Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 21

سورة النساء

وَ کَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَ قَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّ اَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ﴿۲۱﴾

And how could you take it while you have gone in unto each other and they have taken from you a solemn covenant?

حالانکہ تم ایک دوسرے کو مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ ... And how could you take it (back) while you have gone in unto each other! how can you take back the dowry from the woman with whom you had sexual relations and she had sexual relations with you! Ibn Abbas, Mujahid, As-Suddi and several others said that; this means sexual intercourse. ... وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا and they have taken from you a firm and strong covenant! The Two Sahihs record that; the Messenger of Allah said three times to the spouses who said the Mula`anah; اللهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَايِبٌ Allah knows that one of you is a liar, so would any of you repent? The man said, "O Messenger of Allah! My money," referring to the dowry that he gave his wife. The Messenger said, لاَا مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ أَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا You have no money. If you are the one who said the truth, the dowry is in return for the right to have sexual intercourse with her. If you are the one who uttered the lie, then this money is even farther from your reach. Similarly Allah said; وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا And how could you take it (back) while you have gone in unto each other and they have taken from you a firm and strong covenant) (Be kind with women, for you have taken them by Allah's covenant and earned the right to have sexual relations with them by Allah's Word. Marrying the Wife of the Father is Prohibited Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 ' ایک دوسرے سے مل چکے ہو ' کا مطلب ہم بستری ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کنایۃً بیان فرمایا ہے 21۔ 2 مضبوط عہد پیماں سے مراد وہ عہد مراد ہے جو نکاح کے وقت مرد سے لیا جاتا ہے کہ تم اسے اچھے طریقے سے آباد کرنا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Secondly, in the following sentence in verse 21, it was said: وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ that is, how can you now take back what you had given her when not only the marriage has been solemnized, but you have also had access to each other in privacy? For, in this situa-tion, whatever has been given, if against dower, the woman certainly deserved it. She now owns it because she surrendered herself to her husband. The idea that it could be returned is senseless. Even if this money or property given by the husband was presented or gifted, even then, it is not possible that it could be returned because what a husband and wife give to each other as gift cannot be taken back. Such claim of its return is neither permissible in Shari` ah, nor is it legally enforced. So, marital bond prevents the taking back of what has been given as gift. The same subject has been stated in the last sentence of verse 21: وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا (and they have taken a firm covenant from you). This &covenant& is the bond of marriage which is solemnly attested to with the name of Allah before a gathering of people following a khutbah. To sum up, once this marital covenant has been made and mutual privacy has brought the couple close together, to force the woman to return what was given to& her is open injustice and tyranny. All Muslims must abstain from it.

دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا گیا : وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض ” یعنی اب تم اپنا مال ان سے کیسے واپس لے سکے ہو، جبکہ صرف عقد نکاح ہی نہیں بلکہ خلوت صحیحہ اور ایک دوسرے سے بےحجابانہ ملنا بھی ہوچکا ہے، کیونکہ اس صورت میں دیا ہوا مال اگر مہر کا ہے تو عورت اس کی پوری مستحق اور مالک ہوچکی ہے، کیونکہ اس نے اپنے نفس کو شوہر کے سپرد کردیا، اب اس کی واپسی کے کوئی معنی نہیں اور اگر دیا ہوا مال ہدیہ تحفہ کا ہے تو بھی اب اس کی واپسی ممکن نہیں، کیونکہ میاں بیوی جو آپس میں ایک دوسرے کو ہبہ کریں اس کی واپسی نہ شرعاً جائز ہے اور نہ قانوناً نافذ کی جاتی ہے، غرض ازدواجی تعلق ہبہ کی واپسی سے مانع ہے۔ اور اسی مضمون کے شروع جملہ میں ارشاد فرمایا : واخذن منکم میثاقاً غلیظاً ” یعنی ان عرتوں نے تم سے پختہ اور مضبوط عہد لے لیا ہے۔ “ اس سے مراد عقد نکاح کا عہد ہے۔ جو اللہ کے نام اور خطبہ کے ساتھ مجمع کے سامنے کیا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس ازدواجی عہد و میثاق اور باہم بےحجابانہ ملنے کے بعد دیا ہوا مال واپس کرنے کے لئے عورت کو مجبور کرنا کھلا ہوا ظلم وجور ہے، مسلمانوں کو اس سے اجتناب لازم ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۝ ٢١ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ فضا الفَضَاءُ : المکان الواسع، ومنه : أَفْضَى بيده إلى كذا، وأَفْضَى إلى امرأته : في الکناية أبلغ، وأقرب إلى التّصریح من قولهم : خلا بها . قال تعالی: وَقَدْ أَفْضى بَعْضُكُمْ إِلى بَعْضٍ [ النساء/ 21] . وقول الشاعر : طعامهم فَوْضَى فَضًا في رحالهم أي : مباح، كأنّه موضوع في فضاء يَفِيضُ فيه من يريده . ( ف ض ی ) الفضاء کے معنی وسیع جگہ کے ہیں اور اسی سے افضی بید ہ الی کذا کا محاورہ ہے جسکے معنی کسی جگہ پر ہاتھ پہنچ جانے کے ہیں اور افضیٰ الی امراء تہ عورت سے جماع کرنی سے کنایہ ہوتا ہے اور یہ خلا بھا کے محاورہ سے زیادہ صریح ہی قرآن پاک میں ہے : ۔ وَقَدْ أَفْضى بَعْضُكُمْ إِلى بَعْضٍ [ النساء/ 21] تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( 341 ) طعا مھم فوضیٰ فضا فی رحل لھم ان کے گھروں میں طعام منتشر اور بکھر ا پڑا ہے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ غلظ الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی: وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] . ( ع ل ظ ) الغلظۃ ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وکیف تاخذونہ وقدافضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا، اور آخرتم اسے کس طرح لے لوگے جبکہ تم اپنی بیویوں سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور انہوں نے تم سے پختہ عہد بھی لے لیا ہے۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ فراء کا قول ہے کہ افضاء خلوت کو کہتے ہیں خواہ ہمبستری نہ بھی ہوئی ہولغت کے لحاظ سے الفاظ کے معانی کے سلسلے میں فراء کا قول حجت ہے۔ اگر افضاء کے اسم کا اطلاق خلوت پر ہوتا ہے تو آیت میں خلوت میسرآجاے کے بعد طلاق کی صورت میں مطلقہ سے کسی چیز کو واپس لینے کی ممانعت ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ قول باری (وان اردتم استبدال زوج) فرقت اور طلاق کے مفہوم کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ افضاء کا لفظ فضاء سے لیاگیا ہے۔ فضاء اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی عمارت وغیرہ نہ ہو جو وہاں پڑی ہوئی کسی چیز کو حاصل کرنے میں رکاوٹ بن سکے خلوت کو افضاء کا نام اسی لیے دیا گیا کہ اس حالت میں ہمبستری کے عمل کے لیئے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ بعض کا یہ قول ہے کہ کشادگی کا نام فضاء ہے۔ جب کوئی شخص اپنے مقصود میں کشادگی محسوس کرے توکہاجاتا ہے، افضی الرجل، اس مفہوم کے تحت بھی خلوت کو افضاء کا نام دینا درست ہے کیونکہ اس کے ذریعے مرد کو مقام وطی یعنی بیوی کی شرمگاہ تک رسائی ہوجاتی ہے اور اس عمل کے لیے اسے پوری گنجائش حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ خلوت سے پہلے بیوی تک رسائی میں اسے تنگی پیش آرہی تھی اس مفہوم کی بناپرخلوت کو افضاء کا نام دے دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ میاں بیوی کو خلوت میسرآجانے شوہر کو ہمبستری کا موقعہ مل جانے اور بیوی کی طرف سے خود سپرد گی کا مظاہرہ کردینے اور جسمانی تلذذکاپوراموقع دے دینے کے بعد شوہر کے لیے بیوی کو دی ہوئی کسی چیز کی واپسی جائز نہیں ہے۔ ظاہر آیت کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ اگر نفرت اور روگردانی کا اظہار شوہر کی طرف سے ہو تو اس کے لیے دی ہوئی کسی بھی چیز کو واپس لینے کی ممانعت ہے۔ اس لیے کہ قول باری (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج) ۔ اس پر دلالت کررہا ہے کہ علیحد گی کا ارادہ شوہر کی طرف سے ہوا ہے بیوی کی طرف سے نہیں بناپر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر نفرت اور روگردانی کا اظہار شوہر کی طرف سے ہو تو اس کے لیے مہر میں سے کسی چیز کو واپس لے لینا مکروہ ہوگا لیکن اگر نفرت اور سرکشی کا اظہار بیوی کی طرف سے ہو توشوہر کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے (فان خفتم الایقیما حدود اللہ فلاجناح علیھما فیما افتدت بہ) اور جیسا کہ پہلے گذرچکا ہے حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ فاحشہ سے مراد نشوز یعنی نفرت، روگردانی اور نافرمانی ہے اور دوسرے حضرات کے نزدیک اس سے مراد بدکاری ہے۔ نیز یہ قول باری بھی ہے (فان خفتم الایقیما حدود اللہ فلاجناح علیھما فیماافتدت بہ اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس مال میں کوئی گناہ نہیں جو عورت اپنی ذات کے فدیہ کے طورپراداکرے) ۔ بعض کا قول ہے کہ یہ حکم قول باری (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج) کی بناپر منسوخ ہوچکا ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہے اس لیے کہ یہ قول باری اس حالت کی نشاندہی کررہا ہے جس میں نفرت اور روگردانی کا اظہار شوہر کی طرف سے ہواہوجب کہ قول باری (الاان یخافا الا یقیما حدود اللہ) میں ایسی حالت کا ذکر ہوا ہے جو پہلی حالت سے مختلف ہے اور وہ یہ حالت ہے جس میں سرکشی اور نفرت کا اظہار بیوی کی طرف سے ہواہو اور عورت نے بطور فدیہ شوہر کو کوئی رقم دے دی ہو اس یہ حالت پہلی حالت سے مختلف ہے اور ان دونوں حالتوں میں سے ہر ایک کے لیئے مخصوص حکم ہے۔ قول باری ہے (واخذن منکم میثا قاغلیظا، اور انہوں نے تم سے پختہ عہد لے رکھا ہے حسن ابن سیرین قتادہ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد بھلے طریقے سے عقدزوجیت میں باقی رکھنا یا اچھے طریقے سے رخصت کردینا ہے۔ جس کا ذکر قول باری (فامساک بمعروف اؤتسریح باحسان) میں ہوا ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ آغاز اسلام میں نکاح کرنے والے سے کہاجاتا کہ ، تمہیں خدا کا واسطریاتوا سے سیدھے طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھنایاپھربھلے طریقے سے اسے رخصت کردینا، مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد نکاح کا کلمہ ہے جس کے واسطے سے مرد اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق کو حلال کرلیتا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے۔ (انمااخذتموھن بامانۃ اللہ واستحللتم فروجن بکلمۃ اللہ، تم نے انہیں اللہ کی امانت کے تحت لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے واسطے سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَکَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ ) کچھ عقل کے ناخن لو ‘ کچھ شعور اور شرافت کا ثبوت دو ۔ تم ان سے وہ مال کس طرح واپس لینا چاہتے ہو جبکہ تمہارے مابین دنیا کا انتہائی قریبی تعلق قائم ہوچکا ہے۔ (وَّاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا ) یہ قول وقرار نکاح کے وقت ہوتا ہے جب مرد عورت کے مہر و نفقہ کی پوری ذمہ داری لیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31. The 'firm covenant' in this verse refers to marriage. For marriage is a firm covenant of fidelity. It is only because a woman has faith in the firmness of this covenant that she entrusts herself to a man. If a man decides of his own will to break it, he has no right to withdraw the amount he offered his wife by way of bridal-due at the time of entering into that covenant. (See Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 2, n. 251.)

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :31 پختہ عہد سے مراد نکاح ہے ، کیونکہ وہ حقیقت میں ایک مضبوط پیمان وفا ہے جس کے استحکام پر بھروسہ کر کے ہی ایک عورت اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالہ کرتی ہے ۔ اب اگر مرد اپنی خواہش سے اس کو توڑتا ہے تو اسے معاوضہ واپس لینے کا حق نہیں ہے جو اس نے معاہدہ کرتے وقت پیش کیا تھا ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۲۵١ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:21) قد افضی بعضکم الی بعض ۔ قد ماضی قریب کے لئے افضی الیٰ ۔ کسی جگہ پہنچنا افضی بیدہ الی کذا کئے معنی ہیں کسی جگہ ہاتھ پہنچ جانا۔ افضی الی۔ ای وصل۔ وافضی الی المراۃ ۔ خلابھا۔ اس کے ساتھ خلوت کی۔ جمار کیا۔ افضی۔ وہ پہنچ گیا ۔ وہ بےحجابانہ مل گیا۔ فضا اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی عمارت اس جگہ کی کسی چیز کے ادراک سے مانع ہو۔ خلوت بھی اسی وجہ سے افضاء سے موسوم ہوئی کہ اس میں ہر وہ چیز جو مجامعت سے مانع تھی دور ہوگئی۔ قد افضی۔۔ بعض۔ حالانکہ تم تنہائی میں ایک دوسرے سے مل چکے ہو۔ اخذن۔ ماضی جمع مؤنث غائب وہ لے چکی ہیں۔ یا نہوں نے لیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 پختہ عہد سے مراد عقدہ نکاح ہے بعض نے اس کی تفسیر خطبئہ نکاح سے بھی کی ہے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا (١٢) ” اور آخر تم اسے کس طرح واپس لے لوگے جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔ “ یہاں افضی فعل کے مفعول کو متعین نہیں کیا گیا لفظ کو عام چھوڑ دیا گیا ‘ اس سے اس کے ہر قسم کے مدلول کا اظہار ہو سکتا ہے تمام مفاہیم پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تمام اشارات ذہن میں گردش کرتے ہیں ‘ جسمانی لطف اندوزی بھی ‘ جذبات ومیلانات بھی ‘ احسانات اور تصورات بھی ‘ راز ونیاز بھی اور وہ تمام دلچسپیاں بھی جو میاں بیوی کے درمیان ہو سکتی ہیں ۔ انسانی زندگی کے شب وروز کی ہر شکل و صورت اس لفظ افضی کے مفہوم میں آتی ہے ۔ غرض وہ تمام باتیں پردہ خیال پر آجاتی ہیں جن کا تعلق میاں بیوی کے اس اہم ادارے کی گزشتہ زمان ومکان کے ساتھ وابستہ رہی ہیں ۔ دل کی ہر دھڑکن افضاء ہے ‘ ہر مشتاقانہ نظر افضاء ہے جسم کا ہر لمس افضاء ہے ‘ غم اور امید میں شرکت افضاء ہے ۔ حال ومستقبل کی ہر مشترکہ سوچ افضاء ہے ۔ ہر پچھلی سوچ افضاء ہے اور سب سے اعلی یہ کہ دونوں کی مشراولاد بھی افضاء ہے ۔ تصورات و احساسات کا یہ ڈھیر ہے ‘ جذبات ومیلانات کی یادوں کی اس تازگی کو صرف چند الفاظ میں اسکرین پر لایا گیا ۔ (آیت) ” وقد افضی بعضکم الی بعض ” اور تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو۔ “ ان یادوں کے ہوتے ہوئے اب مرد کے لئے بعض حقیر چیزوں کا مطالبہ کرنا نہایت ہی حقیر نظر آتا ہے اور اب شرم کے مارے وہ اس مفاداتی مطالبے سے باز آجاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ ماضی قریب کی عملی زندگی کے خوشگوار تصورات کو اسکرین پر دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ اب اسے وقت فراق میں یہ یادیں اذیت دیتی ہیں اور وہ یہ احساس کرتا ہے کہ یہ تمام واقعات بادل نخواستہ ہیں ۔ ان یادوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسری بات ‘ ایک دوسرا فیکٹر بھی یاد دلایا جاتا ہے ۔ گویا اسکرین پر ایک دوسری جھلک آتی ہے ۔ ایک دوسرا رنگ نمودار ہوتا ہے ۔ (آیت) ” واخذن منکم میثاقا غلیظا ‘” اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں “۔ میثاق نکاح اللہ کے نام سے اور خطبے کے ساتھ نبی کی سنت کے مطابق ۔ یہ عہد نکاح ایک عظیم عہد جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک مومن کے نزدیک وہ بہت بڑی بات ہے ۔ یہ نکاح اہل ایمان کے مابین ہے اور اہل ایمان اسے ایک عظیم عقد بلکہ میثاق سمجھتے ہیں ۔ اس کا احترام ان پر الازم ہے ۔ آخر میں ایک فعل شفیع کے بارے میں قطعی حرمت آتی ہے ۔ یہ فعل جاہلیت میں مروج تھا ۔ بیٹے باپ کی منکوحہ سے نکاح کرلیا کرتے تھے اور بعض اوقاقت اس حق نکاح کی وجہ سے عورتیں معطل ہوکر رہ جاتی تھیں کہ بچہ بڑا ہو اور اپنے والد کی بیوی سے نکاح کرے اور اگر بڑا ہوتا تو وہ منکوحہ والد کو مال میراث تصور کرتا ، اسلام نے اس فعل کو سخت ترین الفاظ میں حرام قرار دیا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ کَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ ) کہ جو مال تم نے اپنی بیوی کو دے دیا ہے حالانکہ تم ایک دوسرے سے بےحجاب ہو کر مل بھی چکے ہو، وہ اپنی ذات تمہارے حوالے کرچکی ہے (اور مہر اسی کا عوض ہے) تو اب اس عوض کو جو تم دے چکے ہو کس طرح واپس لو گے ؟ یہ تو عقلاً بھی برا ہے اور مزید یہ ہے کہ وہ عورتیں تم سے مضبوط اقرار لے چکی ہیں کہ تم نے جو مہر مقرر کیے وہ مہر ادا کرو گے، لہٰذا اس عہد کی خلاف ورزی کرنا عقلاً و شرعاً مذموم ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ بوقت نکاح ادائے مہرکا عہد و پیمان ہوا، پھر آپس میں مل کر بےحجابانہ میل جول بھی رکھتے رہے اب ان کو مجبور کرنا کہ مال واپس کرو یا معاف کرو یہ سراپا ظلم و جور ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اگر تم خود اپنی خوشی اور رغبت سے ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو اور تم اس ایک کو یعنی پہلی بیوی جس کو چھوڑنا چاہتے ہو بطور مہر یا شورہبہ ڈھیر مال دے چکے ہو اور مال کے انبار اس کو تم نے دے دیئے ہوں تو اس مال میں سے عورت کو تنگ اور پریشان کرکے کچھ بھی واپس نہ لو کیا تم اس عورت پر نافرمانی اور بدکاری کا بہتان رکھ کر اور اس کے مال میں صریح گناہ یعنی ظلم کے مرتکب ہوکر اس مہر کے یا ہبہ کے مال کو واپس لینا چاہتے ہو اور بھلا تم اس مال کو کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم آپس میں ایک دوسرے تک پہنچ چکے ہو یعنی لطف اندوز ہوچکے ہو اور آپس میں ایک دوسرے سے بےتکلف مل چکے ہو اور نیز یہ کہ وہ عورتیں تم سے ایک مضبوط و مستحکم عہد اور قرار لے چکی ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ عورت کا کوئی قصور نہیں صرف تم اس کو بدلنا چاہتے ہو ایک کو چھوڑ کر اس کی جگہ دوسری سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ تو ایسی حالت میں جو کچھ بھی تم اس کو دے چکے ہو وہ یا اس کا کوئی حصہ واپس نہ لو خواہ وہ مہر ہو یا مہر کا وعدہ ہو یا مہر کے علاوہ اور کچھ اس کو بطور ہبہ دیا ہو قصور نہیں اور ہبہ اس لئے واپس نہیں لے سکتے کہ تعلقات زوجیت میں ہبہ کا رجوع جائز نہیں۔ اب سوائے اس کے کوئی شکل نہیں کہ اس پر نافرمانی اور بدچلنی وغیرہ کا بہتان لگائو اور صریح گناہ کے مرتکب ہوکر اس سے کچھ مال حاصل کرلو۔ لہٰذا جو مال حاصل کرو گے وہ ظلم ہوگا ایک علت تو حکم کی اتاخذونہ بھتانا وانما مبینا سے ظاہر ہوگئی کہ ایک بےقصور عورت سے اس کو دیا ہوا مال خواہ وہ مہر ہو یا کچھ اور ہبہ کے طور پر دیا ہوا مال واپس لینا بہتان اور ظلم کو مستلزم ہے اگر زبان سے نہ بھی کہو تب بھی یہ سمجھا جائے گا کہ مال دے کر عورت نے طلاق حاصل کی ہے تو ضرور عورت میں کوئی خرابی ہوگی ورنہ خاوندکیوں ناجائز مال لیتا اور اگر ہبہ ہے تب اس کا ظلم ہونا ظاہری ہے کیونکہ زوجیت کے تعلقات میں ہبہ واپس نہیں ہوسکتا اور تم نے واپس لے لیا۔ دوسری آیت میں علاوہ وجہ مذکور یعنی بہتان اور گناہ کے اور دوسری وجہ سے بیان فرمائی کہ تم دیا ہوا مال واپس لے بھی کس طرح سکتے ہو حالانکہ تم ان عورتوں سے مل بھی چکے ہو یعنی خلوت صحیحہ یا ہم بستری کرچکے ہو۔ لہٰذا مہر جس چیز کا بدل ہے وہ چیز تم حاصل کرچکے چیز حاصل کرنے کے بعد اب اس کے بدل یعنی مہر کو اگر نہیں دیا ہے تو کیسے روک سکتے ہو اور دے چکے ہو تو کیسے واپس لے سکتے ہو نیز یہ کہ وہ عورتیں تم سے ایک پختہ اور مستحکم اقرار لے چکی ہیں پھر اب اس اقرار کے بعدجو نکاح کے وقت مہر کی ادائیگی کا ہوچکا ہے اس سے تم کس طرح پھر سکتے ہو۔ بہرحال صورت مذکورہ میں عورت کو دیا ہوا یا اس سے وعدہ کیا ہوا مال واپس لینا اور یا ادا نہ کرنا چار برائیوں سے خالی نہیں۔ (1) بہتان کے مرتکب ہوگے۔ (2) یا صریح ظلم کے مرتکب ہوگے۔ (3) یا عورت سے لطف اندوز ہوکر لطف اندوزی کا بدل نہ دو گے یعنی مبدل منہ لوگے اور بدل کے منکر ہوگے۔ (4) یا عہدشکن بنوگے چونکہ آیت کے عموم کا لحاظ رکھتے ہوئے بعض مفسرین نے ہبہ کو بھی شامل کردیا تھا۔ اس لئے ہم نے بھی شامل کرلیا ورنہ ظاہر ہے کہ آیت میں مہر ہی کی بحث ہے۔ البتہ فلاتا خذوامنہ شیئاً میں گنجائش ضرور ہے۔ اس رعایت سے ہم نے ہبہ کو شامل کرلینا مناسب سمجھا۔ مستحکم اقرار کے متعلق ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ وہ نکاح کا وہ کلمہ ہے جس پر مہر باندھا جاتا ہے۔ حضرت حسن (رض) ، ابن سیرین (رض) ، ضحاک (رض) اور قتادہ (رض) کا قول ہے کہ اس سے عورت کے دلی کا یہ قول مراد ہے کہ میں نے اس عورت کا نکاح تجھ سے اس وعدہ پر کیا جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بارے میں مردوں سے لیا ہے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ یا بھلے مانسوں کی طرح اس عورت کو رکھوگے یا احسان اور نیکی کے ساتھ چھوڑ دو گے۔ حضرت شعبی اور عکرمہ کا قول ہے کہ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان مراد ہے کہ تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے ساتھ وہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے۔ بہرحال یا عاقد کا قول ہے یا خود کلمۂ نکاح ہے جو مہر پر موقوف ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جب مرد عورت تک پہنچا تو اس کا تمام مہر لازم ہوگی اب بغیر اس کے چھوڑے نہیں چھوٹتا اور عہد گاڑھا یہی کہ حکم شرع سے عورت مرد کے قبضے میں آئی والد اس کا مال نہیں۔ (موضح القرآن) خلاصہ یہ ہوا کہ اگر عورت کی جانب سے بدخلقی اور نافرمانی کا اظہار ہو تو اس سے کچھ مال لیکر جس کی مقدار مہر سے زائد نہ ہو اس کو چھوڑنا اور طلاق دینا جائز ہے اور اگر بداخلاقی مرد کی جانب سے ہو اور حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو یا بلاوجہ عورت کو علیحدہ کرنا چاہتا ہو تو ایسی حالت میں جو کچھ اس کو دے چکا ہو یا دینے کا وعدہ ہو اس میں سے کچھ واپس نہ کرے خواہ اس کی مقدار کچھ بھی ہو۔ باقی اگر افضا سے پہلے طلاق کی نوبت آجائے تو نصف مہرادا کرنا ہوگا۔ باقی مسائل خلع کے اور مہر کے دوسرے پارے میں گذر ہوچکے ہیں۔ (فائدہ) احادیث میں عورتوں کا مہر تھوڑا باندھنے کی فضیلت آئی ہے عام طور سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں اور صاحبزادیوں کا مہر چار سو درہم یا چار سو درم سے کم ہوتا تھا۔ صحابہ (رض) بھی عام طور سے اسی مقدار کی پابندی کرتے تھے پھر کچھ لوگوں نے مہر کی مقدار میں غلو شروع کردیا۔ حضرت عمر (رض) نے ایک دن اپنی تقریر میں مہر کی تحدید کرنی چاہی مگر ایک قریشی عورت نے واتیتم احدا ھن قنطاراً سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عمر کو ایسا کرنے سے منع کیا اور حضرت عمر (رض) نے اس عورت کے اعتراض کو تسلیم کرلیا اور ابو یعلی کی روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا فمن ملاتب نفسہ فلیفعل یعنی جو کسی شخص کو مناسب معلوم ہو وہ کرے۔ بہرحال آیت سے مہر کی زیادتی کا جواز معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی زیادہ مہر مقرر کرے گا تو وہ نافذ ہوجائے گا اور حدیث میں جو تاکید ہے وہ عدم جواز کو مستلزم نہیں۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ جائز مع الکرامت ہو۔ اور حضرت عمر نے جو عورت کی بات تسلیم کرلی اس کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ چار سو درم سے مہر زیادہ باندھنے کو حرام نہ سمجھنے لگیں۔ (واللہ اعلم) حضرت ابن عباس نے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ عورتوں میں سے بہترین عورت وہ ہے جس کا مہر کم ہو (ابن حبان) برکت کے اعتبار سے سب میں بڑی عورت وہ ہے جس کے مہر کا ادا کرنا سہل اور آسان ہو۔ (احمد بیہقی) اب آگے اور ان کی رسومات قبیحہ کا ابطال فرماتے ہیں جن میں لوگ بکثرت مبتلا تھے۔ اکثر محرمات سے نکاح کرلیتے تھے اور بعض حلال عورتوں کو حرام سمجھتے تھے آگے کی آیتوں میں اسی قسم کے مسائل کی تفصیل ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)