Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 169

سورة النساء

اِلَّا طَرِیۡقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا ﴿۱۶۹﴾

Except the path of Hell; they will abide therein forever. And that, for Allah , is [always] easy.

بجز جہنم کی راہ کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے ، اور یہ اللہ تعالٰی پر بالکل آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِلاَّ طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ... Except the way of Hell, to dwell therein forever..., and this is the exception. ... وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًا and this is ever easy for Allah. Allah then said, يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَأمِنُواْ خَيْرًا لَّكُمْ ... O mankind! Verily, there has come to you the Messenger with the truth from your Lord, so believe in him, it is better for you. This Ayah means, Muhammad has come to you with guidance, the religion of truth and clear proof from Allah. Therefore, believe in what he has brought you and follow him, for this is better for you. Allah then said, ... وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... But if you disbelieve, then certainly to Allah belongs all that is in the heavens and the earth. Allah is far too rich than to need you or your faith, and no harm could ever affect Him because of your disbelief. Allah said in another Ayah, وَقَالَ مُوسَى إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِى الاٌّرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِىٌّ حَمِيدٌ And Musa said: "If you disbelieve, you and all on earth together, then verily, Allah is Rich (Free of all needs), Owner of all praise." (14:8) Allah said here, ... وَكَانَ اللّهُ عَلِيمًا ... And Allah is Ever All-Knowing, He knows those who deserve to be guided, and He will guide them. He also knows those who deserve deviation, and He leads them to it. ... حَكِيمًا All-Wise. in His statements, actions, legislation and all that He decrees.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا طَرِيْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭ۔۔ : یعنی جب کفر ہی کی حالت میں مرجائیں گے اور مرنے سے پہلے توبہ نہیں کریں گے تو سیدھے جہنم میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کو جہنم میں لے جانا اور پھر ہمیشہ وہاں رکھنا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں ہے، لہٰذا اب بھی ان کے لیے موقع ہے کہ کفر و عناد سے باز آجائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اختیار کرلیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا طَرِيْقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝ ٠ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝ ١٦٩ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ يسر اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٩ (اِلاَّ طَرِیْقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ) اب ذرا اس آیت کا تقابل کیجیے آیت ١٤٧ کے ساتھ (مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ ۔۔ ) اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا۔۔ ؟ یقیناً اللہ ایذا پسند (sadist) نہیں ہے ‘ اسے لوگوں کو عذاب دے کر خوشی نہیں ہوگی۔ لیکن یہ اس کا ضابطہ اور قانون ہے ‘ اسی پر اس نے دنیا بنائی ہے ‘ اور اپنے اسی ضابطے اور قانون کے عین مطابق وہ مستحقین کو جزا و سزا دے گا۔ یہ اس پر کوئی بھاری گزرنے والی بات نہیں ہے کہ وہ اپنی ہی مخلوق کو سزا دے۔ بعض ملنگ قسم کے صوفی اس طرح کی باتیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ بڑا رحیم ہے ‘ کیا وہ اپنی ہی مخلوق کو جہنم میں جھونک دے گا ؟ یہ تو ایسے ہی ڈراوے کے لیے ‘ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے عذاب اور سزا کی باتیں کی گئی ہیں۔ جیسے باپ بچوں کو ڈانٹتا ہے میں تیری ہڈیاں توڑ دوں گا ‘ ماں کہتی ہے میں تیرا قیمہ کر دوں گی۔ تو کیا وہ سچ مچ اپنے بچوں کا قیمہ کر دے گی ؟ لہٰذا یہ تو صرف ڈراوا ہے ‘ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے خیالات و نظریات گمراہ کن ہیں۔ ماں کے لیے تو اپنے بچے کو بڑے سے بڑے قصور پر بھی آگ میں ڈالنا ممکن نہیں ہے ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا 4) اللہ کے لیے یہ بہت آسان ہے ‘ بہت ہلکی بات ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:169) یسیرا۔ آسان ۔ سہل ۔ یسر مادہ۔ صفت مشبہ واحد مذکر منصوب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی جب کفر ہی کی حالت میں مرجائینگے اور مرنے سے پہلے توبہ نہ کرینگے تو سیدگی جہنم میں جائیں گے او اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کی جہنم میں لے جانا پھر ہمشہ وہاں رکھنا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں ہے (وحیدی) لہذا اب بھی ان کے لیے موقع ہے کہ کفر وعناد سے بار آجائیں اور ا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اختیار کرلیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اوپر یہود کے شبہ کا جو کہ نبوت محمدیہ کے متعلق تھا جواب اور نبوت کا اثبات مع وعید منکرین نہایت بلاغت اور وضوح سے مذکور ہوچکا آگے عام خطاب سے نبوت کا وجوب فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

کفار اور مشرکین ہمیشہ جہنم میں رہیں گے : (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ )[ البقرۃ : ٣٩] ” وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں اور ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ آگ والے ہیں اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ “ (اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰاہ النَّارُوَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) [ المائدۃ : ٧٢] ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اس کے لیے جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے اور لوگوں کو حق سے روکنے والے گمراہ ہیں۔ ٢۔ ظلم اور کفر کرنے والوں کو اللہ معاف نہیں فرمائے گا۔ ٣۔ کافروں کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کفار کو عذاب دینا مشکل نہیں۔ تفسیر بالقرآن کفار کے لیے معافی نہیں : ١۔ موت کی تمنا پوری نہ ہوگی۔ (البقرۃ : ٩٤) ٢۔ عذر قبول نہ ہوگا۔ (البقرۃ : ١٢٣) ٣۔ سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ : ١٢٣) ٤۔ جہنم میں رخصت نہ ہوگی۔ (طہ : ٧٤) ٥۔ جہنم سے نہیں نکل سکیں گے۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٦۔ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (آل عمران : ٩١) ٧۔ دنیا میں واپس نہیں آسکیں گے۔ (السجدۃ : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْراً ) (کافروں کی مغفرت نہ فرمانا اور ان کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈال دینا اللہ کے لیے آسان ہے) اسے کوئی چیز روکنے والی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 یقین جانو ! ان دلائل واضحہ کے بعد بھی جو لوگ دین حق کے منکر رہے اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے رہے اور دوسروں کے لئے بھی مانع ہوئے تو یہ لوگ ایسی انتہائی گمراہی میں جا پڑے جو راہ حق سے بہت دور ہے بلاشبہ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کافرانہ روش پر چلے اور کتمان حق کر کے دوسروں پر ظلم کیا اور راہ حق سے مانع بن کر دوسروں کو نقصان پہنچایا تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا اور کبھی مغفرت نہیں فرمائے گا اور نہ آخرت میں ان کو سوائے دوزخ کی راہ کے اور کوئی راہ دکھائے گا اس دوزخ میں ان کی حالت یہ ہوگی کہ یہ لوگ اس میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے اور ان کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان اور سہل ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سزا ایک معمولی بات ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر جو دلائل قاطعہ بیان کئے گئے ہیں ان کے باوجود بھی جو شخص ان کی نبوت اور ان کے لائے ہوئے مذہب سے کفر کرے گا اور امر حق کے قبول کرنے سے انکار کرے گا اور نہ صرف انکار بلکہ دوسروں کو بھی اس امر حق کے قبول کرنے سے روکے گا خواہ کتمان حق کے ذریعہ روکے جیسا کہ یہود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت کو چھپاتے ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان کو نہیں پہچانتے یا کوئی اور ذریعہ اختیار کرے۔ جیسے منافق کہ چپکے چپکے لوگوں کو شکو ک و شبہات میں مبتلا کرتے رہتے ہیں تو ایسے لوگ انتہائی گمراہی میں جا پڑے جو گمراہی راہ حق سے بہت دور ہے دوسری آیت میں اخروی سزا کا بیان ہے دنیا میں تو یہ لوگ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں اور آخرت میں ان لوگوں کی جو امر حق کے منکر ہیں اور کتمان حق سے دوسروں کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور راہ حق تلاش کرنے والوں پر ظلم کر رہے ہیں کہ ان کو بہکا کر راہ حق سے ہٹا رہے ہیں۔ تو ان کو اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا اور سوائے دوزخ کی راہ اور کوئی راہ ان کو نہیں دکھائے گا یعنی جنت میں جانا تو کیسا جنت کا راستہ بھی دیکھنا نصیب نہ ہوگا بلکہ دوزخ کی جانب ان کی رہنمائی کی جائے گی اور یہ اس دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ آخر میں فرمایا ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں بلکہ اس پر بہت آسان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ انما امرہ اذا ارادشیئاً ان یقول لہ کن فیکون صد کے معنی بعض نے لازم اور بعض نے متعدی کئے ہیں ہم نے دوسری شکل اختیار کی ہے ہو سکتاے کہ صدعن سبیل اللہ کے یہ معنی ہوں کہ اللہ کی راہ کو اختیار کرنے سے اٹکے اور روکے واللہ اعلم۔ اب آگے بنی نع انسان کو عام خطاب ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عام اعلان ہے اور لوگوں کو ان پر ایمان لانے کی عام دعوت ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)