Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 41

سورة النساء

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ؃۴۱﴾

So how [will it be] when We bring from every nation a witness and we bring you, [O Muhammad] against these [people] as a witness?

پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر ا‘مّت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو اُن لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How (will it be) then, when We bring from each nation a witness and We bring you (O Muhammad) as a witness against these people! Allah describes the horrors, hardships and difficulties of the Day of Resurrection, saying, how would it be on that Day when there will be a witness from every nation, meaning the Prophets, just as Allah said; وَأَشْرَقَتِ الاٌّرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَـبُ وَجِـىءَ بِالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَاءِ And the earth will shine with the light of its Lord, and the Book will be placed (open); and the Prophets and the witnesses will be brought forward. (39:69) and, وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِى كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ أَنفُسِهِمْ And (remember) the Day when We shall raise up from every nation a witness against them from amongst themselves. (16:89) Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Mas`ud said, "The Messenger of Allah said to me, `Recite to me.' I said, `O Messenger of Allah! Should I recite (the Qur'an) to you, while it was revealed to you.' He said, `Yes, for I like to hear it from other people.' I recited Surah An-Nisa' until I reached this Ayah, فَكَيْفَ إِذَا جِيْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِيْنَا بِكَ عَلَى هَـوُلاء شَهِيدًا How (will it be) then, when We bring from each nation a witness and We bring you (O Muhammad) as a witness against these people! He then said, `Stop now.' I found that his eyes were tearful." Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یا اللہ ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور ؟ پھر ان سب پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ یا اللہ سچے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کردینے والا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس اب کافی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے، جو سب کچھ آنکوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ ' شہید ' (گواہ) کے معنی ' حاضر ناظر ' کے کرتے ہیں اور یوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ' حاضر ناظر ' باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے، جو شرک ہے، کیونکہ حاضر ناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہوسکتا ہے ؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے (شہدآء علی الناس) (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑیگا۔ بہرحال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بےبنیاد ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] سابقہ امتوں پر آپ کی گواہی :۔ اس آیت میں میدان حشر کی کیفیت اور اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس وقت ہر امت میں سے ایک گواہ لایا جائے گا جو اس امت کا نبی ہوگا اور وہ یہ گواہی دے گا کہ یا اللہ ! میں نے تیرا پیغام اور تیرے احکام امت کو من و عن پہنچا دیئے تھے اور فلاں فلاں لوگوں نے تو انہیں تسلیم کرلیا تھا اور فلاں فلاں نے نافرمانی اور کفر کیا تھا لیکن اس امت کے نافرمان لوگ صاف مکر جائیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہ تھا۔ بالفاظ دیگر یہ نافرمان لوگ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آئیں گے اور اپنے نبی کی شہادت کو جھٹلا کر اسے مشکوک بنا دینے کی کوشش کریں گے، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لایا جائے گا تو آپ ان انبیاء کی شہادت کی تصدیق کریں گے۔ اس وقت بھی نافرمان لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو اس وقت موجود ہی نہ تھے یہ کیسے انبیاء کی تصدیق کرسکتے ہیں ؟ اس وقت آپ فرمائیں گے کہ میں تو منزل من اللہ وحی کی رو سے دنیا میں بھی سابقہ انبیاء کی تصدیق کرتا رہا پھر آج کیسے تصدیق نہ کروں گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا کہ & مجھے کچھ قرآن سناؤ & میں نے عرض کی & بھلا میں آپ کو کیا سناؤں ؟ آپ ہی پر تو قرآن اترا ہے۔ & آپ نے فرمایا & ٹھیک ہے مگر مجھے دوسرے سے سننا اچھا لگتا ہے۔ & ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ & پھر میں نے سورة نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41؀ڲ) 4 ۔ النسآء :41) تو آپ نے فرمایا :& بس کرو میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ & (بخاری، کتاب التفسیر) اس ایت سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ سابقہ تمام انبیاء پر شہادت دینے کا شرف آپ کو حاصل ہوگا۔ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) جب سورة نساء پڑھتے پڑھتے اس آیت پر پہنچے، تو فرمایا کہ تشکر و امتنان اور مسرت و انبساط کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے یعنی ایک طرف تو اللہ کی عطا کردہ فضیلت پر انتہائی خوشی کی وجہ سے، دوسرے اللہ کی اس عطا پر انتہائی شکر گزاری کے طور پر آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیتوں میں قیامت کے ظلم کی نفی اور کئی گنا اجر کا وعدہ فرمایا، اب یہاں بیان فرمایا جا رہا ہے کہ اچھا یا برا بدلہ پیغمبروں یا ان لوگوں کی گواہی سے ملے گا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام اپنی مخلوق تک پہنچایا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت پر اور پہلی امتوں پر دین پہنچانے کی گواہی دیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the verse (41) beginning with: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ , there is an invi¬tation to visualize, in range and depth, the gravity of what will happen on the site of the Last Day. Also intended is an admonition to the disbelievers from the tribe of Quraysh. Their anxiety would know no bounds when every prophet of every community would appear as a witness to the good or bad deeds of his respective community on the Last Day - and Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) too, the last of the prophets, will appear as a witness over his community - and he would give witness in the Divine Court particularly about such disbelievers and polytheists declaring that these people saw open signs and miracles, yet they belied and rejected them and ultimately refused to believe in &The Divinity and my Prophethood&. According to a narration in al-Bukhari, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) to recite the Qur&an to him. Sayyidna ` Abdullah (رض) said : &You want to hear it from me, although the Qur&an was revealed to you?& He (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Yes. Recite.& Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) says: &I started reciting Suratun-Nisa& and when I reached the verse: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ (41), he said: |"Enough for now;|" and when I raised my eyes to look at him, I saw tears trickling from his blessed eyes.& ` Allama al-Qastalani (رح) writes: This verse caused a full view of the Akhirah to be present before his eyes and he thought about the people of his community who were short on or lacking in good deeds and that was why tears started flowing from his eyes. Special Note: Some commentators, have said that the word, هَـٰؤُلَاءِ (them), in this verse (41) points to the disbelievers and hypocrites present during the age of prophethood. Some others say that it refers to the entire community right through the Day of Doom. This is so because, as indi¬cated in some hadith narrations, the deeds of his community are being continuously presented before him. Nevertheless, from here we know that the prophets of past communities will appear as witnesses over their respective communities and that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) too will testify to the deeds of his community. This textual style of the noble Qur&an tells us that there is to be no prophet after him who could appear as a witness over a possible community of his - otherwise, the Qur&an would have mentioned him and his community and the testi¬mony he would give. Seen from this angle, this verse is a proof of the finality of prophethood as well.

فکیف اذا جئنا من کل امة سے میدان آخرت کے استحضار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کفار قریش کی توبیخ بھی مقصود ہے۔ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جب میدان حشر میں ہر ہر امت کا نبی اپنی امت کے نیک و بد اعمال پر بطور گواہ پیش ہوگا اور آپ بھی اپنی امت پر گواہ بن کر حاضر ہوں گے اور بطور خاص ان کفار و مشرکین کے متعلق خدائی عدالت میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی تکذیب کی اور آپ کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان نہ لائے۔ بخاری شریف میں روایت ہے حضو راقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن مسعود سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ، حضرت عبداللہ نے عرض کیا آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن آپ ہی پر نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا ہاں پڑھو، میں نے سورة نساء کی تلاوت شروع کردی اور جب فکیف اذا جئنا من کل امة بشھید پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اب بس کرو اور جب میں نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ علامہ قسطلانی لکھتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت سے آخرت کا منظر مستحضر ہوگیا اور اپنی امت کے کوتاہ عمل اور بےعمل لوگوں کی بابت خیال آیا اس لئے آنسو مبارک جاری ہوگئے۔ فائدہ :۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ھولاء کا اشارہ زمانہ رسالت میں موجود کفار و منافقین کی طرف ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ قیامت تک کی پوری امت کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہا آپ کی امت کے اعمال آپ پر پیش ہوتے رہتے ہیں۔ بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کے انبیاء اپنی اپنی امت پر بطور گواہ پیش ہوں گے، اور آپ بھی اپنی امت کے اعمال کی گواہی دیں گے ........ قرآن کریم کے اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اپنی کسی امت کے متعلق گواہی دے، ورنہ قرآن کریم میں اس کا اور اس کی شہادت کا بھی ذکر ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ آیت ختم نبوت کی دلیل بھی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۝ ٤١ۭ۬ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) کفار اس وقت کیا کریں گے جب کہ ہر قوم پر ان کا نبی احکام خداوندی پہنچانے کی گواہی دے گا اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی گواہی دیں گے اور تصدیق کریں گے کیوں کہ دیگر انبیاء کرام کی قومیں جب ان کو جھٹلایں گی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ ان انبیاء کی نبوت کی بھی تصدیق کرے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ ) یعنی اس نبی اور رسول کو گواہ بنا کر کھڑا کریں گے جس نے اس امت کو دعوت پہنچائی ہوگی۔ (وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو کھڑے ہو کر کہنا ہوگا کہ اے اللہ ! میں نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ ہماری عدالتی اصطلاح میں اسے استغاثہ کا گواہ (prosecution witness) کہا جاتا ہے۔ گویا عدالت خداوندی میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استغاثہ کے گواہ کی حیثیت سے پیش ہو کر کہیں گے کہ اے اللہ ‘ تیرا پیغام جو مجھ تک پہنچا تھا میں نے انہیں پہنچادیا تھا ‘ اب یہ خود ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چناچہ اپنی ہی قوم کے خلاف گواہی آگئی نا ؟ یہاں الفاظ نوٹ کر لیجیے : عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا اور عَلٰی ہمیشہ مخالفت کے لیے آتا ہے۔ ہم تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے شفاعت کی امید میں ہیں اور یہاں ہمارے خلاف مقدمہ قائم ہونے چلا ہے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دربار خداوندی میں ہمارے خلاف گواہی دیں گے کہ اے اللہ ! میں نے تیرا دین ان کے سپرد کیا تھا ‘ اب اسے دنیا میں پھیلانا ان کا کام تھا ‘ لیکن انہوں نے خود دین کو چھوڑ دیا۔ سورة الفرقان میں الفاظ آئے ہیں : (وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں گے کہ پروردگار ‘ میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا “۔ سورة النساء کی آیت زیر مطالعہ کے بارے میں ایک واقعہ بھی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ ! انہوں نے عرض کیا حضور آپ کو سناؤں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو نازل ہوا ہے۔ فرمایا : ہاں ‘ لیکن مجھے کسی دوسرے سے سن کر کچھ اور حظ حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ (رض) نے سورة النساء پڑھنی شروع کی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ بھی سن رہے تھے ‘ باقی اور صحابہ (رض) ‘ بھی ہوں گے اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ‘ گردن جھکائے پڑھتے جا رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حَسْبُکَ ‘ حَسْبُکَ (بس کرو ‘ بس کرو ! ) عبداللہ بن مسعود (رض) نے سر اٹھا کر دیکھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس وجہ سے کہ مجھے اپنی قوم کے خلاف گواہی دینی ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. The Prophet of each age will stand as a witness before God against his people; he will testify that he conveyed to them the true way of life, and showed them the right outlook and the fundamentals of moral conduct revealed to him by God. The testimony of the Prophet Muhammad (peace be on him) will be to the same effect, and the Qur'an indicates that he will stand as a witness to the period beginning with his advent as a Prophet right through to the Day of Judgement. (See Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 3, n. 69.)

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :64 یعنی ہر دور کا پیغمبر اپنے دور کے لوگوں پر اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا کہ زندگی کا وہ سیدھا راستہ اور فکر و عمل کا وہ صحیح طریق ، جس کی تعلیم آپ نے مجھے دی تھی ، اسے میں نے ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا ۔ پھر یہی شہادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور کے لوگوں پر دیں گے ، اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سے قیامت تک ہے ۔ ( آل عمران ، حاشیہ نمبر ٦۹ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: تمام انبیاء کرام قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں کے اچھے برے اعمال پر گواہی دیں گے اور آنحضرتﷺ کو اپنی امت کے لوگوں پر گواہ بناکر پیش کیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(41 ۔ 42) ۔ جس طرح اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی ایک حالت کو بیان فرمایا ہے اسی طرح اس آیت میں ایک دوسری حالت قیامت کے دن کی بیان فرمائی ہے۔ تاکہ سمجھانے بجھانے سے ایک ذراہ برابر جن کو ایمان نصیب ہوا ہے جس طرح ان کی نجات کی حالت معلوم ہوئی ہے۔ اسی طرح جو لوگ باوجود سمجھانے کے حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر اب تک صاحب شریعت انبیاء کو جھٹلاتے رہے ہیں ان کی حالت بھی معلوم ہوجائے۔ بخاری، ابن ماجہ، نسائی، مسند امام احمد بن حنبل میں اس حالت کا جو ذکر ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حساب کے وقت حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ تک کے منکر لوگوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ باوجود انبیاء کی ہدایتوں کے تم لوگ منکر کیوں رہے یہ لوگ انبیاء کی ہدایت کا انکار کر کے صاف مکر جائیں گے۔ اور کہیں گے یاللہ ہم کو کسی نے ہدایت نہیں کی اس پر سب انبیاء کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر الزماں نبی ہیں ان کی شریعت میں ہر زمانہ کے نبی کی ہدایات کرنے کی تصدیق موجود ہے۔ پھر آنحضرت اور آپ کی امت کے لوگ حاضر کئے جائیں گے۔ اور ان انبیاء کے قول کی گواہی ادا کریں گے ٢۔ اس پر نادم ہو کر منکر لوگ جانوروں کو خاک ہوتا ہوا دیکھ کر اپنے خاک ہوجانے کی آرزو کریں گے۔ بعض آثار ١ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سوا اس گواہی کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی نیکیوں کی گواہی قیامت تک کی ادا فرمائیں گے۔ اسی واسطے امت کے اعمال آپ کے روبرو پیش ہوتے رہتے ہیں تاکہ گواہی کے لئے آپ کو امت کے اعمال کی اطلاع رہے چناچہ چند روایتوں میں آیا ہے کہ جمعہ کے دن تم لوگ درود زیادہ پڑھا کرو کہ اس دن تمہارے درود میرے روبرو پیش کئے جاتے ہیں اگرچہ ان رایتوں کی سند میں تردد ہے لیکن بعض روایتوں کو بعض سے ایک طرح کی قوت ہوجاتی ہے ٢ خصوصاً مسند امام احمد ابو داؤد اور نسائی وغیرہ ٣ کی اوس بن اوس کی حدیث سے جس کو حاکم نے صحیح کہا ہے ٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 41-42 لغات القرآن : جئنا، ہم لے آئے۔ امۃ، جماعت، گروہ۔ شھید، گواہ۔ یود، پسند کرتا ہے۔ عصوا، انہوں نے نافرمانی کی۔ لوتسوی، کاش برابر ہوجائے۔ حدیث، بات۔ تشریح : یہ بات گزشتہ آیات میں کہہ دی گئی تھی کہ کنجوسی کرنے والا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ وہ شیطان کی باتوں پر چلتا ہے۔ اس طرح وہ کفر سے قریب ہے۔ آیات 41-42 میں قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے کہ میدان محشر میں باری باری ہر نبی کی امت آئے گی۔ وہ نبی بتائیں گے کہ انہوں نے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی لیکن بہت سے لوگ کافر رہے۔ وہ ان کافروں کی نشان دہی کریں گے۔ سب سے آخر میں حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں گے اور اپنی امت کے اعمال و افعال پر گواہی دیں گے کہ کس نے انہیں مانا اور کس نے کہاں تک نہیں مانا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت آپ کی بعثت سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسان ہیں۔ اس وقت وہ لوگ جو کافر رہے یا کفر سے قریب رہے وہ اپنے سامنے دوزخ دیکھیں گے۔ اس سے بچنے کے لئے ہر ممکن جتن کریں گے اور تمام جتن ناکام ہوجائیں گے۔ پھر وہ یہی تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ مگر یہ تمنا پوری نہ ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے وہ اپنی کوئی حرکت چھپا نہ سکیں گے۔ آیت نمبر 41 ختم نبوت پر ایک دلیل بھی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ حضور اپنی امت پر بھی اور تمام امتوں پر بھی گواہی دیں گے۔ شاہد اور شہید میں یہ فرق ہے کہ شاہد صرف ایک زمانہ کے لئے ہے لیکن شہید تمام زمانوں کے لئے۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید (گواہ) بھی ہیں اور شاہد بھی۔ اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ کی حیثیت شہید کی نہ ہوتی۔ اور قرآن میں لفظ شہید آیا ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت کی بہت بڑی دلیل ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جن لوگوں نے خدائی احکام دنیا میں نہ مانے ہوں گے ان کے مقدمہ کی پیشی کے وقت بطور سرکاری گواہ کے انبیاء علہیم السلام کے اظہارات سنے جائیں گے جو جو معاملات انبیاء انبیاء کی موجودگی میں پیش آئے تھے سب ظاہر کردیں گے اس شہادت کے بعد ان مخالفین پر جرم ثابت ہو کر سزادی جائے گی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے دن ظالم اپنا انجام دیکھ کر اپنے اعمال کا انکار کرتے ہوئے یہاں تک کہیں گے کہ دنیا میں ہمیں کسی نبی اور مبلغ نے کچھ سمجھایا ہی نہیں تھا۔ اے رب ! ورنہ ہم تیری نافرمانی نہ کرتے۔ اس دن خدا کے باغی یہ آرزو کریں گے کاش ! ہم زمین میں دھنس جائیں اور ہم پر زمین برابر کردی جائے۔ خواہش کے باوجود نہ چھپ سکیں گے اور نہ ہی وہ کوئی بات چھپا سکیں گے۔ محشر کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اس میں کئی مراحل ہوں گے ہر مرحلہ دنیا کے سینکڑوں سالوں کے برابر ہوگا۔ ان مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر اس بات کا انکار کریں گے کہ الٰہی ہم نے تیری ذات کا نہ انکار کیا اور نہ ہی کسی کو تیرا شریک ٹھہرایا۔ ہمارے ذمہ جو اعمال لگائے گئے ہیں ہم نے یہ ہرگز نہیں کیے۔ انبیاء کے بارے میں کہیں گے کہ انہوں نے ہمیں ایک بار بھی نہ سمجھایا۔ اس دروغ گوئی کی وجہ سے ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔ اب ان کے اعضاء گواہی دیں گے۔ اس کے بعد اور شہادتیں پیش کی جائیں گی جن میں سب سے بڑی اور معتبر شہادت انبیاء کی ہوگی۔ وہ عرض کریں گے اے رب ذوالجلال ! ہم نے تیرا پیغام مِن و عَن پہنچا دیا تھا لیکن مجرم پھر بھی نہیں مانیں گے۔ اس پر سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ اے رب کریم ! انبیاء کرام نے تیرا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقے سے پہنچایا تھا۔ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لیے فرمایا میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں ؟ حالانکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں ! میں نے سورة النساء کی تلاوت شروع کی جب اس آیت کریمہ پر پہنچا (پس کیا حالت ہوگی جب ہر امت سے گواہ لائیں گے اور ان سب پر تمہیں گواہ بنا کر لائیں گے۔ ) آپ نے فرمایا رک جائیے ! میں نے دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القرآن ] اس شہادت کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے پوچھا :” أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ “ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ تو لوگوں نے کہا کیوں نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اللہ کے احکام پہنچا دئیے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا : ” أَللّٰھُمَّ اشْھَدْ أَللّٰھُمَّ اشْھَدْ “ اے اللہ ! گواہ رہنا ‘ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی ] اُمت محمدیہ کی گواہی : (عَنْ أَبِيْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِيِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَآأَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روز قیامت نوح (علیہ السلام) کو پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا یا تھا ؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا انہوں نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا ؟ وہ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی امّت۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے) ۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر امت کا رسول اس پر گواہ ہوگا اور حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت محمدیہ اور پہلے انبیاء کے بارے میں گواہی دیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن کافر اور رسول کا نافرمان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی آرزو کرے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن ظالم کی آرزوئیں : ١۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی خواہش۔ (النساء : ٤٢، النباء : ٤٠) ٢۔ دنیا میں واپس آنے کی آرزو۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٣۔ دنیا میں لوٹ کر نیک عمل کرنے کی تمنا۔ (السجدۃ : ١٢) ٥۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹتے ہوئے کہے گا ‘ کاش میں رسول کی اتباع کرتا۔ (الفرقان : ٢٧) ٦۔ کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (الفرقان : ٢٨) ٧۔ جہنم کے داروغہ سے درخواست کرنا۔ (الزخرف : ٧٧) ٨۔ اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو دوگنی سزا دینے کا مطالبہ کرنا۔ (الاحزاب : ٦٨) ٩۔ اللہ تعالیٰ سے مریدوں کا مرشدوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا تقاضا کرنا۔ (السجدۃ : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولاء شھیدا (٤١) یومئذ یود الذین کفروا وعصوا الرسول لو تسوی بھم الارض ولا یکتمون اللہ حدیثا “۔ (٤٢) (٤ : ٤١۔ ٤٢) ” پھر سوچو کہ اس وقت یہ لوگ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی آپ کو اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے ۔ اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے ‘ تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے ۔ پہلی آیت میں بطور تمہید کہا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ‘ اس لئے قیامت میں مکمل عدالت ہوگی اور اللہ کے ترازو میں بال برابر بھی کھوٹ نہ ہوگا ۔ اور یہ کہ اللہ حسنات کو کئی گنا کر دے گا اور اس پر مستزاد اللہ کی جانب سے اہل ایمان پر فضل وکرم ہوگا ۔ اللہ کی رحمت ہوگی مگر ان لوگوں پر جو رحمت کے مستحق ہوں گے اور وہاں اللہ کا فضل بھی ہوگا مگر صرف ان لوگوں پر ہوگا جو اپنے ایمان کے ذریعے اللہ کے فضل کے امیدوار ہوں گے ۔ مگر ان دوسرے لوگوں کا حال کیا ہوگا جنہوں نے ایمان کی پونجی پیش نہیں کی اور انہوں نے عمل کا سرمایہ جمع نہیں کیا ۔ انہوں کفر اور بداعمالیاں جمع کیں ۔ اس دن پھر ان کا حال کیا ہوگا ؟ اس وقت جب ہم ہر قوم سے اس قوم کے خلاف ایک گواہ لائیں گے اور اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں امت مسلمہ پر گواہ لائیں گے ۔ یہاں آکر قیامت کا منظر صاف صاف آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ یہ ایک وسیع میدان ہے ۔ تمام امتیں جگہ جگہ موجود ہیں اور ہر امت کے اعمال پر ایک گواہ پیش ہوگا ۔ یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ‘ فخر کیا ‘ غرور کیا ‘ بخل کیا ‘ بخل کے داعی رہے ۔ اللہ کے فضل کو چھپاتے رہے اور دکھاوا کرتے رہے اور کوئی کام رضائے الہی کے لئے نہ کرتے تھے ۔ یہ منظر کشی ایسی ہے کہ الفاظ کے اندر سے قریب سے قریب ہے کہ ہم انہیں دیکھ لیں ۔ وہ میدان میں کھڑے ہیں ‘ ہر امت کے رسول کو شہادت کے لئے بلایا جاتا ہے اور ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بلایا جاتا ہے اور یہ لوگ اپنے پورے کفر کے ساتھ ‘ اپنے تمام پوشیدہ اور ظاہری اعمال کے ساتھ ‘ اپنے پورے تکبر اور غرور کے ساتھ ‘ اپنی پوری کنجوسی اور دعوت بخل کے ساتھ اپنے خالق کی درگاہ میں کھڑے ہوں گے ۔ اس رازق کی عدالت میں ہوں گے جس کے فضل کو انہوں نے چھپایا اور اس کے دیئے ہوئے سے خرچ نہ کیا ۔ اب ان کے سامنے وہ دن (قیامت) ہے جس پر ان کا یقین نہ تھا ۔ پھر اسی رسول کی موجودگی میں انصاف ہوگا جس کا انہوں نے انکار کیا تھا ‘ پھر ان کا کیا حال ہوگا ؟ بیشک یہ لوگ عظیم شرمندگی اور ذلت سے دو چار ہوں گے ۔ شرمندگی اور ندامت سے انکے سرجھکے ہوں گے وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے کیونکہ انکار سے انہیں فائدہ ہی کیا ہوگا ۔ قرآن کریم کی عبارت ان مضامین کو محض ظاہری انداز میں بیان نہیں کرتی بلکہ اسے ایک نفسیاتی تصویر کشی کے انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور ان لوگوں کے اوپر شرمندگی ‘ ذلت اور ندامت کے سائے صاف نظر آرہے ہیں ۔ ذرا الفاظ ملاحظہ کریں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن ہر امت کے ساتھ ایک گواہ ہوگا اس آیت میں میدان آخرت کا ایک منظر بتایا ہے کہ قیامت کے دن حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی اپنی امتوں کے ساتھ آئیں گے اور ہر نبی اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دے گا کہ یہ لوگ عقائد و اعمال کے لحاظ سے ایسے ایسے تھے ان لوگوں کی گواہیوں پر حضرت خاتم الانبیاء سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ یہ حضرات سچ فرما رہے ہیں اور ان کی گواہی صحیح ہے۔ سورة بقرہ میں (لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ حضرات انبیاء (علیہ السلام) کی امتیں جب منکر ہوجائیں گی کہ کسی نے ہم کو تبلیغ نہیں کی تو امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے حق میں گواہی دے گی کہ واقعی ان حضرات نے تبلیغ کی تھی۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ میری امت کی گواہی صحیح ہے اور یہ گواہی دینے کے لائق ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ میں نے عرض کیا کیا آپ کے سامنے تلاوت کروں حالانکہ آپ ہی پر تو نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا کہ ہاں ! میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کسی دوسرے سے سنوں اس پر میں نے سورة نساء پڑھنی شروع کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا (فَکَیْفَ اِذَاجِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ ) تو آپ نے فرمایا کہ بس کرو میں نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٦٥٩: ج ٢) یہ حدیث نقل کر کے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جب شاہد کا یہ حال ہے کہ اس شہادت کے استحضار سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو مشہود علیہ یعنی اس کا کیا حال ہوگا جس کے خلاف یہ گواہی ہوگی اور جسے یوم قیامت کے مصائب نے گھیر رکھا ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31 یہ ما قبل کی تخویف کا تکملہ ہے یعنی جب قیامت کے دن گذشتہ امتوں کے منکرین کے خلاف ان کے انبیاء (علیہم السلام) گواہی دے رہے ہوں گے اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے زمانہ کے ان مشرکین و کفار کے خلاف گواہی دیں گے اس وقت ان کا کیا حال ہوگا۔ اس وقت ان کی حالت ناگفتہ بہ ہوگی اور شدت ہول اور خوف عذاب کی وجہ سے وہ خواہش کریں گے کہ زمین میں سما جائیں جیسا کہ اگلی آیت میں مذکور ہے کیف یکون حالھم اذا جئنا یوم القیمۃ من کل امۃ من الامم وطائفۃ من الطوائف بشھید یشھد علیھم بما کانوا علیہ من فساد العقائد و قبائح الاعمال و نبیھم (روح ج 5 ص 34) ۔ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے لفظ شہید استعمال ہوا ہے جس سے اہل بدعت آپ کے ہر امتی کیساتھ حاضر و ناظر ہونے پر استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال صحیحہ نہیں کیونکہ شہید کے معنی یہاں رقیب اور نگہبان کے ہیں اور پھر یہ نگہبانی بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی سے مخصوص تھی جیسا کہ صحیح بخاری (ج 2 ص 665) میں ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائیگا تو میں اللہ تعالیٰ سے عرض کروں گا یہ تو میرے امتی ہیں اس پر مجھے جواب دیا جائیگا کہ آپ کے جو بعد ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ آپ کو معلوم نہیں تو :۔ فاقول کما قال العبد الصالح و کنت علیھم شھیداً ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (میں اس کے جواب میں وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کا نیک بندہ عیسیٰ (علیہ السلام) کہے گا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان پر نگران رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا) اس لیے اس آیت سے آپ کے ہر زمانہ میں ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے پر استدلال درست نہیں لفظ شہید کی پوری بحث سورة بقرہ رکوع 17 کی تفسیر میں آیت وَ یَکُوْنُ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً کے تحت گذر چکی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi