Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 142

سورة النساء

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۱۴۲﴾۫ۙ

Indeed, the hypocrites [think to] deceive Allah , but He is deceiving them. And when they stand for prayer, they stand lazily, showing [themselves to] the people and not remembering Allah except a little,

بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hypocrites Try to Deceive Allah and Sway Between Believers and Disbelievers In the beginning of Surah Al-Baqarah we mentioned Allah's statement, يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ امَنُوا (They (think to) deceive Allah and those who believe). (2:8) Here, Allah states, إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ ... Verily, the hypocrites seek to deceive Allah, but it is He Who deceives them. There is no doubt that Allah can never be deceived, for He has perfect knowledge of the secrets and what the hearts conceal. However, the hypocrites, due to their ignorance, scarce knowledge and weak minds, think that since they were successful in deceiving people, using Islamic Law as a cover of safety for themselves, they will acquire the same status with Allah on the Day of Resurrection and deceive Him too. Allah states that on that Day, the hypocrites will swear to Him that they were on the path of righteousness and correctness thinking that such statement will benefit them with Allah. For instance, Allah said, يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهِ جَمِيعاً فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُم On the Day when Allah will resurrect them all together; then they will swear to Him as they swear to you. (58:18) Allah's statement, وَهُوَ خَادِعُهُمْ (but it is He Who deceives them) means, He lures them further into injustice and misguidance. He also prevents them from reaching the truth in this life and on the Day of Resurrection. Allah said, يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَـفِقُونَ وَالْمُنَـفِقَـتُ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ On the Day when the hypocrites ـ men and women ـ will say to the believers: "Wait for us! Let us get something from your light!" It will be said: "Go back to your rear! Then seek a light!" until, وَبِيْسَ الْمَصِيرُ (And worst indeed is that destination). (57:13-15) A Hadith states; مَن سَمَّعَ سَمَّعَ اللهُ بِهِ وَمَنْ رَاءَى رَاءَى اللهُ بِه Whoever wants to be heard of, Allah will make him heard of, and whoever wants to be seen, Allah will show him. Allah's statement, ... وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلَةِ قَامُواْ كُسَالَى ... And when they stand up for Salah, they stand with laziness. This is the characteristic of the hypocrites with the most honored, best and righteous act of worship, the prayer. When they stand for prayer, they stand in laziness because they neither truly intend to perform it nor do they believe in it, have humility in it, or understand it. This is the description of their outward attitude! As for their hearts, Allah said, ... يُرَاوُونَ النَّاسَ ... to be seen of men, meaning, they do not have sincerity when worshipping Allah. Rather, they show off to people so that they gain closeness to them. They are often absent from the prayers that they can hide away from, such as the Isha prayer and the Dawn prayer that are prayed in darkness. In the Two Sahihs, it is recorded that the Messenger of Allah said, أَثْقَلُ الصَّلَةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلَةُ الْعِشَاءِ وَصَلَةُ الْفَجْرِ وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لاََتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ امُرَ بِالصَّلَةِ فَتُقَامُ ثُمَّ امُرَ رَجُلً فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ أَنْطَلِقَ مَعِيَ بِرِجَالٍ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ إِلى قَوْمٍ لاَ يَشْهَدُونَ الصَّلَةَ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّار The heaviest prayers on the hypocrites are the Isha and Dawn prayers. If they know their rewards, they will attend them even if they have to crawl. I was about to order someone to pronounce the Adhan for the prayer, then order someone to lead the prayer for the people, then order some men to collect fire-wood (fuel); then I would burn the houses around men who did not attend the (compulsory congregational) prayer. In another narration, the Prophet said, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ عَلِمَ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الصَّلَاةَ وَلَوْلاَا مَا فِي الْبُيُوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالذُّرِّيَّـةِ لَحَرَّقْتُ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّار By Him, in Whose Hand my soul is, if anyone of them had known that he would get a bone covered with good meat or two (small) pieces of meat between two ribs, he would have turned up for the prayer, and had it not been that the houses have women and children in them, I would burn their homes around them. Allah's statement, ... وَلاَ يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيلً And they do not remember Allah but little. means, during the prayer they do not feel humbleness or pay attention to what they are reciting. Rather, during their prayer, they are inattentive, jesting and avoid the good that they are meant to receive from prayer. Imam Malik reported that Al-Ala' bin Abdur-Rahman said that Anas bin Malik said that the Messenger of Allah said, تِلْكَ صَلَةُ الْمُنَافِقِ تِلْكَ صَلَةُ الْمُنَافِقِ تِلْكَ صَلَةُ الْمُنَافِقِ يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لاَ يَذْكُرُ اللهَ فِيهَا إِلاَّ قَلِيلً This is the prayer of the hypocrite, this is the prayer of the hypocrite, this is the prayer of the hypocrite. He sits watching the sun until when it goes down between the two horns of the devil, he stands up pecks out four Rak`ahs (for Asr) without remembering Allah during them except little. Muslim, At-Tirmidhi and An-Nasa'i also recorded it. At-Tirmidhi said "Hasan Sahih". Allah's statement,

دو ریوڑ کے درمیان کی بکری سورہ بقرہ کے شروع میں بھی ( يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:9 ) اسی مضمون کی گذر چکی ہے ، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ یہ کم سمجھ منافق اس اللہ تعالیٰ کے سامنے چالیں چلتے ہیں جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہے ۔ کم فہمی سے یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ جس طرح ان کی منافقت اس دنیا میں چل گئی اور مسلمانوں میں ملے جلے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پاس بھی یہ مکاری چل جائے گی ۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ قیامت کے دن بھی یہ لوگ اللہ خبیر و علیم کے سامنے اپنی یک رنگی کی قسمیں کھائیں گے جیسے یہاں کھاتے ہیں لکین اس عالم الغیب کے سامنے یہ ناکارہ قسمیں ہرگز کارآمد نہیں ہو سکتیں ۔ اللہ بھی انہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے وہ ڈھیل دیتا ہے حوصلہ افزائی کرتا ہے یہ پھولے نہیں سماتے خوش ہوتے ہیں اور اپنے لئے اسے اچھائی سمجھتے ہیں ، قیامت میں بھی ان کا یہی حال ہو گا مسلمانوں کے نور کے سہارے میں ہوں گے وہ آگے نکل جائیں گے یہ آوازیں دیں گے کہ ٹھہرو ہم بھی تمہاری روشنی میں چلیں جواب ملے گا کہ پیچھے مڑ جاؤ اور روشنی تلاش کر لاؤ یہ مڑیں گے ادھر حجاب حائل ہو جائے گا ۔ مسلمانوں کی جانب رحمت اور ان کے لئے زحمت ، حدیث شریف میں ہے جو سنائے گا اللہ بھی اسے سنائے گا اور جو ریا کاری کرے گا اللہ بھی اسے ویسا ہی دکھائے گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے ان منافقوں میں وہ بھی ہوں گے کہ لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرمائے گا کہ انہیں جنت میں لے جاؤ فرشتے لے جا کر دوزخ میں ڈال دیں گے اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ پھر ان منافقوں کی بد ذوقی کا حال بیان ہو رہا ہے کہ انہیں نماز جیسی بہترین عبادت میں بھی یکسوئی اور خشوع و خضوع نصیب نہیں ہوتا کیونکہ نیک نیتی حسن عمل ، حقیقی ایمان ، سچا یقین ، ان میں ہے ہی نہیں حضرت ابن عباس تھکے ماندے بدن سے کسما کر نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے اور فرماتے تھے نمازی کو چاہئے کہ ذوق و شوق سے راضی خوشی پوری رغبت اور انتہائی توجہ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو اور یقین مانے کہ اس کی آواز پر اللہ تعالیٰ کے کان ہیں ، اسکی طلب پوری کرنے کو اللہ تعالیٰ تیار ہے ، یہ تو ہوئی ان منافقوں کی ظاہری حالت کہ تھکے ہارے تنگ دلی کے ساتھ بطور بیگار ٹالنے کے نماز کے لئے آئے پھر اندرونی حالت یہ ہے کہ اخلاص سے کوسوں دور ہیں رب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے نمازی مشہور ہونے کے لئے لوگوں میں اپنے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے نماز پڑھ رہے ہیں ، بھلا ان صنم آشنا دل والوں کو نماز میں کیا ملے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ ان نمازوں میں جن میں لوگ ایک دوسرے کو کم دیکھ سکیں یہ غیر حاضر رہتے ہیں مثلاً عشاء کی نماز اور فجر کی نماز ، بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ بوجھل نماز منافقوں پر عشاء اور فجر کی ہے ، اگر دراصل یہ ان نمازوں کے فضائل کے دل سے قائل ہوتے تو گھٹنوں کے بل بھی چل کر آنا پڑتا یہ ضرور آ جاتے ہیں تو ارادہ کر رہا ہوں کہ تکبیر کہلوا کر کسی کو اپنی امامت کی جگہ کھڑا کر کے نماز شروع کرا کر کچھ لوگوں سے لکڑیاں اٹھوا کر ان کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے اور لکڑیاں ان کے گھروں کے اردگرد لگا کر حکم دوں کہ آگ لگا دو اور ان کے گھروں کو جلا دو ، ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ کی قسم اگر انہیں ایک چرب ہڈی یا دو اچھے کھر ملنے کی امید ہو تو دوڑے چلے آئیں لیکن آخرت کی اور اللہ کے ثوابوں کی انہیں اتنی بھی قدر نہیں ۔ اگر بال بچوں اور عورتوں کا جو گھروں میں رہتی ہیں مجھے خیال نہ ہوتا تو قطعاً میں ان کے گھر جلا دیتا ، ابو یعلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کی موجودگی میں نماز کو سنوار کر ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے لیکن جب کوئی نہ ہو تو بری طرح نماز پڑھ لے یہ وہ ہے جس نے اپنے رب کی اہانت کی ۔ پھر فرمایا یہ لوگ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم کرتے ہیں یعنی نماز میں ان کا دل نہیں لگتا ، یہ اپنی کہی ہوئی بات سمجھتے بھی نہیں ، بلکہ غافل دل اور بےپرواہ نفس سے نماز پڑھ لیتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کی طرف دیکھ رہا ہے یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا اور شیطان نے اپنے دونوں سینگ اس کے اردگرد لگا دیئے تو یہ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی چار رکعت پڑھ لیں جن میں اللہ کا ذکر برائے نام ہی کیا ( مسلم وغیرہ ) یہ منافق متحیر اور ششدر و پریشان حال ہیں ایمان اور کفر کے درمیان ان کا دل ڈانوا ڈول ہو رہا ہے نہ تو صاف طور سے مسلمانوں کے ساتھی ہیں نہ بالکل کفار کے ساتھ کبھی نور ایمان چمک اٹھا تو اسلام کی صداقت کرنے لگے کبھی کفر کی اندھیریاں غالب آ گئیں تو ایمان سے الگ تھلگ ہوگئے ۔ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرف ہیں نہ یہودیوں کی جانب ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ منافق کی مثال ایسی ہے جیسی دو ریوڑ کے درمیان کی بکری کہ کبھی تو وہ میں میں کرتی اس ریوڑ کی طرف دوڑتی ہے کبھی اس طرف اس کے نزدیک ابھی طے نہیں ہوا کہ ان میں جائے یا اس کے پیچھے لگے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس معنی کی حدیث حضرت عبید بن عمیر نے حضرت عبداللہ بن عمر کی موجودگی میں کچھ الفاظ کے ہیر پھیر سے بیان کی تو حضرت عبداللہ نے اپنے سنے ہوئے الفاظ دوہرا کر کہا یوں نہیں بلکہ دراصل حدیث یوں ہے جس پر حضرت عبید ناراض ہوئے ( ممکن ہے ایک بزرگ نے ایک طرح کے الفاظ سنے ہوں دوسرے نے دوسری قسم کے ) ابن ابی حاتم میں ہے مومن کافر اور منافق کی مثال ان تین شخصوں جیسی ہے جو ایک دریا پر گئے ایک تو کنارے ہی کھڑا رہ گیا دوسرا پار ہو کر منزل مقصود کو پہنچ گیا تیسرا اتر چلا مگر جب بیچوں بیچ پہنچا تو ادھر والے نے پکارنا شروع کیا کہ کہاں ہلاک ہونے جا رہا ہے ادھر آ واپس چلا آ ، ادھر والے نے آواز دی جاؤ نجات کے ساتھ منزل مقصود پر میری طرف پہنچ جاؤ آدھا راستہ طے کر چکے ہو اب یہ حیران ہو کر کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر نظر ڈالتا ہے تذبذب ہے کہ کدھر جاؤں کدھر نہ جاؤں؟ اتنے میں ایک زبردست موج آئی اور بہا کر لے گئی اور وہ غوطے کھا کھا کر مر گیا ، پس پار جانے والا مسلمان ہے کنارے کھڑا بلانے والا کافر ہے اور موج میں ڈوب مرنے والا منافق ہے ، اور حدیث میں ہے منافق کی مثال اس بکری جیسی ہے جو ہرے بھرے ٹیلے پر بکریوں کو دیکھ کر آئی اور سونگھ کر چل دی ، پھر دوسرے ٹیلے پر چڑھی اور سونگھ کر آگئی ۔ پھر فرمایا جسے اللہ ہی راہ حق سے پھیر دے اس کا ولی و مرشد کون ہے؟ اس کے گمراہ کردہ کو کون راہ دکھا سکے؟ اللہ نے منافقوں کو ان کی بدترین بدعملی کے باعث راستی سے دھکیل دیا ہے اب نہ کوئی انہیں راہ راست پر لا سکے نہ چھٹکارا دلا سکے ، اللہ کی مرضی کے خلاف کون کر سکتا ہے وہ سب پر حاکم ہے اسی پر کسی کی حکومت نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

142۔ 1 اس کی مختصر تشریح سورة بقرہ میں ہوچکی ہے۔ 142۔ 2 نماز اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے، کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشاء اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے، منافق پر عشاء اور فجر کی نماز سب سے بھاری ہے۔ 142۔ 3 یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔ 142۔ 4 اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں، جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ (البقرہ۔ 45) سے واضح ہے۔ حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (طلوع کے قریب) ہوجاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٩] یعنی منافقوں کا تو کام ہی فریب کاریوں سے اپنا مفاد حاصل کرنا ہے اور جو سازشیں کرتے رہتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بذریعہ وحی مطلع کردیتا ہے تو یہ اپنی سازش میں نامراد رہنے کے علاوہ مسلمانوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا بھی ہوجاتے ہیں پھر کوئی اور پینترا بدل لیتے ہیں تو کافر ان سے بدظن ہوجاتے ہیں اس طرح ان کی فریب کاریوں کا وبال انہی پر ہی پڑتا رہتا ہے۔ [١٩٠] منافق کی نماز اور ان کا کردار :۔ نماز اسلام کا اہم رکن ہے اور مومن اور کافر میں فرق کرنے کے لیے یہ ایک فوری امتیازی علامت ہے منافقین چونکہ اسلام کے مدعی تھے لہذا انہیں نماز ضرور ادا کرنا پڑتی تھی کیونکہ جو شخص نماز باجماعت میں شامل نہ ہوتا تو فوراً سب کو اس کے نفاق کا شبہ ہونے لگتا تھا۔ لیکن ایک مومن اور منافق کی نماز میں فرق ہوتا تھا۔ مومن بڑے ذوق و شوق سے آتے اور وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے۔ نماز نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے اور نماز کے بعد بھی کچھ وقت ذکر اذکار میں مشغول رہتے اور مسجدوں میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ان کی ایک ایک حرکت سے معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں واقعی نماز سے دلچسپی ہے اس کے برعکس منافقوں کی یہ حالت تھی کہ اذان کی آواز سنتے ہی ان پر مردنی چھا جاتی۔ دل پر جبر کر کے مسجدوں کو آتے۔ نماز میں خشوع و خضوع نام کو نہ ہوتا تھا۔ دلوں میں وہی مکاریوں اور فائدہ کے حصول کے خیالات اور نماز ختم ہوتے ہی فوراً گھروں کی راہ لیتے۔ ان کی تمام حرکات و سکنات اور ان کے ڈھیلے پن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں نہ نماز کی اہمیت کا احساس ہے نہ اللہ سے کچھ محبت ہے اور نہ ہی اللہ کے ذکر سے کوئی رغبت ہے۔ وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو محض حاضری لگوانے کے لیے اور نماز پڑھتے ہیں تو دکھانے کے لیے۔ علاوہ ازیں منافقین نماز باجماعت کا التزام بھی کم ہی کرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث میں منافقوں کی اسی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ آپ نے فرمایا۔ && منافق کی نماز یہ ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو اٹھ کر (نماز عصر کے لیے) چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اس میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے۔ && (مسلم، کتاب الصلٰوۃ۔ باب استحباب التبکیر بالعصر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && منافقوں پر کوئی نماز صبح اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری نہیں۔ اور اگر لوگ اس ثواب کو جانتے جو ان نمازوں میں ہے تو گھسٹ کر بھی پہنچتے۔ اور میں نے ارادہ کیا کہ موذن سے کہوں وہ تکبیر کہے اور کسی کو لوگوں کی امامت کا حکم دوں اور آگ کا شعلہ لے کر ان لوگوں (کے گھروں) کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلتے۔ && (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلوۃ العشاء فی الجماعۃ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ : اس جملے کی تشریح سورة بقرہ کی آیت (٩) اور (١٥) میں ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انھیں دھوکا دینا بھی اسی طرح ہوگا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ ۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کو اپنے اسلام کا ثبوت پیش کرنے کے لیے مسجد میں آنا پڑتا تھا۔ اگر کوئی مسجد میں نماز نہ پڑھتا تو مسلمان شمار نہیں ہوتا تھا، منافقین کی یہ نمازیں صرف مسلمانوں کے دکھلاوے کے لیے تھیں، اس لیے جن نمازوں میں چھپنے کی گنجائش ہوتی اس میں وہ غیر حاضر رہتے، جیسے صبح اور عشاء کی نماز۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” منافقین پر صبح اور عشاء کی نماز تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہے، حالانکہ اگر وہ جانتے کہ ان کا کیا ثواب ہے تو وہ ان میں حاضر ہوتے، چاہے انھیں ان میں گھسٹ کر آنا پڑتا۔ “ [ بخاری، الأذان، باب فضل فی صلوۃ العشاء۔۔ : ٦٥٧۔ مسلم : ٢٥٢؍٦٥١ ] وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا : یعنی جلدی جلدی، جیسے کوئی بیگار ٹالنا مقصود ہے۔ انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ منافق کی نماز ہے، بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ( یعنی غروب کے بالکل قریب) ہوجاتا ہے، تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگے مار لیتا ہے، ان میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر بہت کم۔ “ [ مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر : ٦٢٢ ] معلوم ہوا کہ عصر کی نماز دیر سے پڑھنا بھی نفاق ہے اور جلدی جلدی اکٹھے دو سجدے بھی، جن میں وقفہ نہ ہو، ایک ہی سجدہ ہوتے ہیں، ورنہ آپ چار کے بجائے آٹھ ٹھونگے فرماتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) has, in his Tafsir Bay-an al-Qur&an, taken up the question of &standing up lazily& in the expression: قَامُوا كُسَالَ which appears in verse 142 saying: &The laziness censured here is doctrinal laziness, (that is, slothfulness towards observance of the arti¬cles of faith due to lack of true conviction). However, laziness which is there despite correct beliefs stands excluded from the purview of this censure. Then, should this laziness be there due to some excuse, such as, sickness, fatigue or sleepiness, it is not even blameworthy. But, when without excuse, it is.&

خلاصہ تفسیر بلاشبہ منافق لوگ (اظہار ایمان میں) چالبازی کرتے ہیں اللہ سے (گو ان کی چال اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور گو ان کا اعتقاد اللہ کے ساتھ چالبازی کرنے کا نہ ہو، مگر ان کی یہ کارروائی مشابہ اسی کی ہے کہ جیسا یہی اعتقاد ہو) حالانکہ اللہ تعالیٰ اس چال کی سزا ان کو دینے والے ہیں، اور (چونکہ دل میں ایمان تو ہے نہیں اور اس لئے نماز کو فرض نہ سمجھیں اس میں ثواب کا اعتقاد رکھیں، اس لئے) جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، (کیونکہ نشاط اعتقاد اور امید سے پیدا ہوتا ہے) صرف آدمیوں کو (اپنا اس نماز میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر (زبانی) بھی نہیں کرتے مگر بہت ہی مختصر (یعنی محض صورت نماز کی بنا لیتے ہیں جس میں نماز کا نام ہوجاوے اور عجب نہیں کہ اٹھنا بیٹھنا ہی ہوتا ہو، کیونکہ جہر کی ضرورت تو بعض نمازوں میں امام کو ہوتی ہے، امامت تو ان کو کہاں نصیب ہوتی، مقتدی ہونے کی حالت میں اگر کوئی بالکل نہ پڑھے فقط لب ہلاتا رہے تو کسی کو کیا خبر ہو تو ایسے بد اعتقادوں سے کیا بعید ہے کہ زبان بھی نہ ہلتی ہو) معلق ہو رہے ہیں دونوں کے (یعنی کفار و مؤ منین) کے درمیان میں نہ (پورے) ادھر نہ (پورے) ادھر (کیونکہ ظاہر میں مومن تو کفار سے الگ اور باطن میں کافر تو مؤمنین سے الگ) اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دیں (جیسا کہ ان کی عادت ہے کہ عزم فعل کے وقت اس فعل کو پیدا کردیتے ہیں) ایسے شخص کے (مومن ہونے کے) لئے کوئی سبیل (یعنی راہ) نہ پاؤ گے (مطلب یہ کہ ان منافقین کے راہ پر آنے کی امید مت رکھو، اس میں منافقین کی تشنیع ہے اور مؤمنین کی تسلی کہ ان کی شرارتوں سے رنج نہ کریں) اے ایمان والو ! تم مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں کو (خواہ منافق ہوں خواہ مجاہر ہوں) دوست مت بناؤ (جیسا منافقین کا شیوہ ہے، کیونکہ تم کو ان کی حالت کفرو عداوت کی معلوم ہوچکی) کیا تم (ان سے دوستی کر کے) یوں چاہتے ہو کہ اپنے اوپر (یعنی اپنے مجرم و مستحق عذاب ہونے پر) اللہ تعالیٰ کی حجت صریح قائم کرلو (حجت صریحہ یہی ہے کہ ہم نے جب منع کردیا تھا پھر کیوں کیا۔ ) معارف ومسائل مسئلہ : (قولہ تعالی) قاموا کسالی جس کسل کی یہاں مذمت ہے وہ اعتقادی کسل ہے اور جو باوجود اعتضاد صحیح کے کسل ہو وہ اس سے خارج ہے، پھر اگر کسی عذر سے ہو جیسے مرض وتعب و غلبہ نوم تو قابل ملامت بھی نہیں اور اگر بلا عذر ہو تو قابل ملامت ہے۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَھُوَخَادِعُھُمْ۝ ٠ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝ ٠ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۝ ١٤٢ۡۙ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ خدع الخِدَاع : إنزال الغیر عمّا هو بصدده بأمر يبديه علی خلاف ما يخفيه، قال تعالی: يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة/ 9] ، أي : يخادعون رسوله وأولیاء ه، ونسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معاملة الرّسول کمعاملته، ولذلک قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح/ 10] ، وجعل ذلک خدا عا تفظیعا لفعلهم، وتنبيها علی عظم الرّسول وعظم أولیائه . وقول أهل اللّغة : إنّ هذا علی حذف المضاف، وإقامة المضاف إليه مقامه، فيجب أن يعلم أنّ المقصود بمثله في الحذف لا يحصل لو أتي بالمضاف المحذوف لما ذکرنا من التّنبيه علی أمرین : أحدهما : فظاعة فعلهم فيما تحرّوه من الخدیعة، وأنّهم بمخادعتهم إيّاه يخادعون الله، والثاني : التّنبيه علی عظم المقصود بالخداع، وأنّ معاملته کمعاملة الله، كما نبّه عليه بقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح/ 10] ، وقوله تعالی: وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء/ 142] ، قيل معناه : مجازيهم بالخداع، وقیل : علی وجه آخر مذکور في قوله تعالی: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران/ 54] وقیل : خَدَعَ الضَّبُّ أي : استتر في جحره، واستعمال ذلک في الضّبّ أنه يعدّ عقربا تلدغ من يدخل يديه في جحره، حتی قيل : العقرب بوّاب الضّبّ وحاجبه ولاعتقاد الخدیعة فيه قيل : أَخْدَعُ من ضبّ و طریق خَادِع وخَيْدَع : مضلّ ، كأنه يخدع سالکه . والمَخْدَع : بيت في بيت، كأنّ بانيه جعله خادعا لمن رام تناول ما فيه، وخَدَعَ الریق : إذا قلّ متصوّرا منه هذا المعنی، والأَخْدَعَان تصوّر منهما الخداع لاستتارهما تارة، وظهورهما تارة، يقال : خَدَعْتُهُ : قطعت أَخْدَعَهُ ، وفي الحدیث : «بين يدي السّاعة سنون خَدَّاعَة» أي : محتالة لتلوّنها بالجدب مرّة، وبالخصب مرّة . ( خ د ع ) الخداع کے معنی ہیں جو کچھ دل میں ہوا س کے خلاف ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیرلینا جس کے علاوہ درپے ہوا اور آیت کریمہ :۔ يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة/ 9]( اپنے پندار میں ) خدا کو چکمہ دیتے ہیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے سے اس کے رسول اور اولیاء کو فریب دینا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت کے ساتھ کوئی سا معاملہ کرنا گو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے ۔ اس بنا پر فرمایا :۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح/ 10] جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں ۔ اور ان کے اس فعل کی شناخت اور آنحضرت اور صحابہ کرام کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے خدا سے تعبیر کیا ہے ۔ اور بعض اہل لغت کا یہ کہنا کہ یہاں ( مضاف محذوف ہے اور اصل میں یخادعون رسول اللہ ہے ۔ پھر مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے ۔ تو اس کے متعلق یہ جان لینا ضروری ہے کہ مضاف محذوف کو ذکر کرنے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ ایک تو یہاں ان کی فریب کاریوں کی شناخت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور دوسرے یہ بتانا ہی کہ آنحضرت کے ساتھ معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ آیت إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح/ 10] میں بیان ہوچکا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء/ 142] اور وہ انہیں کو ۔ دھوکے میں ڈالنے والا ہے ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دے گا اور بعض نے کہا ہے کہ مقابلہ اور مشاکلہ کے طور پر یہ کہا گیا ہے جیسا کہ آیت وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران/ 54] میں ہے ۔ خدع الضب گوہ کا اپنے بل میں داخل ہوجانا اور گوہ کے بل میں چھپ جانے کے لئے خدع کا استعمال اس بنا پر ہے کہ اس کی بل کے دروازے پر ہمیشہ ایک بچھو تیا ربیٹھا رہتا ہے ۔ جو بل میں ہاتھ ڈالنے والے کو ڈس دیتا ہے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے العقرب بواب الضب کو بچھو گوہ کا دربان ہے ۔ چونکہ اہل عرب کے ہان ضب کی مکاری ضرب المثل تھی اس لئے کہا گیا ہے ( مثل ) ھو اخدع من الضب کہ وہ ضب سے زیادہ مکار ہے طریق خادع وخیدع گمراہ کرنے والا راستہ گویا وہ مسافر کا دھوکا دیتا ہے ۔ الھذع بڑے کمرے کے اندر چھوٹا کمرہ ۔ گو یا اس بڑے کمرے سے چیز اٹھانے والے کو دھوکا دینے کے لئے بنایا ہے ۔ خدع الریق منہ میں تھوک کا خشک ہونا اس میں بھی دھوکے کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الاخدعان گردن کی دو رگیں کیونکہ وہ کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ہیں ۔ کہا جاتا ہے خدعتہ میں نے اس کی اخدع رگ کو کاٹ دیا ۔ حدیث میں ہے (107) بین یدی الساعۃ سنون خداعۃ کہ قیامت کے قریب دھو کا دینے والے سال ہوں گے کیونکہ وہ بھی خشک سالی اور خوشحالی سے رنگ بالتے ہوں گے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ كسل الْكَسَلُ : التثاقل عمّا لا ينبغي التثاقل عنه، ولأجل ذلک صار مذموما . يقال : كَسِلَ فهو كَسِلٌ وكَسْلَانُ وجمعه : كُسَالَى وكَسَالَى، قال تعالی: وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] وقیل : فلان لا يَكْسَلُهُ الْمَكَاسِلُ وفحل كَسِلٌ: يَكْسَلُ عن الضّراب، وامرأة مِكْسَالٌ: فاترة عن التّحرّك . ( ک س ل ) الکسل کے معنی کسی ایسے معاملہ میں گراں باری ظاہر کرنا کے ہیں ۔ جس میں گرا نباری کرنا مناسب نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مذموم خیال کیا جاتا ہے اور یہ باب کسل کا مصدر ہے ۔ اور کسلان کی جمع کسالٰی وکسالٰی آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] اور نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لا یکسلہ المکا سل اس کو اسباب کا ھلی سست نہیں بناتے فحل کسل جو نر کی جفتی میں سست ہوجائے امراۃ مکسال زن سست جو ناز پر در وہ ہو نیکی وجہ سے اپنے کمرہ سے باہر نہ نکلے ( صفت ہو ) ریاء قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، رئائ۔ راء ی یرائی ( باب مفاعلۃ) مراء ۃ ورئاء مصدر ( ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ان المنافقین یخادعون اللہ وھو خادعھم، یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے) ۔ اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ لوگ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ایمان کے اظہار کے ذریعے دھوکہ دے رہے ہیں تاکہ اپنی جانیں محفوظ کرلیں اور اموال غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوجایا کریں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دھوکے بازی کی سزا دے کر انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے اس سے ایک فعل کی جزا کو اس فعل سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ کلام میں مزاوجت یعنی الفاظ کی تقریب کا طریقہ ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے فمن اعتذی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم۔ جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے) ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ منافقین کا طرز عمل اس شخص کے طرز عمل کی طرح ہے جو اپنے مالک کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہو کیونکہ یہ لوگ ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور باطن میں اس کے خلاف عقیدہ چھپائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں اس لحاظ سے دھوکے میں ڈال رکھا ہے کہ مسلمانوں کو ان کا ایمان قبول کرلینے کا حکم دے دیا ہے جبکہ خودان منافقین کو یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں چھپے ہوئے کفر سے بخوبی آگاہ ہے۔ ذکر قلیل کیا ہے قول باری ہے ولایذکرون اللہ الا قلیلاً ۔ اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں) کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے ذکر اللہ کو قلیل کہا ہے کیونکہ یہ ذکر اللہ کی رضا کی خاظر نہیں بلکہ اور مقصد کے لئے ہوتا ہے اس لئے معنی طور پر یہ قلیل ہے اگرچہ ظاہری طور پر اس کی کثرت ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اسے قلیل کی صفت سے اس لئے موصوف کیا گیا ہے کہ یہ ریاکاری کے طورپر کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ نہ صرف بےمعنی اور حقیر ہے بلکہ اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہے نیز یہ ان منافقین پر وبال ہے۔ ایک قول ہے اس سے مراد ذکر یسیر یعنی تھوڑا سا ذکر ہے وہ اس طرح کہ یہ منافقین لوگوں کو دکھلاوے کے طور پر جس قدر اللہ کا ذکر کرتے ہیں وہ اس سے کہیں کم ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے جس طرح مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے فاذکرواللہ قیلعاً وقعوداً وعلی جنوبکم، اللہ کو کھڑے ہو کر، بیٹھ کر اور لیٹ کر یاد کرو) ۔ اللہ نے یہ بھی خبر دی ہے کہ منافقین نماز کے لئے کسمساتے ہوئے لوگوں کو دکھلاوے کے طور پر اٹھتے ہیں، کسل اس کیفیت کو کہتے ہیں جو طیبعت میں کسی چیز کی طرف سے اس بنا پر بوجھل پن پیدا کردیتی ہے کہ اس کی ادائیگی میں مشفقت ہوتی ہے اور اسے سرانجام دینے کے لئے دل میں کمزور سا داعیہ اور جذبہ ہوتا ہے۔ چونکہ منافقین کے دلوں میں ایمان کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی اس لئے ان میں نماز کا داعیہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صرف مسلمانوں سے ڈر کر اور انہیں دکھانے کی خاطر وہ نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٢۔ ١٤٣) عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی خفیہ طریقہ پر اللہ تعالیٰ کی تکذیب اور اس کے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکر اور دھوکہ کر رہے ہیں، اس کی سزا قیامت کے دن ان کو مل جائے گی کہ پل صراط پر گزرنے کے وقت ان سے مومنین کہیں گے کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو اور یہ لوگ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان کے پاس وہاں روشنی بجھ جائیگی اور لوٹنے کی ان میں طاقت نہ ہوگی۔ اور جب یہ نماز کے لیے آتے ہیں تو بہت سستی کے ساتھ آتے ہیں، جب دوسرے لوگ انھیں دیکھیں تو نماز پڑھ لیتے ہیں ورنہ چھوڑ دیتے ہیں، ریاء اور دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص ہو کر نماز نہیں پڑھتے ، یہ کفر و ایمان کے بیچ ہیں، دل میں کفر ہے اور منہ سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، نہ ظاہر و باطن میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں کہ ان کے لیے وہ چیزیں واجب نہ ہوں جو مسلمانوں کے لیے واجب ہوتی ہیں۔ اور نہ پورے طریقہ سے یہودیوں کے ساتھ ہیں کہ ان پر بھی کہیں وہ احکام نافذ نہ ہوں جو یہودیوں پر ہوتے ہیں جو دین حق سے خفیہ طریقہ پر بےراہ ہوتا ہے تو اسے پھر دین حق کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٢ (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ ) یہ مضمون سورة البقرہ کے دوسرے رکوع میں بھی آچکا ہے۔ مُخادَعۃ باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ اس باب میں کسی کے مقابلے میں کوشش کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں دو فریقوں میں مقابلہ ہوتا ہے اور پتا نہیں ہوتا کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ لہٰذا اس کا صحیح ترجمہ ہوگا کہ وہ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ کی طرف سے فرمایا گیا : (وَہُوَ خَادِعُہُمْ ج) ۔ خَادِع ثلاثی مجرد سے اسم فاعل ہے اور یہ نہایت زور دار تاکید کے لیے آتا ہے ‘ اس لیے ترجمہ میں تاکیدی الفاظ آئیں گے۔ یہاں منافقین کے لیے دھوکہ والا پہلو یہ ہے کہ اللہ نے ان کو جو ڈھیل دی ہوئی ہے اس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں ‘ ہمارے اوپرا بھی تک کوئی آنچ نہیں آئی ‘ کوئی پکڑ نہیں ہوئی ‘ کوئی گرفت نہیں ہوئی ‘ ہم دونوں طرف سے بچے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی اس ڈھیل کی وجہ سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اور درحقیقت یہی دھوکہ ہے جو اللہ کی طرف سے ان کو دیا جا رہا ہے۔ یعنی اللہ نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (وَاِذَا قَامُوْآ اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی لا) یہ منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ طبیعت میں بشاشت نہیں ہے ‘ آمادگی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا بھی ضروری ہے لہٰذا مجبوراً کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قَام فعل ہے اور اس کے معنی ہیں کھڑے ہونا ‘ جبکہ قاءم اس سے اسم فاعل ہے۔ مختلف زبانوں میں عام طور پر verb کے بعد prepositions کی تبدیلی سے معنی اور مفہوم بدل جاتے ہیں۔ مثلاً انگریزی میں to give ایک خاص مصدر ہے۔ اگر to give up ہو تو معنی یکسر بدل جائیں گے۔ پھر اگر یہ to give in ہو تو بالکل ہی الٹی بات ہوجائے گی۔ اسی طرح عربی میں بھی حروف جار کے تبدیل ہونے سے معانی بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر قام عَلٰی ہو ‘ جیسے (الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ ) میں ہے تو اس کے معنی ہوں گے حاکم ہونا ‘ سربراہ ہونا ‘ کسی کے حکم کا نافذ ہونا۔ لیکن اگر قام اِلٰی ہو (جیسے آیت زیر نظر میں ہے) تو اس کا مطلب ہوگا کسی شے کے لیے کھڑے ہونا ‘ کسی شے کی طرف کھڑے ہونا ‘ کوئی کام کرنے کے لیے اٹھنا ‘ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرنا۔ اس سے پہلے ہم قامَ ’ بِ ‘ کے ساتھ بھی پڑھ چکے ہیں : قَوّٰمَیْنَ بِا لْقِسْطِ اور قاءِمًا بالْقِسْطِ ۔ یہاں اس کے معنی ہیں کسی شے کو قائم کرنا۔ تو آپ نے ملاحظہ کیا کہ حروف جار (prepositions) کی تبدیلی سے کسی فعل کے اندر کس طرح اضافی معانی پیدا ہوجاتے ہیں۔ (یُرَآءُ وْنَ النَّاسَ ) (وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ الاَّ قَلِیْلاً ) یعنی ذکر الٰہی جو نماز کا اصل مقصد ہے (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ) (طٰہٰ ) وہ انہیں نصیب نہیں ہوتا۔ مگر ممکن ہے اس بےدھیانی میں کسی وقت کوئی آیت بجلی کے کڑکے کی طرح کڑک کر ان کے شعور میں کچھ نہ کچھ اثرات پیدا کر دے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

172. In the time of the Prophet (peace be on him) no one, unless he prayed regularly, could be reckoned as belonging to the Islamic community. We know that secular associations consider the absence of any member from their meetings, without a valid excuse, a sign of lack of interest, and that in the event of continued absence, they cancel his membership. The early Islamic community did the same with those who absented themselves from congregational Prayers. In those days a person's absence from congregational Prayers was considered a clear indication of his indifference towards Islam: if he absented himself from them repeatedly he was no longer held to be a Muslim. In those days, therefore, even the worst hypocrites had to attend the five daily Prayers in the mosque. What distinguished a true believer from the hypocrite was that the former came to the mosque with devotion, fervour and eagerness, came there well before the appointed time for the Prayer, and did not rush out of the mosque as soon as the Prayer was over. In short, everything about him indicated that his heart was in the Prayer. Whereas the call to the Prayer for the hypocrite seemed like the announcement of an unavoidable calamity. When such a person set off for the mosque, he seemed to do so in spite of himself. He walked as if he were dragging the entire weight of his being. No wonder, then, that as soon as the Prayer was over, he escaped like a prisoner released from jail. His entire demeanour testified that the remembrance of God was not what he really had his heart in.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :172 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کی جماعت میں شمار ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ نماز کا پابند نہ ہو ۔ جس طرح تمام دنیوی جماعتیں اور مجلسیں اپنے اجتماعات میں کسی ممبر کے بلا عذر شریک نہ ہونے کو اس کی عدم دلچسپی پر محمول کرتی ہیں اور مسلسل چند اجتماعات سے غیر حاضر رہنے والے پر اسے ممبری سے خارج کر دیتی ہیں ، اسی طرح اسلامی جماعت کے کسی رکن کا نماز باجماعت سے غیر حاضر رہنا اس زمانہ میں اس بات کی صریح دلیل سمجھا جاتا تھا کہ وہ شخص اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اور اگر وہ مسلسل چند مرتبہ جماعت سے غیر حاضر رہتا تو یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس بنا پر سخت سے سخت منافقوں کو بھی اس زمانہ میں پانچوں وقت مسجد کی حاضری ضرور دینی پڑتی تھی ، کیونکہ اس کے بغیر وہ مسلمانوں کی جماعت میں شمار کیے ہی نہ جا سکتے تھے ۔ البتہ جو چیز ان کو سچے اہل ایمان سے ممیز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ سچے مومن ذوق و شوق سے آتے تھے ، وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے ، نماز سے فارغ ہو کر بھی مسجد وں میں ٹھیرے رہتے تھے ، اور ان کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ نماز سے ان کو حقیقی دلچسپی ہے ۔ بخلاف اس کے اذان کی آواز سنتے ہی منافق کی جان پر بن جاتی تھی ، دل پر جبر کر کے اٹھتا تھا ، اس کے آنے کا انداز صاف غمازی کرتا تھا کہ آ نہیں رہا بلکہ اپنے آپ کو کھینچ کر لا رہا ہے ، جماعت ختم ہوتے ہی اس طرح بھاگتا تھا گویا کہ کسی قیدی کو رہائی ملی ہے ، اور اس کی تمام حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ شخص خدا کے ذکر سے کوئی رغبت نہیں رکھتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

84: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکا دے دیا، تو در حقیقت یہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا، اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دھوکے میں پڑا رہنے دیتا ہے جو انہوں نے خود اپنے آپ کو اپنے اختیار سے دے رکھا ہے۔ اور اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ان کو دھکے میں ڈالنے والاہے۔ اس ترجمے کی بنیاد پر اس کا ایک مطلب بعض مفسرین (مثلا حضرت حسن بصری) نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کو اس دھوکے کی سزا آخرت میں اللہ تعالیٰ اس طرح دے گا کہ شروع میں ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ دور لے جایا جائے گا۔ اور مسلمانوں کو جو نور عطا ہوگا۔ اسی کی روشنی میں کچھ دور تک یہ بھی مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے، اور یہ سمجھنے لگیں گے کہ ان کا انجام بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوگا، مگر آگے جا کر ان سے روشنی چھین لی جائے گی، اور یہ بھٹکتے رہ جائیں گے، اور بالآخر دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جیسا کہ سورۃ حدید (12:57۔14) میں اس کا بیان آیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(142 ۔ 143) ۔ منافق لوگ اپنی نادانی سے یہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح دنیا میں ہم نے ظاہری مسلمان بن کر مسلمانوں کو دھوکا دے دیا جس دھوکے کے سبب سے ہماری جان ہمارا مال سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھ سے بچ گیا۔ اسی طرح قیامت کے دن خدا کے روبرو بھی ہمارا یہ دھوکا چل جائے گا۔ اور اس ظاہری اسلام پر اس دن ہماری نجات ہوجائے گی۔ ان لوگوں کے اس خیال کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اس غیب دان کے ساتھ تو یہ لوگ کیا دغا بازی اور دھوکا کرسکتے ہیں۔ بلکہ ان کی دغا بازی کا وبال ان ہی پر دونوں جہان میں یہ پڑ رہا ہے کہ دنیا میں تو یہ لوگ اپنی دغا بازی کو اچھا جان کر اسی میں پڑے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم ازلی موافق جو ان میں سے اسی حالت پر مرنے والے ہی ان کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا دنیا ودارالامتحان کے انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم کے ساتویں طبقہ ہاویہ میں ہوگا۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) اور انس (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ منافق لوگ قیامت کے دن اپنے ظاہری اسلام اور نماز روزہ کا حال اللہ تعالیٰ کے روبرو بیان کر کے اپنی نجات کی خواہش اللہ تعالیٰ سے ظاہر کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ پر مہر لگا کر ان کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔ اور اعضاء کی گواہی سے ایسے لوگوں کے منافقانہ سب عمل ظاہر ہوجائیں گے ٢۔ یہ حدیثیں آیت کے ٹکڑے یخادعون اللہ کی گویا تفسیر ہیں عقبیٰ کی جزا و سزا کا پورا یقین تو منافق لوگوں کے جی میں ہوتا نہیں اس لئے وہ کوئی عبادت عقبیٰ کے ثواب کی نیت سے دل لگا کر نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کرتے ہیں وہ مسلمان کہلانے کے لئے لوگوں کے دکھانے کے طور پر کرتے ہیں مثلاً نماز جیسی چیز کو جو دین کا ایک بڑا رکن ہے۔ بےوقت اوپری دل سے اس طرح جھٹ پٹ اس کو پڑھ لیتے ہیں کہ جس کا نہ رکوع ادا ہوتا ہے نہ سجدہ صحیح مسلم، ترمذی، نسائی، اور مؤطا میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق لوگ عصر کی نماز میں یہاں تک دیر کرتے کہ جب سورج غروب کے قریب پہنچ جاتا تو اس وقت جانوروں کی طرح چار ٹھونگیں زمین پر مار لیتے ہیں جن میں اللہ کے ذکر کا بہت تھوڑا موقع ان کو ملا کرتا ہے ١ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر ہے جس میں منافقوں کی نماز کا ذکر ہے منافق لوگ جب مسلمانوں میں آتے تو ان کی سی کہنے لگتے۔ اور جب مخالف لوگوں میں جاتے تو ان کی سی کہنے لگتے غرض پورے طور پر نہ ادھر تھے نہ ادھر اسی واسطے فرمایا یہ لوگ ادھر میں لٹک رہے ہیں نہ مسلمانوں میں ان کی گنی ہے نہ منکروں میں پھر فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں بھٹکا ہوا قرار پا چکا وہ ہرگز راہ راست پر نہیں آسکتا۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق شخص کی مثال ایسی ہے جس طرح بھٹکی ہوئی بکری بکریوں میں دو ریوڑ دیکھ کر کبھی ایک ریوڑ میں جاتی ہے اور کبھی دوسرے میں ٢۔ منافقوں جس سر گردانی کی حالت کا ذکر ان آیتوں میں ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے کہ منافق لوگ گھڑی مسلمانوں کے گروہ میں ہیں گھڑی منکروں کے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:142) یخدعون۔ وہ فریب کرتے ہیں۔ وہ دھوکہ دیتے ہیں۔ مخادعۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ الخداع کے معنی ہیں جو کچھ دل میں ہو اس کے خلاف ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیر دیان جس کے وہ درپے ہو۔ یخدعون اللہ۔ یہ (اپنے زعم میں) خدا کو چکمہ دیتے ہیں۔ یہاں اللہ کو دھوکہ دینا اس کے رسول اور صحابہ کو فریب دینا مراد ہے۔ وھو خادعہم۔ (وہ انہیں کو دھوکہ میں ڈالنے والا ہے) بعض نے اس کے معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دے گا۔ بعض نے کہا ہے کہ مقابلہ اور مشاکلہ کے طور پر کہا گیا ہے۔ جیسا کہ آیت ومکروا ومکراللہ (3:54) میں ہے۔ (مشاکلہ۔ مقابلہ۔ علم بدیع کی معانی خوبیوں میں سے دو خوبیاں ہیں) ۔ مقابلہ : دو یا دو سے زائد متوافق معنی کو لا کر ہر ایک کے مقابل کو ذکر کردیا جائے ترتیب کے ساتھ ۔ مشاکلہ : شئی کو ایسے لفظ کے ساتھ ذکر کرنا جو اس کے لئے موضوع نہ ہو اس کے غیر کی صحبت میں واقع ہونے کی وجہ سے۔ کسالی۔ کسلان کی جمع ہے۔ سست کاہل۔ جس کام میں سستی نہ کرنی چاہیے اس میں سستی کرنے کو کسل کہتے ہیں۔ کسل یکسل (سمع) سستی کرنا۔ بمثل مکاری سکران۔ یراء ون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ مراء ۃ (مفاعلۃ) سے مصدر (رأی) سے (مہموز العین اور ناقص یائی) وہ دکادٹ کرتے ہیں۔ وہ ریاکاری کرتے ہیں۔ وہ دکھلاتے ہیں (لوگوں کو) یا رأی یری سے مضارع مجہول ہے وہ دیکھے جاتے ہیں۔ یا کہ وہ دیکھے جائیں لوگوں سے یعنی لوگ انہیں دیکھیں۔ (عبد اللہ یوسف علی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 بشرطیکہ مسلمان ان صحیح معنی ہیں مسلمان ہوں اور اپنے دین کے تقا ضوں کو پوری طرح ادا کرتے ہوں وہ اگر کافروں کے ہاتھوں مغلوب ہوں گے تو اپنے ہی کرتوتو کی بدولت۔ (دیکھئے الشوریٰ آیت 30) ابن عربی لکھتے ہیں کہ یہ توجیہ نہایت اچھی ہے اور صحیح مسلم میں ثوبان (رض) کی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے جس میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کے لیے دعا کی۔ الا یسلط علیھم عدواسوی انفسھم کہ ان کی ذات کے سواباہر سے ان پر دشمن کا تسلط نہ ہو۔ (قرطبی)2 اللہ تعالیٰ کو فریب دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے سامنے زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں حالانکہ دل میں میں کفر چھپائے ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا انہیں فریب دینا یہ ہے کہ وہ انہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دیتا ہے اور انہیں دنیا وآخرت دونوں میں ذلیل وخوات کرتا ہے ، (دیکھئے۔ سورت بقرہ آیت :9) یعنی وہ محض ریاکاری کی نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں میں غیر حاضر رہتے ہیں جن میں نمائش نہیں ہوسکتی ہے جیسے صبح اور عشا کی نماز حدیث میں ہے منافقین پر صبح اور عشا کی نمازوں سے زیادہ گراں ہے۔ حالا ن کہ وہ جانتے کہ ان کا کیا ثواب ہے تو وہ ان میں حاضر ہوتے چاہے ان میں گھسٹ کر آنا پڑتا۔ (بخاری مسلم)4 یعنی جلدی جسیے کوئی بیگار ٹالنا مقصود ہے صحیح احادیث میں ہے کہ منافقین بیٹا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (یعنی غروب ہونے کے باکل قریب) ہوجاتا ہے تو کھڑا ہوتا ہے اور زمین پر چادر ٹھونگیں مارلیتا ہے جن میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرتا ہے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 21 ۔ آیات 142 تا 152 ۔ اسرار و معارف : منافقین درحقیقت اللہ کو دھوکا دینا چاہ رہے ہیں جب مومنین کو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دیا تو گویا خود اللہ کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ اعمالکا اجر تو اللہ کریم کی طرف سے ملے گا ہاں وقتی طور پر اللہ کے بندے دھوکا کھا جائیں گے اور منافق کو مسلمان سمجھ بیٹھیں گے اللہ کریم بھی انہیں اس جرم کی بہت سخت سزا دے گا۔ یہ ایسے بدبخت ہیں کہ نماز کے لیے بھی کھڑے ہوں گے تو نہایت بددلی کے ساتھ ویسے تو کسل سے سستی مراد ہوتی ہے مگر یہاں جسمانی سستی کی نسبت ایمانی سستیپائی جاتی ہے ورنہ بظاہر تو شاید بڑے اہتمام سے کھڑے ہوتے ہوں گے۔ کہ وہ پڑھتے ہی لوگوں کو دکھانے کے لیے ہیں اللہ کی رضا مطلوب نہیں لوگوں میں نیک مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ بظاہر بڑے خشوع کا اظہار کرتے ہیں مگر اندر سارا کھوٹ بھرا ہوتا یہاں اگر بوجہ بیماری یا جسمانی کمزوری بظاہر سستی ہوجائے تو وہ زیر بحث نہیں بلکہ منافق کی اندرونی کیفیت کا اظہار مطلوب ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ منافق اللہ کا ذکر نہیں کرتے اللہ اللہ نہیں کرتے اگر کبھی کریں بھی تو بہت کم ، کسی مجلس میں پھنس گئے تو لوگوں کو دکھانے کے لئے کرلی۔ ورنہ اگر مسلسل اللہ اللہ نبھی کرتے رہیں تو ان کے نفاق کا کچھ تو علاج ہو لیکن انہیں تو ذکر الہی تک نصیب نہیں نہ یہ اس طرف کے رہے نہ اس طرف پہنچ پائے۔ بس درمیان میں پریشانی کے عالم میں کھڑے ہیں کبھی کافروں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کی طرف ایک قدم چل لیتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ بندے کو اللہ کریم سے بگاڑنی نہیں چاہئے غلطی ہوجائے۔ گناہ ہوجائے تو اس کا اقرار کرے توبہ کرے اور سیدھا سیدھا اس سے بخشش طلب کرتا رہے ورنہ مسلسل گناہ کئے جانے سے اور توبہ نہ کرنے سے بات اللہ کریم سے بگڑ جاتی ہے۔ اور جب کسی کو اس کی طرف سے ہدایت نصیب نہیں ہوتی تو پھر ایسے آدمی کے لیے کوئی بھی راستہ باقی نہیں رہتا کوئی سبب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا سو ایمان والوں کو اور مسلمانوں کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی کریں جو حدود تعلقات کے بارہ میں شریعت مطہرہ نے مقرر فرما دی ہیں ان سے تجاوز کرنا گویا خود اپنے اوپر الزام لینے والی بات ہوئی کہ اگر اللہ کریم سوال کردیں تو کوئی جواب نہ ہوگا۔ نفاق سب سے بڑا جرم ہے : اور منافقین دوزخ کے سب سے نچلے رجے میں ہوں گے جنت میں جس طرح درجات اوپر کو بڑھیں گے اور اعلی مقامات کے حاملین اوپر کے درجات کو بلند کئے جائیں گے اس طرح دوزخ کی سزائیں اور عذاب نیچے کو بڑھیں گے اور نیچے کا ہر درجہ سخت سے سخت تر ہوتا چلاجائے گا۔ منافقین کی سزا یہ ہوگی کہ انہیں سب سے نچلے درجے میں یعنی کفار سے بھی سخت سزا دی جائے گی کہ وہ کھلے کافر تھے اور یہ چھپے ہوئے کافر اور کسی کو ان کی مدد کرنے کی جرات ہوگی نہ کوئی ان کا مددگار ہوگا۔ ہاں ! اور توبہ کھلا ہوا ہے اگر اتنے دور جانے کے باوجود توبہ کرلیں ، اور توبہ کیا ہے ؟ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ اپنی اصلاح کرلیں یعنی عقائد و اعمال میں آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی اختیار کرلیں اور اللہ سے تعلق جوڑ لیں جو امیدیں کفار سے تھیں یا اللہ کے سوا کسی سے بھی تھیں اب ساری اس ایک ذات سے جوڑ لیں اور اپنے کردار کو کھرا کرلیں خالص بغیر لگی لپٹی کے تو ہم آج بھی انہیں وہی انعامات عطا کردیں گے جو مومنین کو عطا کرتے ہیں انہیں ایمانداروں کے ساتھ اپنے بندوں کے ساتھ شامل کرلیں گے اور یہ تو ظاہ رہے کہ مومنین کو تو عنقریب انعامات سے نوازا جائے گا۔ نہ صرف ان کی کارکردگی پر بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق عطا فرمائیں گے اور بہت بڑا انعام عطا فرمائیں گے جو انہیں بھی مل سکتا ہے یہ بھی پا سکتے ہیں۔ اگر یہ آج بھی اپنی اصلاح کرکے خلوص کے ساتھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی کو اختیار کرلیں تو یہ سب ہوسکتا ہے بھلا سوچو تو سہی کہ اے انسانو ! اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا ؟ تمہاری حیثیت کیا ہے اس کے مقابلے میں ، تم اس کی ایک ادنی سی مخلوق ہی تو ہو تو اگر تم خود راستے سے نہ بھٹکو اور اپنے آپ کو تباہی کی طرف لے کر نہ جاؤ بلکہ سیدھے راستے پر چلو اللہ کا شکر ادا کرو اس پہ ایمان لاؤ۔ اس کی اطاعت کرو تو وہ بڑا قدر دان ہے کام سے بڑھ کر انعام دیتا ہے اور آدمی کی حیثیت سے بڑا مقام عطا کرنا اسی کا کام ہے۔ ہاں سب کچھ جانتا ہے وہاں دھوکہ نہیں چل سکتا۔ سیدھے سیدھے اطاعت سے کام ہوگا ورنہ نہیں۔ برائی کی تشہیر : کوئی بھی ناپسندیدہ بات لوگوں کے سامنے نہ کی اور کہی جائے کہ ناپسندیدہ بات کی تشہیر بھی اللہ کو پسند نہیں۔ ہاں اگر کسی پر ظلم و زیادتی کی گئی ہو تو وہ اس کی شکایت کرنے کا حق رکھتا ہے متعلقہ حکام کے روبرو کرے یا معاشرے میں اس کے مظالم بیان کرے کہ لوگ اس کی مدد کرسکیں یا کم از کم خود کو ظالم سے بچانے کی سبیل کریں اور اللہ تو سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی چونکہ بات انسانی معاشرے کے سدھار کی درستی کی ہو رہی قیام امن اور عدل و انصاف کی ہو رہی ہے حقوق و فرائض کی ہورہی ہے تو اس کی ساری ممکنہ صورتیں سامنے لائی جا رہی ہیں کہ قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ برائی کی تشہیر نہ کی جائے ورنہ لوگوں میں برائی کرنے کی جرات پیدا ہوگی ہاں بھلائی اور نیکی کی تشہیر کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے کہ دوسروں میں بھی نیک جذبات پیدا ہوں جیسے ہمارے ہاں رسالوں اور ماہناموں کو تو چھوڑئیے ان میں سے تو اکثر بکتے ہی فحش نگاری کے بل بوتے پر ہیں پھر اخبار بھی برائی چھاپتا ہے اور کوئی بڑے سے بڑی نیکی کبھی خبر نہیں بن سکتی۔ محض چند سکے کمانے کی خاطر فرمایا یہ معاشرے کی تباہی کا بنیادی سبب ہے اور اللہ کریم کو سخت ناپسند ہے ہاں جس کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ ضرور بدلہ لے سکتا ہے مگر صرف اس حد تک جتنی زیادتی اس کے ساتھ ہوئی ہے اگر اس سے بڑھے گا تو یہ ظالم شمار ہوگا۔ علاوہ ازیں عدالت کے فیصلے بدلہ تو دلوا دیں گے مگر دلوں میں دوری کا سبب بنتے ہیں کیا ہی اچھا اگر ایک فریق نے یا ایک شخص نے برائی کی ہے تو دوسرا نیکی کرے اسے معاف کردے تاکہ آئندہ کے لیے دلوں سے کدورت ہی مٹ جائے اگر نیکی تم کسی مجلس میں کرو سب کے سامنے کرو یا چھپ کر کرو بہرحال برائی پہ معافی دے دو تو ممکن ہے تمہارا حسن سلوک اس انسان کی سوچ بدل دے اس کی زندگی کی راہیں بدل کے دیکھو اللہ بھی کتنا معاف کرنے والا اور کس قدر درگذر سے کام لینے والا ہے۔ حالانکہ وہ جو چاہے اور جب چاہے کرسکتا ہے ممکن ہے تم نے کتنی خطائیں کی ہوں جو اللہ کے علم میں یقیناً ہوں گی۔ مگر باوجود طاقت کے عفو و درگذر سے کام لے رہا ہے تم بھی اگر اس کے ایک بندے کو معاف کرسکو تو اس کی طرف سے تمہارا یہ کام انعام سے خالی نہ جائے گا اور اگر بندہ ہی سنبھل گیا تو تم نے بہت ہی بڑا کارنامہ انجام دے لیا کہ انسانی معاشرہ سدھار لیا۔ بعض لوگ اللہ سے اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں ان کا انکار کرتے ہیں وہ اس طرح کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام میں تفریق کرتے ہیں جیسے یہودی کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہیں اللہ کو مانتے ہیں کتاب کو مانتے ہیں عیسائی کہ ہم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور انجیل کو مانتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ سب کافر ہیں جب تک تمام انبیاء کی نبوت کا اقرار نہ کریں اگر ایسا کریں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو ماننا پڑے گا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی مانیں گے تو پھر اتباع بھی آپ کا کرنا ہوگا کہ جس نبی کا زمانہ جس آدمی نے پایا وہ اسی کا اتباع کرنے اور اسی کی بات ماننے کا مکلف ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ساری انسانیت کے لیے ہے مگر پہلی کتابوں اور تمام پہلے انبیاء کی تصدیق بھی فرماتے ہیں وہ کتابیں حق تھیں جو ان انبیاء پہ نازل ہوئیں موجودہ صورت میں یہودیوں اور عیسائیوں نے ردوبدل کردیا ہے یہ علیحدہ بحث ہے مگر سب انبیاء کی نبوت کا اقرار کیا جان اضروری ہے ہاں حکم اس نبی کا مانا جائے گا جس کا دور اور عہد ہوگا جس کا زمانہ ہوگا یہاں یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ بعض لوگ جو شبہات پیدا کرتے ہیں عیسائی یا یہودی بھی اگر نیکی کرے تو نجات پا سکتا ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ ارشاد ہوتا ہے بعض انبیاء کی نبوت کا اقرار اور بعض کا انکار کرکے جو یہ درمیانی راستہ تلاش کرنے والے لوگ ہیں۔ یہی اصلی کافر ہیں اور سخت ترین کافر کہ کفر کو اسلام ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور کافروں کے لیے تو ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے یعنی انہیں صرف عذاب ہی نہیں ساتھ رسوائی کا بھی سامنا کرنا ہوگا اور ایسے کھرے لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اس کے رسولوں پر لاتے ہیں پھر ان میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مان لیں اور بعض کا انکار کردیں ایسے لوگ کامیابی پانے والے لوگ ہیں جنہیں عنقریب ان کے اجر سے نوازا جائے گا اور اگر ان سے کوئی کمی اعمال کے بارہ میں رہ بھی گئی بحیثیت انسان کبھی غلطی بھی سرزد ہوگئی تو اللہ بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔ یہاں ان لوگوں کے خیال کی تردید بھی ہوگئی۔ جو کہتے ہیں جی اصل بات یہ ہے کہ انسان اچھے کام کرے اور بس باقی باتیں مولویوں کے جھگڑے ہیں نماز روزہ ضروری نہیں اگر روزہ رکھے اور گناہ کرے تو کیا فائدہ تو نیکی اور بدی کی حد کون مقرر کرے گا ؟ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ کام نیکی ہے اس کے لیے ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ضروری ہے جہاں سے پتہ چلے کہ نیکی کیا ہے اور کیا نیکی نہیں ہے دوسرے اگر عبادت بھی کرتا ہے اور گناہ سرزد ہوتا ہے تو چھوڑ دینے کی چیز گناہ ہے نہ یہ کہ عبادت چھوڑ دے۔ اگر ممکن ہو تو گناہ کو چھوڑنے پہ اور عبادت کو قائم نہ رکھنے پہ اپنا زور صرف کرے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 142-143 لغات القرآن : خادع، دھوکہ دینے والا۔ کسالی، سستی، کاہلی۔ مذبذبین، درمیان میں لٹکے ہوئے، ادھر نہ ادھر۔ تشریح : منافقین دو طرفہ کھیل، کھیل کر سمجھ رہے ہیں کہ وہ بڑے ہوشیار ہیں۔ دونوں فریقوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر ان کی شاطرانہ چالیں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں مات کھا جائیں گے۔ یہ بات قرآن پاک میں بار بار کہی گئی ہے۔ سابق آیات میں ان کی ایک پہچان بتائی گئی تھی۔ یہاں دوسری پہچان بتائی گئی ہے کہ وہ جب نماز میں آتے ہیں تو بادل ناخواستہ۔ بہت کسمساتے ہوئے۔ اور پھر کم سے کم نماز پڑھ کر جلدی سے بھاگنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ منافق کی خاص پہچان ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر وہ شخص منافق ہے جو کسمساتا ہوا مسجد میں آتا ہے یا جلدی سے بھاگنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ کسمسانا عارضی ہوسکتا ہے، بیماری یا دوسری کچھ وجہ ہو سکتی ہے۔ شدید گرمی یا شدید سردی کے سبب بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح جلدی چلے جانے کی وجہ تجارت یا ملازمت ہو سکتی ہے یا دوسری مصروفیات یا تبلیغ و جہاد۔ لیکن وہ جو نماز ہی سے بھاگتا ہے یا نماز کو بھاری بوجھ سمجھتا ہے یا ریا کاری کے لئے پڑھتا ہے اس کے منافق ہونے کا قرینہ زیادہ ہے۔ منافق کی طرف مومنوں کی صف سے کھلم کھلا نکل جانا اس کے معاشرتی، معاشی اور تمدنی مفاد کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ ظاہر میں مسلمان بنا ہوا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایمان میں اس کا دل جم نہیں رہا ہے وہ اپنے آہ کو عقل مند سمجھتے سمجھتے پاگل ہوا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس کی تمام عقل مندی کود فریبی سے زیادہ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جس کسل کی یہاں مذمت ہے وہ اعتقادی کسل ہے اور جو باوجود اعتقاد صحیح کے کسل ہو وہ اس سے خارج ہے پھر اگر کسی عذر سے ہو جیسے مرض وتعب و غلبہ ونوم۔ تب تو قابل ملامت بھی نہیں اور اگر بلاعذر ہو تو قابل ملامت ہے۔ 5۔ یعنی محض صورت نماز کی بنالیتے ہیں جس سے نماز کا نام ہوجائے اور عجب نہیں کہ صرف اٹھنا بیٹھنا ہی ہوتاہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا کردار اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں۔ آدمی جب مسلسل دھوکہ اور فراڈ کرنے کا روّیہ اختیار کرلے اور اس پر اس کی گرفت نہ ہو تو شیطان اس کے دل میں یہ خیال اور دلیری پیدا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اس قدر ناپسند ہوتی تو مجھے ایسا کرنے کی اجازت اور طاقت نہ دیتا۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی مہلت دینے کے اصول کو بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھناؤنے کردار میں آگے ہی بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت اس کے لیے خود فریبی اور دھوکے کا باعث بنتی ہے اس مہلت کو وہ شخص اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف سمجھتا ہے حالانکہ مکڑی کے جالے کی طرح خود ہی اس میں پھنسا رہتا ہے۔ نماز میں سستی اور غفلت جسمانی کمزوری اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں جمائیاں لینے کو شیطانی عمل قرار دے کر اسے روکنے کا حکم دیا ہے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال التَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاۃِ مِنَ الشَّیْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَ بَ أَحَدُکُمْ فَلْیَکْظِمْ مَااسْتَطَاعَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی کراھیۃ التثاؤب في الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز میں جمائی شیطان کی طرف سے آتی ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ پوری کوشش سے اسے روکے۔ “ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سستی سے پناہ مانگنا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُوْ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماجاء فی جامع الدعوات ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، مسیح الدجال کے فتنے اور عذاب قبر سے پناہ چاہتا ہوں۔ “ فطری سستی اور غفلت منافقت کے زمرہ میں نہیں آتی۔ منافق تو جان بوجھ کر نماز میں لاپرواہی اور غفلت اختیار کرتا ہے کیونکہ اس کے دل میں اخلاص کے بجائے کھوٹ ہوتا ہے۔ اسی سبب وہ اپنے اعتقاد اور عمل کے حوالہ سے اسلام کے بارے میں متذبذب رہتا ہے۔ نہ مسلمانوں سے مخلص ہوتا ہے اور نہ پوری طرح کفار کے ساتھ ہوتا ہے۔ کافر اور گنہگار کے لیے توبہ کی چار شرطیں ہیں (١) آئندہ گناہ کرنے سے رکنے کا عہد (٢) سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنا (٣) گناہ پر شرمندگی اور ندامت (٤) اگر کسی کا حق ضبط کیا ہو تو ادا کرے۔ جبکہ منافق کی توبہ کے لیے مزید دو شرائط رکھی گئی ہیں کہ توبہ اور اصلاح کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایمان باللہ پر اخلاص کے ساتھ استقامت اور اپنے دین میں مخلص ہوجائے۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ شِبْلٍ الْأَنْصَارِيِّ (رض) أَنَّہٗ قَالَ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَھٰی فِي الصَّلٰوۃِ عَنْ ثَلَاثٍ نَقْرِ الْغُرَابِ وَافْتِرَاش السَّبُعِ وَأَنْ یُوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَقَامَ الْوَاحِدَ کَإِیْطَانِ الْبَعِیْرِ ) [ مسند احمد : کتاب مسند المکیین، باب زیادۃ فی حدیث عبدالرحمن بن شبل ] ” حضرت عبدالرحمن بن شبل انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں تین کاموں سے منع کیا۔ (١) کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا (٢) درندے کی طرح بازو بچھانا۔ (٣) اور اونٹ کی طرح ایک جگہ کو پکڑے رکھنا۔ “ مسائل ١۔ منافق دھوکہ باز اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر سے جی کترانے والا ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ ٣۔ منافق نماز میں جان بوجھ کر سستی کرتا ہے۔ ٤۔ منافق دکھلاوے کے لیے نیک عمل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافقین کی نماز : ١۔ نماز میں سستی۔ (الماعون : ٥) ٢۔ نماز میں ریا کاری۔ (الماعون : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقوں کی چالبازی اور امور دینیہ میں کسل مندی کا تذکرہ اور مسلمانوں کو حکم کہ کافروں کو دوست نہ بنائیں ان آیات میں منافقین کے کردار پر مزید روشنی ڈالی ہے اور ان کا طور طریق بتایا ہے۔ پھر ان کا وہ مقام بتایا ہے جہاں اس دزخ میں جانا ہے، پھر یہ بھی فرمایا کہ ان میں سے جو لوگ توبہ کرلیں اور اصلاح حال کرلیں اور اللہ پر پختہ بھروسہ کرلیں اور اللہ کے لیے اپنے دین کو خالص کرلیں تو یہ مومنین کے ساتھ ہوں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کی راہ ہر وقت کھلی ہوئی ہے۔ شروع میں ارشاد فرمایا کہ منافقین اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور سورة بقرہ کے دوسرے رکوع میں فرمایا (یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اَمَنُوْا) کہ وہ اللہ کو اور اہل ایمان کو دھوکہ دیتے ہیں۔ (مسلمانوں سے) جھوٹ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اندر سے مومن نہیں ہیں اور پھر انہیں نعمتوں اور برکتوں کے آرزو مند ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا۔ گویا ان کا عقیدہ اور ان کا ایمان سے منحرف ہونا اللہ کو معلوم ہی نہیں۔ پھر فرمایا (وَ ھُوَ خَادِعُھُمْ ) اللہ ان کے دھوکے کی ان کو سزا دینے والا ہے لفظ (وَ ھُوَ خَادِعُھُمْ ) علی سبیل المشاکلہ فرمایا ہے۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ بعض حضرات نے وھو خادعھم کو اس صورت حال پر محمول کیا ہے جو قیامت کے دن ان کے سامنے آئے گی اور وہ یہ کہ روشنی میں مسلمانوں کے ساتھ چلتے رہیں گے۔ پھر وہ روشنی سلب کرلی جائے گی اور منافقین کے اور اہل ایمان کے درمیان دیوار لگا دی جائے گی۔ جس کا ذکر سورة حدید میں ہے۔ (قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاءَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُوْرًا فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہٗ بَابٌ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُہٗ مِنْ قِبَلِہٖ الْعَذَابُ ) چونکہ منافقین کی حرکت بد کا و بال انہیں پر پڑنے والا ہے اس لیے سورة بقرہ (وَ مَایَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ ) وہ دھوکہ نہیں دیتے مگر اپنی ہی جانوں کو اور وہ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں) ۔ منافقین کو دھوکہ دہی کے تذکرہ کے بعد ان کی نماز کا حال بیان فرمایا۔ اور فرمایا (وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی) اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسل مندی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں) جس کی وجہ یہ ہے کہ دل میں ایمان نہیں ہے۔ پھر نماز کی کیا اہمیت ہوتی۔ لیکن چونکہ ظاہراً یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ظاہر داری کے طور پر نماز بھی پڑھ لیتے ہیں اور چونکہ نماز کی اہمیت اور ضرورت ان کے دلوں میں اتری ہوئی نہیں ہے اس لیے سستی کے ساتھ کسلاتے ہوئے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ مومن ہوتے تو اچھی نماز پڑھتے اور اللہ کو راضی کرنے کی فکر کرتے لیکن وہاں تو مسلمانوں کو دکھانا مقصود ہے کہ ہم تمہاری طرح سے نمازی ہیں تاکہ اسلام سے جو ظاہری دنیاوی منافع ہیں ان سے محروم نہ ہوں۔ اللہ سے ثواب لینا مقصود ہو تو اچھی نماز پڑھیں۔ دکھاوے کے لیے جو عمل کیا جائے وہ اور طرح کا ہوتا ہے اس میں خوبی اور عمدگی اختیار نہیں کی جاتی۔ ان کی اسی ریا کاری کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (یُرَآءُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا) (کہ وہ لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا سا) صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں یعنی محض صورت نماز کی بنا لیتے ہیں جس میں نماز کا نام ہوجائے اور عجب نہیں کہ اٹھنا بیٹھنا ہی ہوتا ہو۔ کیونکہ جہر کی ضرورت تو بعض نمازوں میں امام کو ہوتی ہے امامت تو ان کو کہاں نصیب ہوتی مقتدی ہونے کی حالت میں اگر کوئی بالکل نہ پڑھے فقط لب ہلاتا رہے تو کسی کو کیا خبر ہو تو ایسے بد اعتقادوں سے کیا بعید ہے کہ زبان بھی نہ ہلتی ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi