Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 152

سورة النساء

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمۡ یُفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ اُولٰٓئِکَ سَوۡفَ یُؤۡتِیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۵۲﴾٪  1

But they who believe in Allah and His messengers and do not discriminate between any of them - to those He is going to give their rewards. And ever is Allah Forgiving and Merciful.

اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے تمام پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے یہ ہیں جنہیں اللہ ان کو پورا ثواب دے گا اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ امَنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُواْ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ ... And those who believe in Allah and His Messengers and make no distinction between any of them, This refers to the Ummah of Muhammad who believe in every Book that Allah has revealed and in every Prophet whom Allah has sent. Allah said, ءَامَنَ الرَّسُولُ بِمَأ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُوْمِنُونَ كُلٌّ ءَامَنَ بِاللَّهِ The Messenger believes in what has been revealed to him from his Lord, and (so do) the believers. All of them believe in Allah. (2:285) Allah then states that He has prepared great rewards for them, tremendous favor and a handsome bounty, ... أُوْلَـيِكَ سَوْفَ يُوْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ... We shall give them their rewards; because of their faith in Allah and His Messengers. ... وَكَانَ اللّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا and Allah is Ever Forgiving, Most Merciful. for their sin, if they have any.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

152۔ 1 یہ ایمانداروں کا شیوا بتایا گیا ہے کہ سب انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس طرح مسلمان ہیں وہ کسی بھی نبی کا انکار نہیں کرتے۔ اس آیت سے بھی ایک مذہب کی نفی ہوتی ہے جس کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اور وہ ان غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان باللہ رکھتے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس آخری رسالت کا انکار ہوگا تو اس انکار کے ساتھ ایمان باللہ غیر معتبر اور نامقبول ہے (مزید دیکھئے سورة بقرہ کی (آیت نمبر 12 کا حاشیہ)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠١] رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت :۔ اس لیے کہ صحیح ایمان کی شرط ہی یہ ہے کہ اللہ اور اس کے تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان لایا جائے اور ان میں تفریق نہ کی جائے۔ اور تفریق کرنے کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی پر ایمان لایا جائے، کسی پر نہ لایا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ بلحاظ درجہ نبوت سب برابر ہیں۔ اسی لحاظ سے آپ نے فرمایا کہ && کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متیٰ سے افضل ہوں۔ && (بخاری، کتاب التفسیر، سورة انعام۔ باب و یونس و لوطاً و کلاً فضلنا) رہے نبوت کے علاوہ دوسرے فضائل، تو ایک نبی پر دوسرے نبی کے ایسے فضائل کتاب و سنت میں صراحتاً مذکور ہیں اور اس لحاظ سے آپ افضل الانبیاء ہیں۔ اور ایسا صحیح ایمان لانے والوں کا ایمان ہی اللہ کے ہاں مقبول ہوگا اور ان کے اعمال کا انہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ۔۔ : مراد امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جو تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتی ہے، لہٰذا ان کے لیے بشارت ہے۔ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the concluding verse (15:22), it has been reaffirmed that salvation in the Hereafter is the lot of those who believe in Him and in all of His prophets as well. Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِنَ القُرٰانَ یُفَسِرُ بعصُہ بَعضاً One part of the Qur&an explains the other. It is not permissible for anyone to explain the Qur&an in any way contrary to the Tafsir of the Qur&an itself.

آخری آیت میں پھر ایجابی طور پر بیان فرما دیا گیا ہے کہ نجات آخرت انہی لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے سب رسولوں پر بھی ایمان رکھیں اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے :” یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیر و تشریح کرتا ہے۔ “ خود قرآنی تفسیر کے خلاف کئی تفسیر کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ يُفَرِّقُوْا بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰۗىِٕكَ سَوْفَ يُؤْتِيْہِمْ اُجُوْرَہُمْ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ١٥٢ۧ أحد أَحَدٌ يستعمل علی ضربین : أحدهما : في النفي فقط والثاني : في الإثبات . فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] . وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه : الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین . والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف/ 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین . والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص/ 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة : كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے { فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ } ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا } ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٢) اور عبداللہ بن سلام اور اس کے ساتھی جو انبیاء کرام اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نبوت اور اسلام میں کوئی فرق نہیں کرتے ہم ان کو جنت میں ثواب اور درجہ دیں گے اور جو ان میں سے توبہ کی حالت میں انتقال کرگئے تو اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٢ (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ ) نہ اللہ کو رسول سے جدا کیا اور نہ رسول کو رسول سے جدا کیا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم سب کو مانتے ہیں : لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ (البقرہ : ٢٨٥) ۔ ہم ان رسولوں کو بھی مانتے ہیں جن کے نام قرآن مجید میں آگئے ہیں ‘ اور یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کے علاوہ بھی اللہ کی طرف سے بیشمار نبی اور رسول آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

179. This means that only those who acknowledge God to be their sole object of worship and their only sovereign, and who commit themselves to follow all the Prophets, will merit reward for their acts in the Hereafter. What that reward will be depends on the nature and extent of their acts of goodness. Those who do not either acknowledge the exclusive sovereignty of God or who rebelliously reject some Messengers of God and believe only in those whom they choose to, will not be rewarded, for in God's sight their apparently good acts are essentially not valid. 180. God will be lenient and forgiving in judging the conduct of those who believe in Him and the Prophets.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :179 یعنی جو لوگ خدا کو اپنا واحد معبود اور مالک تسلیم کر لیں ، اور اس کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں کی پیروی قبول کریں ، صرف وہی اپنے اعمال پر اجر کے مستحق ہیں ، اور وہ جس درجہ کا عمل صالح کریں گے اسی درجہ کا اجر پائیں گے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے خدا کی لاشریک الہٰیّت و ربوبیت ہی تسلیم نہ کی ، یا جنہوں نے خدا کے نمائندوں میں سے بعض کو قبول اور بعض کو رد کرنے کا باغیانہ طرز عمل اختیار کیا ، تو ان کے لیے کسی عمل پر کسی اجر کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسے لوگوں کا کوئی عمل خدا کی نگاہ میں قانونی عمل نہیں ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :180 یعنی جو لوگ اللہا ور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے ان کا حساب لینے میں اللہ سخت گیری نہیں برتے گا بلکہ ان کے ساتھ بہت نرمی اور درگزر سے کام لے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 مراد امت محمدی ہے ج تمام پیغمبر روں پر ایمان رکھتی ہے لہذا ان کے لیے بشارت ہے (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو یہود و نصاری دونوں کی شان میں کہا ہے کیونکہ نصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں مانتے تھے۔ لیکن سیاق وسباق میں یہود کا ذکر مقتضی اس کو ہے کہ آیت کا شان یہود میں ہونا زیادہ مہتم بالشان ہو گوتبعا نصاری بھی عموم لفظ میں داخل ہوجائیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین اور کفار کا ذکر کرنے کے بعد سچے اور پکے مسلمان کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ایمان کامل کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لایا جائے کہ وہ اپنے اپنے زمانے میں اللہ کے برگزیدہ رسول تھے اور انہوں نے ٹھیک ٹھیک طریقہ سے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچایا۔ جس بنا پر مقام رسالت کے حوالے سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے انبیاء پر صحیح ایمان لانے کا تقاضا تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ جب جناب رسالت مآب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی تسلیم کیا جائے کیونکہ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کی نبوت کا اقرار کرچکے ہیں۔ (آل عمران : ٨١) انہوں نے اپنی اپنی امت کو یہی پیغام دیا تھا بالخصوص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آپ کے لیے دعا کی اور آپ کی جائے نبوت کی نشان دہی فرمائی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو کہ آپ سے پہلے نبی ہیں انہوں نے بنی اسرائیل کو آپ کی تشریف آوری کی خوشخبری دی اور آپ کے اسم گرامی سے آگاہ فرمایا۔ لہٰذا جو لوگ اس طرح ایمان لائیں گے وہ اللہ کے ہاں بےحد و حساب اجر پائیں گے۔ بتقاضائے بشریت سرزد ہونے والی ان کی خطاؤں اور گناہوں کو معاف کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ ( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ )[ البقرہ : ١٢٩] ” اے ہمارے رب ان میں ایک رسول بھیج جو انہی میں سے ہو وہ ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے بلاشبہ تو غالب اور حکمت والا ہے “ (وَإِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیٓ إِسْرَآءِیلَ إِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَأْتِیْ مِنْ م بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ )[ الصّف : ٦] ” اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں یقیناً تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور پہلے سے نازل شدہ تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔ “ (وَاِذْاَخَذَاللّٰہُ مِیْثَا قَ النَّبِیّٖنَ لِمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُ ٗ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَامَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ ) [ آل عمران : ٨١] ” اور جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے تمہیں لازماً ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا تم اقرار کرتے ہو اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو ؟ انبیاء نے کہا ہم اقرار کرتے ہیں فرمایا گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں “ ( عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِی طینَتِہٖ وَسَأُنَبِّءُکُمْ بِتَأْوِیلِ ذٰلِکَ دَعْوَۃِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ وَبِشَارَۃِ عیسیٰ (علیہ السلام) قَوْمَہُ وَرُؤْیَا أُمِّی الَّتِی رَأَتْ أَنَّہُ خَرَجَ مِنْہَا نُورٌ أَضَاءَ تْ لَہُ قُصُور الشَّامِ وَکَذٰلِکَ تَرٰی أُمَّہَات النَّبِیِّینَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِمْ )[ رواہ احمد ] ” حضرت عرباض بن ساریہ سلمی (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں قرآن مجید میں مجھے خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے اس وقت سے جب حضرت آدم (علیہ السلام) ابھی مٹی اور روح کے درمیان تھے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں میری والدہ نے دیکھا کہ ان کے وجود سے ایک روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔ اور اسی طرح ہی انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مائیں دیکھا کرتی تھیں۔ “ مسائل ١۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ بلا تفریق تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔ ٢۔ کامل ایمان والوں کے لیے بےحدو حساب اجر ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” والذین امنوا باللہ ورسلہ ولم یفرقوا بین احد منھم اولئک سوف یوتیھم اجورھم وکان اللہ غفورا رحیما “۔ (٤ : ١٥٢) (بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں ‘ ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ) اسلام نے اللہ اور رسل کے بارے میں عقائد کو ایک اکائی قرار دینے کے بارے میں اس قدر تشدد کیوں کیا ؟ اسی لئے کہ ایک مومن کے تصور الہ میں عقیدہ توحید ایک اساسی حیثیت کا حامل ہے ۔ اور یہ عقیدہ اس کائنات کے اندر ایک مدیر ومنتظم کے تصور کے ساتھ بھی لگا کھاتا ہے جو نہ تعدد کو قبول کرتا ہے اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا منتظم ہو سکتا ہے ۔ یہی عقیدہ کوئی ذی شعور انسان اختیار کرسکتا ہے جو اس کائنات کے اندر جاری وساری ناموس اکبر کو محسوس کرتا ہے اور جب تک اس کی نظر کو رسائی حاصل ہے ۔ یہی تصور حیات اہل ایمان کو ایک متحد قافلے کی شکل دے سکتا ہے جو کفر کی صفوں اور حزب الشیطان کی پارٹی کے مقابلے میں ‘ ایک جماعت کی شکل میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ اہل ایمان ان نظریات کے حامل لوگوں کی طرح متفرق اور بکھرے ہوئے نہیں ہوتے ‘ جن کا دین اور نظریہ اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے تو سماوی تھا مگر انہوں نے اس میں تحریف کرلی اور اب وہ صحیح اہل ایمان کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم صرف اسلام کو دین قرار دیتا ہے ۔ صرف اہل اسلام کو خیر امت قرار دیتا ہے جسے لوگوں کی خاطر برپا کیا گیا ہے ۔ وہ مسلمان جن کا عقیدہ درست ہو ‘ جن کا عمل اور کردار اس عقیدے اور نظرئیے کے مطابق ہو ‘ یہ نہ ہو کہ بس وہ ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہوں اور نہ صرف یہ ہو کہ انہوں نے اسلام کے کلمے کو یاد کرلیا ہو اور زبان سے ادا کردیا ہو ۔ اس تشریح وبیان کے بعد معلوم ہوگیا کہ وہ کون ہیں جو ایک طرف اللہ اور رسولوں میں جدائی کرتے ہیں اور دوسری جانب رسولوں میں سے بعض کو مانتے ہیں اور بعض دوسروں کا انکار کرتے ہیں ۔ وہ تاریخی قافلہ ایمانی کے سلسلے کے اندر گیپ پیدا کرتے ہیں ‘ اس وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں جو اللہ نے پیدا کی ہے اور یوں وہ اس وحدانیت کا انکار کردیتے ہیں جس پر عقیدہ ایمان باللہ قائم ہے ۔ رسولوں اور انکی رسالت کے بارے میں اسلامی تصور حیات کی خشت اول کو مضبوط کرنے کے بعد اور حقیقت ایمان اور حقیقت کفر کو واضح کردینے کے بعد اس سلسلے میں یہودیوں کے بعض غلط مواقف زیر بحث لائے جاتے ہیں ‘ جن کا تعلق اس بدگوئی سے بھی ہے جس کا ذکر اس پارے کے آغاز میں کیا گیا ہے ۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی رسالت کے بارے میں ان کے موقف کی تردید کی جاتی ہے اور اس بات کی مذمت کی جاتی ہے کہ وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزات اور نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ وہ اپنے اس موقف اور عقیدے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے موقف اور عقیدے کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ پھر حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ محترمہ کے بارے میں ان کا موقف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مختلف ہے ۔ حالانکہ ان تمام پیغمبروں کی حقیقت پوری انسانی تاریخ میں ایک ہی ہے ۔ یہاں سیاق کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید جو یہودی اور اہل کتاب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑے ہیں وہی لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے بھی کھڑے تھے اور یہی لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے بھی کھڑے تھے ۔ اس سے اس مفہوم کی تاکید مطلوب ہے کہ جس طرح رسل ایک ہیں اسی طرح ہم بھی ایک ہیں ۔ چناچہ قرآن کریم ان کی اس جبلت کو ان الفاظ میں ظاہر کرتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

99 یہ ان لوگوں کے لیے بشارت اخروی ہے جو اللہ پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں آخرت میں نجات اور اجر وثواب حاصل کرنے کے لیے سب پر ایمان لانا ضروری ہے جیسا کہ سورة بقرہ (رکوع 40) میں فرمایا کُلٌّ اٰمَنَ بِا اللہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور با عتبار ایمان لانے کے ان میں سے کسی کے ساتھ فرق نہیں کرتے کہ کسی پر ایمان لائیں اور کسی پر ایمان نہ لائیں بکلہ سب رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں کو بہت جلد اللہ تعالیٰ ان کے ثواب سے نوازے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے جو ہم سورة بقرہ کے آخر میں عرض کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر سب پر ایمان لائیں کسی رسول کے ماننے میں جدائی ڈالیں تو لوگ اپنے اجور اور ثواب پانے کے مستحق ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کا حصہ عنایت کرے گا اور اگر کوئی کوتاہی ان سے واقع ہوئی ہوگی تو اس کو بخشدے گا کیونکہ اللہ غفور ہے اور ان کے ثواب کو بڑھا کر اور ان کی نیکیوں کو زیادہ کر کے بھی ان کو دے گا کیونکہ وہ بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ (تسہیل)