Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 175

سورة النساء

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ اعۡتَصَمُوۡا بِہٖ فَسَیُدۡخِلُہُمۡ فِیۡ رَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلَیۡہِ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿۱۷۵﴾ؕ

So those who believe in Allah and hold fast to Him - He will admit them to mercy from Himself and bounty and guide them to Himself on a straight path.

پس جو لوگ اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیا انہیں تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لے گا اور انہیں اپنی طرف کی راہ راست دکھا دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَمَّا الَّذِينَ امَنُواْ بِاللّهِ وَاعْتَصَمُواْ بِهِ ... So, as for those who believed in Allah and held fast to (depend on) Him, by worshipping Him and relying on Him for each and every thing. Ibn Jurayj said that this part of the Ayah means, "They believe in Allah and hold fast to the Qur'an." ... فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ ... He will admit them to His mercy and grace, meaning, He will grant them His mercy and admit them into Paradise, and will increase and multiply their rewards and their ranks, as a favor and bounty from Him. ... وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا and guide them to Himself by a straight path. and a clear way that has no wickedness in it or deviation. This, indeed, is the description of the believers in this life and the Hereafter, as they are on the straight and safe path in matters of action and creed. In the Hereafter, they are on the straight path of Allah that leads to the gardens of Paradise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣٢] لہذا جو شخص اس قرآن کو مشعل راہ بنائے رکھے گا وہ نہ راہ بھٹکے گا نہ بھولے گا اور نہ غلط راہوں پر جا پڑے گا۔ اللہ کی رحمت اور اس کا فضل اس کے شامل حال رہیں گے اور یہی قرآن کی سیدھی راہ اسے اللہ تک پہنچا دے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَسْتَـفْتُوْنَكَ ۭ: سورت کی ابتدا تقویٰ کے حکم کے بعد اموال کے احکام سے ہوئی تھی، اب آخر میں انھی احکام کے ساتھ سورت کا اختتام ہے۔ درمیان سورت میں مخالفین سے مجادلہ اور ان کی تردید ہے۔ (رازی) کلالہ پر بحث اس سورت کی آیت (١١) میں گزر چکی ہے۔ جابربن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے تو میں اس وقت بیمار اور بےہوش تھا، آپ نے وضو کیا، پھر وضو کے بچے ہوئے پانی سے مجھ پر چھینٹے مارے، یا فرمایا : ” اس پر چھینٹے مارو۔ “ جس سے مجھے ہوش آگیا، میں نے عرض کی کہ میں کلالہ ہوں، میری میراث کیسے تقسیم ہوگی، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ بخاری، المرض، باب وضوء العائد للمریض : ٥٦٧٦۔ مسلم : ١٦١٦ ] لَيْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَهٗٓ اُخْتٌ۔۔ : بعض نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو، خواہ اس کا باپ زندہ ہی ہو، اسے کلالہ کہا جائے گا، مگر یہ صحیح نہیں، صحیح معنی وہی ہے جو پہلے گزرا، یعنی کلالہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ یا دادا نہ ہو اور اولاد بھی نہ ہو، کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث نہیں ہوتی، باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ اولاد نہ ہونے کے ساتھ ساتھ باپ دادا بھی نہ ہوں۔ یوں اولاد کی نفی تو الفاظ سے واضح ثابت ہوگئی اور باپ کی نفی اشارے سے۔ اولاد سے مراد بیٹا، بیٹی اور بیٹے کی اولاد ہے، اسی طرح بہن سے مراد یہاں سگی بہن یا علاتی ( باپ شریک) بہن ہے، کیونکہ اخیافی بہن، جو صرف ماں کی طرف سے ہو، اس کا حکم پہلے سورة نساء (١٢) میں گزر چکا ہے۔ (ابن کثیر) ” ولد “ کا لفظ بیٹا بیٹی دونوں پر بولا جاتا ہے، اس بنا پر بعض نے کہا کہ بیٹی ہونے کی صورت میں بہن محروم رہے گی، مگر صحیح بخاری (٦٧٤١) میں معاذ (رض) کا فیصلہ ہے کہ اگر ایک شخص فوت ہوجائے اور اس کے ورثاء میں صرف بیٹی اور بہن ہے تو بیٹی کو نصف اور باقی بہن کو (بوجہ عصبہ ہونے کے ) دیا جائے گا۔ اور بخاری ہی میں ابن مسعود (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرنے والے کی ایک بہن، ایک بیٹی اور ایک پوتی کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف ہے، پوتی کے لیے چھٹا حصہ، تاکہ دو ثلث پورے ہوجائیں اور جو باقی بچے گا وہ بہن کے لیے ہے۔ [ بخاری، الفرائض، باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ : ٦٧٣٦ ] ۭفَاِنْ كَانَتَا اثْنَـتَيْنِ فَلَهُمَا۔ : اور یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا ہے، انھیں بھی دو ثلث ہی ملے گا اور اگر کلالہ کے وارث بھائی اور بہن دونوں ہوں تو ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ۭ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے میراث کے یہ حصے خود اس لیے واضح فرمائے ہیں کہ اگر یہ تم پر چھوڑ دیے جائیں تو تم کبھی صحیح فیصلہ نہ کرسکو، کیونکہ تمہیں ہر بات کا علم نہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کو ہر بات کا خوب علم ہے، اس لیے اس کے فیصلے میں کبھی غلطی نہیں ہوسکتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَـيُدْخِلُہُمْ فِيْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ۝ ٠ۙ وَّيَہْدِيْہِمْ اِلَيْہِ صِرَاطًا مُّسْتَــقِيْمًا۝ ١٧٥ۭ عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سدہھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٥) اے اہل مکہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاچکے ہیں اور ان پر ہم نے ایسی کتاب بھیجی ہے جو حلال و حرام کو واضح طور پر بیان کرے والی ہے۔ لہذا جو حضرات ان پر ایمان لائے اور توحید خداوندی کے سختی سے قائل ہوئے، ہم ان کو اپنے فضل سے جنت میں داخل کریں گے، اور دنیا میں ان کو سیدھی راہ پر قائم رکھیں گے یا یہ کہ دنیا میں ان کو ایمان پر ثابت قدم رکھیں گے اور آخرت میں جنت میں داخل کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٥ (فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ ) یکسو ہوجائیں گے ‘ خالص اللہ والے بن جائیں گے ‘ مذبذب نہیں رہیں گے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر ‘ بلکہ پوری طرح سے یکسو ہو کر اللہ کے دامن سے وابستہ ہوجائیں گے۔ (فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍلاوَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ) ۔ یَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ یعنی اپنی طرف ہدایت دے گا۔ انہیں سیدھے راستے (صراط مستقیم) پر چلنے کی توفیق بخشے گا اور سہج سہج ‘ رفتہ رفتہ انہیں اپنے خاص فضل و کرم اور جوار رحمت میں لے آئے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:175) اعتصموا بہ انہوں نے اس کو مضبوطی سے پکڑا یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا اعتصام (افعال) سے ماضی جمع مذکر غائب

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی اسلام کو۔ 8۔ حاصل یہ ہے کہ اطاعت کی برکت سے ثبات علی الاطلاعات کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

(عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (رض) خَطَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا بِیَدِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذَا سَبِیْلُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا قَالَ ثُمَّ خَطَّ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذِہِ السُّبُلُ وَلَیْسَ مِنْھَا سَبِیْلٌ إِلَّا عَلَیْہِ شَیْطَانٌ یَدْعُوْ إِلَیْہِ ثُمَّ قَرَأَ (وَاََنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ ) [ رواہ احمد ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خط کھینچ کر فرمایا یہ راستے ہیں ان سب میں سے ہر ایک پر شیطان کھڑا ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (بےشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلتے رہنا اور پگڈنڈیوں پر نہ چلنا۔ ) “ (الانعام : ١٥٣) مسائل ١۔ قرآن مجید ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ ٢۔ قرآن کو مضبوطی سے تھامنے والے اللہ کے فضل و کرم سے ہمکنار ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید چمکتا ہوا نور ہے۔ تفسیر بالقرآن نور کیا ہے ؟ ١۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٢۔ قرآن نور ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٣۔ توحید نور ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٤۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نور کی طرف بلاتے تھے۔ ( الطلاق : ١١، ابراہیم : ١) ٥۔ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کتاب مبین کی صورت میں نور آگیا۔ ( المائدۃ : ١٥) ٦۔ توراۃ و انجیل نور ہیں۔ (المائدۃ : ٤٤۔ ٤٦) ٧۔ وہ ذات جس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور بنایا۔ ( یونس : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٧٥۔ جب کسی انسان کے اندر ذوق ایمان پیدا ہوجائے تو وہ فورا اللہ کی پناہ میں آنے کی سعی شروع کردیتا ہے ۔ بشرطیکہ ایمان صحیح ہو اور نفس انسانی اللہ کی حقیقت کو پا چکے اور اسے معلوم ہوجائے کہ اللہ کی بندگی کا مفہوم کیا ہے ۔ جب یہ حقیقت کوئی پالے تو اس کے سامنے اللہ کی پناہ میں پہنچ جانے کے سوا اور کوئی راہ ہی نہیں رہتی اس لئے کہ اللہ ہی بادشاہت اور قدرت کا مالک ہے ۔ اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل کے سائے میں لے لیتا ہے ۔ اس دنیا میں بھی ان پر اللہ کی رحمت سایہ فگن ہوتی ہے اور آخرت میں بھی ان پر رحمت اور فضل وکرم ہوتا ہے ‘ وہ عاجلہ میں بھی کامیاب اور آجلہ میں بھی کامیاب ۔ پس صحیح ایمان ایک گھنے سائے والا ایک ایسا پرنم باغ ہے جس کے اندر انسان روح ‘ بےچین روح ‘ حیران وپریشان روح نہایت ہی خوشگوار باد نسیم پاتی ہے اور اطمینان و سکون حاصل کرتی ہے ۔ جبکہ اجتماعی لحاظ سے ایمان ایک ایسا اصول حیات ہے جس کے اوپر اجتماعی زندگی پاکیزگی ‘ احترام شرافت ‘ آزادی اور استحکام کے ساتھ بسر ہوتی ہے ۔ ہر انسان کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے اور اس کے سوا جس قدر اشیاء اس کائنات میں ہیں ان کا وہ سردار ہے ۔ اسلام کے ایمانی نظام زندگی کے سوا کسی اور نظام کے اندر یہ تصور ناپید ہے ۔ صرف اسلام اس دنیا میں ایک ایسا نظام ہے جس کا مقصد وحید صرف یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے جیسے لوگوں کی غلامی سے نکالا جائے اور صرف اللہ کی بندگی میں داخل کیا جائے ۔ یہ نظریہ انسان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ صرف اللہ کو اپنا حاکم سمجھتا ہے اور لوگ تمام کے تمام لوگ ‘ اللہ کے بندے ہوکر ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ بادشاہت اور حاکمیت صرف اللہ کیلئے خاص ہوجاتی ہے اور انسان انسان کا غلام نہیں رہتا ۔ دوسرے نظاموں میں اگرچہ بظاہر وہ آزاد نظر آتا ہے لیکن حقیقتا وہ دوسروں کا غلام ہوتا ہے ۔ پس جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ بہرحال اللہ کی رحمت اور فضل میں ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی اس زندگی میں بھی رحمت میں ہوتے ہیں اور اخروی زندگی میں بھی رحمت میں ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” ویھدیھم الیہ صراطا مستقیما “۔ (٤ : ١٨٥) ” اللہ انکو اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھا دے گا “۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس فقرے میں لفظ الیہ ” اپنی طرف “ سے یوں نظر آتا ہے کہ انسان قدم بہ قدم اس کی طرف بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہاتھ پکڑ کر مومنین کو اپنی طرف آگے بڑھا رہے ہیں ۔ انکو اللہ کی طرف آنے کے لئے بالکل سیدھے راستے کے ذریعے لے جایا رہا ہے ۔ وہ قدم بہ قدم اللہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس ایک لفظ سے عبادت کی خوبی اور حسن کو صرف وہ شخص ہی پاسکتا ہے جس نے علی وجہ البصیرت اللہ پر ایمان اپنے اندر پیدا کرلیا ہو اور اس نے راہ ایمان کو پختہ طور پر پکڑ لیا ہو ۔ اسے راہ حق پر ہونے کا پختہ یقین ہو ۔ اسے ہر لمحہ یہ بات محسوس ہوتی ہو کہ وہ راہ حق کا مسافر ہے ۔ اور راستے اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہ ہر لمحہ آگے ہی بڑھ رہا ہے ۔ سیدھے راستے پر واضح پالیسی کے ساتھ ۔ یہ ایک مفہوم ہے جس کا تعلق ذوق یقین کے ساتھ ہے اور اس کا احساس اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ذوق اور ذائقہ درست نہ ہو ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر ایمان قبول کرنے والوں اور اس پر مضبوطی سے جمنے والوں کی جزا بتائی اور فرمایا (فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَ اعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ فَضْلٍ وَّ یَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا) (سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اسے مضبوطی سے پکڑا تو وہ عنقریب ان کو اپنی رحمت اور فضل میں داخل فرمائے گا اور ان کو اپنی طرف سیدھے راستہ پر پہنچا دے گا) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ سیدھے راستے پر پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ ان کو فرمانبرداری اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں جنت میں پہنچا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے انسانو ! بلاشبہ تمہارے پروردگار کی جانب سے تمہارے پاس ایک بڑی دلیل آچکی ہے یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی ذات گرامی اپنی صداقت کی خود ہی دلیل ہے اور ہم نے تمہاری جانب ایک صاف وصریح نور بھیجا ہے یعنی قرآن شریف جو گمراہی کی ہر تاریکی سے بچاتا ہے پھر اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو جو اسلام ہے مضبوط پکڑا تو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ عنقریب اپنی رحمت کے سایہ میں داخل رے گا اور دامان فضل میں جگہ دے گا اور اپنے تک پہونچنے کا ان کو سیدھا راستہ دکھائے گا۔ (تیسیر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برہان فرمایا اور یہ واقعہ ہے کہ آپ کی ذات اقدس اور آپ کے اخلاف کریمانہ اور آپ کے معجزات اور آپ پر کتاب کا نزول یہ سب چیزیں آپ کی نبوت اور آپ کی رسالت کے کھلے کھلے دلائل ہیں جن کو دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی احتیاج باقی نہیں رہتی تو یوں سمجھنا چاہئے کہ آپ کی ذات خود ہی ایک مجسم دلیل ہے جس طرح آفتاب اپنی آپ ہی دلیل ہے اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود باوجود کو دلیل اور قرآن کریم کو نور فرمایا۔ روشنی کا کام لوگوں کو راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ اندھیرے میں روشنی نہ ہو تو انسان ایک قدم نہیں چل سکتا ۔ اسی طرح کفر و شرک کی اندھیریاں انسان کو گھیرے ہوئی ہیں ان ظلمات اور تاریکیوں سے قرآن کریم ہی کے ذریعہ نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور انسان کفر و شرک کے گڑھوں سے بچ سکتا ہے اس لئے قرآن کریم کو نور مبین فرمایا۔ امنوا باللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی تنزیہ کا اعتقاد رکھیں۔ اعتصام کو ہم بیان کرچکے ہیں کسی چیز کے مضبوط پکڑنے کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا مضبوط پکڑنا یہ کہ اس کے دین کو جو اسلام ہے مضبوط پکڑیں یا یہ کہ قرآن کریم کو مضبوط پکڑیں۔ بہ کا مرجع قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے اسلام کو مضبوط پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور قرآن کریم کی تصدیق کریں رحمت سے مراد جنت ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا فضل سے مراد جنت کے علاوہ دوسری نعمتیں ہیں یا دیدار بھی ہے۔ الیہ کی ضمیر کے مرجع میں بھی کئی قول ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے یا رحمت یا فضل یا دونوں یا قرآن بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ تمام بنی نع انسان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے پیغمبر اور قرآن پہنچ گیا ہے لہٰذا دلیل اور روشنی میسر آجانے کے بعد جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحیح اعتقاد رکھے گا اور خدا پر پوری طرح بھروسہ کرے گا اور اس کے دین کو مضبوط پکڑے گا تو اس کے لئے آخرت میں جنت کا داخلہ ہوگا اور جنت کے علاوہ اور بھی سلوک ہوگا اور دیدار الٰہی کا شرف ہوگا اور ایک ایسی سیدھی راہ کی رہنمائی میسر ہوگی جو حضرت حق تعالیٰ تک پہونچتی ہے اور وہ راہ امتثال امر اللہ کی راہ ہے یا طریقہ رضا ہے بہرحال ! ایسی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے گا جو راہ اس کو پسند ہے اور جس پر چل کر بندہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ اور اگر یہ شبہ کیا جائے کہ امتثال امر اور طریقہ رضا تو خود ایمان اور اعمال صالحہ کا نام ہے پھر اس کو سبب کیوں فرمایا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ سبب ہیں ثبات علی الطاعت اور توفیق طاعت کے جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ ہر عمل نیک دوسرے نیک عمل کی توفیق پیدا کرتا ہے پس اعمال صالحہ مزید نیک اعمال کے موجب ہوں گے اور را ہ راست پر ثابت رہنے میں ممد و معاون ہوں گے اور اسی آیت سے یہ بھی مفہوم سمجھ میں آگیا ہوگا کہ جو لوگ ایمان باللہ اور اعتصام باللہ کے منکر ہوں گے وہ ان ثمرات اور فوائد سے محروم رہیں گے اور ان کو یہ وعدہ شامل نہ ہوگا۔ چناچہ حقوق مالیہ کی بحث اور ترکہ کی تقسیم وغیرہ کا ذکر سورت کی ابتداء میں گزر چکا ہے ۔ اب آخر میں پھر ترکہ کے بعض مسائل پر اس سورت کو ختم کیا جاتا ہے تاکہ باقی مسائل کی تکمیل ہوجائے اور سورت کے شروع میں جس مقصد کا اظہار کیا گیا تھا آخر میں پھر اس پر توجہ دلائی جائے۔ شان نزول کے متعلق عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ بیمار تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لے گئے اس وقت جابر کے ہوش و حواس صحیح نہ تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا اور کچھ پانی ان کے منھ پر چھڑکا اور جب جابر کو ہوش ہوا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے کوئی اولاد نہیں ہے تو میرا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا اس پر یہ آخری آیت نازل ہوئی بعض روایات میں حضرت عمر کا بھی یہی سوال منقول ہے کہ انہوں ں نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کلالہ کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میں بکثرت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلالہ کی میراث کے متعلق سوال کیا کرتا تھا ایک دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینہ میں اپنی انگلی چبھو کر فرمایا کیا عمر ! تیرے لئے سورة نساء کی آخری آیت کافی نہیں ہے۔ بہرحال ! شان نزول خواہ کچھ ہو کلالہ کی میراث کا ذکر فرماتے ہیں کلالہ کو ہم بتا چکے ہیں کہ جس کے اصول و فروع نہ ہوں اس کو کلالہ کہتے ہیں یعنی نہ ماں باپ ہوں اور نہ بیٹا بیٹی ہوں اس کی میراث کی تقسیم کو بتاتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)