Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 165

سورة النساء

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾

[We sent] messengers as bringers of good tidings and warners so that mankind will have no argument against Allah after the messengers. And ever is Allah Exalted in Might and Wise.

ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالٰی پر رہ نہ جائے اللہ تعالٰی بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رُّسُلً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ... Messengers as bearers of good news as well as of warning, meaning, the Prophets bring good news to those who obey Allah and practice the good things that please Him. They also warn against His punishment and torment for those who defy His commandments. Allah said next, ... لِيَلَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا in order that mankind should have no plea against Allah after the Messengers. And Allah is Ever All-Powerful, All-Wise. Allah sent down His Books and sent His Messengers with good news and warnings. He explained what He likes and is pleased with and what He dislikes and is displeased with. This way, no one will have an excuse with Allah. Allah said in other Ayat, وَلَوْ أَنَّأ أَهْلَكْنَـهُمْ بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُواْ رَبَّنَا لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولاً فَنَتَّبِعَ ءَايَـتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَى And if We had destroyed them with a torment before this, they would surely have said: "Our Lord! If only You had sent us a Messenger, we should certainly have followed Your Ayat, before we were humiliated and disgraced." (20:134) and, وَلَوْلا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ And if (We had) not (sent you to the people of Makkah) in case a calamity should seize them for (the deeds) that their hands have sent forth. (28:47) It is recorded in the Two Sahihs that Ibn Mas`ud said that the Messenger of Allah said, لاَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللهِ مِنْ أَجْلِ ذلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ أَحَدْ أَحَبْ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَجْلِ ذلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ وَلاَ أَحَدَ أَحَبْ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللهِ مِنْ أَجْلِ ذلِكَ بَعَثَ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِين No one is more jealous than Allah. This is why He prohibited all types of sin committed in public or secret. No one likes praise more than Allah, and this is why He has praised Himself. No one likes to give excuse more than Allah, and this is why He sent the Prophets as bearers of good news and as warners. In another narration, the Prophet said, مِنْ أَجْلِ ذلِكَ أَرْسَلَ رُسُلَهُ وَأَنْزَلَ كُتُبَه And this is why He sent His Messengers and revealed His Books.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

165۔ 1 ایمان والوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دینا اور کافروں کو اللہ کے عذاب اور بھڑکتی ہوئی جہنم سے ڈرانا۔ 165۔ 2 یعنی نبوت کا یہ سلسلہ ہم نے اس لئے قائم فرمایا کہ کسی کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمیں تو تیرا پیغام پہنچا ہی نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے سے) پہلے ہی ہلاک کردیتے تو وہ کہتے اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پیشتر تیری آیات کی پیروی کرلیتے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١٩] کائنات میں انسان کی حیثیت اور اللہ کی طرف سے اتمام حجت :۔ اللہ تعالیٰ نے فطرتاً انسان کو اتنی عقل عطا کی ہے کہ وہ اللہ اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرسکے انسان اتنا تو جانتا ہی ہے کہ کوئی چیز اس کے خالق کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر کوئی چیز مدتہائے دراز سے ایک مربوط نظام کے تحت حرکت کر رہی ہے تو لازماً وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس چیز کی نگہداشت کرنے والی بھی کوئی ہستی ضروری موجود ہے کیونکہ کوئی چیز خواہ کتنی ہی مضبوط ہو، کچھ مدت کے بعد بگڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور اگر اس بگاڑ کو بر وقت درست نہ کردیا جائے تو با لآخر تباہ ہوجاتی ہے۔ لہذا اگر یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہوتی تو کب کی فنا ہوچکی ہوتی لیکن چونکہ سب انسان ایک جیسی عقل کے مالک نہیں ہوتے لہذا اللہ تعالیٰ نے رسول بھیج کر انسان کو تمام حقائق سے مطلع فرما دیا کہ انسان کی اس پوری کائنات میں حیثیت کیا ہے ؟ اسے یہاں رہ کر کیا کردار ادا کرنا ہے اور اگر وہ اس کردار کو ادا کرنے میں کامیاب رہا تو اس کی اخروی زندگی میں اسے اس کا کیا کچھ اجر ملے گا اور اگر ناکام رہا تو اسے اخروی زندگی میں کیا کچھ دکھ اور مصائب برداشت کرنا ہوں گے اور رسول بھیجنے کا یہ طریقہ اس لیے جاری کیا کہ قیامت کے دن کوئی شخص اللہ کے حضور یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے تو ان حقائق کا علم ہی نہ تھا لہذا میں معذور ہوں۔ اور یہ انبیاء اور رسل دنیا میں اس کثرت سے آئے اور اپنے بعد نازل شدہ کتابیں چھوڑ گئے کہ عالم انسانی پر کوئی ایسا دور نہیں آیا جبکہ کوئی نبی یا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کوئی کتاب دنیا میں موجود نہ ہو، جو انسان کی ان حقائق تک رہنمائی نہ کرتی ہو۔ پھر بھی اگر انسان اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے یا اللہ کی تعلیمات کا انکار کر دے تو اس کا وبال اس کی اپنی گردن پر ہوگا۔ اس آیت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچ چکا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو ان لوگوں تک بھی پہنچا دیں، جن تک یہ پیغام ابھی تک نہ پہنچا ہو۔ کیونکہ ایسے علماء ہی حقیقتاً انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ۔۔ : یعنی انبیاء کی بعثت کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور اپنی اصلاح کرلیں انھیں جنت کی خوش خبری دیں اور جو کفر اور نادانی پر جمے رہیں انھیں ان کے غلط رویے کے انجام بد سے ڈرائیں، تاکہ اس طرح ان پر اتمام حجت ہوجائے اور وہ اللہ کے ہاں کوئی عذر پیش نہ کرسکیں کہ ہمارے پاس تو تیری طرف سے کوئی خوش خبری دینے والا یا ڈرانے والا آیا ہی نہیں اور یہ مقصد کتاب و شریعت کے نازل کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت بس یہ دونوں چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی امام یا مجتہد کو دین میں حجت نہیں بنایا) عام اس سے کہ وہ کتاب یک بارگی دے دی جائے یا تدریجاً نازل ہو۔ بعثت کے اس اصلی مقصد پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ کتاب کے حسب ضرورت تدریجاً نازل کرنے سے تو یہ مقصد زیادہ کامل طریقے سے پورا ہوتا ہے، پھر ان کا یہ کہنا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح یک بارگی کتاب لائیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں، یہ محض ضد اور عناد ہے۔ (کبیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then comes verse رُّ‌سُلًا مُّبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ (-- Messengers giving good tidings and warning...) which succinctly tells that Almighty Allah consistently sent messengers to convey good tidings to all believers and to warn all disbelievers so that there remains no room for the excuse that they did not know the will of God and His Messengers --had they known about it, they would have certainly followed it! Now, that Almighty Allah has sent messengers with miracles and His messengers have shown the straight path of truth, the option of not accepting the true faith cannot be accepted from anyone, under any pretext or excuse. Such is the nature of Divine Revelation. Wahy is an absolute argument, final, conclusive and disarming. No argument stands operative against it. In fact, all arguments lie surrendered under its weight. And this is the wisdom of Allah and His modus oper¬andi. It has been narrated by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) عنہما that a group of Jews came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He said to them: Surely, you do know that I am a true messenger of Ajllah? They refused to accept that whereupon came the following verse (166): لَّـٰكِنِ اللَّـهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ. &But Allah bears witness (to your prophethood) through what He has revealed to you ...& The verse addressed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) declares that Allah is a witness to his prophet-hood through the miraculous Qur&an, a perfect message from out of His Knowledge. The Book has been revealed to him with full realization that he is deserving of it, and the angels too join in the testimony. After the very witnessing of the All-Knowing, All-Aware Allah, there is nothing left to argue about. The text, after having confirmed the veracity of the glorious Qur&an and the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، turns to those who still deny them, conceal his character traits and circumstantial indicators of his appearance present in the Torah .and, sordidly enough, try to keep others away from the true faith by bringing out before them things which are not there or things .which have .been jumbled together to distort the truth. For such people, there shall be no forgiveness and no guidance either. Thus, it becomes very clear that guidance or the ability to find the straight path depends on following the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and straying away, whatever be its nature, is nothing but hostility towards him. This, then, comprehensively refutes all erroneous ideas of the Jews.

رسلاً مبشرین ومنذرین، اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو برابر بھیجا کہ مؤ منوں کو خوش خبری سنائیں اور کافروں کو ڈرائیں تاکہ لوگوں کو قیامت کے دن اس عذر کی جگہ نہ رہے کہ ہم کو تیری مرضی اور غیر کی مرضی معلوم نہ تھی، معلوم ہوتی تو ضرور اس پر چلتے، سو جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو معجزے دے کر بھیجا اور پیغمبروں نے رائے حق بتلائی، تو اب دین حق کے قبول نہ کرنے میں کسی کا کوئی عذر نہیں سنا جاسکتا، وحی الہی ایسی قطعی حجت ہے کہ اس کے روبرو کوئی حجت نہیں چل سکتی، بلکہ سب حجتیں قطع ہوجاتی ہیں اور یہ اللہ کی حکمت اور تدبر ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت آپ کے پاس آگئی، آپ نے ان سے فرمایا، بخدا تم یقیناً جانتے ہو کہ میں خدا کا برحق رسول ہوں۔ انہوں نے اس کا انکار کردیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوگئی، لکن اللہ یشھدبما انزل الیک .... جس میں بتلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب معجز کے ذریعہ سے جو اس کے علمی کمال کا مظہر ہے آپ کی نبوت پر گواہ ہے، اس نے یہ جان کر کتاب نازل کردی ہے کہ آپ اس کے اہل ہیں اور فرشتے بھی اس پر گواہ ہیں اور علیم وخبیر ذات کی شہادت کے بعد پھر کس دلیل کی حاجت باقی رہ جاتی ہے۔ قرآن مجید اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کے بعد فرماتے ہیں کہ اب جو لوگ منکر ہیں اور توریت میں جو آپ کے اوصاف اور حالات موجود تھے ان کو چھپاتے ہیں، اور لوگوں پر کچھ کا کچھ ظاہر کر کے ان کو بھی دین حق سے باز رکھتے ہیں سو ایسوں کو نہ مغفرت نصیب ہوگی نہ ہدایت، جس سے خوب معلوم ہوگیا کہ ہدایت آپ کی متابعت میں منحصر ہے، اور گمراہی آپ کی مخالفت کا نام ہے .... اس سے یہودیوں کے سب خیالات کی تغلیط کردی گئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۝ ١٦٥ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حجة : الدلالة المبيّنة للمحجّة، أي : المقصد المستقیم الذي يقتضي صحة أحد النقیضین . قال تعالی: قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] ، وقال : لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150] ، فجعل ما يحتجّ بها الذین ظلموا مستثنی من الحجة وإن لم يكن حجة، وذلک کقول الشاعر : 104- ولا عيب فيهم غير أنّ سيوفهم ... بهنّ فلول من قراع الکتائب ويجوز أنّه سمّى ما يحتجون به حجة، کقوله تعالی: وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] ، فسمّى الداحضة حجّة، وقوله تعالی: لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، أي : لا احتجاج لظهور البیان، الحجۃ اس دلیل کو کہتے ہیں جو صحیح مقصد کی وضاحت کرے اور نقیضین میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] کہدو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے ۔ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150]( یہ تاکید ) اس لئے کی گئی ہے ) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ لگا سکیں ۔ مگر ان میں سے جو ظالم ہیں ( وہ الزام دیں تو دیں ۔ اس آیت میں ظالموں کے احتجاج کو حجۃ سے مستثنیٰ کیا ہے گو اصولا وہ حجت میں داخل نہیں ہے ۔ پس یہ استشہاد ایسا ہی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (100) ولا عیب فیھم غیر ان سیوفھم بھن للول من قراع الکتاب ان میں صرف یہ عیب پایا جاتا ہے ک لشکروں کے ساتھ لڑنے سے ان کی تلواروں پر دندا نے پڑنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اس احتجاج کو حجت قرار دینا ایسا ہی ہو ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] اور جو لوگ خدا کے بارے ) میں بعد اس کے کہ اسے ( مومنوں نے ) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں انکے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے ۔ میں ان کے باطل جھگڑے کو حجت قراد دیا گیا ہے اور آیت کریمہ : لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور ہم میں اور تم میں کچھ بحث و تکرار نہیں ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ظہور بیان کی وجہ سے بحث و تکرار کی ضرورت نہیں ہے عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٥) رسولوں کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ قیامت کے دن یہ عذر پیش نہ کریں کہ رسولوں کو ہمارے پاس کیوں نہیں بھیجا جو انبیاء کرام کی تبلیغ پر لبیک نہ کہے، حالانکہ اللہ نے لوگوں کو انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس انکار رسل پر نافرمانوں سے انتقام لینے میں بہت زبردست اور حکیم ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٥ (رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ) (لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ ط) یہاں پر ایک طرف للِنَّاسِ کا ’ ل ‘ نوٹ کیجئے اور دوسری طرف عَلَی اللّٰہِ کا عَلٰی۔ یہ دونوں حروف متضاد معانی پیدا کر رہے ہیں۔ لِلنَّاسِ کے معنی ہیں لوگوں کے حق میں حجت ‘ جبکہ عَلَی اللّٰہِ کے معنی ہیں اللہ کے خلاف حجت۔ (وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ ) اب آپ آخرت کے احتساب کے فلسفے کو سمجھئے۔ قیامت کے دن ہر کسی کا امتحان ہوگا اور امتحان سے پھر نتائج نکلیں گے ‘ کوئی پاس ہوگا اور کوئی فیل۔ لیکن امتحان سے پہلے کچھ پڑھایا جانا بھی ضروری ہے ‘ کسی کو جانچنے سے پہلے اسے کچھ دیا بھی جاتا ہے۔ چناچہ ہمیں دیکھنا ہے کہ قیامت کے امتحان کے لیے ہمیں کیا پڑھایا گیا ہے ؟ اس آخری جانچ پڑتال سے پہلے ہمیں کیا کچھ دیا گیا ہے ؟ قرآن مجید کے بنیادی فلسفہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمع ‘ بصر اور عقل تین بڑی چیزیں دی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر روح بھی و دیعت کی ہے اور نفس انسانی میں خیر اور شرکا علم بھی رکھا ہے۔ ان باتوں کی بنا پر انسان وحئ الٰہی کی راہنمائی کے بغیر بھی اللہ کے حضور جواب دہ (accountable) ہے کہ جب تمہاری فطرت میں نیکی اور بدی کی تمیز رکھ دی گئی تھی تو تم بدی کی طرف کیوں گئے ؟ تو گویا اگر کوئی نبی یا رسول نہ بھی آتا ‘ کوئی کتاب نازل نہ بھی ہوتی ‘ تب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے محاسبہ ناحق نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ بنیادی چیزیں جو امتحان اور احتساب کے لیے ضروری تھیں وہ اللہ تعالیٰ انسان کو دے چکا تھا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ وہ پھر بھی انسانوں پر اتمام حجت کرتا ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ حجت کیا ہے ؟ بنیادی حجت تو عقل ہے جو اللہ نے ہمیں دے رکھی ہے : (اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً ) ( بنی اسرائیل) ۔ انسانی نفس کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز بھی ‘ ودیعت کردی گئی ہے : (وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰٹہَا فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰٹہَا۔ ) (الشمس) پھر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح پھونکی گئی ہے۔ ان تمام صلاحیتوں اور اہلیتوں کی بنا پر جوابدہی ‘ (accountability) کا جواز برحق ہے۔ کوئی نبی آتا یا نہ آتا ‘ اللہ کی یہ حجت تمام انسانوں پر بہر حال قائم ہے۔ اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کرنے کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجے۔ یہ اضافی شے ہے کہ اللہ نے تم ہی میں سے کچھ لوگوں کو چنا ‘ جو بڑے ہی اعلیٰ کردار کے لوگ تھے۔ تم جانتے تھے کہ یہ ہمارے ہاں کے بہترین لوگ ہیں ‘ ان کے دامن کردار پر کوئی داغ دھبہ نہیں ہے ‘ ان کی سیرت و اخلاق کھلی کتاب کی مانند تمہارے سامنے تھے۔ ان کے پاس اللہ نے اپنی وحی بھیجی اور واضح طور پر بتادیا کہ انسان کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اس طرح اس نے تمہارے لیے اس امتحان کو آسان کردیا ‘ تاکہ اب کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ‘ کوئی یہ دلیل پیش نہ کرسکے کہ مجھے تو علم ہی نہیں تھا۔ پروردگار ! میں تو بےدین ماحول میں پیدا ہوگیا تھا ‘ وہاں سب کے سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ پروردگار ! میں تو اپنی دو وقت کی روٹی کے دھندے میں ہی ایسا مصروف رہا کہ مجھے کبھی ہوش ہی نہیں آیا کہ دین و ایمان اور اللہ و آخرت کے بارے میں سوچتا۔ لیکن جب رسول ( علیہ السلام) آجاتے ہیں اور رسولوں کے آنے کے بعد حق کھل کر سامنے آجاتا ہے ‘ حق و باطل کے درمیان امتیاز بالکل واضح طور پر قائم ہوجاتا ہے تو پھر کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے محاسبہ کے مقابلے میں پیش کرنے کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہتی۔ تو یہ ہے اتمام حجت کا فلسفہ اور طریقہ اللہ کی طرف سے۔ رسول ( علیہ السلام) اس کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں ؟ کسی کو زبردستی تو ہدایت پر نہیں لاسکتے۔ ہاں جن کے اندر احساس جاگ جائے گا وہ رسول ( علیہ السلام) کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے ‘ ان سے فائدہ اٹھائیں گے ‘ سیدھے راستے پر چلیں گے۔ ان کے لیے اللہ کے رسول مبشرہوں گے ‘ اللہ کے فضل اور جنت کی نعمتوں کی بشارت دینے والے : (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌلا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) (الواقعہ ) ۔ ١ ور جو لوگ اس کے بعد بھی غلط راستوں پر چلتے رہیں گے ‘ تعصبّ میں ‘ ِ ضد اور ہٹ دھرمی میں ‘ مفادات کے لالچ میں ‘ اپنی چودھراہٹیں قائم رکھنے کے لالچ میں ‘ ان کے لیے رسول ( علیہ السلام) نذیر ہوں گے۔ ان کو خبر دار کریں گے کہ اب تمہارے لیے بد ترین انجام کے طور پر جہنم تیار ہے۔ تو رسولوں ( علیہ السلام) کی بعثت کا بنیادی مقصد یہی ہے ‘ یعنی تبشیر اور انذار ۔ اس ساری وضاحت کے بعد اب دوبارہ آیت کے الفاظ کو سامنے رکھیے : (رُُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ) رسول بھیجے گئے بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر یہ تبشیر اور انذار کس لیے ؟ (لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ ط) تاکہ باقی نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت ‘ کوئی عذر ‘ کوئی بہانہ ‘ رسولوں کے آنے کے بعد۔ (وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ ) اور اللہ زبردست ہے ‘ حکیم ہے۔ وہ عزیز ہے ‘ غالب ہے ‘ زبردست ہے ‘ بغیر رسولوں کے بھی محاسبہ کرسکتا ہے ‘ اس کا اختیار مطلق ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ حکیم بھی ہے ‘ اس نے محاسبۂ اخروی کے لیے یہ مبنی بر حکمت نظام بنایا ہے۔ اس ضمن میں ایک بات اور نوٹ کرلیجئے کہ رسالت کا ایک تکمیلی مقصد بھی ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کامل ہوا ‘ اور وہ ہے روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کرنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت کا آغاز اسی تبشیر اور انذار ہی سے فرمایا ‘ جیسا کہ سورة الاحزاب میں ارشاد ہے : (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ) بحیثیت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بنیادی مقصد کا اظہار ہے ‘ لیکن اس سے بلند تر درجے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تکمیلی حیثیت کا اظہار سورة التوبہ آیت ٣٣ ‘ سورة الفتح آیت ٢٨ اور سورة الصف آیت ٩ میں ایک جیسے الفاظ میں ہوا ہے : (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ) وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق دے کر تاکہ وہ اسے غالب کر دے پورے دین پر۔ تمام انبیاء و رسل (علیہ السلام) میں یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امتیازی شان ہے۔ میری کتاب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد بعثت میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

207. It is emphasized that the essential function of all the Prophets was the same: to announce good tidings of salvation and felicity to those who believe in the teachings revealed by God and mend their conduct accordingly, and to warn those who persist in false beliefs and evil ways that they will have to face dire consequences. 208. God's purpose in sending the Prophets was to establish His plea against mankind. God did not want criminals to have any basis on which to plead that their actions were done in ignorance. Prophets were therefore sent to all parts of the world, and many Scriptures were revealed. These Prophets communicated knowledge of the Truth to large sections of people, and left behind Scriptures which have guided human beings in all ages. If anyone falls a prey to error, in spite of all this, the blame does not lie with God or the Prophets. The blame lies rather with those who have spurned God's message even after having received it, and with those who knew the Truth but failed to enlighten others.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :207 یعنی ان سب کا ایک ہی کام تھا اور وہ یہ کہ جو لوگ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیم پر ایمان لائیں اور اپنے رویہ کو اس کے مطابق درست کرلیں انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری سنا دیں ، اور جو فکر و عمل کی غلط راہوں پر چلتے رہیں ان کو اس غلط روی کے برے انجام سے آگاہ کر دیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :208 یعنی ان تمام پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک ہی غرض تھی اور وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی پر اتمام حجت کرنا چاہتا تھا ، تاکہ آخری عدالت کے موقع پر کوئی گمراہ مجرم اس کے سامنے یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم ناواقف تھے اور آپ نے ہمیں حقیقت حال سے آگاہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا ۔ اسی غرض کے لیے خدا نے دنیا کے مختلف گوشوں میں پیغمبر بھیجے اور کتابیں نازل کیں ۔ ان پیغمبروں نے کثیر التعداد انسانوں تک حقیقت کا علم پہنچا دیا اور اپنے پیچھے کتابیں چھوڑ گئے جن میں سے کوئی نہ کوئی کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر زمانہ میں موجود رہی ہے ۔ اب اگر کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس کا الزام خدا پر اور اس کے پیغمبروں پر عائد نہیں ہوتا بلکہ یا تو خود اس شخص پر عائد ہوتا ہے کہ اس تک پیغام پہنچا اور اس نے قبول نہیں کیا ، یا ان لوگوں پر عائد ہوتا ہے جن کو راہ راست معلوم تھی اور انہوں نے خدا کے بندوں کو گمراہی میں مبتلا دیکھا تو انہیں آگاہ نہ کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:165) حجۃ۔ عذر۔ حجت۔ جمع حجج۔ منذرین۔ اسم فاعل جمع مذکر منصوب ڈرانے والے۔ بعد الرسل۔ یعنی نبیوں اور رسولوں کے بھیجنے کے بعد ان کی بعثت اور کتب سماویہ کے ان پر نازل کرنے کے بعد۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی انبیا ( علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لیے آئیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو درست کرلیں انہیں جنت کی خوش خبری دیں اور جو کفر و نافرمانی پر جمے رہیں انہیں اس طرح ان پر اتمام حجت ہوجائے اور وہ اللہ کے ہاں کوئی عذار پیش نہ کرسکیں کہ ہمارے پاس تو تیری طر سے کوئی خوشخبری دینے یا تنبیہ کرنے ولا نہیں آیا اور یہ مقصد کتاب و شریعت کے نازل کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے عام اس سے کہ وہ کتاب یک بارگی دی جائے یا تدریجا نازل ہو، بعثت کے اس مقصد اصلی پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ کتاب کے حسب ضرورت تدریجا نازل کرنے سے تو یہ مقصد علی وجہ الا تم حاصل ہوتا ہے پھر ان کا یہ کہنا کہ مو سیٰ ( علیہ السلام) کی طرح یکباری گی کتاب لائیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں یہ محض ضد اور عناد ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اللہ تعالیٰ پورے زور اور اختیار والے ہیں کہ بلا ارسال رسل بھی سزادیتے تو بوجہ اس کے کہ مالک حقیقی ہونے میں منفرد ہیں ظلم نہ ہوتا اور حقیقت میں عز کا حق کسی کو نہ تھا لیکن چونکہ بڑی حکمت والے بھی ہیں اس لیے حکمت اسی ارسال کو مقتضی ہوئی تاکہ ظاہری عذر بھی نہ رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی انوکھی نبوت کے ساتھ نہیں آئے ان سے پہلے بیشمار انبیاء آئے لہٰذا بڑے بڑے انبیاء کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد ان کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں اپنا خلیفہ نامزد فرمایا اور اسے عقل و فکر کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کم ازکم اتنی عقل و فکر ضرور عطا فرمائی ہے کہ وہ اچھے و برے اور نفع و نقصان میں تمیز کرسکے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی پہچان کے لیے دنیا میں بیشمار شواہد و قرائن پیدا فرمائے پھر جزوی تشریحات کو چھوڑ کر دین کے بنیادی ارکان کو ہمیشہ سے ایک رکھا۔ تاکہ جس دین کے بغیر گزارہ نہیں اسے سمجھنا اور اپنا ناانسان کے لیے آسان رہے۔ اس فطری، ماحولیاتی، اور آفاقی رہنمائی کے باوجود انسان پر یہ کرم کیا کہ پے درپے انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ایسی بےمثال شخصیات تھیں جو پیدائشی طور پر گفتار کے سچے، کردار کے پکے اور اس قدر خیر خواہ اور مخلص ہوا کرتے تھے کہ جن کو دیکھ کر پتھر بھی پکار اٹھے کہ یہ واقعی اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ پھر ہر نبی کو اس کے حالات کے مطابق ایسے ایسے معجزات عطا کے گئے کہ ان کے جانی دشمن بھی تنہائی میں ان کے سچے ہونے کا اعتراف کیا کرتے تھے۔ انبیاء اس قدر مخلصانہ اور بےپناہ جدوجہد کرتے اور اس کے بدلے ایک پائی بھی وصول کرنے کے روا دار نہیں ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے مشن کے لیے جان کی بازی لگا دی اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار اور انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کو مسترد کردیا۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر تھے یہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو لوگوں کے لیے اختیاری رکھا ہے اور انبیاء (علیہ السلام) کو صرف بتلانے اور سمجھانے والا بنا کر بھیجا تھا۔ جن کی تبلیغ وتعلیم کا مقصد لوگوں کو اچھے برے اعمال اور ان کے انجام سے آگاہ کرنا ہے۔ تاکہ محشر کے دن خدا کے حضور مجرم پیش ہوں تو ان کے پاس یہ حجت نہ ہو کہ ہمیں یاد دلانے اور سمجھانے والا نہیں آیا تھا۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے رسول ! یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور لوگوں کے انکار سے دلبرداشتہ اور ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں اگر یہ لوگ ہٹ دھرمی اور دنیا پرستی کی وجہ سے آپ کی رسالت کا انکار اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے انحراف کرتے ہیں تو اس سے خدا کی خدائی اور آپ کی پیغمبرانہ شان اور کام میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دنیا کا منصب اور عہدہ نہیں کہ جس کو لوگ مسترد کردیں گے تو اسے نامزد کرنے والا بالآخر واپس بلانے پر مجبور یا صاحب منصب خود بھاگ جائے گا۔ یہ تو نبوت کا مقام عالی ہے کہ ساری مخلوق بھی ٹھکرا دے تو نبی کی نبوت اور اس کے اجر وثواب میں رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں آتی۔ اس لیے آپ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچاتے جائیں اسے معلوم ہے کہ کون اس کے پیغام کا حق ادا کرتا ہے اور کس کس نے اس کا انکار کرنا ہے زمین و آسمان کا مالک گواہی دیتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اسی نے اپنے علم کے مطابق آپ پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے لہٰذا اپنا کام جانفشانی اور پورے اخلاص کے ساتھ جاری رکھیں لوگ تائید نہیں کرتے تو نہ کریں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آپ کی نبوت، اخلاص اور کار نبوت کی ادائیگی پر گواہ ہیں یاد رکھیں کہ اللہ کی گواہی سے بڑھ کر کسی کی گواہی معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔ مسائل ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد لوگوں تک اللہ کے پیغامات پہنچانا ہے۔ ٢۔ رسول لوگوں کو جنت کی خوش خبری اور عذاب سے ڈرانے والے تھے۔ ٣۔ رسول اتمام حجت کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے گواہی دیتے ہیں کہ جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا وہ حق ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِءَلَّا یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ) (ہم نے رسول بھیجے خوشخبری دینے والے ڈرانے والے تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر حجت باقی نہ رہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بھیجا ان کے واسطہ سے اپنے بندوں کو توحید کا اور عبادت کا حکم دیا۔ رسولوں نے اہل ایمان کو اور اعمال صالحہ اختیار کرنے والوں کو اجر وثواب اور آخرت کی نعمتوں کی بشارت دی۔ اور منکرین کو دوزخ کے عذاب سے ڈرایا اور بتایا کہ ایمان قبول نہ کرو گے تو دوزخ میں جاؤ گے۔ اس سے بندوں پر حجت قائم ہوگی کہ وہ یوں نہ کہیں (لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰی) (کیوں نہیں بھیجا کوئی رسول ہماری طرف سو ہم آپ کی آیات کا اتباع کرتے اس سے پہلے ہم ذلیل ہوتے اور رسوا ہوتے) اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنے رسول بھیج دئیے کتابیں بھیج دیں بندوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت قائم نہیں رہی بلکہ بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہے۔ پھر فرمایا (وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْماً ) اور اللہ زبردست ہے (وہ جسے چاہے عذاب دے سکتا ہے) اور وہ حکمت والا بھی ہے ( اس نے اپنی حکمت کے مطابق رسول بھیجے تاکہ لوگوں پر حجت قائم ہوجائے اور جس ہلاک ہونا ہو وہ اپنے عقیدہ اور عمل کی وجہ سے ہلاک ہو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 ان سب کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر اس لئے بنا کر بھیجا یعنی ایمان لانے والوں کو نجات کی بشارت دیتے ہیں اور منکروں کو عذاب سے ڈراتے ہیں تاکہ ان رسولوں کی تشریف آوری کے بعد لوگوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر کوئی الزام قائم کرنے کا موقعہ باقی نہ رہے اور لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی حضور میں کوئی عذر پیش کرنے کا موقعہ نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ (تیسیر) انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام چونکہ مومنین کو نجات کی بشارت دیتے ہیں اور منکرین حق کو عذاب سے ڈراتے ہیں اس لئے ان کو مبشر اور منذر فرمایا۔ بہرحال ! انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا یہ سبب ہے کہ اگر انبیاء تشریف نہ لاتے تو لوگوں کی جانب سے یہ عذر پیش کیا جاتا کہ ہمارے پاس کوئی سمجھانے والا تو آیا نہیں جو ہم کو کفر و ایمان کے حسن و قبح سے مطلع کرتا اور ہماری عقل اس کام کے لئے ناکافی تھی تو اب ہم کو عذاب کیوں دیا جاتا ہے۔ جیسا کو سولہویں پارے کے آخر میں فرمایا ہے ولوانا اھلکناھم بعذاب من قبلہ الخ یعنی اگر رسول بھیجنے سے قبل ان کو عذاب کرتے تو یوں کہتے کہ آپ نے کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا۔ اگر آپ رسول بھیجتے تو ہم تو تیرے تمام احکام قبول کرتے اس لئے اس اعتراض کا دروازہ بند کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے پے در پے آگے پیچھے اپنے رسول اور رسولوں پر وحی کے ذریعہ احکام کے بھیجنے کا طریقہ جاری کیا۔ ابن مسعود سے مرفوعاً روایت ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی غیر مند اور غیرت دار نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام فواحش اور بےحیائی کے کاموں کو حرام کردیا ہے۔ خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے ہوں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی اپنی مدح کو پسند کرنے والا نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف اور اپنی مدح خود فرمائی ہے اور ال لہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی عذر سننے والا اور قبول کرنیوالا نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بھیجا اور کتابیں نازل کیں۔ (بخاری مسلم) مطلب یہ ہے کہ بندوں کی طرف سے یہ عذر کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کیں حضرت حق تعالیٰ نے اس کو روکنے کی غرض سے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو اور بھی کئی جگہ مختلف عنوان سے بیان فرمایا پندرھویں پارے میں ہے وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا۔ عزیزاً حکیما کا یہاں یہ مطلب ہے کہ کمال قوت کا مالک ہے جو ارادہ کرتا ہے اس کو پورا کرلیتا ہے بڑی حکمت کا مالک ہے کہ اس نے مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیاء کو پیدا کیا اور ہر نبی کو کسی نہ کسی قسم کی وحی سے سرفراز فرمایا۔ بعض لوگوں نے یوں کہا ہے کہ وہ کمال قوت کا مالک ہے اگر چاہتا تو بلاپیغمبر بھیجے بھی عذاب کرسکتا تھا کیونکہ اس کو مخلوق پر کامل ملکیت حاصل ہے مگر چونکہ حکیم ہے اس لئے اپنی حکمت غامضہ کے پیش نظر اس نے ہدایت کا یہ سلسلہ جاری کردیا تاکہ بندوں کو ہدایت قبول کرنے میں آسانی ہو اور حلال اور برے بھلے کو پہچان سکیں۔ بعض حنفیہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ احکام شریعت پر خواہ وہ مامورات ہوں یا منہیات بندوں کو عذاب نہیں کرے گا جب تک ان کے پاس رسول بھیج دے۔ لیکن توحید اس پر موقوف نہیں کیونکہ دلائل توحید عالم میں اس قدر کثرت کے ساتھ ہیں اور خود انسان میں بھی اس کی توحید کے دلائل اتنے کافی ہیں کہ اس کے قائل ہونے کے لئے انسانی عقل کفایت کرتی ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی عذر کی جگہ نہ رہے کہ ہم کو تیری مرضی و نامرضی معلوم ہوتی تو اس پر چلتے یہ اللہ کی حکمت اور تدبیر ہے اور اگر زبردستی کے تو اس کی حاجت نہیں۔ (موضح القرآن) غرض بنی نوع انسان کے لئے یہ آیت نہایت اہم اور قابل غور ہے۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری کے بعد واقعہ یہ ہے کہ قیامت میں کسی عذر کی گنجائش باقی نہیں نہ کافروں کو نہ فاسقوں کو اللھم وفقنا لما تحب وترضی ربنا ولک الحمد اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اپنی اور ملائکہ کی شہادت پیش کرتے ہیں غالباً مکہ کے رئوساء نے یا مدینے کے کافروں نے یہود سے دریافت کیا تھا کہ تمہارے ہاں بھی اس رسول کا کچھ ذکر ہے یا تمہاری کتابوں میں بھی اس پیغمبر کا کوئی ذکر ہے۔ ا س پر یہود نے کہا ہم اس کو نہیں جانتے اور نہ اس پیغمبر کو پہچانتے ہیں چناچہ کافروں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہود کا یہ مقولہ نقل کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (تسہیل)