Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 145

سورة النساء

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا ﴿۱۴۵﴾ۙ

Indeed, the hypocrites will be in the lowest depths of the Fire - and never will you find for them a helper -

منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے ، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ... Verily, the hypocrites will be in the lowest depths of the Fire; on the Day of Resurrection due to their tremendous Kufr. Al-Walibi (Ali bin Abi Talhah) said that Ibn Abbas said, فِي الدَّرْكِ الاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (in the lowest depths (grade) of the Fire), means, in the bottom of the Fire. Other scholar... s said that; the Fire has ever lower depths just as Paradise had ever higher grades. Ibn Jarir recorded that Abdullah bin Mas`ud said that, إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (Verily, the hypocrites will be in the lowest depths (grade) of the Fire), "Inside coffins of Fire that surround them, for they are closed and sealed in them." Ibn Abi Hatim recorded that when Ibn Mas`ud was asked about the hypocrites, he said, "They will be placed in coffins made of fire and they will be closed in them in the lowest depth of the Fire." ... وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا no helper will you find for them. to save them from their misery and painful torment. Allah then states that whoever among the hypocrites repents in this life, Allah will accept his repentance and sorrow, if his repentance were sincere and he then follows it by performing righteous deeds, all the while depending on his Lord. Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

145۔ 1 جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ھاوِیْۃَ کہلاتا ہے۔ اَ عَاذَنَا اللّٰہ مِنْھَا۔ منافقین کی مزکورہ عادات وصفات سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ بچائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٣] منافقوں کی علامات :۔ جس طرح جنت کے بہت سے درجات ہیں اسی طرح جہنم کے بھی بہت سے درجات ہیں۔ اور منافقین یا ان سے دوستی رکھنے والوں کا ٹھکانہ جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہوگا۔ جہاں سب سے زیادہ عذاب ہوگا اور یہ کافروں کے عذاب سے بھی سخت ہوگا کیونکہ کافر اپنے دین و ایمان کے معاملہ میں کسی کو دھوکا نہی... ں دیتا۔ جبکہ منافق، کافروں اور مسلمانوں دونوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان دونوں سے مفادات حاصل کرتا یا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ منافقوں کی چند ظاہری علامات احادیث میں مذکور ہوئی ہیں۔ جو یہ ہیں : ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے۔ && ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && جس میں چار باتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک ہوگی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی تاآنکہ اسے چھوڑ نہ دے۔ (اور وہ یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے، کوئی عہد کرے تو بےوفائی کرے اور جب جھگڑا کرے تو بکواس بکے۔ && (بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ جس طرح جنت کے درجات ہیں، سب سے اونچا درجہ فردوس سب سے افضل ہے، اسی طرح جہنم کے بھی درکات ہیں، جو جتنا نیچا ہے اتنا ہی سخت ہے۔ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، کیونکہ نفاق صریح کفر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The purpose in previous verses was to point out to some ugly traits of the hypocrites, though their punishment of being in Hell with disbe¬lievers was also mentioned as a corollary to another subject. From this stage onwards, the purpose is to state their punishment clearly. Since the inherent effect of such impending punishment gener¬ates a sense of fear in a good-natured person which usually be... comes the reason for early repentance, therefore, exemption from punish¬ment has been promised to those who repent alongwith the incentive of good reward for them. The Meaning of sincerity The statement: وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ (Make their Faith pure for Allah) in verse 146 shows that a deed in order to be acceptable with Allah has to be free of hypocrisy and exclusively for His sake and pleasure, for Muslim jurists have enunciated the meaning of Mukhlis (translated with the weaker equivalent &sincere& ) as follows: اَلَّذِی یَعمَلُ للہ لَا یُحِبُّ اَن یُّحمَدَہُ النَّاسُ عَلَیہِ A sincere person is one who acts for Allah alone and does not like that people praise him for it. (Mazhari)   Show more

خلاصہ تفسیر بلاشبہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے اور (اے مخاطب) تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا (جو ان کو اس سزا سے بچا سکے) لیکن (ان میں سے) جو لوگ (نفاق سے) توبہ کرلیں اور (مسلمانوں کے ساتھ جو ان کے ایذا رساں معاملات تھے ان کی اصلاح کرلیں (یعنی پھر ایسی باتیں نہ کریں) اور ... (کفار سے جو بغرض ان کی پناہ میں رہنے کے دوستی کرتے ہیں اس کو چھوڑ کر) اللہ تعالیٰ پر وثوق (اور توکل) رکھیں اور (ریاء کو چھوڑ کر) اپنے دین (یعنی اعمال) کو خالص اللہ ہی (کی رضا) کے لئے کیا کریں (غرض اپنے عقائد کی، عاملات کی اخلاق باطنی کی، اعمال کی، سب کی درستگی کرلیں) تو یہ (تائب) لوگ (ان مؤ منین) کے ساتھ (درجات جنت میں) ہوں گے، (جو کہ پہلے سے کامل ایمان رکھتے ہیں) اور (ان) مؤمنین کو اللہ تعالیٰ (آخرت میں) اجر عظیم عطا فرمائیں گے (پس جب یہ مومنین کے ساتھ ہوں گے تو ان کو بھی اجر عظیم ملے گا اور اے منافقو) اللہ تعالیٰ تم کو سزا دے کر کیا کریں گے اگر تم (ان کی نعمتوں کی جو تم پر ہیں) سپاس گذاری کرو اور (اس سپاس گزاری کا طریقہ ہمارا پسندیدہ یہ ہے کہ تم) ایمان لے آؤ (یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی کام اٹکا نہیں پڑا جو تم کو سزا دینے سے چل جاوے صرف تمہارا کفر جو اشد درجہ کا کفران نعمت ہے سبب ہے تمہاری سزا کا اگر اس کو چھوڑ دو تو پھر رحمت ہی رحمت ہے) اور اللہ تعالیٰ (تو خدمت کی) بڑی قدر کرنے والے (اور خدمت گزاری کے خلوص وغیرہ کو) خوب جاننے والے ہیں (پس جو شخص اطاعت و اخلاص سے رہے اس کو بہت کچھ دیتے ہیں) معارف و مسائل (قولہ تعالی) اخلصوا دینھم اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل مقبول ہے جو ریاء سے پاک ہو، اور محض اسی کی ذات کے لئے ہو، کیونکہ مخلص کے معنی فقہاء نے یہ بیان کئے ہیں : ” یعنی مخلص وہ آدمی ہے جو عمل محض اللہ کے لئے کرے اور اس بات کو وہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کے عمل کی تعریف کریں۔ “  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۝ ٠ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا۝ ١٤٥ۙ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین ش... رّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔ سفل السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی، ( س ف ل ) السفل یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٥) عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اپنی برائیوں اور مکروفریب اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے ساتھ خیانت کرنے کی وجہ سے جہنم میں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٥ (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِج وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا ۔ ) اگلی آیت میں ان لوگوں کے لیے ایک رعایت کا اعلان ہے۔ منافقت کا پردہ کلی طور پر تو سورة التوبہ میں چاک ہوگا۔ یعنی ان کے لیے آخری احکام سن ٩ ہجری میں آئے تھے ‘ جبکہ ابھی سن ٤ ہجری کے دور کی باتی... ں ہو رہی ہیں۔ تو ابھی ان کے لیے رعایت رکھی گئی ہے کہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:145) الدرک۔ طبقہ۔ درجہ ۔ الدرک اور الدرک دونوں لغتیں ہیں۔ بلندی کی طرف جو یکے بعد دیگرے درجے ہوتے ہیں ان کو اہل عرب درجات جہتے ہیں اور پستی کی طرف یکے بعد دیگرے درجے ہیں ان کو درکات کہتے ہیں۔ جہنم کے مختلف طبقات (درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحی... م (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 آخرت میں دارالعذب کے کئی درجے ہیں جن کا قرآن کی مختلف آیات میں ذکر ہوا ہے پہا درجہ جہنم دوسرا الظیٰ ہاد یہ ہے یہی ہاو یہ جو سب سے نچلا درجہ ہے منافقین کا ٹھکانہ ہوگا۔ کھلے کافروں کو اور مشرکوں اس سے اوپر کے درجوں میں رکھا جائے گا حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں تین گرہوں کی قیامت کے دن سب س... ے سخت عذاب ہوگا۔ منافقین اصحاب مائذہ میں سے جنہوں نے کفر کیا اور آل فرعون منافقین کے متعلق تو یہی آیات ہے اور آل فرعون کے متعلق فرمایا ادخلو ال فرعون اشد العذاب اور اصحاب مائدہ کے متعلق فرمایا فانی عذبہ عذابا لا اعذ بہ احد امن العالمین (قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر منافقین کے قبائح وشنائع کا بیان مقصود تھا گو ایک مضمون کے ضمن میں ان کی سزائے جہنمیت کا بھی ذکر آگیا تھا آگے ان کی سزا کا بیان مقصود ہے اور چونکہ بیان سزا کا اثر فی نفسہ یہ ہے کہ سلیم المزاج آدمی کو خوف پیدا ہوجاتا ہے جو سبب ہوجاتا ہے توبہ کا۔ اس لیے سزا سے تائبین کا استثناء اور ان کی جزائے ... نیک کا بیان بھی فرمادیا۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد منافقین کا عذاب ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اِنَّ الْمُتٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) کہ منافق دوزخ میں سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے۔ صاحب روح المعانی صفحہ ١٧٧: ج ٥ میں لکھتے ہیں کہ دوزخ کے سات طبقے ہیں پہلے طبقے کا نام جھنم اور دوسرے کا لَظٰی اور تیسرے کا حطمہ اور چ... وتھے کا سعیر اور پانچویں کا سقر اور چھٹے کا جحیم اور ساتویں ھاویہ ہے اور کبھی کبھی ان سب کے مجموعے کو النار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان طبقات کو درجات اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ متدار کہ ہیں یعنی ایک دوسرے کے نیچے ہیں۔ درک اور درج میں یہ فرق ہے کہ اوپر سے نیچے آئیں تو ہر طبقے درک سے موسوم کرتے ہیں اور نیچے سے اوپر کو جائیں تو ہر طبقے کو درج سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ منافق کو بنسبت دوسرے کافروں کے سخت عذاب اس لیے ہوگا کہ اس نے کفر کے ساتھ مزید اس بات کو اختیار کرلیا کہ اسلام کا مذاق اڑایا اور اہل اسلام کو دھوکہ دیا۔ پھر فرمایا (وَ لَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًا) (کہ اے مخاطب منافقوں کے لیے تو کوئی مددگار نہ پائے گا جو انہیں عذاب سے نکال دے یا ان کا عذاب ہلکا کر دے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi