Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 2

سورة النساء

وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا ﴿۲﴾

And give to the orphans their properties and do not substitute the defective [of your own] for the good [of theirs]. And do not consume their properties into your own. Indeed, that is ever a great sin.

اور یتیموں کا مال ان کو دے دو اور پاک اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو ، اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ بیشک یہ بہت بڑا گُناہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Protecting the Property of the Orphans Allah says; وَاتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ ... And give unto orphans their property Allah commands that the property of the orphans be surrendered to them in full when they reach the age of adolescence, and He forbids using or confiscating any part of it. So He said; ... وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ... and do not exchange (your) bad things for (their) good ones; Sa`id bin Al-Musayyib and Az-Zuhri commented, "Do not substitute a weak animal of yours for a fat animal (of the orphans)." Ibrahim An-Nakhai and Ad-Dahhak commented, "Do not give something of bad quality for something of good quality." As-Suddi said, "One of them (caretakers of orphans) would take a fat sheep from the orphan's property and put in its place, a weak sheep of his, saying, `A sheep for a sheep.' He would also take a good Dirham and exchange it for a fake Dirham, saying, `A Dirham for a Dirham."' Allah's statement, ... وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ ... and devour not their substance to your substance. Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Muqatil bin Hayyan, As-Suddi and Sufyan bin Hassin stated, means, do not mix them together so that you eat up both. Allah said, ... إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا Surely, this is a great sin. According to Ibn Abbas, a major and substantial sin. This was also reported from Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Al-Hasan, Ibn Sirin, Qatadah, Muqatil bin Hayyan, Ad-Dahhak, Abu Malik, Zayd bin Aslam and Abu Sinan. The meaning above is: adding their property to your property is a grave sin and a major mistake, so avoid it. The Prohibition of Marrying Female Orphans Without Giving a Dowry Allah said,

یتیموں کی نگہداشت اور چار شادیوں کی اجازت اللہ تعالیٰ یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال تمہارے پاس ہو انہیں سونپ دو ، پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو ، اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو ، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ؟ تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو ، دبلا پتلا جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو ، بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو ، ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی نیت نہ رکھو ، پہلے لوگ ایسا کر لیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کر دی ، کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے ۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ کر کے اب امتیاز کیا ہے؟ ان کے مال تلف نہ کرو ، یہ بڑا گناہ ہے ، ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے کے مروی ہیں ، ابو داؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی ( حوب ) کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے ، حضرت ابو ایوب نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے ، چنانچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے ، ایک روایت میں یہ واقعہ حضرت ابو طلحہ اور ام سلیم کا مروی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں اس لئے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کر لو ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کر لیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن شہاب نے حضرت عائشہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا بھانجے ، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کر لے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت چھوڑ دے اور کسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کر لے ، پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت ( وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاۗءِ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ) 4 ۔ النسآء:127 ) نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بےرغبتی کرتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کر لیں ، ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں ، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے جس سے چاہیں اظہار نکاح کرلیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار چار ، جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں ، فرماتا ہے آیت ( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ) 35 ۔ فاطر:1 ) یعنی جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ پر والے فرشتے بھی ہیں کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے ، لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے کہ حضرت ابن عباس اور جمہور کا قول ہے ، یہاں اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا ، حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلا دیا ہے کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے لئے چار سے زیادہ بیویوں کا بہ یک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے ، البتہ بعض شیعہ کا قول ہے کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں ، بلکہ بعض شیعہ نے تو کہا ہے کہ نو سے بھی زیادہ جمع کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کوئی تعداد مقرر ہے ہی نہیں ، ان کا استدلال ایک تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آچکا ہے کہ آپ کی نو بیویاں تھیں اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے بعض راویوں نے گیارہ کہا ہے ، حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ نے پندرہ بیویوں سے عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے پاس تھیں ۔ انتقال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجمعین ، ہمارے علماء کرام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی امتی کو ایک وقت میں چار سے زیادہ پاس رکھنے کی اجازت نہیں ، جیسے کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں ، حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوتے ہیں تو ان کے پاس ان کی دس بیویاں تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنے لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے شیطان نے بات اچک لی اور تیرے دل میں خیال جما دیا کہ تو عنقریب مرنے والا ہے اس لئے اپنی بیویوں کو تو نے الگ کر دیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کر دیا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے رجوع کر لے اور اپنے اولاد سے مال واپس لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے انہیں اسی ڈر سے طلاق دی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے والی ہے اور اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں ( مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دار قطنی بیہقی وغیرہ ) مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے لیکن یہ زیادتی حسن ہے ، اگرچہ امام بخاری نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے واللہ اعلم اور بزرگ محدثین نے بھی اس پر کلام کیا ہے لیکن مسند احمد والی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شرط شیخین پر ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو ( سنن نسائی ) ، اس حدیث سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر چار سے زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ نہ فرماتے کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے چار کو جنہیں تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں ، یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہئے کہ ثقفی کے ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھی اس پر بھی آپ نے چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے چار سے زیادہ جمع کرے؟ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم با الصواب چار سے زائد نہیں ، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی! دوسری حدیث ابو داؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے حضرت امیرہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو ، اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا تیسری حدیث مسند شافعی میں ہے حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کر دو میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بے اولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی ، پس یہ حدیثیں حضرت غیلان والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ حضرت امام بیہقی نے فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہو سکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ ) 4 ۔ النسآء:129 ) یعنی گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو ، ہاں یاد رہے کہ لونڈیاں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں ۔ اس کے بعد کے جملے کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے ان معنی کے کہ تمہارے عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے آیت ( وان خفتم ) یعنی اگر تمہیں فقر کا ڈر ہو ، عربی شاعر کہتا ہے ۔ فما یدری الفقیر متی غناہ وما یدری الغنی متی یعیل یعنی فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہو جائے گا ، اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا ، جب کوئی مسکین محتاج ہو جائے تو عرب کہتے ہیں ( عال الرج ) یعنی یہ شخص فقیر ہو گیا غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی ، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہو سکتی ہے ، پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ ، عرب میں کہا جاتا ہے ( عال فی الحکم ) جبکہ ظلم و جور کیا ہو ، ابو طالب کے مشہور قصیدے میں ہے ۔ بمیزان قسط لا یخبس شعیرۃ لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل ضمیر بہترین ترازو ہے یعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اس کے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے ابن جریر میں ہے کہ جب کوفیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ ( انی لست بمیزان اعول ) میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں ، صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو ، ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ حضرت عائشہ کا قول ہے اسی طرح لا تعولوا کے یہی معنی میں یعنی تم ظلم نہ کرو حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عائشہ ، حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت حسن ، حضرت ابو مالک ، حضرت ابو زرین ، حضرت نخعی ، حضرت شعبی ، حضرت ضحاک ، حضرت عطاء خراسانی ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی اور حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ سے بھی مروی ہیں ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ابو طالب کا وہی شعر پیش کیا ہے ، امام ابن جریر نے اسے روایت کیا ہے اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کر دیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو ، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشکل مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال طیب ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو ، ابن ابی حاتم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت ( ہنیأ امریأ ) تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی ۔ حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر ) اس حکم کو سن کر لوگوں نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہئے؟ آپ نے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہو جائیں ( ابن ابی حاتم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو ، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جس پر ان کے گھر والے راضی ہو جائیں ، اس کے ایک راوی ابن سلمانی ضعیف ہیں ، پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یتیم جب بالغ اور باشعور ہوجائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کردو، خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو ، بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بددیانتی نے اس میں خباثت داخل کردی اور وہ اب طیب نہیں رہا، بلکہ تمہارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یتیم کی سرپرستی اور خیرخواہی :۔ معاشرتی قباحتوں میں سے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ یتیم کی پرورش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چناچہ آپ نے فرمایا && میں اور یتیم کا سرپرست جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی ذرا کھول کر اشارہ کیا۔ && (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل من یعول یتیما) لیکن عرب میں یتیموں کے حقوق کئی طرح سے پامال ہو رہے تھے۔ انہی حقوق کی پامالی کا بالترتیب یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ مثلاً جو چیزیں بطور امانت سرپرست کے پاس ہوتیں انہیں واپس کرتے وقت وہ یہ کوشش کرتا کہ اچھی چیز کے بدلے کوئی پرانی اور گھٹیا چیز دے کر خانہ پری کر دے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ کھانے پینے کی اشیاء کو ملا جلا لیا جس میں یتیم کو کسر لگانے اور اپنا فائدہ ملحوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ان دونوں باتوں سے منع کرتے ہوئے ایک اصولی بات بتلا دی کہ جس طریقے سے بھی تم یتیم کا مال کھاؤ۔ بہرحال یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ واضح رہے کہ پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ یتیم کے کھانے پینے کی اشیاء اپنی اشیاء میں نہ ملاؤ۔ اس طرح بھی یتیم کو بعض دفعہ نقصان پہنچ جاتا تھا۔ مثلاً کھانا زیادہ پک گیا یا جتنا پکا تھا اتنا وہ کھا نہ سکا۔ اس لیے ایسی اشیائے خوردو نوش کو ملانے کی اجازت تو دے دی گئی مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ یتیم کو کسی طرح بھی نقصان نہ پہنچے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰتُوا الْيَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ : یعنی جب یتیم بالغ ہوجائیں تو ان کے اموال ان کے سپرد کر دو اور یہ نہ کرو کہ یتیم کے مال سے اچھی چیز (طیب) لے کر اس کی جگہ ردی چیز (خبیث) رکھ دو ۔ طیب اور خبیث حلال اور حرام کے معنی میں بھی آتے ہیں، اس لیے بعض نے یہ معنی کیا ہے کہ اپنا حلال مال چھوڑ کر دوسرے کا مال مت کھاؤ جو تمہارے لیے حرام ہے۔ “ آیت میں ” الٰی “ بمعنی ” مَعَ “ ہے، یعنی ان کے اموال کو ناجائز طریقے سے کھانے کے لیے اپنے مالوں کے ساتھ مت ملاؤ، ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ہاں، اصلاح کی نیت سے ملانا جائز ہے۔ [ دیکھیے البقرۃ : (٢٢٠) ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Rights of the Orphans and the Protection of Their Property: The first verse stressed upon the care and concern for kinship in an absolute sense. Then came the general emphasis on the fulfillment of rights that issue forth from it. Now, the second verse carries the command to protect the properties of the orphans, as well as the prohi¬bition of any misappropriation therein because the guardian of an orphaned child is usually one of his relatives. Therefore, this too has a bearing on the fulfillment of the rights of kinship. The word, الْيَتَامَىٰ &al-yatama& in the first sentence of verse 2: وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ (And give the orphans their property), is the plural of الیتیم al-yatim (the orphan). Literally, it means the lone or the unique. Therefore, a pearl that resides in its shell all alone is called اَلدُّرّ الیتیم Ad-Durr al-Yatim (literally, &the orphan-pearl& ). In the terminology of Islamic law, a یتیم yatim is a child whose father has died. Incidentally, among animals, a yatim is an offspring whose mother has died (Qmiis). When a child attains maturity, that is, becomes pubert, he is no more referred to as yatim in the terminology of Islamic law as it has been clarified in a hadith which says: لا یتم بعد الاحتلام that is, &Orphanhood ends with puberty&. (Mishkat, p. 284) If orphaned children have property, either gifted to them or received by them through someone&s inheritance, then the responsi¬bility of protecting this property, as well as the orphan himself, falls on the shoulders of the person who is the guardian of the orphan. It does not matter whether the guardian of the orphan was appointed by the father of the orphan himself before his death, or by the govern¬ment. It is part of the guardian&s duty that he should certainly|" cover all costs incurred on the necessary maintenance of the orphan from what he owns, but he should not give what the orphan owns into his possession before he has reached the age of maturity because he, being an immature minor, may lose it somewhere. So, the statement: &give the orphans their property&, in this verse, has been clarified a little later in verse 5 where it has been said that the property of the orphans should be given to them after it is certain that they have become mature and do have the ability to distinguish between what is good for them and what is not. Therefore, the meaning of &give the orphans their property& in this verse should be taken in the sense of protecting their property so that it could be given to them at its appropriate time. Furthermore, there is a clear hint in this sentence towards the extent to which the guardian of the orphan is responsible for his welfare. It is being said here that his responsibility is not limited to just that he himself refrains from eating up or squandering the property of the orphan, but it is also an integral part of his duties that he should do everything possible to protect, guard and conserve the property in the best of state, capable of being handed over to him when mature. The second sentence: وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ prohibits the substitution of bad things for the good ones. There were people who would let the number of things owned by the orphan stay unaltered, but would take something good from there and substitute it with something bad they themselves had. For example, swapping a lean goat for a healthy one, a bad coin for a good one, and things like that. Since, this too is a breach of trust in respect of the property of the orphan, and in the event that someone driven by his naughty self comes up with the excuse that he has not &taken& what belonged to the orphan, he has rather &exchanged& it. So, the Holy Qur&an has forbidden it explicitly. Now, this forbiddance not only covers the substitution of one&s bad things for the orphan&s good things, but it also covers any attempt by the guardian to enter into any deal with some other person which results in a loss for the orphaned child. The third sentence: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ (and do not eat up their property alongwith your own) obviously aims to forbid the eating up of the orphan&s property through impermissible methods whether it is consumed from the jointly-held property of the guardian and the orphan, or that it is held separately and consumed from there. But, the general practice is that the guardian would hold what belongs to the orphan with his own personal holdings, would himself consume out of there and let the orphan do the same. Since no separate accounting is involved here, even a religiously observing Muslim may fall into thinking that there was no sin in doing so. It was for this particular reason that the prohibition of consuming what belongs to the orphan by pooling it with one&s own was mentioned here and warning was given to either keep the property of the orphan abso¬lutely separate and spend from it separately so that there remains no danger of any excess; or should one elect to have a joint-expense system, then, the accounts maintained should be so clear that one can be sure of not having spent anything belonging to the orphan on his own person or in his interest. A detailed explanation of this has already appeared in وَاللَّـهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (2:220) - Section 27 of Surah al-Baqarah, Volume 1 of this commentary. The style of expression here gives a hint that those who misappro¬priate the property of orphans are generally the people who have prop¬erties of their own as well. So, it is by implication that such people have been reproached for stooping down to eat up the property of the orphans unlawfully while they have their own lawful belongings at hand - a shameful act indeed. It will be noted that verse (2) mentions the prohibition of |"eating|" the property of the orphan because |"eating|" is one of the major end-uses of what one possesses. But, in common usage, every act of using up, consuming and exhausting is referred to as |"eating up|" - whether this be by &using& or by &eating&. The expression, وَلَا تَأْكُلُوا |"la ta&kul u& (do not eat up) in the Holy Qur&an carries this very sense of the usage, included in which are all sorts of impermissible uses. Therefore, spending anything from the property of the orphan unlawfully by any means whatsoever is absolutely Haram (forbidden). The verse ends with the admonition, إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرً‌ا (It is, surely, a great sin.) Here, the word حُب &hub&, as said by Sayyidna ibn ` Abbas (رض) ، comes from the Ethiopian language. It means: &major sin&. It is used in Arabic for the same meaning. The sense is that any unlawful appropriation or use of the orphan&s property, be it because of lack of supervision or substitution of something bad for something good or because of consuming the orphan&s assets as mixed up with one&s own, is a great sin after all. The stern warning to those who eat up the property of an orphan appears later towards the end of this section (4:10).

یتیموں کے حقوق اور ان کے اموال کی حفاظت :۔ پہلی آیت میں مطلقاً قرابت کی حفاظت اور اس کے حقوق ادا کرنے کی تاکید عام انداز میں بیان فرمانے کے بعد دوسری آیت میں یتیموں کے اموال کی حفاظت کا حکم اور ان میں کسی قسم کی خورد برد کرنے کی ممانتع ہے، کیونکہ یتیم بچے کا نگران اور ولی عموماً اس کا کوئی رشتہ دار ہوتا ہے، اس لئے اس کا تعلق بھی حق قرابت کی ادائیگی سے ہے۔ پہلے جملہ میں ارشاد ہے : واتوالیتمی اموالھم جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” یتمیوں کے مال انہی کو پہنچاؤ۔ “ یتیم کے لفظی معنی اکیلے اور منفرد کے ہیں، اسی لئے جو موتی سیپ میں تنہا ایک ہو، اس کو در یتیم کہا جاتا ہے، اصطلاح شرع میں اس بچہ کو یتیم کہا جاتا ہے جس کا باپ مر گیا ہو اور جانوروں میں اس کو یتیم کہا جاتا ہے جس کی ماں مر گئی ہو، (قاموس) بالغ ہونے کے بعد شرعی اصطلاح میں اس کو یتیم نہیں کہا جائے گا، جیسا کہ حدیث شریف میں تصریح ہے لایتم بعد احتلام، یعنی ” بلوغ کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی (مشکوة شریف، “ ص ٤٨٢) یتیم بچوں کی ملکیت میں اگر کچھ مال ہے جو ان کو کسی نے ہبہ کیا ہو، یا کسی کی میراث میں ان کو پہنچ گیا ہو تو یتیم کے ساتھ اس کے مال کی حفاظت بھی اس شخص کے ذمہ ہے جو یتیم کا ولی ہے، خواہ اس ولی کا تقرر اس کے مرنے والے باپ نے خود کردیا ہو، یا حکومت کی جانب سے کوئی ولی مقرر کیا گیا ہو، ساتھ ہی ولی میں یہ بھی لازم ہے کہ یتیم کے ضروری اخراجات تو اس کے مال سے پورے کرے، لیکن اس کا مال بالغ ہونے سے پہلے اس کے قبضہ میں نہ دے، کیونکہ وہ ناسمجھ بچہ ہے، کہیں ضائع کر دے گا، تو آیت کے اس جملے میں جو ارشاد فرمایا گیا کہ یتیموں کے مال ان کو پہنچا دو اس کی توضیح آگے پانچویں آیت میں آتی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ ان کے مال ان کو اس وقت پہنچاؤ جب دیکھ لو کہ وہ بالغ ہوگئے اور ان کو اپنے نفع و نقصان اور بھلے برے کی تمیز پیدا ہوگئی۔ اس لئے اس آیت میں یتیموں کے اموال ان کو پہنچانے کا مطلب یہ ہوا کہ ان اموال کی حفاظت کرو، تاکہ اپنے وقت پر یہ مال ان کو پہنچائے جاسکیں، اس کے علاوہ اس جملے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ولی یتیم کی ذمہ داری صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یتیم کے مال کو خود نہ کھائے یا خود ضائع نہ کرے، بلکہ اس کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کرکے اس قابل بنائے کہ بالغ ہونے کے بعد اس کو مل سکے۔ دوسرے جملہ میں ارشاد ہے : ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب، یعنی ” اچھی چیز کا بری چیز سے تبادلہ مت کرو۔ “ بعض لوگ ایسا کرتے تھے کہ یتیم کے مال کی تعداد تو محفوظ رکھتے تھے مگر اس میں جو اچھی چیز نظر آتی وہ خود لے لی اور اس کی جگہ اپنی خراب چیز رکھ دی، عمدہ بکری کے بدلہ میں لاغر بیمار بکری اس کے مال میں لگا دی، یا کھرے نقد کے بدلے میں کھوٹا رکھ دیا۔ یہ بھی چونکہ مال یتیم میں خیانت ہے اور ممکن تھا کہ کسی شخص کا نفس یہ حیلہ تراشے کہ ہم نے تو یتیم کا مال لیا نہیں بلکہ بدلا ہے، اس لئے قرآن کریم نے صراحتا اس کی ممانعت فرما دی، اس ممانعت میں جس طرح یہ داخل ہے کہ خود اپنی خراب چیز دے کر اچھی چیزلے لیں، اسی طرح یہ بھی داخل ہے کہ کسی دوسرے شخص سے تبادلہ کا ایسا معاملہ کرلیں جس میں یتیم بچے کا نقصان ہو۔ تیسرے جملہ میں ارشاد فرمایا : ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم، یعنی ’ یتیموں کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھا جاؤ۔ “ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد تو یتیم کے مال کو ناجائز طور پر کھا جانے کی ممانعت ہے، خواہ اپنے مال میں ملا کر کھا جائے یا علیحدہ رکھ کر کھائے، لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ یتیموں کا مال اپنے مال میں شامل رکھا، اس میں سے خود بھی کھایا یتیم کو بھی کھلا دیا، اس صورت میں جداگانہ حساب نہ ہونے کی وجہ سے ایک دیندار متبع شریعت کو بھی یہ دھوکہ ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں، اس لئے خاص طور سے اپنے اموال کے ساتھ ملا کر کھانے کی حرمت کا ذکر اور اس پر تنبیہ فرما دی کہ یا تو یتیم کے مال کو بالکل علیحدہ رکھو، اور علیحدہ خرچ کرو جس میں کسی زیادتی کا خطرہ ہی نہ رہے، یا پھر ملا کر رکھو تو اس حساب سے رکھو جس میں یہ یقین ہو کہ یتیم کا مال تمہارے ذاتی خرچ میں نہیں آیا، اس کی تشریح سورة بقرہ کے رکوع ٧٢ میں گذر چکی ہے، واللہ یعلم المفسد من المصلح۔ اس طرز بیان میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا دیا کہ یتیموں کے مال میں خورد برد کرنے والے عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے مال بھی موجود ہوتے ہیں، تو اس عنوان سے ان کو عار دلائی گئی کہ اپنا حلال مال موجود ہوتے ہوئے یتیموں کا مال حرام طور پر کھا جانا بڑی شرک کی بات ہے۔ آیت میں مال یتیم کے کھانے کی ممانعت کا ذکر ہے، اس لئے کہ مال کا سب سے بڑا اہم فائدہ کھانا ہے، لیکن محاورہ میں مال کے ہر تصرف کو کھانا بولا جاتا ہے، خواہ استعمال کر کے جو یا کھا کر، قرآن کریم نے بھی اسی محاورے پر لاتاکلوا فرمایا ہے، اس میں ہر ناجائز تصرف داخل ہے، لہٰذا یتیم کے مال کو کسی بھی طریقہ سے ناجائز طور پر خرچ کرنا حرام ہوا۔ آیت کے آخری جملہ میں ارشاد فرمایا انہ کان حوباً کبیراً ، لفظ حوب، بقول ابن عباس (رض) حبشی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں بڑا گناہ، عربی زبان میں بھی یہ لفظ اسی معنی کے لئے بولا جاتا ہے، معنی یہ ہوئے کہ مال یتیم میں کسی قسم کا ناجائز تصرف خواہ حفاظت کی کمی سے ہو یا خراب چیز کے بدلہ میں اچھی چیز لے کر ہو، یا اپنے مال کے ساتھ ملا کر اس کا مال کھانے سے ہو، بہرحال یہ بہت بڑا گناہ ہے اور یتیم کے مال کو کھانے کی سخت وعید اس رکوع کے ختم پر آ رہی ہے :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰتُوا الْيَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ۝ ٠ ۠ وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا۝ ٢ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی يتم اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ. ( ی ت م ) الیتم کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ حُوب لحُوبُ : الإثم، قال عزّ وجلّ : إِنَّهُ كانَ حُوباً كَبِيراً [ النساء/ 2] ، والحَوْبُ المصدر منه، وروي : ( طلاق أمّ أيّوب حوب) «4» ، وتسمیته بذلک لکونه مزجورا عنه، من قولهم : حَابَ حُوباً وحَوْباً وحِيَابَةً ، والأصل فيه حوب لزجر الإبل، وفلان يَتَحَوَّبُ من کذا، أي : يتأثّم، وقولهم : ألحق اللہ به الحَوْبَةَ «5» ، أي : المسکنة والحاجة . وحقیقتها : هي الحاجة التي تحمل صاحبها علی ارتکاب الإثم، وقیل : بات فلان بِحَيْبَةِ سوء ( ح و ب ) الحوب ( ن ) جرم کا ارتکاب کرنا ۔ حوب ( اسم ) گناہ ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ كانَ حُوباً كَبِيراً [ النساء/ 2] کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے (100) طلاق ام ایوب حوب کہ ام ایوب کو طلاق دینا گناہ عظیم ہے اور طلاق کو حوب کہنا اس بنا پر ہے کہ وہ ممنوع عنہ ہے اور یہ حاب حوبا وحوبا وحیابۃ سے ہے جس کے معنی ارتکاب جرم کے ہیں ۔ اصل میں حوب کا لفظ کلمہ زجر ہے جو اونٹوں کو ڈانٹنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ فلان یتحوب من کذا ۔ فلاں گناہ سے بچتا ہے جیسے تیا ثم عرب لوگ کہتے ہیں :( مغل ) الحق اللہ بہ الحوبۃ اللہ اسے مسکنت اور احتیاج میں مبتلا کرے اصل میں حوبۃ اس حاجت کو کہتے ہیں جو انسان کو ارتکاب جرم پر آمادہ کرلے کہاجاتا ہے ۔ بات فلان یحبیۃ سوء فلاں نے بری حالت میں رات گزاری

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اسلام یتموں کے حقوق کی حفاظت کا علمبردار ہے قول باری ہے (واتو الیتامی اموالھم ولا تتبدل الخبیث بالطیب۔ یتیموں کا مال ان کو واپس دوا اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو) حسن سے مروی ہے کہ یتیموں کے مال کے متعلق جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے انھیں اپنے خاندان کے افرادبناکررکھنے سے نہ صرف گریز کرتا شروع کردیا، بلکہ یتیم لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی شکایت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم۔ یتیموں کے متعلق لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ کہوجس طرزعمل میں ان کے لیے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہت رہے اگر تم اپناخرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ تمہارے بھائی ہیں) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہاں راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ یہاں اس آیت سے یہ مراد ہے کہ یتیموں کو۔ جب وہ بالغ ہوجائیں۔ ان کا مال ان کے حوالے کردیاجائے۔ اس لیے کہ اہل علم کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے یتیم کو اس کا مال حوالے کردیناواجب نہیں ہوتا۔ وادی کو ایک دوسری آیت کی بناپرغلطی لگی ہے۔ اس کے متعلق ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انھیں ابوداؤد نے، انھیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انھیں جریرنے عطا سے انھوں نے سعیدبن جبیر سے، انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت (ولا تقربوا مالایتیم الابالتیھی احسن، یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر صرف اسی طریقے سے جو سب سے بہترہو) نیز (ان الذین یاکلون اموال الیتا می ظلما انما یاکلون فی بطورنھم نارا۔ جو لوگ ازراہ ظلم یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں، تو وہ اپنے پیٹوں کو آگ سے بھرلیتے ہیں) نازل فرمائی تو جس شخص کے زیرکفالت کوئی یتیم تھا، اس نے اس کا کھانا پینا علیحدہ کردیا حتی کہ اگر اس کا پس خوردہ بیچ رہتا تو اسے رکھ دیتا اور یتیم ہی کوا سے کھانا پڑتایا یہ کہ وہ خراب ہوجاتا، اس طریق کار سے بڑی وقتیں پیش آئیں اور لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان دقتوں کا ذکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم) نازل فرمائی۔ اس کے بعد سرپرستوں نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے ساتھ ملالیا اس بارے میں یہی صحیح روایت ہے۔ رہ گیا قول باری (واتوالیتمی اموالھم) تو اس کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمامراد یہ نہیں لیا کہ یتیموں کو ان کا مال حوالے کردو، جبلہ وہ ابھی یتیمی کی حالت میں ہوں، یعنی بالغ نہ ہوئے ہوں، ان کا مال انھیں حوالے کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب وہ بالغ ہوجائیں اور سمجھ بوجھ کے آثاران میں نظرآنے لگیں ۔ ان پر یتیم کے اسم کا اس لیے اطلاق کیا گیا کہ یتیمی کا زمانہ گزارنے میں انھیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ جس طرح کہ عدت کے اختتام کے قرب کو بلوغ اجل یعنی مدت ختم کرلینے کا نام دیاگیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (فاذابلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن بمعروف جب یہ اختتام مدت کو پہنچ جائیں تو انھیں یا تو بھیلے طریقے سے اپنے عقدزوجیت میں روک لویابھلے طریقے سے انھیں جانے دو ) اس پر ترتیب آیت میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم جب تم ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگوتو لوگوں کو اس پر گواہ بنالو) بلوغ سے پہلے ان پر لوگوں کو گواہ بنانا درست نہیں ہوتا ، تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہاں بلوغ کے بعد کا زمانہ مراد ہے۔ پھر انھیں یتیم یا تو اس لیے کہا گیا کہ یتیمی کا دور نھونے حال ہی میں گزارا ہے یا اس لیے کہ وہ اپنے اپنے باپ سے محروم ہوگئے ہیں، جبکہ ایسی صورت میں عام مشاہدہ یہی ہوتا ہے کہ ان میں اپنی ذات کے لیے تصرفات کرنے دربطریق حسن اپنے امور کی تدبیر اور دیجھ بھال میں ضعف اور کمزوری کا پہلونمایاں ہوتا ہے۔ اس وقت ان میں وہ کیفیت نہیں ہوتی جو تجربہ کار اومنجھے ہومے لوگوں میں زندگی کے معاملات سلجھانے اور سوجھ بوجھ کی پختگی کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ یزیدبن مرمزنے روایت کی ہے کو بجدہ بن عامرنے حضرت ابن عباس (رض) کی لکھ کر پوچھا کہ یتیھی کو مدت کا انقطاع کب جاکرہوتا ہے ؟ آپ نے اسے جواب میں لکھا کہ جب اس میں سمجھ بوجھ کے آثاء نظر آنے لگیں تو اس کی یتیمی کا زمانہ نقطع ہوجاتا ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں۔ ایک شخص عمر کے (رح) لحاظ سے اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں آجاتی ہے لیکن ابھی تک اس سے یتیمی کی کیفیت ختم نہیں ہوتی۔ حضرت ابن عباس نے دراصل یہ بتایا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص پر یتیم کا لفظ اس کے بالغ ہوجانے کے بعد بھی اس وجہ سے منطبق ہوتا ہے کہ اس کی عقل میں ابھی پختگی نہیں ہوتی ہے اور اس میں سمجھ بوجھ کے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ اس طرح آپ نے ایک شخص پر یتیم کے اسم کے اطلاق کے لیے اس میں رائے کی کمزوری اور عقلی کی ناپختگی کو ضروری قراردیا۔ بعض دفعہ یتیم کے اسم کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جس کا باپ اسے چھوڑکر دنیا سے رخصت ہوچکا ہو۔ نیز ایسی عورت کو بھی یتیمہ کہاجاتا ہے جو اپنے شوہر کے بعد تنہارہ گئی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (تشامرالیتیمۃ فی نفسھا۔ شوہر کے بغیر رہ جانے والی عورت سے اس کے نکاح کے بارے میں اس کی رائے معلوم کی جائے گی) اور ظلہ رہے کہ بالغ ہونے کی صورت مین نکاح کے معاملے میں اس کی رائے معلوم کی جاتی ہے۔ ایک شاعر کا شعر ہے۔ ؎ ان القبورتنکح الایامی النسوۃ الارامل الیتامی قبروں کا ان عورتوں کے ساتھ نکاح ہوتا ہے جو شوہروں کے بعد تنہارہ جاتی ہیں۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ جب کوئی شخص ادھیڑعمرکا یابوڑھا ہوجانے اس پر یتیم کے اسم کا اطلاق بنیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص ناقص العقل اور ضعیف الرائے ہو تو اس کے بارے میں بچپن کے زمانے سے اس کے قرب کے اعتبار کے سوا اور کوئی پارہ نہیں ہوتا۔ جبکہ بڑی عمر کی عورت کو اس وجہ سے یتیمہ کہاجاتا ہے کہ وہ شوہر کے بغیرآتی ہے۔ اور بڑی عمر کے مردکوباپ کے بغیر ہونے کی وجہ سے یتیم نہیں کہا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ اپنے کمسن بچے کی سرپرستی کرتا اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کے علاوہ اسے اپنے ساتھ رکھتا ہے اس لیے باپ کے بغیر رہ جانے کی صورت میں وہ یتیم کہلاتا ہے۔ اس بناپربا (رح) لغ ہوجانے کے بعد بھی جب تک اس کی حالت کمزور اور اس کی سمجھ بوجھ ناقص ہوتی ہے اسے یتیم کا نام دیاجاتا ہے، اس کے برعکس عورت کو یتیمہ اس لیے کہاجاتا ہے کہ وہ شوہر کے بغیر ہوتی ہے جس کی پناہ اور حفاظت میں وہ زندگی گزارتی ہے، اس لیے اگر وہ بوڑھی بھی ہوجائے اس کے ساتھ یہ نام چپکارہتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں بھی شوہر کا وجود اس کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو بچے کے لیے باپ کا وجودرکھتا ہے کیونکہ شوہرہی اس کی حفاظت کفالت اور نگرانی کا ذمہ دارہوتا ہے۔ اس لیے جب عورت شوہر سے محروم ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے اسے یہ باتیں حاصل ہوتی ہیں اسے یتیمہ کہاجاتا ہے، جس طرح کہ کم سن اور نابالغ بچے کو اس لیے یتیم کہاجاتا ہے کہ وہ اس شخص (یعنی باپ سے) محروم ہوتا ہے جو اس کی حفاظت اور کفالت کا ذمہ دارہوتا ہے۔ آپ نہین دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں) یعنی ان کی حفاظت اور نگہبانی کرنے اور ان کی ضروریات مہیا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ نیز ارشاد ہے (وان تقومواللیتمی بالقسط اور یہ کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو) اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کاقیم، یعنی حفاظت اور نگہبانی کرنے والا نیز اس کی ضروریات مہیا کرنے والاقراردیا جس طرح کہ یتیم کے وئی کو اس کا قیم قراردیا۔ حضرت علی (رض) اور حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذمایا (لایتم بعد حلم عقل اور سمجھ بوجھ آجانے کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی) آپ کا قول دراصل یتیمی کی حقیقت کا بیان ہے اس بناپربلوغت کے بعد کسی کو یتیم کہنا مجازا ہوتا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ کمزور اورضعیف العقل پر یتیم کے اسم کی حضرت ابن عباس (رض) سے منقولی روایت کی روشنی میں ہم نے جس دلالت کا ذکر کیا ہے وہ ایک مسئلے میں ہمارے اصحاب کے قول صحت پر دال ہے مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے خاندان کے یتیموں کے لیے وصیت کرجائے اور اس خاندان کے افراد بےشمارہوں تو اس صورت میں ایسے یتیموں کے لیے یہ وصیت جاری ہوجائے گی جو فقیر اور تنگ دست ہوں گے، اس لیے کہ یتیم کا اسم اس پر دلالت کرتا ہے اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی جو ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے بیان کی انھیں حسن بن ابی الربیع نے انھیں جبدالرزاق نے، انھیں معمرنے حسن سے کہ ۔ دولت نادانوں کے حوالے نہ کی جائے قول باری (ولاتؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما، اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو) میں السفھاء، سے مراد تمھارانادان بیٹا اور تمھاری نادان بیوی ہے۔ پھر فرمایا : قول باری (قیاما) سے مرادتمھاری زندگی کے قیام کا ذریعہ ہے۔ یہ بھی ذک رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (اتقوا اللہ فی الضعیفین الیتیم والمواۃ ووکمزوروں، یتیم اور عورت کے یارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یتیم کو ضعیف کا نام دیا۔ آیت میں مال حوالہ کرنے کے لیے سوجھ بوجھ کے آثار کے ظہورکوشرط قرار نہیں دیا گیا۔ ظاہر آیت کا تقاضایہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد یتیم کا مال اس کے حوالے کردیاجائے، خواہ اس میں عقل اور سمجھ کے آثارنظرآئیں یا نہ آئیں یا البتہ قول باری (حتی اذابلغوالنکاح۔ فان انستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالھم۔ یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمرکو پہنچ جائیں پھر اگرتم ان کے اندراہلیت پاؤتو ان کے مال ان کے حوالے کردو) میں اس کی شرط لگادی گئی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر بلوغت سے لے کر پچیس برس کی عمرتک عمل ہوگا۔ جب وہ اس عمر کی پہنچ جانے گا اور اس وقت بھی اس میں سمجھ بوجھ اور اہلیت کے آثارنظر نہیں آئیں گے تو بھی اس کا مال اس کے حوالہ کردینا واجب ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے۔ (واتوالیتامی اموالھم۔ یتیموں کو ان کا مال حوالے کردوم اس آیت کے مقتضی اور ظاہر پرپچیس برس کی عمر کے بعد عمل ہوگا۔ اس سے پہلے اہلیت کے وجود کے بغیر مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اہلیت اور سمجھ بوجھ کا پایاجانا مال حوالہ کرنے کے وجوب کی شرط ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے قابل قبول ہے کہ اس کے تحت دونوں میں سے ہر آیت کے ظاہر کے مقتضی اور فائدے پر عمل ہوجاتا ہے۔ اگرہم تمام حالتوں میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کا اعتبار کرلیں تو اس سے دوسری آیت کے حکم کا بالکلیہ اسقاط لازم آئے گا یہ دوسری آیت (واتوالیتامی اموالھم) ہے اس لیے کہ اس میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کی شرط موجود نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں کسی قرینہ اور سمجھ بوجھ کے آثار کے وجود کے بغیر مطلقا مال کو ان کے حوالہ کردینا واجب قراردیا ہے۔ جب زوآیتیں اس طرح داردہوں کہ ایک میں حکم کا ایجاب کسی قرینہ کو متضمن ہو اور دوسری آیت کسی قرینہ کو متضمن نہ ہو اور ہمارے لیے ان دونوں کے حکموں پر عمل کرکے فائدہ اٹھا ناممکن ہو، تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم ان دونوں کو صرف ایک کے فائدے تک محدودکرکے دوسری آیت کے فائدے کو ساقط کردیں۔ ہمارے بیان سے جب یتیم کو اس کا مال حوالے کرنے کا وجوب ثابت ہوگیا۔ کیونکہ قول باری ہے (واتوالتیامی اموالھم) نیز ترتیب آیت میں یہ قول بھی ہے (فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم) قویہ بات اس پر بھی دلالت کرگئی کہ مال پر قبضہ کرنے کے متعلق اس کا اقرار جائز ہے۔ کیونکہ قول باری (فاشھدواعلیھم) مال پر ان کے قبضہ کے اقرار کے سلسلے میں گواہ بنالینے کے جواز کو متضمن ہے۔ اس میں یتیم پر پابندی لگانے کی نفی اور اس کے تصرف کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے۔ اس لیے کہ جس شخص پر پابندی لگی ہو، اس کا اقراردرست نہیں ہوتا اور جس پر گواہ بنانا واجب ہوتا ہے اس کا اقرار جائز ہوتا ہے۔ قول باری ! ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب) کی تفسیر میں مجاہد اور ابوصالح سے مروی ہے کہ حرام کو حلال سے نہ بدلو۔ یعنی اپنے حلال رزق کا بدل جلدبازی کی بناپرحرام نہ بنالو کہ مثلا تم یتیم کا مال صرف کرنا شروع کردویہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے یا اسے اپنی تجارت میں لگادویا اسے اپنے لیے روک کریتیم کو کوئی اور مال دے دو ۔ اس صورت میں یتیم کا جو مال تم لوگے وہ حرام اور خبیث مال ہوگا اور تم اسے اپنا حلال مال دے دوگے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بطوررزق دیا ہے بلکہ تمہیں چاہیے کہ یتیموں کو ان کے اموال اصلی صورت میں حوالے کردو۔ یہ تفسیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ یتیم کے ولی اور سرپرست کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے مال میں سے اپنی ذات کے لیے قرضہ لے اور نہ ہی اس میں اس طرح ادل بدل کرے کہ اسے اپنے لیے روک کر اس کی جگہ یتیم کو کرٹی اور مال دے دے، تاہم اس تفسیر میں یہ دلالت نہیں ہے کہ ولی کے لیے یتیم کے مال میں خریدوفروخت کے ذریعے تصرف کرنا جانز نہیں ہے اس لیے کہ ممانعت تو صرف اس کی ہے کہ وہ یتیم کے مال کو اپنے لیے روک کر اس کی جگہ کوئی اور مال اسے دے دے ۔ اس تفسیر میں یہ دلالت بھی ہے کہ ولی کے لیے یتیم کے مال میں سے اپنی ذات کے لیے کوئی چیز اس کی قیمت کے برابر قیمت دے کر خریدلینا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ ولی کو اپنی ذات کے لیے یتیم کے مال میں کوئی اول بدل کرنے سے روک دیا گیا ہے اور یہ حکم استبدال کی تمام صورتوں کو شامل ہے اس سے صرف وہ صورت مستثنیٰ ہے جس کے جواز کی دلیل موجود ہو۔ امام ابوحنفیہ کے نزدیک جواز کی صورت یہ ہے کہ ولی یتیم کے مال میں سے جوچیزلے، اس کے بدلے میں اسے جوچیزدے، اس کی قیمت پہلی چیز کی قیمت سے زیادہ ہو۔ اس لیے کہ قول باری ہے ولا تقربوامال الیتیم الابالتیھی احسن۔ سعیدبن المسیب، زہری ضحاک اور سدی نے قول باری (ولاتتبدلوالخبیث بالطیب) کی تفسیر میں کہا ہے کہ جید یعنی کھرے کے بدلے کھوٹا مال اور پلے ہوئے قربہ جانور کے بدلے دبلاپتلاجانورنہ دو ۔ قول باری (ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاجاؤ) کی تفسیر میں مجابد اور سدی سے منقول ہے کہ یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملاکرنہ کھاؤ۔ انھیں یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملانے سے روک دیا گیا ہے۔ ملانے کی صورت یہ ہے کہ ولی یتیم کا مال بطورقرض لے لے اور اس طرح اس کا مال ولی کے ذمہ دین جائے اور پھر ولی اس مال اور اس کے منافع میں سے کھانے کا جواڑپیدا کرلے۔ قول باری ہے (انہ کان حوباکبیرا۔ یہ کارروائی بڑے گناہ کی بات ہے) ابن عباس (رض) ، مجاہد حسن اور قتادہ کا قول ہے، یہ بڑا گناہ ہے۔ آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ بالغ ہوجانے اور سمجھ بوجھ کے آثارظاہر ہونے کے بعد یتیموں کو ان کے مال واپس کرنا واجب ہوجاتا ہے، خواہ وہ اس کا مطالبہ نہ بھی کریں اس لیے کہ واپسی کا حکم مطلق ہے اس میں کوئی شرط نہیں ہے کہ یتیموں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہونے پر انھیں واپس کیا جائے، بلکہ واپس نہ کرنے پر عذاب کی دھمکی سنائی گئی ہے۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جس کے پاس کسی اور کا مال ہو اور وہ اسے واپس کرنا چاہے تو اس کے لیے مستحب طریقہ یہ ہے کہ واپسی پر لوگوں کو گواہ نبائے، کیونکہ قول بارے ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم) ۔ واللہ الموفق۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) نیز یتیموں کے جو اموال تمہارے پاس ہیں ان کے عاقل وبالغ ہونے کے بعد وہ ان کو دے دو اور اپنے مال بچا کر ان کے مالوں کو مت کھاؤ اور نہ اپنے مالوں کے ساتھ ملاکرکھاؤ۔ بلاجواز یتیم کا مال کھانا اللہ تعالیٰ کے یہاں سزا کے اعتبار سے بہت بڑا جرم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (وَاٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَہُمْ ) معاشرے کے دبے ہوئے طبقات میں سے یتیم ایک اہم طبقہ تھا۔ دور جاہلیت میں ان کے کوئی حقوق نہیں تھے اور ان کے مال ہڑپ کرلیے جاتے تھے۔ وہ بہت کمزور تھے۔ (وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بالطَّیِّبِ ) ایسا ہرگز نہ ہو کہ یتیموں کے مال میں سے اچھا اچھا لے لیا اور اپنا ردّی مال اس میں شامل کردیا۔ (وَلاَ تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَہُمْ الآی اَمْوَالِکُمْ ط) (اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا ) یتیموں کے بعض سرپرست جو تقویٰ اور خوف خدا سے تہی دامن ہوتے ہیں ‘ اوّل تو ان کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں ‘ اور اگر ایسا نہ بھی کریں تو ان کا اچھامال خورد برد کر کے اپنا ردّی اور بےکار مال اس میں شامل کردیتے ہیں اور اس طرح تعداد پوری کردیتے ہیں۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا لیتے ہیں تاکہ اسے بآسانی ہڑپ کرسکیں۔ ان کو ایسے سب ہتھکنڈوں سے روک دیا گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2. God directs the guardians of the orphans to spend out of the latter's property while they are still minors, and to restore it to them when they attain majority. 3. The order not to exchange the bad for the good has several meanings. On the one hand, it means that one should not replace honest by dishonest living. At the same time, it also means that one should not exchange one's own property which is of little value for the more valuable property of the orphans.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :2 یعنی جب تک وہ بچے ہیں ، ان کے مال انہی کے مفاد پر خرچ کرو اور جب بڑے ہو جائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انہیں واپس کر دو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :3 جامع فقرہ ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حلال کی کمائی کے بجائے حرام خوری نہ کرنے لگو ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یتیموں کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے نہ بدل لو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: کسی مرنے والے کے بچے جب یتیم ہوجاتے ہیں تو ان کے باپ کی میراث میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے، مگر ان کی کم عمری کی وجہ سے وہ مال ان کے سپرد نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کے سرپرست، مثلاً، چچا، بھائی وغیرہ اسے بچوں کے بالغ ہونے تک اپنے پاس امانت کے طور پر رکھتے ہیں۔ اس آیت میں ایسے سرپرستوں کو تین ہدایتیں دی گئی ہیں : ایک یہ کہ جب بچے بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں تو ان کی امانت دیانت داری سے ان کے حوالے کردو۔ دوسرے یہ کہ بد دیانتی نہ کرو کہ ان کو ان کے باپ کی طرف سے تو میراث میں اچھی قسم کا مال ملا تھا، مگر تم وہ مال خود رکھ کر گھٹیا قسم کی چیز اس کے بدلے میں دے دو،۔ اور تیسرے ایسا نہ کرو کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس کا کچھ حصہ جان بوجھ کر یا بے پروائی سے خود استعمال کر بیٹھو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر خازن وغیرہ میں جو سعید بن جبیر کی معتبر سند سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ غطفان قبیلہ میں ایک شخص کے پاس اس کا یتیم بھتیجا پرورش پاتا تھا۔ جب وہ لڑکا ہوشیار ہوا تو اس نے اپنے باپ کا مال چچا سے مانگا چچا نے مال دینے سے انکار کردیا۔ یہ جھگڑا آنحضرت کے پاس آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١۔ تو اس آیت کا حکم سن کر چچا نے اپنے بھتیجے کو مال دے دیا اور اس لڑکے نے وہ سب مال خیرات کردیا آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیٹے کو خیرات کا اجر ملا اور باپ پر مال کے جمع کرنے کا وبال باقی رہا۔ اور اکثر رشتہ دارلوگ یتیموں کا اچھا مال رکھ کر اس کے عوض میں اپنا ناکارہ مال یتیموں کو دے دیتے تھے یا کھا جاتے تھے۔ ان دونوں باتوں سے بھی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منع فرمایا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یتیم کا مال کھا جانا۔ شرک کرنا جادو کرنا۔ کسی کو ناحق قتل کرنا۔ جہاد سے بھاگنا۔ پارسا عورتوں پر بدکاری کا بہتان باندھنا۔ سود کھانا۔ یہ سات بڑے گناہ ہیں۔ جن سے آدمی ہلاک ہوجاتا ہے ٢۔ ان سے بچو۔ حوب کے معنی گناہ کے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:2) اتوا۔ ایتاء سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم دو ۔ لا تتبدلوا۔ نہی۔ جمع مذکر غائب۔ تبدل (تفعل) سے جس کے معنی بدل ڈالنے کے ہیں۔ تم نہ بدل ڈالو۔ انہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ۔ اکل مال یتیم کی طرف راجع ہے جس سے ولا تاکلوا اموالہم الی اموالکم میں ممانعت فرمائی ہے۔ حوبا۔ گناہ ۔ وبال ۔ اسم ہے۔ الحوب (باب نصر) سے جرم کا ارتکاب کرنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی جب یتیم بالغ ہوجائیں تو ان کے اموال ان کے سپرد کردو اور یہ نہ کرو کہ یتیم کے مال سے اچھی چیز لے ر اس کی جگہ ردی چیز رکھ دو ، بعض نے طیب اور خبیث کے یہ معنی کئے ہیں کہ اپناما حلال مال چھوڑ کر دسرے کا حرام مال مت کھا و (ابن کثیر) اور آیت میں الی بمعنی مع کے ہے یعن ان کے اموال کو ناجائز کھا نے کے لیے اپنے مالوں کے ساتھ مت ملا ایسا کرنا کبیرہ گنا ہے حوب کے معنی گناہ کے ہیں ایک دعا میں ہے۔ ، اللھم اغفر حوبتی اے اللہ مرے گناہ بخش دے۔ (قربطی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 2 لغات القرآن : اتوا، تم دو ۔ لاتتبدلوا، تم تبدیل نہ کرو۔ الخبیث بالطیب، گندگی کو پاکیزگی سے۔ حوب، لفظ حوب حبشی زبان کا ہے جس کے معنی ہیں بڑا گناہ عربی میں یہ لفظ اسی معنی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ کبیرا، بڑا۔ تشریح : ابھی کہا گیا ہے کہ اللہ کا تقوی اختیار کرو یعنی اس سے امیدیں لگاؤ۔ اس سے ڈرو۔ اور اس کا حکم مانو۔ پہلا حکم یتیموں کے متعلق ہے۔ ہر قوم میں ہر زمانے میں یتیم ہوتے ہیں۔ جو قوم یتیموں کا حق مار دیتی ہے وہ اپنے ایک اہم حصہ کو ضائع کردیتی ہے۔ ممکن ہے یتیموں میں یا ان کی اولادوں میں عظیم ہستیاں ہوں۔ وہ قوم ان عظیم ہستیوں سے محروم رہ جائے۔ پھر یتیم ہر خاندان میں اور ہر طبقے میں ہوتے ہیں۔ اگر یتیموں کو تلف کیا گیا تو آہستہ آہستہ ساری قوم تلف ہو سکتی ہے۔ پھر کیا ٹھکایا ہے کہ آج جو لوگ یتیموں کا حق مار رہے ہیں وہ کل خود یتیم اولاد نہ چھوڑ جائیں۔ اگر اپنی قوم کو عظیم بنانا ہے یا کم از کم بچانا ہے تو یتیموں کی خدمت اور حفاظت مقدم ہے۔ جیسا کہ یہ آیت مظہر ہے اس کے تین طریقے ہیں۔ (1) یتیموں کا مال یتیموں پر صر کیا جائے اور جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا مال شریعت کے مطابق ان کے حوالے کردیا جائے (2) ان کے اچھے مال کو برے مال سے نہ بدلا جائے (3) ان کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھایا جائے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ حساب کتاب الگ الگ اور صاف صاف رکھا جائے۔ اس اصول سے غبن، خوردبرد، غفلت ، تصرف وغیرہ کے چور دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورت کی پہلی آیت میں بنی نوع انسان کو ایک کنبہ قرار دے کر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا اب معاشرے کے پسماندہ لوگوں کے حقوق کا چھ آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پسماندہ لوگوں میں سرفہرست یتیم ہیں جو بلوغت سے پہلے باپ کے سہارے سے محروم ہوچکے ہوں۔ یتیم کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اپنے مال کے ساتھ ملانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔ ایسا کرنے والا حرام کو حلال کے ساتھ ملاتا ہے جس سے نفرت دلانے کے لیے خبیث کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ خبیث ناپاک اور گندی چیز کو کہتے ہیں۔ لفظ خبیث استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ پاک ذہن اور با ضمیر شخص یتیم کا مال کھانے کا تصور بھی نہ کرسکے۔ اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ جب یہ حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے اس پر اتنی سختی اور جلدی کے ساتھ عمل کیا کہ آپ کی محفل سے اٹھے اور گھر جانے کے بعد جن کے ہاں یتیم پرورش پا رہے تھے۔ ان کا کھانا پینا اور برتن الگ کردیے۔ جسے یتیموں نے شدّت کے ساتھ محسوس کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ماجرا عرض کیا۔ تب قرآن مجید میں اس کی وضاحت نازل ہوئی : (وَیَسْءَلُوْنَََکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْشَآء اللّٰہُ لَأَعْنَتَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) [ البقرۃ : ٢٢٠] ” اور وہ آپ سے یتیموں کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ فرما دیں کہ ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے اور اگر تم انہیں اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ مصلح اور مفسد کو جانتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَاأَبَاذَرٍّ إِنِّيْ أَرَاکَ ضَعِیْفًا وَإِنِّيْ أُحِبُّ لَکَ مَاأُحِبُّ لِنَفْسِيْ لَاتَأَمَّرَنَّ عَلَی اثْنَیْنِ وَلَاتَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیْمٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب کراھۃ الإمارۃ بغیر ضرورۃ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابوذر ! میں تجھے کمزور پاتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں کے امیر نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کا والی بننا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَیْرُ بَیْتٍ فِي الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحْسَنُ إِلَیْہِ وَشَرُّ بَیْتٍ فِي الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَاءُ إِلَیْہِ ) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الأدب، باب حق الیتیم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا مسلمانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو۔ مسلمانوں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کے ساتھ پیش آیا جاتا ہو۔ “ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَاأَجِدُ شَیْءًا وَلَیْسَ لِيْ مَالٌ وَلِيَ یَتِیْمٌ لَہٗ مَالٌ قَالَ کُلْ مِنْ مَالِ یَتِیْمِکَ غَیْرَ مُسْرِفٍ وَلَامُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ وَأَحْسِبُہٗ قَالَ وَلَا تَقِيَ مَالَکَ بِمَالِہٖ ) [ ابن ماجۃ : کتاب الوصایا، باب قولہ ومن کان فقیرًا فلیأکل بالمعروف ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا میرے پاس کوئی مال نہیں البتہ میرے پاس ایک یتیم ہے جس کا مال بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے یتیم کے مال سے فضول خرچی اور اپنے مال کے ساتھ نہ ملاتے ہوئے اس کے مال میں سے کھالیاکر۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا اپنا مال اس کے مال کے ذریعے نہ بچانا۔ “ مسائل ١۔ یتیموں کا مال واپس کرنا چاہیے۔ ٢۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن یتیموں کے حقوق : ١۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٢۔ یتیموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ (البقرۃ : ٨٣) ٣۔ یتیموں کا مال واپس کیا جائے۔ (النساء : ٢) ٤۔ یتیموں کا مال بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر واپس کرو۔ (النساء : ٦) ٥۔ یتیموں کو مال دو تو اس پر گواہ کرلو۔ (النساء : ٦) ٦۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت۔ (الضحیٰ : ٩) ٧۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ۔ بےانصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین ثواب ہے ۔ اور عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کرو ‘ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو ۔ اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لئے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ‘ نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو البتہ انہیں کھانے اور پہننے کیلئے دو اور انہیں نیک ہدایات کرو ۔ اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ‘ یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ‘ ایسا بھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال ہی جلدی جلدی کھا جاو کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے ۔ یتیم کا جو سرپرست مالدار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بناو اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے ۔ “ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا درج بالا موکد ہدایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے جاہلی معاشرے میں عورتوں اور بچوں اور ضعفاء کو بری طرح پامال کیا جاتا تھا ، مدینہ طیبہ کے اسلامی معاشرے میں دور جاہلیت کے یہ آثار ابھی تک باقی تھے ‘ اس لئے کہ مدینہ کا اسلامی معاشرہ اصلا عرب کے جاہلی معاشرے سے کٹ کر وجود میں آیا تھا اور قرآن مجید اس کی تہذیت وتربیت کر رہا تھا ‘ اور اسلامی جماعت کو نئی اقدار اور نئے تصورات سے مزین کیا جارہا تھا ‘ مسلمانوں کو نیا شعور دیا جارہا تھا ‘ ان کے اندر نئے خدوخال پیدا کئے جارہے تھے اور جدید رسم و رواج پیدا کئے جارہے تھے ۔ (آیت) ” واتوا الیتمی اموالھم ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم ، انہ کان حوبا کبیرا “۔ (٢) ترجمہ : ” یتیموں کے مال ان کو واپس دو ‘ اچھے کو برے مال سے نہ بدل لو ‘ ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاو ‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ “ یتیموں کو وہ مال دیدو جو تمہارے تصرف میں ہیں ‘ اور یہ نہ کرو کہ یتیموں کو مال دیتے وقت ردی اموال ان کو دیدو اور قیمتی اپنے پاس رکھ لو ۔ مثلا یہ کہ ان کی اچھی اراضی خود لے لو اور اپنی کم درجے کی اراضی انہیں دیدو ‘ اسی طرح اچھے مویشی خود لے لو اور انہیں بےکار مویشی دیدو ‘ یا تقسیم کرکے وہ انہیں گھٹیا حصہ دیدو ‘ یا نقد مال میں انہیں کھوٹے سکے دیدو کیونکہ نقد میں قیمتی اور کھوٹے دونوں سکے ہوتے ہیں ۔ نیز ان کی دولت کو اپنی دولت کے اندر ملا کر بھی نہ کھاو ۔ سب کا سب یا اس کا کوئی حصہ ۔ اللہ کے نزدیک یہ گناہ کبیرہ ہے ۔ اللہ تمہیں اس گناہ کبیرہ سے متنبہ کرتا ہے ۔ یہ سب واقعات اس وقت سوسائٹی میں بالعموم ہوا کرتے تھے جب اسلام آیا اور لوگوں کو ان ہدایات سے خطاب کیا گیا ۔ اس خطاب ہی سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ مخاطبین کے اندر ایسے لوگ موجود تھے ‘ جن سے اس قسم کی غلطیاں سرزد ہوا کرتی تھیں ۔ اور یہ امور جاہلیت کے آثار باقیہ میں سے تھے ۔ ہر جاہلی نظام میں ایسے ہی امور بالعموم پائے جاتے ہیں ۔ آج ہم گاؤں اور شہروں میں جاہلیت جدیدہ کے نظاموں میں روز ان امور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ آج بھی مختلف طریقوں سے یتیموں کے مال کھائے جاتے ہیں ‘ اور اس کیلئے مختلف حیلے اور بہانے تراشے جاتے ہیں ۔ آج کل مفصل قانونی تدابیر اور افسران حکومت کی جانب سے یتیموں کے اموال کی کڑی نگرانی کے باوجود اولیاء زیر کفالت لوگوں کے مال و جائیداد میں خرد برد کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں جو مشکلات ہیں انہیں قانون سازی اور حکومتی نگرانی کے ذریعہ سے حل نہیں کیا جاسکتا ‘ اس مسئلہ میں یہ چیزیں کبھی بھی کامیاب نہیں سکتیں اس لیے اس کا کوئی حل ہے تو وہ صرف تقوی اور خدا خوفی میں ہے ۔ یہ تقوی ہی ہے جو دل اور ضمیر کے اندر ایک چوکیدار بٹھا دیتا ہے ۔ اور اس کے بعد ہی قانون سازی اور عمال حکومت کی نگرانی موثر ہو سکتی ہے ۔ یہ تقوی ہی تھا جس کی وجہ سے اس آیت کے نزول کے بعد حیران کن واقعات وجود میں آئے ۔ یتیموں کے اولیاء نے اس قدر احتیاط شروع کردی کہ یتیموں کے اموال کو اپنے مالوں سے علیحدہ کردیا گیا ‘ ان کا کھانا پینا جدا کردیا گیا ‘ تاکہ صحابہ کرام اس گناہ کبیرہ میں مبتلا ہونے سے پوری طرح بچ نکلیں ۔ جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے ڈراتے ہوئے فرمایا ” یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ “ اس کرہ ارض پر صرف قانون سازی اور اجتماعی تنظیم کے ذریعہ کوئی اصلاحی اسکیم کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ قانون سازی اور تنظیم سے پہلے دلوں کے اندر خدا خوفی اور تقوی کا چوکیدار بٹھانا ضروری ہے ۔ جس کا دل پر قبضہ ہو اور ضمیر خود نظم قائم کرنے اور قانون پر عمل کرنے پر آمادہ ہو ‘ اور یہ تقوی اس وقت تک کسی نظم اور قانون کے بارے میں پر جوش نہیں ہوسکتا ۔ جب تک یہ قانون ایسے منبع سے صادر نہ ہو جو تمام انسانی خفیہ رازوں سے واقف نہ ہو ‘ وہ منبع ضمیر پر بھی حکمران نہ ہو ‘ صرف ایسے حالات ہی میں ایک فرد کے دل کے اندر شدید احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہو قانون کا احترام کرے ۔ وہ اللہ جل شانہ سے خیانت نہ کرے وہ اس کے حکم اور اس کے ارادے کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار نہ کرے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس فرد کی نیت اور اس کے اعمال دونوں سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے ۔ اس احساس کے دباو میں ارتکاب گناہ کے معاملے میں اس کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں ۔ وہ ڈر کی وجہ سے کانپنے لگتا ہے اور اس کے جذبہ خدا خوفی میں جوش آجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے اور ان کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ خود انسان کے نفس اور اس کے اعصاب کا خالق ہے ۔ اور اسی نے ان کی تخلیق کی مناسبت سے ان کے لئے اپنے قانون کو قانون قرار دیا ہے ۔ اپنی شریعت قرار دیا ہے ۔ اس کیلئے اپنے نظام زندگی کو نظام قرار دیا ہے ۔ اور اس کے نفاذ کیلئے خود اپنا منہاج اور طریق کار دیا ہے ۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان چیزوں کا وزن ہو ۔ اور وہ اس قانون اور منہاج کی خلاف ورزی کی جرات نہ کریں ۔ اور اللہ سے ڈریں ۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح علم تھا کہ دنیا میں کوئی بھی قانونی نظام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نسبت ذات باری کی طرف نہ ہو ‘ اس لئے کہ لوگوں کے دلوں میں ذات باری کا خوف اور اس کی رحمت کی امید ہوتی ہے ۔ نیز انہیں پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دل کی خفیہ باتوں سے واقف ہیں اور وہ دلی بھیدوں کے جاننے والے ہیں ۔ نیز انسان کا بنایا ہوا قانون اس وقت تک چلتا ہے اور اس پر عمل ہوتا ہے جب تک پکڑ دھکڑ کا خوف قائم رہتا ہے اور سخت ترین ظاہری نگرانی اپنا کام کر رہی ہوتی ہے ۔ جس کا دخل اور اثر لوگوں کے دلوں پر نہیں ہوتا لیکن جونہی یہ ظاہری نگرانی کمزور ہوتی ہے لوگ اس قانون کی خلاف ورزی شروع کردیتے ہیں یا جب بھی انہیں حیلے اور بہانے کا موقعہ ملتا ہے ‘ باوجود اس کے کہ انہیں پتہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ پکڑے گئے اور ان کی سخت سرزنش ہوگی اور جانی اور مالی نقصان ہوگا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اموال یتامیٰ کے بارے میں تین حکم : پھر یتیموں کے اولیاء کو حکم دیا کہ تم ان کے مال ان کودے دو اچھے مال کو برے مال سے تبدیل نہ کرو۔ اور اپنے مال ان کے مالوں میں ملا کر نہ کھا جاؤ اس میں تین باتوں کا حکم فرمایا ہے۔ یتامیٰ کے اموال دے دو : اول یہ کہ جو یتیم بچے تمہاری پرورش میں ہیں ان کے مال جو انہیں میراث میں ملے ہیں یا کسی نے انہیں ہبہ کردیئے ان کے بالغ ہونے تک ان کے مالوں کو محفوظ رکھو اور بقدر ضرورت ان کے مالوں میں سے ان پر خرچ کرتے رہو۔ پھر جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو ۔ ایسا نہ کرو کہ جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا مال بلا وجہ اپنی تحویل میں رکھے رہو اور ان کو دینے سے منع کر دو ۔ اسباب النزول صفحہ ١٣٦ میں ہے کہ یہ آیت بنی غطفان کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی اس کی پرورش میں ایک یتیم بچہ تھا جو اس کے بھائی کا لڑکا تھا۔ جب یتیم بالغ ہوگیا تو اس نے اپنا مال طلب کیا۔ چچا نے اس کا مال سپرد کرنے سے انکار کردیا اس پر دونوں چچا بھتیجے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی چچا نے جب یہ آیت سنی تو کہا کہ ہم اللہ و رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور بڑے گناہ سے پناہ مانگتے ہیں یہ کہا اور یتیم کا مال اس کے حوالے کردیا۔ یتامیٰ کے اچھے مال کو برے مال سے تبدیل نہ کرو : دوم یہ فرمایا کہ برے مال کو اچھے مال سے تبدیل نہ کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ یتیم بچے جو تمہاری پرورش اور نگرانی میں ہیں جن کا مال تمہارے قبضہ میں ہے ان کے اچھے مال کو خود اپنے حصے میں اور اپنے گھٹیا مال کو اس کے عوض اس کے حساب میں لگا کر حساب پورا نہ کر دو ۔ اپنی اولاد کی خاطر لوگ یتیم کے ساتھ ایسا معاملہ کرتے ہیں کہ اچھی جائداد اور اچھا مال جو یتیموں کی ملکیت ہو اسے اپنا بنا کر اپنے نام رجسٹری کر وا لیتے ہیں اور یتیم بچوں کو گھٹیا مال دے دیتے ہیں۔ اور بعض مفسرین نے (وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بالطَّیِّبِ ) کا یہ معنی بھی بتایا ہے کہ اپنے حلال مال کو چھوڑ کر یتیموں کا مال نہ کھا جاؤ جن کا کھانا تمہارے لیے حرام ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو طیب کو چھوڑ کر خیانت کرکے دوسرے کا مال کھانے والے بن جاؤ گے۔ اور یہ مال چونکہ تمہارے لیے حرام ہوگا اس لیے خبیث ہوگا، یہ معنی بھی لفظ قرآنی سے بعید نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اپنا گھٹیا مال یتیم کے حصہ میں لگا کر اس کا اچھا مال لینا حرام ہے تو یہ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہوگا کہ ان کا مال بالکل ہی بلا بدل کے کھالیا جائے۔ یتامیٰ کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھا جاؤ : سوم : یہ ارشاد فرمایا کہ (وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ الآی اَمْوَالِکُمْ ) (اور یتیموں کے مالوں کو اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ) یتیم بچے جن لوگوں کی پرورش میں ہوتے ہیں ان میں جن کا مزاج خیانت والا ہوتا ہے ایسے لوگ مختلف طریقوں اور تدبیروں سے یتیموں کے مالوں کو اپنے مالوں میں ملا کر کھا جاتے ہیں کچھ لوگ تو غفلت اور بےدھیانی میں ایسا گزرتے ہیں کہ گھر کی مشترکہ ضرورتوں میں مال خرچ کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ یتیم بچے پر اس کے اپنے ذاتی مال میں سے کتنا خرچ ہوا اور اس کے مال میں سے مشترکہ ضروریات میں دوسروں پر کتنا خرچ ہوا ہے ؟ اور کچھ لوگ قصداً وارادۃً ایسا کرتے ہیں کہ یتیم بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے ہی ان کے مال کو کسی نہ کسی طرح اپنے نام میں یا اپنی اولاد کے نام میں لکھوا دیتے ہیں پھر جب وہ بالغ ہوجاتا ہے تو اسے اپنے مال میں سے ذرا بہت ملتا ہے یا بالکل ہی محروم ہوجاتا ہے۔ فائدہ : یتیم بچوں کا کھانا اپنے کھانے میں ملا کر پکانے کے بارے میں ضروری ہدایت سورة بقرہ کی آیت (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی) کی تفسیر میں گزر چکی ہے وہاں ملا حظہ کرلی جائے۔ آخر میں فرمایا (اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا) (یعنی یتیم کے مال میں خیانت کرنا بڑا گناہ ہے) ہر امانت داری کی خلاف ورزی گناہ ہے لیکن یہاں مستقل طریقہ پر یتیم کے مال میں خیانت کرنے پر تنبیہ فرمائی اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ گناہ ہے بلکہ یہ فرمایا کہ بڑا گناہ ہے جو لوگ یتیموں کے مالوں کے محافظ و متولی ہیں پوری آیت کو بار بار پڑھیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ چودہ احکام رعیت۔ پہلا حکم رعیت۔ (یتیموں کا مال نہ کھاؤ وہ تمہارے لیے خبیث ہے) ۔ مال یتیم کے بارے میں تین چیزوں سے منع فرمایا (1) یتیم کا عمدہ مال لے کر اس کے بدلے اپنا ردی مال دیدینا۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا کرتے تھے۔ وکانوا فی الجاھلیۃ لعدم الدین لا یتحرجون عن اموال الیتیمی فکانوا یاخذون الطیب والجید من اموال الیتمی ویبدلونہ بالردی من اموالہم الخ (قرطبی ج 5 ص 9) مال یتیم کو بوجہ حرمت خبیث فرمایا کیونکہ وہ ولی یتیم کے لیے حرام ہے (2) اپنے پاس مال نہ ہو تو یتیم کا مال کھانا۔ لا تتعجلوا اکل الخبیث من اموالھم وتدوا انتظار الرزق الحلال من عنداللہ (قرطبی) (3) اور اگر اپنے پاس بھی مال ہو تو یتیم کا مال اس میں ملا کر کھانا یہ تینوں طریقے ظالمانہ تھے اس لیے ان سے منع فرمایا۔ الی اموالکم میں الی بمعنی مع ہے اور اس سے تیسرے حکم کی طرف اشارہ ہے۔ یا اَمْوَالِکُمْ سے پہلے مضاف مقدر ہے ای الی حصول اموالکم اس طرح یہ حکم ثانی کی طرف اشارہ ہوگا۔ وَ اٰتُوْا الْیَتَامیٰ اَمْوَالَھُمْ میں خطاب اولیائے یتیم سے ہے۔ اور یتیموں کو ان کا مال دینے سے یہاں یہ مراد نہیں کہ ان کا مال ان کے حوالے کردو کیونکہ یہ حکم آگے آرہا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یتیموں کا مال محفوظ رکھو اور اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرو۔ والمراد باتیاء اموالہم ترکہا سالمۃ غیر متعرض لھا بسوء فھو مجاز مستعمل فی لازم معناہ (روح ج 4 ص 186) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور یتامیٰ یعنی بن باپ کے بچوں کا مال انہی کو دیتے رہو اور حسب ضرورت انہی پر خرچ کرتے رہو اور اچھی چیز کو بری چیز سے نہ بدلو اور ان بن باپ کے بچوں کا مال اپنے اموال کے ساتھ ملاکر خود برد نہ کرو یقیناً ایسا کرنا یعنی اچھی چیزوں کو بری چیزوں سے بدلنا یا ہوتے سا تھے بلاضرورت ان کے مال سے نفع حاصل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اوصیا اور اولیاء کو چاہئے کہ ان کے پاس یتیموں کا جو مال ہو وہ اس مال کو یتامیٰ کی ضروریات پر خرچ کرتے رہیں اور حسب ضرورت ان کو دیتے رہیں اور ان کے مال میں ادل بدل نہ کریں کہ اچھی چیز ان کے مال میں سے نکال لیں اور بری چیز ان کے مال میں رکھ دیں۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوا کرتا تھا اسی طرح ان کے اموال کو اپنے اموال میں شامل کرکے خورد برد نہ کریں کہ اپنے مال کے ساتھ ان کا مال کھاجائیں اور ہوتے سا تھے بلاضرورت ہم نے اس لئے کہا کہ اگر یہ نگراں اور پرورش کرنے والا مالدار ہو تو ایسا کرنا حرام ہے البتہ اگر فقیر ہو تو دستور کے موافق حق الخدمت کے طور پر کچھ کھا سکتے ہے جس کا حکم آجائے گا۔ اسی لئے ہم نے عرض کیا ہے کہ ہوتے سا تھے ان کا مال اپنے مال میں ملاکر نہ کھاجائو۔ اس قسم کی کارروائی کرنا کہ اچھا مال نکال کر اس کی جگہ برا رکھ دینا یا ہوتے سا تھے ان کا مال کھا جانا بڑا گناہ ہے۔ جو مطلب آیت کا ہم نے بیان کیا ہے یہ اس شان نزول کی بنا پر ہے جو ابن جریر نے سدی سے نقل کیا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یتیم کے ریوڑ میں سے موٹی بکری نکال کر اپنے ریوڑ میں سے دبلی اور بیمار بکری یتیم کے ریوڑ میں ملا دیتے تھے اسی طرح یتیم کے مال میں سے کھرا دینار نکال کر اس کے مال میں کھوٹا دینار رکھ دیتے تھے اور کہتے تھے بکری کی جگہ بکری اور دینار کی جگہ دینار۔ اس ادل بدل کو اللہ رب العزت نے حرام فرمایا اس تقدیر پر تبدل کے معنی تغیر کے ہوں گے اور مطلب یہ ہوگا کہ حلال مکتب کو حرام منعقب سے نہ بدلو۔ یعنی تم نے جو مال کمایا ہے وہ حلال ہے اور یتیم کا جو مال تم نے غصب کیا تو وہ اس غصب کرنے کی وجہ سے حرام ہے تو ہلال کو حرام سے نہ بدلو ! اگرچہ ولا تتبدلو الاخبیث بالطیب کا مفہوم بہت ہی عام ہے۔ اور بہت سے معنی ہوسکتے ہیں مثلاً کفر کو ایمان سے نہ بدلو یا بری عادت کو اچھی عادت سے نہ بدلو ۔ یا بداخلاق عورت کو خوش اخلاق عورت سے نہ بدلو یا بری تجارت کو اچھی تجارت سے نہ بدلو۔ غرض ! الفاظ میں بڑی گنجائش ہے لیکن یہاں مطلب وہی ہے جو ہم نے عرض کیا ہے اور یہ جو فرمایا ان کے مال اپنے مال میں شامل کرکے خورد برد نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مال میں بےجا تصرف نہ کرو یہ مطلب نہیں ہے کہ بس ان کا مال کھائو نہیں اور جو کچھ چاہے کرو۔ جیسا کہ بعض بدمعاملہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کے کھانے کی ممانعت کی ہے کپڑا بنانے کی ممانعت نہیں کی ہے۔ کھانے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ مال کا اہم مفاد اور بڑی غرض کھانا اور پیٹ پالنا ہے ورنہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یتیم کا مال اپنے مال میں شامل کرکے کھائو نہیں اور جس طرح چاہے اس کا مال اڑائو۔ اور دوسرے پارے میں جو اختلاط کی اجازت دی ہے اس پر اس ممانعت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہاں ملانے سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ یتیم کا مال کھا جائیں بلکہ وہاں اس دشواری کا دور کرنا ہوتا ہے جو علیحدہ علیحدہ توا چولہارکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہاں غرض شامل کرنے سے اس کا مال تلف کرنا ہے اور چونکہ فقیر کو حق الخدمت کے طور پر یتیم کے مال میں سے خدمت کی اجرت لینا جائز ہے جیسا کہ چند آیتوں کے بعد آجائے گا اس لئے ہم نے ہوتے سا تھے اور بلاضرورت کی قید لگائی ہے۔ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں۔ اپنے بعض اکابر نے ولا تاکلوا اموالھم کا ترجمہ اس طرح کیا ہے اور ان کے مال مت کھائو اپنے مالوں کے رہنے تک ! اس ترجمہ میں اگر کاش یہ مشکل نہ ہوتا تو ایک خوبی یہ ہے کہ الی اپنے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور الی کو مع کے معنی میں لے کر ترجمہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور ایک خوبی اس ترجمہ میں اور بھی ہے جس کو اہل علم سمجھتے ہیں کہ اس ترجمہ سے یتیم کا مال کھانے کی حرمت ثابت ہوئی ہے خواہ وہ تبدیل کے بعد ہو یابلا تبدیل ہو۔ (واللہ اعلم) آیت زیر بحث کا ایک دوسرا شان نزول وہ ہے جس کو ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ غطفان کا ایک آدمی تھا اس کے پاس اس کے یتیم بھتیجے کا بہت مال تھا۔ جب وہ بھتیجا بالغ ہوگیا تو اس نے چچا سے اپنا مال طلب کیا۔ چچا نے انکار کردیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کو سن کر یتیم کے چچا نے کہا۔ اطعنا اللہ ورسولہ نعوذ باللہ من الحرب الکبیر یعنی ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں اور کسی بڑے گناہ کے مرتکب ہونے سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ اس شان نزول کی بنا پر بعض حضرات نے واتو الیتیمی اموالھم کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ یتیموں کو جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کے مال سپرد کردو اور دیدیو۔ اس تقدیر پر اول تو یتیم کے معنی میں بالغ یتیم کرنا ہوگا حالانکہ یتیم اس بن باپ کے بچے کو کہتے ہیں جو بالغ نہ ہوا ہو۔ بالغ ہوجانے کے بعد پھر عرفاً اور شرعاً اس پر لفظ یتیم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نیز ہم نے اس لئے اس کو اختیار نہیں کیا کہ بالغوں کا حکم مستقلاً آگے آرہا ہے اگر یہاں بھی وہ معنی لئے جائیں تو بلاوجہ تکرارہوگی۔ بہرحال اس معنی سے بھی ہم کو انکار نہیں اور اس کی بھی گنجائش ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے اولیا اور اوصیام تم یتیموں کے مال کی حفاظت کرو کسی طرح اس مال کو نقصان پہنچانے کے درپے نہ ہو اور جب وہ یتیم اس مال کی واپسی کے مستحق ہوجائیں تو وہ مال بلاکم وکاست ان کے سپردکردو۔ (واللہ اعلم، ) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جس لڑکے کا باپ مرجائے تو اس کے بڑوں کو تقلید ہے کہ اس کے مال میں ہاتھ نہ ڈالیں اور بدل نہ لیں احتیاط سے رکھیں جب بالغ ہو تو حوالہ کردیں۔ (موضح القرآن) حوب کے معنی حضرت عبداللہ بن عباس نے گناہ اور ظلم کئے ہیں ہم نے حبر الامت کا ایک قول اختیار کرلیا ہے۔ تبدل کے معنی میں صاحب روح المعانی نے بڑی سیر حاصل بحث کی ہے جو صاحب تفصیل پسند کرتے ہوں وہ روح المعانی ملاحظہ فرمائیں۔ اب آگے اسی سلسلے میں یتیموں کے اور حقوق بیان کرتے ہیں۔ مثلاً زمانہ جاہلیت میں بعض اولیا یہ بھی کرتے تھے کہ کسی یتیم لڑکی کو مالدار دیکھا اور خوبصورت سمجھا تو اس کو نکاح میں لے آئے۔ اور چونکہ خود پرورش کنندہ ہوتے تھے اور دوسرا کوئی شخص اس لڑکی کی وکالت کرنے والا نہ ہوتا تھا اس لئے اس خوبصورت اور مالدار لڑکی کا مہر اس کی حیثیت سے بہت کم مقرر کرلیا کرتے تھے۔ خود ہی اس لڑکی کے سرپرست اور خودہی نکاح کرنے والے اور اپنے نکاح میں لانے والے اور خود ہی مہر مقرر کرنے والے۔ اس طرز عمل سے یتیموں کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نقصان کے اس طریقہ پر بھی تنبیہ فرمائی۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)