Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 30

سورة النساء

وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ عُدۡوَانًا وَّ ظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا ﴿۳۰﴾

And whoever does that in aggression and injustice - then We will drive him into a Fire. And that, for Allah , is [always] easy.

اور جو شخص یہ ( نافرمانیاں ) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے ۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا ... And whoever commits that through aggression and injustice, meaning, whoever commits what Allah has forbidden for him transgression and injustice - while knowing that it is forbidden for him, yet he still dares to commit it, ... فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ... We shall cast him into the Fire, This Ayah carries a stern warning and a truthful promise. Therefore, every sane person should beware of it, those who hear the speech with full comprehension. ... وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًا and that is easy for Allah. Minor Sins Will be Pardoned if One Refrains from Major Sins Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی منہیات کا ارتکاب، جانتے بوجھتے، ظلم وتعدی سے کرے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] یہاں ایسے کام سے مراد وہ تمام اوامرو نواہی ہیں جن کا ذکر اس سورة کی ابتداء سے چلا آ رہا ہے۔ اور ازراہ ظلم و زیادتی سے مراد یہ ہے کہ جو شخص ازراہ معصیت وتکبر اللہ کے اوامرو نواہی کی پروا نہ کرے اور گناہوں کا ارتکاب کرتا جائے اس کی سزا دوزخ ہی ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ۔۔ : ” ذلک “ کا اشارہ قتل نفس کی طرف بھی ہوسکتا ہے، دوسروں کا مال باطل طریقے سے کھانے کی طرف بھی اور سورت کی ابتدا سے یہاں تک جتنی چیزیں منع کی گئی ہیں ان سب کی طرف بھی۔ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا : یہ انداز بیان ڈانٹنے میں مبالغے پر دلالت کر رہا ہے۔ (رازی) موضح میں ہے : ” یعنی مغرور نہ ہوں کہ ہم مسلمان دوزخ میں کیوں کر جائیں گے ؟ اللہ تعالیٰ پر یہ آسان ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, the next verse (30) says: وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارً‌ا . It means: If, despite the instructions of the Holy Qur&an, anyone acts otherwise, and knowingly, aggressively and unjustly, takes what belongs to someone else, or kills anyone unjustly, Allah will cast him into Fire. Here, the restriction of &aggression& and &injustice& shows that, should this happen out of forgetfulness or mistake, it is not included in this warning.

اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : ومن یفعل ذلک عدوانا ظلماً فسوف نصلیہ ناراً یعنی قرآنی ہدایت کے باوجود اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرے اور جان بوجھ کر تعددی اور ظلم کی راہ سے کسی مال ناحق لے لے یا کسی کو ناحق قتل کر دے تو ہم عنقریب اس کو جہنم میں داخل کریں گے ........ تعدی اور ظلم کی قید سے معلوم ہوا کہ اگر سہو و نسیان یا خطا سے ایسا ہوگیا تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْہِ نَارًا۝ ٠ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝ ٣٠ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ عُدْوَانِ ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ يسر اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ومن یفعل ذالک عدوانا و ظلما فسوف نسلیہ نارا، جو شخص ظلم اور زیادتی کی بنا پر ایسا کرے گا اسے ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے) اس وعید میں روئے سخن کس طرف ہے اس کے متعلق کئی اقوال بیان کیئے گئے ہیں ایک یہ کہ اس کا مرجع باطل طریقے سے مال کھانے نیز ناحق کسی کی جان لینے کے گھناؤنے افعال کی طرف ہے۔ اس لیے جو شخص بھی ان میں سے کسی کا ایک فعل کا مرتکب ہوگا وہ اس وعید کا سزا وار قرار پائے گا۔ عطاء کا قول ہے کہ اس وعید کا تعلق صرف ناحق کسی کی جان لینے کے فعل سے ہے ۔ ایک قول ہے کہ اس کا مرجع ہر وہ فعل ہے جس کی سورت کی ابتدائی سے یہاں تک ممانعت کردی گئی ہے۔ ایک اور قول ہے کہ اس وعید کا تعلق قوری باری (یا یہا الذین امنوا لایحل لکم ان ترثوا النساء کرہا) سے شروع ہوتا ہے اس لیے کہ اس کا ماقبل بھی مقرون بالوعید ہے۔ لیکن زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ اس وعید کا تعلق اس سے متصل دو افعال یعنی باطل طریقے سے مال کھانے اور کسی کو ناحق قتل کرنے کے ساتھ ہے وعید کو اپنے قول (عدوانا وظلما) کے ساتھ مقید کیا ہے تاکہ سہو اور غلطی کی بنا پر سرزد ہونے والے افعال اس سے خارج ہوجائیں۔ نیز وہ افعال بھی اس سے نکل جائیں جو احکام میں اجتہاد کی راہ سے تعمد اور عصیان کی حد کو چھو جانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ظلم و عدوان دونوں کا ذکر کیا حالان کہ ان دونوں کے معانی متقارب ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دو لفظوں کے معانی متقارب ہوں لیکن ان میں لفظی اختلاف ہو تو ایسی صورت میں دونوں کا اکٹھا ذکر عبارت کے حسن کا سبب بنتا ہے۔ اس کی ایک مثال عدی بن زید کا یہ شعر ہے وقددت الایم لہا مشیہ والفی قولہا کذبا و مینا زبّاء نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے جذیمہ کی چمڑی ہاتھ کی دونوں رگوں تک ادھیڑ دی اور جذیمہ نے زباء کے ساتھ اس کے شادی کے وعدے کو جھوٹا پایا۔ کذب اور مین دونوں کے معنی جھوٹ کے ہیں لیکن لفظی اختلاف کی بنا پر ایک کو دوسرے پر عطف کرنا عبارت کے حسن کا سبب بن گیا اسی طرح بشر بن حازم کا شعر ہے۔ فما وطی الحصی مثل ابن سعدی ولا لبس النعال ولا احتذاہا ابن سعدی کی طرح نہ کسی نے کنکریوں کو ورندا ہے اور نہ ہی کسی نے جوتے پہنے ہیں۔ احتذاء جوتا پہننے کو کہتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں لفظوں کے معنی ایک ہیں لیکن لفظی اختلاف کی بنا پر شعر میں ان کا ایک ساتھ ذکر ہوگیا جو عبارت کی خوبصورتی کا سبب ہے۔ واللہ اعلم۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا) یعنی یہ دونوں کام ۔۔ باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانا اور قتل نفس۔ (فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا ط) (وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ) یہ مت سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کے بہت بڑے حصے کو جہنم میں کیسے جھونک دے گا ؟ یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگلی دو آیات میں انسانی تمدن کے دو بہت اہم مسائل بیان ہو رہے ہیں ‘ جو بڑے گہرے اور فلسفیانہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا مسئلہ گناہوں کے بارے میں ہے ‘ جن میں کبائر اور صغائر کی تقسیم ہے۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک اور پھر کفر ہے۔ پھر یہ کہ جو فرائض ہیں ان کا ترک کرنا اور جو حرام چیزیں ہیں ان کا ارتکاب کبائر میں شامل ہوگا۔ ایک ہیں چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں جو انسان سے اکثر ہوجاتی ہیں ‘ مثلاً آداب میں یا احکام کی جزئیات میں کوئی کوتاہی ہوگئی ‘ یا بغیر کسی ارادے کے کہیں کسی کو ایسی بات کہہ بیٹھے کہ جو غیبت کے حکم میں آگئی ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس ضمن میں صحت مندانہ رویہ یہ ہے کہ کبائر سے پورے اہتمام کے ساتھ بچا جائے کہ اس سے انسان بالکل پاک ہوجائے۔ فرائض کی پوری ادائیگی ہو ‘ محرمات سے مطلق اجتناب ہو ‘ اور یہ جو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ان کے بارے میں نہ تو ایک دوسرے پر زیادہ گرفت اور نکیر کی جائے اور نہ ہی خود زیادہ دل گرفتہ ہو اجائے ‘ بلکہ ان کے بارے میں توقع رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ ان کے بارے میں استغفار بھی کیا جائے اور یہی صغائر ہیں جو نیکیوں کے ذریعے سے خود بخود بھی ختم ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اعضائے وضو دھوتے ہوئے ان اعضاء کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے تو جب وہ کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی ڈالتا ہے تو اس کے منہ اور ناک سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ دھل جاتے ہیں۔ جب وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر اور کانوں سے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جب وہ پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور نماز پڑھنا اس کی نیکیوں میں اضافہ بنتا ہے۔ (١) ُ ّ یہ صغیرہ گناہ ہیں جو نیکیوں کے اثر سے معاف ہوتے رہتے ہیں ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : (اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط) (ھود : ١١٤) یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں “۔ ان برائیوں سے مراد کبائر نہیں ‘ صغائر ہیں۔ کبائر توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے (اِلاّماشاء اللہ ! ) ان کے لیے توبہ کرنی ہوگی۔ اور جو اکبر الکبائر یعنی شرک ہے اس کے بارے میں تو اس سورت میں دو مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاءُ ط) (آیت ٤٨ و ١١٦) بلاشبہ اللہ تعالیٰ یہ بات تو کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ‘ اور اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا “۔ لیکن ہمارے ہاں مذہب کا جو مسخ شدہ (perverted) تصور موجود ہے اس سے ایک ایسا مذہبی مزاج وجود میں آتا ہے کہ جو کبائر ہیں وہ تو ہو رہے ہیں ‘ سود خوری ہو رہی ہے ‘ حرام خوری ہو رہی ہے ‘ مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکیر ہو رہی ہے۔ ساری گرفت ان باتوں پر ہو رہی ہے کہ تمہاری داڑھی کیوں شرعی نہیں ہے ‘ اور تمہارا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے کیوں ہے ؟ قرآن مجید میں اس معاملے کو تین جگہ نقل کیا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں درگزر سے بھی کام لو اور یہ کہ بہت زیادہ متفکر بھی نہ ہو۔ اس معاملے میں باہمی نسبت و تناسب پیش نظر رہنی چاہیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:30) عدوانا۔ عدا یعدوا عدوا وعدوانا وعدونا وعدوا (باب نصر) زیادتی ۔ ظلم و ستم ۔ سرکشی۔ نصلیہ۔ اصلی یصلی اصلاء (افعال) سے مضارع جمع متکلم۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب ہم اس کو آگ میں (جہنم میں) داخل کریں گے۔ اصلی (سمع) کے اصل معنی آگ جلانے کے ہیں ۔ (باب افعال) سے آگ میں پھینکنا۔ آگ میں ڈالنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ذٰ لک اشارہ قتل نفس کی طرف بھی ہو کھانے کی طرف بھی حضرت ابن عباد (رض) فرماتے ہیں کہ ابتائے سورت سے یہاں تک جتنے مناہی بیان ہوئے ہیں ان سب کی طرف اشارہ ہے۔ (ابن جریر، کبیر)8 یہ انداز بیان تہدید میں مبالغہ پر دال ہے (کبیر) موضح میں ہے یعنی مغرور نہ ہوں کہ ہم مسلمان دوزخ میں کیونکر جاویں گے اللہ تعالیٰ پر یہ آسان ہے کبیرہ گناہ وہ ہے جن کے متعلق قرآن یا حدیث میں صاف طور پر دوزخ کی وعید آئی ہو یا اللہ تعالیٰ کے غصہ کا اظہار ہو یا شریعت میں اس پر حد مقرر فرمائی گئی ہو اور سیئات وہ گنا ہیں جن سے صرف منع کیا گیا ہو اور ان پر وعید وارد نہ ہوئی ہو۔ (کبیر۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ عدوان کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص مقتول واقع میں مستحق قتل نہ ہو اور اس کو قتل کیا جاوے اور ظلم کا حاصل یہ ہے کہ غیر مستحق للقتل کا قتل ہونا تین طور پر سکتا ہے ایک یہ فعلا خطاہوئی یعنی مثلا گولی شکار پرچلائی اور وہ کسی آدمی کو لگ گئی۔ دوسرے یہ کہ قاضی وحاکم سے اجتہادا خطاہوئی تیسرے یہ کہ حقیقت حال یعنی اس کا غیر مستحق للقتل ہونا معلوم ہے پھر بھی عمدا اس کو قتل کرڈالا پس ظلم کہنے سے پہلی دو صورتیں خارج ہوگئیں کہ ان میں یہ وعید نہیں۔ 4۔ یعنی بعدالموت۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ومن یفعل ذلک عدوانا وظلما فسوف نصلیہ نارا وکان ذلک علی اللہ یسیرا “۔ (٤ : ٣٠) ” ” جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ “ اسلامی نظام حیات نفس انسانی کو اس کے ایک وسیع دائرے تک لے جاتا ہے یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دونوں جہانوں کو پیش نظر رکھ کر اس کے لئے ضابطہ بندی کی جاتی ہے اور اسے ہدایات دی جاتی ہیں ۔ نفس انسانی کے اندر ایک بیدار اور محتاط چوکیدار بٹھایا جاتا ہے جو ہر ہدایت کو بسروچشم قبول کرتا ہے اور ہر اسلامی قانون کو بطیب خاطر نافذ کرتا ہے ۔ پھر اسلامی سوسائٹی میں بھی ہر شخص کو دوسرے کے لئے نگران بنایا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اجتماعی طور پر بھی مسئول ہیں ۔ اگر ظلم ہوگا تو سوسائٹی کے تمام افراد گویا قتل ہوں گے اور ان پر تباہی آئے گی ، یعنی اس دنیا میں اور آخرت میں تمام ان لوگوں سے محاسبہ ہوگا جنہوں نے اپنی سوسائٹی کو ظالمانہ روش پر رہنے دیا اور اس کے باطل طور طریقوں کے بدلنے کے لئے جدوجہد نہ کی ۔ (آیت) ” وکان ذلک علی اللہ یسیرا “۔ (٤ : ٣٠) ” ” اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے “۔ اسے دنیاوی تباہی لانے اور آخری محاسبہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ نہ اس کی راہ میں کوئی حائل ہو سکتا ہے اور جب تباہی کے اسباب مہیا ہوجائیں تو اللہ کی سنت یہی ہے کہ پھر وہ آکر رہتی ہے ۔ لیکن اگر تم لوگ ممنوعات میں سے بڑی بڑی ممنوعہ چیزوں سے اجتناب کرو ‘ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کے اموال کو ظالمانہ طریقے سے کھانا اور ان کا استحصال کرنا چھوڑ دو ‘ تو اس کے نتیجے میں اللہ کی رحمت تمہارے شامل حال رہے گی ۔ تمہارے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے اور آگ سے تمہیں بچانے کے لئے تمہارے وہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے جو کبائر نہیں ہیں بشرطیکہ تم ارتکاب ظلم اور ارتکاب فواحش سے اجتناب کرو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں قتل نفس کی وعید بتائی اور ارشاد فرمایا (وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا) کہ جو شخص زیادتی اور ظلم کے طور پر کسی جان کو قتل کرے، ہم اس کو دوزخ میں داخل کریں گے، بعض صورتوں میں قتل کرنے کا جو شرعی جواز ہے اس سے آگے بڑھ جانا اور حدود شرعی سے نکل کر کسی کو قتل کردینا حرام ہے، قتل نفس کی سزا جہنم کا داخلہ ہے، اللہ تعالیٰ کو سب پر قدرت ہے کوئی اس کی قدرت سے باہر نہیں اور اس کے ملک سے کوئی نہیں نکل سکتا نہ موت سے پہلے نہ موت کے بعد، اللہ تعالیٰ کو سب کچھ آسان ہے، اور ہر طرح کی قدرت ہے جس کو جیسے چاہے سزا دے سکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! تم آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق اور غیر شرعی طور مت کھائو اور ان کو مت استعمال کرو مگر ہاں وہ مال جو آپس کی تجارت اور خریدوفروخت سے باہمی رضامندی کے ساتھ ہو تو اس کے کھانے اور استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں اور دیکھو تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے اور جو شخص ازراہِ زیادتی اور ظلم ان افعال ممنوعہ کا ارتکاب کرے گا تو ہم عنقریب اس کو جہنم کی آگ میں داخل کریں گے اور یہ سزا دینا اور کسی مجرم کو جہنم کی آگ میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان اور بہت سہل ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یتامیٰ اور بیوگان کے مال پر کیا موقوف ہے کہ کوئی مال بھی جو غیر مباح طور پر حاصل ہو وہ نہ کھائو اس کا کھانا حرام ہے۔ باطل کے معنی ہم نے غیر شرعی کئے ہیں تاکہ غیر مباح اور مکروہ اور حرام وغیرہ سب کو شامل ہوجائے۔ البتہ ان اموال کے کھانے کی اجازت ہے جو مثلاً کسی تجارت کے ذریعہ حاصل ہوں اور وہ تجارت بھی باہمی رضامندی کے ساتھ ہو اس میں مبادلۃ المال بالمال کے دوسرے عقود بھی داخل ہوگئے بشرطیکہ یہ تجارت اور دوسرے معاملات قواعدِ شرعیہ کی پابندی کے ساتھ کئے جائیں جس معاملہ میں شرعی احکام کی پابندی کو نظر انداز کردیا جائے گا وہی باطل میں داخل ہوجائے گا اور اس کا کھانا اور برتنا حرام ہوگا۔ یہاں بھی مال کے ساتھ کھانا فرمایا کیونکہ مال کے اہم منافع اور مقاصد میں کھانے پینے کو بڑا دخل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی کئی مرتبہ عرض کرچکے ہیں۔ اور اسی لئے ہم نے کھانے کے ساتھ استعمال کرنے کا لفظ بڑھادیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ حرام کا مال صرف کھانا ہی حرام نہیں بلکہ کسی اور مصرف میں استعمال کرنا بھی حرام ہے۔ لاتقتلوا انفسکم سے مراد خودکشی تو ظاہر ہی ہے اور یہ اسلام کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے دنیا کی تمام قوموں کو خودکشی کی برائی سے آگاہ کیا ورنہ دنیا کی تہذیبیں اس کو جرم ہی نہیں سمجھتی تھیں اور جان کو اپنا سمجھ کر اس کو تلف کردینا اپنا قانونی حق خیال کرتی تھیں۔ یہ بات اسلام نے ظاہر کی کہ اپنی جان کو تلف کردینا بھی جرم ہے۔ جیسا کہ احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ جو شخص اپنی جان کو چھری سے قتل کرے گا یا پہاڑ سے گرا کر اپنے کو ہلاک کرے گا یا کسی اور دھار دار چیز سے خودکشی کرے گا تو وہ قیامت تک عالم برزخ میں اسی قتل قتل کیا جاتا رہے گا۔ اور اگر ولا تقتلوا انفسکم کا مطلب یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا بھی اپنے ہی کو قتل کرنا ہے تو اس کی حرمت اور گناہ تو ظاہر ہی ہے۔ جیسا کہ اسی پارے میں اس کی تفصیل آجائے گی۔ اور یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی اور بندہ نوازی ہے کہ اس نے انسان کی جان کو تلف کرنے سے روکنے کی شکل نکالی اور ایسا قانون بنادیا جس سے قتل کو جرم قرار دیا گیا۔ آگے مزید تنبیہ فرمائی کہ جو مذکورہ بالا گناہ کا ارتکاب کرے گا اور ارتکاب بھی ظلم و عدو ان کے طور پر کرے گا۔ تو اس کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اگرچہ دخول جہنم قیامت کے دن ہوگا لیکن قیامت چونکہ کچھ دور نہیں ہے اس لئے عنقریب فرمایا۔ عدوان کے معنی حد سے تجاوز کرنا ہے ہم نے اس کا ترجمہ زیادتی کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی کا مال زیادتی اور ظلم سے کھالیا یا کسی کو ظلم اور زیادتی سے قتل کردیا یا کسی وارث کی میراث کو ظلم اور زیادتی سے دبا لیا یا کسی کی منکوحہ کو ظلم و زیادتی سے لے بھاگا تو ایسے لوگوں کی سزا جہنم ہے۔ بعض مفسرین نے اس وعید کا تعلق صرف قتل سے بیان کیا ہے ہوسکتا ہے کہ قتل نفس کی اہمیت کے لحاظ سے صرف قتل ہی پر وعیدفرمائی ہو اگرچہ عموم بہتر ہے۔ بہرحال اس صورت میں عدوان کا مطلب یہ ہوگا کہ قتل خطا اور غلطی سے نہ ہو یعنی مارتا تھا کسی اور کو اور تیر کسی اور کو لگ گیا یا کسی حاکم نے کوئی غلط فیصلہ کردیا اور ایک بےگناہ کو پھانسی ہوگیء بلکہ قصداً زیادتی اور ظلم سے کسی کو ناحق قتل کیا ہو تو اس وعید کا مستحق ہوگا اور دوزخ میں ڈال دینا اور آگ میں داخل کردینا اللہ تعالیٰ کو کچھ شکل نہیں خواہ کوئی کافر ہو یا عاصی مسلمان ہو بلکہ یہ جہنم کی سزا دینا اس پر بالکل آسان اور سہل ہے جہنم کو اس نے اس کام کے لئے پیدا کررکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مغرور نہ ہو کہ ہم مسلمان دوزخ میں کیونکر جائیں گے اللہ پر یہ بھی آسان ہے۔ (موضع القرآن) خلاصہ یہ کہ قانون کی خلاف ورزی بہرحال خلاف ورزی ہے۔ کوئی مسلمان ہو یا کافر۔ اگر کوئی مسلمان فاسق ہو اور توبہ کرکے نہ مرا ہو تو بہرحال وہ سزا کا مستحق ہے اور جب تک اہل حق معاف نہ کرے نجات کی کوئی صورت نہیں قتل بلا عمدہ وغیرہ کی تفصیل انشاء اللہ آگے آجائے گی۔ اب آگے آیت میں عام کباتر سے بچنے کی ترغیب مذکور ہے کہ اگر تم لوگ کبائر سے بچتے رہو گے خواہ وہ مذکورہ ہوں یا غیرمذکورہ تو تم کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا۔ اوپر کی آیت میں کبائر کے ارتکاب پر ترہیب تھی اب کبائر سے بچنے پر ترغیب ہے۔ (تسہیل)