Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 32

سورة النساء

وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۳۲﴾

And do not wish for that by which Allah has made some of you exceed others. For men is a share of what they have earned, and for women is a share of what they have earned. And ask Allah of his bounty. Indeed Allah is ever, of all things, Knowing.

اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالٰی نے تم میں سے بعض کو بعض پر بُزرگی دی ہے ۔ مردوں کا اس میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے ان میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا ، اور اللہ تعالٰی سے اس کا فضل مانگو ، یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do Not Wish for the Things Which Allah has Made Some Others to Excel In Allah says; وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ ... And wish not for the things in which Allah has made some of you to excel others. Imam Ahmad recorded that Umm Salamah said, "O Messenger of Allah! Men go to battle, but we do not go to battle, and we earn one-half of the inheritance (that men get)." Allah sent down, وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ (And wish not for the things in which Allah has made some of you to excel others). At-Tirmidhi also recorded this Hadith. Allah's statement, ... لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ... For men there is reward for what they have earned, (and likewise) for women there is reward for what they have earned, indicates, according to Ibn Jarir, that each person will earn his wages for his works, a reward if his deeds are good, and punishment if his deeds are evil. Al-Walibi reported from Ibn Abbas, this Ayah is talking about inheritance, indicating the fact that each person will get his due share of the inheritance. Allah then directed the servants to what benefits them, ... وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ ... and ask Allah of His Bounty. Therefore, the Ayah states, "Do not wish for what other people were endowed with over you, for this is a decision that will come to pass, and wishing does not change its decree. However, ask Me of My favor and I will grant it to you, for I Am Most Generous and Most Giving." Allah then said, ... إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا Surely, Allah is Ever All-Knower of everything. meaning, Allah knows who deserves this life, and so He gives him riches, and whoever deserves poverty, He makes him poor. He also knows who deserves the Hereafter, and He directs him to perform the deeds that will help him to be successful in it, and whoever deserves failure, He prevents him from achieving righteousness and what leads to it. Hence, Allah said, إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (Surely, Allah is Ever All-Knower of everything).

جائز رشک اور جواب با صواب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں ، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ترمذی ) اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد پھر ( اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ) 3 ۔ آل عمران:195 ) اتری ۔ اور یہ بھی روایت میں ہے کہ عورتوں نے یہ آرزو کی تھی کہ کاش کہ ہم بھی مرد ہوتے تو جہاد میں جاتے اور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہا تھا کہ دیکھئے مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملتا ہے دو عورتوں کی شہادت مثل ایک مرد کے سمجھی جاتی ہے گو پھر اس تناسب سے عملاً ایک نیکی کی آدھی نیکی رہ جاتی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مردوں نے کہا تھا کہ جب دوہرے حصے کے مالک ہم ہیں تو دوہرا اجر بھی ہمیں نہیں ملتا ؟ اور عورتوں نے درخواست کی تھی کہ جب ہم پر جہاد فرض ہی نہیں ہمیں تو شہادت کا ثواب کیوں نہیں ملتا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو روکا اور حکم دیا کہ میرا فضل طلب کرتے رہو ۔ حضرت ابن عباس؟ سے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انسان یہ آرزو نہ کرے کہ کاش کہ فلاں کا مال اور اولاد میرا ہوتا ؟ اس پر اس حدیث سے کوئی اشکال ثابت نہیں ہو سکتا جس میں ہے کہ حسد کے قابل صرف دو ہیں ایک مالدار جو راہ اللہ اپنا مال لٹاتا ہے اور دوسرا کہتا ہے کاش کہ میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح فی سبیل اللہ خرچ کرتا رہتا پس یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر میں برابر ہیں اس لئے کہ یہ ممنوع نہیں یعنی ایسی نیکی کی حرص بری نہیں کسی نیک کام حاصل ہونے کی تمنا یا حرص کرنا محمود ہے اس کے برعکس کسی کی چیز اپنے قبضے میں لینے کی نیت کرنا ہر طرح مذموم ہے جس طرح دینی فضیلت حاصل کرنے کی حرض جائز رکھے ہی اور دنیوی فضیلت کی تمنا ناجائز ہے پھر فرمایا ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا خیر کے بدلے خیر اور شر کے بدلے شر اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق ورثہ دیا جاتا ہے ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہم سے ہمارا فضل مانگتے رہا کرو آپس میں ایک دوسرے کی فضیلت کی تمنا بےسود امر ہے ہاں مجھ سے میرا فضل طلب کرو تو میں بخیل نہیں کریم ہوں وہاب ہوں دوں گا اور بہت کچھ دوں گا ۔ جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لوگو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اللہ سے مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے یاد رکھو سب سے اعلیٰ عبادت کشادگی اور وسعت و رحمت کا انتظار کرنا اور اس کی امید رکھنا ہیں اللہ علیہم ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون دئیے جانے کے قابل ہے اور کون فقیری کے لائق ہے اور کون آخرت کی نعمتوں کا مستحق ہے اور کون وہاں کی رسوائیوں کا سزا وار ہے اسے اس کے اسباب اور اسے اس کے وسائل وہ مہیا اور آسان کر دیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 اس کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے، اس پر آیت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت و طاقت اپنی حکمت اور ارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لئے خاص عطیہ ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح ان کا پورا پورا صلہ انہیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کا جو فرق ہے وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس کے فضل سے کسب و محنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہوسکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] حسد کی بجائے اللہ کا فضل طلب کرنا چاہئے :۔ دنیا میں اللہ نے کسی کو کوئی خوبی دے رکھی ہے کسی کو کوئی دوسری۔ کوئی مالدار ہے کوئی غریب ہے۔ کوئی حسین ہے کوئی بدصورت ہے، کوئی تنومند اور صحت مند اور کوئی کمزور اور مستقل بیمار۔ کوئی سالم الاعضاء ہے تو کوئی پیدائشی اندھا یا گونگا یا بہرہ ہے۔ کوئی بڑا عقلمند اور ذہین ہے اور کوئی کند ذہن ہے۔ کسی میں قوت کار کی استعداد بہت زیادہ ہے کسی میں کم ہے، کوئی چست اور پھرتیلا ہے تو کوئی پیدائشی طور پر سست اور ڈھیلا ڈھالا ہے اور اسی اختلاف ہی سے اس جہان کی رنگینیاں قائم اور اس دنیا میں ایک دوسرے کے کام چلتے چلاتے رہتے ہیں۔ اب اگر اس قدرتی اختلاف میں سے کسی بھی چیز کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اختلاف تو دور نہ ہو سکے گا البتہ معاشرہ میں بگاڑ ضرور پیدا ہوجائے گا۔ اس لیے اگر اللہ نے کسی کو خوبی عطا کی ہے تو اس کے لیے حسد ہوس اور بغض نہ رکھنا چاہیے کیونکہ اس کے عوض اللہ نے تمہیں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور دی ہوگی۔ البتہ اپنے لیے اللہ کے فضل کی دعا کرسکتے ہو۔ اور اگر سچے دل سے دعا کرو گے اور اس کام کے لیے اسباب بھی اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں پر بہت عنایات کرنے والا ہے۔ [٥٥] اجر وثواب میں مرد و عورت برابر ہیں :۔ مرد ہو یا عورت جس کی نیت میں خلوص زیادہ ہوگا تو اس کو اس کے مطابق اجر ملے گا اور اگر عورت ہمت اور قوت کار کی استعداد میں کم ہونے کے باوجود وہی نیکی کا کام سر انجام دیتی ہے جو مرد نے دیا ہے تو یقینا عورت کو اس کا اجر زیادہ ملنا چاہیے۔ گویا ثواب کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ دوسرے عوامل ثواب کی کمی بیشی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اب اگر کوئی عورت اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ مرد کے تو اللہ نے میراث میں دو حصے رکھے ہیں اور عورت کا ایک۔ یا یہ کہ مرد کو اللہ نے عورتوں پر حاکم بنادیا ہے اور عورتیں محکوم ہیں یا کوئی مرد اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ اخراجات کی سب ذمہ داریاں تو مرد پر ڈال دی گئی ہیں۔ پھر عورت کا میراث میں مفت میں ہی حصہ مقرر کردیا گیا ہے یا یہ کہ مرد اپنی بیوی اور بال بچوں کی خوراک، پوشاک، رہائش، تعلیمی ذمہ داریوں کے مکمل اخراجات کا ذمہ دار بنادیا گیا ہے کہ وہ جیسے بھی بن پڑے کما کر لائے اور اہل خانہ کی خدمت میں پیش کر دے تو اس طرح تو مرد اپنے اہل خانہ کا خادم ہوا حاکم کیسے ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قسم کے غلط انداز فکر چھوڑ دو ۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں اس حیثیت سے دیئے ہیں کہ وہ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے لہذا اگر تم میں سے کسی کو کچھ کسر معلوم ہوتی ہے تو اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ وہ بڑا صاحب فضل ہے اور تمہاری سب کمزوریاں اور کو تاہیاں دور کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ ۔۔ : یعنی یہ نہ کہو کہ کاش ! یہ درجہ یا مال مجھے مل جائے، یہ تقدیر پر راضی نہ ہونے کی دلیل ہے اور اگر یہ بھی ہو کہ اس کے پاس یہ نعمت نہ رہے تو حسد ہے، جس کی بہت مذمت آئی ہے، ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ مرد لوگ جہاد کرتے ہیں، ہم اس سے محروم ہیں، میراث میں بھی ہمارا نصف حصہ ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ( وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ ) (أحمد : ٦؍٣٢٢) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب نیک اعمال سے ہے، مرد کو محض مرد ہونے کی وجہ سے عورت پر عمل میں فضیلت نہیں ہے اور عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے نیک عمل کے ثواب سے محروم نہیں ہے، لہٰذا تم بجائے حسد کے اللہ تعالیٰ کا فضل چاہا کرو۔ (ابن کثیر۔ بغوی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the injunctions of inheritance appearing previously, it was mentioned that, given the conditions, for a male there is a share equal to that of two females. There are other proved aspects of male prece¬dence as well. So, Sayyidah Umm Salmah رضی اللہ تعالیٰ عنہا once said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Our share in the inheritance is half. Then, there are such and such elements of difference between us and men...& Her purpose was not to raise an objection. Rather, she wished to be a man and to deserve the merits restricted for men. There were other women who wished: Had we been men, we would have taken part in Jihad and the merit of Jihad would have been ours.& A woman asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) &A man gets a double share in the inheritance and the witness of a woman is half as compared with a man - does that mean that we shall be getting a half reward for all of our acts of worship?& Thereupon, the present verse was revealed in which an answer to both these statements has been given. The answer to Sayyidah Umm Salmah (رض) was given by &and do not covet...& and the answer to the last-mentioned woman was given by &for men there is a share...& Coveting the Unacquirable In this verse (32), coveting things, traits and merits given to others has been prohibited, for they are not acquirable by effort. The reason is that when a man finds himself lacking in wealth, comfort, beauty, merit, knowledge and similar other states of being, he naturally expe¬riences a surge of envy which urges him to come, at least, at par with that person, or, if possible, be ahead. But, he does not always have the capability or power to make his wish come true because there are merits and excellences which have nothing to do with man&s own efforts and acquisitions. They are simply the blessings of nature, for example, being a man or being the scion of a prophet&s family or having been born in the family of a ruler or having been born beau¬tiful. So, one who does not have access to these blessings - can never obtain them by effort even-if he were to spend a whole life-time devoted to that pursuit. A woman cannot become a man, nor can one choose to be born in the family of a prophet, or change his physique - become tall and handsome, acquire All beautiful features of his choice - because, this is not within his power. He simply cannot acquire these in the real sense, no matter how much he struggles with his medi¬cines, treatments and devices. Consequently, when he finds himself incapable of matching the other person, his inner self starts playing with the idea that it would be wonderful if such blessings were snatched away from him (the other person) as well, so that, he too becomes either equal or lower than him. This is envy, a terribly, shameful and damaging trait of human morals, which is the cause of so many disputes, disturbances, killings and ravages in this world. This verse of the Holy Qur&an closes the doors of disorders by saying: وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّـهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ. It means that Allah Almighty, in His infinite wisdom, has blessed people with all sorts of merits and excellences. He gave someone a particular quality, then gave someone else yet another quality; less to some, more to some others. In this matter, everyone. should rest pleased with his or her destiny and stay clear from the envious desire to become the possessor of the other person&s merits and excellences, for the end-result of this game of desires is nothing but a biting sense of personal loss, and of course, that awful sin of envy. It may sound a little simple, but the truth of the matter is that anyone Allah Almighty elects to be a man should be grateful for it, and anyone He elects to be a woman should be pleased with being just that, realizing that, had she been a man, may be, she could have failed to fulfill the responsibilities placed on a man, and would have thus ended up being a sinner. Then, anyone created beautiful by Allah Almighty should be all the more grateful for having been so blessed; and, anyone lesser in looks should also not grieve thinking of the good that may lie hidden behind this destiny, for being blessed with beauty does not necessarily guarantee good. It might have the recipient land into some unwelcome state of trial or corruption. Again, anyone who is a true lineal descendant of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should thank Allah Almighty for the great blessing of this lineal connection; and, anyone who does not have this connection should neither worry about it, nor should he go about longing for it, because this is something which cannot be acquired by effort, and if one still insists on coveting it, what he would get involved with will be nothing but sin and the gain he would make would be nothing but a broken heart and an aching soul. So, rather than pine for a lineage one does not have, the best policy is to think about one&s own doings. Let these be good and righteous. Once a person enhances himself with such spiritual strengths, he can be ahead of those with higher or better lineage. Striving to excel others in good deeds is different There are verses of the Holy Qur&an and the sayings of the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which exhort people to excel each other in good deeds. In other words, this is an open field in which it is all right to look at the trail of merits and excellence left by others. Indeed, people have been persuaded to make all possible efforts to acquire them. Now, this relates to deeds within man&s control, and which can be acquired by learning, training and working. For example, if a person is impressed with someone&s intellectual merits, practical life and excel-lent morals, he can, by all means, strive to acquire these qualities. This is very desirable, and praiseworthy. As such, the present verse does not contradict it. In fact, the later part of the same verse (32), that is لِّلرِّ‌جَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْ , is actually supporting this view. It means that men will get a share of what they acquired with their effort and conduct, and the same will be true for women who will get a share of what they acquired with their effort and conduct. One is not likely to miss the hint here - that effort and struggle in the acquisition of merits and perfections do not go waste. On the contrary, every man and woman will definitely get a return, a share of his or her effort. From here, we also know that desiring to have someone&s intellectual-moral excellence as combined with his model practical conduct, and then going ahead to see the fruition of these desires through effort and struggle, is certainly desirable and praiseworthy. Removed in the process here is an error which is committed by a lot of people who tend to do things not knowing what they are doing. Some of them become so devoted to their desire to acquire merits which cannot be acquired that they ruin their otherwise peaceful life right here in this mortal world. And if, bad come to worse, they are fired with envy, that is, they start wishing - &if I do not have this blessing, may this be taken away from the other& - then, the very chances of salvation in the life to come also stand destroyed because of the grave sin of envy committed by him. Moreover, there are another kind of people as well who lack courage, avoid action, or just have no sense of honour and shame, who do not even try to acquire merits which can be acquired. Such people, when approached with good counsel, would come back immediately, blaming their destiny and fate which is no more than an effort to camouflage their own timidity and inertia. The present verse has resolved this problem by stating a wise and just rule which is: Man&s effort is ineffective in acquiring merits which he does not control, such as, being high-born or handsome. Merits like these should be resigned to fate and one must be content with the divinely determined state he is in, and be grateful to Allah Almighty. Coveting anymore than that is absurd, ineffectual, meddlesome - an act which leaves behind nothing but a handful of sorrows. As for merits which can be acquired by effort, wishing to have them is useful, only if such a wish is supported by the necessary struggle to achieve. Let us keep in mind that the verse carries the promise that the effort so made will not be wasted and everyone will get a share of what he or she worked for. Referring back to injunctions prohibiting. the unjust use of someone&s property and the unjust taking of someone&s life (29), Tafsir al-Bahr al-Mishit points out that this verse aims to seal the very source of these crimes, and it is for this purpose that instructions have been given to stop people from coveting others who are ahead of them in wealth, comfort or influence. A little thought will reveal that theft, robbery and other illegitimate ways of usurping someone&s property, or to kill and destroy, are crimes which sprout from one particular emotional attitude. A person, when he finds the other ahead of him in wealth and other material acquisitions, first feels the pinch in his heart wishing to come at par with him, or even wishes to become superior to him. Then, it is the intensity of this desire which pushes him all the way to go ahead and commit these crimes. The Holy Qur&an, as said earlier, has blocked the source of these crime by blocking the very desire of the unacquirables and the unobtainables of life. To ask for Allah&s grace is the ideal way After that, the verse moves on to instruct by saying: وَاسْأَلُوا اللَّـهَ مِن فَضْلِهِ ; (And pray to Allah for His grace). It means, &when you see someone excel in one or the other graces of life,& the ideal conduct is, ¬ to wish to come at par with the other person in respect of that particular excel¬lence, but that you should pray to Allah asking for graces and bless¬ings. from Him.& The reason is that Allah&s grace appears in different forms for everyone. For some, wealth is a blessing from God for, if they were to become paupers, they might have fallen victims to sin and disbelief. For some others, grace lies in the very pecuniary circum-stances they are in, for if they were to turn rich, they might have succumbed to thousands of sins. Similarly, for some, grace appears in the form of power and influence, while for some others, the unremem¬bered and the unattended, the grace of Allah manifests itself in that very state. A look at the reality of things around would have told him that power and influence, if these were to be his lot, might have caused his falling into many a sin. Therefore, the verse instructs - when you ask Allah, do not ask for some fixed quality of life, instead, ask for His grace so that He, in his His infinite wisdom, opens the doors of His blessings on you. Trust His Wisdom and Knowledge The verse concludes by saying: إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (Surely, Allah is All-Knowing in respect of everything.) Here, the hint is that the arrangement of things made by Allah Almighty is the very quintes¬sence of wisdom and justice. Whoever has been created and sustained in whatever condition it may be is an arrangement perfectly matched with the ideal demand of wisdom and justice. But, man is not fully aware of the consequences of what he does. This is something only Allah knows best and thus He also knows how suitable it is to keep anyone in a given condition. The law of inheritance: Reiteration of the wisdom in it While describing the background in which the present verse was revealed, which appears in the introductory remarks preceding the Commentary, it was stated that some women, when they found out that men have beers given a share equal to that of two women, wished they were men so that they too would be getting a doubled share. In a relevant manner, the law of inheritance was reiterated in the second verse (33) and it was tersely said that all shares determined therein are based on perfect wisdom and justice. Since human reason cannot encompass the totality of factors that contribute to the order or disorder of the created universe, it is obvious that it cannot arrive precisely at those elements of wisdom which have been taken Into consideration in determining the laws of Allah Almighty. Therefore, whosoever has been allotted whatsoever share should be pleased with it, and be grateful for it. Inheriting through pledge The giving of a share on the basis of a pledge mentioned at the end of verse 33 refers to a practice during the initial period of Islam. This was later abrogated by the verse وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ (As for the womb - relatives, some of them are closer to some...) (33:6) Now, if other heirs exist, a pledge or mutual contract between two parties does not affect the inheritance in any manner whatsoever.

ربط آیات : ماقبل کی آیتوں میں میراث کے احکام گذرے ہیں، ان میں یہ بھی بتلایا جا چکا ہے کہ میت کے ورثہ میں اگر مرد اور عورت ہو، اور میت کی طرف رشتہ کی نسبت ایک ہی طرح کی ہو تو مرد کو عورت کی نسبت دوگنا حصہ ملے گا، اسی طرح کے اور فضائل بھی مردوں کے ثابت ہیں، حضرت ام مسلمہ نے اس پر ایک دفعہ حضور اکرم سے عرض کیا کہ ہم کو آدھی میراث ملتی ہے اور بھی فلاں فلاں فرق ہم میں اور مردوں میں ہیں۔ مقصد اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی تمنا تھی کہ اگر ہم لوگ بھی مرد ہوتے تو مردوں کے فضائل ہمیں بھی حاصل ہوجاتے، بعض عورتوں نے یہ تمنا کی کہ کاش ہم مرد ہوتے تو مردوں کی طرح جہاد میں حصہ لیتے اور جہاد کی فضیلت ہمیں حاصل ہوجاتی۔ ایک عورت نے حضور سے یہ عرض کیا مرد کو میراث میں دوگنا حصہ ملتا ہے اور عورت کی شہادت بھی مرد سے نصف ہے تو کیا عبادت اور اعمال میں بھی ہم کو نصف ہی ثواب ملے گا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں دونوں قولوں کا جواب دیا گیا ہے، حضرت ام سلمہ کے قول کا جواب لاتتمنوا سے دیا گیا اور اس عورت کے قول کا جواب للرجال نصیب سے دیا گیا۔ خلاصہ تفسیر اور تم (سب مردوں، عورتوں کو حکم ہوتا ہے کہ فضائل وہبیہ میں سے) ایسے کسی امر کی تمنا مت کیا کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو (مثلاً مردوں کو) بعضوں پر (مثلاً عورتوں پر بلا دخل ان کے کسی کے عمل کے) فوقیت بخشی ہے، (جیسے مرد ہونا یا مردوں کا دو حصہ ہونا یا ان کی شہادت کا کامل ہونا وغیرہ ذلک کیونکہ) مردوں کے لئے ان کے اعمال (کے ثواب) کا حصہ (آخرت میں) ثابت ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال (کے ثواب) کا حصہ (آخرت میں) ثابت ہے، (اور مدار نجات کا قانوناً یہی اعمال ہیں اور ان میں کسی کی تخصیص نہیں، تو اگر دوسروں سے فوقیت حاصل کرنے کا شوق ہے تو (اعمال میں جو کہ فضائل کسبیہ ہیں کوشش کر کے دوسروں سے زیادہ ثواب حاصل کرلو) باوجود اس پر قادر ہونے کے فضائل خاصہ مذکورہ کی تمنا محض ہوس اور فضول ہے) اور (اگر فضائل و ہبیہ میں ایسے فضائل کی رغبت ہے جن میں اعمال کو بھی دخل ہے مثلاً احوال و کمالات باطنیہ و امثالہا تو مضائقہ نہیں، لیکن اس کا طریقہ بھی یہ نہیں کہ خالی تمنائیں کیا کرو، بلکہ یہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل (خاص) کی درخواست (یعنی دعاء) کیا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں (اس میں سب چیزیں آگئیں، یعنی فضائل و ہبیہ قسم اول کی وجہ تخصیص بھی اور فضائل کسبیہ پر ثواب دینا بھی اور فضائل وہبیہ قسم دوم کی درخواست بھی، پس یہ جملہ سب کے متعلق ہے) اور ہر ایسے مال کے لئے جس کو والدین اور (دوسرے) رشتہ دار لوگ (اپنے مرنے کے بعد) چھوڑ جاویں، ہم نے وارث مقرر کردیئے ہیں اور جن لوگوں سے تمہارے عہد (پہلے سے) بندھے ہوئے ہیں (اسی کو مولی الموالات کہتے ہیں) ان کو (اب جبکہ شرع سے رشتہ دار لوگ وارث مقرر ہوگئے، ساری میراث مت دو ، بلکہ صرف) ان کا حصہ (یعنی ایک ششم) دیدو، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر مطلع ہیں (پس ان کو ساری میراث نہ دینے کی حکمت اور ششم حصہ مقرر کردینے کی مصلحت اور یہ کہ یہ ششم ان کو کون دیتا ہے کون نہیں دیتا، ان سب کی ان کو خبر ہے۔ ) معارف ومسائل امور اختیاریہ اور غیر اختیاریہ کی تمنا کرنا :۔ آیت میں ان غیر اختیاری فضائل کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا ہے جو دوسروں کو حاصل ہوں ........ وجہ یہ ہے کہ انسان جب اپنے آپ کو دوسروں سے مال و دولت، آرام و عیش، حسن و خوبی، علم و فضل وغیرہ میں کم پاتا ہے تو عادةً اس کے دل میں ایک مادہ حسد کا ابھرتا ہے، جس کا تقاضا کم سے کم یہ ہوتا ہے کہ میں بھی اس کے برابر یا زیادہ ہوجاؤں اور بسا اوقات اس پر قدرت نہیں ہوتی، کیونکہ بہت سے کمالات ایسے ہیں جن میں انسان کے سعی و عمل کو کوئی دخل نہیں وہ محض قدرت کے انعامات ہوتے ہیں جیسے کسی شخص کا مرد ہونا، یا کسی اعلی خاندان نبوت میں یا خاندان حکومت میں پیدا ہونا، یا حسین و خوبصورت پیدا ہونا وغیرہ کہ جس شخص کو یہ انعامات حاصل نہیں، وہ اگر عمر بھر اس کی کوشش کرے کہ مثلاً مرد ہوجائے یا خاندانی سید بن جائے، اس کا ناک نقشہ قدو و قامت حسین ہوجائے تو یہ اس کی قدرت میں نہیں، نہ کسی دوا اور علاج یا تدبیر سے وہ ان چیزوں کو حاصل کرسکتا ہے اور جب دوسرے کی برابری پر قدرت نہیں ہوتی تو اب اس کے نفس میں یہ خواہش جگہ پڑتی ہے کہ دوسروں سے بھی یہ نعمت چھن جائے تاکہ وہ بھی خصلت ہے اور دنیا کے بہت سے جھگڑوں اور فسادات قتل و غارت گری کا سبب ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت نے اس فساد کا دروازہ بند کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ولاتتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض یعنی اللہ تعالیٰ نے بہ تقاضائے حکمت و مصلحت جو کمالات و فضائل لوگوں میں تقسیم فرمائے ہیں کسی کو کوئی وصف دے دیا کسی کو کوئی، کسی کو کم کسی کو زیادہ، اس میں ہر شخص کو اپنی قسمت پر راضی اور خوش رہنا چاہئے، دوسرے کے فضائل و کمالات کی تمنا میں نہ پڑنا چاہئے کہ اس کا نتیجہ اپنے لئے رنج و غم اور حسد کے گناہ عظیم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جس کو حق تعالیٰ نے مرد بنادیا وہ اس پر شکر ادا کرے جس کو عورت بنادیا وہ اسی پر راضی رہے اور سمجھے کہ اگر وہ مرد ہوجاتی تو شاید مردوں کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرسکتی اور گنہگار ہوجاتی جس کو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت پیدا کیا ہے وہ اس پر شکر گزار ہو کہ اس کو ایک نعمت ملی اور جو بدصورت ہے وہ بھی رنجیدہ نہ ہوا اور سمجھے کہ میرے لئے اسی میں کوئی خیر مقدر ہوگی، اگر مجھے حسن و جمال ملتا تو شاید کسی فتنہ اور خرابی میں مبتلا ہوجاتا جو شخص نسب کے اعتبار سے سید ہاشمی ہے وہ اس پر شکر کرے کہ یہ نسبت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور جس کو یہ نسبت حاصل نہیں وہ اس فکر میں نہ پڑے اور اس کی تمنا بھی نہ کرے، کیونکہ یہ چیز کسی کو کوشش سے حاصل ہونے والی نہیں اس کی تمنا اس کو گناہ میں مبتلا کر دے گی اور بجز رنج و غم کے کچھ حاصل نہ ہوگا بجائے نسب پر افسوس کرنے کے اعمال صالحہ کی فکر میں زیادہ پڑے، ایسا کرنے سے وہ بڑے نسب والوں سے بڑھ سکتا ہے۔ بعض آیات قرآنی اور ارشادات نبوی میں مسابقت فی الخیرات یعنی نیک کاموں میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کا حکم یا دوسروں کے فضائل و کمالات کو دیکھ کر ان کی تحصیل کے لئے سعی و عمل اور جدوجہد کی ترغیب آئی ہے تو وہ ان اعمال و افعال سے متعلق ہے جو انسان کے اختیار میں ہیں اور کسب و اکتساب سے حاصل ہو سکتے ہیں، مثلاً علمی فضائل اور عملی و اخلاقی کمالات کسی کے دیکھ کر ان کے حاصل کرنے کی جدوجہد مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے، یہ آیت اس کے منافی نہیں، بلکہ آیت کا آخری حصہ اس کی تائید کر رہا ہے، جس میں ارشاد ہے للرجال نصیب مما اکتسوبوا وللنسآء نصیب مما اکتسبن یعنی جو کوئی چیز مردوں نے کسب و عمل کے ذریعہ حاصل کی ان کو اس کا حصہ ملے گا اور جو عورتوں نے سعی و عمل کے ذریعہ حاصل کی ان کو اس کا حصہ ملے گا۔ اس میں یہ ارشاد موجود ہے کہ فضائل و کمالات کی تحصیل میں کسب و اکتساب اور جدوجہد بیکار نہیں، بلکہ ہر مرد و عورت کو اس کی سعی و عمل کا حصہ ضرور ملے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی شخص کے علمی، عملی، اخلاقی فضائل کو دیکھ کر ان کی تمنا اور پھر تمنا پوری کرنے کے لئے سعی و عمل اور جدوجہد کرنا مطلوب اور مستحسن ہے۔ یہاں ایک مغالطہ بھی رفع ہوگیا جس میں بہت سے ناواقف مبتلا ہوا کرتے ہیں بعض تو غیر اختیاری فضائل کی تمنا میں لگ کر اپنے عیش و آرام اور سکون و اطمینان کو دنیا ہی میں برباد کرلیتے ہیں اور اگر نوبت حسد تک پہنچ گئی، یعنی دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا ہونے لگی تو آخرت بھی برباد ہوئی، کیونکہ حسد کے گناہ عظیم کا ارتکاب ہوا۔ اور بعض وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی سستی کم ہمتی بلکہ بےغیرتی سے اختیاری فضائل حاصل کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے اور کوئی کہے تو اپنی کم ہمتی اور بےعملی پر پردہ ڈالنے کے لئے قسمت و تقدیر کے حوالے دینے لگتے ہیں۔ اس آیت نے ایک حکیمانہ اور عادلانہ ضابطہ بتلا دیا کہ جو کمالات و فضائل غیر اختیاری میں اور ان میں انسان کا کسب و عمل موثر نہیں جیسے کسی کا عالی نسب یا حسین و خوبصورت صورت پیدا ہونا وغیرہ ایسے فضائل کو تو حوالہ تقدیر کر کے جس حالت میں کوئی ہے اسی پر اس کو راضی رہنا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے، اس سے زائد کی تمنا بھی لغو، فضول اور نقد رنج و غم ہے۔ اور جو فضائل و کمالات اختیاری ہیں جو کسب و عمل سے حاصل ہو سکتے ہیں ان کی تمنا مفید ہے، بشرطیکہ تمنا کے ساتھ کسب و عمل اور جدوجہد بھی ہو اور اس میں اس آیت نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سعی و عمل کرنے والے کی محنت ضائع نہ کی جائے گی بلکہ ہر ایک کو بقدر محنت حصہ ملے گا مرد ہو یا عورت۔ تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس آیت سے پہلے لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل اور لاتقتلوا انفسکم کے احکام آئے تھے جن میں کسی کا مال ناحق استعمال کرنے اور کسی کو ناحق قتل کرنے کی ممانعت ہے اس آیت میں ان دونوں جرموں کے سرچشمہ کو بند کرنے کے لئے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ دوسرے لوگوں کو جو مال و دولت یا عیش و عشرت یا عزت و جاہ وغیرہ میں تم پر تقوی خدا داد حاصل ہے، تم اس کی تمنا بھی نہ کرو .... اس میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ چوری، ڈاکہ اور دوسرے ناجائز طریقوں سے کسی کا مال لینا، یا انسان کو مال و دولت وغیرہ میں اپنے سے فائق اور بڑھا ہوا پاتا ہے تو اول اس کے دل میں اس کی برابری یا اس سے برتری کی خواہش و تمنا پیدا ہوتی ہے پھر یہ تمنا ہی ان سب جرائم تک پہنچا دیتی ہے، قرآنی ہدایت نے ان تمام جرائم کے سرچشمہ کو بند کردیا کہ دوسروں کے فضائل و کمالات کی تمنا ہی کو روک دیا۔ آیت میں اس کے بعد ارشاد ہے وسئلو اللہ من فضلہ اس میں یہ ہدایت ہے کہ جب تم کسی کو کسی کمال میں اپنے سے زائد دیکھو تو بجائے اس کے کہ اس خاص کمال میں اس کے برابر ہونے کی تمنا کرو، تمہیں کرنا یہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کی درخواست کرو، کیونکہ فضل خداوندی ہر شخص کے لئے جدا جدا صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے، کسی کے لئے مال و دولت فضل الٰہی ہوتا ہے اگر وہ فقیر ہوجائے تو گناہ و کفر میں مبتلا ہوجائے اور کسی کے لئے تنگی اور تنگدستی ہی میں فضل ہوتا ہے اگر وہ غنی اور مالدار ہوجائے تو ہزاروں گناہوں کا شکار ہوجائے اسی طرح کسی کی عزت و جاہ کی صورت میں فضل خداوندی ہوتا ہے، کسی کے لئے گمنامی اور کسمپرسی ہی میں اس کے فضل کا ظہور ہوتا ہے اور حقیقت حال پر نظر کرے تو معلوم ہوجائے کہ اگر اس کو عزت و جاہ ملتی تو بہت سے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا۔ اسلئے اس آیت نے یہ ہدایت دی کہ جب اللہ سے مانگو تو کسی خاص وصف معین کو مانگنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگو تاکہ وہ اپنی حکمت کے مطابق تم پر اپنے فضل کا دروازہ کھول دے۔ آخر آیت میں فرمایا ان اللہ کان بکل شی علیماً یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے، اس میں اشارہ فرمادیا کہ حق تعالیٰ کی تقسیم عین حکمت اور عین عدل و انصاف ہے جس کو جس حال میں پیدا کیا اور رکھا ہے وہی مقتضائے حکمت و عدل تھا مگر چونکہ انسان کو اپنے اعمال کے عواقب کا پورا پتہ نہیں ہوتا اس کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ کس کو کس حال میں رکھنا اس کے لئے مفید ہے۔ آیت مذکورہ کی شان نزول میں بیان کیا جا چکا ہے کہ جب میراث میں مردوں کا دوہرا حصہ مقرر ہوا تو بعض عورتوں نے یہ تمنا کی کہ ہم مرد ہوتے تو ہمیں بھی دوہرا حصہ ملتا اس کے مناسب دوسری آیت میں میراث کے قانون کا اعادہ اس انداز سے کردیا گیا کہ اس میں جو کچھ حصے مقرر کئے گئے ہیں وہ عین حکمت اور مطابق عدل ہیں، انسانی عقل چونکہ تمام عالم کے مصالح و مفاسد کا احاطہ نہیں کرسکتی، اس لئے وہ ان حکمتوں کو بھی نہیں پہنچ سکتی، جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون میں ملحوظ ہیں، اس لئے جو حصہ کسی کے لئے مقرر کردیا گیا ہے اس کو اسی پر راضی رہنا اور شکر گذار ہونا چاہئے۔ میراث پہنچنے کا حکم :۔ اس آیت کے آخر میں جو باہمی معاہدہ کی بناء پر حصہ دینا مذکور ہے، یہ ابتداء اسلام میں تھا بعد میں آیت واولوالارحام بعضھم اولی بعض سے یہ منسوخ ہوگیا، اب اگر دوسرے ورثاء موجود ہوں تو دو شخصوں کے باہمی معاہدہ کا میراث پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝ ٠ۭ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا۝ ٠ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ۝ ٠ۭ وَسْـــَٔـلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِـــيْمًا۝ ٣٢ تَّمَنِّي : تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] والأُمْنِيَّةُ : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] . ۔ التمنی کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ الامنیۃ کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ نَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ( ن ص ب ) نصیب و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

تمنا کرنے کی نہیں قول باری ہے (ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض، اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو) سفیان نے ابن ابی نجیع سے ، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، وہ فرماتی ہیں۔ ” میں نے ایک دن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مرد لوگ جہاد پر جاتے ہیں عورتیں نہیں جاتیں۔ مردوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ عورتوں کا نہیں ہوتا “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ولاتتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض) تا آخر آیت ۔ نیز یہ آیت بھی نازل ہوئی (ان المسلمین والمسلمات۔ بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں) تا آخر آیت قتادہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ کوئی شخص مال کی تمنا نہ کرے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ کہیں اسی مال میں اس کی ہلاکت کا سامان نہ موجود ہو۔ زیر بحثت آیت کی تفسیر میں سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ اہل جاہلیت عورت اور بچے کو اپنا وارث نہیں بناتے تھے اور اپنی اپنی پسند کے افراد کو دے دیتے تھے۔ پھر اسلام آنے کے بعد جب عورت اور بچے کو اپنا اپنا حصہ مل گیا اور مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر قرار دیا گیا تو عورتیں کہنے لگیں کاش ہمارا حصہ بھی مردوں کے حصے کی طرح ہوتا اور دوسری طرف مرد یہ کہنے لگے کہ جس طرح میراث میں حصوں کے لحاظ سے ہمیں عورت۔ ں پر فضیلت ہے امید ہے کہ آخرت میں بھی ہمیں اسی طرح ان پر فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( وللرجال نصیب مما اکتسبوا و للنساء نصیب مما اکتسبن، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورت کو اس کی نیکیوں کا دس گنا بدلہ ملے گا جس طرح مرد کو اس کی نیکیوں کا ملے گا۔ پھر فرمایا ( واسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شئ علیما، ہاں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے) اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا کرنے سے منع فرمادیا ہے۔ کیونکہ اس کے علم میں اگر یہ بات ہوتی کہ فلاں کو عطاء کرنے میں اس کی بھلائی ہے تو اس کے مقابلہ میں کسی اور کو اپنے فضل سے نہ نوازتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بخل یا عدم فضل کی بنا پر کسی سے اپنا فضل نہیں روکتا ، بلکہ روکتا اس لیے ہے کہ اسے وہ چیز عطا کرے جو اس سے بڑھ کر ہو۔ اس آیت کے ضمن میں حسد سے نہیں بھی موجود ہے۔ کیونکہ حسد میں اس بات کی تمنا ہوتی ہے کہ دوسرے کی نعمت اس سے زائل ہو کر حاسد کو مل جائے۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ (رض) ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یخطب لارجل علی خطبۃ اخیہ ولایسوم علی سوم اخیہ ولا تسال المرأۃ طلاق اختہا لتکفئ ما مفی صحفتہا فان اللہ ہو رازقہا، کوئی شخص اس عورت کو پیغام نکاح نہ بھیجے جسے اس کا مسلمان بھائی پہلے ہی پیغام نکاح بھیج چکا ہو۔ کوئی شخص اس چیز کی قیمت نہ لگائے جس کی اس کا مسلمان بھائی پہلے ہی قیمت لگا چکا ہو۔ کوئی شخص اس چیز کی قیمت نہ لگائے جس کی اس کا مسلمان بھائی پہلے ہی قیمت لگاچکا ہو۔ اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کی اس نیت سے طلبگار نہ بنے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے اسے خود سمیٹ لے۔ اس کا رازق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ ) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمادیا کہ جب ایک عورت کو مرد کی طر ف سے نکاح کا پیغام جا چکا ہو اور عورت کا میلان بھی اس کی طرف ہوگیا ہو اور وہ رضامند بھی ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں کوئی شخص اسے پیغام نکاح نہ بھیجے۔ اسی طرح آپ نے کسی چیز پر ایک شخص کی طرف سے مول بھاؤ ہوجانے پر دوسرے شخص کو اس چیز کی قیمت لگانے سے منع فرما دیا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان سے اس شخص کے متعلق اندازہ لگا سکتے ہیں جو یہ تمنا کرتا ہو کہ جو نعمت اور مال اس کے غیر کو مل چکا ہو اور سا پر اس کی ملکیت ہوگئی ہو وہی ما ل اس کے قبضے میں آجائے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کی اس نیت سے طلبگار نہ بن جائے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے اسے خود سمیٹ لے یعنی اپنی بہت کا حق اپنے لیے حاصل کرنے کی سعی نہ کرے۔ سفیان نے زہری سے ، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لاحسد الا فی اثنتین رجل آتاہ اللہ مالا فہو ینفق منہ آناء اللیل والنہار و رجل آتاہ القرآن فہو یقوم بہ آناء اللیل والنہار، دو باتوں کے سوا اور کسی بات میں حسد کرنا درست نہیں ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی شخص ہو جسے اللہ نے مال عطا کیا ہو اور وہ دن رات اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی شخص ہو جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس پر عمل کرنے میں لگا ہو) ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ تمنا کی دوقسمیں ہیں ایک ممنوع اور دوسری غیر ممنوع ۔ ممنوع تمنا کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا کرے کہ یہ حسد ہے اور اس تمنا کی نہیں کی گئی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یہ تمنا کرے اسے بھی وہی نعمت حاصل ہوجائے جو اس کے غیر کو حاصل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ غیر سے اس نعمت کے زوال کی خواہش نہ ہو۔ اس طرح کی تمنا کی ممانعت نہیں ہے۔ بشرطیکہ مصلحت اور بھلائی کی خاطر ایسی تمنا کی جائے نیز حکمت کی رو سے بھی اس کا جواز ہو۔ ممنوع تمنا کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان ایسی چیز کی تمنا اپنے دل میں لے بیٹھے جو ممکن ہی نہ ہو مثلا کوئی مرد عورت بن جانے یا کوئی عورت مرد بن جانے کی تمنا کربیٹھے یا کوئی عورت اپنے میں خلافت اور امامت یا ا سی قسم کی کسی اور چیز کی تمنا پیدا کرلے جس کے متعلق سب کو معلوم ہو کہ یہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوسکتی۔ قول باری (للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب ممااکتسبن) کی تفسیر میں کئی اقولا منقول ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ ہر شخص کے لیے ثواب کا وہ حصہ ہوتا ہے جوا سے اپنے معاملات میں حسن تدبیر اور باریک بینین کی بنا پر مل جاتا ہے اس طرح وہ اس کا مستحق ہوکر اس کے ذریعے اونچے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے، تم اس کے اس حسن تدبیر کیخلاف تمنا نہ کرو کیونکہ ہر شخص کے لیے اس کا حصہ مقرر ہے نہ اس میں کم یہوسکتی ہآ۔ اور نہ اسے گھٹایا جاسکتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی کمال کا بدلہ ملے گا اس لیے دوسرے کے بدلے کی تمنا کر کے اپنی کمائی ضائع نہ کرے اور نہ ہی اپنا عمل رائیگاں کر دے۔ ایک قول یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے طبقوں میں سے ہر طبقے اور گروہ کے لیے دنیاوی نعمتوں کا وہ حصہ ہے۔ جو اس نے حاصل کیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں جو کچھ لکھ دیا اس پر راضی ہوجانا اس کی ذمہ داری ہے۔ قول باری (واسئلوا اللہ من فضلہ، اور اللہ تعالیٰ اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تمہیں اس چیز کی ضرورت پر جائے جو تمہارے غیر کے پاس ہے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ اپنے فضل سے اس جیسی چیز تمہیں بھی عطا کر دے ۔ غیر کی چیز حاصل کرنے کی تمنا نہ کرو البتہ اللہ تعالیٰ سے سوال مصلحت اور بھلائی کی شرط کے ساتھ مشروط ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) یعنی کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے پاس اس کا مال وسواری اور اس کی عورت یا اس طرح کی کوئی اور نعمت دیکھ کر اسی چیز کی تمنا نہ کرے، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگے، کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی چیزیں یا اس سے بہتر چیزیں عطا فرما یہ آیت حضرت ام سلمہ زوجہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ کاش جن چیزوں کی اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اجازت دی ہے، عورتوں کو بی مل جائے تو ہم بھی ان کی طرح جہاد وغیرہ کریں، اللہ تعالیٰ نے اس چیز سے منع فرمایا کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جمعہ جماعت، جہاد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے عورتوں پر فضیلت دی ہے، اس کی تمنا نہ کریں، عورتیں جو اپنے گھروں میں نیکیاں کریں گی انھیں اس کا ثواب مل جائے گا، اے طبقہ خواتین، تم اس سے ہدایت اور عصمت کی درخواست کرو، اور اللہ تعالیٰ نیکی برائی، ثواب و بدلہ، ہدایت وگمراہی ہر ایک چیز کو پوری طرح جاننے والے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ “۔ (الخ) ترمذی (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم جہاد نہیں کرسکتے اور ہمیں وراثت بھی آدھی ملتی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی تم ایسی چیزوں کی تمنا مت کیا کرو، جس میں اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے اور ان ہی کے بارے میں انالمسلمین ولمسلمات کی آیت بھی نازل ہوئی ہے۔ اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور عرض کیا یارسول اللہ مرد کو عورت سے دوگنا حصہ ملتا ہے اور دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے تو ہمارے عمل بھی کیا اسی طرح ہیں کہ اگر عورت کوئی نیکی کرے تو اسے آدھا ثواب ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط) ۔ َاللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو ان کی خلقی صفات کے اعتبار سے دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جہاں کسی دوسرے کو اپنے مقابلہ میں کسی حیثیت سے بڑھا ہوا دیکھے بےچین ہوجائے ‘ اس کے اندر حسد ‘ رقابت اور عداوت کے جذبات پیدا کردیتی ہے۔ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرمائی جا رہی ہے۔ فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو مرد بنایا ‘ کسی کو عورت۔ یہ چیز بھی خلقی ہے اور کسی عورت کی مرد بننے یا کسی مرد کی عورت بننے کی تمنا نری حماقت ہے۔ البتہ دنیا میں قسمت آزمائی اور جدوجہد کے مواقع سب کے لیے موجود ہیں۔ چناچہ پہلی بات یہ بتائی جا رہی ہے : َ ّ ُ (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط) ۔ (وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط) یعنی جہاں تک نیکیوں ‘ خیرات اور حسنات کا معاملہ ہے ‘ یا سیئات و منکرات کا معاملہ ہے ‘ مرد و زن میں بالکل مساوات ہے۔ مرد نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے اور عورت نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے۔ مسابقت کا یہ میدان دونوں کے لیے کھلا ہے۔ عورت نیکی میں مرد سے آگے نکل سکتی ہے۔ کروڑوں مرد ہوں گے جو قیامت کے دن حضرت خدیجہ ‘ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کے مقام پر رشک کریں گے اور ان کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ چناچہ آدمی کا طرز عمل تسلیم و رضا کا ہونا چاہیے کہ جو بھی اللہ نے مجھے بنا دیا اور جو کچھ مجھے عطا فرمایا اس حوالے سے مجھے بہتر سے بہتر کرنا ہے۔ میرا شاکلہ تو اللہ کی طرف سے آگیا ہے ‘ جس سے میں تجاوز نہیں کرسکتا : (قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ط) (بنی اسراء ‘ یل : ٨٤) اور ہم سورة البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَھَا ط) (آیت ٢٨٦) لہٰذا میری وسعتجو ہے وہ اللہ نے بنا دی ہے۔ ّ ِ ُ سورۃ النساء کی زیر مطالعہ آیت سے بعض لوگ یہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورتیں بھی مال کما سکتی ہیں۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں صرف ایک مقام (البقرۃ : ٢٦٧) پر کسبکا لفظ معاشی جدوجہد اور معاشی کمائی کے لیے آیا ہے : (اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ ) ۔ باقی پورے قرآن میں کسبجہاں بھی آیا ہے اعمال کے لیے آیا ہے۔ کسب حسنات نیکیاں کمانا ہے اور کسب سیئات بدیاں کمانا۔ آپ اس آیت کے الفاظ پر دوبارہ غور کیجیے : (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط) مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا ‘ اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا “۔ تو کیا ایک عورت کی تنخواہ اگر دس ہزار ہے تو اسے اس میں سے پانچ ہزار ملیں گے ؟ نہیں ‘ بلکہ اسے پوری تنخواہ ملے گی۔ لہٰذا اس آیت میں کسبکا اطلاق دنیوی کمائی پر نہیں کیا جاسکتا۔ ایک خاتون کوئی کام کرتی ہے یا کہیں ملازمت کرتی ہے تو اگر اس میں کوئی حرام پہلو نہیں ہے ‘ شریفانہ جاب ہے ‘ اور وہ ستر و حجاب کے آداب بھی ملحوظ رکھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو بھی کمائی ہوگی وہ پوری اس کی ہوگی ‘ اس میں اس کا حصہ تو نہیں ہوگا۔ البتہ یہ اسلوب جزائے اعمال کے لیے آتا ہے کہ انہیں ان کی کمائی میں سے حصہ ملے گا۔ اس لیے کہ اعمال کے مختلف مراتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس عمل میں خلوص نیت کتنا تھا اور آداب کتنے ملحوظ رکھے گئے۔ ہم سورة البقرۃ میں حج کے ذکر میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ (اُولٰٓءِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ط) (آیت ٢٠٢) یعنی جو انہوں نے کمایا ہوگا اس میں سے انہیں حصہ ملے گا۔ اسی طرح یہاں پر بھی اکتساب سے مراد اچھے یا برے اعمال کمانا ہے۔ یعنی اخلاقی سطح پر اور انسانی عزت و تکریم کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں ‘ لیکن معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو تقسیم کار رکھی ہے اس کے اعتبار سے فرق ہے۔ اب اگر عورت اس فرق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو ‘ مفاہمت پر رضامند نہ ہو ‘ اور وہ اس پر کڑھتی رہے اور مرد کے بالکل برابر ہونے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔ ُ (وَسْءََلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط) ۔ یعنی جو فضیلت اللہ نے دوسروں کو دے رکھی ہے اس کی تمنا نہ کرو ‘ البتہ اس سے فضل کی دعا کرو کہ اے اللہ ! تو نے اس معاملے میں مجھے کمتر رکھا ہے ‘ تو مجھے دوسرے معاملات کے اندر ہمت دے کہ میں ترقی کروں۔ اللہ تعالیٰ جس پہلو سے مناسب سمجھے گا اپنا فضل تمہیں عطا فرما دے گا۔ وہ بہت سے لوگوں کو کسی اور پہلو سے نمایاں کردیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. This verse embodies a very important directive. By heeding it, man would be able to achieve a great measure of peace and tranquillity. God has not created all men alike. Some are handsome while others are ugly. The voices of some are sweet and those of others repulsive. Some are physically strong others are weak. Some have sound limbs others have inherent deformities. Some possess outstanding physical and mental abilities while others lack them. Some are born in favourable circumstances and others not. Some have been endowed with more resources than others. It is this diversity which gives variety to human civilization, and hence serves a useful purpose. Whenever man superimposes distinctions of his own over and above this natural inequality he disrupts the natural order of things, and paves the way for corruption. Likewise, when anyone attempts to obliterate all differences between human beings he in fact engages in a war against nature and inflicts wrongs of another kind. Man is naturally inclined to feel uneasy whenever he sees someone else ahead of him. This is the root of jealousy and envy, of cut-throat competition and animosity, of mutual strife and conflict. These feelings often obsess a person to such a degree that whenever fair means do not prove effective, he resorts to unfair means to achieve his ambitions. In the present verse, God directs us not to allow this kind of mentality to take hold of us. The import of the directive is that one should not yearn for the good that God has bestowed on others. One should rather pray to God to bestow upon one the good which is in one's best interests according to God's wisdom and knowledge. The statement that 'men shall have a share according to what they have earned and women shall have a share according to what they have earned' seems to mean, to the best of my understanding, that men and women shall have their shares of good and evil, depending on the good and evil they have earned in using the resources bestowed upon them by God.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :54 اس آیت میں بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں ۔ کوئی خوبصورت ہے اور کوئی بد صورت ۔ کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز ۔ کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور ۔ کوئی سلیم الاعضا ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے ۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی قوت زیادہ دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت ۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا ہے اور کسی کو بدتر حالات میں ۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے ہیں اور کسی کو کم ۔ اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدن کی ساری گونا گونی قائم ہے اور یہ عین مقتضائے حکمت ہے ۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مصنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کرتا ہے وہاں ایک نوعیت کا فساد رونما ہوتاہے ، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لیےفطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک دوسری نوعیت کا فساد برپا ہوتا ہے ۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے ، یہی اجتماعی زندگی میں رشک ، حسد ، رقابت ، عداوت ، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اتر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے ۔ اس کے ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دوسروں کو دیا ہو اس کی تمنا نہ کرو ، البتہ اللہ سے فضل کی دعا کرو ، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب سمجھے گا عطا فرما دے گا ۔ اور یہ جو فرمایا کہ ” مردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ“ ، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کر کے جو جتنی اور جیسی برائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق ، یا بالفاظ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصہ پائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: بعض خواتین نے اس تمنا کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ مرد ہوتیں تو وہ بھی جہاد وغیرہ میں حصہ لے کر مزید ثواب حاصل کرتیں، اس آیت کریمہ نے یہ اصول واضح فرمادیا کہ جو باتیں انسان کے اختیار سے باہر ہیں ان میں اللہ نے کسی شخص کو کسی اعتبار سے فوقیت دے رکھی ہے اور کسی کو کسی اور حیثیت سے، مثلاً کوئی مرد ہے کوئی عورت، کوئی زیادہ طاقت ور ہے کوئی کم، کسی کا حسن دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہے یہ چیزیں چونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہیں اس لئے ان کی تمنا کرنے سے فضول حسرت ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے، البتہ جو اچھائیاں انسان کے اختیار میں ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی نتیجہ ظاہر ہوتا ہے، اس میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

ترمذی مستدر حاکم وغیرہ میں مجاہد کی روایت سے اس آیت کی شان نزول جو اوپر بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بعض عورتوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں حسد کے طور پر یہ کہا تھا کہ مرد جہاد میں جاتے ہیں اس لئے ان کو لوٹ کے مال میں سے حصہ ملتا ہے اور جہاد کا ثواب بھی پاتے ہیں اور میراث میں بھی مردوں کا دوہرا حصہ ہے۔ عورتیں بڑے ٹوٹے میں ہیں ان کہ ان باتوں سے محروم ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ اور فرمایا دیا کہ اللہ عالم الغیب ہے اس کو عورت مرد سب کی دین و دنیا کی ہر طرح کی مصلحتیں خوب معلوم ہیں اس نے دنیا کا ایک انتظام ہر ایک کی مصلحت کے موافق کیا ہے جو کسی کے حسد سے پلٹ نہیں سکتا اس لئے بجائے ان حسد کی باتوں کے اللہ کے فضل اور مہربانی کی دعا کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ ایسا مالک ہے کہ دنیا میں گھر بیٹھے جس کو چاہیے مالا مال کردے اور عقبیٰ میں جس کو چاہے تھوڑے سے عمل کا بہت ثواب عطا فرما دے اس کی بارگاہ میں خلوص نیت پر اجر ہے مرد عورت کی اس میں کچھ خصوصیت نہیں پھر حسد کا کیا موقع ہے۔ صحیحین وغیرہ میں عبد اللہ بن مسعود (رض) کی جو حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حسد دو شخصوں کی حالت پر جائز ہے ایک وہ جس کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ شخص اس کو نیک راہ میں بےدریغ خرچ کرے دوسرا وہ شخص جسے اللہ علم عطا فرمائے اور وہ اس علم سے خلق اللہ کو فائدہ پہنچائے ٢ اس حدیث اور آیت میں کچھ مخالفت نہیں ہے کیونکہ حسد کا لفظ دو موقع پر بولا جاتا ہے ایک تو دو سے شخص کی برتر حالت پر جلنا اور اپنے سوا دوسرے کو اس حالت پر نہ دیکھ سکنا۔ اس طرح کا حسد حرام ہے اور آیت میں اسی کا ذکر ہے۔ دوسرا موقع حسد کے استعمال کا یہ ہے کہ دوسرے شخص کی حلت اپنے سے بالا تر دیکھ کر کوئی شخص خدا تعالیٰ سے یہ التجا کرے کہ یا اللہ تو مجھ کو بھی اپنے فضل سے اس بالاتر حالت کے زائل ہوجانے کا کچھ خیال نہ ہو اس کو غبطہ کہتے ہیں حدیث میں اسی کا ذکر ہے اور اکثر سلف کا یہی قول ہے کہ غبطہ جائز ہے اوپر شان نزول کی جو مجاہد کی روایت بیان کی گئی ہے اگرچہ ترمذی نے اس کو مرسل کہا ہے۔ لیکن اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ تفسیر کے باب میں مجاہد کی کل روایتیں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے واسطے سے ہوا کرتی ہیں اور جس مرسل میں واسطہ معلوم ہوجائے تو اس کا حکم مرفوع ہے اسی واسطے امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں قال مجاہد، قال مجاہد کہہ کر مجاہد کے اس طرح کے بہت سے قول لئے ہیں غرض کہ یہ شان نزول صحیح ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:32) ولا تتمنوا۔ مضارع نہی۔ جمع مذکر حاضر۔ تمنی (باب تفعل) سے اصل میں تتمنون تھا۔ لاء نہی (جازم فعل) کی وجہ سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔ تم آرزو مت کرو۔ تم ہوس نہ کرو۔ تمنی کا بیشتر استعمال کسی بےحقیقت چیز کے تصور کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ التمنی عبارۃ عن ارادۃ مایعلم او یظن انہ لایکون (رازی۔ روح البیان) تمنی وہ ارادہ ہے جو متمنی جانتا ہے کہ پورا نہیں ہوسکتا۔ یہ اس لئے کہ حقیقت کی دنیا میں یہ اس کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے ورنہ جہاں تک اس کی اپنی ہمت اور کوشش کا تعلق ہے وہ اسی آیت میں فرما دیا کہ : للرجال نصیب مما اکتسبوا۔ مردوں کے نصیب میں وہی ہے جو انہوں نے کمایا۔ یعنی جو جتنی محنت کرے گا اتنا ہی پھل پائے گا۔ واسئلوا اللہ من فضلہ۔ واؤ کا عطف ولا تتمنوا پر ہے یعنی بےکار ہوس نہ کرو بلکہ وہی چیز اللہ سے طلب کرو۔ لاتتمنوا ما للناس واسئلوا اللہ من خزائنہ۔ جو چیز لوگوں کو دی گئی ہے اس کی تمنا مت کرو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کے خزانوں سے ویسی نعمت کی طلب کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی یہ نہ کہو کہ کاش یہ درجہ یا مال مجھے مل جائے یہ حسد ہے اور احادیث میں اس کی مذمت آئی ہے حضرت ام سلمہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ مرد لوگ جہاد کرتے ہیں اور شہادت کے مراتب حاصل کرلیتے ہیں اور ہم اس سے محروم ہیں۔ اس پر یہ ّ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب نیک اعمال سے ہے مرد کو محض مرد ہونے کی وجہ سے خورت پر عمل میں فضیلت نہیں ہے اور عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے نیک عمل کے ثواب سے محروم نہیں تم بجائے کہ حسد کے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل چاہا کرو۔ (ابن کثیر۔ معالم )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیت نمبر 32 تا 33: ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ۔۔۔ ان اللہ کان علی کل شیء شہیدا۔ حسد ، قناعت اور رشک : اور جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی خواہش ہی نہ کرو یعنی ان امور میں جن میں انسان کو اختیار نہیں خواہ مخواہ دخل نہ دو مثلاً عورت مرد بننے کی خواہش لے بیٹھے جسے مساوات کے نام پر اچھالا جا رہا ہے یا کسی کا اعلی خاندان میں ہونا یا حسین ہونا وگیرہ اگر ایسی کوشش کی گئی تو سوائے حسد کے کچھ حاصل نہ ہوگا ، دنیا کا آرام تو گیا ہی تھا ساتھ آخرت بھی ضائع ہوگی اس لیے مردوں کو اپنے کیے کا اجر ملے گا جو فرائض بحیثیت مرد ان کے ذمے تھے انہوں نے کس درجے میں ادا کیے اور عورتوں کو اپنے اعمال کی جزا ملے گی حساب دونوں کا اللہ ہی کے رو برو ہوگا تو مساوات اسلامی یہ ہے کہ ہر حق دار کو وہ حق جو اللہ نے دیا ہے بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچے اور ہر شخص بلاتمیز مرد و زن اپنا فرض حسن و خوبی سے ادا کرے یہ ان لوگوں کے لیے وجہ جواز نہیں جو کاہلی کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتے اور الزام تقدیر پہ دھرتے ہیں جیسے حصول علم محنت و مشقت کاروبار وغیرہ میں ترقی یعنی امور اختیاریہ مسابقت ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش مستحسن ہے مگر اس صورت میں کہ محنت کرکے آدمی اس جیسا یا اس سے بھی اچھا بن جائے نہ یہ کہ دوسرے کی نعمت کے زوال کی کوشش کرے یہ تو ظلم ہوگا ہاں اللہ نے جس حیثیت میں یعنی مرد یا عورت یا معاشرتی حیثیت میں پیدا فرمایا ہے اس میں فرائض ادا کرکے سبقت حاصل کرے ان امور میں جو انسان کے بس میں نہیں مداخلت کی کوشش خود اپنی اور اپنے ساتھ معاشرے کی خرابی کا سبب بنے گی اس لیے اپنی حدود کے اندر رہ کر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم مانگتے رہو۔ اور جو والدین یا دوسرے چھوڑ کر مریں انہیں حقداروں میں تقسیم کردو بالکل اسی طرح جس اللہ نے سب کے حصے مقرر کردئیے ہیں یہ سب اللہ کریم کی طرف سے ہے جو تمہاری بہتری کو تم سے زیادہ جانتا بھی ہے اور تم پر بہت زیادہ مہربان بھی ہے خود انسان کو اپنے اعمال اور ان کے نتائج کی کیا خبر سو اللہ نے ازراہ کرم تمہارے حقوق و فرائض اس حسن و خوبی سے مقرر فرمادئیے ہیں کہ مرد ہو یا عورت ان احکام پر عمل کرکے عظمت انسانی سے بہرہ ور ہوسکتا ہے جو مقصد حیات ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 32-33 لغات القرآن : لاتتمنوا، تم تمنا نہ کرو۔ اکتسبوا، انہوں نے کمایا۔ اکتسبن، جو عورتوں نے کمایا۔ اسئلوا، سوال کرو۔ موالی، والی، وارث۔ عقدت، باندھ لیا۔ تشریح : دنیا میں ہر جرم کی جڑ غصہ، انتقام ، حرص، ہوس، رشک، حسد ہے۔ یہاں خاص طور پر حرص، ہوس، رشک اور حسد سے بحث ہے۔ نعمتوں کی دو قسمیں ہیں۔ قدرتی اور اختیاری۔ قدرتی چیزوں کی تمنا اور اس کے لئے دل کو خلجان میں مبتلا کرنا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے کسی کو دولت دی ہے، کسی کو اقتدار دیا ہے، کسی کو حسن یا اچھی صورت شکل یا آواز بخشی ہے۔ دنیا کی یہ تمام رونقیں اور قدروقیمت ان قدرتی نعمتوں کی زیادتی اور کمی سے ہیں۔ اس لئے فرمایا قناعت کرو۔ صبر کرو، زیادہ کی تمنا اور ہوس کے پیچھے مت بھاگو، چوری نہ کرو، ڈاکہ نہ ڈالو، غبن خیانت ظلم دھوکا حرام ہے اس سے بچو۔ عورت، دولت، کرسی، تخت و تاج کے پیچھے جو اتنے جرائم ہوتے چلے جا رہے ہیں وہ سب اسی قناعت کی کمی اور حرص کی زیادتی کی وجہ سے ہیں۔ اب رہیں اختیاری نعمتیں مثلاً علم، معاش، عقل، مکان، نیکی ، تقوی، سچائی وغیرہ تو حکم ہے کہ حرص اور حسد سے بچتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اور خوب سے خوب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ مرد جو کمائیں وہ ان کو مبارک ، عورتیں جو کمائیں وہ ان کو مبارک کسی کی محنت اور کوشش اپنی جگہ ہے لیکن جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کے فضل و کرم سے ملتا ہے۔ فرمایا تم محنت کرو، کوشش کرو لیکن دینے والے سے اس کے فضل وکرم کی دعائیں بھی مانگتے رہو۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کو کتنا ملنا چاہئے اور کب ۔ تمہیں بہرحال راضی بہ قضا اور شاکر و صابر رہنا ہے۔ یہ جو مرد اور عورت کے الفاظ اس آیت میں آئے ہیں اس کے چند معنی بنتے ہیں۔ اول، عورت کو حلال مال کمانے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ترغیب دی گئی ہے۔ ان دنوں عرب میں اور آج بھی بہت سے سماج میں عورتوں پر خواہ مخواہ اتنی پابندیاں ہیں کہ وہ کسب معاش کے لئے کوئی کام نہیں کرسکتیں اور مردوں کی دست نگر ہیں۔ لیکن اگر وہ شریعت کی پابندی سے کسب معاش کرسکتی ہوں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ انہیں ترکہ اور مہر ملتا ہے۔ یہ بھی کمانے میں شمار ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کمانے کی زیادہ آزادی اور زیادہ مواقع مرد کو حاصل ہیں لیکن اصلی چیز دنیا کمانا نہیں ہے بلکہ آخرت کمانا ہے اور اس کا موقع عورت کو ہر طرح حاصل ہے۔ یہ اللہ کی مصلحت ہے کسی کو مرد بنا دیا کسی کو عورت۔ میراث کے متعلق پھر ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تمام قاعدے قوانین مقرر کر دئیے گئے ہیں جو رشتہ میں جتنا قریب ہوگا اتنا ہی ترکہ پائے گا البتہ بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ اب رہے منہ بولے رشتہ دار ، تو جس سے جتنا وعدہ ہے اتنا دے دیا جائے۔ منہ بولے رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ نہیں۔ ہاں مرنے والے کو وصیت کا حق ہے اور وہ بھی صرف تہائی مال میں وصیت کرسکتا ہے۔ اس سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ جیسے مرد ہونا۔ یا مردوں کا دونا حصہ ہونا یا ان کی شہادت کا کامل ہونا وغیرہ ذالک۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القران ربط کلام : جس طرح بڑے گناہ آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں اسی طرح حسد بھی آدمی کے اعمال کو ضائع کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار اور دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے لوگوں کے درمیان تفاوت اور اونچ نیچ رکھی ہے تاکہ انسان ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کرکے باہمی تعاون اور احترام کریں۔ جس کو نعمت میسر آئی ہے وہ شکر ادا کرے اور جسے محروم رکھا گیا ہے وہ صبر کرے۔ چھوٹے بڑے کا فرق عام انسانوں کے علاوہ بسا اوقات ایک باپ کی اولاد میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک خوبصورت دوسرا عام صورت ہے ‘ ایک تنو مند اور طویل قدوقامت لیے ہوئے، جبکہ دوسرا پست قد اور ناتواں جسم کا مالک ہے ‘ ایک معمولی محنت کے بعد دولت میں کھیل رہا ہے دوسرا سخت مشقت اٹھانے کے باوجود غربت کے تھپیڑے کھا رہا ہے ‘ ایک دانا دوسرا نادان ہے۔ اس فطری تفاوت کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جلنے اور حسد کرنے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سمجھ کر قبول کرو۔ یاد رکھو کہ تمہارے رب کے نزدیک طاقت ور اور کمزور، گورے اور کالے، غریب اور امیر، شاہ اور گدا، عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی بارگاہ میں چہرے نہیں دل دیکھے جاتے ہیں۔ نعرے نہیں آدمی کا کردار دیکھا جاتا ہے۔ اسی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں بیان فرمایا : (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ ! أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” اے لوگو ! خبردار یقینًا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے خبردار ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر سوائے تقویٰ کے کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غریبوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : (یَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِیْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِھِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ وَّھُوَ خَمْسُ ماءَۃِ عَامٍ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد، باب ماجاء أن فقراء المھاجرین یدخلون الجنۃ قبل أغنیاءھم ] ” غریب مسلمان امیر لوگوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ “ لہٰذا قدرت کے فرق کو مٹانے یا حسد کے ساتھ آگے بڑھنے میں اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو۔ بلکہ اپنے آپ کو سنوارنے اور آخرت بنانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے طلب گار اور اس کا قرب تلاش کرنے والے ہوجاؤ۔ اس کے خزانے لامحدود، اس کی رحمت بےکراں اور اس کا فضل بےحد و حساب ہے۔ وہاں مرد وزن میں فرق کیے بغیر ہر کسی کے اعمال اور اس کی نیت و کردار کے مطابق اجر دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ وَلَاتَحَسَّسُوْا وَلَاتَجَسَّسُوْا وَلَاتَدَابَرُوْا وَلَاتَبَاغَضُوْا وَکُوْنُوْا عِبَاد اللّٰہِ إِخْوَانًا) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ بدگمانیوں سے بچو کیونکہ گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو اور نہ ہی آپس میں بغض رکھو اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کے حصّے مقرر فرما دیے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن فضل کا معنٰی و مفہوم : ١۔ فضل سے مراد مال۔ (البقرۃ : ١٩٨) ٢۔ فضل سے مراد احسان کرنا۔ (البقرۃ : ٦٤) ٣۔ فضل سے مراد فضیلت۔ (النساء : ٧٠) ٤۔ فضل سے مراد مال غنیمت۔ (النساء : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنسآء نصیب مما اکتسبن واسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شیء علیما (٣٢) ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدن والا قربون والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا (٣٣) (٤ : ٣٢۔ ٣٣) ” اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی نسبت تمنا نہ کرو ‘ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ‘ اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو ‘ یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ اور ہم نے ہر اس ترکے کے حقدار مقرر کردیئے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں ‘ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو ‘ یقینا اللہ ہر چیز پر نگران ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو جو فضیلت دی ہے اس کی تمنا کرنے سے اہل اسلام کو منع کیا گیا ہے اور یہ نص اس بارے میں عام ہے کہ یہ فضیلت کیسی بھی ہو ۔ مثلا عہدہ و مرتبہ میں فضیلت ‘ صلاحیت و قابلیت میں فضیلت ‘ مال واسباب میں فضیلت ‘ غرض اس زندگی میں نصیبہ کے اعتبار سے جو بھی فرق و امتیاز موجود ہو ‘ اس بارے میں دوسروں کے مقابلے میں تمنائیں نہیں کرنی چاہئیں ۔ جو کچھ مانگنا ہے ‘ اللہ سے مانگا جائے اور ہر امر کی طلب براہ راست اللہ سے ہونی چاہئے اور یہ نہ ہونا چاہئے کہ دوسروں کی فضیلتون پر خواہ مخواہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر دل کی حسرتوں کی آماجگاہ بنا لے ‘ اور اس کے بعد اس غلط تمنا کے ساتھ حسد وکینہ اور بغض وانتقام کے برے جذبات اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ انسانوں پر حملہ آور ہوں ‘ یا ان کے اندر محرومیت ‘ ہلاکت اور تباہی کے جذبات اور مہلک احسانات پیدا ہوں ۔ ان جذبات کے بعد پھر ہر کسی کے خلاف بدظنی پیدا ہو ‘ اور پھر خدا اور مخلوق دونوں سے یہ شکایت پیدا ہو کہ انہیں کم دیا گیا ہے ۔ یہ صورت حال اس قدر تباہ کن ہوگی کہ معاشرے میں امن و سکون کا نام ونشان نہ رہے گا ‘ ہر شخص ذہنی پریشانی اور قلق کا شکار ہوگا ‘ انسانی قوتیں غلط رجحانات اور بدی کی راہوں میں صرف ہو کر ضائع ہوں گی جبکہ اس کے مقابلے میں یہ رجحان کہ سب کچھ عطا کرنے والا اللہ ہے ‘ وہی فضل وکرم اور داد ودہش کا منبع ہے کیا خوب ہے ۔ اور یہ عقیدہ کہ عطا اور داد ودہش سے اس کے خزانوں میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی ، اور اس کی درگاہ اس قدر وسیع ہے کہ اگر تمام کائنات کے سوالی اس پر اژدہام کرلیں تب بھی اس میں تنگی نہیں آتی ‘ امن و اطمینان بھی اس کی درگاہ سے ملتا ہے ‘ امید وآسرا بھی وہیں سے دستیاب ہے ۔ اسباب کی تلاش اور جدوجہد میں وہی مثبت راہ بتلاتا ہے ‘ جس راستے میں ایک دوسرے کے خلاف عداوت ‘ جلن ‘ اختلاف اور دشمنی بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ ایک عام ہدایت دیتے ہوئے یہ آیت اپنے مفہوم میں عام ہے لیکن سیاق کلام میں اس کا مفہوم خاص ہوجاتا ہے اور اس کے اسباب نزول کے سلسلے میں بعض روایات بھی وارد ہیں جن کی وجہ سے آیت کا مفہوم عموم کسی قدر خاص ہو کر اس میں فرق آجاتا ہے اور بعض امور کی فضیلت متعین ہوجاتی ہے ۔ یہ آیت انہیں امور کو متعین کرتی ہے ۔ مثلا مردوں اور عورتوں کے حصے میں فرق ہے ۔ مردوں کا حصہ میراث میں زیادہ متعین ہوا ہے ‘ جس کا اظہار اس آیت سے بھی ہوتا ہے اور سیاق کلام سے بھی ہوتا ہے اور سیاق کلام سے بھی ہوتا ہے ۔ لیکن یہ پہلو یعنی بعض امور میں مرد وزن کے درمیان مقام و مرتبہ میں خصوصی تفاوت اس آیت کی عمومیت پر اثر انداز نہیں ہوتی اس لئے کہ مرد و زن کے تعلقات کی درستی اور ان کے درمیان باہم مکمل تعاون اور تکافل اور اسلامی معاشرے میں ایک خاندان کی تشکیل اور افراد معاشرہ کی باہم رضا مندی اور پورے معاشرے کی درمیان نظم کے قیام کے لئے اس تفاوت کی بڑی اہمیت ہے ۔ اس لئے کہ اس تفاوت اور فرق مراتب کی وجہ سے فریقین کے فرائض اور ذمہ داریاں متعین ہوجاتی ہیں لیکن اس خصوصی تفاوت کے باوجود آیت کی عمومیت متاثر نہیں ہوتی ‘ اس لئے روایات میں جو خاص اسباب نزول بیان ہوئے ہیں وہ آیت کے عمومی مفہوم کو متاثر نہیں کرتے ۔ امام احمد نے سفیان ‘ ابو نجیح ‘ مجاہد کی سند کے ساتھ حضرت ام سلمہ (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ ام سلمہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ عرض کی کہ حضور ! مرد جہاد کرتے ہیں لیکن ہم عورتیں جہاد میں شریک نہیں ہوتیں ‘ اور میراث میں بھی ہمارا حصہ نصف ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” اور جو اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو ۔ “ امام ابو حاتم ‘ ابن جریر ‘ ابن مردویہ اور حاکم نے مستدرک میں امام ثوری کی حدیث بروایت ابن جیح ‘ مجاہد حضرت ام سلمہ (رض) سے یوں روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم عورتیں جنگ میں حصہ نہیں لیتیں تاکہ ہم شہید ہوں اور میراث میں بھی ہمارا پورا حصہ نہیں ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر اواثنی) ” میں تم میں کسی کام کرنے والے کے کام کو ضائع نہیں کرتا ‘ مرد ہو یا عورت۔ “ حضرت سدی اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارے لئے عورتوں کے ثواب کے مقابلے میں دوگنا ثواب ہونا چاہئے اس لئے کہ ازروئے فطرت ہم جنگ نہیں لڑ سکتیں لیکن اگر اللہ نے ہم پر جہاد فرض کیا ہوتا تو ہم جنگ میں حصہ لیتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان خیالات کی تردید فرمائی اور حکم دیا کہ وہ میرے فضل کے بارے میں دعا کریں ‘ اور یہ فضل دنیا جیسا عارضی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ایسی ہی روایت قتادہ سے بھی مروی ہے ۔ بعض دوسری روایات بھی ہیں جو اس آیت کے مفہوم کی عمومیت کو ظاہر کرتی ہیں ۔ علی ابن ابو طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے فرمایا : ” کوئی شخص یہ تمنا نہ کرے کہ فلاں شخص کا مال اور اس کی عورت اسے ملیں ۔ اللہ نے اس سے منع کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کے فضل کے طلبگار ہوں ۔ حسن ‘ محمد بن سیرین ‘ عطاء اور ضحاک سے بھی ایسی ہی تفسیر مروی ہے ۔ مرد وزن کے درمیان زمانہ جاہلیت میں جو تعلقات پائے جاتے تھے ‘ ان کے حوالے سے دیکھا جائے تو محولہ بالا پہلے اقوال میں آثار جاہلیت کا پر تو نظر آتا ہے جبکہ دوسری جانب مرد وزن کے درمیان جذبہ مسابقت اور تنافس اس بات کا نتیجہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق عطا کئے اور جو آزادیاں عنایت کیں اس کے نتیجے میں اس قسم کے تنافس کا پیدا ہونا ایک قدری امر تھا ‘ اس لئے کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق عطا کئے وہ اصول کرامت انسانی اور ہر جنس اور ہر گروہ کے ساتھ منصفانہ سلوک پر مبنی تھے ۔ اور یہ منصفانہ رویہ ہر شخص کو یوں سکھایا گیا کہ اس نے خود اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرنا تھا ۔ اسلام کے اہداف یہ ہیں کہ وہ اپنے متکافل اور معاون نظام زندگی کو ۔۔۔۔۔۔۔ نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ اس کا مقصد نہ مردوں کی حمایت ہے اور نہ عورتوں کی حمایت کرنا ہے ۔ بلکہ اس کے پیش نظر انسان من حیث الانسان ہے ۔ اور اسلامی معاشرہ کی تخلیق ہے ۔ اسلام علی الاطلاق اور علی العموم انسانیت کی اصلاح اور بھلائی کے لئے کام کرتا ہے ۔ وہ اس دنیا میں عمومی اور بےقید عادلانہ نظام چاہتا ہے ‘ جو ہمہ جہت اور ہمہ پہلو عادلانہ اسباب پر مبنی ہو ۔ اسلامی نظام زندگی ‘ فرائض وواجبات کے تعین میں راہ فطرت پر چلتا ہے ۔ اسی طرح وہ مرد وزن کے حصہ رسدی کے تعین میں بھی دونوں کی فطری صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتا ہے ۔ اور فطرت نے ابتدائے تخلیق سے مرد کو مرد عورت کو عورت قرار دیا ۔ ان میں سے ہر ایک کے اندر متعین صلاحیتیں پیدا کیں ۔ اور ان خاص صلاحیتوں کے مطابق ان کے فرائض متعین کئے ۔ ان فرائض کے تعین میں کسی مخصوص مقصد کو سامنے نہیں رکھا گیا ‘ نہ کسی ایک جنس کو دوسری پر ترجیح دی گئی ہے ۔ بلکہ انسان کی پوری زندگی کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ جس کا قیام اور تنظیم اور جس کی خصوصیات کی تکمیل اور جس کے مقاصد کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے کہ مرد وزن کے درمیان فرق و امتیاز ہو ‘ اور یہ فرق و امتیاز ان دونوں کی خصوصیات اور صلاحیتوں اور فرائض وواجبات کے درمیان فرق و امتیاز کے مطابق ہو تاکہ وہ خلافت فی الارض اور اللہ کی بندگی کے اعلی مقاصد پورے کرسکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حیات انسانی کے عظیم ادارے کی تنظیم اور تکمیل کے لئے مرد و زن کے درمیان تنوع پیدا کیا ۔ ان کو مختلف صلاحیتیں دیں ۔ ان کے لئے مختلف فرائض منصبی مقرر کئے ۔ اور ان کے لئے مختلف حقوق متعین کئے اور جدا جدا دائرہ کار کا تعین کیا ۔ تاکہ کاروان زندگی صحیح سمت پر سفر جاری رکھ سکے ۔ انسان جب غیر جانبداری سے مکمل اسلامی نظام زندگی کا مطالعہ کرے ‘ خصوصا اس نظام میں مرد وزن کے باہمی تعلقات کی نوعیت کا گہرا جائزہ لے تو نہ اس نزاع کا کوئی موقعہ رہتا ہے جو قدیم روایات میں پایا جاتا ہے اور نہ ان جدید مجادلات اور نزاعات کی کوئی حقیقت رہتی ہے ‘ جو آج کل کے دور میں مردوں اور عورتوں کے درمیان بےفائدہ ہوجاتے ہیں اور جس کا شور وغوغا کبھی اس قدر بلند ہوجاتا ہے جس میں سنجیدہ مردوں اور عورتوں کی آواز دب کر رہ جاتی ہے ۔ یہ ایک عبث کوشش ہوگی کہ ہم صورت حال کی تصویر کشی یوں کریں کہ گویا مرد اور عورت کے درمیان ایک معرکہ کار زار گرم ہے ۔ اس میں ہر شخص اپنا اپنا موقف بیان کر رہا ہے ۔ ہر شخص جنگ کو جیتنے کی سعی میں لگا ہوا ہے ۔ کچھ سنجیدہ اہل قلم بھی بعض اوقات ایسا موقف اختیار کرتے ہیں کہ وہ عورت کی ذات میں نقائص نکالتے ہیں ‘ اس سے کمالات کی نفی کرتے ہیں اور اس کی طرف ہر عیب کی نسبت کرتے ہیں ۔ یہ کام وہ علمی بحث و مباحثہ کے طور پر کریں یا اسلامی نقطہ نظر سے کریں ۔ دونوں صورتیں حقیقت نفس الامری سے دور ہیں ۔ مسئلہ دراصل دونوں فریقوں کے درمیان معرکہ آرائی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ دونوں اصناف کی نوعیت اور تقسیم کار کا ہے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ تکافل اور تعاون کا ہے اور اسلامی نظام زندگی کے مطابق ان کے درمیان قیام عدل کا ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ جاہلی معاشروں کے اندر مرد وزن کے درمیان کوئی معرکہ آرائی ہو ۔ اس لئے کہ جاہلی معاشرت اپنے لئے نظام حیات از خود تجویز کرتے ہیں ۔ ان جاہلی معاشروں کا نظام خالص ذاتی اور نبوی اغراض ومقاصد پر مبنی ہوتا ہے یا ان نظاموں میں بعض غالب طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہوتا ہے یا بعض خاندانوں اور بعض افراد کے مفادات کی حفاظت مطلوب ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان جاہلی نظاموں میں انسان کی اصلیت اور جاہلیت کی نسبت جہالت کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کو غصب کیا گیا ہوتا ہے یا ان میں مرد و زن کے فرائض طبیعی کو نظر انداز کرکے ان کے حقوق وفرائض متعین کئے ہوتے ہیں یا ان میں کام کرنے والی عورت کے حقوق اس ہی جیسے کام کرنے والے مرد کے حقوق کے مقابلے میں کم رکھے گئے ہوتے ہیں ۔ اور یہ کمی محض اقتصادی وجوہات سے ہوتی ہے یا مثلا تقسیم میراث کے میدان اور مالی تصرفات کے شعبے میں عورتوں کے حقوق کم رکھے گئے ہوتے ہیں جس طرح جدید جاہلی معاشروں میں بھی صورت حال ایسی ہی ہے ۔ رہا اسلامی نظام زندگی تو اس میں کہیں بھی ایسی صورت حال نہیں ہے ۔ اس میں اولا مرد وزن کے درمیان کوئی معرکہ برپا نہیں ہوتا ۔ اس میں دنیاوی مفادات کی بنا پر ایک دوسرے کے مقابلے میں کوئی دشمنی نہیں ہوتی ۔ اس میں نہ مرد عورت کے مفادات پر حملہ آور ہو کر اسے لوٹتا ہے اور نہ عورت مرد کے مفادات پر حملہ آور ہو کر اسے لوٹتی ہے ۔ نہ وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور انہیں اجاگر کرتے ہیں ۔ اسلامی نظام میں اس قسم کے افکار کی بھی گنجائش نہیں ہے ۔ مرد وزن کے درمیان طبیعی خصائص میں اس بین فرق و امتیاز کے باوجود مرد وزن کے درمیان فرائض اور واجبات کا کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہ ان فرائض واجبات وجہ سے مرد وزن کے منصب اور حیثیت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ اس قسم کے افکار غلط فہمی پر مبنی ہیں ‘ اور اپنی جگہ از کار رفتہ بھی ہیں ۔ اسلامی نظام کے بارے میں یہ افکار جہالت پر مبنی ہیں ‘ اور مرد وزن کی فطری ساخت اور طبیعی وظائف کے بارے میں گہری لاعلمی کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ۔ ذرا جہاد کے معاملے پر غور فرمائیے ! جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ ‘ اس میں عورت کی شرکت اور حصول ثواب کے مسائل کے معاملے میں دور اول کی صالح عورتوں کے دل میں تشویش تھی ۔ ان صالح عورتوں کی تشویش کا تعلق صرف آخروی نقطہ نظر سے تھا ۔ اس کا تعلق اس دنیا میں حیثیت یا برتری سے ہر گز نہ تھا ۔ بعض اوقات اس فرق و امتیاز کا تعلق دنیاوی امور سے بھی تھا مثلا وراثت میں مرد کا حصہ عورت کے مقابلے میں زیادہ رکھا گیا تھا ‘ زمانہ قدیم سے مردوں اور عورتوں کے دلوں میں اس امتیاز کے بارے میں تشویش تھی ۔ آج کے دور جدید میں بھی یہ اور اس قسم کے دوسرے مسائل دلوں میں کھٹکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فعل جہاد نہ عورت پر فرض کیا ہے اور نہ ہی اس کے لئے جہاد میں شرکت کو حرام قرار دیا ہے ۔ نیز اگر فریضہ جہاد میں عورت کی ضرورت ہو اور مرد آبادی اس کے لئے کفایت نہ کرتی ہو تو عورت کو اس سے منع بھی نہیں کیا گیا ۔ نیز تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض عورتیں جہاد میں شریک بھی ہوئیں ۔ انہوں نے تیمار داری اور باربرداری کے علاوہ جہاد میں بھی حصہ لیا لیکن ایسے واقعات قلیل اور نادر ہیں اور انتہائی ضرورت کے اوقات میں پیش آئے ، عمومی اصول اور معمول یہ نہ تھا ۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں پر جہاد فرض قرار دیا ‘ اس طرح عورتوں پر اسے فرض نہیں کیا گیا ۔ عورتوں پر جہاد اس لئے نہیں فرض کیا گیا کہ وہ مجاہدین کو پیدا کرنے کا ذریعہ (Producer) ہیں ۔ عورت کی تخلیق ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مردوں کو پیدا کرے ۔ اس کی عضویاتی ساخت اور نفسیاتی میلان ہی اس طرف ہے کہ وہ مجاہدین پیدا کرے اور انہیں جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار کرے ‘ انہیں اچھی زندگی بسر کرنے کے لئے تیار کرے۔ اس میدان میں عورت زیادہ قوت اور خوش اسلوبی سے کام کرسکتی ہے کہ اس کی عضویاتی اور نفسیاتی تشکیل ہی اس مقصد کے لئے ہوئی ہے ۔ یہ بات صرف عورت کی عضویاتی ساخت کی بنا پر ہی نہیں کہی جارہی بلکہ علی الخصوص اس کے اندرونی نظام میں خلیات کی پیوند کاری یعنی ۔ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے مرد ہے یا عورت ہے عورت پیدائش کے وقت سے ہی اس فریضہ کے لئے واحد ذمہ دار ہے ۔ (دیکھئے فصل المراۃ وعلاقہ الجنین ۔ جو کتاب الاسلام ومشکلات الحصارہ کا حصہ ہے) ظاہری اعظاء کے افعال تو بعد میں یکے بعد دیگرے کام کرتے ہیں اور اس عرصہ کے بعد عظیم نفسیاتی اثرات حاملہ عورت پر مرتب ہوتے ہیں لہذا اس کی جانب سے امت مسلمہ کے لئے جہاد میں شرک کے مقالبے میں یہ عظیم فریضہ سرانجام دینا زیادہ نفع بخش ہے ۔ اس لئے کہ جب جنگ کا طوفان بڑی تعداد میں مردون کو فنا کردیتا ہے تو عورت مزید آبادی کی پیداوار کے ذریعے کے طور پر اپنا فرض ادا کرتی ہے ۔ اور وہ مزید مرد پیدا کرکے خلا کو پر کرتی ہے ۔ لیکن اگر جنگ کا بھوت مرد اور عورت دونوں ہی کو کھالے یا وہ مردوں کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو اچک لے اور مردوں کو باقی رکھے تو یہ صورت باقی نہیں رہتی ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں اگر ایک مرد ہے اور وہ پوری رخصت کو کام میں لائے تو وہ بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرسکتا ہے ۔ اور بیک وقت وہ چار عورتیں آبادی میں اضافہ کرسکتی ہیں ۔ اور یوں وہ کمی پوری ہو سکتی ہے ۔ (اگرچہ ایک عرصہ بعد) جو جہاد و قتال کی وجہ سے واقع ہوا کرتی ہے ۔ لیکن اگر ایک ہزار افراد بھی ایک عورت کے ساتھ ہمبستری کریں تو بھی وہ عورت اسی مقدار میں بچے دے سکتی ہے جو ایک مرد کی ہمبستری سے دے سکتی ہے ۔ عورتوں کی کمی کی صورت میں آبادی کی کمی ہر گز پوری نہ ہو سکے گی ۔ اور یہ تو اللہ تعالیٰ کی بےپناہ حکمتوں میں سے ایک ہی نکتہ ہے جو اس حکم کی تہہ میں پوشیدہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو جہاد سے معاف رکھا ۔ اس حکم کے بیشمار منافع ہیں۔ مثلا اسلامی معاشرہ میں اخلاقی پاکیزگی کا اہتمام ‘ اسلامی معاشرے کے مزاج کو مدنظر رکھنا انسان کے دونوں اصناف کے لئے علیحدہ علیحدہ دائرہ کار کی نشاندہی وغیرہ جن کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس نکتے پر خاص اور طویل بحث کی ضرورت ہے ۔ (دیکھئے کتاب ” نحو مجتمع اسلامی “ کی فصل ” نظام عائلی “ ) رہا معاملہ اجر وثواب کا تو اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں کو اس کی پوری پوری یقین دہانی کرائی ہے ‘ بشرطیکہ وہ اپنے فرائض وواجبات کو خدا کوفی سے بحسن و خوبی سرانجام دیں اور ان میں وہ درجہ احسان تک پہنچ جائیں ۔ رہا مسئلہ حصص میراث کا تو بادی النظر میں ” مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہوگا “ کے اصول سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کو ترجیح دی گئی ہے ۔ لیکن مرد اور عورت کے پورے فرائض اور واجبات پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو بہت جلد اس رائے کی سطحیت آشکارا ہوجاتی ہے ۔ آمدن اور حصص کا تعین ذمہ داریوں کو دیکھ کر کیا گیا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کا یہ ایک مستقل اصول ہے کہ اس میں مفادات کا تعین ذمہ داریوں کی نسبت سے کیا جاتا ہے ۔ مرد پر یہ بات فرض کی گئی ہے کہ وہ عورت کو مہر ادا کرے جبکہ اگر کوئی امیر سے امیر عورت بھی ہو تو اس پر مرد کے لئے مہر واجب نہیں کیا گیا ۔ پھر مرد پر عورت اور اس کی اولاد دونوں کے اخراجات عائد کئے گئے ہیں جبکہ عورت پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی گئی اگرچہ وہ مالدار ہو ۔ مرد اگر ان فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو اسے سزائے قید دی جاسکتی ہے ۔ پھر مرد پر مختلف قسم کی دیات اور تاوان بھی عائد ہوتے ہیں (یعنی رخموں کے تاوان) اور یہ تاوان اسے اجتماعی طور پر خاندان کا فرد ہونے کی حیثیت سے ادا کرنے ہوتے ہیں جبکہ دیات اور ارش کے تاوانوں سے عورت کو معاف رکھا گیا ہے ۔ مرد پر اپنے خاندان کے ناداروں اور مساکین کا نفقہ بھی واجب ہے خواہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں بشرطیکہ ہو کمانے پر قادر نہ ہوں ۔ یہ فریضہ قریب سے قریب رشتہ داروں سے شروع ہوتا ہے اور عورت اس قسم کے عام خاندانی فرائض سے مستثنی ہے ۔ یہاں تک کہ جس خاوند سے اس کی اولاد پیدا ہوتی ہے ‘ اس کے ساتھ بھی اگر اس کا معاشی اشتراک نہ ہو یا طلاق ہوگئی ہو تو بچے کی پرورش کے انتظامات بھی اس مرد پر عائد ہوتے ہیں اور وہ خود اس عورت کے اخراجات کے ساتھ اسے ادا کرنے کا پابند ہے ۔ غرض اسلامی نظام ایک مکمل اور جامع نظام ہے اور اس میں تقسیم میراث کے وقت مرد و عورت کی مالی ذمہ داریوں کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شریعت نے ذمہ داریوں کا جو بھاری بوجھ مرد پر ڈالا ہے ‘ اس کی نسبت سے میراث میں مرد کا حصہ کوئی زیادہ نہیں ہے ۔ ان تمام امور میں مرد کی معاشی سرگرمیوں کی زیادہ قدرت اور مہارت کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ اور عورت کے زیادہ سے زیادہ آرام اور اطمینان کو پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ وہ دل جمعی کے ساتھ انسان کے قیمتی سرمائے یعنی بچوں کی نگہداشت کرسکے ‘ جو ہر قسم کے مال ‘ ہر قسم کے سازوسامان اور ہر قسم کی مفید عام ہنر مندی سے زیادہ قیمتی ہے ۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی ‘ جس کی تشکیل ایک حکیم وعلیم ذات نے فرمائی ہے ۔ اس میں وسیع توازن اور گہری حکمت پوشیدہ ہے اور اسلام نے اس آیت میں عورت کو انفرادی ملکیت کا حق ان الفاظ میں دیا ہے ۔ (آیت) ” للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن “۔ (٤ : ٣٢) ” جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ۔ “ ۔۔۔۔۔ اور یہ وہ حق ہے جو عربی جاہلیت تمام دوسری جاہلیتوں کی طرح ‘ عورت کو عطا کرنے میں ہمیشہ ہچکچاتی رہی ہے اور کبھی بھی عورت کے اس حق کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا ۔ شاذو نادر ہی کبھی عورت کو یہ حق دیا گیا اور آج بھی عورت کے اس حق کو مارنے کے حیلے کئے جاتے ہیں جبکہ خود عورت ذات کو اسی طرح وراثت میں پکڑا جاتا ہے اور میراث کی طرح تقسیم کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ حق ہے جو جاہلیت جدیدہ آج بھی عورت کو دینے میں ہچکچا رہی ہے ‘ حالانکہ اس کا دعوی یہ ہے کہ اس نے عورت کو وہ حقوق عطا کئے جو اس کو کبھی عطا نہ کئے گئے تھے ۔ جاہلیت جدیدہ میں بعض قوانین ایسے ہیں کہ سب سے بڑے مرد وارث کو تمام میراث کا حقدار سمجھتے ہیں اور بعض قوانین یہ لازم کرتے ہیں کہ عورت جو مالی معاہدہ بھی کرے اس کی منظوری ولی کی طرف سے از روئے قانون ضروری ہے ۔ اور یہ قوانین بیوی کی جانب سے خاص اپنی جائیداد کے بارے میں بھی کسی قسم کا تصرف صرف اس وقت جائز کرتے ہیں جب خاوند اس کی منظوری دے ۔ اور یہ ناقص حقوق جاہلیت جدیدہ نے اسے تب دئیے جب اس نے ان کے حصول کے لئے تحریکات چلائیں عظیم انقلابات برپا کئے اور اس کے نتجیے میں عورت کی زندگی کا نظم برباد ہوا ‘ خاندانی نظام ختم ہوگیا اور عام اخلاقی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی ۔ لیکن اسلام نے ابتداء ہی سے عورت کو یہ حقوق از خود دے دئیے بغیر اس کے کہ وہ ان کے حصول کے کوئی چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کرے ۔ قبل اس کے کہ وہ بغاوت پر اتر آئے قبل اس کے کہ وہ ان کے حصول کے لئے عورتوں کی تنظمیں قائم کرے اور قبل اس کے کہ وہ پارلیمنٹ کی ممبری تک پہنچ کر ان کا مطالبہ کرے ۔ یہ حقوق اسلام نے اسے محض انسانیت کے احترام میں عطاکئے یہ اسے محض اس لئے دیئے گئے کہ نفس انسانی کے دو اصناف ہیں مرد اور عورت اور اس لئے دیئے گئے کہ اسلام نے اپنے اجتماعی نظام کی اکائی ایک خاندان کو قرار دیا ہے ۔ اور اس خاندانی نظام کو باہم محبت ‘ باہم الفت کے ساتھ مرد و عورت کے درمیان مساوات کے اصول پر مربوط کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسب وکمائی اور ملکیت کے نقطہ نظر سے اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو از روئے اصول مکمل طور پر مساوی حقوق دیئے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالواحد وانی اپنی کتاب ” انسانی حقوق “ میں اسلام اور جدید مغربی ممالک میں عورت کے حقوق کے بارے میں تقابلی مطالعہ یوں پیش کرتے ہیں ” اسلام نے مرد اور عورت کو قانون کے نقطہ نظر سے مساوی حقوق دیئے ‘ اور تمام شہری حقوق میں مرد اور عورت کو برابر قرار دیا ‘ اور اس سلسلے میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے درمیان کوئی فرق امتیاز نہیں برتا گیا ۔ اسلام اور پوری مسیحی دنیا کے درمیان شادی کی نوعیت میں بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اسلامی قانون کے مطابق شادی کی وجہ سے نہ عورت کا نام ختم ہوتا ہے نہ اس کی شخصیت ختم ہوتی ہے ‘ نہ اس کے معاملات طے کرنے کی حیثیت میں کوئی فرق آتا ہے ‘ اور نہ اس کا حق ملکیت محدود ہوتا ہے بلکہ ایک مسلمان عورت کا شادی کے بعد نام بھی وہی رہتا ہے ‘ اس کی قانونی اور شہری حیثیت بھی اپنی جگہ بحال رہتی ہے اور تمام قانونی حقوق اسے حاصل رہتے ہیں ۔ اس پر وہ تمام ذمہ داریاں عائد رہتی ہیں جو پہلے اس پر عائد تھیں ۔ وہ اپنے معاملات میں ہر قسم کے فیصلے اور معاہدے کرسکتی ہے ۔ مثلا خرید وفروخت ‘ رہن ‘ ہبہ اور وصیت وغیرہ ۔ وہ جن چیزوں کی مالک ہوتی ہے ‘ نکاح کی وجہ سے اس کے حق ملکیت پر کوئی قید عائد نہیں ہوتی ۔ غرض اسلام میں شادی کے بعد بھی عورت کو مستقل قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وہ مستقل شخصیت کی مالک ہوتی ہے ‘ اس کی جائیداد اس کے شوہر کی جائیداد سے علیحدہ خود اس کی ملکیت ہوتی ہے ۔ خاوند کو کوئی قانونی اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر حاصل کرے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (آیت) ” وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احدھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا اتاخذونہ بھتانا واثما مبینا (٢٠) وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا “۔ (٢١) (٤ : ٢٠۔ ٢١) ” اور اگر تم بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ‘ اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ‘ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لوگے ؟ اور آخر تم اسے کس طرح لے لوگے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو ۔ اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔ “ اگر کسی خاوند کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی سے وہ دولت واپس لے جو اس نے خود اسے عطا کی تھی تو اس کے لئے خود اس عورت کی مملوکہ دولت کا ہڑپ کرلینا بطریق اولی جائز نہیں ہے الا یہ کہ یہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہو ‘ اور وہ کوئی چیز اپنی خوشی سے عطا کر رہی ہو اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے ۔ (آیت) ” واتوالنساء صدقتھن نحلۃ فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریئا (٤ : ٤) ” اور عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کرو ‘ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو “۔ اور مرد اپنی بیوی کی دولت میں کسی قسم کا تصرف بھی نہیں کرسکتا ‘ الا یہ کہ وہ اسے اس کی اجازت دے دے یا اس نے اپنے خاوند کو کسی قسم کے تصرف اور معاہدے کی اجازت دے دی ہو ۔ لیکن ایسے حالات میں بھی اس کو اجازت ہے کہ وہ اپنے دیئے ہوئے ان اختیارات کو واپس لے لے اور جس دوسرے شخص کو چاہے وہ اختیارات دے دے ۔ “ ” یہ وہ مقام بلند ہے جس تک عورت آج کے جدید دور جمہوریت میں ان ممالک میں بھی نہیں پہنچ سکی جو اس کرہ ارض پر انتہائی ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔ فرانس میں ماضی قریب تک عورتوں کی حالت یہ تھی کہ گویا وہ باندیاں لونڈیاں ہیں بلکہ ابھی تک یہ صورت حال موجود ہے ۔ قانون نے کئی شہری معاملات میں اس کے حقوق سلب کئے ہوئے ہیں ۔ مثلا فرانس کے سول کوڈ کی دفعہ ٢١٧ میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ ” شادی شدہ عورت ‘ چاہے نکاح کی شرائط میں یہ طے کردیا گیا ہو کہ عورت اور مرد کی ملکیت علیحدہ علیحدہ ہوگی اس کے باوجود وہ اپنی جائیداد ہبہ نہیں کرسکتی نہ اس کی ملکیت منتقل کرسکتی ہے ‘ نہ رہن کرسکتی ہے ‘ نہ وہ بالعوض یا بلاعوض تملیک کرسکتی ہے ‘ الا یہ کہ اس کا شوہر کسی معاہدے میں اس کے ساتھ شریک ہو ‘ یا یہ کہ وہ تحریری طور پر ان امور میں سے کسی امر کی اجازت دے دے ۔ “ ” بعد کے ادوار میں اس دفعہ میں متعدد ترمیمیں اور تبدیلیاں کی گئیں لیکن اس قانون کے کافی آثار ابھی تک باقی ہیں اور فرانسیسی عورت پر قانونی پابندی عائد کرتا ہے کہ عورت شادی ہوتے ہی اپنا اور اپنے خاندان کا نام کھو دیتی ہے ‘ اس کے بعد اس کا نام فلاں بنت فلاں نہیں لیا جاتا بلکہ اسے بیگم فلاں سے پکارا جاتا ہے یا اس کے نام کے ساتھ اس کے خاوند کا نام لگ جاتا ہے ۔ لیکن اس کے نام کے ساتھ اس کے باپ اور اس کے خاندان کا نام نہیں لیا جاتا ۔ اس طرح عورت کا نام ختم ہونے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ عورت کے بعد عورت کی شہری اور قانون حیثیت ختم ہوگئی ہے اور وہ اپنے خاوند کی شخصیت میں گم ہوگئی ہے ۔ “ ” مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اکثر خواتین ان مغربی خواتین کے ساتھ یک جہتی کے طور پر اپنے لئے بھی اس کم تر اور ثانوی حیثیت کو قبول کر لینی ہیں اور اپنا نام لینے کے بجائے اپنے آپ کو بیگم فلاں ظاہر کرتی ہیں یا اپنے نام کے ساتھ اپنے خاوند اور اس کے خاندان کا نام چسپاں کرلیتی ہیں اور اپنے نام کے ساتھ اپنے باپ اور اپنے خاندان کا نام لینا پسند نہیں کرتیں ‘ جیسا کہ اسلامی نظام زندگی کی خواہش اور مزاج ہے ۔ اس کو کہتے ہیں بھونڈی نقل یا اندھی تقلید ۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ جو خواتین مغربی عورت کی غلامی کی بھی نقالی کرتی ہیں ‘ ہمارے ہاں وہ عورت کی آزادی اور حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں ‘ اور عورتوں کو مردوں کے ساتھ تشبہ کرنے پر ابھارتی اور حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں ‘ حالانکہ درحقیقت وہ ان بہترین حقوق سے دستبردار ہو رہی ہوتی ہیں جو اسلام نے انہیں عطا کئے تھے حالانکہ اسلام نے ان کی قدر ومنزلت میں اضافہ کیا تھا اور ان حقوق میں انہیں مردوں کے برابر حیثیت دی تھی ۔ “ (صفحات ٥٩ تا ٦١) اب ہم اس سبق کی آخری آیت کی طرف آتے ہیں ۔ اس میں ان معاہدوں کے احکام بتائے گئے ہیں جو احکام میراث کے آنے سے پہلے ہوئے تھے ۔ اسلام کے نظام وراثت کو رشتہ داری اور قرابت کے اساس پر مرتب کیا گیا جبکہ دوستی اور ولایت کے یہ معاہدے قرابت داری کے دائرے سے باہر بھی ہوا کرتے تھے جیسا کہ تفصیلات آرہی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

امور غیر اختیاریہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی آرزو مت کرو معالم التنزیل صفحہ ٤٢٠: ج ١ میں حضرت مجاہد تابعی سے نقل کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم جہاد نہیں کرتیں اور ہم کو بھی میراث میں ان کے برابر حصہ ملتا ہے۔ اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ پھر بعض حضرات سے یوں نقل کیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے بیان فرماتے ہوئے (لِلذَّکَرِ مِثْلُ خِطِّ الْاُنثَیَیْنِ ) فرمایا تو عورتوں نے کہا کہ ہم زیادہ حصہ کی مستحق ہیں کیونکہ ہم ضعیف ہیں، اور مرد قوی ہیں اور انہیں روزی حاصل کرنے پر قدرت زیادہ ہے، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ جب (لِلذَّکَرِ مِثْلُ خِطِّ الْاُنثَیَیْنِ ) نازل ہوئی تو بعض مردوں نے کہا کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ نیکیوں کے اعتبار سے عورتوں سے بڑھ جائیں گے اور ہمارا ثواب عورتوں کے ثواب سے دو گنا ہوگا، جیسا کہ دنیا میں میراث کے حصہ میں زیادہ دیا گیا ہے، اس پر آیت (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا) نازل ہوئی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے حکیم ہے تشریعاً اور تکویناً اس کے سب کام اور سب فیصلے اور احکام حکمت کے مطابق ہیں، اس نے جس کو جس حال میں رکھا ہے اور جتنی قوت دی ہے اور جس کام کا اہل بنایا ہے۔ اور جس کام پر لگایا ہے یہ سب حکمت کے موافق ہے اگر سبھی کی ایک جنس ہوجاتی یا سب قوت میں برابر ہوتے تو دنیاوی معیشت و معاشرت میں بہت سا رخنہ پڑجاتا۔ رہا آخرت کا معاملہ اس کا تعلق اعمال اور اخلاص سے ہے۔ جو شخص مرد ہو یا عورت اپنی فطرت قوت و توانائی کے اعتبار سے اخلاص کے ساتھ عمل کرے گا، اس کا وہ اجر وثواب پائے گا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے صرف مرد ہونے کی وجہ سے یا عورت ہونے کی وجہ سے کسی کے ثواب میں اضافہ یا نقصان نہ ہوگا۔ یہ بات کہ اللہ نے جس کو جو فضیلت دی ہے دوسرا اس کی آززو نہ کرے اس کا تعلق امور غیر اختیار یہ سے ہے اور جو امور اختیار یہ ہیں اس میں محنت کوشش کر کے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، البتہ حسد نہ ہو۔ ریا کاری نہ ہو، اعجاب نفس نہ ہو، اپنی تعریف کرانا مقصود نہ ہو۔ آپس میں نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے (فَاسْتَبِقوُا الْخَیْرَاتِ ) اور (سَابِقُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِکُمْ ) فرمایا ہے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس شخص میں دو خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اسے شاکر صابر لکھ دیں گے۔ (١) جس نے اپنے دین میں اپنے سے اوپر کو دیکھا اور اس نے اس کی اقتداء کی (٢) جس نے اپنی دنیا میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھا اور اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ نے مجھے اس سے زیادہ دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو شاکر صابر لکھ دیں گے اور جس نے اپنے دین میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھا اور دنیا میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھا اور اس پر رنج کیا (کہ مجھے تو اس قدر مال نہ ملا) تو اللہ تعالیٰ اسے شاکر و صابر نہ لکھیں گے، (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٤٨) آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک شخص کو اللہ نے مال و علم دیا۔ وہ مال کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے اور مال میں جو حقوق ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ادا کرتا ہے تو (مالی اعتبار سے) یہ شخص سب سے افضل ہے اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا اور مال نہیں دیا لیکن اس کی نیت سچی ہے وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح خرچ کرتا، تو ان دونوں شخصوں کا اجر برابر ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح از ترمذی صفحہ ٤٥١) جن کمالات کے حاصل کرنے میں عملی کوشش کو دخل نہیں ان کی تمنا نہ کرے اور جو کام کرسکتا ہے ان میں محنت کوشش کر کے آگے بڑھے۔ پھر فرمایا (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا) مردوں کے لیے ان کے عمل کا حصہ ہے جو انہوں نے کمایا (وَ للنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ) اور عورتوں کے لیے ان کے عمل کا حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، مرد ہو یا عورت ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ثواب ملے گا جیسے مردوں کو ایک نیکی کا کم ازکم دس گنا ثواب ملے گا ایسے ہی عورتیں بھی اسی قدر ثواب کی مستحق ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ سے فضل کا سوال کرنے کا حکم فرمایا (وَسْءَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ) لہٰذا عمل بھی کرتے رہیں اور اس کے فضل کا سوال بھی کرتے رہیں۔ عمل کی توفیق، شکر کی توفیق، عمل کو قبول فرمانا، مزید توفیق دینا یہ سب اللہ کا فضل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25 بارہواں حکم رعیت (جن وارثوں کے حصے زیادہ ہیں ان کو حصہ پورا پورا دو اور اپنے حق سے زیادہ لینے کی خواہش نہ کرو) یہاں تفضیل سے میراث کے حصوں میں تفضیل مراد ہے۔ بقرینۃ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا الخ ورثاء کے حصے کم وبیش مقرر کیے گئے ہیں کسی کا حصہ زیادہ ہے اور کسی کا کم اس لیے حکم دیا گیا کہ کسی کا حق مار لینا اور اس کے حصہ میں کمی کرنا تو درکنار یہ تو صریح ظلم ہے تم اپنے حصہ سے زیادہ لینے کی خواہش بھی نہ کرو۔ پہلے فرمایا کہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ اب فرمایا کہ باطل طریقہ سے مال کھانے کا خیال بھی دل میں مت لاؤ۔ وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ہر انسان کے اپنے اپنے وارث ہوتے ہیں اس لیے ہر ایک کو میراث سے صرف اپنا حصہ ہی لینا چاہئے اور دوسرے کا حق لینے کی تمنا اور آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ بین تعالیٰ ان لکل انسان ورثۃ وموالی فلینقسم کہ واحد بما قسم اللہ لہ من المیراث و لا یتمن مال غیرہ (قرطبی ج 5 ص 165) بعض مفسرین کا قول ہے کہ جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے سے موالات کا عقد کرلیتا تھا اور ان میں یہ بات طے پاتی تھی کہ ایک سے لڑائی دوسرے سے لڑائی اور ایک سے صلح دوسرے سے صلح شمار ہوگی اور دونوں ایک دوسرے کا تاوان ادا کریں گے اور دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اس طرح مولی موالات کو میراث سے چھٹا حصہ ملتا تھا ابتداء اسلام میں بھی اس پر عمل کرنے کا حکم بحال رہا چناچہ وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیْبَھُم میں یہی حکم مذکور ہے پھر ِیہ حکم اسی آیت کے پہلے حصے یعنی وَ لِکُلٍ جَعَلْنَا مَوَالِیَ اور دوسری آیات میراث سے منسوخ ہوگیا (من الکبیر وغیرہ) لیکن حضرت ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے اصل بات یوں ہے کہ ہجرت کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو اخوت (بھائی چارہ) قائم کی تھی اس کی وجہ سے ہر مہاجر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا تھا اور انصاری کے رشتہ دار وارث نہیں ہوتے تھے۔ جب یہ آیت وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ نازل ہوئی تو وہ حکم منسوخ ہوگیا اس کے بعد وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیبَہُمْ سے حلفاء موالی یعنی ان لوگوں کا حصہ ادا کرنے کا حکم دیا جن سے باہمی تعاون اور نصرت کا عہد باندھا گیا ہو ان لوگوں کے حصہ سے ان کی خیرخواہی، انہیں آرام پہنچانا اور حسب معاہدہ ان سے تعاون اور بذریعہ وصیت ان کی مالی امداد وغیرہ مراد ہے وفی روایۃ عن ابن عباس (رض) عنھما اخرجھا البخاری وابو داود والنسائی وجماعۃ انہ قال فی الایۃ کان المہاجرون لما قدمو المدینۃ یرث لمھاجر الانصاریٰ دون ذوی رحمہ للاخوۃ التی اخی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بینھم فنزلت (ولکل جعلنا موالی) نسخت ثم قال (وَالَّذِیْنَ عَاقَدَتْ اَیْمَانَکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصیْبَھُمْ ) من النصر والوفاۃ والنصیحۃ و قد ذھب المیراث ویوصی لہ وروی عن مجاھد مثلہ (روح ج 5 ص 23 کذا فی القرطبی ج 5 ص 16505) اس طرح آیت کے دوسرے حصہ کو پہلے حصہ سے منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے بلکہ آیت کے دونوں حصے اپنی جگہ محکم اور برقرار ہیں۔ حضرت شیخ (رح) بھی اسی توجیہہ کو پسند فرماتے تھے آپ فرماتے تھے اگر ایک آیت کے دو معنی ہوسکیں ایک معنی کے اعتبار سے آیت منسوخ ہوا اور دوسرے کے اعتبار سے غیر منسوخ تو آیت کو اسی معنی پر محمول کیا جائے جس پر وہ منسوخ نہ ہو اور اس معنی کو معنی ابقائی کہتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور وہ امور جن میں ہم نے تم کو آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی ہے اور ان امور میں سے کسی امر کی ہوس اور حرص نہ کیا کرو۔ مردوں کے لئے ان کی استعداد اور اعمال کے موافق حصہ ہے۔ اور عورتوں کے لئے ان کی استعداد اور اعمال کے موافق حصہ ہے اور دیکھو ! اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیزکو خوب جانتا ہے۔ (تیسیر) شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں کا ذکر کرتا ہے۔ عورتوں کا نام نہیں لیتا میراث میں مرد کو دوہرا اور عورت کو اکہرا حصہ ملتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرد کو دوہرا حصہ ہے گواہی میں بھی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ عمل میں بھی ہمارا یہ حال ہے کہ کوئی نیکی کریں تو ہم کو آدھا ثواب ملے۔ اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں عورتوں نے حضرت سے پوچھا کہ کیا سبب ہے حق تعالیٰ ہر جگہ مردوں پر حکم فرماتا ہے۔ عورتوں کا نام نہیں لیتا اور میراث میں مرد کو حصہ دوہرا ٹھہرایا اس پر یہ آیت اتری۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ خدا کی مخلوق میں ایک کو ایک پر فضیلت و برتری دیکھنے میں آتی ہے خواہ وہ فضائل کیسی ہوں۔ خواہ وہ دہبی ہوں اللہ تعالیٰ کا یہی طریقہ جاری ہے اور اس کی مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ نظام عالم کو اس طرح قائم رکھے خواہ اس کمی بیشی کی مصلحت ہم کو معلوم ہو یا نہ ہو۔ مثلاً مرد کو ایک خلقی اور فطری برتری ہے اور یہ برتری ایک ایسی چیز ہے کہ باوجود ترقی کے عورت مرد کی جگہ حاصل نہیں کرسکی جو کمزوریاں قدرت کی طرف سے لے کر آئی ہے وہ موجود ہیں۔ مرد ایک پیدائشی برتری لے کر آیا ہے اسی برتری کی بنا پر اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں ان ہی ذمہ داریوں کی رعایت سے اس کا حصہ عورت سے دگنا ہے۔ عورت کا ضعف اور مرد کی اصابت رائے کے لحاظ سے اس کی شہادت کو قوی رکھا گیا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن میں کسب کو دخل نہیں۔ اب کوئی عورت یہ ہوس کرے کہ میں مرد بن جائوں تو قوی رکھا گیا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن میں کسب کو دخل نہیں۔ اب کوئی عورت یہ ہوس کرے کہ میں مرد بن جائوں تو یہ ہوس ممنوع ہے۔ اس لئے ہم نے اکتساب کا استعارہ تبعیہ کے طور پر استعداد کیا ہے کہ ہر ایک مرد و عورت کو اس کی استعداد کے لحاظ سے حصہ ملا ہے خواہ وہ میراث کا حصہ ہو یا شہادت و گواہی دینے کا حصہ ہو اور جو لوگ اکتساب کا ترجمہ اعمال سے کرتے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے اعمال کا حصہ آخرت میں ان کے لئے ہے اور عورتوں کے اعمال کا حصہ آخرت میں ان کے لئے ہے بہرحال ! آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر قسم کے فضائل کو شامل ہے۔ یہ فضیلت قویٰ کے اعتبار سے ہو یا جاہ اور مال کے اعتبار سے ہو۔ عزت و آبرو کے اعتبار سے ہو یا اعمال کے اعتبار سے ہو۔ پھر یہ فضیلت خواہ کسی ہو یا دہبی ہو دینی ہو یا دنیاوی ہو البتہ اگر کیسی چیزیں ہوں تو ان میں جدوجہد کی اجازت ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرنے کا حکم ہے اور یہ بات اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ کس شخص کو کس چیز کا مستحق سمجھتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز سے واقف ہے اور ہر شخص کی اہلیت اور صلاحیت سے باخبر ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے الفاظ یہ ہیں کہ کوئی شخص اس امر کی تمنا نہ کرے کہ کاش اس۔۔۔ کے پاس فلاں شخص کی طرح مال ہوتا یا فلاں شخص کی طرح میرے ہاں اولاد ہوتی۔ یہی قول ہے حسن کا ابن سیرین کا عطا اور ضحاک کا۔ ابن مسعود (رض) نے ترمذی اور ابن مردویہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس سے فضل کی دعا کرنا بہت پسند ہے۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ اللہ کی نگاہ میں وہ بندہ پسندیدہ ہے جو کشادگی کو دوست رکھتا ہے… یعنی تنگی اور مصیبت کو رفع کرنے کی دعا کرتا ہے۔ کشادگی کا انتظار کرنا افضل عبادت ہے اور صحیح حدیث میں آتا ہے کہ دو شخصوں پر غبطہ کرنا جائز ہے ایک وہ کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہو اور وہ ہر وقت قرآن کریم کی خدمت میں لگا رہتا ہو رات اور دن اس کا مشغلہ قرآن کریم ہو اور دوسرا وہ شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور رات و دن اس کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہو۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خادم قرآن اور سخی کی حالت کو دیکھ کر یہ کہنا جائز ہے کہ اگر مجھے بھی اس کی مثل نعمت مل جاتی تو میں بھی یہی کرتا۔ اور یہ ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ کسی اعمال میں جدوجہد اور اللہ تعالیٰ … کا فضل طلب کرنا جائز ہے۔ یعنی اعمال خیر کی کوشش کرے اور خدا سے اس کا فضل طلب کرے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ اس حدیث میں زیادہ سے زیادہ ترغیب ہے۔ نعمت کی مثل پر تمنا کرنے کی اور آیت میں نہی ہے۔ لیکن نعمت پر تمنا کرنے کی نہیں۔ بہرحال ! فضائل کسبیہ میں اگر کوئی شخص کوشش اور محنت کرکے زیادہ ثواب حاصل کرے تو آیت اس کے منافی نہیں اور اگر آیت سے صرف فضائل خصوصی اور فطری کے لئے تمنا کی ممانعت مراد لی جائے تو پھر کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ ابن عباس اور عطا نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کو تمنا کرنے سے روکنے کے بارے میں ہے جو یوں کہا کرتے تھے کہ فلاں کے پاس یہ ہے اور فلاں کے پاس یہ ہے اور ان عورتوں کے بارے میں ہے جو یوں کہا کرتی تھیں کہ اگر ہم مرد ہوتے تو ہم بھی جہاد کیا کرتے۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! اس آیت میں میراث کی تقسیم پر ایک شبہ کا جواب تھا اب آگے کی آیت میں پھر میراث کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)