Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 162

سورة النساء

لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۱۶۲﴾٪  2

But those firm in knowledge among them and the believers believe in what has been revealed to you, [O Muhammad], and what was revealed before you. And the establishers of prayer [especially] and the givers of zakah and the believers in Allah and the Last Day - those We will give a great reward.

لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں اور زکٰوۃ کے ادا کرنے والے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں یہ ہیں جنہیں ہم بہت بڑے اجر عطا فرمائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَّـكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ ... But those among them who are well-grounded in knowledge..., firm in the religion and full of beneficial knowledge. We mentioned this subject when we explained Surah Al Imran. The Ayah; ... وَالْمُوْمِنُونَ ... and the believers..., refers to the well-grounded in knowledge; ... يُوْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ... believe in what has been sent down to you and what was sent down before you; Ibn Abbas said, "This Ayah was revealed concerning Abdullah bin Salam, Thalabah bin Sayah, Zayd bin Sa`yah and Asad bin Ubayd who embraced Islam and believed what Allah sent Muhammad with." Allah said, ... وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَةَ ... and those who perform the Salah, ... وَالْمُوْتُونَ الزَّكَاةَ ... and give Zakah, This could be referring to the obligatory charity due on one's wealth and property, or those who purify themselves, or both. Allah knows best. ... وَالْمُوْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ ... and believe in Allah and in the Last Day, They believe that there is no deity worthy of worship except Allah, believe in Resurrection after death and the reward or punishment for the good or evil deeds. Allah's statement, ... أُوْلَـيِكَ ... It is they, those whom the Ayah described above. ... سَنُوْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا To whom We shall give a great reward. means Paradise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

162۔ 1 ان سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے۔ 162۔ 2 ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ 162۔ 3 اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰۃ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہر اور ان کا تزکیہ کرنا یا دونوں ہی مراد ہیں۔ 162۔ 4 یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا اور سزا پر یقین رکھتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١٣] علم میں پختہ وہ لوگ ہیں جو منزل من اللہ وحی کے متلاشی ہوں اور وہیں سے دلیل اور رہنمائی حاصل کریں۔ لکیر کے فقیر نہ ہوں۔ نہ تقلید آباء کے پابند ہوں اور نہ ایسے رسم و رواج کے جو دین میں راہ پا کر اس کا حصہ بن گئے ہوں جیسے بدعات وغیرہ۔ جیسے عبداللہ (رض) بن سلام اور ان کے ساتھی تھے۔ [٢١٤] دوہرا اجر پانے والے :۔ آپ نے فرمایا && اہل کتاب میں سے جو شخص (خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی) اسلام لائے اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کا اور دوسرا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا۔ && (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل من اسلم من اہل الکتابین) [٢١٥] اس آیت پر آ کر یہود کے اس مطالبہ کے جواب ختم ہو رہے ہیں جو انہوں نے آپ سے کیا تھا کہ اگر آپ پر قرآن ایسے یکبارگی آسمان سے اترے جیسے سیدنا موسیٰ پر تورات کی الواح نازل ہوئی تھیں، تو تب ہی ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ درمیان میں یہود کے تورات پر ایمان لانے کی کیفیت، ان کی بدکرداریاں اور عہد شکنیاں ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اہل علم کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب پر پوری طرح ایمان لاتے ہیں پھر اس کے احکام کی پوری طرح پابندی کرتے ہیں۔ حیلے بہانے، اعتراضات، مطالبات اور کٹ حجتی نہیں کرتے۔ ایسے ہی لوگ اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ : علم میں پختہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی طرف سے آنے والی وحی کے متلاشی ہوں اور اسی سے دلیل اور رہنمائی حاصل کریں، نہ لکیر کے فقیر ہوں نہ تقلید آباء کے اور ” المومنون “ سے مراد تورات پر صحیح ایمان رکھنے والے ہیں، یعنی یہ مومن اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ “ یہ اہل کتاب کے مومنوں کو بشارت ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لے آئے، مثلاً عبداللہ بن سلام (رض) وغیرہ۔ وَالْمُقِيْمِيْنَ الصَّلٰوةَ : اس سے پہلے اور بعد والی تمام صفات مرفوع ہیں اور یہ منصوب ہے، اسے ” منصوب علی المدح “ یا ” علی الاختصاص “ کہا جاتا ہے۔ گویا یہ ” اَخُصُّ “ کا مفعول ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور جو خاص کر نماز ادا کرنے والے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The previous verses referred to Jews who adhered to their disbelief and obstinately continued practising what was blame-worthy. The present verse now cites those who were, no doubt, from among the People of the Book, but, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came with his mission and they found in him, fully and unmistakably, all qualities the Last among Prophets was supposed to have according to the prophesies of their Scriptures, they believed in him - like Sayyidna ` Abdullah ibn Salam, Usayd and Tha&labah, may Allah be pleased with them all. The words of praise in this verse are for these blessed souls. Commentary The great reward promised to those referred to here is because of their qualities of faith and righteous deeds. As far as salvation as such is concerned that depends on the correction of essentials of doctrinal matters - of course, subject to the condition, that one&s life ends with the blessing of faith (&Iman).

ربط آیات : اوپر کی آیات میں ان یہود کا ذکر تھا جو اپنے کفر پر قائم تھے اور مذکورہ بالا منکرات میں مبتلا تھے، آگے ان حضرات کا بیان ہے جو اہل کتاب تھے اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی اور وہ صفات جو ان کی کتابوں میں خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق موجود تھیں آپ میں پوری پوری دیکھیں تو ایمان لے آئے، جیسے حضرت عبداللہ بن سلام و اسید و ثعلبہ (رض) ، ان آیات میں انہی حضرات کی تعریف و توصیف مذکور ہے۔ خلاصہ تفسیر لیکن ان (یہود) میں جو لوگ علم (دین) میں پختہ (یعنی اس کے موافق عمل کرنے پر مضبوط) ہیں (اور اسی آمادگی نے ان پر حق کو واضح اور قبول حق کو سہل کردیا جو اگٓے اصلاً و فرعاً مذکور ہے) اور جو (ان میں) ایمان لے آنے والے ہیں کہ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ کے پاس بھیجی گئی اور اس کتاب پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو آپ سے پہلے (نبیوں کے پاس) بھیجی گئی (جیسے توریت و انجیل) اور جو (ان میں) نماز کی پابندی کرنے والے ہیں اور جو (ان میں) زکوة دینے والے ہیں اور جو (ان میں) اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اعتقاد رکھنے والے ہیں (سو) ایسے لوگوں کو ہم ضرور (آخرت میں) ثواب عظیم عطا فرما دیں گے۔ معارف ومسائل آیت میں جن حضرات کے لئے اجر کامل کا وعدہ ہے وہ ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ متصف ہونے کی وجہ سے ہے اور جہاں تک نفس نجات کا تعلق ہے وہ عقائد ضروریہ کی تصحیح پر موقوف ہے، بشرطیکہ خاتمہ بالایمان کی سعادت نصیب ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيْمِيْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝ ٠ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَنُؤْتِيْہِمْ اَجْرًا عَظِيْمًا۝ ١٦٢ۧ رسخ رُسُوخُ الشیء : ثباته ثباتا متمکّنا، ورَسَخَ الغدیر : نضب ماؤه، ورَسَخَ تحت الأرض، والرَّاسِخُ في العلم : المتحقّق به الذي لا يعرضه شبهة . فَالرَّاسِخُونَ في العلم هم الموصوفون بقوله تعالی: الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا [ الحجرات/ 15] ، وکذا قوله تعالی: لكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ [ النساء/ 162] . ( ر س خ ) رسوخ الشیئ ۔ کسی چیز کا محکم اور جائے گیر ہوجانا ۔ رسخ الغدیر ۔ جوہڑ کا پانی خشک ہو کر زمین میں جذب ہوگیا ۔ الراسخ فی العلم وہ محقق جسے کوئی اشکال اور شبہ پیش نہ آئے ۔ گویا یہ راسخ فی العلم لوگ وہی ہیں ۔ جو آیت :۔ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا [ الحجرات/ 15] پس سچے مسلمان تو وہ ہیں ) جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر ( کسی طرح کا ) شک وشبہ نہیں کیا میں مذکورہ صفات کیساتھ متصف ہیں اور اسیطرح سورة نساء میں فرمایا :۔ لكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ [ النساء/ 162] لیکن ( اے پیغمبر ) ان میں سے جو علم میں بڑی پائے کا رکھتے ہیں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے لکن الراسخون فی العلم منھم۔ مگر ان میں سے جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں) قتادہ سے مروی ہے کہ لفظ ” شکن “ یہاں استثناء کے معنی دے رہا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ لفظ الا اور لفظ لکن کبھی نفی کے بعد ایجاب یا ایجاب کے نفی میں ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ الا کا اطلاق کر کے اس سے لکن مراد لیا جاتا ا ہے جس طرح یہ قول باری ہے وماکان لمومن ان یقتل مومنا الاخطا۔ اس کے معنی ہیں لیکن اگر وہ اسے خطاء قتل کر دے تو ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس جگہ الا کو لکن کی جگہ لایا گیا تاہم لکن حرف الا سے اس چیز میں جدا ہے کہ الا کے ذریعے کل میں سے بعض کو خارج کردیا جاتا ہے اور لکن ایک کے بعد بھی ہوسکتا ہے مثلا آپ یہ کہیں ” ماجاءنی زید لکن عمرو “ (میرے پاس زید ن ہیں آیا لیکن عمر آیا) لکن کی حقیقت استدراک یعنی ماقبل کے کسی بیان کی تلافی کرنا یا غلطی کی اصلاح کرنا ہے جبکہ الا تخصیص کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ غلوفی الدین کیا ہے ؟

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٢) لیکن جو اہل علم توریت کا صحیح علم رکھتے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی وہ قرآن کریم اور تمام کتب سماویہ پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا اقرار کرتے ہیں، اگرچہ دوسرے یہودی اس کا اقرار نہ کریں ، اور تمام مومن قرآن کریم اور تمام آسمانی کتب کا اقرار کرتے ہیں اور پانچوں نمازوں کو ادا کرتے اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیتے ہیں، نیز تمام آسمانی کتب کا اقرار کرتے ہیں اور پانچوں نمازوں کو ادا کرتے اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیتے ہیں، نیز تمام آسمانی کتب اور قرآن کریم پر ایمان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اور بعث بعد الموت پر بھی ایمان رکھتے ہیں اگرچہ یہود اس کا اقرار نہ کریں اور ہم ایسے اہل ایمان کو جنت میں اجر عظیم عطا فرمائیں گے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٢ (لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) یعنی یہود میں سے اہل علم لوگ جیسے عبداللہ بن سلام ( علیہ السلام) اور ایسے ہی راست باز لوگ جنہوں نے تورات کے علم کی بنا پر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ ( یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ) (وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط) (اُولٰٓءِکَ سَنُؤْتِیْہِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا ) ۔ ان آیات میں ابھی بھی تھوڑی سی گنجائش رکھی جا رہی ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی ایسا عنصر اگر اب بھی موجود ہو جو حق کی طرف مائل ہو ‘ اب بھی اگر کوئی سلیم الفطرت فرد کہیں کونے کھدرے میں پڑا ہو ‘ اگر اس کان میں ہیرے کا کوئی ٹکڑا کہیں ابھی تک پڑا رہ گیا ہو ‘ تو وہ بھی نکل آئے اس سے پہلے کہ آخری دروازہ بھی بند کردیا جائے۔ تو ابھی آخری دروازہ نہ تو منافقین پر بند کیا گیا ہے اور نہ ان اہل کتاب پر ‘ بلکہ لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ فرما کر ایک دفعہ پھر صلائے عام دے دی گئی ہے کہ اہل کتاب میں سے اب بھی اگر کچھ لوگ مائل بہ حق ہیں تو وہ متوجہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

203. Those well acquainted with the true teachings of the Scriptures, and whose minds are free from prejudice, obduracy, blind imitation of their forefathers and bondage to animal desires, will be disposed to follow those teachings. Their attitude is bound to be altogether different from the general attitude of those Jews apparently immersed in unbelief and transgression. Such people realize, even at first glance, that the Qur'anic teaching is essentially the same as that of the previous Prophets, and hence feel no difficulty in affirming it.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :203 یعنی ان میں سے جو لوگ کتب آسمانی کی حقیقی تعلیم سے واقف ہیں اور ہر قسم کے تعصب ، جاہلانہ ضد ، آبائی تقلید اور نفس کی بندگی سے آزاد ہو کر اس امر حق کو سچے دل سے مانتے ہیں جس کا ثبوت آسمانی کتابوں سے مِلتا ہے ، ان کی روش کافر وظالم یہودیوں کی عام روش سے بالکل مختلف ہے ۔ ان کو بیک نظر محسوس ہو جاتا ہے کہ جس دین کی تعلیم پچھلے انبیاء نے دی تھی اسی کی تعلیم قرآن دے رہا ہے ، اس لیے وہ بے لاگ حق پرستی کے ساتھ دونوں پر ایمان لے آتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4ـ:162) لکن الراسخون فی العلم منہم۔ میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب آیہ 160 میں الذین ھادوا کی طرف راجع ہے۔ یؤمنون کا فاعل راسخون فی العلم اور المؤمنون ہیں۔ المقیمین الصلوۃ۔ نماز کو عزم و اہتمام کے ساتھ پڑھنے والے۔ مقیمین اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ المقیمین کا عطف المؤمنون پر ہے۔ نحوی قاعدہ کے مطابق المقیمون ہونا چاہیے تھا اسے اپنے معطوف علیہ کے خلاف اعراب کیوں دیا گیا۔ اس کے متعلق علماء نے متعدد جواب دئیے ہیں۔ لیکن سب سے بہتر وہ توجیہ ہے جو سیبویہ نے کی ہے کہ مقیمین پر نصب تعظیم کی وجہ سے ہے۔ اور اس نے اس کی کئی مثالیں بھی دی ہیں وھذا اصح ما قیل فیہ (قرطبی) ۔ اولئک سنؤتیہم اجرا عظیما۔ (یہی لوگ جنہیں ہم عنقریب اجر عظیم دیں گے) اشارہ اولئک کے مشار الیہم راسخون فی العلم۔ المؤمنون۔ مقیمین الصلوۃ ۔ مؤتون الزکوۃ۔ المؤمنون باللہ والیوم الاخر ہیں۔ مؤتون۔ اسم فاعل جمع مذکر حاضر۔ الموتی واحد ایتاء مصدر باب افعال ۔ رہنے والے ادا کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی اندھی تقلید نہیں کرتے۔ (وحیدی) یہ مومنین اہل کتاب کو بشارت ہے جو حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لے آئے (کبیر اس آیت میں والمتعیمین الصلوٰۃ منصوب علی ٰ المدح ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 162 لغات القرآن : الراسخون، پختہ ، پکے۔ المقیمین، قائم کرنے والے۔ الموتون، دیتے ہیں۔ سنئوتیھم، جلد ہی ہم ان کو دیں گے۔ تشریح : گذشتہ آیات میں یہودیوں کے سواداعظم کا ذکر تھا اور جو عذاب الیم کا وعدہ تھا وہ ان ہی کے لئے تھا۔ لیکن اس قوم میں گنے چنے افراد ایسے بھی نکل آئے (مثلاً عبد اللہ بن سلام (رض) جو دنیا کے علم میں نہیں بلکہ دین کے علم میں پختہ تھے۔ جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاکر مومن بن گئے۔ جنہوں نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بڑے انعام کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اور اللہ اپنے نیک بندوں کو اسی طرح اجر عظیم عطا فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد ان سے یہ حضرات اور ان کے امثال ہیں جیسے عبداللہ بن سلام واسید وثعلبہ (رض) اور آیت کا یہی شان نزول ہے اور آیت میں اجرکامل کی تعلیق ان امور مذکورہ پر مقصود ہے اور نفس اجرومطلق نجات صرف عقائد ضروریہ کی تصیح سے وابستہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں سے اچھے لوگوں کا استثنیٰ اور ان کی خوبیوں کا ذکر۔ قران مجید کے اسلوب بیان اور انصاف پسندی پر قربان جائیں جو نہی یہود و نصاریٰ کے جرائم کی فہرست اور انکے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے گھناؤنے کردار کا ذکر کرتا ہے۔ معاً ان کے نیک علماء اور زعما کے اچھے کردار کی تحسین کرتا ہے کہ بیشک انکی اکثریت برے لوگوں پر مشتمل ہے لیکن یہ تمام کے تمام ایسے نہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہیں اور ہوں گے کہ جب بھی ان کے سامنے حقائق منکشف ہوتے ہیں تو وہ مذہبی تعصب اور گروہ بندی کی دیواریں توڑ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں اور تمام اعمال بجا لاتے ہیں جن کا اسلام انہیں کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دامن عمل میں ہر خیر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے انکا رب راضی ہوتا ہے۔ ایسے خوش نصیب اور عظیم لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ عنقریب ان کو دنیا میں عزت و رفعت ملے گی اور آخرت میں ا جر عظیم سے نوازا جائے گا۔ راسخ العلم کی سورة آل عمران آیت ٧ میں تعریف کی گئی ہے کہ وہ متشابہات کے پیچھے لگنے کی بجائے مرکزی اور بنیادی احکام کو سامنے رکھتے ہوئے متشابہ آیات کا مفہوم متعین کرتے ہیں اور ان کے اوصاف یہ ہیں کہ یہ لوگ ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس سے استقامت اور رحمت کے طلبگار رہتے ہیں یہاں دین کے چار بنیادی عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتب آسمانی اور قرآن مجید پر مکمل ایمان لانا نماز کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کرنا، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانا شامل ہے ایسے لوگوں کے اجر عظیم کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ارشاد فرمایا ہے : (عن أَبی بُرْدَۃَ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی کو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت فرمایا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلے۔ دوسرا یہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ ارکان اسلام پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ ٢۔ آخرت پر یقین ایمان کا حصہ ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے ساتھ پہلی کتب سماوی پر بھی ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن ایمان کی مبادیات اور راسخ العلم کی صفت : ١۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ : ٣) ٢۔ پہلی کتابوں پر مجموعی طور پر اور قرآن مجید پر کلی طور پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : ٤) ٣۔ اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابوں، اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : ٢٨٥) ٤۔ راسخ العلم کی صفت۔ (النساء : ١٦٢) ٥۔ صحابہ کرام جیسا ایمان لانا فرض ہے۔ ( البقرۃ : ١٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٦٢۔ غرض پختہ علم اور اس پر روشن ایمان انسان کو اس طرح ہدایت دیتے ہیں کہ انسان پورے دین پر ایمان لانے والا بن جاتا ہے ۔ انسان اپنے علم کی پختگی اور صاف ایمان کی وجہ سے اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ دین اللہ وحدہ کی طرف سے آیا ہے اور یہ کہ اپنے مزاج کے اعتبار سے دین ایک ہی ہے ۔ قرآن کریم کی جانب سے یہ اشارہ دینا کہ علم کی گہرائی کے نتیجے میں صحیح معرفت حاصل ہوتی ہے اور دل کے دروازے نور ایمان کے لئے کھل جاتے ہیں ‘ نزول قرآن کے دور میں نہایت ہی معنی خیز ہے یہ قرآن کریم کے اشارات میں سے ایک اہم اشارہ ہے اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے زمانے میں صورت حال کیا تھی ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں نفس انسانی کی صورت حال کیا ہوتی تھی ۔ سطحی علم کی مثال اس طرح ہوتی ہے جس طرح کفر اور انکار ۔ یہ کفر اور انکار ان کے دل کے اندر صحیح معرفت کے اترنے میں حائل ہوجاتے ہیں۔ ہر دور میں یوں ہوتا ہے کہ سطحی علم کی وجہ سے حقیقت کی معرفت حاصل نہیں ہوتی ۔ جو لوگ علم میں گہرائی تک چلے جاتے ہیں اور انہیں حقیقی علم حاصل ہوجاتا ہے تو ان کی آنکھوں کے سامنے شواہد آجاتے ہیں جو اس کائنات کے اندر پنہاں ہیں ۔ اگر انکے سامنے شواہد نہیں آتے تو کم ازکم ایسے سوالات آجاتے ہیں جن کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا اور محض کسی سماوی نظریہ حیات کو قبول کرکے ہی وہ ان سوالات کے جواب سے جان چھڑا سکتے ہیں ۔ مثلا یہ کہ اس کائنات کا ایک الہ ہے ۔ وہ اس پر حاوی ہے ‘ اس کا مدیر ہے ‘ اور اس پر پوری طرح متصرف ہے ۔ اس کا ایک ہی ارادہ ہے ۔ اس نے اس کائنات کے اندر یہ ناموس اعظم جاری کیا ہے ۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے دل ہدایت کیلئے بےتاب ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان پر راز کھول دیتے ہیں اور انکی روح ہدایت کو پالیتی ہے ۔ وہ لوگ جو ادھر ادھر سے کچھ معلومات چن لیتے ہیں اور اپنے آپ کو علماء سمجھنے لگتے ہیں ‘ ان کے اس سطحی علم کا پردہ ان کے اور ان دلائل ایمان کے درمیان حائل ہوجاتا ہے جو اس کائنات میں پوشیدہ ہوتے ہیں ‘ اس لئے وہ ایمان تک نہیں پہنچ پاتے ۔ ان پر ایمان ظاہر ہی نہیں ہوتا ‘ اس لئے کہ ان کا علم ناقص اور سطحی ہوتا ہے اور یہ سطحی علم اس کائنات کے سوالات کا ادراک نہیں کرسکتا ۔ ان کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ ان کے دل مائل بہ ایمان وہدایت نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اس کے شائق ہوتے ہیں ۔ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ جب دل میں ہوں وہ ایمان کا ذوق نہیں رکھتا اور نہ اسے نور ایمان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر وہ ایمان رکھتا ہے تو اس دین پر رکھتا ہے جو اسے بطور عصبیت جاہلیہ وراثت میں ملا ہوتا ہے ۔ چناچہ وہ اس دین سے دور ہوجاتا ہے جو خدائے متعال کی جانب سے نازل ہوا ہے اور جسے سلسلہ رسل کے ذریعے بھیجا گیا ہے ۔ جس کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں صلی اللہ علیہم وسلم اجمعین ۔ تفسیر ماثور میں یہ روایات آئی ہیں ‘ کہ یہ اشارہ سب سے پہلے ان لوگوں کی طرف ہے جو لوگ یہودیوں میں سے اپنے رسوخ فی العلم کی وجہ سے ہدایت پاگئے تھے ۔ جنہوں نے رسول کی دعوت پر لبیک کہا اور جن کے نام ہم نے گذشتہ سطور میں دے دیئے ہیں لیکن آیت عام ہے اور اس کے مفہوم میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو کبھی بھی اپنے رسوخ فی العلم کی وجہ سے اس دین میں شامل ہوں گے یا وہ اپنی ایمانی بصیرت کی وجہ سے دین اسلام کو قبول کرلیں گے ہیں خواہ تاریخ کے کسی بھی دور میں ہوں۔ (مثلا ڈاکٹر محمد اسد ‘ حقیقت حال اللہ ہی جانتا ہے) (آیت) ” لکن الرسخون فی العلم منھم والمومنون یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک والمقیمین الصلوۃ والموتون الزکوۃ والمومنون باللہ والیوم الاخر اولئک سنوتیھم اجراعظیما “۔ (٤ : ١٦٢) ” مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اے نبی ‘ تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی ۔ اس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوۃ کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخرت پر سچا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے ۔ (آیت) ” (الرسخون فی العلم) جو اگلی پچھلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان لانے والے اور اقامت صلوۃ کرنے والے ‘ یہ صفات اہل ایمان مسلمانوں کی ہیں اس لئے کہ مسلمانوں کی صفت عظیمہ اقامت صلوۃ ‘ ایتائے زکوۃ ‘ ایمان باللہ اور ایمان بالاخرت ہے ۔ ان دونوں کیلئے اجر کا اعلان ہوتا ہے کہ ان کو ہم اجر عظیم عطا کریں گے ۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ والمقیمین میں عطف المومنوں پر ہے جبکہ المومنوں کا اعراب رفعی ہے ۔ اس لحاظ سے ” والمقیمون “ ہونا چاہئے لیکن اسے اعراب حالت نصبی کا دیا گیا یعنی اخص المقیمین۔ (میں نماز قائم کرنیوالوں کا ذکر خصوصیت سے کرتا ہوں) یہ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اقامت صلوۃ کی اہمیت دین میں کس قدر عظیم ہے ۔ اس طرز ادا کے نظائر کلام عرب اور قرآن مجید میں بالعموم پائے جاتے ہیں اور اس سے سیاق کلام میں کسی بات کی تائید مطلوب ہوتی ہے ۔ عام قرات تو یہی ہے ۔ البتہ ایک قرات والمقیمون بھی آتی ہے اور یہ عبداللہ ابن مسعود (رض) کے مصحف میں وارد ہے ۔ سیاق کلام کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مکالمہ جاری ہے اور اس جگہ یہ بات بالخصوص یہودیوں کے ساتھ ہو رہی ہے ۔ یہ بات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بارے میں ہو رہی ہے جس کی وہ تکذیب کرتے تھے ۔ اسی طرح وہ اللہ کے درمیان تفریق کرتے تھے اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نشانات ومعجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ مثلا یہ کہ آپ آسمان سے ایک کتاب اتار کر لائیں ۔۔۔۔۔ چناچہ یہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے نہ یہ کوئی اعجوبہ ہے ۔ رسول بھیجنا تو اللہ کی سنت ہے اور اس سنت پر اللہ تعالیٰ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور تک عمل پیرا رہے ہیں ۔ یہ سب رسول ‘ اللہ نے خوشخبری دینے اور ڈرانے کیلئے بھیجے ہیں ۔ یہ اپنے بندوں کے ساتھ اللہ کی شفقت اور رحمت کا تقاضا تھا ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے رسول اس لئے بھی بھیجے کہ وہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرنا چاہتا تھا اور یوم الحساب آنے سے پہلے انہیں خبردار اور متنبہ کرنا چاہتا تھا ۔ یہ سب حضرات ایک ہی وحی لیکر آئے ۔ ان کا مقصد ایک تھا ‘ اس لئے ان کے درمیان تفریق کرنا محض ضد اور ہٹ دھرمی ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی کرکے انکار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود اس پیغمبر کی وحی پر شاہد عادل ہے ۔ اس کی شہادت کے بعد اب کسی اور کی شہادت اور تصدیق کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ اور اس اللہ کی گواہی پر پھر فرشتے بھی گواہ ہیں ۔ فرماتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل کتاب میں جو راسخ فی العلم ہیں وہ ایمان لے آئے ہیں اس آیت میں یہ بتایا کہ سارے اہل کتاب ان صفات سے متصف نہیں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو علم میں پختہ ہیں اصحاب بصیرت ہیں وہ سابقہ کتب الٰہیہ اور موجودہ کتاب الٰہی یعنی قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں نمازیں قائم کرتے ہیں۔ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں۔ ان لوگوں کو ہم اجر عظیم عطا کریں گے جو ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے لیے مقرر اور موعود ہے گو ایسے لوگ یہودیوں میں کم ہیں چند ہی افراد ایمان لائے مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی (رض) ۔ جس طرح کفر پر جمے رہنے والوں کے لیے عذاب الیم تیار فرمایا ہے اسی طرح ایمان قبول کرنے والوں اور اعمال صالحہ اختیار کرنے والوں سے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

108 یہ ان علماء اہل کتاب کیلئے بشارت ہے جو آخری پیغمبر اور آخری کتاب پر ایمان لے آئے تھے یہ پہلی زجروں سے متعلق ہے یعنی یہ یہود تو ایسی خباثتیں کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے اور قرآن کو نہیں مانتے مگر ان میں جو راسخ فی العلم علماء ہیں وہ تو سب کچھ مان چکے ہیں وہ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات پر ایمان لاتے ہیں اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر بھی ایمان لا چکے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 لیکن ان یہود میں سے وہ لوگ جو علم دین میں پختہ اور مضبوط ہیں اور جو ان میں ایمان لانے والے ہیں کہ یہ سب اس کتاب پر ایمان لائے ہیں جو آپ کی جانب بھیجی گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ سے پہلے نازل ہوچکی ہیں یعنی دوسرے انبیاء پر جو نازل ہوئی ہیں جیسے توریت انجیل وغیرہ اور جو ان میں نماز کی پابندی کرنے والے ہیں اور جو ان میں زکوۃ کے ادا کرنے والے ہیں اور جو ان میں اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن یعنی قیامت پر اعتقاد رکھنے والے ہیں تو ایسے لوگوں کو ہم ضرور بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے۔ (تیسیر) جو لوگ یہود میں سے مسلمان ہوگئے تھے جیسے عبداللہ بن سلام اور ثعلبہ بن سعید اور زید بن سعید اور اسید بن عبیدہ وغیرہ ان کی تعریف کی گئی ہے اور اجر عظیم کا وعدہ اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط رکھا گیا ہے ورنہ نفس نجات کے لئے تو وہی عام قاعدہ ہے کہ توحید و رسالت پر ایمان رکھنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ سنوتیھم کے سین کو سکی نے تاکید کا قرار دیا ہے اور سکی نے مستقبل قریب کے لئے لیا ہے۔ ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں دونوں کی رعایت رکھی ہے والمقیمون کی بجائے مشہور قرأت و المقیمین ہے اور بطور مدح کے نصب اختیار کیا گیا ہے جیسا کہ کلام عرب سے واقف لوگوں پر مخفی نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں اور کئی جگہ پر بھی یہ صورت اختیار کی گئی ہے۔ اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور یدگر ابنیاء کی نبوت کا اثبات ہے اور بعثت انبیاء کی حکمت کا بیان ہے اور ان لوگوں کی غلطی کا اظہار ہے جو نئے نئے سوالات کرتے ہیں اور نئے نئے معجزات طلب کرتے ہیں آگے آیتوں کا تعلق اس میں یسئلک اھل الکتاب کے ساتھ ہے اور یہود کے ان بےہودہ سوالات کے ساتھ تعلق ہے جو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور شرارت کیا کرتے تھے اور اپنے سوالات کے پورا ہونے کو آپ کی نبوت کے صدق کا معیار قرار دیا کرتے تھے اس کا جواب ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی نئے نبی نہیں ہیں اور نہ ان کی وحی کو نئی وحی ہے بلکہ یہ تو ایک سلسلہ ہے جو برابر یکے بعد دیگرے چلا آتا ہے پھر ان سے نئے نئے سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)