Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 143

سورة النساء

مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا ﴿۱۴۳﴾

Wavering between them, [belonging] neither to the believers nor to the disbelievers. And whoever Allah leaves astray - never will you find for him a way.

وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح طور پر اُن کی طرف اور جسے اللہ تعالٰی گمراہی میں ڈال دے تُو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لاَ إِلَى هَـوُلاء ... (They are) swaying between this and that, belonging neither to these, means that the hypocrites are swaying between faith and disbelief. So they are neither with believers inwardly or outwardly nor with disbelievers inwardly or outwardly. Rather, they are with the believers outwardly and with the disbelievers inwardly. Some of them would suffer fits of doubt, leaning towards these sometimes and towards those sometimes. كُلَّمَأ أَضَأءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ Whenever it flashes for them, they walk therein, and when darkness covers them, they stand still. (2:20) Mujahid said; مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لاَ إِلَى هَـوُلاء ((They are) swaying between this and that, belonging neither to these), "The Companions of Muhammad, ... وَلاَ إِلَى هَـوُلاء ... nor to those: the Jews." Ibn Jarir recorded that Ibn Umar said that the Prophet said, مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ الْعَايِرَةِ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ تَعِيرُ إِلى هَذِهِ مَرَّةً وَإِلَى هَذِهِ مَرَّةً وَلاَ تَدْرِي أَيَّتَهُمَا تَتْبَع The example of the hypocrite is the example of the sheep wandering between two herds, sometimes she goes to one of them, and sometimes the other, confused over whom she should follow. Muslim also recorded it. This is why Allah said afterwards, ... وَمَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلً and he whom Allah sends astray, you will not find for him a way. meaning, whomever He leads astray from the guidance, فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا (For him you will find no Wali (guiding friend) to lead him (to the right path)) (18:17) because, مَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلَ هَادِيَ لَهُ (Whomsoever Allah sends astray, none can guide him). (7:186) So the hypocrites whom Allah has led astray from the paths of safety will never find a guide to direct them, nor someone to save them. There is none who can resist Allah's decision, and He is not asked about what He does, while they all will be asked.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

143۔ 1 کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہر اور باطن وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ کافروں کے ساتھ اور بعض منافق تو کفر و ایمان کے درمیان متحیر اور تذبذب کا ہی شکار رہتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے ' ' منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو جفتی کے لئے دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩١] آپ نے فرمایا && تم قیامت کے دن اللہ کے ہاں بدتر اس شخص کو دیکھو گے جو دو رخا ہو۔ ان کے پاس آئے تو ان کی سی کہے اور ان کے پاس جائے تو ان کی سی کہے۔ && (بخاری، کتاب الادب، باب ماقیل فی ذی الوجھین۔۔ مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب ذم ذی الوجہین و تحریم فعلہ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ ڰ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” منافق کی مثال اس بکری کی سی ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہے، کبھی اس ریوڑ کی طرف اور کبھی اس ریوڑ کی طرف اور نہیں جانتی کہ ان دونوں میں سے کس کے پیچھے لگے۔ “ [ مسلم، صفات المنافقین، باب صفات المنافقین : ٢٧٨٤ ] 2 یعنی جو شخص سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود خود گمراہی میں پڑا ہو اور باطل پرستی کی طرف راغب ہو تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے کوئی انسانی نصیحت اور کوشش کارگر نہیں ہوسکتی، بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی سزا کے طور پر گمراہی اور باطل پرستی میں پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ۝ ٠ۤۖ لَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ۝ ٠ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِيْلًا۝ ١٤٣ ذب الذباب يقع علی المعروف من الحشرات الطائرة، وعلی النّحل، والزنابیر ونحوهما . قال الشاعر : فهذا أوان العرض حيّا ذبابه ... زنابیره والأزرق المتلمّس وقوله تعالی: وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبابُ شَيْئاً [ الحج/ 73] ، فهو المعروف، وذباب العین :إنسانها، سمّي به لتصوّره بهيئته، أو لطیران شعاعه طيران الذّباب . وذباب السّيف تشبيها به في إيذائه، وفلان ذباب : إذا کثر التأذّي به . وذبّبت عن فلان : طردت عنه الذّباب، والمِذَبّة : ما يطرد به، ثمّ استعیر الذّبّ لمجرّد الدّفع، فقیل : ذببت عن فلان، وذُبَّ البعیرُ : إذا دخل ذباب في أنفه . وجعل بناؤه بناء الأدواء نحو : زكم . وبعیر مذبوب، وذَبَّ جِسْمُهُ : هزل فصار کذباب، أو کذباب السّيف، والذَّبْذَبَةُ : حكاية صوت الحرکة للشیء المعلّق، ثم استعیر لكلّ اضطراب وحرکة، قال تعالی: مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء/ 143] ، أي : مضطربین مائلين تارة إلى المؤمنین، وتارة إلى الکافرین، قال الشاعر : تری كلّ ملک دونها يتذبذب وذَبَّبْنَا إِبِلَنَا : سقناها سوقا شدیدا بتذبذب، قال الشاعر : 168- يذبّب ورد علی إثره ( ذ ب ب ) الذباب ۔ کے معنی مکھی کے ہیں اور یہ لفظ شہد کی مکھی اور بھڑ وغیرہ پر بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے یہ وادی کے پر رونق ہونے کا موسم ہے اس کے زنا بیر اور سبز مکھیاں خوب بھن بھنا رہی ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبابُ شَيْئاً [ الحج/ 73] اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے جائے ۔ میں ذباب کے معنی مکھی کے ہیں ۔ ذباب العین ۔ آنکھ کی پتلی اسے ذباب یا تو ہیئت میں تشبیہ کے لحاظ سے کہا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ آنکھ کی پتلی سے بھی مکھی کی طرح شعاعیں نکلتی ہیں اور ایذا رسانی میں مکھی کے ساتھ تشبیہ دے کر تلوار کی دھار کو ذباب السیف کہا جاتا ہے اسی طرح موذی شخص کو بھی ذباب کہہ دیا جاتا ہے ۔ ذنب عن فلان کسی سے مکھی کو دور ہٹانا ۔ المذبۃ ۔ موچھل ۔ مکھیاں اڑانے کا آلہ ۔ استعارہ کے طور پر ذب کا لفظ ہر چیز کے دفع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ مثلا کہا جاتا ہے : ۔ ذبیت عن فلان ۔ میں نے فلاں سے دور ہٹایا ذب البعیر ۔ اونٹ کی ناک میں مکھی داخل ہوگئی ۔ یہ بھی بیماری کے دوسرے صیغوں کی طرح ( جیسے زکم وغیرہ ) فعل مجہول استعارہ ہوتا ہے ۔ اونٹ وبلا ہوکر مکھی یا تلوار کی دھار کی طرح ہوگیا ۔ الذبۃ اصل میں معلق چیز کے ہلنے کی آواز کو کہتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر قسم کی حرکت اور اضطراب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قران میں ہے : ۔ مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء/ 143] بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں ۔ یعنی وہ ہمیشہ مضطرب سے رہتے ہیں بھی مسلمانوں کی طرف جھک جاتے ہیں اور کبھی کفار کی طرف شاعر نے کہا ہے ( طویل ) کہ اس کی سلطنت گے درے ہر ایک سلطنت مضطرب نظر آتی ہے ۔ ہم نے اونٹوں کو سخت ہنکایا ۔ شاعر نے کہا ہے ( متقارب کہ در و اس کے پیچھے سخت دوڑ رہا تھا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ها هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٣ (مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ ق) ۔ کفر اور ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں ‘ کسی طرف بھی یکسو نہیں ہو رہے۔ اسی لیے قرآن میں حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے تذکرے کے ساتھ حَنِیف کا لفظ بار بار آتا ہے۔ دین کے بارے میں اللہ کی طرف سے ترغیب یہی ہے کہ یکسو ہوجاؤ۔ دنیا میں اگر انسان کفر پر بھی یکسو ہوگا تو کم از کم اس کی دنیا تو بن جائے گی ‘ لیکن اگر دنیا اور آخرت دونوں بنانے ہیں تو پھر ایمان کے ساتھ یکسو ہونا ضروری ہے۔ لیکن جو لوگ بیچ میں رہیں گے ‘ ادھر کے نہ ادھر کے ‘ ان کے لیے تو (خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ) کے مصداق دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا اور نقصان ہوگا۔ (لَآ اِلٰی ہٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ہٰٓؤُلَآءِ ط) ۔ نہ اہل ایمان کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ اہل کفر کے ساتھ۔ نہ ان کے ساتھ یکسو ہیں اور نہ ان کے ساتھ۔ (وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً ) ۔ یعنی جس کی گمراہی پر اللہ کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہوچکی ہو ‘ اس کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

173. Here an important fact has been stated about the person who remained unguided to the Truth despite his acquaintance with the Book of God and with the life of His Prophet (peace be on him). He was a person who was so disinclined to the Truth and so infatuated with error that even God let him go forth along the same erroneous direction that he had chosen for himself, a person on whom the door of true guidance had been shut and the way towards error had been made smooth by God. It is virtually beyond the power of human-beings to direct such a person to the Truth. We may be able to grasp this if we consider the case of man's livelihood. God controls all the sources of man's livelihood. Thus, anyone who receives any portion of livelihood receives it from God alone. At the same time, God grants every man livelihood through the means he has himself sought. If a man seeks his livelihood through lawful means and strives accordingly, God opens the door to honest living to him and closes the avenues of dishonest earnings in proportion to his earnestness. On the other hand, there is the person who is bent upon fattening himself on dishonest earnings and strives accordingly. God permits such a person to continue making an unlawful living, and no one has the power to help him secure an honest means of living. The same applies to man's belief and conduct in this life. In this respect too, the ultimate control rests with God. No human being can proceed along any path, whether it be good or evil, unless God lets him proceed along it, and bestows upon him the means to do so. However, it is up to man himself to choose his own path, and after he has made the choice, God will let him proceed along it, and will even pave the way for him. If a person really cares about God, genuinely seeks the truth and earnestly tries to pursue the path charted by God, God permits him to follow his choice, and even provides the means necessary to proceed along his chosen path. On the other hand, God shuts the door of true guidance on the person who chooses error and strives to proceed only along wrong paths, and further enables him to follow the path of his choice. It is beyond the power of any human being to prevent such a person from thinking wrongly, acting wrongly and using up his energies in wrong directions. If a man loses the road to his success and is subsequently deprived of true guidance by God, in whose power does it lie, then, to restore to him his lost treasure?

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :173 یعنی جس نے خدا کے کلام اور اس کے رسول کی سیرت سے ہدایت نہ پائی ہو ، جس کو سچائی سے منحرف اور باطل پرستی کی طرف راغب دیکھ کر خدا نے بھی اسی طرف پھیر دیا ہو جس طرف وہ خود پھرنا چاہتا تھا ، اور جس کی ضلالت طلبی کی وجہ سے خدا نے اس پر ہدایت کے دروازے بند اور صرف ضلالت ہی کے راستے کھول دیے ہوں ، ایسے شخص کو راہ راست دکھانا درحقیقت کسی انسان کے بس کا کام نہیں ہے ۔ اس معاملہ کو رزق کی مثال سے سمجھیے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رزق کے تمام خزانے اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ جس انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملتاہے ۔ مگر اللہ ہر شخص کو رزق اس راستہ سے دیتا ہے جس راستے سے وہ خود مانگتا ہو ۔ اگر کوئی شخص اپنا رزق حلال راستہ سے طلب کرے اور اسی کے لیے کوشش بھی کرے تو اللہ اس کے لیے حلال راستوں کو کھول دیتا ہے اور جتنی اس کی نیت صادق ہوتی ہے اسی نسبت سے حرام کے راستے اس کے لیے بند کر دیتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو شخص حرام خوری پر تلا ہوا ہوتا ہے اور اسی کے لیے سعی کرتا ہے اس کو خدا کے اذن سے حرام ہی کی روٹی ملتی ہے اور پھر یہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ اس کے نصیب میں رزق حلال لکھ دے ۔ بالکل اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں فکر و عمل کی تمام راہیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں ۔ کوئی شخص کسی راہ پر بھی اللہ کے اذن اور اس کی توفیق کے بغیر نہیں چل سکتا ۔ رہی یہ بات کہ کس انسان کو کس راہ پر چلنے کا اذن ملتا ہے اور کس راہ کی رہروی کے اسباب اس کے لیے ہموار کیے جاتے ہیں ، تو اس کا انحصار سراسر آدمی کی اپنی طلب اور سعی پر ہے ۔ اگر وہ خدا سے لگاؤ رکھتا ہے ، سچائی کا طالب ہے ، اور خالص نیت سے خدا کے راستے پر چلنے کی سعی کرتا ہے ، تو اللہ اسی کا اذن اسی کی توفیق اسے عطا فرماتا ہے اور اسی راہ پر چلنے کے اسباب اس کے لیے موافق کر دیتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو شخص خود گمراہی کو پسند کرتا ہے اور غلط راستوں ہی پر چلنے کی سعی کرتا ہے ، اللہ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور وہی راہیں اس کے لیے کھول دی جاتی ہیں جن کو اس نے آپ اپنے لیے منتخب کیا ہے ۔ ایسے شخص کو غلط سوچنے ، غلط کام کرنے اور غلط راہوں میں اپنی قوتیں صرف کرنے سے بچا لینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔ اپنے نصیب کی راہ راست جس نے خود کھودی اور جس سے اللہ نے اس کو محروم کر دیا ، اس کے لیے یہ گم شدہ نعمت کسی کے ڈھونڈے نہیں مل سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:143) مدبدبین۔ الذبذبۃ۔ اصل میں معلق چیز کی ہلنے کی آواز کو کہتے ہیں پھر بطور استفادہ ہر قسم کی حرکت اور اضطراب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مذبذبین بین ذلک۔ یعنی ہمیشہ مضطرب رہتے ہیں ۔ کبھی مسلمانوں کی طرف اور کبھی کفار کی طرف۔ ذبذب فلان تردد بین امرین ولا تثبت صحبتہ لواحد منھما دو امور یا دو آدمیوں کے درمیان حالت تردد میں ہونا اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ثابت قدم نہ ہونا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی جو شخص سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود خود گمراہی میں پڑا ہوا ہوا اور باطل پرستی کی طرف راغب ہو تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے کوئی انسانی نصیحت اور کوشش کار گر نہیں ہوسکتی بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی سزا کے طور پر گمراہی ارباطل پرستی میں پختہ ترہو تا چلا جائے گا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ظاہر میں مومن تو کفار سے الگ اور باطن میں کافر تو مومنین سے الگ۔ 7۔ مطلب یہ کہ ان منافقین کے راہ پر آنے کی امید مت رکھو اس میں منافقین کی تشنیع ہے اور مومنین کی تسلی کہ ان کی شرارتوں سے رنج نہ کریں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقوں کی دوسری حالت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ ) کہ وہ اس کے درمیان ادھر میں لٹکے ہوئے ہیں۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ ذلک مجموعہ ایمان و کفر کی طرح اشارہ مانا جائے تو یہ بھی صحیح ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ عالم حیرانی میں تردد میں پڑے ہوئے ہیں شیطان نے ان کو حیرت میں ڈال دیا ہے پھر امام راغب سے التذبذب کا معنی نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں صوت الحرکۃ للشیء المعلق ثم استعیر لکل اضطراب و حرکۃ اور تردد بین الشیئین یعنی ذبذبہ اس آواز کو کہا جاتا ہے جو کسی لٹکی ہوئی چیز سے نکل رہی ہو۔ پھر بطور استعارہ ہر اضطراب اور ہر حرکت کے لیے یا دو چیزوں کے درمیان متردد ہونے کے لیے استعمال کرلیا گیا۔ منافقین کفر و ایمان کے درمیان اپنی حالت ظاہری کے اعتبار سے متردد ہیں ورنہ حقیقت میں تو کافر ہی ہیں۔ مزید فرمایا (لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ) یعنی منافقین بظاہر دونوں طرف ہیں مسلمانوں سے بھی ملتے ہیں اور کافروں سے بھی اور ہر ایک کے ساتھ اپنی محبت اور دوستی ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں نہ ان کی طرف ہیں نہ ان کی طرف۔ جو لوگ منافق ہوتے ہیں اپنے خیال میں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے چالاک ہیں دیکھو دونوں جماعتوں کو اپنا بنا رکھا ہے۔ حالانکہ ایسے لوگوں کو کوئی جماعت بھی اپنا نہیں سمجھتی۔ منافق کا کردار خواہ وہ کتنی ہی قسمیں کھائے کسی فریق کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ مثل المنافق کا لشاۃ العائرۃ بین الغنمین تعیر الی ھذہ مرۃ والی ھذہ مرۃ (رواہ مسلم عن ابن عمر (رض) یعنی منافق کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی بکری دور یوڑوں کے درمیان ہو کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے اور کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے۔ شراح حدیث نے لکھا ہے کہ اس سے وہ بکری مراد ہے جو گابھن ہونے کے لیے کبھی اس ریوڑ میں اپنے لیے نر تلاش کرتی ہے اور کبھی دوسرے ریوڑ میں۔ (ذکرہ القاری فی المرقاۃ) فائدہ : معلوم ہوا کہ نماز میں سستی کرنا کسلاتے ہوئے نماز کے لیے اٹھنا بد دلی سے نماز کے افعال ادا کرنا منافقوں کا طریقہ ہے۔ ایل ایمان کو چاہیے کہ خوب خوشی اور بشاشت اور نشاط کے ساتھ نماز پڑھیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب اس میں زردی آجاتی ہے اور شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہوتا ہے تو کھڑے ہو کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے۔ ان میں اللہ کو نہیں یاد کرتا مگر تھوڑا سا۔ (رواہ مسلم) چار ٹھونگیں مارنے کا مطلب یہ ہے کہ لپ جھپ سجدہ کرتا ہے، سر رکھا بھی نہیں کہ اٹھا لیا جیسا کہ مرغا جلدی جلدی ٹھونگیں مار کر دانہ اٹھاتا ہے۔ اور شیطان ایسی جگہ کھڑا ہوجاتا ہے جو سورج کے اور اس کے دیکھنے والوں کے درمیان ہو وہاں کھڑا ہو کر سر ہلاتا ہے جس سے دیکھنے والوں کو سورج کی شعاعوں کی جگمگاہٹ معلوم ہوتی ہے وہ یہ حرکت اس لیے کرتا ہے کہ سورج کی پرستش کرنے والے اس وقت اس کی عبادت کریں۔ چونکہ منافقین مسلمانوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے تھے نماز کی فرضیت اور فضیلت اور اس کے اجر وثواب کا یقین نہیں تھا اس لیے برے دل سے نمازوں میں حاضر ہوجاتے تھے۔ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر فرمایا کیا فلاں حاضر ہے ؟ حاضرین نے عرض کیا نہیں، پھر فرمایا کہ فلاں حاضر ہے ؟ عرض کیا گیا کہ نہیں، آپ نے فرمایا بلاشبہ یہ دو نمازیں (عشاء اور فجر) منافقین پر سب نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں اور اگر تم کو معلوم ہوجائے کہ ان میں کیا اجر وثواب ہے تو ان نمازوں میں حاضر ہوتے اگرچہ گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑتا۔ (رواہ ابو داؤد و النسائی کما فی المشکوٰۃ صفحہ ٩٦) اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر ان میں سے (یعنی جماعت میں غیر حاضر ہونے والوں میں سے) کسی کو پتہ چل جائے کہ اسے ایک چکٹی ہڈی مل جائے گی یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز کے لیے حاضر ہوجائے (رواہ البخاری صفحۃ ٨٩: ج ١) طالب دنیا کو ذرا سی دنیا بھی مل جائے تو تکلیف اٹھانے اور نیند قربان کرنے کو حاضر ہوجاتا ہے اور جسے اعمال صالحہ پر اجر وثواب ملنے کا یقین نہیں وہ اپنے نفس کو اجر والے عمل کے لیے آمادہ نہیں کرسکتا اس بات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بکری کے کھر کی مثال دے کر واضح فرمایا۔ فائدہ : معلوم ہوا کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں نماز اور جماعت کا اس قدر اہتمام تھا کہ منافقوں کو بھی اس ماحول میں رہنے کی وجہ سے نماز پڑھنی پڑتی تھی جب دینی فضا بن جاتی ہے تو جو اپنے دل سے دین دار نہ ہو اسے بھی مجبوراً دینداروں کے ساتھ گھسٹنا پڑتا ہے۔ اور یہی حال بد عملی اور بےدینی کا ہے جب بد عملی اور بےدینی کی فضا ہوتی ہے تو اچھے جذبات والا بھی بےعملوں اور بےدینوں کے طور طریق اختیار کرلیتا ہے۔ آج بےدینی اور بےعملی کی فضا ہے۔ بےنمازی بغیر کسی شرم و حیا کے دینداروں میں گھل مل کر رہتے ہیں اور اپنا کوئی قصور محسوس نہیں کرتے، انہیں ایک نماز چھوٹنے کا ذرا بھی ملال نہیں ہوتا۔ اگر دوبارہ دینی فضا بن جائے تو پھر وہی عمل کی فضا لوٹ آئے جو زمانہ نبوت میں تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 بلاشبہ یہ منافق اپنے خیال فاسد اور زغم باطل میں اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے اس مکر و فریب کی ان کو سزا دینے والا ہے اور منافق جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو محض لوگوں کے دکھانے کے لئے بڑی سستی اور الکساہٹ سے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی نہیں کرتے مگر یوں ہی مختصر سا ان کی حالت یہ ہے کہ کفر و ایمان کے مابین تردد و تذبذب میں مبتلا ہیں اور ادھر میں لٹکے ہوئے ہیں نہ پوری طرح مسلمانوں کی طرف اور نہ پوری طرح کافروں کی طرف اور بات یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہی گمراہی میں مبتلا رکھے تو اے مخاطب تو اس کے لئے ایمان لانے اور مومن ہونے کی کوئی راہ نہ پائے گا۔ (تیسیر) خدع مخادعت وغیرہ کی تفسیر گزر چکی ہے خدع کے معنی دھوکہ مکر فریب ، دغا، کسالی کسلان کی جمع ہے کسل کا لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ایک کام کے کرنے کو جی نہ چاہے اور کسی وجہ سے کرنا پڑے تو بولا کرتے ہیں فلاں شخص بارے جی سے کام کر رہا ہے جس کا م نشاط اور انبساط نہ ہو چونکہ نماز پر اعتقاد نہیں اس لئے مارے باندھے کی نماز ہے اسی حالت کا بیان ہے۔ یرائون محض دکھاوے کے لئے اٹھتے بیٹھے ہیں اسی بنا پر نماز میں کچھ پڑھتے بھی نہیں کسی وقت خالی زبان ہلا دی یا ایک آدھ کلمہ کہہ دیا کہ برابر والا سمجھے کہ کچھ پڑھ رہے ہیں یا جہری نماز میں لوگوں کے سنانے کو کچھ پڑھ دیا یا سری میں چپکے کھڑے رہے تذبذب کے معنی ہیں دو باتوں کے درمیان تردد اور یہ لفظ بھی عام طور پر اردو میں بولا جاتا ہے جب دو کاموں میں سے کسی ایک جانب پختہ رائے قائم نہ ہو تو کہتے ہیں مجھے تردد ہے یا میں اس معاملہ میں تذبذب ہوں اور اصل میں تذبذب جیسا کہ صاحب کشاف نے کہا ہے اس کو کہتے ہیں جو دونوں جانب دفع کیا جائے گا بازی کے کھیل کی طرح جس طرف جائے وہی پھینکے اور اپنی طرف سے دوسری طرف دفع کرے چونکہ دل سے کافر ہیں اس لئے مسلمانوں میں مشتبہ اور نا مقبول اور چونکہ ظاہر میں مسلمان ہیں اس لئے کافروں میں مشتبہ اور نا مقبول خلاصہ یہ ہے کہ مناف کفر کو چھپا کر اور اسلام کو ظاہر کر ک اپنے خیال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ چال چل رہے ہیں حالانکہ اس کی ڈھل سے یہ خود ہی دھوکہ کھا رہے ہیں اور وہ ان کو اس چال کا بدلہ دینے والا ہے۔ ان منافقوں کی حالت یہ ہے کہ نماز پڑھنے کو اٹھتے ہیں تو بڑے کسل کیساتھ مارے باندھے کو اٹھتے ہیں محض مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ دیکھ لیں ہم نمازی ہیں چونکہ نماز کو نہ فرض سمجھتے ہیں نہ بدبختوں کو ثواب کی امید ہے اس لئے نماز میں تسبیح اور تشہد وغیرہ بھی نہیں پڑھتے یوں ہی کچھ تھوڑا سا پڑھ لیا تو پڑھ لیا کفرو ایمان کے درمیان ادھر لٹکے ہوئے ہیں نہ پورے ادھر، نہ پورے ادھر حضرت حق کا گمراہ کرنا وہی ہے جس کو ہم بتا چکے ہیں کہ عزم فعل کے وقت اللہ تعالیٰ فعل کو پیدا کردیتا ہے اسی لئے با اعتبار خلق اس کی طرف اور با اعتبار کسب بند ہے کی طرف فعل کو منسوب کیا جاتا ہے۔ ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں اس قسم کی تفصیل سے بچنے کے لئے مبتلا رکھے ترجمہ کیا ہے۔ ہمارا مطلب وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ عرضکر چکے ہیں کہ جب کوئی بندہ اپنی شرارت اور طغیان میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو حضرت حق تعالیٰ اس کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور اس سے نیک توفیق کو سلب کرلیتے ہیں یا یوں سمجھ کہ جب کوئی مریض بد پرہیزی کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے تو طبیب اس کی اصلاح سے دست کش ہوجاتا ہے بس اسی حالت کو قرآن اضلال سے تعبیر کرتا ہے اب چاہے جس طرح ترجمہ کرلو۔ اس آیت میں ان کے ایمان ک طرف سے نا امیدی کا اظہار کیا گیا ہے ۔ کیونکہ جس نالائق مریض سے طبیب دست کش ہوجائے اس کے لئے شفا کی امید ہوسکتی ہے۔ صحاح میں حضرت ابن عمر سے مرفوعاً روایت ہے کہ منافق کی مثال اس بکری کی سی ہے جو بکریوں کے دو گلوں کے درمیان حیران و پریشان پھرتی ہو کبھی اس گلہ میں دوڑتی ہو کبھی دوسرے گلہ کی طرف لپکتی ہو اور وہ یہ نہ سمجھتی ہو کہ اس کو کس گلہ میں شریک ہو کر اس کے ہمراہ چلنا چاہئے۔ اب آگے ایسے کافروں کی دوستی اور رفاقت سے ممانعت کی جاتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)