ کچھ بیخبر نہیں تھے اس کے کانوں تک اللہ کے رسول کی یہ پیشین گوئی پہنچ چکی تھی مگر ضعف ایمان کے سب سے ان لوگوں کو اس پیشین گوئی کا یقین نہیں تھا۔ اس واسطے یہ لوگ یہود سے دوستی رکھتے تھے کہ شاید کبھی مسلمان مغلوب ہوجائیں اور یہود کا غلبہ ہوجائے تو اس وقت یہ دوستی کام آئے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:141) یتربصون بکم۔ انتظار کر رہے ہیں کہ تمہارے ساتھ کیا گزرتی ہے (نیکی یا بدی کامیابی یا ناکامی) یعنی تمہارا کیا انجام ہوتا ہے۔ تربض (تفعل) سے۔ الذین یتربصون بکم کا عطف ن الذین یتحذون الکفرین (آیۃ 139) پر ہے اور منافقین متذکرہ آیہ 138 کے متعلق ہے لہٰذا فعل بشر (آیہ 138) کا اطلاق الذین یتخذون الکافرین اور الذین یتربصون بکم پر ہوگا۔ یعنی اے نبی (علیہ السلام) ان منافقین کو دردناک عذاب کی بشارت فرما دے۔ جنہوں نے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بنا رکھا ہے اور جو تمہاری ناکامی یا ناکامیابی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کس طرح ہر دو صورت میں مالی فائدہ حاصل کیا جاوے۔ قالوا۔ ای المنافقین یعنی یہ منافقین تم سے کہتے ہیں۔ الم نکن معکم۔ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے۔ یعنی ہم تمہارے ساتھ شریک جنگ تھے ہمیں بھی مال غنیمت سے حصہ ملنا چاہئے الم نستحوذ علیکم۔ نفی جحد بلم کا صیغہ جمع متکلم۔ استحواذ (استفعال) مصدر ۔ کیا ہم تم پر غالب نہ آگئے تھے۔ استحوذ العیر علی الاتان۔ گورخر گدھی پر غالب آگیا (یعنی گدھے کا مادہ خر کی پشت پر چڑھ کر (جیسا کہ جفتی کی صورت میں ہوتا ہے) دونوں جانب سے قابو میں کرلینا حوذ مادہ۔ نمنعکم من۔ ای الم نمنعکم من۔ کیا نہیں بچایا تھا ہم نے تم کو (مومنوں) سے کی اہم نے تمہاری حفاظت نہ کی تھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ہم بھی مسلمان ہیں اور تمہاری طرح کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہذا مال غنیمت میں ہمیں بھی حصہ دو ۔ (قرطبی)7 یعنی ایسے وسائل اختیار کر کے جن سے مسلمانوں کے حوصلے میں پستی آگئی اور وہ شکست کھانے پر مجبور ہو ہوگئے مطلب یہ ہے کہ جس فریق کا غلبہ ہوتا منافقین اپنے آپ کو ان میں شامل کرنے کی کوشش کرتے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین غزوات میں شرکت کرتے اور مسلمان ان کو غنیمت میں حصہ نہ دیتے اور وہ اس کا مطالبہ کرتے۔ (قرطبی)8 یعنی دنیا میں تو ان منافقین نے بظاہر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو بچالیا لیکن آخرت میں ان کی حقیقت کھول دی جائے گی اور تمہیں پتہ چلے گا کہ تم میں کون مومن تھا او کون منافق۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق ابن الوقت اور مفاد کا بندہ ہوتا ہے اس لیے کافر اور مسلمان کا ساتھ دینے میں مخلص نہیں ہوتا۔ اپنے مفاد کا غلام ہونے کی وجہ سے وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ جدھر سے اسے فائدہ پہنچے وہ اس فریق کے ساتھ اپنی رفاقت اور ہمدردی کا اظہار کردے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے منافقوں کی یہی حالت تھی۔ غزوۂ احد کے موقع پر مسلمانوں سے الگ ہو کر کفار کی تقویّت کا باعث بنے اور فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی قوت دیکھ کر ان سے وفا کا دم بھرتے رہے۔ جب بھی صحابہ کرام (رض) کو اللہ تعالیٰ کے فضل وکر م سے کامیابی حاصل ہوتی تو وہ اپنی نمازوں اور ظاہری مسلمانی کا واسطہ دے کر یقین دہانی کرواتے کہ ہم ذاتی مجبوریوں اور جماعتی مصلحت کی خاطر کفار کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا اٹھنا بیٹھنا تمہارے ساتھ ہے لیکن جوں ہی کفار کا پلڑا بھاری دیکھتے ہیں تو انہیں اعتماد دلاتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں۔ حقیقت میں ہم ہی نے تمہیں مسلمانوں سے بچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو انتباہ کررہا ہے کہ دنیا میں تمہیں مہلت دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے تم مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ خلط ملط ہوئے رہتے ہو۔ قیامت کے دن کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر کے ان کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو مومنوں پر ہرگز فوقیت نہیں دے گا۔ آیت کے آخر میں منافق کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے کافر کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ یہ لوگ حقیقتاً کافر ہیں۔ اس آیت کے آخری الفاظ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اے مومنو ! پورے اخلاص اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہو۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ایسے حالات پیدا کرے گا کہ منافق مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔ چناچہ غزوۂ تبوک کے موقعہ پر منافقوں کو آپ سے سر عام معافی مانگنا پڑی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : (یَعْتَذِرُوْنَ إِلَیْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَیْھِمْط قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنْ أَخْبَارِکُمْط وَ سَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہ ‘ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ سَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْھِمْ لِتُعْرِضُوْا عَن ھُمْط فَأَعْرِضُوْا عَنْھُمْ ط إِنَّھُمْ رِجْسٌز وَّ مَاْوٰ ھُمْ جَھَنَّمُج جَزَآءً م بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن۔ یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ ج فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ) [ التوبۃ : ٩٤ تا ٩٦] ” جب تم ان کے پاس آؤ گے وہ تمہارے سامنے معذرت کریں گے۔ ان سے کہہ دیجیے بہانے نہ بناؤ ہم تمہاری باتوں پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتلا دیے ہیں اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لیں گے پھر تم ایسی ذات کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھپے سب حالات جانتا ہے وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے۔ “ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں ایک دفعہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی کہ میں عبداللہ بن ابی کو قتل کروں لیکن آپ نے مجھے یہ فرما کر منع کیا کہ اس طرح لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو قتل کروانا شروع کردیا ہے۔ چناچہ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ آپ کی حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ منافقین ہمارے سامنے بےبس ہوگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا وعدہ دنیا میں ہی پورا ہوا۔ [ البدایۃ والنہایۃ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار کو مومنوں پر ہرگز فوقیت نہیں دے گا۔ ٢۔ مسلمان فتح حاصل کریں تو منافق ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ٣۔ کفار فاتح بنیں تو منافق ان کے ساتھ ہمدری کا اظہار کرتے ہیں۔ ٤۔ قیامت کو اللہ تعالیٰ سب کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن مسلمانوں کی کفار پر بالا دستی : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ (السجدۃ : ١٨ ) ٢۔ مومن اور کافر برابر نہیں ہیں۔ (الانعام : ١٢٢) ٣۔ مومن کافروں سے سربلند ہیں۔ (آل عمران : ٥٥) ٤۔ متقین قیامت کو سربلند ہوں گے۔ (البقرۃ : ٢١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں ارشاد فرمایا (وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب فیصلے ہوں گے تو اللہ کافروں کو ایمان والوں پر غلبہ نہ دے گا دنیا میں تو مسلمانوں کے ابتلاء کے لیے اور کافروں کے استدراج کے لیے کبھی کافروں کا غلبہ ہوجاتا ہے لیکن آخرت میں ہر حیثیت سے مسلمانوں ہی کا غلبہ ہوگا۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کا یہی مطلب مروی ہے۔ صاحب روح المعانی اس کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں مسلمانوں پر غلبہ تام نہیں دے گا کہ جس سے سب مسلمان ایک ایک کر کے ختم ہوجائیں اور یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ کافروں کو کبھی بھی مومنین کے مقابلے میں کوئی ایسی حجت اور دلیل نہیں مل سکتی جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں سے جیت جائیں دلائل کے اعتبار سے اہل ایمان ہی ہمیشہ غالب رہیں گے۔ (صفحہ ١٧٥: ج ٥) اور صاحب ہدایہ نے اس آیت کو اس امر کے استدلال میں پیش کیا ہے کہ کسی کافر کی ولایت کسی مسلمان پر نہیں ہے جس کا معنی یہ ہے کہ کوئی کافر اپنی مسلمان اولاد کا ولی نہیں ہوسکتا۔ کافر اپنی کافر اولاد کا نکاح کرسکتا ہے اپنی مسلمان اولاد کے نکاح کی ولایت اسے حاصل نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور اے مسلمانو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہاری جانب قرآن میں یہ فرمان بھیج چکا ہے یعنی سورة انعام میں جس کا ماحصل یہ ہے کہ جب تم کسی مجمع اور کسی مجلس میں یہ سنو ! کہ احکام الٰہیہ اور آیات خداوندی کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان آیات الٰہی کے ساتھ استہزا اور مذاق کیا جا رہا ہے تو تم ان لوگوں کے پاس اس وقت تک نہ بیٹھو جب تک وہ اس کفر و استہزا کو چھوڑ کر کوئی اور گفتگو شروع نہ کریں کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس حالت میں تم بھی گناہ میں انہی جیسے ہو جائو گے۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو اور کافروں کو سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔ یہ منافق لوگ ایسے ہیں جو تمہارے متعلق کسی نہ کسی حادثے کے انتظار میں لگے رہتے ہیں پھر اس انتظار کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے تم کو فتح میسر آگئی اور تمہاری فتح ہوگئی تو تم سے کہنے لگتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ جہاد میں شریک نہیں تھے لہٰذا ہم کو بھی غنیمت میں سے حصہ دلوائو اور اگر سوء اتفاق سے کافروں کو عارضی غلبہ کا کچھ حصہ مل گیا تو ان سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر فلاں موقع پر غاب نہیں ہو چلے تھے اور کیا جب تم مغلوب ہو رہے تھے تو ہم نے مسلمانوں سے تم کو بچا نہیں لیا۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہیں ان کو اہل باطل کی مجالس میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ اگر ان کی کافرانہ بکواس پر رضامند ہو تب تو کفر ہے یا نفاق ہے اور اگر کراہت کے ساتھ شرکت ہو مگر کسی عذر شرعی کے بغیر ہو تب فسق ہے۔ البتہ اگر جبراً ہو تو معذور ہے لہٰذا مسلمانوں کو شریک نہیں ہونا چاہئے اور اگر تبلیغ وغیرہ کی نیت سے شریک بھی ہوں تو جس وقت اہل مجلس آیات الٰہی کا انکار کریں اور ان آیات کے ساتھ استہزا کریں تو وہاں سے ٹل جانا چاہئے۔ جب تک وہ اس قسم کی سفوات کو چھوڑ کر اور باتیں شروع نہ کردیں اس وقت تک اس مجلس سے کنارہ کش رہنا چاہئے۔ اور یہ جو فرمایا کہ انکم اذا مثلھم یہ بطور تعلیل ہے کہ ہم تم کو اس لئے منع کرتے ہیں کہ اگر تم ایسے وقت بھی اہل مجلس کے ہم نشین ہو گے تو گناہ میں ان ہی جیسے ہو جائو گے خواہ تمہارا گناہ فسق ہو اور ان کا گناہ کفر ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جو شخص ایک مجلس میں اپنے دین کے عیب سنے پھر انہی میں بیٹھے اگرچہ آپ نے کہے وہی منافق ہے (موضح القرآن) عام مفسرین نے وقد نزل علیکم سے مراد مخلص مسلمان لئے ہیں بعض نے خطاب کو عام رکھا ہے خواہ وہ حقیقی مسلمان ہوں یا صرف زبانی مسلمان ہوں اور بعض نے صرف منافق مراد لئے ہیں۔ شاید شاہ صاحب نے بھی علیکم سے منافقین ہی مراد لئے ہیں (واللہ اعلم) بہرحال ! ہر قسم کی گنجائش ہے اگر فقط منافقین مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ تم جب مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو ایسی مجالس میں کیوں شریک ہوتے ہو اور اگر شریک ہو گے اور کفریات کے وقت ان کے ساتھ بیٹھے رہو گے تو تم بھی انہی میں شمار ہو گے اور تمہارے ساتھ بھی انہی جیسا معاملہ ہوگا۔ نزل علیکم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم پر یہ حکم براہ راست نازل ہوا تھا کہ مطلب یہ ہے کہ یہ فرمان پیغمبر کی وساطت سے تم کو پہونچ چکا ہے اگرچہ وہ حکم مکہ میں دیا گیا تھا مگر مکہ کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ اس پر ہر وقت عمل کرنے کی ضرورت ہے اور انتقام کی طاقت نہ ہو اور ایسی مجالس کو بند نہ کرسکو تو ان سے ایسے وقت علیحدہ تو ہوجایا کرو اور یہ اظہار ناراضگی بہترین طریقہ ہے جو آج کل بھی رائج ہے ان اذا سمعتم آنکھوں سے دیکھنے کو بھی شامل ہے اور کانوں سے سننے کو بھی مطلب یہ ہے کہ تم کو ہزلیات کا یقین ہوجائے اور اگر تمہارے سامنے شروع ہو تو اٹھ کر چلے آئو اور پہلے سے معلوم ہوجائے تو وہاں جائو نہیں۔ تربص انتظار کرنا، عرب جب بولتے ہیں تربصت الامر بفلان تو مطلب ہوتا ہے۔ انتظرت وتوعدیہ یہاں مراد یہ ہے کہ منافق تمہارے بارے میں کسی نہ کسی حادثہ اور نئی بات کے منتظر رہتے ہیں۔ استحواذ غالب آجانا قابو پالینا مغلوب کرلینا الاستحواذ الا ستبلاء ۔ مسلمانوں کی فتح کو فتح من اللہ فرمایا اور کفار کا غلبہ چونکہ عارضی اور ناقابل التفات تھا اس لئے اس کو نصیب یعنی کچھ حصہ مل گیا۔ باقی مطلب صاف ہے کہ منافقوں کی یہ دو رخہ پالیسی رہتی ہے ادھر بھی اور ادھر بھی تم کامیاب ہوئے تو اپنے کو تمہارا کہہ دیا اور کافر کچھ کامیاب ہوئے تو یہ کہہ دیا کہ ہم نے تو مسلمانوں کی فتح کو روکا ہے اور اگر ہم خفیہ کارروائی نہ کرتے تو مسلمان تم پر فتح پا ہی لیتے اور چونکہ مسلمانوں کی فوج میں یہ بحیثیت مسلمان شامل تھے اس لئے نستخوذ کہا یعنی کیا ہم پر فتح پا ہی لیتے اور چونکہ مسلمانوں کی فوج میں یہ بحیثیت مسلمان شامل تھے اس لئے نستخوذ کہا یعنی کیا ہم تم پر غالب نہ آ چکے تھے اور چونکہ یہ باتیں سب کفر کی ہیں گو نفاق کے پردے میں ہوں اس لئے فرمایا کہ دونوں جہنم کے مستحق ہیں ان کے اور اللہ تعالیٰ کافروں اور منافقوں دونوں کو جہنم میں یک جا کر دیگا بہرحال ! آگے قیامت کے دن ظاہری طور پر فیصلہ فرمانے کا بیان ہے اور منافقوں کے مزید حالات اور ان کی مذمت ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل) ف 2 بس اللہ تعالیٰ ہی تمہارے اور ان کے مابین قیامت کے دن ظاہری اور عملی فیصلہ کر دے گا اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے مقابلے میں ہرگز برتری کی کوئی راہ نہ دے گا۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ منافق اظہار اسلام کے پردے میں آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن قیامت میں تمہارے اور ان کے مابین اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما دے گا اور سب کو معلوم ہوجائے گا کہ صحیح مسلمان کون ہے اور منافق کون ہے وہ فیصلہ بالکل ظاہری اور عملی ہوگا یعنی ادھر فیصلہ ہوا اور ادھر اس پر عمل ہوا اور اس دن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کو کوئی غلبہ کی راہ نہ دے گا۔ یہ مطلب حضرت علی اور حضرت ابن عباس کی تفسیر کے موافق بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور ہم نے جو ظاہری اور عملی کی قید لگائی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حق و باطل کے دلائل تو اب بھی کھلے ہوئے ہیں لیکن اس دن اہل حق کے ساتھ جو سلوک ہوگا وہ بھی نمایاں ہوگا اور اہل باطل کو جو عذاب کیا جائے گا وہ بھی سب دیکھ لیں گے اور قیامت کے دن کی قید سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں اگر مسلمانوں پر کافروں کو عارضی غلبہ حاصل ہو بھی جائے تو یہ مضر نہیں۔ بہرحال ! قیامت میں جو فیصلہ ہوگا ان میں کافروں کے برتری اور فوقیت کا کوئی موقعہ نہیں، بعض حضرات نے ولن یجعل اللہ للکفرین الخ کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر کوئی ایسا غلبہ نہیں دیا جائے گا جس سے کافر مسلمانوں کا استیصال کردیں اور ان کی شوکت کو بالکل ختم کردیں، بعض لوگوں نے کہا ہے جبتک مسلمان دین پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے ان پر کافروں کو غلبہ حاصل نہیں ہوگا بعض نے کہا شرعاً کافروں کو مسلمانوں پر برتری نہیں ہوگی مثلاً کافر مسلمان کا دلی نہیں ہوگا اور مسلمان عورت کافر کے عقد میں نہیں رہے گی اگر کوئی مسلمان مرتد ہوجائے گا تو مسلم عورت کا نکاح فسخ ہوجائے گا اس کے علاوہ اور بیشمار مسائل ہیں جو کتب فقہ سے معلوم ہوسکتی ہیں اور ان ہی میں سے یہ مشہور مسئلہ بھی ہے کہ کافر کا فیصلہ مسلمان پر نافذ ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص راہ حق میں ہو اور گمراہوں سے بھی بنائے رکھے یہ بھی نفاق ہے (موضح القرآن) اب آگے منافقین کی دو رخہ پالیسی اور اس کی مذمت ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)