Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 160

سورة النساء

فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَہُمۡ وَ بِصَدِّہِمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ﴿۱۶۰﴾ۙ

For wrongdoing on the part of the Jews, We made unlawful for them [certain] good foods which had been lawful to them, and for their averting from the way of Allah many [people],

جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وہ ہم نے ان پر حرام کر دیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالٰی کی راہ سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Some Foods Were Made Unlawful for the Jews Because of their Injustice and Wrongdoing Allah says; فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللّهِ كَثِيرًا For the wrongdoing of the Jews, We made unlawful for them certain good foods which had been lawful for them ـ and for their hindering many from Allah's way; Allah states that because of the injustice and transgression of the Jews, demonstrated by committing major sins, He prohibited some of the lawful, pure things which were previously allowed for them. This prohibition could be only that of decree, meaning that Allah allowed the Jews to falsely interpret their Book and change and alter the information about what was allowed for them. They thus, out of exaggeration and extremism in the religion, prohibited some things for themselves. It could also mean that in the Tawrah, Allah prohibited things that were allowed for them before. Allah said, كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِـلًّ لِّبَنِى إِسْرَءِيلَ إِلاَّ مَا حَرَّمَ إِسْرَءِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ All food was lawful to the Children of Israel, except what Israil made unlawful for himself before the Tawrah was revealed. (3;93) We mentioned this Ayah before, which means that all types of food were allowed for the Children of Israel before the Tawrah was revealed, except the camel's meat and milk that Israil prohibited for himself. Later, Allah prohibited many things in the Tawrah. Allah said in Surah Al-An`am (chapter 6), وَعَلَى الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا كُلَّ ذِى ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَأ إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَأ أَوِ الْحَوَايَأ أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِكَ جَزَيْنَـهُم بِبَغْيِهِمْ وِإِنَّا لَصَـدِقُونَ And unto those who are Jews, We forbade every (animal) with undivided hoof, and We forbade them the fat of the ox and the sheep except what adheres to their backs or their entrails, or is mixed up with a bone. Thus We recompensed them for their rebellion. And verily, We are Truthful. (6:146) This means, We prohibited these things for them because they deserved it due to their transgression, injustice, defying their Messenger and disputing with him. So Allah said; فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللّهِ كَثِيرًا For the wrongdoing of the Jews, We made unlawful to them certain good foods which had been lawful to them, and for their hindering many from Allah's way. This Ayah states that they hindered themselves and others from following the truth, and this is the behavior that they brought from the past to the present. This is why they were and still are the enemies of the Messengers, killing many of the Prophets. They also denied Muhammad and `Isa, peace be upon them. Allah said,

یہودیوں کے خود ساختہ حلال و حرام اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ حرام کام ان کا مقدر تھا یعنی اللہ کی طرف سے لکھا جا چکا تھا کہ یہ لوگ اپنی کتاب کو بدل دیں ، اس میں تحریف کرلیں اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیں ، صرف اپنے تشدد اور اپنی سخت گیری کی وجہ سے ، دوسرا یہ کہ یہ حرمت شرعی ہے یعنی نزول تورات سے پہلے جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں ، توراۃ کے اترنے کے وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے وہ حرام قرار دے دی گئیں جیسے فرمان ہے آیت ( كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:93 ) یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ جو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ، اس کے سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے پھر توراۃ میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں ، جیسے سورہ انعام میں فرمایا آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ) 16 ۔ النحل:118 ) یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار جانور حرام کر دیا اور گائے بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو ، ہم نے ان پر حرام قرار دے دی ، یہ اس لئے کہ یہ باغی ، طاغی ، مخالف رسول اور اختلاف کرنے والے لوگ تھے پہلے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ان کے ظلم و زیادتی کے سبب وہ خود اللہ کے راستہ سے الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے کے باعث ( جو ان کی پرانی عادت تھی ) رسولوں کے دشمن بن جاتے تھے ۔ انہیں قتل کر ڈالتے تھے ، انہیں جھٹلاتے تھے ، ان کا مقابلہ کرتے تھے اور طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرات سے انہیں کر گذرے تھے ، اس وجہ سے ان پر بعض حلال چیزیں بھی ہم نے حرام کر دیں ، ان کفار کے لئے درد ناک عذاب تیار ہیں ۔ ان میں جو سچے دین والے اور پختہ علم والے ہیں ، اس جملے کی تفسیر سورہ آل عمران میں گذر چکی ہے اور جو با ایمان ہیں وہ تو قرآن کو اور تمام پہلی کتابوں کو مانتے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ، حضرت ثعلبہ بن سعید ، زید بن سعید ، حضرت اسید بن عبید رضی اللہ عنہم ہیں ، جو اسلام قبول کر چکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان چکے تھے آگے کا جملہ آیت ( والمقیمین الصلوۃ ) تمام ائمہ کے قرآن میں اور ابی بن کعب کے مصحف میں اسی طرح ہے لیکن بقول علامہ ابن جریر ابن مسعود کے صحیفہ میں آیت ( والمقیمون الصلوۃ ) ہے ۔ صحیح قرأت اگلی ہے جن بعض لوگوں نے اسے کتابت کی غلطی بتایا ہے ان کا قول غلط ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں اس کی نصبی حالت مدح کی وجہ سے ہے ، جیسے آیت ( وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ) 2 ۔ البقرۃ:177 ) میں ہے اور کلام عرب میں اور شعروں میں برابر یہ قاعدہ موجود پایا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ عطف ہے اگلے جملے پر یعنی آیت ( بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ) 2 ۔ البقرۃ:4 ) پر یعنی وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرنے پر بھی ان کا ایمان ہے یعنی اسے واجب و برحق مانتے ہیں ، یا یہ مطلب ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں یعنی ان کا قرآن پر اور الہامی کتابوں پر اور فرشتوں پر ایمان ہے ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اس میں تامل کی ضرورت ہے واللہ اعلم ، اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں یعنی مال کی یا جان کی اور دونوں بھی مراد ہو سکتے ہیں واللہ اعلم اور صرف اللہ ہی کو لائق عبادت جانتے ہیں اور موت کے بعد کی زندگانی پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہر بھلے برے عمل کی جزا سزا اس دن ملے گی ، یہی لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم یعنی جنت دیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

160۔ 1 یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کردی تھیں (جن کی تفصیل سورة الآنعام۔ 146 میں ہے)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠٩] گمراہ کن نظاموں کے موجد یہودی ہیں :۔ یہود کی بدکرداریوں کا سلسلہ ابھی مزید چل رہا ہے۔ اس آیت میں جو جرم بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ نہ تو خود ایمان لاتے ہیں اور نہ دوسروں کو ایمان لانے دیتے ہیں بلکہ جو شخص ایمان لانے پر آمادہ ہو ان کے ذہن میں کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر کے اسے اللہ کی راہ سے باز رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ صرف دور نبوی سے ہی متعلق نہیں بلکہ غالباً یہ بدبختی بھی تاقیامت انہی یہود کا مقدر ہوچکی ہے۔ موجودہ دور میں فلسفہ اشتراکیت کا موجد ایک یہودی تھا جسے یہودی دماغوں نے ہی ایک نظام کی شکل دی۔ اور اس نظریہ کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے صریح انکار پر قائم ہوتی ہے۔ آج کا دوسرا گمراہ کن فلسفہ سگمنڈ فرائڈ کا ہے جس نے فحاشی اور بےحیائی کو انتہائی فروغ بخشا ہے اور یہ فرائڈ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے۔ [٢١٠] ان کے ایسے جرائم کی ایک سزا تو انہیں یہ ملی کہ ان کے دلوں پر ایسی بدبختی مسلط ہوگئی کہ وہ حق بات کو سننے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے اور دوسری سزا یہ ملی کہ بعض کھانے پینے کی چیزیں جو ان پر پہلے حلال تھیں وہ حرام کردی گئیں۔ (دیکھئے سورة آل عمران کی آیت نمبر ٩٣ کا حاشیہ نمبر ٨٢)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا ” فَبِظُلْمٍ “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے اور جار مجرور پہلے آنے کی وجہ سے تخصیص پیدا ہوگئی، اس لیے ترجمہ ” ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے “ کیا گیا ہے۔ یہود کی سرکشی اور شرارتیں ذکر کرنے کے بعد اب ان پر سختی کا ذکر ہے۔ (کبیر) حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ ۔۔ : پاکیزہ چیزوں کی یہ حرمت کچھ تو ان کی سرکشی کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی، کیونکہ وہ گناہ پر بہت دلیر تھے، تاکہ ان کی سرکشی کچھ ٹوٹے، یہ شرعی حرمت تھی، جیسا کہ سورة انعام (١٤٦) میں ہے اور کچھ چیزیں انھوں نے اپنے احبارو رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دے کر ان کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام کرلیں، گویا یہ اللہ کی تقدیر میں ان کے بڑے ظلم شرک ( احبارو رہبان کو رب بنانے) کی سزا کے طور پر حرام ہوئیں، جیسا کہ اب مسلمانوں میں سے بھی بعض نے اپنے اماموں کے کہنے پر کئی حلال چیزیں حرام اور کئی حرام چیزیں حلال قرار دے رکھی ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے ایک اور نفیس مطلب بیان کیا ہے کہ یہاں ” طیبت “ سے مراد ان انعامات کا موقوف کردینا ہے جو بادشاہی اور نبوت و نصرت کی شکل میں حاصل تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ) [ البقرۃ : ٦١ ] ” اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ “ (فتح الرحمان) حقیقت میں تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned earlier through several verses were the wrongdoings of Jews and the punishment they would get for doing so. The present verses talk about some other vices of theirs and mention yet another kind of punishment as well. This punishment will, obviously, visit them on the Day of Judgment. But, right here in this present world, the outcome will be that they will find many things already lawful for them made unlawful as a measure of punishment. Commentary In the Shari` ah brought by the Holy Prophet Muhammad al Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) there are some things too, known as Haram or unlawful, but these were forbidden because of one or the other phys¬ical or spiritual harm they bring. This was contrary to what happened with the Jews - the good things forbidden to them had no physical or spiritual harm in them, instead, these were forbidden to them as the punishment of their acts of transgression and disobedience.

ربط آیات : گزشتہ آیات میں یہود کی شرارتوں کا اور ان شرارتوں کی وجہ سے ان کی سزا کا ذکر تھا، ان آیات میں بھی ان کی کچھ اور قباحتوں کا بیان ہے اور سزا کی ایک اور نعمت کا بھی ذکر ہے، وہ یہ کہ قیامت میں تو انہیں عذاب ہوگا ہی، اس دنیا میں بھی ان کی گمراہی کا یہ نتیجہ ہوا کہ بہت سی پاکیزہ چیزیں جو پہلے سے حلال تھیں بطور سزا کے ان پر حرام کردی گئی ہیں۔ خلاصہ تفسیر سو یہود کے انہی بڑے بڑے جرائم کے سبب (جن میں سے بہت سے امور سورة بقرہ میں ذکر کئے) ہم نے بہت سی پاکیزہ (یعنی حلال و نافع اور لذیذ) چیزیں جو (پہلے سے) ان کے لئے (بھی) حلال تھیں (جیسا آیت کل الطعام کان حلا لبنی اسرآئیل (٣: ٣٩) میں ہے) ان پر (شریعت موسویہ میں) حرام کردیں (جن کا بیان سورة انعام کی آیت وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر الخ (٦: ٦٤١) میں ہے اور وہاں بھی یہ بتلایا گیا ہے کہ ان حلال پاک چیزوں کو ان پر حرام کرنا ان کے گناہوں اور نافرمانیوں کی بناء پر ہوا تھا ذلک جزینھم ببغیھم الخ) اور (شریعت موسویہ میں بھی وہ سب حرام ہی رہیں کوئی حلال نہ ہوئی) بسبب اس کے کہ (وہ آئندہ بھی ایسی حرکتوں سے باز نہ آئے) مثلاً یہی کہ) وہ (احکام میں تحریف کر کے یا حکم خدا وندی کو چھپا کر) بہت آدمیوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ (یعنی دین حق کے قبول کرنے) سے مانع بن جاتے تھے (کیونکہ ان کی اس کارروائی سے عوام کو خواہ مخواہ التباس ہوجاتا تھا، گو طلب صادق سے وہ التباس دور ہوجانا ممکن تھا) اور بسبب اس کے کہ وہ سود لیا کرتے تھے، حالانکہ ان کو (توریت میں) اس سے ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ وہ لوگوں کے مال ناحق طریقہ (یعنی غیر مشروع ذریعہ) سے کھا جاتے تھے، (پس اس طریق حق میں رکاوٹ بننے، سود لینے اور ناجائز طریقوں سے دوسروں کا مال کھا جانے کی وجہ سے اس شریعت کی بقاء تک تخفیف نہ ہوئی، البتہ شریعت جدیدہ عیسویہ میں کچھ احکام بدلے تھے، جیسا آیت لاحل لکم بعض الذین رم علیکم (٣: ٥) سے معلوم ہوتا ہے اور شریعت محمدیہ میں بہت تخفیف ہوگئی جیسا یحل لھم الطیبت الخ (٧: ٧٥١) سے ثابت ہے، یہ تو دنیوی سزا تھی) اور (آخرت میں) ہم نے ان لوگوں کے لئے جو ان میں سے کافر ہیں درد ناک سزا کا سامان کر رکھا ہے (البتہ جو موافق قاعدہ شرعیہ کے ایمان لے آوے اس کی پچھلی جنایتیں سب معاف ہوجائیں گی۔ ) معارف ومسائل شریعت محمدیہ میں بھی بعض چیزیں حرام ہیں، لیکن وہ کسی جسمانی یا روحانی ضرر کی وجہ سے حرام کردی گئیں، بحلاف یہود کے کہ ان پر جو طیبات حرام کردی گئی تھیں ان میں کوئی جسمانی یا روحانی ضرر نہیں تھا، بلکہ ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر حرام کردی گئی تھیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْہِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ كَثِيْرًا۝ ١٦٠ۙ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل . ( ح ر م ) الحرام ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ حلَال حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٠۔ ١٦١) اور ان یہودیوں کے ظلم کرنے اور دین خداوندی سے روکنے اور سود کو حلال سمجھنے کی وجہ سے اللہ ان پر ناراض ہے حالانکہ توریت میں ان تمام امور کی صراحتا ممانعت کردی گئی تھی اور پھر مزید یہ کہ ظلم اور رشوت کے زریعے لوگوں کا مال کھانے کی وجہ سے وہ پاکیزہ چیزیں جو تمہارے لیے حلال تھیں اللہ کی طرف سے حرام کردی گئیں جیسا کہ چربیاں، اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ وغیرہ۔ اور ان یہودیوں کے لیے ایسا عذاب ہے کہ اس کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کر جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٠ (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ ) اللہ تعالیٰ کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ کوئی قوم اگر کسی معاملے میں حد سے گزرتی ہے تو سزا کے طور پر اسے حلال چیزوں سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ یہاں پر یہی اصول بیان ہو رہا ہے۔ مثلاً اگر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے تورات میں اس کی صراحت نہیں کی کہ یہ حرام نہیں ہے ‘ یہ تو محض تمہارے نبی ( علیہ السلام) کا بالکل ذاتی قسم کا فیصلہ ہے ‘ بلکہ اللہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ‘ ان کی یہی سزا ہے کہ ان پر تنگی رہے اور اس طرح ان کے کرتوتوں کی سزا کے طور پر حلال چیزیں بھی ان پر حرام کردیں۔ (وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا ) یہ لوگ اللہ کے راستے سے خود بھی رکتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی روکتے ہیں۔ تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور ان پر بعض حلال چیزیں بھی حرام کردیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

198. After this parenthetical statement, the main discourse is once again resumed. 199. This may refer to the regulation mentioned in (Surah al-An'am 6: 146), that all beasts with claws, and the fat of both oxen and sheep, were prohibited to the Jews. It might also refer, however, to the highly elaborate set of prohibitions found in Judaic Law. To restrict the choice of alternatives in their life is indeed a kind of punishment for a people. (For a fuller discussion see (Surah al-An'am 6, n. 122 )below. 200. The Jews, on the whole, are not satisfied with their own deviation from the path of God. They have become such inherent criminals that their brains and resources seem to be behind almost every movement which arises for the purpose of misleading and corrupting human beings. And whenever there arises a movement to call people to the Truth, the Jews are inclined to oppose it even though they are the bearers of the Scripture and inheritors of the message of the Prophets. Their latest contribution is Communism - an ideology which is the product of a Jewish brain and which has developed under Jewish leadership. It seems ironical that the professed followers of Moses and other Prophets should be prominent as the founders and promoters of an ideology which, for the first time in human history, is professedly based on a categorical denial of, and an undying hostility to God, and which openly strives to obliterate every form of godliness. The other movement which in modern times is second only to Communism in misleading people is the philosophy of Freud. It is a strange coincidence that Freud too was a Jew.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :198 جملہ معترضہ ختم ہونے کے بعد یہاں سے پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہوتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :199 یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستے سے منحرف ہیں ، بلکہ اس قدر بے باک مجرم بن چکے ہیں کہ دنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے ، اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کرتا نظر آتا ہے ، اور راہ حق کی طرف بلانے کے لیے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اکثر اس کے مقابلہ میں یہودی ہی سب سے بڑھ کر مزاحم بنتے ہیں ، درآں حالے کہ یہ کم بخت کتاب اللہ کے حامل اور انبیاء کے وارث ہیں ۔ ان کا تازہ ترین جرم یہ اشتراکی تحریک ہے جسے یہودی دماغ نے اختراع کیا اور یہودی رہنمائی ہی نے پروان چڑھایا ہے ۔ ان نام نہاد اہل کتاب کے نصیب میں یہ جرم بھی مقدر تھا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جو نظام زندگی اور نظام حکومت خدا کے صریح انکار پر ، خدا سے کھلم کھلا دشمنی پر ، خدا پرستی کو مٹا دینے کے علی الاعلان عزم و ارادہ پر تعمیر کیا گیا اس کے موجد و مخترع اور بانی و سربراہ کار موسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا ہوں ۔ اشتراکیت کے بعد زمانہ جدید میں گمراہی کا دوسرا بڑا ستون فرائڈ کا فلسفہ ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

94: اس کی تفصیل ان شاء اللہ سورۃ انعام (146:6) میں آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(160 ۔ 162) ۔ یہود کی طرح طرح کی سرکشی کے سبب سے حلال چیریں حرام ہوگئیں ان کی تفصیل سورة انعام میں آئے گی۔ کہ گائے بکری کی چربی وغیرہ یہود پر ان کی سرکشی کے سبب سے یہ چیزیں حرام ہوئی تھیں لیکن مشہور تفسیروں میں یہ تذکرہ کہیں نہیں ہے کہ کب اور کس نبی کے عہد میں یہ چیزیں یہود پر حرام ہوئیں۔ اس واسطے بعض مفسروں نے یہ کہا کہ خاص کسی نبی کے وقت میں یہ چیزیں حرام نہیں ہوئیں بلکہ جیسے جیسے یہود کی شرارت بڑھتی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مختلف زمانوں میں یہ چیزیں ان پر حرام ہوتی گئیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے مطابق علم پر ثابت قدم اور ایمان والے وہ لوگ ہیں جو یہود میں سے شریعت محمدی کے تابع اور پابند ہوگئے مثلاً جیسے عبداللہ بن سلام (رض) و ثعلبہ بن سعید (رض) وغیرہ عبد اللہ بن مسعود (رض) کی قرأت اور ان کے مصحف میں وَالْمُقِیْمِیْنَ کی جگہ وَالْمُقِیْمُوْنَ ہے اور قیاس بھی اسی کا مقتضی ہے۔ لیکن اور سب مصحفوں میں وَالْمُقِیْمِیْنَ ہے ابوجعفر ابن جریر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کلام عرب میں جس چیز کو خاص طور پر ذکر کرنا مقصود ہوتا ہے اس کو اس طرح بولا جاتا ہے اور آیت وَالْمُوْفُوْنَ بَعَہْدِہِمْ اِذَاعَاھَدُواوَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآ ئِ وَالضَّرَآ ئِ (١٧٧/٢) کو اپنے کلام کی تائید میں حافظ ابن جریر (رح) نے پیش کیا ہے۔ بعض سلف سے جو یہ روایت ہے کہ وَالْمُقِیْمِیْنَ کی جگہ وَالصَّابِرُوْنَ کی جگہ وَالصَّابِرِیْنَ کاتبوں کی غلطی سے لکھا گیا ہے۔ حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اس روایت کا ضعف اپنی تفسیر میں اچھی طرح ثابت کردیا ہے ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:160) فبظلم میں باء سببیہ ہے۔ یصدھم۔ صد۔ روکنا ۔ رکنا ۔ صد یصد (نصر) کا مصدر ۔ ان کے (لوگوں کو اللہ کے راستے سے) روکنے کی وجہ سے۔ کثیرا۔ ناسا کثیرا۔ (بہت لوگوں کو) بھی ہوسکتا ہے۔ اور صدا کثیرا (کثرت سے روکنا) بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ان کو شرارتوں کے ذکر کے بعد ان پر تشد کا ذکر ہے (کبیر) یہاں طیبات سے مراد ان انعامات کا موقوف کردینا ہے جو باشاہی نبوت ونصرت وغیرہ شکل میں ان کو حاصل تھے۔ وایں مشابہ ایں آیت است وضربت علیہم الزلتہ (فتح الرحمن)2 یعنی اوپر سب شرارتیں جو ان کی ذکر کیں بعض پہلے بیان ہوئیں اور بعض پیچھے لیکن یہ کہ گناہ پر دلیر تھے اس واسطے ان کی شریعت سخت رکھی کہ سرکشی ٹوٹے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 160-161 لغات القرآن : حرمنا، ہم نے حرام کردیا۔ احلت، حلال کی گئی (حلال کی گئیں) ۔ نھوا، وہ منع کیے گئے۔ تشریح : بنی اسرائیل کی ذلیل حرکات کا بیان قرآن کریم میں جا بجا آیا ہے مثلاً سورة بقرہ سورة بنی اسرائیل وغیرہ میں۔ ان آیات میں اور پچھلی آیات میں بھی چند واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ کافروں کیلئے دردناک عذاب تیار کرلیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر کسی قوم نے اللہ کے راستے سے سب سے زیادہ لوگوں کو بھڑکایا ہے، ان کا راستہ روکا ہے اور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی ہے۔ اگر کوئی قوم دین اسلام کی مخالفت میں سب سے آگے آگے رہی ہے تو وہ یہودی ہیں۔ آج بھی مسلمانوں اور خود دین اسلام کے خلاف جس قوم کا سرمایہ، دماغ، افرادی طاقت، سیاست، ہتھیار اور ہر ممکن طریقہ لگ رہا ہے وہ یہی بدنصیب قوم ہے۔ اسی قوم نے کمیونزل اور سوشلزم جیسی لادینی بلکہ مخالف دینی تحریکوں کو ابھارا۔ اسی قوم نے فرائڈ اور ڈارون جیسے گمراہ نظرئیے سائنس کے نال پر پھیلائے۔ اسی قوم نے عیسائیوں کے کس بل پر ریاست اسرائیل قائم کی اور فلسطین ولبنان، عراق اور افغانستان کو تاراج کر ڈالا۔ دنیا میں بڑی بڑی قومیں آئیں اور آکر چلی گئیں مگر یہ قوم نہ مرتی ہے نہ جیتی ہے۔ نہ اس کے پاس عزت کی زندگی ہے نہ ذلت کی موت۔ کچھ دنوں کیلئے یہ ابھر جاتی ہے پھر کسی گڑھے میں گر جاتی ہے۔ تاریخ میں ایک بار چوراسی (84) سال تک اس نے فلسطین پر قبضہ رکھا ہے۔ پھر صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوکر نکالی گئی۔ اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنی بار فلسطین پر قابض رہ چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی ہدایت کے لئے ان ہی میں سے نہ جانے کتنے پیغمبر مبعوث کئے مگر اس قوم نے مان کر نہ دیا۔ اوپر کی آیات ان تمام سچائیوں کی منہ بولتی تصویر ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جرائم سے جو تحریم ہوئی وہ تحریم عام تھی گوجرائم سے بعض صلحاء محفوظ بھی تھے کیونکہ بہت سی حکمتوں کے اقتضاء سے عادة اللہ یونہی جاری ہے جیسا قرآن میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ بڑا مجرم وہ ہے جس کے بےضرورت سوال کرنے سے کوئی شے سب کے لیے حرام ہوجائے یعنی زمانہ وحی میں۔ اور شریعت محمدیہ میں جو چیزیں حرام ہیں وہ کسی مضرت جسمانی یاروحانی کی وجہ سے حرام ہیں کہ اس حثییت سے غیر طیب ہیں۔ پس تحریم طیبات نافعہ عقوبت وسیاست ہے اور تحریم طیبات ضارہ رحمت و حفاظت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم وبصدھم عن سبیل اللہ کثیرا ‘(١٦٠) واخذھم الربوا وقد نھو عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکفرین منھم عذابا الیما (١٦١) (٤ : ١٦٠۔ ١٦١) (۔ غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویے کی بناء پر اور اس بناء پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ‘ اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ‘ ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کیلئے حلال تھیں ‘ اور وہ لوگ جو ان میں سے کافر ہیں ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ) چناچہ اس آیت کے ذریعے ان کے سابقہ منکرات میں کچھ مزید منکرات کا اضافہ کردیا گیا ۔ اور یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں سے لوگوں کو روکنے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہے ۔ گویا وہ رات دن ایسی کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیز یہ رات دن سودی کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور یہ کام وہ محض کم علمی کی وجہ سے نہیں کر رہے یا یہ کہ انہیں اس سلسلے میں متنبہ نہیں کیا گیا ‘ بلکہ انہیں صاف الفاظ میں اس سے روکا گیا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اس پر اصرار کیا اور لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے رہے ۔ یہ ربا کے ذریعے بھی کھاتے رہے اور دوسرے ذرائع سے بھی ۔ ان منکرات اور اس سے پہلی سورتوں میں مذکورہ جرائم کی وجہ سے اللہ نے ان پر بعض حلال چیزوں کو حرام کردیا جوان کیلئے حلال تھیں اور یہ کہ اللہ نے کافروں کیلئے سخت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ یہودیوں کے خلاف اس مہم میں یہودیوں کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینک دیا گیا ‘ اور اس ان کے تاریخ سے بعض واقعات بھی پیش کئے گئے تاکہ معلوم ہو کہ ان کی تاریخ کیا ہے ۔ ان کی بہانہ سازیوں اور ان کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کیا کیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ کسی طرح مان کردینے والے نہیں ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے قائد ‘ اپنے نجات دہندہ اور اپنے عظیم نبی کے ساتھ یہی رویہ اختیار کئے رکھا ان کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ صالحین اور انبیاء کے ساتھ برے سلوک اور ان کے خلاف بدگوئی کرنے میں بہت ہی جری وسریع رہے ہیں ۔ وہ انبیاء کو بھی قتل کرتے رہے ہیں اور پھر ندامت کے بجائے اس قتل پر فخر کرتے رہے ہیں ۔ ان جملوں کے نتیجے میں ‘ یہودیوں کے مکروفریب کا جال تار تار ہوگیا جو انہوں نے اسلامی صفوں کے خلاف بچا رکھا تھا ۔ ان کی سازشیں ناکام ہوگئیں اور مسلمانوں کے ساتھ انکی خفیہ دوستیاں کٹ گئیں ۔ یوں اہل اسلام نے یہودیوں کے اصل مزاج کو اچھی طرح جان لیا۔ اسلام کے خلاف ان کی سازشوں اور ان میں استعمال ہونے والے وسائل وذرائع کو پہچان لیا ۔ اس بات کا انہیں علم ہوگیا کہ وہ کس طرح ہر سچائی کے مقابلے میں جتھہ بندی کرلیتے ہیں چاہے یہ سچائی خود ان کے اندر انکی اپنی صفوں سے اٹھے یا ان سے باہر دوسری اقوام کے اندر پائی جائے ۔ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سچ اور اہل حق کے دشمن رہے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہدایت اور ہادیوں کی بیخ کنی کرتے رہے ہیں ۔ ہر دور میں اور ہر زمانے میں وہ یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو ان کا یہ رویہ بہرحال تھا ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں ‘ اس لئے ہر دور میں ہر اسلامی تحریک اور اسلامی سوسائٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہودیوں سے چوکنا رہے اس لئے کہ ان کی جبلت ہی ایسی ہے کہ وہ ذاتی طور پر سچائی کے دشمن ہیں ۔ ان کے دل کے اندر حق کی دشمنی بھری ہوئی ہے ۔ ان کے کلیجے سخت ہوگئے ہیں ۔ وہ اپنے سر صرف اس شخص کیلئے جھکاتے ہیں جو ان پر ڈنڈے برسائے اور وہ سچائی کو تب تسلیم کرتے ہیں جب ان کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہو ۔ اس قسم کے لوگوں کا یہ تعارف صرف اس جماعت اسلامی کیلئے نہ تھا جو مدینہ طیبہ میں کام کر رہی تھی اس لئے کہ قرآن اس امت کے لئے گائیڈ ہے جب تک کہ یہ امت موجود رہے گی ۔ اگر قرآن سے یہ امت اپنے دشمنوں کے بارے میں ہدایات لینا چاہے تو اس میں اسے ہدایات مل جائیں گی ، اس سے جب بھی یہ امت کوئی نصیحت لینا چاہے یہ کتاب اسے نصیحت دیتی ہے ۔ اس کتاب نے امت کو یہودیوں کے بارے میں ہدایت دی ۔ نصیحت کی اور فہم دیا تو اس کے نتیجے میں یہودیوں کی گردنیں مسلمانوں کے مقابلے میں جھک گئیں ۔ جب اس امت نے قرآن مجید کو چھوڑا تو یہ امت یہودیوں کی غلام بن گئی ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ امت پوری طرح جمع ہوتی ہے اور یہودیوں کی ایک مختصر جمعیت اس پر غالب آجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنی کتاب اور گائیڈ بک سے غافل ہے ۔ وہ قرآن کی ہدایات سے دور بھاگ رہی ہے ۔ اس نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اور یہ امت فلاں اور فلاں کے اقوال کی اطاعت کر رہی ہے ۔ یہ امت اسی طرح یہودی سازش کا شکار رہے گی اور اسی طرح وہ یہودیوں کے عتاب میں رہے گی جب تک وہ قرآن کی طرف نہیں لوٹتی ۔ یہ بیان اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک یہودیوں میں سے نکل کر آنے والے بعض اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کردی جاتی اور ان کی جرات راندانہ کہ تعریف کی جاتی ہے کہ چھلانگ لگا کر نکل آئے اور سچائی کو قبول کرلیا ۔ قرآن کریم ان لوگوں کے علم و ایمان کی تصدیق کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اہل اسلام میں داخل ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ دین کو قبول کیا ۔ یہ علم وہ تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترا اور جو آپ سے قبل انبیاء پر اترا تھا ۔ وہ اس علم میں زیادہ رسوخ رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایمان لے آئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حرام خوری اور سود لینے کی وجہ سے یہودی پاکیزہ چیزوں سے محرم کر دئیے گئے ان آیات میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہودیوں پر وہ حلال اور طیب چیزیں حرام کردی گئیں جو ان کے لیے حلال تھیں۔ اور یہ اس وجہ سے حرام کی گئیں کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا جس میں نقض عہد اور حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کا قتل بھی شامل ہے، نیز وہ کثرت کے ساتھ یہ کام بھی کرتے رہے کہ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکا۔ اللہ کے نبیوں کو جھٹلایا اور اپنے نفسوں کو اور دوسروں کو ان کے اتباع سے روکا، اور اس وجہ سے بھی پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کی گئیں کہ وہ سود لیتے رہے حالانکہ توریت شریف میں ان کو اس کی ممانعت کردی گئی تھی۔ اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقے کے ساتھ کھاتے تھے۔ ان کے حکام اور علماء و احبار رشوت لیتے تھے۔ اور حرام طریقوں سے عوام کا مال کھا جاتے تھے۔ صاحب معالم التنزیل صفحہ ٤٩٨: ج اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں اعقبناھم بان حرمنا علیھم طیبات و کانوا کلما ارتکبوا کبیرۃ حرم علیھم شیء من الطیبات التی کانت حلالاً لھم (مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کے برے کرتوتوں کی وجہ سے یہ سزا دی کہ ان پر پاکیزہ چیزیں حرام کردیں۔ جب کبھی بھی کوئی کبیرہ گناہ کرتے تھے ان چیزوں میں سے کوئی نہ کوئی چیز حرام دی جاتی تھی جو ان کے لیے حلال تھیں، سورة انعام میں بعض ان چیزوں کا ذکر ہے جو ان پر حرام کردی گئی تھیں، وہاں ان کے بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے (ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمُ بِبَغْیِھِمْ ) (کہ ہم نے ان کو یہ بدلہ دیا ان کی بغاوت کی وجہ سے) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں جو چیزیں ان پر حرام کردی گئی تھیں بعد میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ان میں سے بعض چیزیں حلال کردی گئیں۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا (وَلِاُحِلُّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ) ۔ تحریم طیبات کے اسباب میں اللہ کی راہ سے روکنا اور سود کھانا اور باطل طریقوں سے لوگوں کے مال کھانا بھی مذکور ہے جب کسی نبی کی بعثت ہوتی تھی تو یہ لوگ دین حق کو نہ قبول کرتے تھے نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے تھے جو لوگ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو قتل کردیتے ہوں ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی راہ پر نہ چلیں گے نہ اللہ کی راہ کسی کو اختیار کرنے دیں گے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی تو ان کے پیچھے پڑگئے۔ ان کو بہت تکلیف دی ان کے قتل کے درپے ہوگئے۔ سود کھانا یہودیوں کی بہت پرانی عادت ہے۔ توریت شریف میں ان کو اس سے منع کردیا تھا لیکن پھر بھی برابر سودلیتے رہے دنیا میں مہاجن اور سیٹھ بننے کا جو طریقہ رائج ہے ان میں سب سے بڑا کامیاب طریقہ سود خوری ہی کا ہے۔ حتیٰ کہ اصل سرمایہ کم رہ جاتا ہے اور سود کا مال زیادہ ہوجاتا ہے اس میں حاجت مندوں کے ساتھ بےرحمی کا سلوک ہے۔ اور ان کی حاجت مندی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ایک صورت ہے جو خون چوسنے کے برابر ہے اس بیدردی اور بےرحمی والے عمل سے اللہ تعالیٰ شانہ، نے بنی اسرائیل کو بھی منع فرمایا تھا اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ کو بھی منع فرمایا ہے۔ یہودیوں نے اس عمل کو نہیں چھوڑا اور بہت سے مسلمان ہونے کے دعویدار آج کل بھی اس میں لگے ہوئے ہیں۔ بینکاری کا سارا کام سود پر ہی ہے جو لوگ یہودی ہیں ان کے بڑے بڑے ذاتی بنک ہیں اور بنکوں میں ان کے شے ئرز ہیں اور جو لوگ دنیا پر دل دئیے ہوئے ہیں مال کی کثرت کے متوالے ہیں اسلام کے مدعی ہوتے ہوئے اس ملعونیت کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ممانعت کی طرف بالکل دھیان نہیں دیتے بلکہ الٹا اسے جائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس کا نام پیسے کی تجارت رکھتے ہیں کچھ لوگ مولویوں کو نشانہ بناتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دوسری قومیں (یہودی، نصرانی، ہندو) سود لے کر بام عروج پر پہنچ گئے ہیں اور مولویوں نے سود حرام کر کے قوم کو گہرے غار میں ڈال دیا ہے۔ بھلا مولوی کی کیا طاقت ہے کہ کسی چیز کو حرام کرے وہ تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تبلیغ کرتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال ہے وہ اسے حلال بتاتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام ہے اسے حرام بتاتا ہے علماء کو برا کہنے سے لعنت سے نہیں بچیں گے اور حرام حلال نہیں ہوجائے گا، افسوس ہے کہ اسلام کا دعویٰ کرنے والے جب مال میں یہودی صفت بنے ہوئے ہیں، یہودیوں سے اپنا بغض بھی ظاہر کرتے ہیں اور صفات ان کی اختیار کرتے ہیں، مال آتا ہوا دیکھتے ہیں تجوری بھری ہوئی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں آخرت کے عذاب کا کوئی احساس نہیں۔ اگر سچ پوچھیں تو جس طرح یہودیوں پر تشریعی طور پر پاکیزہ چیزیں حرام کردی گئی تھی اس طرح اب تکوینی طور پر پاکیزہ چیزوں سے بنی آدم محروم ہو رہے ہیں۔ پچاس سال پہلے جو چیزوں میں لذت تھی وہ اب نہیں رہی اور جانوروں کا گوشت یورپ امریکہ وغیرہ میں اور ایشیاء کے بہت سے علاقوں میں بسم اللہ کے بغیر ذبح کیے ہوئے جانوروں کا کھایا جارہا ہے۔ حلال چیز کو حرام کر کے کھا رہے ہیں۔ اور خوش ہو رہے ہیں، حلال ذبیحے کا جو مزا اور کیف تھا اس سے یکسر محروم ہیں اور حرام کھانے کا جو گناہ ہے وہ اپنی جگہ ہے۔ سود کے بارے میں جو قرآن و حدیث میں وعیدیں وارد ہیں ان کے لیے سورة بقرہ کا رکوع ٣٨ اور اس کی تفسیر کی مراجعت کرلی جائے۔ (دیکھو انوار لبیان، پیچھے گزر چکا ہے) یہودیوں کے اعمال شنیعہ اوراقوال قبیحہ بتاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہ لوگ باطل کے ساتھ لوگوں کے مال کھاتے رہے ہیں۔ حرام مال کھانا یہودیوں کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی اور اب بھی اس پر چل رہے ہیں۔ ان کے حکام رشوتیں لیتے تھے اور علماء کا بھی یہ طریقہ تھا کہ لوگوں کی مرضی کے مطابق توریت شریف کا حکم بدل دیتے تھے اور اس پر پیسے لیتے تھے، سورة بقرہ کی آیت ٦٩ رکوع ٩ (فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ) میں ان کی اس حرکت کو بیان فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 107 پہلے فَبِمَا نَقْضِہِم وَ قَوْلَہِمْ ، وَ کُفْرِہِمْ وَ قَتْلِہِمْ سے یہود کی خباثتیں بیان کیں اور ان کی جزا بیان نہیں کی تھی اس لیے بعد عہد کی وجہ فَبِظُلْمٍ کی جامع تعبیر سے ان کی خباثتوں کے ذکر کا اعادہ کیا اور پھر حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ سے ان کی سزا بیان کی یعنی یہ حرمت طیبات کا حکم ان مزکورہ بالا اسباب کی بنا پر نافذ کیا گیا اور ان شرارتوں کی ان کو یہ سزا دی گئی کہ بعض حلال اور پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردی گئیں۔ لیکن حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ یہاں طَیِّبَات سے وہ چیزیں مراد نہیں ہیں جو سورة انعام کی اس آیت میں مذکور ہیں۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ الایۃ (انعام رکوع 18) کیونکہ یہ چیزیں تو انجیل سے پہلے ہی حرام ہوچکی تھیں لہذا ان کی حرمت کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انکار کی سزا کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے اس لیے یہاں مراد یہ ہے کہ حکومت اور باقی انعامات ان سے چھین لیے گئے وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ الخ یہ ان کے لیے تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi