Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 27

سورة النساء

وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾

Allah wants to accept your repentance, but those who follow [their] passions want you to digress [into] a great deviation.

اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دُور ہٹ جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاللّهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ ... Allah wishes to accept your repentance, ... وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُواْ مَيْلً عَظِيمًا but those who follow their lusts, wish that you (believers) should deviate tremendously away (from the right path). indicates that the followers of Shaytan among the Jews, Christians and the adulterous, wish that you would take the horrendous path of falsehood instead of the truth.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 اَنْ تمیلوا یعنی حق سے باطل کی طرف جھک جاؤ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] معاشرتی اصلاحات پر مخالفین کا شورو غوغا :۔ ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بیشمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا۔ مثلاً میراث میں لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کا حصہ مقرر کرنا، بیوہ سے سسرال کی بندشوں کو ختم کرنا اور عدت کے بعد اسے نکاح کے لیے پوری آزادی دلانا، متبنّیٰ کی وراثت کا خاتمہ، عورت کو خاوند کی طرح طرح کی زیادتیوں سے نجات دلا کر معاشرہ میں اس کا مقام بلند کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تمام اصلاحات پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسوم کے پرستار چیخ اٹھتے تھے اور لوگوں کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے چار سے زیادہ بیویوں پر پابندی لگا دی۔ اب جن مسلمانوں نے زائد بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کیا تھا، ان کی اولاد سے یوں کہنا کہ اس حکم کی رو سے تمہاری ماؤں اور باپ کے تعلق کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے، تو کیا تم جائز اولاد ہو یا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر اعتراض یہود کو تھے جنہوں نے از خود کئی حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ اور اپنے اوہام و خرافات کو شریعت الٰہی کا درجہ دے رکھا تھا۔ مثلاً حیض والی عورت ان کے ہاں ایسی ناپاک تھی جس کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا بھی جائز نہ تھا اسی لیے وہ حیض کے دوران انہیں بالکل الگ تھلگ رکھتے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی ایسا ہی رواج انصار مدینہ میں بھی چل نکلا تھا مگر قرآن کے حکم کی رو سے مجامعت کے سوا حیض والی عورت سے تمام تعلقات اسی طرح رکھے جاسکتے تھے جس طرح پاکیزگی کے دنوں میں ہوتے ہیں۔ ایسی باتوں پر یہود چلا اٹھتے تھے کہ دیکھو یہ نبی ہر ناپاک کو پاک اور ہر حرام کو حلال بنانے پرتلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم ان لوگوں کی مطلق پروا نہ کرو اور اگر تم لوگ ان کی باتوں پر توجہ دینے لگو گے تو یہ تو تمہیں راہ راست سے کہیں دور جا پھینکیں گے لہذا جو احکام تمہیں مل رہے ہیں ان پر ان کے اعتراضات سے بےپروا ہو کر اور بےخوف ہو کر عمل کیے جاؤ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللہُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ۝ ٠ۣ وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا۝ ٢٧ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے شها أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ. ( ش ھ و ) الشھوہ کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مونز ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری (ویتوب علیکم) فرقہ جبریہ کے عقائد کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہونے ا رادہ رکھتا ہے جبکہ ان باطل پرستوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں پر اڑے رہنے والوں کے لیے اصرار اور اڑے رہنے کا اراد ہ کرتا ہے اور ان سے توبہ اور استغفار کا ارادہ نہیں کرتا۔ قول باری ہے (ویرید الذین یتبعون الشہوات ان یمیلوا میلا عظیما، مگر جو لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ) ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے ہر باطل پرست مراد ہے کیونکہ وہ ہر صورت میں اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے خواہ یہ حق کے موافق یا یا مخالف اس کی اسے کوئی پروا نہیں ہوتی اور اپنی خواہش نفس کی مخالفت کرتے ہوئے حق کی پیروی کی اس میں ہمت نہیں ہوتی مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد زنا ہے۔ سدّی کا قول ہے کہ اس سے مراد یہود ونصاری ہیں۔ قول باری (ان تمیلوا میلا عظیما) سے مراد یہ ہے کہ کثرت سے گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے حق پر استقامت باقی نہ رہے اور قدم لڑکھڑا جائیں۔ باطل پرست جو یہ چاہتے ہیں کہ تم راہ حق سے ہٹ کر دو چلے جاؤ تو اس کی دو وجہیں ہیں یا تو اس عداوت کی بنا پر جو وہ تمہارے خلاف اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور یا اس وجہ کی بنا پر کہ گناہ اور معصیت سے انہیں دلی لگاؤ ہے اور اس پر ڈٹے رہنے میں انہیں سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ جو کچھ وہ ہمارے لیے چاہتا ہے وہ ان باطل پرستوں کے ارادوں سے بالکل مختلف ہے۔ آیت کی اس مفہوم پر دلالت ہو رہی ہے کہ خواہش نفسانی کی پیروی کا ارادہ قابل مذمت ہے لیکن اگر یہ خواہش حق کے موافق ہو تو اصورت میں اس کی پیروی قابل مذمت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس شکل میں اس کا ارادہ دراصل اتباع حق کا ہوتا ہے۔ اور ایسے شخص کے متعلق یہ کہا درست نہیں ہوتا کہ وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اس لیے کہ اس طریق کار سے اس کا مقصد اتباع حق ہوتا ہے خواہ یہ اس کی خواہشات کے موافق ہو یا مخالف ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ قف) (وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلاً عَظِیْمًا ) وہ چاہتے ہیں کہ تمہارا رجحان صراط مستقیم کے بجائے غلط راستوں کی طرف ہوجائے اور ادھر ہی تم بھٹکتے چلے جاؤ۔ آج بھی عورت کی آزادی (Women Lib) کی بنیاد پر اور حقوق نسواں کے نام پر دنیا میں جو تحریکیں برپا ہیں یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ حدود وقیود کو توڑ کر جنسی بےراہروی پھیلانے کی ایک عظیم سازش ہے جو دنیا میں چل رہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49. This refers to the hypocrites, the ultra-conservatives and the Jews who lived on the outskirts of Madina. Both the hypocrites and the conservatives were incensed at the reforms introduced by Islam, as these were diametrically opposed to the age-old customs and traditions of their society and culture. The reforms were numerous: a share of the inheritance was assigned to daughters; widows were liberated from bondage to the will of their husbands' families and were granted the freedom to marry whomever they wished after the expiry of the waiting-period ('iddah); marriage with one's step-mother and with two sisters together was prohibited; adopted sons were disinherited; and a foster-father's marriage with either the divorced or widowed wife of his adopted son was declared lawful. These and other such reforms were so totally opposed to the customary laws of the Arabs that it was impossible for the elders and the blind devotees of the ways of their forefathers not to protest against them vehemently. They long continued to grumble against these injunctions. Mischievous people pointed to these innovations and exploited them by provoking people against the Prophet's movement of reform. For instance, they would meet those born as a result of the marriage which had been prohibited by Islam and try to infuriate them by saying that according to the new-fangled teachings of Muhammad (peace be on him) the relationship between their parents was unlawful. The Jews, on the other hand, had woven a complex network of laws and regulations for themselves. The result was that they had forbidden a great number of things which were, in fact, lawful. Additionally, they had introduced a number of superstitions into God's Law. It was argued that the simple and straightforward law of the Qur'an was out of tune with the tastes and temperaments of both the religious leaders and the ordinary people. The Qur'anic injunctions simply infuriated them and as soon as they came to know of any Qur'anic law, they vehemently denounced it. They expected the Qur'an to endorse and validate all the legal deductions and all the superstitions and myths of their forefathers, and to treat them as an integral part of the law of God. If the Qur'an would not do so then they would refrain from recognizing it as the Book of God. Let us take the following as an example. According to Jewish usage, a woman was considered completely unclean during her menstrual period. Hence, they neither ate the food she cooked, drank from the cup of water she offered nor even sat with her. It was even considered unwholesome to be touched by her. Thus for a few days every month a woman virtually became an untouchable in her own house. Owing to the influence of the Jews the same custom had found its way into the Arab families of Madina. When the Prophet (peace be on him) arrived in Madina, he was asked about this matter. In response to this query verse 222 of Surah al-Baqarah was revealed. In the light of the principle embodied in the verse the Prophet (peace be on him) made it clear that it was unlawful to have sexual intercourse with a woman during her menstrual period; but it was only that relationship, and no other, that was unlawful. (See Bukhari, 'Hayd', 2, 3; Nasa'i, 'Hayd', 9, 13, 16, 19, and 'Ahkam', 13 - Ed.) This caused uproar among the Jews. They claimed that Muhammad (peace be on him) was bent upon reversing all their legal injunctions to the extent that he wanted to legalize whatever they held as prohibited and prohibit whatever they held as lawful.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :49 یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جہلاء اور نواحی مدینہ کے یہودیوں کی طرف ۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں ۔ میراث میں لڑکیوں کا حصہ ۔ بیوہ عورت کا سسرال کی بندشوں سے رہائی پانا اور عدت کے بعد اس کا ہر شخص سے نکاح کے لیے آزاد ہو جانا ۔ سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہونا ۔ دو بہنوں کے ایک ساتھ نکاح میں جمع کیے جانے کو ناجائز قرار دینا ۔ متبنّٰی کو وراثت سے محروم کرنا اور منہ بولے باپ کے لیے متبنّٰی کی بیوہ اور مطلقہ کا حلال ہونا ۔ یہ اور اس طرح کی دوسری اصلاحات میں سے ایک ایک چیز ایسی تھی جس پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسوم کے پرستار چیخ چیخ اٹھتے تھے ۔ مدتوں ان احکام پر چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھیں ۔ شرارت پسند لوگ ان باتوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت اصلاح کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے پھرتے تھے ۔ مثلاً جو شخص کسی ایسے نکاح سے پیدا ہوا تھا جسے اب اسلامی شریعت حرام قرار دے رہی تھی ، اس کو یہ کہہ کہہ کر اشتعال دلایا جاتا تھا کہ لیجیے ، آج جو نئے احکام وہاں آئے ہیں ان کی رو سے آپ کی ماں اور آپ کے باپ کا تعلق ناجائز ٹھیرا دیا گیا ہے ۔ اس طرح یہ نادان لوگ اس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اس وقت احکام الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا ۔ دوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا ۔ بے شمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھالی تھیں ۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے ۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانون خداوندی میں داخل کر لیا تھا ۔ اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیت اور مذاق کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا ۔ وہ قرآن کے احکام کو سن کر بے تاب ہو جاتے تھے ۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعت الہٰی قرار دے ، ورنہ یہ ہرگز کتاب الہٰی نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ ایام ماہواری میں عورت کو بالکل پلید سمجھا جاتا تھا ۔ نہ اس کا پکایا ہوا کھانا کھاتے ۔ نہ اس کے ہاتھ کا پانی پیتے نہ اس کے ساتھ فرش پر بیٹھتے ۔ بلکہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھو جانے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے ۔ ان چند دنوں میں عورت خود اپنے گھر میں اچھوت بن کر رہ جاتی تھی ۔ یہی رواج یہودیوں کے اثر سے مدینہ کے انصار میں بھی چل پڑا تھا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا ۔ جواب میں یہ آیت آئی جو سورہ بقرہ رکوع ۲۸ کے آغاز میں درج ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی رو سے حکم دیا کہ ایام ماہواری میں صرف مباشرت ناجائز ہے ۔ باقی تمام تعلقات عورتوں کے ساتھ اسی طرح رکھے جائیں جس طرح دوسرے دنوں میں ہوتے ہیں ۔ اس پر یہودیوں میں شور مچ گیا ۔ وہ کہنے لگے کہ یہ شخص تو قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ جو جو کچھ ہمارے ہاں حرام ہے اسے حلال کر کے رہےگا اور جس جس چیز کو ہم ناپاک کہتے ہیں اسے پاک قرار دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4ـ:27) تمیلوا ۔ مال یمیل (ضرب) میلا۔ درمیانی راہ سے کسی ایک طرف ہٹ جانا۔ ایک طرف مائل ہوجانا۔ راست روی سے ہٹ جانا۔ تمیلوا۔ تم بہک پڑو۔ کج روی اختیار کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکام اس لیے بیان فرمارہا ہے کہ تم کو حلال و حرام کا پتا چل جائے اور پہلے لوگوں کے عہدہ طریق کی ہدایت ہوجائے پہلے لوگوں سے مراد انبیا ( علیہ السلام) اور ان کی امتوں کے نیک لوگ ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی)2 یعنی شہوت پر ستوں کے کہنے میں نہ آو مراد یہود و نصاریٰ یا مجوسی ہیں جو محارم کے ساتھ بھی نکاح جائز سمجھتے تھے ،۔ (رازی قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ شہوت پرست لوگوں سے بقول ابن زید مراد فساق ہیں اور بقول ابن عباس مراد زانی ہیں یہاں شہوت پرستی کی مذمت میں شہوت مباحہ سے منقطع ہونا داخل نہیں ہے۔ 2۔ بڑی بھاری کجی کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ بےباکانہ حرام کا مرتکب ہونا دوسرے یہ کہ حرام کو حلال سمجھ جانا۔ اور اس کے مقابلہ میں ہلکی کجی یہ ہے کہ گناہ کو گناہ سمجھے اور اتفاقا اس کا صدور ہوجائے اس آیت میں اس میل غیرعظیم کی اجازت نہیں ہے بلکہ بیان کرنا ہے ان بدخواہوں کے حال کا وہ میل عظیم کی سعی میں ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” واللہ یرید ان یتوب علیم ویرید الذین یتبعون الشھوت ان تمیلوا میلا عظیما “۔ (٤ : ٢٧) ” اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ ۔ “ اس مختصر اور ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لئے کیا چاہتے ہیں اور کیسے نظام کے ذریعے چاہتے ہیں کس طریقے سے چاہتے ہیں ؟ اور جو لوگ نظام زندگی کو صرف جنسی تعلقات (Sex) پر استوار کرنا چاہتے ہیں اور جو انسانوں کو اسلامی نظام زندگی سے ہٹانا چاہتے ہیں وہ انسان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی اسلامی منہاج سے ہٹ کر کسی دوسرے منہاج کو اختیار کرتے ہیں ان کا نظام شہوات پر مبنی ہوتا ہے ۔ صرف ایک اسلامی نظام زندگی ہی ہے جو سنجیدگی ‘ سچائی راستی اور احساس ذمہ داری پر مبنی ہے۔ باقی جس قدر نظام ہیں وہ اتباع نفس ‘ اطاعت شہوت اور فسق وفجور اور کج روی وگمراہی پر مبنی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے منہاج سے اچھی طرح آگاہ کر رہا ہے اپنے طریقے تشریح کے ساتھ بیان کرتا ہے تو اس سے اس کی غرض کیا ہے ؟ صرف یہ کہ وہ انسانوں پر رحمت اور شفقت کرنے کا ارادہ کرتا ہے ۔ وہ تمہیں راہ راست کی نشاندہی کرتا ہے ۔ وہ تمہیں آگاہ کرتا ہے کہ زندگی کی راہوں میں فلاں مقامات ہیں جہاں پھسلنے کا خطرہ ہے ۔ وہ سربلندی اور ترقی میں تمہاری امداد کرنا چاہتا ہے تاکہ تم بلندی کی انتہاؤں کو چھو سکو۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ اپنے نظاموں کو صرف شہوات کی تلاش پر رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کے لئے شہوت پر مبنی نظامہائے زندگی تجویز کرتے ہیں اور انہیں خوب سجاتے ہیں جن کی اسلامی نظام حیات کی رو سے کوئی گجائش نہیں ہے ۔ اللہ نے ان کی اجازت دی ہے نہ اسے جائز قرار دیا ہے ۔ یہ لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان راہ راست سے ہٹ کر دور تک گمراہی کی راہوں پر نکل جائیں اور اسلامی نظام زندگی اور اس کی انتہائی بلندیوں سے محروم ہوجائیں۔ زندگی کے اس شعبے میں جس کی سابقہ آیات میں ہدایات دی گئیں ‘ یعنی خاندان کی شیرازہ بندی ‘ سوسائٹی کی طہارت ‘ مرد وزن کے باہمی تعلقات کے لئے واحد پاک وصاف طریقہ کار کے تعین اور اس کے سوا تمام طریقوں کے ساتھ جنسی ملاپ کی حرمت ‘ ان کی مذمت اور مسلمانوں کی فکر ونظر میں ان کی گراوٹ و قباحت کا شعور پیدا کرنے کے لئے اس شعبے میں اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ان لوگوں کا منصوبہ کیا ہے جو صرف شہوت رانی پر انسانی سوسائٹی کو استوار کرنا چاہتے ہیں ؟ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا جو منصوبہ ہے ‘ اس کا بیان تو سابقہ آیات میں تفصیل کے ساتھ کردیا گیا ‘ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرد وزن کے اس تعلق کو منظم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس تعلق کو پاک وصاف اور مقدس بنانا چاہتے ہیں اور اسے اس طرح استوار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جماعت مسلمہ کے لئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہو۔ رہے وہ لوگ جو صرف شہوت رانی چاہتے ہیں تو وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ فطری میلانات ہر طرح سے بےقید ہوجائیں ۔ ان پر نہ کوئی دینی پابندی ہو ‘ نہ اخلاقی پابندی ہو اور نہ کوئی اجتماعی پابندی ہو ۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہوت کی یہ بھٹی بلاروک وٹوک گرم سے گرم تر ہوتی چلی جائے اس پر کسی قسم کا قدغن نہ ہو ‘ اور وہ اس قدر گرم ہو کہ ہر دل بےقرار ہوجائے ‘ اعصاب پر کوئی کنٹرول نہ رہے اور اس طرح کوئی گھر مطمئن نہ ہو ۔ کسی کی عزت محفوظ نہ رہے ‘ کسی خاندان کا وجود باقی نہ رہے اور انسانوں کی حالت یہ ہوجائے کہ ہو جانووں کا گلہ بن جائیں اور پھر ان کے نر (MAle) جانور مادہ (FemAle) جانوروں کو دیکھتے ہی ان پر ٹوٹ پڑیں ان کے لئے قوت ‘ وسائل اور تدبیر کے سوا کوئی ضابطہ نہ ہو ‘ یوں پورا معاشرہ ہل جائے ۔ ہر طرف فساد ہی فساد ہو ‘ آزادی کے نام پر ہر طرف شر و فساد برپا ہو آزادی کا اگر صرف یہ ہی مفہوم ہے تو وہ صرف آزادی شہوات ہے اور اس پر مبنی نظام صرف شہوانی نظام ہے ۔ یہ ہے وہ گمراہی اور کج روی جس سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ڈراتا ہے ‘ وہ انہیں متنبہ کرتا ہے کہ اس شہوانی نظام حیات کے داعی انہٰں کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں شہوانی نظام کے داعی اس وقت یہ جدوجہد کر رہے تھے کہ نوخیز اسلامی معاشرے کو پلٹا کر دوبارہ اخلاقی بےراہ روی کے نظام کی طرف لے جائیں جس میں وہ بہت دور جا نکلے تھے ‘ اور اسلام کے پاک وصاف اور مستحکم معاشرتی نظام کی وجہ سے وہ اس میں اکیلے رہ گئے تھے ‘ اور یہی وہ ہدف ہے جس کی طرف آج کے یہ بےراہ قلمکار اور ادیب دعوت دے رہے ہیں اور جس میں آج کے تمام ذرائع ابلاغ و تفریح رات دن مصروف ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ آج اسلامی معاشرے میں ‘ حیوانی شہوت رانی کی راہ میں جو تھوڑی بہت رکاوٹیں ہیں انہیں بھی ختم کردیں ، یہ حقیقت ہے کہ اس حیوانیت سے انسان کو صرف اسلامی نظام زندگی ہی نجات دے سکتا ہے جب اسلام کی انقلابی قوتیں اگر اللہ نے چاہا اس نظام کو دنیا میں نافذ کردیں گی ۔ اس اختتامیہ کی آخری جھلک میں یہ دکھایا گیا ہے کہ انسان ایک ضعیف مخلوق ہے اور اس کی ان کمزوریوں ہی کی وجہ سے اللہ کو اس پر رحم آتا ہے ۔ اس لئے اللہ اس کے لئے جو منہاج حیات وضع کرتا ہے اور جو قانون بناتا ہے اس میں وہ ضعف کو ملحوظ رکھتا ہے اس لئے ہلکے پھلکے احکام نازل کرتا ہے ‘ اس کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے اس کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ حرج مشقت مضرت سے بچاتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شہوت پرستوں کا طریق کار : جو لوگ شہوتوں کے بندے ہیں انہیں انسانیت محبوب و مرغوب ہی نہیں وہ تو انسان ہو کر پچھتا رہے ہیں اور نفس کے مزہ کے لیے محض حیوانیت پر اتر آئے ہیں۔ یورپ، امریکہ میں بےہودگی، فحاشی، زنا کاری کا جو سیلاب آیا ہوا ہے، چھوٹے بڑے حاکم و محکوم اور ہر طبقہ کے لوگ اس میں بہہ چکے ہیں، حکومتوں کا یہ حال ہے کہ کوئی قانون بناتے ہیں پھر جب دیکھتے ہیں کہ عوام اس کے مطابق نہیں چلتے تو قانون کو بدل دیتے ہیں۔ تھوڑا بہت جو قانون کا بھرم باقی ہے تو صرف اتنا سا ہے کہ زنا بالجبر ممنوع ہے۔ آپس کی خوشی سے زنا کاری جتنی مرتبہ بھی ہوجائے اس پر ان کے نزدیک کوئی مواخذہ نہیں، اور اب استلذاذ بالمثل کا قانون پاس کردیا ہے ان شہوت پرستوں کے نزدیک عورت عورت سے اور مرد مرد سے استمتاع کرسکتا ہے، اور خلاف فطرت قضائے شہوت میں ان کے بڑے لوگ بھی مبتلا ہیں (دینی بڑے ہوں یا دیناوی ذمہ دار ہوں) ایسے پارک ہیں جن میں کسی عمل پر کوئی پابندی نہیں، اس پارک میں اعلانیہ طور پر مرد اور عورت جو فعل کرے ان کے یہاں اس پر قانون کی کوئی گرفت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو (وَیَاْکُلُوْنَ وَ یَتَمَتَّعُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَہُمْ ) فرمایا ہے کہ اس کے پورے پورے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ جن ملکوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاں بھی بہت سے لوگ یورپ اور امریکہ کے حیوانوں کی طرح جنسی خواہشات پورا کرنے کے متوالے ہیں، یہ لوگ نہ صرف یہ کہ خود بےحیائیوں فحاشیوں اور زنا کاریوں میں مبتلا ہیں بلکہ باقاعدہ ان کی سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں جن کی برابر اور مستقل یہ کوشش ہے کہ نکاح اور حیا و شرم کو بالائے طاق رکھ دیا جائے ایسے جرائد ہفت روزہ اور ماہنامے جاری ہیں جن میں بےحیائی کے کاموں کو اچھالا جاتا ہے ننگی تصویریں شائع کی جاتی ہیں جذبات نفسانیہ کو ابھارا جاتا ہے اور ایسی انجمنیں بنی ہوئی ہیں جو عامۃ المسلمین کو بےحیائی اور زنا کاری کے غار میں دھکیلنے کی پوری کوشش کر رہی ہیں، ننگوں کے کلب ہیں زنا کاری کے اڈے ہیں ان کی سر پرستی کی جاتی ہے، فاحشہ عورتوں کو حکومتیں لائسنس دیتی ہیں، پہلے تو اتنا ہی تھا کہ سینما ہال میں معاشقہ کے نظارے کیے جاتے تھے اور ننگی سے ننگی اور گندی سے گندی فلمیں بنوا کرسینماؤں کے مالکان خوش ہوتے تھے (کیونکہ اس میں ذریعہ آمدنی بہت زیادہ ہے) اور اب تو گھر گھر عشقیہ فلمیں اور ڈرامے دیکھے جا رہے ہیں، ٹیوی پروگراموں نے اور وی سی آر (ویڈیو کیسٹ ریکارڈر) نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب کے جذبات میں تلاطلم پیدا کردیا ہے، بےحیا ماں باپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور بچوں کو دکھاتے ہیں جن حکومتوں کے سر براہوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری اسلامی حکومت ہے ان کے ٹی۔ وی پروگراموں اور یورپ امریکہ کے پروگراموں میں کوئی فرق نہیں، وی سی آر بازاروں میں فروخت ہو رہے ہیں، دینداری کے دعوایدار بھی اپنے بچوں کو اس سے منع نہیں کرتے۔ پورا معاشرہ عریانی و فحاشی کی راہ سے گزر رہا ہے۔ پرانے قسم کے جو کچھ لوگ باقی ہیں وہ نئی نسل کے نو جوانوں کو کھلتے ہیں اور قرآن و حدیث کی عفت و عصمت کی تعلیم نو جوانوں کو پسند نہیں ہے بےحیائی کے داعیوں نے عامۃ الناس کو اس سطح پر لا کر کھڑا کردیا ہے کہ پیچھے مڑنے اور حیا و شرم اختیار کرنے کے لیے بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ گزشتہ زمانوں میں کوئی شخص زنا کرتا تو چھپ کر کرتا تھا اور اس طرح کا پیشہ کرنے والی عورتوں کو بھی بری نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ معاشرہ میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ تھی لیکن آج تو عفت و عصمت حیا و شرم عیب بن گئی ہے اور بےحیائی اور فحاشی و عریانی ہنر اور کمال سمجھی جا رہی ہے اور اسے معاشرہ کا جزو اعظم سمجھا جاتا ہے۔ حیاء و شرم انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اخلاق عالیہ میں سے ہیں : عفت و عصمت اور حیاء وشرم کی تمام انبیاء کرام نے اپنی اپنی امتوں کو تعلیم دی ہے اور یہ اہل ایمان کا شعار ہے، حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں حضرات انبیاء (علیہ السلام) کے طریقہ زندگی میں سے ہیں۔ (١) حیا (٢) تعطر (یعنی خوشبو لگانا) (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا۔ (رواہ الترمذی فی اول کتاب النکاح) نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہر دین کا ایک خاص مزاج ہے اور دین اسلام کا مزاج حیاء ہے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٣٢) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہیں جب ان میں سے ایک چھین لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٢) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا (نظروں کے سامنے ہے کہ) جن قوموں میں حیاء نہیں ان میں ایمان نہیں اور جو قومیں مسلمان ہونے کی دعویدار ہیں ان میں جیسے جیسے بےحیائی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ایمان اور ایمانیات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، یورپ اور امریکہ میں جو مسلمان جاکر بسے ہیں ان میں جو تھوڑا بہت ایمان و اسلام تھا وہ ان کی نسلوں میں وہاں برباد ہو رہا ہے، شریعت اسلامیہ نے عفت و عصمت کے لیے جو قانون بنائے اور ان کی حفاظت کے لیے جو پابندیاں رکھی ہیں ان میں پہلی پابندی نظر پر ہے اور بدنظری کو حرام قرار دیا ہے، نیز عورتوں کے لیے پردہ لازمی قرار دیا ہے۔ عورتوں کو گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے جو کوئی عورت خوشبو لگا کر باہر نکلے اسے زنا کار قرار دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس پر نظریں ڈالنے لگتا ہے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٦٩) تعجب ان لوگوں پر ہے جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور ساتھ ہی بےحیاء بھی ہیں اور عفت و عصمت کے دشمن بھی ہیں جو لوگ عفت و عصمت کے دشمن ہیں عام مسلمانوں کو بڑی حدتک بےحیائی پر ڈال چکے ہیں ان کی کوششیں جاری ہیں کہ مسلمان بالکل ہی عفت و عصمت اور حیاء و شرم سے ہاتھ دھو بیٹھیں ولقد صدق اللہ تعالیٰ (وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّھَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا) اللہ تعالیٰ کی بات نہ ماننا اور دشمنوں کی راہ اختیار کرنا یہ کیسی مسلمانی ہے ؟ فاللہ یھدیھم ویوفقھم لما یحب ویرضی

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اللہ تعالیٰ کو منظور ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمہارے لئے صاف صاف بیان فرمادے اور ان لوگوں کے احوال اور طریقے کو بتادے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں اور ان سابقہ لوگوں کے یعنی انبیاء صالحین کے طریقوں پر تم کو چلائے اور وہ تم پر مہربانی اور رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے اور اللہ تعالیٰ کمالِ علم اور کمال حکمت کا مالک ہے اور اللہ کو ان احکام اور پہلے لوگوں کے طریقے بتانے سے یہ منظور ہے کہ وہ تم پر رحمت و مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائے اور وہ لگو جو خواہشات نفسانی کے پیرو ہیں اور اپنے مزوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں اور ان شہوت پرستوں کو یہ منظور ہے کہ تم سیدھی راہ سے ہٹ کر بہت بڑی کجی اور کج روی میں جاپڑو اور راہ راست سے مڑ کر بہت دورہوجائو۔ (تیسیر) تبیین کے معنی کسی چیز کو صاف اور واضح طور پر بیان کرنے کے ہیں۔ چونکہ اوپر بعض احکام بیان فرمائے تھے اس لئے فرمایا ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے روبرو ان احکام کی بعض حکمتیں تم سے صاف صاف بیان کردیں۔ سنن کے معنی ہیں طریقے۔ مطلب یہ ہے کہ تم سے پہلے جو انبیاء اور صلحاء گزرے ہیں ان کے ان طریقوں پر تم کو چلائیں جو تمہاری شریعت میں منسوخ شدہ نہ ہوں۔ کیونکہ سوائے چند باتوں کے اور باقی امور سب انبیاء کی شرائع میں ملتے جلتے ہی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سنن سے مراد پہلے لوگوں کے واقعات و حالات ہوں جیسا کہ بعض حضرات نے اختیار کیا ہے تو اب ہدایت کا ترجمہ چلانا نہیں بلکہ دکھانا اور بتانا ہوگا۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ احکام کی تبیین عمل کرنے کے لئے اور پہلوں کے واقعات عبرت کی غرض سے بیان کئے ہیں۔ بہرحال دونوں باتوں سے مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر توجہ فرمائے احکام بیان کئے اور پہلوں کے حالات بتائے یا پہلوں کے طریقہ پر چلائے۔ غرض ! اس سب سے مہربانی کے ساتھ تمہارے ال پر توجہ فرمانا اور تم پر عنایت کرنا ہے کیونکہ جو باتیں بھی ہم بیان فرماتے ہیں ان میں تمہارا نفع ہی نفع ہے۔ بعض حضرات نے یتوب علیکم سے مراد توبہ لی ہے اور یوں ترجمہ کیا ہے کہ وہ تم کو توبہ کی توفیق دے اور تم کو معصیت سے فرماں برداری کی جانب لوٹا دے۔ (واللہ اعلم) آخر میں علم و حکمت کا ذکر فرمایا تاکہ یہ بات ظاہر ہوجائے کہ بندوں کی ضرورت سے وہ بخوبی واقف ہے۔ اور چونکہ حکیم ہے اس لئے بندوں کی مصلحت کی رعایت رکھتا ہے پھر تاکید کے طور پر مکرر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تو تمہارے حال پر مہربانی کے ساتھ توجہ کرنا منظور ہے اور ان احکام کے بیان کرنے اور پہلے لوگوں کا راستہ دکھانے کی وجہ یہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر کی آیت میں یتوب علیکم سے مراد گناہوں کی مغفرت ہو اور دوسری آیت میں یتوب علیکم سے مراد کمال مہربانی اور نیک امور کی توفیق ہو۔ اس تقریر پر تکرار لازم نہ آئے گی۔ بہرحال ! اللہ تعالیٰ کا مقصد تو اپنے بندوں پر مہربانی فرمانا ہے اور جو لوگ شہوات کے پیرو ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم راہ حق سے باطل کی جانب مائل ہوجائو اور ایسی کج راہی میں جاپڑو جس کے بعد راہ حق کی جانب واپسی کی کوئی توقع نہ رہے۔ یتبعون الشھوات سے مراد فاسق فاجر لوگ ہیں اور ہوسکتا ہے زانی ہوں یا نصاریٰ ہوں اور ہوسکتا ہے کہ مجوس ہوں کیونکہ وہ سگی بہن اور بھانجی بھتیجی سے نکاح کرلیتے تھے اس لئے ان کی جانب سے ان محرمات پر کوئی اعتراض کیا گیا ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہود ہوں کیونکہ ان کے ہاں بھی علاتی بہن سے نکاح درست تھا اور وہ بھی علاتی بھتیجی اور بھانجی سے نکاح کرنے کو جائز سمجھتے تھے۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے چونکہ شان نزول میں مختلف روایات ثابت ہیں اس لئے تفسیر میں بھی اقوال مختلف ہوگئے ہیں۔ میل عظیم جس کے معنی ہم نے بڑی کجی اور کجراہی کیا ہے۔ اس کے بھی دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ حرام کو حلال سمجھ کر مرتکب ہو۔ دوسرا یہ کہ گناہ کو گناہ سمجھے مگر دلیری کے ساتھ اس کا مرتکب ہو۔ پہلی صورت کا تعلق کفار کے ساتھ ہے۔ اور دوسری صورت کا تعلق فساق کے ساتھ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کافر یہ چاہتے ہوں کہ تم حرام کو حلال کہنے لگو اور فاسق یہ چاہتے ہوں کہ تم خوب جی کھول کر گناہ کرو۔ شہوات سے وہ خواہشات مراد ہیں جو غیر شرعی ہیں اورا نہی کا اتباع مذموم ہے اور جو باتیں شرعاً مباح اور جائز ہیں ان کی خواہش مذموم نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بری صحبت جو آدمی کا دل دوڑائے برے کام پر اور شرع پر مقید نہ رہنے دے۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) نے کیا خوب خلاصہ بیان فرمایا ہے۔ بری صحبت کو اس کج روی میں بڑا دخل ہے خواہ وہ کسی کو ہو۔ ہر برا آدمی یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کو اپنے رنگ میں رنگ لے آگے اللہ تعالیٰ احکام میں آسانی اور تخفیف کا اظہار فرماتا ہے تاکہ احکام کی مصلحت کے ساتھ یہ بات بھی ظاہر ہوجائے کہ احکام میں رعایت اور آسانی بھی منظور ہے تاکہ ان کو بجالانے میں کوئی دشواری نہ ہو چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)